گناہ کی دلدل - اک دوشیزہ کی آپ بیتی

sublimegate urdu stories 23

میرے شوہر سجاول بچپن میں ہی والدین کے سایے سے محروم ہو گئے تھے۔ انہوں نے اپنے بھائی کے ساتھ دادی کی گود میں پناہ لی، مگر تھوڑے دنوں بعد وہ چل بسیں اور یہ دونوں پھپھیوں کے رحم و کرم پر آگئے۔ کٹھن وقت بیتتا رہا۔ سجاول میری خالہ کے بیٹے تھے، میٹرک پاس کر کے نوکری پر لگ گئے۔ 

سسر صاحب ذاتی مکان ورثے میں چھوڑ گئے تھے۔ پھوپھی اب بوڑھی ہو چکی تھیں، انہوں نے سجاول کی شادی کرادی تا کہ گھر بس جائے ۔ میں ان کی بچپن کی منگیتر تھی، میرے والدین ان کی مجبوریاں جانتے تھے، لہذا سادگی سے شادی ہو گئی۔ مجھے سجاول کے دکھوں اور محرومیوں کا احساس تھا، اس لئے میں نے ان کے گھر کو سنبھالا اور پیار بھرا ماحول رکھا، یوں سجاول تو شادی کے بعد پر سکون ہو گئے لیکن ان کا چھوٹا بھائی عادل اب تک والدین کی محرومی کے احساس سے نہیں نکل پایا تھا۔ گاؤں میں ہمارے کئی رشتہ دار رہتے تھے، جب موقع ملتا ، وہ ان کے گھروں میں جا گھستا۔ میں اسے سمجھاتی بھی کہ تم اب بڑے ہو گئے ہو، یہ مناسب بات نہیں کہ لوگوں کے گھر میں جا بیٹھو۔ وہ میری بات ایک کان سے سنتا اور دوسرے کان سے اڑا دیتا تھا۔ وہ دراصل محبت کا بھوکا تھا۔

برداری کے ایک رشتہ دارلڑ کے فاضل سے اس کی دوستی ہوگئی تھی ۔ یہ اکثر ان کے گھر جاتا۔ ایک دن نہ جانے کس بات پر فاضل والوں کی ہم سے ان بن ہوگئی ۔ فاضل کی شادی پر تبھی انہوں نے ہمیں نہ بلایا لیکن عادل چوری چھپے اس کی شادی میں شرکت کرنے چلا گیا۔ فاضل اکثر اپنی دلہن کو بتایا کرتا تھا کہ اس کا ایک پیارا دوست عادل ہے مگر خاندان میں ناراضی کے سبب نہیں آتا۔ وہ میرے دیور کو بہت یاد کرتا تھا، تب ہی اس کی بیوی کے دل میں بھی عادل کو دیکھنے کی آرزو پیدا ہوگئی ۔ آخر ایک دن عادل اور فاضل میں صلح ہوگئی۔ اس کے نتیجے میں عادل ایک دن کپڑے استری کروانے کے بہانے ان کے گھر چلا گیا۔ اس روز ہمارے گھر بجلی نہیں تھی اور عادل کو شام میں ایک دوست کی سالگرہ میں جانا تھا۔ اس نے فاضل کی امی سے کہا۔ خالہ مجھے کپڑے استری کرنے ہیں، تب ہی آیا ہوں۔ خالہ نے اسے پیار سے بٹھایا اور استری لگا کر دی۔ جب وہ کپڑوں پر استری پھیرنے لگا، تب ہی فاضل کی دلہن آگئی۔ 

