قسمت کا انوکھا کھیل

yum stories

Urdu Font Stories

قسمت کا انوکھا کھیل - سبق آموزکہانی

قسط وار کہانیاں

 
اسٹامپ پیپر کو سلیقے سے تین تہوں میں موڑ کر جب میں ، کمرے میں داخل ہوئی تو بابا جان کو اپنا منتظر پایا اور اس کے ساتھ مجھے امی جان کا جملہ بھی سنائی دے گیا۔ چلتی بھی تو آہستہ ہے۔ آنے میں وقت تو لگے گا۔ گو ساری دنیا کو معلوم تھا کہ میں بچپن میں پولیو کا شکار ہو گئی تھی جس جس کے باعث میری دائیں ٹانگ چھوٹی رہ گئی تھی ۔ میری چال میں ہلکی سی لنگڑاہٹ آگئی تھی اور مجھ سے بھاگنا تو دور کی بات تیز چلا بھی نہ جاتا تھا مگر امی جان ہر وقت ہر کسی کے سامنے اور ہر موقعے پر میری لنگڑاہٹ پر ایک آدھ جملہ کسے بغیر نہیں رہ پاتی تھیں۔ وہ شاید اور بھی کچھ کہتیں مگر مجھے دیکھ کر خاموش ہوئیں۔

بابا جان نے ہمیشہ کی طرح بہت تپاک سے میرا استقبال کیا اور میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ بابا جان کا رویہ ہمیشہ مجھ سے ایسا ہی والہا نہ رہا مگر صرف رویه . وہ بھی کبھی مجھے، میری ذات یا میری انا کو تحفظ نہ دے سکے۔ جب بھی میں نے ان سے مدد چاہی وہ بڑی شدومد سے مجھے یقین دلاتے کہ وہ میرے مطالبے کے لیے امی جان کو ضرور راضی کرلیں گے اور میرے مطالبے تھے بھی کیا جو بچین میں تو کبھی کیے ہی نہیں کیونکہ اتنی عقل ہی نہ تھی مگر ایک عمر کے بعد چھوٹی چھوٹی خواہشات نے سر اٹھایا کہ اچھے رزلٹ کے باعث جس بڑے کالج میں داخلہ مل رہا ہے وہاں داخلہ لے لوں، کالج کا بلا وجہ ناغہ نہ کروں اور پڑھائی کے لیے دن بھر میں کچھ وقت اور اس دو منزلہ بڑے سے گھر میں میرا کمرا نہ سہی مگر پڑھائی کی جگہ مختص کر لوں جہاں کم از کم میری کتب تو سلیقے سے رہ سکیں۔ 

کچھ ایسے گھریلو کام جو میری توانائی و ہمت سے بڑھ کر تھے، وہ کسی اور کے ذمے ڈال دوں یا پھر اتناہی ہو کہ گھر کا بھی کوئی فرد یا ملازم باورچی خانے میں میری مدد کرے۔گھر کے ڈھیروں کاموں کے ساتھ ساتھ بڑی بھا بھی جو کہ شرعی پردہ کرتی ہیں اور بڑے بھیا کے اصرار پر ان کو گھر کی تقر یباً خالی اور کم استعمال کی جانے والی دوسری منزل میں رہائش دی گئی تھی تا کہ بڑی بھا بھی سکون واطمینان سے کمرے سے باہر بھی بے حجاب رہ سکیں ہمارے ملازم اور گھر کے تمام مرد جو بھابھی کے لیے غیر محرم تھے سب کو سختی سے ہدایات تھیں کہ دوسری منزل پر جانے سے پہلے سیڑھی کے دروازے کو کھٹکھٹا کر جائیں اور بھابی کے جواب کا انتظار کریں۔ ایسے میں چند ہی دنوں میں بھیا، بھابھی کو کھانا، چائے یا کوئی بھی سامان پہنچانے ، دھلے یا میلے کپڑوں کے لینے دینے کی ذمہ داری مجھ پر آپڑی۔ اس کے علاوہ بھی اکثر کئی کام کروانے کے لیے بھا بھی مجھے ہی آواز دیا کرتیں شاید وہ بھی گھر میں میری حیثیت سے واقف ہو چکی تھیں۔

