میں نے کبھی سوچا بھی نا تھا کہ ایسے محبت میں کھو جاؤں گی کہ جینا دو بھر ہو جائے گا۔ لیکن قسمت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ میں بھارت کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئی۔ جب میں تین سال کی تھی تو میری ماں دنیا سے رخصت ہو گئیں اور چھ سال کی عمر میں والد بھی اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی نشانی تھی۔ بابا جان نے اپنی وفات سے قبل تمام جائیداد، زمین اور باغ میرے نام کر دیے تھے۔ ماں باپ کے بعد میری نانی ہی میرا واحد سہارا بنیں۔ انہوں نے ہی مجھے پالا پوسا۔
ہمارا خاندان تو خاصا بڑا تھا، مگر سب کے سب پاکستان میں آباد تھے۔ میری ایک خالہ کراچی میں رہتی تھیں۔ خالو جان اور ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں وہیں مقیم تھے۔ خالہ کا انتقال ہو چکا تھا، لیکن خالو جان حیات تھے۔ ہمارے پاس اکثر خالہ زاد بھائی فراز کے خطوط آتے، جنہیں پڑھ کر نانی جان بہت خوش ہوتیں۔ وہ کہا کرتیں کہ میری مرحوم بیٹی کا بیٹا مجھے یاد کرتا ہے، تو دل کو راحت ملتی ہے۔ جب میں نانی کی طرف سے فراز کو جواب لکھنے لگی، تو اسے معلوم ہوا کہ میں بھی نانی کے پاس رہتی ہوں اور اپنی خالہ کی اکلوتی نشانی ہوں، تو وہ مجھے بھی الگ سے خط لکھنے لگا۔
اس کے خطوط پیار سے بھرے ہوتے تھے۔ وہ مجھے کبھی گڑیا کہہ کر پکارتا اور کبھی ننھی منی۔ ہماری عمروں میں کافی فرق تھا۔ میں سات برس کی تھی اور وہ انیس سال کا۔ اس کی شادی ہو چکی تھی۔ مجھے فراز کے خط کا بے چینی سے انتظار رہتا، کیونکہ اس کی تحریر میں میرے لیے صرف محبت، شفقت اور اپنائیت ہوتی تھی۔ جب اس کا خط آتا تو میں لفافہ چوم لیا کرتی، حالانکہ میں نے اسے کبھی دیکھا نہ تھا۔ وہ اکثر میری تصویر مانگتا، مگر میں بے بس تھی۔ ہمارا گاؤں بہت چھوٹا تھا، قریبی شہر بھی دور تھا، اور گھر سے باہر نکلنے کی سخت ممانعت تھی۔ نانی مجھے سخت نگرانی میں رکھتی تھیں۔
ایک دن میرے ذہن میں شرارت آئی۔ ویسے بھی اس نے مجھے کبھی دیکھا تو ہے نہیں۔ میں نے اپنی ایک سہیلی کی خوبصورت تصویر لفافے میں رکھ کر اسے بھیج دی۔ جب اس نے تصویر دیکھی تو اس کی سوچ ہی بدل گئی۔ وہ سمجھ بیٹھا کہ میں کوئی بڑی لڑکی ہوں۔ تب اس کے خطوط کا لہجہ بھی بدل گیا۔ وہ پہلی سی معصوم باتیں اب باقی نہ رہیں۔ اس بار میں نے اس کے خط کا جواب نہیں دیا، بس اتنا لکھا کہ آپ انڈیا آجائیں، دل چاہ رہا ہے آپ سے ملنے کو۔ اب تو وہ ہر خط میں انڈیا آنے کی بات کرتا۔
ان دنوں میں سولہ برس کی ہو چکی تھی۔ خدا نے اچھی صورت دی تھی، شریف زادی تھی، اور چہرے پر ایسی نوخیزی تھی کہ آئے دن رشتے آ رہے تھے۔ نانی جان کو ایک رشتہ پسند آ گیا۔ یہ میری سہیلی کا بھائی تھا، جو فوج میں ایک اچھے عہدے پر فائز تھا اور بنگلور سے آنے والا تھا۔ اتوار کا دن مقرر ہوا۔ میں نہا دھو کر تیار ہو کر بیٹھ گئی تو نانی نے کہا، چائے اچھی بنانا، خاص مہمان آ رہے ہیں، تجھے دیکھنے کے لیے۔ دل میں عجیب سے ولولے اٹھنے لگے، ایک بےچینی سی طاری تھی۔ دن کے تقریباً دس بجے ہوں گے کہ کسی نے آ کر اطلاع دی کہ مہمان آ چکے ہیں۔ ہم نے پوچھا، کیا بنگلور سے آئے ہیں؟ جواب ملا، ہاں، بنگلور سے آئے ہیں، نام فراز بتایا۔ میں چونک گئی کہ شاید ان کا نام بھی فراز ہے!نانی نے مجھے اندر بلا لیا۔
میرے دل میں پہلے ہی بڑی امنگیں تھیں، مجھ سے رہا نہ گیا۔ دوڑی دوڑی دروازے پر پہنچی۔ ہمارے ہاں پردے کی سخت پابندی ہے، مگر میں نے آہستہ سے دروازے سے جھانک کر دیکھا۔ گورا رنگ، لمبا قد، خوبصورت چہرہ۔ مجھے وہ بہت اچھے لگے۔ میں پردے کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔ وہ نانی سے لپٹ گئے، نانی نے بھی انہیں گلے سے لگایا اور رونے لگیں۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ تو پاکستان سے آئے ہیں، اور یہ وہی فراز ہیں، میری خالہ کے بیٹے، جو مجھے خط لکھا کرتے تھے۔ تبھی نانی نے مجھے بلا کر ان سے کہا، کیا اپنی گڑیا سے نہیں ملو گے؟ مجھے دیکھ کر وہ ہنس دیے۔ ارے بھئی، گڑیا تو بہت بڑی ہو گئی ہے!تب وہ میرے قریب آ کر آہستہ سے بولے، تمہیں میرے ساتھ جانا ہوگا، میں تمہیں لینے آیا ہوں۔
خدا کی کرنی، اسی دن وہ صاحب نہ آ سکے جنہوں نے میرے رشتے کے لیے بنگلور سے آنا تھا۔ فراز کو میں اتنی پسند آئی کہ انہوں نے نانی سے میرا رشتہ مانگنے کا پکا ارادہ کر لیا اور انہیں منانے لگے کہ وہ مجھ سے شادی کریں گے۔ میں حیران بھی تھی اور پریشان بھی، کیونکہ وہ پہلے سے شادی شدہ اور بچوں والے تھے۔ خدا جانے کیا ہونے والا تھا۔ تیسرے روز انہوں نے نانی کے قدموں میں بیٹھ کر منتیں شروع کر دیں۔ بولے، نانی اماں! میں آپ کی بیٹی کی نشانی ہوں، مجھے مایوس نہ کیجیے، میں زیب سے ہی شادی کرنے آیا ہوں۔ نانی بولیں، ارے لڑکے، کیا تو پاگل ہو گیا ہے؟ پہلے شادی کیوں کی تھی؟ میں اپنی نواسی کو سوتن پر نہیں دوں گی۔ میں آنکھیں بند کیے سب کچھ سن رہی تھی، یوں جیسے سو رہی ہوں۔
آخر کار، فراز کی بہت منت سماجت کے بعد نانی مان گئیں اور ایک دن بعد ہی نکاح کے لیے ہامی بھر لی۔ یوں میں گھر کے معمولی کپڑوں میں فراز کی دلہن بنا دی گئی۔پھر دوسری شام فراز نے واپسی کی تیاری کر لی۔ نانی جان نے جائیداد کے کاغذات میرے حوالے کیے، اور میں وہ کاغذات سوٹ کیس میں رکھ کر ان کے ساتھ چل پڑی۔ ایک دن میں ہم کلکتہ پہنچے، وہاں ایک دوست کے گھر ٹھہرے، اور اگلے دن جہاز کے ذریعے ڈھاکہ پہنچ گئے۔ان کو اپنی فرم کی طرف سے رہائش ملی ہوئی تھی۔ انہوں نے مجھے سمجھا دیا کہ فی الحال کسی کو نہ بتانا کہ انہوں نے دوسری شادی کی ہے، اور میں ان کے ساتھ آئی ہوں۔
شام کو انہوں نے خالو کو فون کیا۔ خالو نے مجھ سے بات کی۔ میرے کانوں نے پہلی بار “بیٹی” کا لفظ سنا تو آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ ایک ماہ بعد خالو کے بلانے پر مجھے جہاز کے ذریعے کراچی بھیج دیا گیا۔ ایئرپورٹ پر تصویر کے ذریعے خالو نے مجھے پہچان لیا۔ میری خوب آؤبھگت ہوئی، لیکن سوتن مجھے دیکھ کر بہت روئی۔ وہ اتنی رنجیدہ ہوئی کہ میکے چلی گئی، اور ڈیڑھ سال وہیں رہی۔اس کے چھوٹے چھوٹے بچے خالو کے پاس تھے۔ ان کی حالت دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا کہ میری وجہ سے انہیں بڑھاپے میں یہ سب برداشت کرنا پڑا۔ بیس دن سسرال میں رہ کر میں ڈھاکہ لوٹ آئی۔ دو سال فراز کے ساتھ رہی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک بیٹا بھی عطا فرمایا۔
جب میں دوبارہ فراز کے ساتھ کراچی گئی، تب وہ لمحہ آیا جس کا میں مدت سے انتظار کر رہی تھی۔ میں نے سوتن کو منانے کی کوشش کی۔ شروع میں تو کوئی بھی سیدھے منہ بات نہ کرتا۔ سوتن نے تو طلاق کا مطالبہ کر رکھا تھا۔ میں نے اسے اس کے معصوم بچوں کی حالت کا واسطہ دیا، خدا کا نام لے کر سمجھایا، تو وہ کچھ نرم پڑی اور میری بات سننے پر آمادہ ہوئی۔ میں اپنی جائیداد کے کاغذات پرس میں ڈال کر لائی تھی۔ میں نے اس سے کہا، میں نے تمہارا شوہر زبردستی نہیں لیا، بلکہ اس کی تقدیر میرے ساتھ جڑی تھی۔ جس دن میرے رشتے کے لیے کوئی اور آنے والا تھا، اس دن تمہارے فراز ہمارے گھر آ گئے اور جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ لیکن میں اس کی تلافی کر سکتی ہوں۔ انڈیا میں جو جائیداد میرے نام ہے، اس میں سے آدھی تمہارے بچوں کے نام کر دوں گی، کیونکہ میں نے تمہارے شوہر کی محبت میں سے حصہ لیا ہے۔
یہ میری نیک نیتی تھی کہ آخرکار سوتن کا دل موم ہو گیا اور وہ مان گئی۔ میں اُسے منا کر واپس گھر لے آئی۔ جب اُس نے اپنے بچوں کو مرجھایا ہوا دیکھا تو دوڑ کر اُن کے گلے لگ گئی، اور اپنے بچوں کے درمیان آ کر خوش ہو گئی۔ بچے بھی ماں کو پا کر بہت خوش تھے۔
اس واقعے کے بعد میرے شوہر کے دل میں میری قدر اور بڑھ گئی۔ وہ میری ہر بات کو نہایت احترام سے سنتے اور پورا کرتے۔ میں بھی اُن کا، اُن کی پہلی بیوی کا، اور بچوں کا پورا خیال رکھتی تھی۔ یوں میں نے سب کا دل جیت لیا۔ کچھ دے کر سب کچھ حاصل کر لیا۔اب ہم سب ایک چھوٹے سے شہر میں مل جل کر سکون کی زندگی گزار رہے ہیں۔ سچ ہے، اگر آپ اپنا پیار کسی کی جھولی میں ڈال دیں، تو سوتن کو بھی رام کیا جا سکتا ہے۔