ساس سے پوچھنے لگی اچھا یہی وہ عادل صاحب ہیں جن کا ذکر اکثر آپ کا بیٹا مجھ سے کرتا رہتا ہے، پھر وہ عادل سے مخاطب ہوئی ۔ لاؤ میں کپڑے استری کردوں ۔ آپ تکلیف نہ کریں بھا بھی ! میں خود ہی کیے لیتا ہوں ۔ گھر میں بھی اپنے کپڑے میں خود استری کرتا ہوں ۔ دلہن نہ مانی۔ اس نے عادل کے ہاتھ سے استری لی اور کپڑے پریس کرنے لگی۔ اس کا دھیان نہ جانے کدھر تھا۔ استری قمیض پر دھری رہ گئی اور دھواں اٹھنے لگا۔ یہ دیکھ کر عادل کو بہت غصہ آیا مگرنئی دلہن تھی، لحاظ کر گیا۔ اسے مزید غصہ تب آیا، جب وہ افسوس کے بجائے ہنسی ٹھٹھول کرنے لگی۔ عادل سوچ رہا تھا کہ یہ کیسی عورت ہے، ذرا بھی اس کی آنکھ میں لحاظ نہیں۔ وہ اپنی جلی ہوئی قمیض اٹھا کر گھر آگیا۔ اس روز موڈ اتنا خراب ہوا کہ تقریب میں بھی نہ گیا، بلکہ اپنے کمرے میں جا کر سو گیا۔ هفته بمشکل گزرا تھا کہ یہ دلہن کے صاحبہ جس کا نام بلقیس تھا، ہمارے گھر آگئیں۔ عادل کرسی پر بیٹھا کوئی اخبار دیکھ رہا تھا۔ نہ سلام، نہ دعاء آتے ہی فٹ سے بولی۔ عادل تم دوبارہ کیوں نہیں آئے؟ دوست سے ملنے تو آ جاتے۔ فاضل کتنا تم کو یاد کرتے ہیں۔

 کیا قمیض کے جل جانے سے ناراض ہو گئے ہو۔ نہیں بھابھی ، ایسی بات تو نہیں ہے۔ میں مصروف رہتا ہوں۔ بھائی کے ساتھ کھیتوں میں کام دیکھنا پڑتا ہے، وہ کہنے لگی۔ بھابھی کیوں کہتے ہو، میرا نام تو دلربا ہے۔ عجیب نام ہے۔ کیا تمہارے ماں باپ نے یہ نام رکھا ہے؟ نہیں، انہوں نے تو بلقیس رکھا مگر مجھے یہ پرانی ٹائپ کا نام پسند نہیں۔ میں نے خود اپنا نام دلربا رکھ لیا ہے۔ خیر، ہرکسی کی اپنی سوچ ہوتی ہے، مگر میں تو آپ کو بھابھی ہی کہوں گا۔ عادل نے نگاہیں نیچی کر کے کہا۔ وہ اس خاتون کی جرات پر حیران تھا۔ وہ جناتی یھی کہ آج وہ گھر میں اکیلا ہے۔ اس نے فون کرکے معلوم کر لیا تھا کہ گھر والے کہیں گئے ہوئے ہیں۔

ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ یہ عورت کسی طرح جلدی سے چلی جائے مگر وہ اٹھ کر اس کے بالکل قریب بیٹھ گی اور چھیڑ چھاڑ کرنے لگی۔ بے چارہ عادل پیسنے پینے ہو گیا۔ ظاہر ہے، اس نئی نویلی دلہن کی یہ بے تکلفی اسے ایک آنکھ نہ بھائی تھی مگر خاموش رہا کہ پہلی بار ہمارے گھر آئی تھی۔ یا اللہ کسی بے باک عورت ہے، اس نے سوچا۔ وہ گھبرا گیا اور اس کی گھبراہٹ سے محفوظ ہوتے ہوئے اس نے اٹھ کر دروازے کی چٹخنی لگا دی، بولی ۔ عادل تم کو دیکھا تو سب کچھ بھول گئی تم جیسا بانکا نوجوان کبھی نہیں دیکھا۔ دراصل تم کو میرا جیون ساتھی ہونا چاہیے تھا۔ تمہارے بغیر زندگی ادھوری ہے۔ 

عادل کے کان سنسنا رہے تھے۔ اس کی عقل میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ عورت کیا کہہ رہی ہے۔ اس کو کیا ہو گیا ہے؟ عادل مرد ہو کر شرم سے سرخ ہوا جاتا تھا اور وہ عورت ہو کر اس قدر اس کے قریب بیٹھی تھی کہ اس کی سانسیں اس کے رخساروں کو چھورہی تھیں ۔ عادل لاکھ شریف سہی لیکن فرشتہ نہیں تھا۔ تنہائی میں کوئی نئی نویلی دلہن بنی سنوری خوب صورت اگر کسی غیر شادی شده نوجوان کے گلے میں بانہیں ڈال دے، وہ کیا کرے گا۔ وہ تو ہر بات سے بے پروا بے باکی سے ہنسے جاتی تھی۔ عادل کی نگاہوں میں اپنے دوست کا چہرہ پھرنے لگا۔ اس نے بلقیس کو دھکا دیا اور دروازے کھول آنا فانا باہر نکل گیا۔ اس کے بعد وہ فاضل کے گھر نہیں گیا۔ نہ اس نے کسی سے اس واقعے کا ذکر کرنا مناسب سمجھا مگر ادھر بلقیس کو چین نہ تھا۔ وہ بے قراری سے عادل کا انتظار کر رہی تھی لیکن وہ بات کو بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔ ایک روز وہ کسی سہیلی کا بہانہ کر کے ہمارے گھر آگئی اور آتے ہی عادل کے کمرے میں چلی گئی ، بولی۔ 

تم ہمارے گھر کیوں نہیں آتے؟ کیا واقعی تم اس گھر کو اپنا گھر سمجھتی ہو؟ عادل نے سوال کیا۔ ہاں بلقیس نے جواب دیا۔ پھر تو تم اچھی اپنی گھر کی رکھوالی کر رہی ہو۔ اس پر وہ کہنے لگی۔ عادل فاضل کا گھر اپنی جگہ ہے لیکن میرے جسم میں بھی تو ایک گھر ہے اور اس میں روحوں کا بسیرا ہوتا ہے یہ گھر اگر جیتےجی خالی رہے تو کیا اچھا نہیں ہے کہ آدمی سسکنے کی بجاے مر جائے ۔ آخر فاضل میں کیا کمی ہے کہ اس کے ہوتے تمہارے جسم کے اندر کا گھر خالی ہے؟ کوئی کمی ہے تو – عادل اس کا جواب سن کر حیران رہ گیا۔ اس کے بعد وہ تھوڑی دیر بیھٹی اور چلی گئی۔ وہ عادل کو اکثر بلا بھیجتی مگر وہ اس کے گھر نہیں جاتا تھا لیکن وہ باز نہ آئی اور مجھ سے ملنے کے بہانے آنے گی۔

پتھر پر بھی مسلسل پانی کی بوند گرتی رہے تو وہاں گڑھا پڑ جاتا ہے۔ عادل تو پھر انسان تھا۔ بالآخر اس نے بے رخی چھوڑ دی اور جب آتی وہ اس کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے لگتا۔ مجھے کہتا۔ بھابھی یہ میری مہمان ہے، اس کے لیے چائے بنا دیئے۔ میں سمجھتی تھی کہ یہ محض عادل کا دیدار کرنے آتی ہے۔ وہ تھوڑی دیر باتیں کرتی اور چلی جاتی۔ عادل نے اس کو یہاں تک محدود کردیا تھا تا کہ وہ کہیں ادھر ادھر بھٹک کر بے راہ روی کا شکار نہ ہو جائے ۔ اس طرح اسے بلقیس کو گاہے بہ گاہے سمجھانے کا موقع بھی مل جاتا تھا اور وہ شانت ہو جاتی تھی۔ دراصل عادل چاہتا تھا کہ وہ نفس کی آرزو کو پش پشت ڈال کر اس کے ساتھ روح کا رشتہ قائم کرلے تو بھی بلقیس کو سکون ملے گا اور ایسا ہوتا نظر آتا تھا۔ گویا یہ ایک قسم کا نفسیاتی علاج تھا۔ عادل اپنی دانست میں اس کا نفسیاتی علاج کر رہا تھا لیکن خود بہت بے چین رہنے لگا تھا۔ بارہا یہ سوچ اسے پریشان رکھتی تھی کہ فاضل میں آخر کیا کمی ہے ، جو یہ عورت اسے چھوڑ کر اس کی جانب کھنچی چلی آتی ہے، تاہم بلقیس سے وہ اس قسم کا سوال کر کے بات کو آگے نہیں بڑھانا چاہتا تھا۔ جو بھی راز تھا، اس پر پردہ بنا ہی بھلا تھا۔ یہ آڑ باقی تھی تو ان کی ملاقاتیں پاکیزہ تھیں۔

 ڈر تھا کہ راز سے پردہ ہٹ گیا تو کہیں ان کے تعلق کی پاکیزگی کوٹھیس نہ پہنچ جائے ۔ چھ ماہ اسی طرح گزر گئے۔ عادل نے سوچا کہ ان پاکیزہ ملاقاتوں کا سلسلہ بھی کب تک اور میں یعنی اس کی بھابھی بھی کب تک خاموش رہ پاؤں گی۔ چونکہ میرا ضمیر مرا نہ تھا، سوچتی تھی اگر فاضل کو پتا چلا کہ اس کی بیوی اس کے دوست کے ساتھ گپ شپ کر کے وقت سنہرا کرتی ہے، تو عادل کیا اس کو منہ دکھائے گا۔ ایسا نہ ہو کہ یہ بات کھل جائے اور یہ گناہ کیے بغیر اپنے دوست کا مجرم بن جائے۔ اس سے بہتر تھا کہ عادل کسی اور جگہ چلا جاتا۔ شہر سے کچھ دور، ہماری تھوڑی سی زمین تھی جس کی دیکھ بھال عادل کرتا تھا، کیونکہ میرے میاں ملازمت کرتے تھے۔ وہاں کھیتوں میں ہمارا دو کمروں کا ایک پرانا سا مکان تھا جو اپنی زندگی میں سسر صاحب نے بنوایا تھا۔ جب سجاول اور عادل فصل کی دیکھ بھال کے لئے جاتے تو اس گھر میں قیام کرتے تھے۔ ایک دن میں نے عادل کو مشورہ دیا کہ بھیا! بلقیس ٹھیک اطوار کی عورت نہیں ہے۔ یہ کسی دن تم کو تمہارے دوست کے روبرو شرمندہ کر دے گی۔ بہتر ہے کہ تم کچھ دنوں کے لئے زمینوں پر چلے جاؤ۔ جب عادل نے سوچا کہ میں وہاں رہوں گا تو گناہ کی دلدل سے بچ جاؤں گا۔ وہ کسی کو بتائے بغیر وہاں گیا اور پھر وہیں رہنے لگا۔ اسے معلوم تھا کہ اس طرح چلے آنے پر بھائی پریشان ہوں گے اور وہی ہوا۔
دو دن بعد سجاول زمینوں پر چلے گئے۔ ان کو یقین تھا کہ عادل وہیں ہوگا۔ عادل نے انہیں بتایا کہ یہاں پانی کے مسئلے پر کچھ ان بن ہونے لگی ہے۔ ہمسایے ہمارے نوکر کی سنتے نہیں، میں نے سوچا کہ کوئی جھگڑا نہ چھڑ جائے، تو یہاں کچھ روز ٹک کر رہنے کا پروگرام بنا لیا۔ آپ کو اس لیے نہیں بتایا آپ میرے یہاں مستقل رہنے سے پریشان ہوتے اور منع کرتے۔ سجاول نے کہا۔ ٹھیک ہے، مگر دھیان سے رہنا۔ جھگڑے کا ماحول محسوس کرو تو فوراً مجھے اطلاع کر دینا۔ اس وقت تو بات بن گئی اور سجاول کی پریشانی کم ہوگئی لیکن بلقیس کی پریشانی دیدنی تھی۔ وہ ہمارے گھر کے چکر پر چکر لگانے لگی۔ آخر ایک دن اس نے مجھ سے عادل بارے سوال کر ہی دیا۔ میں نے اسے بتایا کہ اس کی میرے شوہر سے ناراضی ہوگئی ہے، اس لیے وہ زمینوں پر رہنے چلا گیا ہے، لیکن یہ وقتی بات ہے فصل کی بوائی کے بعد وہ آجائے گا۔ بلقیس نے اسے واپس لانے کی ترکیب نکالی اور اپنے شوہر سے کہا۔ فاضل ! تمہا را دوست عادل اپنے بڑے بھائی کو ناراض کر کے گھر چھوڑ کر کھیتوں میں جا کر رہ رہا ہے۔ اس کی بھابھی نے مجھے گھر بلا کر کہا ہے کہ میں تم سے اس کی طرف سے درخواست کروں کہ اسے منا کر گھر لاؤ۔ وہاں اکیلا وہ بیمار پڑ جائے گا۔

 اس کا پانی پر ہمسایوں سے تنازعہ بھی چل رہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اسے اکیلا پا کر نقصان پہنچائیں۔ اس کی بھابھی نے قسم دہی ہے کہ تم جا کر اسے گھر لے آؤ۔ یہ ساری باتیں مجھ پر رکھ کر اس چالاک عورت نے خود سے کہی تھیں۔ ادھر عادل بھی گھر سے دور تنہائی میں خوش نہ تھا۔ خاص طور پر اس کو میری بیٹی اور بیٹے کی بہت یاد آئی تھی۔ جن سے وہ بہت محبت کرتا تھا۔ ان سب کی دوری وہ زیادہ دنوں برداشت نہ کر سکا اور جب فاضل اسے منانے گیا تو اس کی منت سماجت پر وہ گھر لوٹ آیا۔ اب وہ اپنے دوست کو کیونکر بتاتا کہ تیری ہیوی کی وجہ سے ہی یہ بن باس لیا تھا۔ فاضل اصرار کر کے اس کو اپنے گھر لے گیا اور بولا۔ یار کھیتوں میں رہ کر اچھا کھانا نہیں کھا پائے ، دیکھو تو کتنے کمزور ہو گئے ہو۔ آج تمہاری بھابھی نے تمہاری دعوت کا خاص طور پر اہتمام کیا ہے۔ اب کچھ دن ہمارے گھر کھانا کھاؤ ۔

 بلقیس کا اصرار ہے کہ وہ تمہاری پسند سے روز اچھے اچھے کھانے بنائے گی ۔ عادل شرمندہ ہو گیا، گرچہ وہ چور، لٹیرا نہ تھا، پھر بھی چور بنا بیٹھا تھا۔ اس وقت اس کی حالت عجیب تھی ، اوپر سے بلقیس کی باتیں چارچاند لگا رہی تھیں ۔ وہ کہہ رہی تھی ۔ فاضل ! اس بے چارے کو دیکھو ۔ اکیلا ہے، بھائی بھابھی کے گھر رہتا ہے۔ اس کا اپنا تو گھر ، نہ بار اور تمہارے سوا کوئی دوست، نہ مخلص رشتے دار، اوپر سے بھائی خفا رہتا ہے کہ ساجھے کی زمین ہے۔ یہ تو بس کھیتی باڑی کے آسرے پر پڑا ہے، جہاں سو طرح کی دشمنیاں ہیں۔ اپنے دوست کی کچھ مدد کرو۔ اس کی زندگی بدلنے کی کوشش کرو۔ کوئی ملازمت ہے اور نہ کاروبار کی آس ہے، کب تک ویرانے کی مٹی میں عمر گھلاتا رہے گا، کب اپنا گھر بسائے گا ؟ ایسا کرو تم دونوں مل کر کوئی کاروبار کر لو۔ تمہاری تنخواہ بھی تھوڑی ہے۔ اللہ کاروبار میں ترقی دے گا۔ عادل اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا تو بڑے بھائی کا محتاج نہ رہے گا، لیکن سرمایہ کہاں سے آئے گا؟ جبکہ کاروبار کے لیے تو سر ما یہ چاہیے۔ تم میرا زیور لے لو۔ لیکن سجاول بھائی نہیں مانیں گے۔ وہ ملازمت کرتے ہیں، زمین کی پیداوار کو تو عادل ہی دیکھتا ہے۔ ان کی کھیتی بنجر ہو جائے گی، بھابھی گھر سے نکال دے گی اس بے چارے کو۔

لوگ مزارے رکھ لیتے ہیں، خود ہل بیل تھوڑا ہی ہانکتے ہیں۔ اگر اس کے بھابھی بھائی ان بن کریں تو ہم کچھ دن عادل کو یہاں رکھ لیں گے۔ یہاں کھانا کھا لیا کرے گا اور زمین پر بھی وقت نکال کر چکر لگایا جاسکتا ہے۔ مگر کھیتی تو وقت دینے سے ہی پھلتی پھولتی ہے۔ اچھا بس اب رہنے دو۔ تم عادل کو بزنس کی طرف مائل کرو تا کہ اس کا بھی گھر بسے اور زندگی سنور جائے ۔ بیوی کے کہنے پر فاضل کو بھی اس پر ترس آگیا۔ آخر وہ بچپن کے دوست تھے اور رشتہ دار بھی۔ فاضل ، عادل کو مجبور کرنے لگا، تب ہی اس نے لڑجھگڑ کر اپنی فصل کا آدھا حصہ فروخت کیا اور بینک میں جمع پونچھی نکلوا کر فاضل کے ہاتھ پر رکھ دی۔ فاضل نے بیوی کا زیور دیا اور دونوں نے مل کر ایک جنرل اسٹور کھول لیا۔ عادل زیادہ تر دکان پر بیٹھتا تھا ۔ وہ بہت کم ان کے گھر آتا ۔ بلقیس بے چین رہتی کہ اتنے قریب دکان ہونے کے باوجود عادل اس کے گھر بہت کم آتا ہے۔ وہ بھی تب، جب اس کا شوہر گھر میں موجود ہوتا ۔ عادل کو اب اور زیادہ اپنے دوست کی عزت کا پاس رہنے لگا تھا مگر اس عورت ذات کو نہیں جو اس کی شریک حیات تھی ۔ ایک بار بلقیس اور فاضل کی بہت سخت لڑائی ہوگئی۔ اس نے بیوی کو مارا، پھر دکان پر آیا اور کہا کہ میری بیوی سے لڑائی ہوگئی ہے۔ 

میں آج دکان پر ہی سوؤں گا۔ وہ اکیلی ہے ، اس لیے تم میرے گھر جا کر سو جاؤ۔ عادل نے بہت منع کیا، بہانے بنائے، مگر فاضل نے ایک نہ سنی اور دکان پر ہی سو گیا ۔ ناچار عادل کو اس کے گھر جانا پڑا۔ سوچا، کم از کم یہ تو معلوم کروں کہ لڑائی کیوں ہوئی ہے؟ اس کے بعد بھتیجے اور بھتیجی کو ساتھ لا کر اس کے پاس سلا دوں گا۔ اس وقت میرا بیٹا بارہ سال اور بیٹی چھ برس کی تھی ۔ وہ فاضل کے گھر گیا۔ بلقیس رو رہی تھی۔ عادل نے وجہ پوچھی۔ اس نے وجہ تو نہ بتائی مگر عادل کو دیکھ کر باغ باغ ہوگئی۔ شکوہ کیا کہ اتنے دن بعد آئے ہو۔ تم بے حد سنگدل آدمی ہو۔ آج نہ جانے کیسے محبت کی دیوی مجھ پر مہربان ہوگئی ہے۔ تم بیٹھو، میں کھانا لاتی ہوں ۔ عادل نے کہا۔ میں کھانا بعد میں کھالوں گا، پہلے گھر پر اطلاع دے آؤں کہ آج رات میں یہاں سوؤں گا۔ یہ کہہ کر وہ جانے لگا تو بلقیس نے اس کو روک لیا، بولی۔ میری بات تو سن لو! میں تمہاری منت کرتی ہوں، مجھے فاضل سے نجات دلا دو۔ میں اس کے ساتھ خوش نہیں۔ اس میں جو کمی ہے وہ کسی عورت کے بخت نہیں جگا سکتی۔ میں فاضل سے بھی نہیں کہہ سکتا کہ بیوی کو طلاق دے۔ 
ہاں اگر اس نے خود سے طلاق دے دی تو بعد میں مجھ سے تمہاری جو مدد ہو سکے گی، کروں گا ۔ کیا تم مجھ سے شادی کر لو گے؟ یہ مجھے نہیں معلوم کیونکہ شادی مقدر کا لیکھ ہے۔ جس کے ساتھ لکھی ہوتی ہے، اس سے ہوتی ہے۔ تمہارے لیکھ کو تو تمہاری بھائی بھابھی نے اپنی خود غرضی کے آنچل سے ڈھانپ رکھا ہے کہ شادی ہوگی نہ بچے ہوں گے جو جائیداد میں حصہ دار بنیں۔ تم ادھیڑ عمر ہونے کو آئے ہو، آخر کب وہ تمہاری شادی کریں گے۔ انہیں تو اس کی فکر ہی نہیں ہے۔ انہیں فکر ہو یا نہ ہو جب اللہ کا حکم ہوگا میری شادی ہو جائے گی۔ تم اس بارے مت سوچو اور اپنے گھر کے بسائے رکھنے کی کوشش کرو۔ وہ اتنا برا نہیں ہے کہ بیوی بلاوجہ اسے چھوڑ دے۔ کوئی بڑی وجہ ہوتی ہے، تب ہی تو بیویاں ان جیسے شوہروں کو چھوڑ دیتی ہیں اور یہ حق تو ہمارے دین نے بھی دیا۔

اب عادل کے کان کھڑے ہو گئے کہ یہ عورت کیا کہہ رہی ہے۔ بہرحال اس وقت وہ میرے پاس آیا اور کہا۔ بھابھی ایسا ایسا معاملہ ہے اور میں بلقیس کے گھر میں نہیں سونا چاہتا، جبکہ وہ اکیلی ہے۔ میں بولی تم فکر نہ کرو، میں بوا کو بھیج دیتی ہوں۔ وہ ہماری دور کی رشتہ دار تھیں اور ہمارے گھر برسوں سے رہتی تھیں۔ بیوگی کے بعد کوئی ٹھکانہ نہ رہا تو بڑی پھپھو ان کو ہماری دیکھ بھال کے لیے گھر لے آئی تھیں۔ میں اور ہوا اس کے ساتھ فاضل کے گھر آئیں ، بوا کو وہاں چھوڑا اور عادل میرے ساتھ گھر واپس آ گیا۔ اس کے بعد بلقیس اس سے ناراض ہو گئی۔ کئی روز بات نہ کی۔ ایک دن پھر اس کی اپنے شوہر سے لڑائی ہوگئی۔ فاضل نے کہا۔ اب میں گھر نہیں جاؤں گا ، دکان پر سوؤں گا۔ تم بلقیس کے پاس یا تو بوا کو بھجوا و یا خود جا کر سوجاؤ۔ فاضل ! یہ روز ، روز کا جھگڑا ٹھیک نہیں، کسی روز محلے میں اس بات کا بھانڈا پھوٹ گیا تو برا ہوگا۔ اگرتم مجھے دوست سمجھتے ہو تو سچ بات بتا دو کہ جھگڑے کی وجہ کیا ہے؟ پہلے تو اس نے آنا کانی کی، پھر جب عادل نے اس کو چھوڑ جانے کی دھمکی دی تو کہنے لگا ۔ کیا تم یقین کر لوگے؟ اور اس کے بعد تمہارا رد عمل کیا ہوگا، میں اس بات سے بھی خائف ہوں ۔ تم بلا خوف کہہ دو۔

 میں ہر طرح سے تمہارے ساتھ ہوں، میں تمہاری مدد کروں گا۔ اس کے بعد فاضل نے جو بات کہی ، اسے سن کر عادل حیران رہ گیا۔ واقعی اس معاملے میں بلقیس نہیں ، فاضل مجرم تھا۔ وہ شادی کے قابل نہ تھا، پھر بھی اس نے بلقیس سے شادی کی ، کیونکہ وہ بے آسرا اور یتیم تھی اور فاضل کے ماں باپ نے اس پالا تھا اوراپنے لڑکے کے پلے باندھ دیا تھا جو کسی عورت کو ازدواجی خوشیاں نہیں دے سکتا تھا۔ جب تک اس کے ماں باپ زندہ تھے بلقیس چپ رہی ۔ ان کی شادی کے دو ماہ بعد ہی فاضل کے ماں باپ دونوں ٹرین کے حادثے میں چل بسے۔ اب بلقیس کے صبر کا پیمانہ بھی رفتہ رفتہ لبریز ہونے لگا اور جو نتیجہ نکلا ، وہ سامنے تھا۔ جب عادل بلقیس کی بے بسی کے راز سے واقف ہو گیا تو اس نے سوچا کہ اس سے بیشتر یہ اٹھارہ انیس برس کی لڑکی اپنی عمر کے تقاضے نہ سنبھال سکے اور گناہ کی دلدل میں اتر جائے ، جائز طریقے سے اس کا مسئلہ حل کر دینا چاہیے۔ اس نے مجھے سب معاملے سے آگاہ کر کے مدد کی درخواست کی، میں نے سجاول سے بات کی۔ سجاول نے فاضل سے رابطہ کیا اور پوچھا۔
 تمہاری بیوی اگر ایسی صورت حال میں تمہاری شریک حیات نہیں رہنا چاہتی تو تم نے آئندہ کے بارے کیا سوچا ہے؟ کیا عمر بھر اسے جلانا اور خود جلتے رہنا ہے یا کوئی دوسرا حل ہے؟ وہ بولا۔ میں اب مزید اس معاملے کو نہیں چلا سکتا، یہ عورت میرے پاس ٹکنے والی نہیں۔ میں اس کو طلاق دینا چاہتا ہوں، مگر یہ یتیم ہے۔ والد نے وعدہ لیا تھا کہ اس کو بے آسرا نہیں چھوڑنا ۔ کوئی اس کو آسرا دے دے تو میں آج طلاق دے دیتا ہوں ۔ سجاول نے مجھ سے مشورہ کیا او پھر عادل سے۔ عادل کے دل میں بلقیس کے لیے نرم گوشہ تھا، سو اس نے فیصلہ بڑے بھائی پر چھوڑ دیا۔ یوں فاضل نے بلقیس کو طلاق دے دی اور ہم نے عادل کی شادی اس کے ساتھ کر دی۔ ہمیں ڈر تھا کہ گر یہ بدفطرت ہوئی تو کہیں ہمیں اس فیصلے پر پچھتانا نہ پڑ جائے؟

 لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ بلقیس اور عادل کو یہ شادی راس آ گئی اور وہ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے چار بچے ہیں۔ فاضل اپنے گھر میں اکیلا ہی رہتا ہے۔ عادل نے دوستی کا حق یوں نبھایا کہ تمام کاروبار اس کے حوالے کر دیا، حالانکہ جنرل اسٹور بہت اچھا چل رہا تھا، مگر ایک شخص نے بیوی سے محرومی اختیار کی تھی اور اللہ کی رضا کے لیے اپنی خامی کا اظہار کر دیا تھا، اسے کچھ تو ملنا چاہیے تھا۔

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے