عقل مند دلہن - مکمل اردو کہانی

Urdu Stories

Urdu Font Stories

عقل مند دلہن - مکمل اردو کہانی

قسط وار کہانیاں

رشتہ ، رشتہ کروانے والی آنٹی کے توسط آیا تھا، سو رامین کے گھر والوں کو فائق کے گھر والوں کے بارے میں ضروری کوائف کے علاوہ کچھ علم نہ تھا۔ پہلی بار فائق کی امی ابو اور چھوٹی بہن رامین کے ہاں آئے تھے۔ پہلی ملاقات باہمی تعارف اور رسمی سے موضوعات پر گفتگو تک محدود رہی ہے تھی بلکہ زیادہ گفتگو رامین کے بابا اور قائق کے ابو کے مابین ہوئی۔ خوش قسمتی سے دونوں ایک ہی سیاسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ نظریات کی ہم آہنگی نے بہت جلد دونوں کے بیچ تکلف کی دیوار گرادی۔ حالات حاضرہ پر سیر حاصل تبصرہ کرنے کے بعد پر تکلف چائے پی اور الوداعی کلمات ادا کر کے اپنی راہ لی۔ ہاجرہ رامین کی امی کو اس میٹنگ کے بے نتیجہ ختم ہونے پر خاصا قلق ہوا۔
 
 اس مہنگائی کے دور میں چائے پر اچھا سا اہتمام کچھ برس پہلے کی ضیافت جتنے پیسوں میں پڑتا تھا۔ ان لوگوں نے تو کھل کر رشتے کے متعلق کوئی بات کی ہی نہیں لڑکے کی ماں تو جیسے گونگے کا گڑ کھائے بیٹھی تھی۔ میں نے ہی لڑکے کے متعلق دو چار سوال پوچھے ۔ رامین جب چائے لے کر آئی تب بھی اس نے تو کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہیں کی نہ ہی رامین سے کسی قسم کے سوال کیے۔ ہاجرہ لڑکے کی ماں کے طرز عمل سے مایوس تھیں ۔ امی لڑکے کی چھوٹی بہن تو اتنی باتونی تھی۔ اس نے سوال کر کر کے میرا سر کھا لیا تھا۔ لڑکے کی امی کے سوالوں کی کوئی کسر رہ گئی تھی کیا ؟ رامین بدمزہ ہو کر بولی۔ ارے وہ تو بچی تھی۔ کیا بتا رہی تھی کسی کلاس میں پڑھتی ہے۔ سیکنڈ ائر یا تھر ڈائر؟ انہوں نے یاد کیا۔ 
 
سیکنڈ ائر ما ہم نے جواب دیا۔ ہاں تو سیکنڈ ائر کی بچی کی رشتے میں دلچسپی دیکھ کر ہم کوئی نتیجہ اخذ تھوڑی کر سکتے ہیں۔ فیصلے کا حتمی اختیار تو ماں ، باپ کو ہوتا ہے۔ ہاں باپ کو ہوتا ہے اور باپ تو چلو پھر معقول تھا لیکن ماں وہ تو مجھے بہت گھنی میسنی لگئی بالکل گپ چپ سی۔ ہاجرہ کی اپنی ہی اصطلاحات تھیں۔ افوہ بیگم ! ابھی پہلی ملاقات تھی اور آپ حتمی فیصلے اور گھنی میسنی ماں جیسی اصطلاحیں استعمال کر رہی ہیں۔ ارے اتنی جلدی تو الیکشن والے دن صرف ایک پولنگ اسٹیشن کا حتمی نتیجہ اناؤنس نہیں ہوتا یہ تو پھر شادی بیاہ جیسا نازک معاملہ ہے۔ ریحان (بابا) اپنا اخبار اٹھائے کمرے میں گئے ۔ آج صبح سے ہاجرہ نے گھر میں ایسی ایمر جنسی نافذ کر رکھی تھی کہ وہ سکون سے بیٹھ کر اخبار تک نہ پڑھ سکے۔ ادارتی صفحے کو تو کھول کر بھی نہ دیکھا تھا اب انہوں نے گھنٹہ لگا کر اخبار پڑھنا تھا۔ شوہر سے مایوس ہو کر ہاجرہ رامین کی جانب متوجہ ہوئیں۔ ریٹائرڈ ٹیچر تھیں لڑکے کی ماں لیکن شخصیت کچھ دبی دبی سی تھی۔ پہناوا بھی کچھ خاص نہ تھا مجھے تو کچھ سٹریل اور بد مزاج لگیں۔
 
 ایسی عورتیں جب ساسیں بنتی ہیں تو بہوؤں کو…افوہ امی ! ابھی وہ پہلی بار آئے تھے۔ اس سے پہلے بھی تو تین جگہ رشتوں کی بات چل چکی ہے ناں اور آپ ان رشتوں کو کبھی پہلی ملاقات میں اتنا ہی سیریس نے لیتی تھیں پلیز ریلیکس رہیں ابھی نہ میں ان آنٹی کی بہوبنی نہ ہی وہ میری ساس۔ اگر معاملہ کچھ آگے بڑھے گا تب اس طرح کی باتوں پر غور و فکر کرلیں گے۔ رامین نے ماں کو رسانیت سے سمجھایا پھر خود سے تین برس چھوٹی افشین کو آواز دی۔ افشین یار! اب لے بھی آؤ شامی کباب۔ آور آتے ہوئے فریج سے کولڈ ڈرنک بھی لیتی آنا ۔ رامین اب دونوں چھوٹی بہنوں کے ساتھ ان ان تمام لوازمات کے ساتھ انصاف کرنا چاہتی تھی جن کا اہتمام مہمانوں کے لیے کیا گیا تھا۔ دو منٹ بعد افشین شامی کباب اور کولڈ ڈرنک لے آئی تو نرمین چکن رول، چنا چاٹ اور دہی بڑے لیے آن موجود ہوئی۔ رمین بیٹا! مجھے بھی کچپ ڈال کر ایک کباب اور ایک چکن رول دو، مہمانوں کے ساتھ بیٹھ کر کہاں کچھ کھایا جاتا ہے ۔ ہاجرہ کی بھی بھوک چمک بھی تھی۔ رامین نے ماں کا دھیان بٹنے پر سکون کا سانس لیا۔

رامین تین بہنوں میں سب سے بڑی تھی۔ تعلیم کا سلسلہ مکمل ہونے کے بعد وہ نوکری کرنا چاہ رہی تھی۔ لیکن روایتی ماں باپ کی طرح امی ، پاپا کی بھی یہ ہی کوشش تھی کہ اسے جلد از جلد اس کے گھر بار کا کر دیا جائے۔ ابھی اس کی رشتہ ڈھونڈ و مہم اکتا دینے کی حد تک طویل نہ ہوئی تھی پھر بھی رامین اس پریکٹس سے بیزاری محسوس کرنے لگی تھی۔ وہ بہت حسین جمیل نہ سہی مگر پر کشش شخصیت کی مالک تھی۔ ماں نے گھر داری میں بھی طاق کر رکھا تھا۔ معقول ڈگری بھی ہاتھ میں تھی لیکن اس کا مڈل کلاس پس منظر دیگر خوبیوں کو دھندلا دیتا تھا۔ عام سے گھر جس میں بیش قیمت ساز و سامان تو نہ تھا لیکن گھر کا چپہ چپہ گھر کے مکینوں کی نفاست پسندی اور طریقے سلیقے کا گواہ تھا۔ 
 
اس گھر کے سب مکین آپس میں خلوص اور محبت کے اٹوٹ بندھن سے بندھے تھے کرہ ارض پر یہ گھر رامین کی جنت تھا۔ وہ جانتی تھی اس جنت سے بے دخلی کا وقت آن پہنچا ہے۔ ہر لڑکی کی طرح وہ بھی اس مرحلے سے ٹھیک ٹھاک خائف تھی ، اوپر سے ماں کی باتیں اس گھبراہٹ میں مزید اضافہ کر دیتی تھیں۔ ہاجرہ نے خود تو لمبا چوڑا سسرال نہ بھگتا تھا کہ شوہر نامدار کے والدین ان کی شادی سے پہلے جنت مکین ہو چکے تھے پھر بھی یوں لگتا تھا کہ انہوں نے سسرالی معاملات میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ لڑکے کے گھر والوں سے پہلی ملاقات کے بعد ہی وہ اس کے گھر والوں کے متعلق اندازے لگانا شروع کر دیتی تھیں۔ بہر کیف یہ باتیں رامین کی نظر میں قبل از وقت تھیں۔ سچی بات تو یہ تھی کہ اسے ان لوگوں کے دوبارہ رابطے کی امید بھی نہ تھی لیکن چار دن بعد لڑ کے (فائق کا ذکر اس وقت لڑکا کہ کر ہی کیا جاتا تھا) کے والد کی پاپا کے پاس کال آگئی۔ ریحان بھائی ! ہمیں بچی پسند آئی ہے اگر آپ لوگوں کو اعتراض نہ ہو تو میرا بیٹا بھی بچی کو ایک نظر دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ آپ کی اجازت ہو تو ہم کل شام بیٹے کو لے کر آجائیں ۔
مزید پڑھیں
 انہوں نے بہت متانت اور بردباری سے ریحان صاحب سے اجازت مانگی وہ سوچ بچار میں پڑ گئے۔ میں اپنی اہلیہ سے مشورہ کر کے جواب دیتا ہوں۔ وہ فوری طور پر یہ ہی کہہ پائے اور ہاجرہ کو جب اس مطالبے کا علم ہوا تو وہ بھی مخمصے میں پڑگئیں۔ امی ! اس سے پہلے دو جگہ میری تصویر گئی تھی۔ میرے خیال میں تصویر سے بہتر ہے، لڑکا شرافت سے والدین کے ساتھ آئے اور مجھے ایک نظر دیکھ لے۔ میں پسند نہ آئی یا لڑکا آپ لوگوں کی توقع پر پورا نہ اتر اتو وہ اپنے گھر راضی اور ہم اپنے گھر۔ رامین نے ماں سے اکیلے میں بات کی تھی۔ بات ہاجرہ کی سمجھ میں بھی آگئی۔ لڑکے والوں کو شام پھر مد عو کر لیا گیا۔ اس بار پہلے سے زیادہ اہتمام کا ارادہ تھا لیکن دن میں گیارہ بجے کے قریب فائق کی والدہ کا فون آگیا۔ ان کی آواز سن کر ہاجرہ کا ماتھا ٹھنکا کہیں ان لوگوں نے آنے کا ارادہ ملتوی تو نہ کر دیا تھا لیکن ہاجرہ کا خدشہ بے بنیاد تھا۔ ناظمہ نے انہیں یہ کہنے کے لیے فون کیا تھا کہ وہ چائے پر پچھلی بار کی طرح زیادہ اہتمام نہ کریں۔ لو بھلا بتاؤ رشتے کی بات چل پڑی ہے۔
 
 لڑکا پہلی بار آ رہا ہے اور اس کی اماں فرمارہی ہیں کہ زیادہ اہتمام نہ کریں کہیں وہ یہ تو نہیں چاہتیں کہ لڑ کے پر ہمارا تاثر اچھا نہ پڑے۔ ہاجرہ بہت دور کی کوری لائی تھیں۔ افوه امی! آنٹی نے بہت مناسب بات کی ہے۔ آپ ان کی نیت پر تو شک نہ کریں ۔ رامین نے ماں کو ٹوکا۔ تجھے کیا پتا رامین یہ لڑکوں کی مائی کتنی میسنی ہوتی ہیں ۔ تین بیٹیوں کی ماں ہونے کے ناتے وہ لڑکوں کی ماؤں کو ہمیشہ تعصب بھری نگاہ سے جانچتی تھیں۔ وقت مقررہ پر فائق اپنے والدین کے ہمراہ آ گیا تھا۔ وہ شکل وصورت سے ہی بہت مہذب اور سلجھا ہوا نو جوان لگ رہا تھا ہاجرہ کو وہ پہلی ہی نگاہ میں پسند آ گیا تھا۔ صد شکر کہ آج اس کے والد سیاست کے بجائے رشتے پر ہی بات کر رہے تھے۔ ہم سفید پوش لوگ ہیں ریحان بھائی ہم لوگوں نے جو کمایا وہ اپنے بچوں کی تعلیم پر لگا دیا الحمد للہ بچے قابل نکلے، فائق ما شاء اللہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا ہے اس سے چھوٹا شارق بھی بھائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کامیابی سے اپنا تعلیمی سلسلہ مکمل کر رہا ہے۔ صومیہ اور حفصہ بھی ما شاء اللہ ذہین اور قابل ہیں۔
 
 قصہ مختصر ہمارے پاس اپنے ذہین اور قابل بچوں کے علاوہ کوئی قابل ذکر جائیداد یا جمع جتھا نہیں۔ جو کچھ ہے ہم نے آپ کے سامنے رکھ دیا۔ آپ لوگ بھی ہمیں پہلی ہی نگاہ میں اس لیے بھائے کہ ہمیں آپ لوگوں میں کوئی تضع یا دکھاوا نظر نہیں آیا ہاں ہم سفید پوش لوگوں میں جو رکھ رکھاؤ اور وضع داری ہوتی ہے ما شاء اللہ آپ کا گھرانہ ان ہی خوبیوں سے مالا مال ہے۔ ہم فائق کو ساتھ اسی لیے لائے ہیں کہ آپ اسے دیکھ لیں اس سے جو پوچھنا ہے پوچھ لیں۔ اگلا مرحلہ چھان بین کا ہے آپ کو پورا اختیار ہے جہاں سے چاہیں ہماری فیملی یا فائق کے متعلق پوچھ گچھ کریں اگر دل مطمئن ہو تو یہ ہم پہلے بتا دیں کہ ہم شادی جلد کرنا چاہیں گے۔ فائق کے والد شبیر صاحب بولنے پر آئے تو گویا دریا کو کوزے میں ہی بند کر دیا۔ ماں کے پہلو سے چپکی بیٹھی رامین نے دھیرے سے نگا میں اٹھا کر فائق کو دیکھا وہ بھی کن اکھیوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ نگاہوں کے اس تصادم پر جہاں رامین خفیف سی ہو گئی، وہاں خالق کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ رامین کے دل نے ایک دھڑکن مس کی۔ اس کاوجدان کہہ رہا تھا کہ قدرت نے اس کے والدین کی دعاؤں کو سند قبولیت بخش دی ہے۔ بہت خوش گوار ماحول میں ملاقات اختتام پذیر ہوئی۔ 
 
اس ملاقات کی سب سے متاثر کن بات فائق کے والد کی گفتگو تھی۔ ہاجرہ کو تو وہ بہت بھلے مانس شخص لگے تھے۔ وہ ان کی گفتگو کے انداز کو مسلسل سراہ رہی تھیں لیکن ناظمہ بیگم کے متعلق آج بھی ان کی رائے میں کوئی فرق نہ آیا۔ شبیر بھائی کیسے ملنسار اور با مروت شخص ہیں۔ لڑکے کے والد کی جگہ اب شبیر بھائی کا صیغہ استعمال ہو رہا تھا۔ لیکن فائق کی ماں وہ تو آج بھی کچھ خاص نہیں بولیں۔ بس اس عورت کی وجہ سے میں اس رشتے پر کچھ متذبذب ہوں ورنہ تو فائق مجھے بہت پسند آیا ہے۔ بلا وجہ کے وہم میں مت پڑو ہاجرہ! اللہ کا شکر ہے بھلے مانس لوگ ہماری رامین کے طلب گار بنے ہیں۔ اب اگر مگر کا سوال ہی نہیں میں اپنے طور پر فائق کی چھان بین کرواتا ہوں اوکے رپورٹ ملتی ہے تو سمجھو رشتہ پکا ۔ ریحان صاحب کا انداز دو ٹوک تھا۔ اور پھر تو باقی کے مرحلے گویا پلک جھپکتے طے پائے تھے۔ وہ دن بھی آن پہنچا جب رامین بابل کا انگنا سونا کر کے پیا دیس سدھار گئی۔ اس تمام عرصے میں ہاجرہ کی ناظمہ کے متعلق رائے نہ بدلی تھی۔ یہ سچ تھا کہ وہ کچھ کم گو تھیں لیکن ان کے کم بولنے کی ایک بڑی وجہ ان کے شوہر کا زیادہ بولنا بھی تھی۔ شبیر صاحب متاثر کن شخصیت کے مالک تھے بولنے کے فن سے بھی آشنا تھے۔ وہ جہاں ہوتے منظر پر چھا جاتے دوسرے لوگ خود بخود پس منظر میں چلے جاتے۔