 ویسے تومجھے بھائی کے کام کرنا اچھا لگتا تھا میں اپنی بہنوں کے بھی تو کام کیا ہی کرتی تھی مگر مسئلہ یہ ہوتا کہ ایک سے دوبارہی سیڑھیاں چڑھ اتر کر میری جان پر بن آتی۔ میری دائیں ٹانگ میں بے تحاشا درد ہو جاتا شکایت کی صورت میں یہی کہہ دیا جاتا کہ یہ پیر کا درد کالج جاتے ہوئے کیوں نہیں ہوتا یا پھر کالج کی چھٹی کر کے کم کیا جا سکتا ہے۔ میں ڈر کر چپ کر جاتی اور ہر روز ہی مجھے دو سے تین بار اوپر نیچے کرنا ہی پڑتا۔ میں نے بابا جانی کو بہت بار کہا کہ کسی طرح امی جان سے کہہ کر، بھابھی کی خدمت مجھے معاف کروادیں مگر ہمیشہ ہی ایسا ہوا کہ بابا مجھے امید دلا کر خاموشی اختیار کر لیتے اور میں تھک ہار کر تکلیف سہتی رہتی۔ یہ بھی میری بے خبری تھی کہ میں بابا جان کے اس والہانہ رویے کو اپنے لیے محبت سمجھتی تھی اور اب جا کر حقیقت کا اندازہ کر سکتی تھی۔ خیر گزرگئے وہ دن بھی۔

مجھے دیکھ کر امی جان نے کھسک کر دیوان پر میرے لیے جگہ بنائی مگر میں ان کو نظر انداز کر کے آگے بڑھ کر بابا جان کی میز کے سامنے رکھی واحد کرسی پر بیٹھ گئی ۔ جس کے باعث امی جان کی طرف میری پیٹھ ہوگئی لہذا میں امی جان کا رد عمل نہ دیکھ سکی مگر مجھے اندازہ تھا کہ میری اس حرکت کو امی جان نے محسوس کر کے ضرور تاسف سے سر ہلایا ہو گا۔ ان کے تو وہم و گمان میں بھی مجھ سے اس رویہ کی امید نہ ہوگی کیونکہ ان گزرے چند مہینوں پہلے اگر امی جان نے مجھے یوں اپنے برابر جگہ دی جاتی تو میں تو خوشی سے پاگل ہی ہو جاتی ۔ کچھ ایسا ہی شوق تھا مجھے ان کے ساتھ ساتھ رہنے کا مگر وہ بھی ایک دور تھا جب امی جان نے مجھے بھی اس طرح کی محبت یا عزت دینا گوارا نہ کیا تھا۔ یا پھر یوں ہے کہ میرے پاس خود بھی اتنا وقت ہی نہ ہوتا تھا کہ اپنی دونوں بڑی بہنوں کی طرح ان کے پہلو سے لگ کر بیٹھوں۔

 بچپن میں تو خیر ہمت نہ ہوتی تھی کہ امی جان سے ایسی کوئی امید کروں مگر جب بڑی دونوں بہنوں کی ایک ساتھ ایک ہی گھر میں یعنی بڑی پھوپھی کے دونوں بیٹوں سے شادی ہوگئی اور وہ ہر ہفتے کی صبح سے شام تک کے لیے امی جان سے ملنے آتیں تو ایسا لگتا کہ جیسے کسی نے گوند لگا کر تینوں کو ساتھ بٹھا دیا ہو۔ میں تینوں کے درمیان اپنی جگہ بنانے کے محبت و عقیدت نچھاور کرتی ، خدمت کی ہر حد پار کر کرتی ان دونوں کے لیے چائے ، ناشتا، کھانا لگاتی اس امید میں رہتی کہ شاید کسی وقت دونوں بڑی بہنوں کو مجھ سے بھی دو باتیں کر لینے کا دل ہو جائے ۔ وہ مجھ سے بھی کہیں کہ مجھے یاد کرتی ہیں مگر اس کے بالکل برعکس یوں ہوتا کہ میں باورچی خانے میں تینوں کے قہقے سن رہی ہوتی، مگر جیسے ان کے سامنے میز پر ناشتا پانی لگاتی کمرے میں خاموشی چھا جاتی اور جب تک میں کمرے میں رہتی تینوں سپاٹ چہرے لیے ادھر ادھر دیکھتی رہتیں۔ کچھ دنوں بعد مجھے لگنے لگا کہ وہ تینوں میری غیرموجودگی میں بھی ایسی خاموش رہتی ہیں بس میرے ہی ہاں کان بجتے ہیں۔

 میرے بڑے بھائی بہنوں کے ہاں اولاد ہوتے گئی اور گھر میں خوب رونق لگنے لگی مگر جھوٹ کیوں بولوں ۔ یہ رونقیں میری ناتو اں ذات کے لیے با قاعدہ زحمت بننے لگی تھیں۔ کیونکہ ان رونقوں کو کھلاناپلانا ، نہلانا دھلانا ، سلانا، بیماری میں تیمار داری، سب میرے ذمہ لگ گیا تھا۔ اکثر ہی دونوں بہنیں کبھی بھی کسی بھی وقت اپنے بچے میرے ذمہ چھوڑ جاتیں اور ان کی دیکھ بھال میں کوئی میرا ہاتھ نہ بٹاتا اور تب نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے اپنے والدین کی اپنے لیے اس طرح کی ناانصافیوں کا اندازہ ہونے لگا تھا۔ دیکھو بیٹا ! خدا گواہ ہے ہم نے کبھی تم میں اور اپنے بچوں میں فرق نہیں کیا۔ دنیا جانتی ہے کہ تم ہمیں اپنے بڑے پانچوں بچوں کی طرح ہی عزیز ہو۔ جو ان کو کھلایا، وہیں تم کو کھلایا جو ان کو پہنایا، ویسا ہی تم کو پہننے کے لیے دیا تم سمجھ رہو ہو ناں؟ حالاں کہ اگر میرا مرحوم چھوٹا بھائی اور تمھارا باپ بھی زندہ ہوتا تو شاید کبھی بھی اپنے بیٹی سے یہ بات نہ کر پاتا مگر میں اسے یہی سمجھاتا ، ہم ان میں سے نہیں جو اپنی عزت و وقار کی خاطر اپنی لڑکیوں کو جہنم میں سلگنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ مانا ہم سے غلطی ہوئی۔

تمہاری شادی کے وقت یہ لوگ جیسے نظر آرہے تھے، ویسے بالکل نہیں نکلے مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں تم کو اسی طرح اس جہنم میں جھونکے رکھوں۔ نہیں نہیں یہ میں نہیں کر سکتا آخر مجھے اپنے مرحوم بھائی کو بھی جواب دینا ہے چاہے دنیا کچھ کہے یہ رشتہ دار، محلے والے، دوست احباب مجھے کسی کی بھی پروا نہیں ہے۔ میں نے اور تمہاری امی جان نے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ بس اب تم کو واپس نہیں بھیجنا۔ ارے تم ہم پر بھاری تھوڑی ہو غضب خدا کا ان لوگوں نے تو تم کوالا وارث ہی سمجھ لیا ہے مگر اب بس بہت ہو گیا بھی اب تم یہیں رہو اور میں تو سمجھتا ہوں کہ جلد از جلد ۔ بابا جان کو کبھی کبھار ہی غصے میں دیکھا گیا تھا اور وہ بھی ان کے دفتری معاملات کا شاخسانہ رہا، مگر آج شاید زندگی میں پہلی بار ان کو اپنے لیے یوں گرجتے دیکھ کر مجھے ان پر بے تحاشا پیار آ جانا چاہیے تھا مگر ایک بار پھر مجھ سے ایسا کچھ سر زد ہو گیا کہ بابا جانی اپنی بات نہ کر سکے اور چند لمحے مجھے غور سے دیکھنے کے عمل بعد ان کی تیوری پر تل پڑ گئے۔ یہ تم کسی طرح میری باتوں پر منہ بنارہی ہو؟تمہیں لگ رہا ہے میں مذاق کر رہا ہوں؟ یہ بے وقوفوں کی طرح مسکرائے چلی جارہی ہو؟بابا جانی نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی آواز کی گرج کو بر قرار نہیں رکھ سکے تھے، صاف محسوس ہو رہا تھا کہ وہ میرے رویے سے خائف ہو چکے ہیں ۔

 میرے پیچھے بیٹھی امی جان نے بابا کو میرے سامنے یوں کمزور پڑتے دیکھ کر یقیناً پہلو بدلا ہو گا۔ یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں کہ بھول جاؤں جب تمہارے لیے یہ رشتہ آیا تھا تب تم نے ہی تو کہا تھا کہ تم کو یہ لوگ پسند نہیں آ رہے۔ اور تم آگے پڑھتا چاہتی ہو اور ہمیں چھوڑ کر جانا نہیں چاہتیں، کتنا روئی تھیں تم یاد ہے ناں؟ بس ہم سے ہی غلطی ہوگئی ۔ دراصل کچھ رشتہ داروں اور میل ملاپ والوں نے ہمارے گھر میں تمہاری رہائش اور تمہارے مستقبل پر رائے زنی شروع کر دی تھی اور ایسے مشہور کرنے لگے تھے جیسے ہم تمہارے تایا تائی نہیں بلکہ دشمن ہوں ۔ لہذا میں نے ہی تمہاری خواہش کو رد کر کے تمہارے بابا جان سے کہا کہ جو بھی رشتہ آرہا ہے، جیسا بھی آ رہا ہے آپ بس اس کی شادی کر کے اسے رخصت کریں۔ میں جانتی ہوں کہ تم نے تو یہی سمجھا ہوگا کہ اس میں ہمارا مقصد تمہارے مرحوم باب کی جائیداد ہڑپ کرنا تھا بلکہ دیکھو ناں اچھا ہی ہوا کہ ہم نے اس وقت تمہاری شادی سادگی سے کر کے رخصت کر دیا تھا۔ ان لوگوں کو اگر پتا چل جاتا کہ تم پیسے والی ہو تو ابھی تک تو تم سے بہت کچھ کھوا چکے ہوتے اور پھر اب جب کہ ہمیں اپنی غلطی کا اندازہ ہو گیا ہے اور تمہارے بابا جان تمہاری ہی خواہش کے مطابق فیصلہ کر رہے ہیں تو ایسا رد عمل کیوں دکھا رہی ہو؟ یہ تو میں مان نہیں سکتی کہ اتنے سے دنوں میں وہ لوگ تمہیں ہم سے زیادہ عزیز ہو گئے ہیں اور اس سے پہلے تو کبھی تم نے ہماری کسی بات پر اقرار کرنے میں اتنا وقت نہیں لیا تو پھر آخر تمہارے دل میں کیا چل رہا ہے؟ امی جان اپنی حیرت ظاہر کیے بغیر نہ رہ سکیں۔ حالانکہ حیرت میں تو میں تھی کہ زندگی میں پہلی بار مجھے اس قابل سمجھا جارہا تھا کہ میری پسند ناپسند کے بارے میں بات کی جارہی تھی۔ میرے انکار یا اقرار کا انتظار کیا جا رہا تھا۔

  میں نے گہری نظروں سے اپنے منہ بولے والدین کو باری باری دیکھا۔ یہ لوگ وہ تھے جنہوں نے کبھی میرے بھلے کی کوئی بات یا کام نہیں کیا تھا کبھی زندگی میں میرے حق میں کچھ ہوا بھی تو صرف اور صرف اللہ تعالی کی مرضی سے۔ جیسے کسی وقت خود خداوند تعالیٰ کی قدرت جوش مار جاتی اور ان دونوں کے منہ سے میرے حق میں فیصلہ صادر کروا دیا جاتا ہو۔ ایسا ہی ایک فیصلہ میری شادی کا تھا۔ وہ خاندان جس کو غریب، نادار، بیکار سمجھ کر اور وہ لڑکا جس کو کمتر، نا کام اور نا اہل سمجھ کر مجھے روانہ کیا گیا تھا ان چند ہی مہینوں میں معاشرے میں کافی بہتر انداز میں اپنی جگہ بنا رہا تھا۔

مزید پڑھیں

میرے سسر صاحب کی برسوں سے عدالتی کارروائیوں میں پھنسی پرکھوں کی جائیداد ان کو واپس مل چکی تھی۔ میرے شوہر کی نوکری ایک اچھی اور بڑی فرم میں ہو گئی تھی ، میری نند کا ناراض شوہر اپنی بیوی کو عزت سے واپس لے جا چکا تھا اور میرا دیورسی ایس ایس کے امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا تھا۔ ایک کے بعد ایک خوش خبری کی مٹھائیاں بانٹتے میری ساس صاحبہ جس سے بھی ملتیں ، میری ہزار ہا تعریف کرتی جاتیں اور ہر بار احسان کی وہ کہانی ضرور سناتیں کہ کسی طرح جوانی میں میرے مرحوم والد نے سسر صاحب کے مشکل وقت میں جان اور پیسے سے ان لوگوں کی مدد کی تھی۔ حالانکہ اس گھر میں ان سب کے درمیان چند ہی دن رہ کر مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس ذرا سے احسان کے بدلے مجھ جیسی کو اپنے خوش شکل صحت مند اور توانا بیٹے کے لیے پسند کر کے انہوں نے دراصل مجھ پر احسان کیا تھا ۔ اس قدر گرمی ہے اس پر ان درندوں کو دیکھو کہ سب کے سب اے سی والے کمرے میں گھسے بیٹھے ہیں اور تم کو باورچی خانے میں جھونکا ہوا تھا۔ اوپر سے اپنی بیاہی بیٹی کو بھی بلا کر بٹھایا ہوا ہے۔ ارے تب ہی تو اس کا شوہر ناراض رہتا تھا، چار دن سکون سے سسرال میں گزارتی نہیں کہ بھاگ کر میکے آجاتی ہے اور بھئی اب تو مفت کی نوکرانی جوملی ہوئی ہے سارے کام تو جیسے خود بخود ہو جاتے ہیں۔ ارے میں جانتی ہوں پورے گھر کی ذمہ داری تم پر ڈال کر سب مزے کر رہے ہیں۔

 میں امی جان کے اپنے لیے ہمدردی کے الفاظ سن کر مسکرا کر گویا ہوئی۔ شادی کے چند دنوں بعد ہی میری فرمائش پرسسر صاحب نے اپنی کتب کی الماری سے مجھے ایک کتاب پڑھنے کے لیے دی ۔ وہ ایران کے صوفی فلسفی شاعر فرید الدین عطار کی کتاب منطق الطیر تھی۔ دراصل اس کتاب کا مقصد قاری کو فلسفہ حیات دینا تھا ۔اس کتاب کی رو سے ہر ذی روح جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور محبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اپنی پوری زندگی میں سات طرح کے حالات سے گزرتا ہے، ان حالات کو مختلف وادیوں کے نام دیے گئےتھے۔ ان سات وادیوں میں ایک وادی حیرت تھی۔ محبت کی اس وادی میں پہنچ کر ہر بات ہر چیز حیران کرنے لگتی ہے۔ ہر طرف ہر وقت ایسا کچھ ہوتا ہے جو پرانی اورسیکھی ہوئی ہر بات کی نفی کر دیتا ہے اور نئے سرے سے سب کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔ میں اپنے والدین کے سامنے آج تک اس قدر اعتماد اور اطمینان سے بیٹھ کر اس طرح کی باتیں نہ کر سکی تھی۔ مجھے خود پر حیرت بھی ہو رہی تھی اور فخر بھی۔ میں نے چند لمحے سانس لینے کے دوران رک کر بابا جان اور امی جان کو بغور دیکھا۔ آج وہ دونوں میرے آگے دم سادھے بیٹھے تھے۔

میں نے شادی کے چند ہی دنوں میں وادی حیرت کے کئی چکر کاٹ لیے۔ مجھے زندگی میں پہلی بار خاندان میں باہمی ہمدردی، محبت، انسیت، انسانیت اور کئی طرح کے ایسے جذبوں کا پتا چلنا شروع ہوا ۔ مجھے پتا چلا کہ ایک باپ اپنے بچوں کو کس طرح آگے بڑھنے کی ہمت دیتا ہے۔ نئی راہ دکھاتا ہے۔ ایک ماں کیسے اپنے تمام بچوں میں تفریق کیے بغیر سب کو ایک جیسی محبت دیتی ہے اور بھائی بہن کے درمیان محبت کا جذبہ بیدار کرتی ہے۔ چھوٹا بھائی کیسے اپنی محدودی آمدنی میں، اپنی سگی بہن کے ساتھ ساتھ اپنے بڑے بھائی کی بیوی کے لیے بھی چھوٹے موٹے تحائف لاتا ہے۔ نند کس طرح بھابھی کے ساتھ ہر کام میں ہاتھ بٹاتی ہے۔ ساس کو بہو کی نا ساز طبیعت کا کس قدر اندازہ رہتا ہے اور کیسے انجانے اور را از دارانه انداز میں، خاندان کا ہر فرد ایک دوسرے کی خوشی اور طمانیت کے کام کرتا جاتا ہے ایسے خاندان کا ایک فرد جب کسی لڑکی کو بیاہ کر اپنی زندگی کا حصہ بناتا ہے تو اپنے پورے خاندان کو ملا کر بغیر جتائے بتائے ، وہ اپنی بیوی کو ہر طرح سے خوش و مطمئن رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ امی جان ! آپ کو اس دن مجھے باورچی خانے میں کام کرتے دیکھ کر افسوس ہوا مگر میں افسردہ بالکل نہیں تھی کیونکہ وہ ایک خوشی کا دن تھا۔ دیور کو ایک بڑا سرکاری عہدہ ملنے کی خبر ملی تھی اور پورا خاندان مل کر اس خوشی کو منانا چاہتا تھا۔

 نند اپنے شوہر کے ساتھ دن میں جا کر اپنے چھوٹے بھائی کے لیے کچھ تحائف لائی تھی۔ ساسں صاحبہ اور سسر صاحب اپنے بیٹے کو مسلسل پیار بھری نصیحتیں کر رہے تھے اور شوہر صاحب آفس سے جلدی چھٹی لے کر آنے کا کہہ کر گئے تھے۔ میں نے بھی اپنی خدمات پیش کیں کہ آج دو پہر کا کھانا دیور کی پسند کا میں بناؤں گی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ آج اگر اپنی مرضی اور خوشی سے میں گھر میں زیادہ کام کر بھی لوں گی تو اگلے دن مجھے میری ساس صاحبہ ضرور آرام دیں گی۔ حالانکہ آج کل میری یونی ورسٹی دو ہفتوں کے لیے بند ہے۔ جی ہاں امی جان میرے جابر اور چالاک سسرالیوں نے بہت چاؤ سے مجھے یونی ورسٹی میں داخلہ دلوایا ہے۔ تو ان چھٹیوں میں بھی میرے حصے کے کام میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ۔ ہاں میرے امتحان چل رہے ہوتے ہیں تو مجھ سے میرے حصے کے کام بھی نہیں لیے جاتے ہیں۔ میں تھک جاتی ہوں یا پاؤں کی تکلیف میں مبتلا ہوتی ہوں تو بھی سست کاہل یا کام چور جتانے کے بجائے سارا دن آرام کرنے کا کہا جاتا ہے ۔

 اصل بات تو یہ ہے کہ جو محبت، خلوص اور اپنائیت مجھے آپ لوگوں سے ملنی چاہیے تھی اس کے نہ ملنے کا اندازہ مجھے سسرال میں جاکر ہوا۔ آپ لوگ اس بات پر پریشان نہیں ہیں کہ میں پریشان ہوں بلکہ اس بات سے پریشان ہیں کہ میں پریشان کیوں نہیں ہوں؟ مجھے ان چند ہی مہینوں میں پتا چلا ہے کہ ماں باپ، بھائی بہن کے لیے بھاگ بھاگ کر کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ محبّت خلوص انسیت اس طرح بھی دکھائی جاتی ہے اور جہاں یہ اعتبار کروا دیا جائے کہ محبت کا جواب محبت سے ہی ملے گا تو چاہے وہ سسرال ہی کیوں نہ ہو سکے۔ ماں باپ ، بھائی بہن کی جگہ ساس سسرنند دیور ہی کیوں نہ ہوں، ان کی خوشی کے لیے جی جان ایک کرنے میں بالکل بھی کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا ۔ میں نے رک کرتایا اور تائی کو دیکھا ان لوگوں کو کبھی میں بڑے چاؤ اور محبت سے ان کے بچوں کی طرح بابا جان اور امی جان پکارتی تھی مگر ان لوگوں نے مجھے کبھی اپنی اولاد کے برابر نہیں سمجھا۔

 شاید آج کے بعد میں ان لوگوں سے ایک بیٹی کی طرح ملنے بھی نہ آسکوں لہذا ضروری تھا کہ ان کو مکمل طور پر آئینہ دکھا کر جاؤں۔ میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑا اسٹامپ پیپر تایا جی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ تایا جی اور تائی جی ! آپ لوگ جس بات سے گھبرا رہے ہیں، وہ میرے سسر صاحب اور شوہر صاحب مجھے یہاں بھیجنے سے پہلے ہی سمجھا چکے ہیں۔ بقول میرے سسر صاحب اگر ان کے پرکھوں کی جائیداد نہ بھی ملی تو بھی وہ کبھی میرے ذریعے آپ لوگوں سے میرے مرحوم والد کی جائیداد کا حصہ مانگنے کا نہ کہتے ۔ شاید آپ لوگوں کو اس بات کا خوف ہے کہ اب کیونکہ میرے سسرال والے با حیثیت ہو چکے شاید آپ سے باقاعدہ عدالتی کارروائی کے ساتھ جائیداد نکلوا لیں گے۔

 لہذا اس اسٹامپ پیپر پر میں نے آپ کو اپنے مرحوم والد کی جائیداد رکھ لینے کا لکھ دیا ہے۔ اور اس پر گوہان کے طور پر سسر صاحب اور شوہر صاحب کے دستخط بھی موجود ہیں۔ تایا جی کو جلدی سے اسٹامپ پیپر میرے ہاتھ سے لے کر پڑھتے دیکھ کر مجھے تھوڑی تکلیف ہوئی شاید دل میں امید باقی تھی۔ عطار کی سات وادیوں میں آخری وادی عشق ہے جہاں پہنچ کر انسان دنیا کی دولت و آسائش سے بے پروا ہو جاتا ہے اور صرف محبت کرتا ہے۔ اسٹامپ پیپر پڑھ کرتایا جی بخود ہو کر مجھے تکنے لگے تھے۔ میں ایک بار پھر مسکرادی۔ میں اس دور سے گزرچکی تھی لہذا اچھی طرح تایا جی کی حالت سمجھ رہی تھی، وادی حیرت اب ان پر طاری ہو چکی تھی۔

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for kids, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu font stories

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے