جانے والے چلے جاتے ہیں، پیچھے ان کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں۔ میرے پاس آج بھی وہ آئینہ ہے اور اس کی یادیں ہیں جبکہ میں دو بچوں کی ماں اور ذیشان کی بیوی ہوں، جو مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ لگتا ہے کہ میں عدیل کو اب بھلا چکی ہوں کہ یہی زندگی کا اصول ہے۔ مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاسکتا۔
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب تایا ابو، میرے بابا اور چچا جان سبھی اکٹھے ایک بڑے سے مکان میں رہا کرتے تھے۔ چونکہ دادی جان خاندان کی سربراہ تھیں، وہی اس مشترکہ فیملی سسٹم کے ذریعے ہم سب کو جوڑے ہوئے تھیں۔ ہمارا خاندان بڑا تھا اور سب ایک جگہ رہ رہے تھے۔ پوری برادری میں ہماری فیملی اتفاق اور محبت کی وجہ سے مشہور تھی۔ تینوں بھائیوں کے بچے جب ایک جگہ بیٹھتے ، وہاں پل بھر کی خاموشی ناممکن بات تھی۔ ہمارے بڑوں کا بھی آپس میں ایک رونق میلا لگا رہتا تھا۔ یہ ماہ رمضان کی بات ہے۔ پھوپھونے اپنے گھر ہم کو افطار پر بلایا تھا۔ ان کے کچن سے اشتہا انگیز خوشبو آ رہی تھی۔
افطاری سے چند منٹ پہلے جبکہ سب دعا کر رہے تھے، میری کزن انوشے آئینے کے سامنے خود کو نک سک سے درست کر رہی تھی۔ ارے بھئی … انوشے۔ بنو ! اب چل بھی پڑو۔ تم کیا چاہتی ہو وہ صرف تم ہی کو دیکھتا رہے اور افطاری نہ کرے؟ ربیعه … اف… اس نے مجھ پر مکا تانا۔ تم بھی بس… میں اس کے مصنوعی غصے سے محظوظ ہوتے ہوئے ہنسی اور بازو پکڑ کر کھینچتے ہوئے ڈائننگ ٹیبل تک لے آئی۔ جب سارا خاندان کھانے کی میز کے گرد بیٹھ چکا تو دادی بھی آگئیں۔ آتے ہی ہم سب پر نظر ڈال کر کہا۔ ماشاء اللہ ! میری اس کائنات کو نظر نہ لگے ، ہمیشہ ایسے ہی ہنستے بستے رہو۔ مجھے اپنے تایازاد عدیل کے سامنے جگہ ملی تھی اور انوشے جو بچپن سے پھوپی زاد ذیشان کو پسند کرتی تھی، وہ عین اس کے سامنے براجمان تھی سبحان اور شہروز بھی قریب بیٹھے تھے ۔ ہم چھ کزنز میں بہت دوستی تھی۔ مگر عدیل سے میری دوستی سب سے بالا تھی۔
وہ میرا بہت خیال رکھتا اور میں بھی اس کی ہر بات مان لیتی۔ دراصل اس کی کوئی بہن نہ تھی اور میرا کوئی بھائی نہ تھا۔ شاید اسی لئے وہ میری ہر فرمائش پوری کرتا اور میں اس کے حکم پر اس کے سب کام خود کرتی۔ مثلاً اس کیلئے چائے بنانا اور اس کی شرٹ استری کر دینا۔ افطاری کے بعد ہی باتوں باتوں میں پھو پھونے یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا کہ اس عید پر کچھ نیا پرو گرام کریں گے۔ کیا نیا پھوپھو…؟ میں نے سوال کیا تھا۔ یہ تو عید پر ہی پتا چلے گا۔ انہوں نے چہک کر جواب دیا۔ رات چائے پینے کے بعد بڑوں کی محفل ڈرائنگ روم میں سجی اور ہم سب باہر لان میں بیٹھے تھے۔ تبھی میری نگاہیں عدیل کو ڈھونڈنے لگیں۔ وہ کمرے میں ہو گا شاید یہ سوچتے ہی میں لان سے کمرے میں گئی۔ واقعی وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ ارے بھئی دیکھنا ہی ہے تو لان میں آجائو۔ یہاں اکیلے کیوں کھڑے ہو؟
باہر ٹھیک سے دیکھ نہیں پاتا۔ تبھی اندر سے سکون سے دیکھ رہا ہوں۔ اس نے یک گونہ بے خودی سے جواب دیا۔ اچھا! اب باہر چلو بھی، سب وہاں گپ شپ کر رہے ہیں اور تم یہاں تنہائی کی دھیمی آگ پر ہاتھ تاپ رہے ہو۔ مجھے لان میں نہیں بیٹھنا۔ تو پھر کہاں چلنا ہے ؟ باہر چلتے ہیں آئسکریم کھانے ! چاند رات تھی۔ ہم نے ڈھیر ساری شاپنگ کی اور آخر میں آئسکریم کھا کر گھر آگئے۔ میں اس امر سے بے خبر تھی کہ آج کی رات کے بعد میری زندگی یکسر بدل جائے گی۔ شاپنگ کے بعد رات میں کچن میں تھی جب عدیل آیا اور مجھے پیک کیا ہوا ڈبہ دیا۔ حیران تھی کہ ساری شاپنگ تو ہمارے ساتھ کی تھی پھر یہ کب خریدا! کمرے میں جانا تو کھول کر دیکھ لینا۔ پر اتنا بتادوں کہ اس میں میرا چاند ہے۔ یہ کہتے ہی وہ مسکراتے ہوئے باہر چلا گیا۔ وہ مجھے بہت بدلا ہوا لگا۔ فورا اپنے کمرے میں گئی اور پیک کھولا۔ اس میں خوبصورت دل کے ڈیزائن کا لکڑی سے بنادروازہ تھا۔ دروازہ کھولا تو اس میں آئینہ تھا جس میں سوائے اپنے چہرے کے مجھے اور کچھ نظر نہ آیا۔ میں الجھ گی۔ یہ کیا؟ یہ تو صرف آئینہ ہے۔ مسکرا کر میں نے اسے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دیا کہ بہت پیارا ہے۔ صبح عید تھی۔ خوشی کی نوید تھی۔ سبھی تیار ہوئے، نئے کپڑے پہن کر ایک دوسرے کو عید مبارک کہا۔
کچھ دیر بعد پھوپھو اپنے بیٹے ذیشان کے ساتھ آگئیں۔ میں اور انوشے ان کے لئے چائے بنانے چلے گئے۔ جب ہم چائے لے کر لوٹے تو پھوپھو ، دادی اور والد صاحب سے کہہ رہی تھیں۔ ربیعہ کو مجھے دے دو۔ میرے ذیشان کو، وہ بچپن سے پسند ہے۔ اب تو دونوں نے تعلیم بھی مکمل کر لی ہے۔ منگنی آج کل میں کر لیتے ہیں۔ یہ سن کر انوشے کے ہاتھ سے چائے کی ٹرے چھوٹ گئی۔ ارے کیا ہوا؟ میں نے انوشے سے پوچھا۔ میرے ہاتھ میں مٹھائی کی چینی تھی۔ کچھ نہیں ہوا، بس یہ سب ٹوٹ گیا۔ کوئی بات نہیں۔ دادی نے کہا اور چائے بنالو اور شکور سے کہو کہ یہ سب صاف کر دے۔ چائے کے برتن ہی نہیں کسی کا دل بھی ٹوٹا ہے، اس کی کسی کو خبر نہ ہوئی۔ منگنی عید کے تیسرے دن رکھ لیتے ہیں۔ پھوپھونے کہا تھا۔ ٹھیک ہے۔ ابو نے جواب دیا۔ خوشی کے موقع پر خوشی سے مسرتیں دو چند ہوں گی۔ رات کو انوشے بغیر کسی سے بات کئے اپنے کمرے میں جا کر سو گئی۔ میں نے عدیل کو دیکھا جو آدھی رات تک پرانے گیت سنتا تھا، آج وہ بھی غائب تھا۔ دونوں کے اس غیر معمولی رویے پر میرے دل میں کھٹک سی ہوئی۔ جب امی ابو نے میرا عندیہ معلوم کرنا چاہا تو میں نے کہا۔ میں نے تو ایسا کبھی نہیں سوچا تھا۔ تمہاری پھوپھو ایسا چاہتی ہیں بیٹے، تاکہ ہم سے جڑی رہیں۔ تبھی مجھے انوشے کے آنسو یاد آگئے۔
امی، انوشے بھی تو ہے ، اس سے کر دیں۔ ذیشان نے تمہارا نام لیا ہے بیٹی ! اگر انوشے کو پسند کرتا تو اسی کا نام لیتا۔ امی، ابوالجھن میں ڈال کر کر چلے گئے اور میں سوچتی رہ گئی کہ انوشے ذیشان کو چاہتی ہے اور ذیشان مجھے چاہتا ہے اور میں کس کو چاہتی ہوں ؟ عدیل کا خیال آگیا۔ رات کے دو بج گئے اور وہ صبح کا گھر سے نکلا تھا، ابھی تک نہیں آیا۔ نجانے کہاں چلا گیا تھا۔ تین بار فون لگا چکی تھی پر فون آف تھا اس کا ! میں اس کے انتظار میں لان میں ٹہلنے لگی۔ اچانک گیٹ پر نظر گئی۔ وہ اندر آ رہا تھا۔ اس کا چہرہ اترا ہوا تھا اور آنکھیں سوجی ہوئی جیسے کہ بہت رویا ہو۔ میں اس کی طرف لپکی۔ کہاں رہے سارا دن …؟ وہ خاموش بس میری طرف دیکھتا رہا پھر میرا ہاتھ پکڑ کر لان میں پھولوں کی کیاری کے پاس بیٹھ گیا۔
جہاں ہم دونوں اکثر بیٹھا کرتے تھے اور باتیں کیا کرتے تھے۔ اس پھولوں کی کیاری کے ساتھ ہماری بہت سی یادیں وابستہ تھیں۔ بتائو کیا ہوا ہے ؟ میں نے ایک بار پھر پوچھا۔ کچھ دیر چپ رہنے کے بعد اس نے پوچھا۔ کیا تم نے ذیشان کیلئے ہاں کردی؟ نہیں تو مگر … ! ہاں کر دو۔ وہ بہت اچھا لڑکا ہے۔ تم کو خوش رکھے گا۔ تمہیں پسند کرتا ہے وہ! اس نے ایک سانس میں ہی کہہ ڈالا۔ نہیں… میں نہیں کر سکتی۔ میں نے جلدی سے کہا۔ کیوں ! کیا تم کسی اور سے پیار کرتی ہو؟ نہیں نہیں پتا نہیں! میں اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔ گویا بہت سے سوال ہوں اس کے پاس۔ اور وہ بھی ایسے دیکھ رہا تھا جیسے بہت کچھ کہنا چاہتا ہو مگر کوئی روک رہا ہو۔ بالآخر میں نے پوچھ لیا۔ کیا بات ہے عدیل ! تم کچھ کہنا چاہتے ہو مجھ سے ؟ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ ہاتھ سے آنکھوں کو رگڑ کر بولا۔ ہاں ! بہت کچھ کہنا تھا پر اب نہیں ! کیوں؟ اب کیوں نہیں؟ بس تم شادی کیلئے ہاں کرو، وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا۔
یہ کہتے ہی وہ میرا ہاتھ چھوڑ، اٹھ کر کمرے کے اندر چلا گیا۔ مجھے ایسے لگا جیسے سب کچھ ختم ہو گیا۔ کچھ تھا میرے پاس جو نہیں ہے اب ! اس رشتے پر دادی اور میرے والدین مطمئن تھے۔ پھوپھو بہت خوش تھیں اور ذیشان بہانے بہانے سے تین بار کچن میں چکر لگا چکا تھا جہاں میں دادی جان کی فرمائش پر کھیر بنارہی تھی لیکن انوشے چپ تھی۔ وہ کچھ بھی نہیں بول رہی تھی۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ جائو اور جا کے ذیشان سے اپنے دل کی بات کہہ دو۔ پر وہ نہ مانی۔ کہنے لگی۔ وہ مجھ سے نہیں، تم سے پیار کرتا ہے اور تم چاہتی ہو میں اس سے اپنے لئے پیار کی بھیک مانگوں؟ وہ نہ سمجھی اور مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں، کس سے بات کروں، اوپر سے مجھے عدیل کی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ پتا نہیں اسے ہو کیا گیا تھا۔ آج پھر وہ صبح سے گھر پر نہیں تھا۔ جانے کہاں جاتا تھا۔ میں جانے انجانے بھی سارا دن اسے ڈھونڈتی پھری۔
تین دن گزرتے دیر نہ لگی۔ منگنی کی شام آگئی۔ انوشے خود مجھے رسم منگنی کیلئے تیار کرنے لگی۔ لاکھ کوشش کے باوجود وہ خوش نظر نہیں آرہی تھی۔ رسم منگنی کے وقت عدیل بالکل میرے سامنے کھڑا تھا لیکن اس کی نظریں نظریں مجھ پر نہیں ذیشان پر تھیں۔ وہ رشک بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ تقریب کے دوران پھوپھونے ایک اور فرمائش کر دی۔ کہنے لگیں۔ بھئی مجھ سے اب اور انتظار نہ ہو گا، آپ مجھے شادی کی تاریخ دے دیں۔ بابا نے کہا۔ جب چاہو آ کر لے جائو اپنی بہو کو اب یہ ہمارے گھر تمہاری امانت ہے ۔ تبھی ایک ماہ بعد کی تاریخ کا تعین ہو گیا۔ میری حالت تو ایسی تھی کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں …! جانے کیا ہو گیا مجھے کہ ہر وقت کھوئی کھوئی سی رہنے لگی۔ ایک مہینہ ایسے گزر گیا۔ تیاریاں مکمل ہو گئی تھیں۔ اس دوران میرا بی۔اے کارزلٹ آگیا جبکہ انوشے جو میری کلاس فیلو بھی تھی، وہ سیکنڈ اور میں نے فرسٹ پوزیشن لی تھی۔ مجھے کوئی خاص خوشی نہ ہوئی لیکن جب انوشے نے رزلٹ دیکھا تو کہنے لگی۔ دیکھو میں ایک بار پھر تم سے ایک قدم پیچھے رہ گئی۔ یہ بات اس نے کچھ اس طرح یاسیت سے کہی کہ مجھے محسوس ہوا کہ میں بہت غلط کر رہی ہوں۔ مجھے ذیشان سے شادی نہیں کرنی چاہئے۔
سوچتے سوچتے شادی میں دو دن رہ گئے۔ بالآخر میں نے فیصلہ کر لیا۔ رات آٹھ بجے کے قریب میں نے ذیشان کو چھت پر بلایا اور کہہ دیا دیکھو شانی! میری بات غور سے سنو۔ انوشے تم سے پیار کرتی ہے۔ کیا کہہ رہی ہو تم … انوشے مجھ سے…! اس نے پریشان ہو کر میری طرف دیکھا۔ ہاں ! تم سے … ! میں نے جواب دیا۔ وہ بچپن سے تم سے محبت کرتی ہے۔ اور میں یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ تم سے محبت کرتی ہے، کیسے شادی کر سکتی ہوں تم سے ! لیکن ہو بھی کیا سکتا ہے۔ میں تو تم سے محبت کرتا ہوں وہ بھی بچپن سے … ایشان نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ میں نہیں جانتی۔ وہ میری پیاری دوست ہے۔ اس ایک ماہ میں اس نے مجھ سے صرف تین بار بات کی ہے۔ وہ جو ایک منٹ مجھ سے دور نہ رہتی تھی، میں نے اسے کھو دیا ہے شان ! اور شاید بہت کچھ کھو دیا ہے میں نے ! میں نے کھوئے کھوئے انداز میں کہا۔ ذیشان نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ اب کچھ کروشان … میں کچھ نہیں کر سکتا۔
اب شادی میں دو دن رہتے ہیں، میں کیا کروں۔ اور ویسے بھی میں اس سے پیار نہیں کرتا۔ میری نظریں تو ہمیشہ تم پر لگی تھیں۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑنا چاہا، تبھی میں تیزی سے نیچے جانے کو مڑی … کیا دیکھتی ہوں انوشے زینے میں کھڑی میری باتیں سن رہی ہے۔ میرے تو ہاتھ پائوں پھول گئے۔ تم کیا سمجھتی ہو میں اس کا خیرات میں دیا پیارے لوں گی ؟ ہر گز نہیں۔ جب وہ مجھ سے پیار ہی نہیں کرتا تو کیا فائدہ میں جب کبھی اس کی آنکھوں میں دیکھوں گی، مجھے تم نظر آئو گی۔ میں اس سے شادی کبھی نہیں کر سکتی۔ چاہے تم اس سے شادی کرویا نہ کرو۔ اور ہاں ! یہ کیا کہہ رہی تھیں تم کہ تم نے مجھے کھو دیا؟ وہ میرے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے بولی۔ میں ابھی بھی تمہارے پاس ہوں، ویسی ہی ہوں۔ بس کچھ وقت تو لگے گا پھر ٹھیک ہو جائوں گی میں…! اب تم آرام سے سو جائو۔
اگلے دن مہندی تھی اور عدیل خاندان کی تمام عورتوں اور مردوں کے درمیان بیٹھا ڈھولکی بجارہا تھا۔ میرے ہاتھوں پرذیشان کے نام کی مہندی لگ رہی تھی پر میں اب بھی خوش نہ تھی۔ مہندی کی رسم ختم ہونے کے بعد سب اپنے کمروں میں جارہے تھے تبھی میں نے عدیل کو لان میں جاتے دیکھا۔ وہ پھولوں کی کیاری کے پاس بیٹھا تھا، جب میں نے اسے کہتے سنا۔ میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں، بہت چاہتا ہوں میں تمہیں ! بچپن سے لے کر آج تک میں نے صرف اور صرف تم کو ہی تو چاہا ہے، پر میں کیا کروں تم میری بھی نہیں ہو سکتیں۔ شاید میں نے بہت دیر کر دی تم کو یہ بات بتا نہ پایا کہ پھو پھونے مجھ سے پہلے تم کو مانگ لیا۔ یا پھر اوپر والے نے تمہیں میری قسمت میں لکھا ہی نہیں تھا۔ میری سب سے بڑی ایک ہی آرزو تھی۔ تمہیں پالینے کی آرزو! اگر عید کی صبح پھوپھو تمہارا ہا تھ نہ مانگتیں تو میں تم سے اپنی محبت کا اظہار کرنے ہی والا تھا، پر اب نہیں… اب تم میرے دوست کی ہم سفر بننے جارہی ہو۔ ربیعہ ! کاش تم میرے آئینے کے چاند کو سمجھ پاتیں۔ کاش ربیعہ ! میں اس کے پیچھے کھڑی یہ سب سن رہی تھی … دم بخود رہ گئی۔ جیسے کسی نے میرے سر پر ہتھوڑا مار دیا ہو۔ اور مجھے یہ تک سمجھ نہ آرہا ہو کہ میں کھڑی کہاں ہوں۔
میں اس وقت اپنے آپ کو دنیا کی بے وقوف ترین لڑکی سمجھ رہی تھی۔ خاموشی سے اس کو مخاطب کئے بغیر میں اپنے کمرے میں چلی آئی۔ تب میں سوچ رہی تھی کیا میں بھی عدیل سے محبت کرتی ہوں یا نہیں ..؟ شاید ایسا ہی تھا۔ میں اسے دو منٹ کیلئے بھی اپنی نظروں سے اوجھل دیکھتی تو دل میں بے چینی ہونے لگتی۔ صبح سویرے کبھی اس کا چہرہ نہ دیکھ لیتی تو یوں لگتا کہ دن اچھا نہیں گزرے گا تو یہ سب کیا ہے آخر! محبت ہی تھی نا…؟ سوچوں میں غلطاں تھی کہ اب کیا کروں۔ اچانک ذہن میں ایک خیال آیا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ یہ بھی نہ دیکھا کہ رات کے دو بج رہے ہیں۔ امی، بابا کے کمرے پر دستک دی۔ اس وقت کون ہے ؟ امی نے کہا۔ میں ہوں ربیعہ ! دروازہ کھولئے۔ خیر تو ہے بیٹا… امی نے گھبرا کر دروازہ کھول دیا۔ میں نے والدین کو ساری الجھن بتا کر حقیقت سے آگاہ کر دیا۔امی، بابا دونوں ہی پریشان ہو گئے۔ یہ کیا کہہ رہی ہو ربیعہ بیٹی …؟ میں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔ پلیز آپ لوگ کچھ کریں۔ جو جس کو پسند کرے، اس کی شادی اس سے ہونی چاہئے۔انوشے ذیشان کو اور عدیل مجھے ! اس سے آگے نہ بول سکی۔
اچھا! تم اب سو جائو۔ صبح بات کریں گے لیکن نیند کہاں … صبح تک کے چار گھنٹے میں نے کانٹوں پر جاگ کر گزارے۔ صبح ہی بابا نے ساری حقیقت دادی اور پھوپھو کے سامنے رکھ دی۔ انہوں نے پھر شان کو بلایا اور سمجھایا تب اس نے کہا۔ ٹھیک ہے آپ لوگ ربیعہ اور عدیل کی شادی کر دیں، اگر ربیعہ بھی یہی چاہتی ہے۔ یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گیا۔ ربیعہ ہو کہ انوشے … ! میرے لئے تو دونوں برابر ہیں۔ پھو پھونے افسردگی سے کہا۔ ذیشان نے عدیل کو فون کیا … کہاں ہو؟ مارکیٹ میں کچھ لینا تھا مجھے ! اچھا تو پھر جلدی گھر پہنچو اور ہاں اپنے سائز کی شیروانی بھی لیتے آنا۔ ارے یہ کیا کہہ رہے ہو تم…! میں تمہاری شادی پر شیروانی پہن کر کیا کروں گا۔ ویسے بھی بہت اچھا کرتا لے چکا ہوں۔ میری نہیں، بے وقوف تمہاری شادی کی بات کر رہا ہوں۔ کیا مطلب یار … ! کھل کر بتائو، میں سمجھا نہیں۔ وہ الجھ گیا۔ تم جیسا احمق میں نے نہیں دیکھا یار تم ربیعہ سے شادی چاہتے تھے اور ایک بار بھی اسے یا مجھے اشارتا بھی نہ کہا.. اب ہم کو خواب تو نہیں آتا کہ تم کیا چاہتے ہو۔ تمہارے دل میں کیا ہے۔ یار ! تم کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ربیعہ نے مجھے کبھی نہیں کہا کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ ایسا کہنا نہیں پڑتا صرف محسوس کرنا پڑتا ہے۔
تم لڑکے ہو کر اس سے دل کی بات نہ کر سکے ، وہ تو پھر لڑکی ہے۔ اب اتنے مہان نہ بنو کہ میرے لئے قربانی دے کر مجھے ولن ہی بنا دو۔ بس اور کوئی بات نہیں کرنی، بس شیروانی لے لو اوریہ لو ربیعہ سے خود بات کر لو۔ آئینہ دے دیا اور سمجھایا نہیں کہ آخر یہ چاند کا معاملہ کیا ہے۔ میں ساری چاند رات سوچتی رہی کہ یہ چاند کا معاملہ کیا ہے۔ سوچا صبح تم سے پوچھوں گی۔ تم تو جانتے ہو کہ میں ازل کی بے وقوف ہوں اور صبح تو گھر کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ اگر کل رات میں تمہاری اس پھول کی کیاری سے کی ہوئی باتیں نہ سنتی تو کبھی اپنے دل کی آواز اور اس آئینے میں اپنا چہرہ نہ دیکھ پاتی۔ اور تم نے تو ویسے ہی مجھے کچھ نہ بتانے کی قسم اٹھائی ہوئی ہے۔ اچھا! اب شیروانی لے آنا۔ انوشے چھت پر تھی۔ فون بند کر کے میں اس کے پاس گئی۔ اسے بہت منایا کہ وہ ذیشان سے شادی کرلے۔ پر وہ نہ مانی۔ ضد کی پکی تھی شاید اپنی جگہ وہ بھی ٹھیک تھی۔ نیچے آئی تو روم میں نیوز چینل پر بریکنگ نیوز چل رہی تھی جبکہ وہاں کوئی موجود نہ تھا۔
پتا نہیں کون ٹی وی آن کر کے چلا گیا۔ میں ریموٹ اٹھا کر بند کرنے لگی تو ایک دم ساکت رہ گئی۔ لاہور کے کسی بڑے شاپنگ مال میں آگ لگی تھی، آٹھ لوگ جان سے گزر چکے تھے جبکہ پچاس زخمی تھے۔ اف! پاکستان کے حالات جانے کب ٹھیک ہوں گے ۔ جو لوگ مر چکے تھے ، ان کی ڈیڈ باڈیز باہر لائن میں رکھی تھیں۔ یہ چہرہ یہ چہرہ نہیں یہ وہ نہیں ہو سکتا۔ سب نیچے آگئے۔ کیا ہوار بیعہ . امی . امی . یہ دیکھیں۔۔۔ یہ نہیں ہو سکتا ! میری زبان لڑکھڑانے لگی … تبھی میں دھڑام سے گر گئی۔ کسی کو یقین نہ آئے گا کہ وہ بے ہوشی ایک سال تک رہی۔ میں جب کومے سے بیدار ہوئی تواپنے کمرے کو اسپتال کی مانند پایا۔ امی میں کہاں ہوں …؟ تم اپنے کمرے میں ہو میری بچی … تم ٹھیک ہو گئی ہو۔ ان کی خوشی دیدنی تھی لیکن اگلے ہی لمحے وہ اداس ہو گئیں۔ کیونکہ عدیل اس دنیا میں نہ رہا تھا۔ اسے مارکیٹ میں آگ کے حادثے نے نگل لیا تھا اور اس حادثے کو اب ایک سال گزر چکا تھا۔ بیٹی ! ہماری بات مان لو۔ ہم نے بہت دکھ دیکھ لیا۔ ہماری بات مانو گی، تبھی عدیل کی روح کو بھی سکون مل جائے گا۔
ماں، باپ، پھوپھو اور بوڑھی دادی کی خاطر بالآخر مجھے سر جھکانا ہی پڑا۔ اور میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئی۔ اب میں اور ذیشان مل کر عدیل کی یاد تازہ کر لیتے ہیں جبکہ انوشے ایم فل کرنے لندن چلی گئی۔ عدیل چلا گیا مگر اس کی یادیں ہمیشہ ہمارے دلوں میں تازہ رہیں گی۔
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
0 تبصرے