شادی کی تقریب میں رامین کے خاندان والے ان کے اخلاق اور شخصیت سے بہت متاثر ہوئے ۔ کم گوسی ناظمہ بیگم کو رامین کی خالہ اور ممانیوں نے بھی گھنی اور خطر ناک عورت قرار دیا۔ دل میں بہت سی امنگوں اور ڈھیر سارے وسوسے لیے رامین سرال پہنچی تھی۔ سہاگ رات فائق نے روایتی شوہروں کی طرح اس کے ہاتھ میں نصیحتوں کا پلندہ نہیں تھمایا تھا بلکہ اس نے دوستانہ انداز اپناتے ہوئے مختصر ا گھر والوں کی عادات کے بارے میں بتایا تھا۔ شارق کھلنڈرا ہے اس کا زیادہ وقت اپنے دوستوں میں گزرتا ہے، صومیہ حد درجہ پڑھا کو ہے۔ اسے پڑھائی کے علاوہ کسی دوسری چیز کا ہوش نہیں ہوتا ۔ حفصہ چٹوری اور من موجی ہے۔ وہ مسکراتےہوئے اسے اپنے بہن بھائیوں کی عادات سے آگاہ کر رہا تھا۔ ویسے ہم سب بہن بھائیوں کی ابو سے زیادہ بے تکلفی اور دوستی ہے۔ 
 
امی مزاج کی تھوڑی سخت ہیں لیکن تمہیں ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں۔ ہم سب بہن بھائی ان کے مزاج اور عادت کو جانتے ہیں۔ ان کی باتوں کی کوئی ٹینشن نہیں لیتے۔ تمہیں بھی ان کی کوئی بات ناگوار گزرے تو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دینا۔ رامین نے اس بات پر حیرت سے اسے دیکھا۔ وہ عجیب بندہ تھا جو سہاگ رات ہی بیوی کو سمجھا رہا تھا کہ وہ اس کی ماں کی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دے۔بہر حال آج رامین کے بولنے کا نہیں سننے کادن تھا ، وہ جانتی تھی کہ سسرال میں قدم جمانے اور سسرال والوں کی عادتوں اور مزاج کو سمجھنے میں اسے تھوڑا وقت لگے گا۔ ابھی ایک رات میں تو وہ فائق کو صحیح سے سمجھنے کا دعوی بھی نہ کر سکتی تھی لیکن اس کے محبت بھرے اور دوستانہ برتاؤ نے رامین کو خاصی حد تک پر سکون کر دیا تھا۔

صبح رامین کی آنکھ کھلی تو دن کے نو بج رہے تھے۔ فائق گھوڑے بیچ کر سورہا تھا۔ وہ فریش بھی ہو گئی لیکن فائق کی آنکھ نہ کھلی اس نے ایک دو بار اسے جگانے کی کوشش کی۔ قائق نے مندی مندی آنکھیں کھول کر ٹائم دیکھا۔ ارے یار! ابھی تو سوا نو ہی ہوئے ہیں سو جاؤ ابھی تو گھر میں سب سو رہے ہوں گے۔ وہ اسے بتا کر پھر کروٹ بدل کر سو گیا۔ رامین کو دوبارہ نیند آنے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا یہ اس گھر میں اس کی پہلی صبح تھی۔ فائق کا تو یہ اپنا گھر تھا۔ اسے سسرال کے سامنے اپنا امپریشن خراب ہونے کی فکر تھوڑی تھی جبکہ رامین کو احساس تھا کہ دن چڑھے تک کمرے کا دروازہ بند رکھنا مناسب نہیں۔ ابھی تک ان لوگوں نے دستک دے کر جگایا تو نہ تھا لیکن وہ کچھ سوچ کر خود ہی کمرے سے باہر نکلی۔ سامنے لاؤنج تھا وہاں اس کی ساس ناظمہ بیٹھی اخبار کی ورق گردانی کر رہی تھیں۔ آہٹ پر انہوں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر قدرے چونکی تھیں۔ رامین نے انہیں ادب سے سلام کیا۔ سلام کا جواب تو مل گیا لیکن نئی دلہن ہونے کے ناتے جیتی رہو، سدا سہاگن رہو، جیسی کوئی روایتی دعا نہ ملی تھی۔ کیا واقعی یہ سریل مزاج ہیں ۔ وہ دل میں یہ ہی سوچ پائی اتنے میں شبیر صاحب بھی وہاں آنکلے تھے۔ وہ شب خوابی کے لباس میں تھے۔ لگتا تھا ابھی اٹھ کر آئے ہیں جبکہ ناظمہ خاصی فریش لگ رہی تھیں۔ رامین نے سسر کو بھی سلام کیا حسب توقع انہوں نے ڈھیروں دعاؤں سے نوازا تھا۔ تمہاری امی کا فون آیا تھا بیٹا ! ناشتہ لانے کا کہہ رہی تھیں ۔
 
 ناظمہ نے اسے مخاطب کیا۔ رامین کو جی ہی جی میں ماں پر ترس آیا ابھی تو ان لوگوں کی رات کے فنکشن کی تھکن نہ اتری تھی اب صبح ناشتے کے اہتمام میں لگ گئے ہوں گے۔ کل ہاجرہ کی طبیعت ویسے ہی خاصی نا ساز تھی وہ دل ہی دل میں ماں کے لیے فکر مند ہوئی لیکن ناظمہ کی اگلی بات نے اس فکر کا خاتمہ کر دیا۔ میں نے ہاجرہ بہن کو ناشتہ لانے سے منع کر دیا۔ ایک تو وہ خود تھکی ہاری ہوں گی ۔ اس تکلف میں پڑنے کی کیا ضرورت اور پھر ہمارے یہاں کوئی بھی اتنی جلد سو کر اٹھنے والا نہیں۔ اہتمام سے ناشتہ آتا اور ٹھنڈا ہو جاتا ۔ لانے والے کی محنت بے کار ہی جاتی ناظمہ اس سے مخاطب تھیں۔ رامین نے سر ہلا کر ان کی بات سے اتفاق کیا لیکن شبیر صاحب فوراً بیوی پر خفا ہوئے۔ آپ کی ہر منطق الٹی ہوتی ہے بیگم! یہ رسم و رواج کسی مقصد کے لیے ہی بنائے گئے ہیں نا۔ آپ کو ایک بیٹی کے والدین کی جذباتی کیفیت کا احساس ہی نہیں۔ رات انہوں نے بیٹی وداع کی ہے۔ ذہن میں سو طرح کے خدشے اور بے بنیاد باتیں سر اٹھاتی ہیں۔
مزید پڑھیں
 وہ ناشتے کے بہانے صبح صبح اپنی بیٹی سے ملنا چاہتے تھے اور میرے خیال میں یہ ان کا حق تھا آپ کی الٹی منطق نے انہیں ان کے حق سے محروم کر دیا۔ کم از کم مجھ سے مشورہ ہی کر لیتیں۔ وہ نئی بہو کا لحاظ کیے بغیر بیوی پر خفا ہوئے تھے ایک لمحے کو تو ان کی با تیں رامین کے جی کو بھی لگی لیکن جب اس نے ساس کی خفت زدہ شکل دیکھی تو اسے لگا کہ اس وقت اسے ساس کی بات کی تائید کرنی چاہیے۔ کوئی بات نہیں انکل! آنٹی کو جو مناسب لگا انہوں نے کیا اور شام کے فنکشن میں امی ، پاپا سے ملاقات ہونی ہی ہے ناں۔ میں ابھی ان سے فون پر بھی بات کرلوں گی ۔ وہ سبھاؤ سے بولی تھی۔ جیتی رہو یہ سمجھ داری والی بات کی ناں لیکن ایک بات پر میں ابھی بھی خفا ہوں یہ تم نے مجھے انکل کیوں کہا، ہم تو تمہیں بیٹی بنا کر لائے ہیں اور بیٹی ہی سمجھتے ہیں۔ انکل ونکل نہیں چلے گا آج سے مجھے ابو کہہ کر مخاطب کرنا ہے۔ وہ شفقت بھرے انداز میں مخاطب ہوئے۔ رامین کو ان کے محبت بھرے انداز نے متاثر کیا۔ ایک لڑکی جب رخصت ہو کر نئے گھر آتی ہے شبیر صاحب تو اس سے یہ توقع لگانا کہ وہ آپ کو ایک دم سے ماں، باپ سمجھنا شروع کر دے گی مناسب نہیں۔
 
 دونوں فریقین کو ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے تھوڑا وقت درکار ہوتا ہے۔ یہ رشتے اگر خلوص اور اپنائیت کے رنگوں سے مزین ہوں تو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بہو ساس سسر کو امی ابو کہہ کر پکارتی ہے یا انکل انٹی۔ رامین نے آج پہلی بار ناظمہ کے منہ سے اتنی طویل بات سنی تھی۔ اسے ان کی بات سے کلی طور پر اتفاق تھا۔ ایک دم سے کسی کو اپنے ماں باپ کی جگہ دینا آسان کب تھا اگر وہ انہیں امی ابو کہہ کر پکارتی تب بھی یہ لفظ محض زبان سے ادا ہونے تھے دل سے نہیں لیکن اس کے سسر تو بیوی کی ہر بات کی تردید کرنا خود پر لازم سمجھے ہوئے تھے۔ آپ اور آپ کے فلسفے بیگم صاحبہ ! ہم تو سیدھے سچے من کے بندے ہیں۔ رامین کو بہو نہیں بیٹی بنا کر لائے ہیں تو اس سے ابو جی ہی کہلوانا پسند کریں گے آپ بھلے سے خود کو آنٹی کہلواتی رہیں۔ وہ بے نیازی سے بولے۔ رامین اس بحث میں خاموش تماشائی کی حیثیت سے کھڑی تھی اسے سمجھ میں نہ آیا وہ اس وقت کسی کے موقف کی تائید کرے سو خاموش رہنے میں ہی عافیت تھی۔ بھوک لگی ہے بیٹا! تو ناشتہ بنا دوں؟ ناظمہ نے بھی موضوع کو پلٹ دینا مناسب جانا۔
 
 شادی کی پہلی صبح فائق کے ساتھ ناشتہ کرے گی اور ناشتہ بھی ذرا اہتمام والا ہوگا۔ آپ کبھی بہو کو املیٹ پر ٹرخا دیں۔ شبیر صاحب نے پھر مداخلت کی تھی۔ فائق تو جانے کب اٹھیں گے مجھے تو بھوک لگی ہے ابو میں اپ لوگوں کے ساتھ ناشتہ کر لیتی ہوں۔ اس نے انہیں ابو کہہ کر مخاطب کر کے ان کی فر مائش پوری کی تو ساتھ ناظمہ کی بات بھی رکھ لی۔ ٹھیک ہے بیٹا! میں ناشتہ بناتی ہوں۔ فائق اور دوسرے بچے تو واقعی ایک بجے سے پہلے نہیں اٹھیں گے تم جب تک بھوکی تھوڑی رہوگی۔ یوں کرو، اتنے میں ناشتہ بنتا ہے اپنے امی ابو کو فون کر کے ان کی خیریت لے لو۔ناظمہ اس سے شفقت بھرے لہجے میں مخاطب ہوئیں۔ وہ سر ہلاتے ہوئے واپس بیڈ روم میں چلی گئی فون اٹھایا تو چارجنگ بالکل ختم تھی۔ انشین سے اس نے کہا بھی تھا کہ وہ یاد سے چارجر بھی اس کے پرس میں ڈال دے لیکن وہ افراتفری میں بھول گئی تھی بیڈ روم میں اسے کوئی دوسرا چارجر بھی نظر نہ آ رہا تھا وہ ناظمہ سے کسی چارجر کا پوچھنے دوبارہ کچن کی طرف گئی ۔ 
 
ساس، سسر اس کی اتنی جلد دوبارہ آمد سے قطعی بے خبر اپنی گفتگو میں مگن تھے۔ دونوں کی اس کی طرف پشت تھی وہ اسے نہیں دیکھ پائے۔ رامین بھی قدرے فاصلے پر رک گئی تھی۔ لڑ کی بہت تیز لگ رہی ہے ناظمہ بیگم دیکھ لینا بہت جلد پر پرزے نکال لے گی ۔ شبیر صاحب کی آواز سماعت سے فکر تو رامین کو اپنی سماعتوں پر یقین نہ آیا۔ ذرا دیر پہلے وہ خود کو اس کے باپ کی جگہ قرار دے رہے تھے اور اب کس انداز میں اس کا ذکر کیا جا رہا تھا۔ دو غلا پن اور منافقت کسے کہتے ہیں رامین کو صحیح معنوں میں آج پتا چلا تھا دوسری طرف اس کی کم گوسی وہ ساس جو اس کی ماں کی نظر میں گھنی میسنی سی تھیں بے ساختہ اس کی طرف داری میں بولی تھیں۔ کوئی تیز ویز نہیں۔ بہت سلجھی ہوئی بچی ہے ایسے ہی تو میں نے اسے پہلی نگاہ میں پسند نہیں کر لیا تھا۔ پڑھے لکھے اور وضع دار والدین کی اولاد ہے۔ اس کی شخصیت سے ہی ماں باپ کی تربیت جھلکتی ہے۔ دیکھ لیجیے گا اپنے انتخاب کو غلط ثابت نہیں کرے گی ۔ وہ تیقن بھرے لہجے میں بولیں۔ رامین چپکے سے واپس پلٹ گئی تھی۔ شادی شدہ زندگی کی پہلی صبح ساس اور سسر کے متعلق دل میں جو رائے قائم ہوگئی ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ رائے محکم ہوتی گئی۔

شبیر صاحب بہت کائیاں شخص تھے اپنی چرب زبانی ے سے انہوں نے اولاد سمیت سب کو ہی اپنی مٹھی میں کر رکھا تھا اگر رامین اتفاقیہ طور پر ان کا روپ نہ دیکھ لیتی تو شاید وہ بھی ان کے ظاہری روپ کو سچا سمجھ لیتی۔ ناظمہ بظاہر سخت گیر ماں تھیں۔ وہ خود بہت منظم زندگی گزارتی تھیں اور یہ ہی توقع اولاد سے بھی کرتی تھیں لیکن بچے ان کی کوئی بات ماننے پر تیار ہی نہ تھے۔ رات گئے تک جاگتے صبح دن چڑھے سوکر اٹھتے ۔ ماں خفا ہوتی تو باپ چھپکی دے کر لاڈلوں کو اور شہ دے دیتا ایسے ہی بچے باپ کے گرویدہ نہ تھے۔ گھر کی بنی دال سبزی باپ اور بچوں کے حلق سے نہ اترتی۔ آئے روز کوئی نہ کوئی ڈیل منگوائی جارہی ہوتی۔ ناظمہ بڑھتی مہنگائی اور گھر کے محدود بجٹ کا ذکر کرتیں تب بھی بچوں سے پہلے شبیر صاحب ہی بیوی کو چپ کروانے کا فریضہ انجام دیتے۔ گھر میں دو، دو تنخواہیں آرہی ہیں بیگم! ایک میری ایک فائق کی پھر تمہاری پینشن بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔ کبھی کبھار بچے من مرضی کا کھائیں تو کیا مضائقہ ہے۔ یہ شکر کرو اولاد فرماں بردار ہے۔ چوری چھپے باہر سے کھا کر نہیں آتی۔ جو منگواتے ہیں گھر پر منگواتے ہیں اور سب مل بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ بچوں کی اس چھوٹی موٹی تفریح پر قدغن مت لگایا کرو۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں ابو! ہم کون سا روز روز باہر کا کھاتے ہیں جو آپ دال سبزی بناتی ہیں چپ چاپ کھا تو لیتے ہیں ۔ شارق پیزا کا بڑا سا بائٹ لیتے ہوئے بولا۔ رامین نے اس دال سبزی کھانے والے کو دیکھا جس دن گھر میں دال سبزی بنتی شارق کے لیے یا تو فریزر میں رکھے کباب فرائی ہوتے ورنہ وہ دوانڈوں کا آملیٹ بنا کر کام چلاتا ۔ 
 
رامین بار ہا نوٹ کر چکی تھی کہ ناظمہ اپنی ڈائری سنبھالے گھر کا بجٹ بنانے اور اخراجات میں توازن رکھنے میں ہلکان رہتی ہیں لیکن گھر کا کوئی فرد ان کی مشکل سمجھنے کو تیار نہ تھا۔ رامین خود ایک مڈل کلاس گھرانے سے آئی تھی۔ بڑھتی مہنگائی گھریلو بجٹ پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے اسے بخوبی احساس تھا۔ ان کے اپنے گھر میں بھی گھر کا بجٹ ماں ہی بناتی تھیں لیکن پاپا نہ صرف ان کی سمجھ داری کا برملا اعتراف کرتے تھے بلکہ خود اپنے ذاتی اخراجات کے لیے مختص کردہ رقم سے بھی بیوی یا بچوں کے لیے ان کی سہولت کا سامان کرنے کی اپنی سی کوشش میں لگے رہتے ، ماں اور باپ کے اس خلوص بھرے رشتے سے زندگی بہت سہل اور سبک خرام تھی لیکن اس گھر میں معاملہ برعکس تھا۔ معاملات چلانے کی ساری ذمہ داری ناظمہ کے سر تھی ۔ سب ناظمہ کو ماہانہ خرچ دے کر ہاتھ جھاڑ لیتے بلکہ کسی نہ کسی بہانے تھوڑے بہت پیسے واپس بھی ہتھیانے کے چکر میں رہتے ۔ ناظمہ ان کی شاہ خرچیوں پر جلتی کڑھتی یا خفا ہوتیں، تب بھی شبیر صاحب انہیں ظالم اور باقی لوگوں کو مظلوموں میں کھڑا کرتے۔

شادی کے بعد فائق کی پہلی تنخواہ آئی تو اس نے رامین کے ناظمہ سامنے ہی ماں کے حوالے کی۔ ناظمہ نے نوٹ گننے کے بعد ذرا پریشان ہو کر بیٹے کودیکھا۔ یہ تو کافی کم ہیں۔ بہو کے سامنے بیٹے سے استفسار کرتے ہوئے وہ ذرا سا جھجکی تھیں لیکن فائق کے کچھ بولنے سے پہلے ہی شبیر صاحب بول پڑے تھے۔ کمال کرتی ہو۔ اب خیر سے بیٹا گھر بار والا ہو گیا ہے۔ یہ اس کی فرماں برداری ہے کہ اب بھی تنخواہ تمہارے ہاتھ پر لا رکھی۔ ارے اب اس کے خرچے پہلے سے بڑھیں گے یا نہیں۔ نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ بچے گھو میں پھریں گے کچھ عیش کریں گے۔ یہ خیر سے دن پھر واپس تھوڑی آئیں گے اگر اس نے اپنے خرچے کے ساتھ چار پیسے فالتو رکھ لیے تو کوئی حرج نہیں ۔ وہ رسانیت سے بولے۔ فائق مطمئن سا خاموش کھڑا رہا۔ اس کی بھرپور وکالت اس کے والد محترم نے کر تو دی تھی ۔ شادی پر جو کمیٹی ڈالی تھی، وہ فائق کی تنخواہ سے ہی جاتی ہے میری پنشن اور آپ کی تنخواہ تو گھر میں ہی لگ جاتی ہے۔ گزارہ کیسے ہوگا۔ را مین کچن کی طرف مڑی تو ناظمہ نے دبی دبی آواز میں شوہر کو مخاطب کیا۔ اللہ خیر کرے گا۔ ہر بار تم یونہی پریشان ہوتی ہو ۔ پھر بھی مہینہ بخیر وخوبی گزر جاتا ہے ناں ہے۔ شبیر صاحب کے اطمینان میں ذرا فرق نہ آیا تھا۔ رامین کو ساس پر ترس آیا تھا رات کی تنہائی میں اس نے فائق سے یہ ہی بات چھیڑی۔ اس بار آپ نے اپنے خرچے کے لیے ڈبل رقم رکھ لی۔ آنٹی کی مجبوری بھی تو سمجھیں ناں۔ انہوں نے کمیٹی وغیرہ دینی ہوتی ہے۔تم ٹینشن نہ لوامی منیج کر لیں گی۔ فائق نے اسے تسلی دی۔ بات ٹینشن کی نہیں لیکن سچ میں مجھے شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔ میری وجہ سے آپ کے کون سا اتنے خرچے بڑھ گئے جو آپ ایک تہائی تنخواہ خود رکھ بیٹھے ۔
 
 ہم تو دس بارہ دن میں آؤٹنگ پر باہر نکلتے ہیں اور آپ کو پتا ہے میں تو ایک برگر اور کولڈ ڈرنک لے کر ہی خوش ہونے والوں میں سے ہوں۔ آپ نے فضول اپنا جیب خرچ بڑھایا۔ رامین واقعی خود کو اس اضافی جیب خرچ کی وجہ گردانتے ہوئے شرمندگی محسوس کر رہی تھی۔ ارے بدھو ہو تم تمہاری وجہ سے زائد رقم تھوڑی رکھی ہے میں نے۔ یہ جو میرے خبیث دوستوں کا ٹولہ ہے ان کو شادی کی ٹریٹ دینی ہے، وہ بھی شہر کے سب سے مہنگے ریسٹورنٹ میں ۔ فائق کے کہنے پر رامین نے حیرت سے آنکھیں پھاڑیں وہ بلا وجہ ساس کے سامنے خود کو چور محسوس کر رہی تھی یہاں تو معاملہ ہی الگ تھا۔ اور اب میں نے سوچ لیا ہے ہر مہینے کچھ پیسے الگ کر کے رکھوں گا ۔ اس کی اگلی بات پر رامین کے دل کو کچھ تسلی ہوئی شاید وہ کہے گا کہ اب ہم دونوں اپنے بہتر مستقبل کے لیے کچھ بچت ایک سائیڈ پر رھیں گے آخر کل کو فیملی بڑھنی ہے ، اس کے بارے میں بھی سوچنا ہے لیکن فائق نے فورا ہی اس خوش فہمی کا خاتمہ کر دیا۔ موبائل نیا لینا ہے یار یہ موبائل تین سال سے چلا رہا ہوں۔ اب بس ہوگئی ہے میری سب دوستوں کے پاس نئے سے نیا ماڈل ہے۔ میں ابھی تک اسی پر ہوں وہ بیزاری سے موبائل کی طرف اشارہ کر کے بولا ۔ رامین بس ٹھنڈا سانس ہی لے کر رہ گئی تھی۔
پڑوس والی آنٹی مسرت ملنے آئی تھیں۔ رامین چند ہی دنوں میں پڑوں کی سب ہی آنٹیوں سے بخوبی واقف ہو چکی تھی۔ وہ آتیں تو اس کی ساس کے پاس تھیں لیکن انہیں بھر پور کمپنی اس کے سسر صاحب دیتے تھے۔ شبیر بھائی شبیر بھائی کہتے ان خواتین کے منہ نہ سوکھتے تھے اور بے چاری ناظمہ انٹی کو تو ان عورتوں کے پاس دو گھڑی بیٹھنے کو فرصت نہ ملتی۔ بھئی ناظمہ مسرت بہن آئی ہیں۔ چائے کے ساتھ کباب بھی ضرور فرائی کرنا ۔ وہ بیوی کو مخاطب کرتے۔ ناظمہ ٹھنڈا سانس بھر کر کچن کی راہ لیتیں۔ مہنگائی کا یہ عالم ہے اپنا پورا نہیں پڑتا اور تمہارے ابوان عورتوں کی آمد پر اتنا اہتمام کروا لیتے ہیں۔ یہ کباب اس لیے بنائے تھے کہ اس ہفتے دال سبزی بنا کر گزارہ کرلوں گی۔
 
 شام کو سبزی کے ساتھ تم لوگوں کو ایک ایک کباب فرائی کردوں کی خالی سبزی تمہارے حلق سے کب اتر ے گی۔ ناظمہ حفصہ سے مخاطب تھیں لیکن یہ گفتگو کچن کے باہر سے گزرتی رامین کے کانوں میں بھی پڑ رہی تھی۔ افوه امی مهمان تو اللہ کی رحمت ہوتے ہیں۔ آپ دل چھوٹا نہ کیا کریں۔ ابو کی طرح بڑے دل والی بنیں ۔ حفصہ ایک کباب پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے ماں کو مفت مشورے سے نواز کر چلتی بنی۔ اس گھر میں سب ہی سخی ہیں۔ ایک میں ہی ہوں چھوٹے دل اور چھوٹے ظرف والی۔ وہ تپ کر بولیں۔ حفصہ جا چکی تھی یہ فقرہ کچن میں داخل ہوتی رامین کی سماعت سے ٹکرایا تھا۔ وہ بہو کو دیکھ کر کچھ خفیف ہوئیں۔ آنٹی ! آپ جا کر ڈرائینگ روم میں بیٹھیں ۔ میں چائے لاتی ہوں۔ اس نے نرمی سے انہیں مخاطب کیا۔ بیٹا نمکو اور بسکٹ بھی رکھ لینا پھر بولیں گے تمہارے ابو وہ دھیرے سے کہتی کچن اسے سونپ کر باہر نکل گئیں۔ رامین نے پر سوچ انداز میں انہیں دیکھا۔ اسے لگا کہ اب اسے اپنی ساس کی مدد کے لیے میدان میں آنا ہی ہوگا۔

رات کے کسی پہر ناظمہ کے زور زور سے بولنے پر رامین کی آنکھ کھلی۔ رامین گھبرا کر اٹھی تھی۔ فائق کو بھی کندھا ہلا کر جگایا۔ جا کر دیکھیں انٹی کسی پر بگڑ رہی ہیں ۔ فائق نے کان لگا کر بات سننے کی کوشش کی۔ ارے کچھ نہیں یار! امی شارق پر غصے ہو رہی ہیں۔ دیر سے گھر آتا ہے امی کو اس کے انتظار میں جاگنا پڑتا ہے۔ فائق اسے بتا کر پھر کروٹ بدل کر سو گیا۔ رامین نے بھی آوازوں پر کان دھرنے کی کوشش کی اب شبیر صاحب بیوی پر برس رہے تھے ۔ جوان اولاد کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے پر اولاد کے باغی ہونے کا ڈراوا دے رہے تھے۔ رامین کو تاسف نے آن گھیرا۔ اولاد کو ساری شہ ان کے والد صاحب کی طرف سے ہی ملی ہوئی تھی وہ ماں کو غلط اور اپنی ہر غلط حرکت پر خود کو حق بجانب سمجھتے تھے۔ اب اسے اپنی بے چاری ساس کی مدد کے لیے کچھ کرنا ہی تھا۔

فائق بیٹا میری پنشن آگئی ہے۔ اے ٹی ایم کارڈ لیتے جانا دفتر سے واپسی پر پیسے نکلوا لینا ۔ ناظمہ ناشتے کی میز پر بیٹے سے مخاطب تھیں۔ فائق نے ٹھیک ہے امی کہہ دیا تھا۔ دن میں جب ساس بہو اکیلی تھیں تب رامین موبائل فون لیے ساس کے پاس آئی ! دیکھیے ۔ ایک معروف برینڈ نے زبردست سیل آفر کی ہے اور دھڑا دھڑ سوٹ بک رہے ہیں۔ میں نے اپنے لیے ایک سوٹ ڈن کر دیا ہے، آپ بھی جلدی سے اپنے ایک دو سوٹ سلیکٹ کرلیں ۔ 
 
اس نے موبائل ساس کی طرف بڑھایا۔ ارے نہیں بیٹا میں فی الحال نہیں لے سکتی ۔ انہوں نے موبائل تھاما تک نہیں۔ آنٹی سیزن بدل رہا ہے۔ آپ وہ ہی دو تین جوڑے ادل بدل کر پہنے جا رہی ہیں یہ بہت مناسب قیمت میں کپڑے مل رہے ہیں تو موقع سے فائدہ اٹھا ئیں ۔ کم از کم دو سوٹ تو لے لیں ۔ اس نے انہیں ترغیب دلائی۔ کہا ناں رامین فی الحال گنجائش نہیں ۔ وہ ذرا بیزاری سے بولیں۔ گنجائش نکالنے سے نکلتی ہے امی اور آج تو آپ کے ہاتھ میں آپ کی پنشن بھی آرہی ہے۔ ٹھیک ٹھاس اماؤنٹ ہوتی ہے۔ آپ دو چھوڑ چار سوٹ لے سکتی ہیں۔ وہ جوش بھرے انداز میں بولی۔ چار سوٹ بنوالوں تو مہینے کا خرچہ کون چلائے گا بیٹا وہ پھیکی ہنسی ہںستے ہوئے بولیں ۔ رامین موبائل سائیڈ پر رکھتے ہوئے ان کے پاس آن بیٹھی۔ انٹی! آپ میری ساس ہیں اور دنیا کی نظر میں ساس بہو کا رشتہ بہت نازک سا ہوتا ہے لیکن کیا میں ہمت کر کے آپ سے چند دل کی باتیں کر سکتی ہوں ۔ وہ کچھ جھجکتے ہوئے ان سے مخاطب تھی۔ ناظمہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔ ایسی کیا بات ہے بیٹا؟ کہو، میں سن رہتی ہوں ۔ صرف سننا نہیں ہے میری باتوں پر عمل بھی کرنا ہے۔ میں بہت دنوں ہے آپ سے بات کرنے کی ہمت جمع کر رہی تھی کبھی سوچتی کہ آپ میری نیت پر شک نہ کریں کبھی ڈرتی کہ گھر میں کسی اور کو میرے مشوروں کا علم ہو گیا تو سب میرے بارے میں کیا سوچیں گے۔ مجھے ابھی اس گھر کا حصہ بنے زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے۔
 
 آپ سمیت ہر کوئی میرے بارے میں غلط گمان کر سکتا ہے لیکن پھر میں نے یہ سوچ کر ہمت کی کہ کم از کم آپ میرے خلوص کو غلط معانی نہیں پہنائیں گی۔ اتنے سے عرصے میں میں آپ کو اتنا تو جان ہی گئی ہوں ۔ رامین نے طویل تمہید باندھی اس بار ناظمہ نے مسکرا کر اسے دیکھا۔ اچھا تو میری بہو اپنی ساس کو کن مشوروں سے نواز نے لگی ہے۔ وہ دلچسپی سے اسے دیکھ رہی تھیں ۔ رامین کو ان کے انداز سے حوصلہ ہوا۔ اس بار آپ گھر کا خرچا ابو کے سپرد کر دیں۔اس نے جی کڑا کر کے کہہ دیا ۔ تمہیں بھی لگتا ہے میں گھر کا خرچا چلانے میں کنجوسی سے کام لیتی ہوں۔وہ فوری طور پر یہ ہی نتیجہ اخذ کر پائیں۔ بالکل نہیں۔ مجھے ایسا قطعی نہیں لگتا بلکہ مجھے یہ لگتا ہے کہ سب گھر والے آپ کا بہت استحصال کرتے ہیں۔ وہ صاف گوئی سے بولی۔ چند لمحوں کے لیے ناظمہ کچھ نہ بول پائیں جو بات کبھی ان کی اولاد نے ان کے لیے محسوس نہ کی وہ کوئی خونی رشتہ نہ ہونے کے باوجود ان کی بہونے محسوس کرلی تھی۔ آپ اس مہنگائی کے عالم میں جس طرح گھر کے اخراجات اور آمدنی میں توازن قائم رکھنے کی کوشش میں ہلکان رہتی ہیں۔ گھر کے کسی فرد کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ہر کوئی شاہانہ انداز میں اپنا لائف اسٹائل مین ٹین رکھے ہوئے ہے اور آپ ایک معقول پیشن رکھتے ہوئے بھی اپنی ذات پر ایک پائی تک خرچ نہیں کر پا تیں۔ اس کے باوجود کسی کو آپ کی قربانی کا احساس تک نہیں۔ 
 
اس بار آپ اس جھنجھٹ سے جان چھڑائیں جس طرح ابو اور فائق اپنی تنخواہوں میں سے اپنا بھاری جیب خرچ رکھنے کے بعد آپ کو باقی رقم احسان کر کے تھماتے ہیں اس بار آپ ان کے ساتھ یہ ہی کریں۔ اپنی پنشن میں سے اپنے خرچ کی رقم الگ کریں اور باقی پنشن ابو کے ہاتھ پر رکھیں۔ اب ابو جانیں اور فائق ۔ گھر چلانا ان کی ذمہ داری ہے آپ کی دردسری نہیں وہ بولنے پر آئی تو بولتی ہی گئی۔ ایک تکان بھری مسکراہٹ ناظمہ کے لبوں پر بھر گئی۔ تمہارے ابو کا ہاتھ بہت کھلا ہے وہ پندرہ دن میں رقم برابر کر دیں گے۔ تو کر دیں ۔ آخر کار تسلیم تو کرنا پڑے گا نا کہ یہ آپ کی ہی ہمت ہے جو ان پیسوں میں کھینچ تان کر مہینہ پورا کرتی ہیں پھر بھی سب آپ سے شاکی رہتے ہیں ۔ وہ اپنی بات پر ڈتی ہوئی تھی۔ ناظمہ پھیکا سا ہنس دی تھیں۔ کہیں آپ کو میری نیت پر شک تو نہیں ؟ سب کچھ کہنے کے بعد اس نے قدرے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ نیت پر شک کیوں کرنے لگی بس حیران ہوں کہ کوئی بہو ساس کے لیے اتنا حساس ہو سکتی ہے۔ انہوں نے اسے محبت سے دیکھا تھا۔ حیران مت ہوں بس کچھ عرصے کے لیے بہو کے مشوروں پر عمل کر کے دیکھیں افاقہ نہ ہوا تو پرانی روٹین اپنا لیجیے گا ۔ وہ مسکرا کر مخاطب ہوئی۔ چلو دیکھتے ہیں۔ ناظمہ نے اس کا دل رکھنے کے لیے ہی اس کی بات مان لی تھی۔

یہ لیں امی آپ کی پنشن ۔ فائق نے نوٹ گن کر ماں کو تھمائے ۔ ناظمہ نے چند نوٹ نکال کر پیسے واپس فائق کو دیے۔ یہ لو بیٹا ! اپنے ابو کے حوالے کر دو۔ مطلب؟ وہ حیرانی سے ماں کو دیکھنے لگتے شبیر صاحب نے بھی بیوی کی بات سن کرناسمجھی سے بھنویں آچکا ئیں۔ اس ماہ سے خرچا تمہارے ابو چلا ئیں گے۔ میں نے اپنی چند ضرورتوں کے لیے تھوڑی سی رقم رکھ
لی ہے باقی کے پیسے تمہارے ابو کے حوالے ۔ وہ مسکرا کر بولی تھیں۔ یعنی ہمارے گھر کا فنانس منسٹر تبدیل ہو گیا۔ گریٹ بھئی یہ لیجیے ابو پیسے سنبھالیے ۔ فائق نے مسکرا کر پیسے باپ کے حوالے کیے۔ مذاق کر رہی ہے تمہاری ماں ۔ اتنی آسانی سے اپنے اختیارات مجھے کیوں سونپنے لگی۔ دو پیسے ماں کو ۔ انہوں نے نوٹ واپس بیٹے کو تھمانے چاہیے۔ نہیں بھئی، یہ میرا قطعی فیصلہ ہے اور میں بخوشی اپنے اختیارات آپ کو سونپ رہی ہوں۔
 
 اب آپ اس گھر کے مالی معاملات کے کرتا دھرتا ہیں۔ سیاہ کریں یا سفید ، روز دال روٹی کھلا ئیں یا مرغ متنجن میں کوئی اعتراض نہیں کروں گی ۔ وہ مطمئن مسکراہٹ چہرے پر سجا کر شوہر سے مخاطب ہوئیں۔ ابو کیوں کھلانے لگے روز دال روٹی۔ اب تو ہمارے مزہ کرنے کے دن آگئے۔ فار گاڈ سیک ابو! امی کی آفر سے فائدہ اٹھا ئیں۔ یہ پیشکش رد نہ کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ حفصہ نے باپ سے التجا کی۔ صومیہ اور شارق نے بھی مان جائیں ابو ! کا شور بلند کر دیا۔ ارے بیٹا ! اپنی ماں کو کیوں پریشان کر رہے ہو ۔ آج گھر کے مالی اختیارات مجھے سونپ رہی ہے کل چھوٹی چھوٹی باتوں پر مجھ سے حساب کتاب لے گی۔ میں اس کا کڑا آڈٹ کیسے بھگت پاؤں گا۔ وہ مسکین شکل بنا کر بولے۔ کہاناں کوئی حساب کتاب نہیں لوں گی۔ آپ اپنے حساب سے گھر کا خرچا چلائیں۔ میری طرف سے کوئی دخل اندازی نہیں ہوگی۔ ویسے بھی میں یہ ذمہ داری نبھا کر تھکنے لگی ہوں۔ میرے ڈاکٹر نے بھی اس بار مجھے یه ہی نصیحت کی ہے کہ بڑھتے ہوئے بلڈ پریشر سے جان چھر وانی ہے تو ذہن کو ہر طرح کی فکروں سے جھٹک دیں لیکن مجھے لگ رہا ہے کہ آپ خود بھی ہچکچا رہے ہیں۔ یہ ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انہوں نے شوہر کو مسکرا کر دیکھا۔
 میں کیوں ہچکچاؤں گا ۔ یہ کون سا مشکل کام ہے۔ بس تم عورتوں کو شوق ہوتا ہے گھر کی تجوری پر کیسے قبضہ برقرار رکھا جائے ہم تو تمہاری خاطر ہی تمہیں اس گھر کا مختار کل بنائے ہوئے تھے۔ شبیر صاحب نے اب بھی اپنے پروں پر پانی نہ پڑنے دیا۔ تو ٹھیک ہے ناں، اب میری خاطر ہی مجھے مختار کل کے عہدے سے رخصت عنایت کریں۔ فائق بیٹا ! جب تمہاری تنخواہ آئے تو تم نے بھی اپنی ضرورت کا خرچا رکھ کر تنخواہ اپنے ابو کو ہی دینی ہے۔ ناظمہ نے شوہر کو جواب دے کر بیٹے کو مخاطب کیا۔ اس نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا۔ رامین کو اب بھی اپنے سسر کے چہرے پر تذبذب بھرے تاثرات نظر آئے تو اس نے کھانا لگنے کا اعلان کر کے موضوع ہی بدل دیا۔ اگلے دو تین دن تک شبیر صاحب بیوی پر احسان دھرتے ہوئے انہیں پھر سے مالی نظم و نسق واپس سنبھالنے کی پیشکش کرتے رہے لیکن ناظمہ ان کی پکڑائی میں نہ آکر دیں۔ رامین ساس کی کارکردگی سے سونی صد مطمئن تھی اور موقع پاکر اس نے انہیں چند مزید مشوروں سے نواز دیا تھا۔

شارق کی رات دیر سے آنے کی روٹین اب بھی برقرار تھی وہ بلا کا غیر ذمہ دار اور لا پرواہ لڑکا تھا۔ گھر کے مین گیٹ کی کئی چابیاں گم کر چکا تھا اس لیے اب خود ہی چابی ساتھ لے جانے کا تردو نہ کرتا اس کے انتظار میں ماں جو جاگ رہی ہوتی جو پہلی بیل پر گیٹ کھل جاتا دو چار صلواتیں تو ضرور سنائی مگر کھانا بھی گرم کر کے دیتیں۔ ا اب ناظمہ نے اس کے انتظار میں جا گنا ترک کر دیا تھا۔ وہ مقررہ وقت پر منہ لپیٹ کر سوتی بنتیں اور اپنے کانوں کے ساتھ موبائل بھی بند کر دیتیں۔ شارق ایک دو بار گھر کی اطلاعی گھنٹی بجاتا پھر ناظمہ کے موبائل پر کال کرتا۔ کوئی رسپانس نہ ملنے پر وہ باپ کو کال کرتا ۔ ایک دن، دو دن ، تین دن اور بس چوتھے دن تو شبیر صاحب کی بس ہوگئی وہ جو پہلے بیوی کو جوان اولاد پر بگڑنے سے منع کرتے تھے ، اب خود شارق کو سخت ست سنانے لگے۔ گھر آنے کا ٹائم مقرر کرو صاحبزادے ! کل سے اتنی دیر سے گھر لوٹے تو ناں خود دروازہ کھولوں گا نہ کسی کو کھولنے دوں گا۔ وہ اسے تنبیہ کر رہے تھے۔ اپنے کمرے میں دروازے سے کان لگائے گھڑی رامین کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔

پڑوس سے دو آنٹیاں ملنے آئیں۔ دروازہ رامین نے کھولا۔ خواتین کو ڈرائینگ روم میں بٹھا کر اس نے ساس کو اطلاع دی۔ انٹی ! وہ جو آپ کا نیا سوٹ سل کر آیا ہے ناں۔ وہ ہی پہن کر آیئے گا۔ اتنے میں انہیں کمپنی دیتی ہوں ۔ وہ جلدی سے کہہ کر پھر سے ڈرائینگ روم کی طرف بڑھ گئی۔ ناظمہ مسکرائی تھیں ذرا دیر بعد وہ بھی ڈرائنگ روم میں تھیں۔ ہر بار کی طرح آج ان کا حلیہ اول جلول سانہ تھا۔ سو بر رنگ کا نیا لان کا جوڑا۔ سلیقے سے بنے ہوئے بال اور ہونٹوں پر ہلکی سی لپ اسٹک ۔ اس گرم موسم میں وہ خاصی ” کول” لگ رہی ہیں۔ واه ناظمہ بھابھی کہیں جانے کی تیاری ہے۔ نگہت آنٹی نے انہیں سراہتے ہوئے بے ساختہ پوچھا۔ اس گرم موسم میں کہاں نکلنا ہے نگہت بھابھی ! وہ مسکرائی تھیں ۔ چند لمحوں بعد شبیر صاحب بھی آگئے تھے۔ وہ کسی کام سے باہر گئے تھے۔ پسینے میں قمیض تر بتر ہو رہی تھی۔ پڑوسن آنٹیوں سے سلام دعا کا تبادلہ ہوا۔
 
 بھی ناظمہ مسرت بھا بھی اور نگہت بھا بھی کی خاطر کا کوئی اہتمام کرو۔ وہ معمول کے مطابق انہیں کمپنی دینے بیٹھ چکے تھے۔ چائے تو رامین بنارہی ہے۔ بس آپ کا انتظار تھا۔ چکن رول اور سموسے لے آئیے۔ نگہت بھا بھی تو آج بہت مدت بعد آئی ہیں۔ میں ذرا ان سے گپ شپ لگالوں ۔ ناظمہ کا آج اٹھنے کا کوئی موڈ نہ تھا۔ مہمان خواتین کے سامنے وہ انکار کی پوزیشن میں نہ تھے۔ جزبز ہوتے اٹھے۔ ارے رہنے دیں شبیر بھائی ! اس گرمی میں پھر سے کہاں بازار جا ئیں گے۔ نگہت نے انہیں روکا۔ گرمی تو واقعی بلا کی ہے۔ آپ رامین بیٹی سے کہیں چائے رہنے دے۔ شربت بنالائے۔ شبیر صاحب واقعی باہر جانے کے موڈ میں نہ تھے۔ اس لمحے رامین جگ بھر کے مینگو اسکوائش بنالائی تھی۔ شبیر صاحب نے سکون کا سانس لیا۔ مہمان خواتین کے جانے کے بعد بیوی پر ضرور بگڑے۔ آپ نے تو صرف زبان ہلادی۔ چکن رول اور سموسے لے آئے مہنگائی کا عالم دیکھیے ۔ گھر کا پورا نہیں پڑتا سینکڑوں روپے فضول کی مہمان داری میں پھونک دیں۔ وہ بڑبڑ کر رہے تھے۔ مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں شبیر صاحب اپنے حصے کا رزق لاتے ہیں بس ہمیں اپنا ظرف بڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے برد باری سے شوہر کو سمجھایا۔ وہ بنا کچھ کہے بیوی کو فقط گھور ہی پائے۔ رامین مسکراہٹ دباتی وہاں سے کھسک لی تھی۔


ابھی پچھلے ہفتے تم لوگوں نے ڈیل منگوائی تھی آج پھر کس خوشی میں باہر سے کھانا منگوایا جارہا ہے۔ وہ آج بچوں کو لائن حاضر کیے ہوئے تھے۔ یارا بو کیا ہو گیا ہے آج کل آپ میں امی کی روح گھسی ہوئی ہے۔ ان کی طرح ہر وقت روک ٹوک کرتے رہتے ہیں۔ بیٹا جی ! بات نہ تمہاری ماں کی ہے نہ میری۔ ات ؟ ہے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور تمہاری بگڑی ہوئی عادتوں کی۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ جب تک خرچا تمہاری امی کے ہاتھ میں تھا مجھے خود اندازہ نہیں تھا کہ یہ نیک بخت کس طرح جوڑ تو ڑ کر کے خرچا پورا کرتی تھی اب یہ عالم ہے کہ میں تمہاری امی کی پنشن اور اپنی اور فائق کی تنخواہ کے علاوہ دفتر کے ساتھی سے بھی پندرہ ہزار ادھار پکڑ چکا ہوں اور ابھی مہینہ ختم ہونے میں پانچ دن پھر بھی باقی ہیں ۔ وہ اولاد کو ہوش ربا مہنگائی کا احساس دلاتے دلاتے سچائی بیان کر بیٹھے۔ ناظمہ کی پلکیں پل بھر کونم ہوئیں۔ جانے آج مجازی خدا کس موڈ میں تھے جو یوں انہیں اولاد کے سامنے خراج تحسین پیش کر ڈالا۔
 
 رامین بھی دل میں یہ سوچ رہی تھی کہ کوئی بھی انسان سو فی صد اچھا یا سو فی صد برا نہیں ہوتا۔ شبیر صاحب بھی بیوی بچوں سے محبت کرتے ہی ہوں گے بس ان کی کچھ عادتیں صیح طلب تھیں اور رامین کی حکمت عملی کی وجہ سے ان عادتوں میں سدھار آنے لگا تھا۔ ساس بہو کی نظریں ملیں اور دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دیں۔ آپ ٹینشن نہ لیں۔ ابھی تو کمیٹی کی وجہ سے ایک بڑی رقم دینی پڑتی ہے۔ چھ سات مہینے کی تنگی سے کمیٹی ختم ہو جائے گی تو انشاء اللہ حالات بہتر ہو جائیں گے۔ ناظمہ نے اب شوہر کو تسلی دی تھی۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن اب اب سب کو احساس ذمہ داری سے کام لینا ہوگا ہمارا قومی مزاج ہی یہ بن چکا ہے کہ مقروض ہونے کے باوجود اپنے اللے تللوں پر قابو نہیں پاتے۔ اپنی ذات میں سدھار لائیں گے تو بحیثیت قوم بھی ترقی کر پائیں گے اور اس حوالے سے اپنی اولاد کی تربیت کرنا ہم دونوں کی ذمہ داری ہے بیگم ! وہ از حد سنجیدہ تھے۔ اپنے تین بچوں کی تربیت آپ دونوں کریں میری تربیت کی ذمہ داری تو میری بیگم نے اٹھا رکھی ہے۔ دن رات لیکچر ملتے ہیں کہ میں کسی طرح ایک ذمہ دار اور محب وطن پاکستانی ، سعادت مند اولاد نیک سیرت مسلمان اور فرماں بردار شوہر بن سکتا ہوں ۔
 
 فائق مسکین شکل بنا کر بولا تھا۔ تو به فائق فرماں بردار شوہر بننے کا کب کہا۔ رامین پل بھر میں سرخ ہوئی تھی۔ میری بہو لاکھوں میں ایک ہے خوش قسمت ہو بیٹا ! جو را مین جیسی لڑکی کا ساتھ ملا ۔ ناظمہ بیگم اس پر محبت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے بولیں۔ رامین جھینپ کر ہنس پڑی تھی۔ خوش قسمت تو وہ خود بھی تھی جو روایتی سسرال کے برعکس ایک روشن خیال سسرال ملا۔ خاص طور پر اس کی کم گو ساس کے متعلق اس کی ماں کے سارے خدشات یکسر غلط ثابت ہوئے۔ انہوں نے اس کی زبردستی کی ماں بننے کے بجائے اچھی ساس بننا پسند کیا تھا تو رامین بھی بہترین بہو ثابت ہوئی ۔ ان دونوں کے باہمی تعلق نے عورت، عورت کی دشمن ہوتی ہے والے محاورے کو یکسر غلط ثابت کر دیا تھا۔ اس بار میکے جا کر اس نے ماں کے سامنے ساس کی تعریفوں کے پل باند ھے تو وہ خوش ہونے کے کے ساتھ ساتھ حیران بھی ہوئیں۔ اس دور میں ایسی ساسیں بھی ہوتی ہیں۔ ہاجرہ نے اپنی حیرت کا برملا اظہار کیا۔ 
 
تعلیم یافتہ اور باشعور عورت مثالی ساس بھی ہوگی اور بہترین بہو بھی بلکہ وہ خود سے وابستہ ہر رشتے کو ہی مثالی انداز میں نبھائے گی۔ رامین نے مسکرا کر ماں کو مخاطب کیا۔ دیکھ لیں امی ! آپی اپنی ساس کی تعریف کے ساتھ ساتھ بالواسطہ اپنی تعریف بھی کر رہی ہیں ۔ انشین نے مسکرا کر بہن کو چھیڑا۔ تو میری بیٹی ہے ہی تعریف کے قابل۔ شکر اس نے میری باتوں میں آ کر روایتی تعصب کی عینک لگا کر اپنی ساس کو نہیں جانچا بلکہ عقل مندی سے کام لے کر اس گھر میں اور سب کے دل میں اپنی جگہ بنائی ۔ ہاجرہ نے بیٹی پر پیار بھری نگاہ ڈالی۔ رامین کے لبوں پر بھی 
آسودہ سی مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔
 

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for kids, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے