آسیب ذدہ مکان - خوف و دہشت کی سچی مکمل کہانی

Sublimegate Urdu Stories

آسیب ذدہ مکان - خوف و دہشت کی سچی مکمل کہانی

جیسے ہی اس نے کچن کی دہلیز پر قدم رکھا
وہ ٹھٹھک کر رک گئی
سامنے چولہے کے پاس کوئی عجیب سی چیز پڑی تھی
وہ دھیرے دھیرے قدم بڑھاتی آگے بڑھی تو بے اختیار خوف کی ایک لہر اسکی رگوں پے مسرایت کر گئی.
چولہے کے پاس ایک بڑے سائز کی چمگادڑ بے حس و حرکت پڑی تھی
وہ الٹے قدموں واپس کچن کی دہلیز پر آئی
اہک ہاتھ سینے پر رکھے اسے دیکھنے لگی
کالی سیاہ وہ بد صورت چمگادڑ
آجر کہاں سے آسکتی تھی
کچن کے روشن دان میں جالی لگی ہوئی تھی
کچن سے باہر نکل کر اس نے ہر طرف کا جائزہ لیا
تمام کھڑکیاں اور روشن دان جالیوں سے پر تھے تو یہ چمگادڑ ؟
نسرین خالہ ؟
خالہ ؟
وہ چلائی

چہرے پر خوف اور حیرت کے تاثرات تھے
خالہ ہاتھ میں جھاڑو پکڑے بھاگی بھاگی آئی
وہ وہ وہاں وہ دیکھیے
اس کے اشارہ کر نے پر خالہ کچن کی طرف بڑھی
قریب جاکر جانچتی نظروں سے وہ غور سے دیکھنے لگی
خالہ قریب نہ جائیں کہیں وہ آپکو نقصان نہ پہنچا دے
وہ کچن کی دہلیز پر کھڑی ہی ہدایات دے رہی تھی
ارے کچھ نہیں ہوتا بی بی جی
یہ کہہ کر خالہ آگے بڑھی
ہاتھ بڑھا کر انگلی سے جیسے ہی
اس چمگادڑ کو چھوا
تو اگلے ہی لمحے وہ چمگادڑ حرکت میں آئی اور تیزی سے پھڑ پھڑاتی ہوئی نادیہ کے کندھے کو چھوتی ہوئی کچن سے باہر نکل گئی
اس کا دل تو اچھل کر حلق میں آگیا
اور کندھے کو چھوتے ہی جیسے تو اسکی جان ہی نکل گئی
کچن سے نکل کر وہ چمگادڑ کہاں غائب ہوئی اسکی بات فکر اس وقت کسے تھی
ایک زوردار چیخ نادیہ کے حلق سے برآمد ہوئی تھی اور
وہ کچن میں اپنی جگہ پر کھڑی کی کھڑی رہ گئی
اس نے فورن احمر کو فون کیا

مگر وہ اپنے بوس کیساتھ کسی میٹنگ میں ہونے کی وجہ سے فوراً نہ آسکا
حواس کچھ بحال ہوۓ تو اس نے خالہ کیساتھ مل کر گھر کا کونا کونا چھان مارا
مگر وہ چمگادڑ تو یوں غائب ہوئی تھی جسے سرے سے وہاں آئی ہی نہ ہو
آخر چمگادڑ گئی تو گئی کہاں ؟
تھک ہار کر وہ صوفے پر بیٹھ گئی
خالہ پاس ہی نیچے کارپٹ پر بیٹھ گئی
میں نے تو اسے کچن سے نکلتے ہی دیکھا تھا اسکے بعد کا پتہ نہیں
بی بی جی آپ لوگوں کے آنے سے پہلے یہ گھر کچھ عرصے بند رہا تھا
اور بند گھروں میں ایسی ویسی چیزیں نکل ہی آتی ہیں
آپ پریشان نہ ہوں بی بی جی
خالہ کی اس دلیل پر اس نے گھور کر خالہ کو دیکھا
کیونکہ پچھلے تین دن سے وہ خالہ کیساتھ مل کر اس گھر کو صاف کر کر کے ہلکان ہو گئی تھی
اور یہی وجہ ہے تھی کی اب گھر شیشے کی طرف چمک رہا تھا
اور چمگادڑ کسی سوالیہ نشان کی طرح ہی رہی
وہ کہاں سے آئی کہاں گئی
یہ معاملہ حل نہ ہوسکا

انہیں اس مکان میں شفٹ ہوئے تین ہی دن ہوئے تھے
لاہور اندرون شہر کے ایک محلے میں انہیں یہ مکان کافی سستے داموں مل گیا تھا
ابھی انہیں اس مکان میں آۓ ایک دن ہی ہوا تھا
اگلے دن صبح صبح بیرونی دروازے کی گھنٹی بجی
اور پھر دروازہ زور زور سے بجایا جانے لگا
انکے اس گھر میں شفٹ ہونے کے بعد یہ پہلی اجنبی دستک تھی
نادیہ نے دروازہ کھولنے سے پہلے پوچھنا ضروری سمجھا
کیونکہ احمر اس وقت ناشتہ لینے باہر گیا ہوا تھا
اور نادیہ گھر میں اکیلی تھی
دروازہ کھولیں بی بی جی
میں ہوں نسرین
ایک شفیق زنانہ آواز آئی
اس نے پرسوچ انداز میں بند دروازے کو دیکھا
فلوقت اس کے ذہن میں ایسی کوئی نسرین نامی خاتون نہ آسکی جسے وہ جانتی ہو
دروازہ ایک بار پھر بجایا گیا
اس نے تھوڑا سا دروازہ کھول کر باہر جھانک کر دیکھا
تو درمیانی عمر کی ایک عورت نے نرم مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی اور ساتھ ہی سلام کیا
سلام بی بی جی میرا نام نسرین ہے
ویسے مجھے سب خالہ خالہ ہی کہتے ہیں
آپ لوگ یہاں شاید نئے شفٹ ہوۓ ہیں
آپ سے پہلے جو باجی یہاں رہتی تھی وہ تو مجھے اچھی طرح جانتی تھی
میں اس گھر میں صفائی کرتی تھی
بلکہ کپڑے برتن سب کچھ !

محلے داروں سے مجھے پتا لگا یہ گھر پھر سے آباد ہوگیا ہے
اور سوچا کہ پوچھ لوں
آپکو گھر کے کام کاج کیلیے کسی عورت کی ضرورت ہے ؟
بیوہ عورت ہوں میں اور یہی کام کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہوں
پہلے تو نادیہ چپ چاپ سنتی رہی پھر بولی
خالہ یہاں محلے میں آپ کس گھر میں کام کرتی ہیں
یہ جو گلی کے کونے پر سبز گیٹ والا گھر ہے نہ وہ باجی فرحد کا ہے اور میں وہیں کام کرتی ی ہوں
آپ بیشک اپنی تسلی کروالیں
میں جانتی ہوں آجکل حالت خراب ہیں
اور انجان بندے پر اعتبار بھی نہیں کیا جاسکتا
لیکن میں کوئی ایسی ویسی عورت نہیں ہوں بی بی جی
ارے ارے نہیں ایسی کوئی بات نہیں خالہ
نادیہ شرمندہ سی ہو گئی
ٹھیک ہے خالہ آپ آج دوپہر سے ہی کام پر آجائیے
یہ کہہ کر وہ دروازہ بند کیے اندر آگئی.
وہ عورت اسے شریف اور ضرورت مند لگی تھی
مگر دل ہی دل میں اس نے سوچ رکھا تھا کہ وہ فرحد باجی کی طرف جا کر تصدیق ضرور کرے گی.

کیونکہ آجکل کے دور میں کسی انجان پر اعتماد کرنا واقع ہی بہت مشکل تھا
دوپہر کو خالہ آگئی اور بڑی دل جمی سے نادیہ کیساتھ سارا کام کروایا
شام کو وہ اتنا تھک چکی تھی کہ وہ وہ نسرین خالہ کے بارے میں پوچھنے فرحد باجی کے پاس نہ جاسکی
سو اس نے یہ کام اگلے دن پر چھوڑ دیا
اگلے دن احمر کے آفس جانے کے چند گھنٹوں بعد ہی چمگادڑ والا واقعہ ہوگیا جسے لیکر نادیہ خاصی پریشان تھی
ویسے خالہ ایک بات بتائیں
یہ گھر کب سے بند ہے
بی بی جی کافی عرصے سے بند پڑا تھا
کوئی گاہک ہی نہیں لگتا تھا اسکا
محلے والے تو سب جانتے ہی تھے کیونکہ ! خالہ بولتے بولتے اچانک خاموش ہوگئیں
کیا مطلب ؟
کیا جانتے تھے محلے والے ؟
اور آپ اچانک بتاتے بتاتے رک کیوں گئی خالہ ؟
پتا نہیں بی بی آپ ایسی باتوں پر یقین کرتی ہیں یا نہیں
مگر حقیقت تو یہی ہے کہ
بس بی بی جی یہاں کئی لوگ آۓ اور کئی لوگ گئے.
آپسے پہلے جو رابیہ باجی یہاں رہتی تھی نہ انکے ساتھ بھی بہت برا ہوا
خدا جھوٹ نہ بلوائے
کئیں عجیب و غریب واقعات تو میری آنکھوں کے سامنے رونما ہوۓ تھے
یہ بتاتے ہوئے خالہ نادیہ کے قریب کھسک آئی اور انکی آواز سرغوشی سے بلند نہ تھی

وہ یوں بول رہی تھی جیسےکسی اور کے نہ سن لینے کا ڈرہو
نادیہ تو دہل کے رہ گئی
کیا خالہ ؟
لوگ کہتے ہیں یہ گھر آسیب زدہ ہے
یہاں کوئی زیادہ دن نہیں ٹکتا
بڑے بڑے نقصان اٹھاۓ ہیں لوگوں نے جو یہاں رہ کر گئے ہیں
میں نے تو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا
رابعہ باجی نے اپنے تینوں بچے گو دیے
ہاۓ بیچارے رابیہ
مجھے تو بڑا ترس آتا تھا انکی حالت پر
نیم پاگل سی ہوگئی تھی رابعہ باجی
یقیناً یہ گھر آپکو بڑے سستے داموں ملا ہوگا ؟
ہاں مگر نادیہ نے گھبرائی ہوئی آواز میں اتنا ہی کہا تھا
کہ خالہ دوبارہ بول پڑی
بی بی جی پہلے تو گھر کی دیواروں پر خون کے چھینٹے گرتے رہے
بڑے بڑے عامل حضرت کو لایا گیا مگر قسمت میں جو لکھا ہو وہ تو ہو کر ہی رہتا ہے
پھر ایک رات اچانک رابعہ باجی کے تینوں بچے غائب ہوگئے
بڑا بیٹا دس سال کا تھا
اور بیٹی آٹھ سال کی اور سب سے چھوٹا بیٹا پانچ سال کا تھا
ہاۓ معصوم بچے.

آج بھی سوچتی ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے
کیا مطلب ؟
کیا رات و رات تینوں بچے گھر سے غائب ہوگئے ؟
نادیہ نے تو اپنے سینے پر ہاتھ رکھ لیا
اور خوف سے ڈر گئی
بی بی جی صبح اٹھ کر دونوں میاں بیوی نے انہیں پاگلوں کی طرح ڈھونڈا
پورا گھر چھان مارا
مگر بچے تو کہیں نہ ملے.
لیکن گھر کے پچھلے صحن کا نقشہ ہی کچھ اور تھا
صحن میں ایک ساتھ قطار میں تین قبریں بنی ہوئی تھی
ہاۓ نہیں ؟
نادیہ کے منہ سے بے اختیار چیخ نکلی
بی بی جی آگے تو سنیں
رابعہ باجی تو خوف سے وہیں بے حوش ہوگئی
انکے شوہر نے پاگلوں کی طرح آگے بڑھ کر قبریں کھود ڈالی.
انکے تینوں بچے قبروں میں مردہ حالت میں پڑے تھے.
اف کیا قیامت تھی جو ان دونوں پر ٹوٹی
ہر آنکھ اشکبار تھی
خدا ایسا کسی دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے
خالہ نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا
اور نادیہ کی تو خوف سے بری حالت تھی.

نادیہ نے زندگی میں پہلی بار بے اولاد ہونے پر شکر ادا کیا.
بس بی بی جی سنا ہے کہ کوئی ایسا زبردست آسیب ہے کہ کوئی
یہاں کسی کو بسنے بھی نہیں دیتا.
اس گھر میں جو بھی رہا برباد ہوا
خدا آپ لوگوں کی حفاظت کرے
سکڑی سمٹی بیٹھی نادیہ سانس روکے آنکھیں پھاڑے غور سے خالہ کی بات سن رہی تھی.
بی بی جی جب بچوں کا پوسٹ مارٹم کرویا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ بچوں کی موت دم گھٹنے سے ہوئی ہے.
او میرے خدایا.
تو کیا بچوں کو زندہ قبر میں گاڑ دیا گیا ؟
ہاں جی
سب یہی خیال کرتے ہیں
اور بچوں کی علمناک موت سے ایک دن پہلے میں نے رابعہ باجی کے کمرے میں جو منظر دیکھا میری تو جان نکل گئی.
خالہ ک ک کیا دیکھا آپنے؟؟
ایک صبح میں صفائی کرنے بیڈ روم میں گئی کیا دیکھتی ہوں
کہ عین بستر کے درمیان میں ایک کالا سر کٹا کتا پڑا تھا
اور پورے بیڈ پر کالا خون پھیلا ہوا تھا..
میں الٹے قدموں واپس بھاگی
رابعہ باجی اس وقت کچن میں تھی.
خالہ ابھی بات کر ہی رہی تھی کہ بیرونی دروازے کی گھنٹی بجی
گھنٹی بجانے کا وہ مخصوص سا سٹائل احمر کا تھا
احمر آگئے نادیہ کے منہ سے بااختیار نکلا
میں کھولتی ہوں دروازہ !
نہیں خالہ میں خود کھولتی ہوں

بلکہ ہم دونوں اکٹھے چلتے ہیں.
مارے خوف کے نادیہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی
کیونکہ اب دو منٹ بھی اکیلے رہنا اسکے لئے مشکل تھا.
احمر کے آنے پر نادیہ نے خالہ کو چھٹی دے دی.
اور خود احمر کو لیے کمرے میں آگئی.
احمر ہم سے تو بڑی غلطی ہو گئی
جو یہ گھر ہم نے خرید لیا
ارے یار نادیہ کیا ہوگیا ہے تمہیں ؟
ایک چمگادڑ کو لیکر تم اتنا سیریس ہو رہی ہو!
میں بھی بھاگم بھاگ آیا آفس سے کے پتا نہیں محترمہ صاحبہ کو کیا ہوگیا ہے.
کیا زندگی میں کبھی چنگادڑ نہیں دیکھی تم نے ؟
احمر یہ بات نہیں ہے
سوال یہ اٹھتا ہے کہ چمگادڑ آئی کہاں سے.
ارے چمگادڑ ہی تو تھی کوئی ہاتھی تو نہیں تھا جو کچن میں داخل نہ ہوتا
تم پڑھی لکھی عورت ہو

دل میں ایسے وہم کیوں پال رہی ہو خاہ مخواہ
احمر نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تو نادیہ نے خالہ کی ساری بات احمر کو بتا دی
ارے یہ پاگل خالہ تمہیں حوصلہ دینے کی بجائے ڈراتی رہی ہے کیا؟
عجیب جاہل عورت ہے!
وہ غصے سے بولا
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ تم نے اس ان پڑھ جاہل عورت کی بات پر یقین کیسے کر لیا.
احمر میں مانتی ہوں کہ وہ ان پڑھ عورت ہے
لیکن اس نے مجھے بڑا حوصلہ دیا ہے
اگر وہ نہ ہوتی تو شاید میں بے ہوش پڑی ہوئی ہوتی.
خالہ کی موجودگی سے مجھے بڑا سکون ملا اور میرا دل کہتا ہے کہ خالہ باتیں جھوٹی نہیں ہیں.
بھلا وہ کوئی میری دشمن ہے جو مجھے جان بوجھ کر ڈراۓ گی
احمر میری بات کو سمجھو.
یار نادیہ تمہارے منہ سے ایسی باتیں سوٹ نہیں کرتی.
تم تو بہت ذہین عورت ہو
اگر کوئی ان پڑھ عورت ایسی باتین کرتی تو مجھے ذرا حیرت نہ ہوتی
مگر افسوس ہے تم پر!

اس کائنات میں جنات کے وجود سے انکار تو نہیں ہے نہ آپکو ؟
اور ایک بات مجھے بتائیں کے یہ گھر ہمیں اتنا سستا کیوں ملا ؟؟
کیا آپ نہیں جانتے اس علاقے میں زمین کا کیا ریٹ ہے
اور اس حساب سے تو یہ مکان ہیمیں آدھی قیمت سے بھی کم پیسوں میں ملا ہے.
نادیہ تم کیوں اتنا سوچ رہی ہو
تمہیں یاد ہو گا ڈیلر نے ہمیں بتایا بھی تھا کہ مالک مکان جلد از جلد بیرون ملک شفٹ ہونا چاہتے ہیں.
اور اس کے پاس بہت کم وقت تھا.
وہ جلدی ہی اپنی جائیداد فروخت کرنا چاہتا تھا.
اور پلیز اب یہ سوال مت اٹھانا کہ وہ اتنی جلدی بیرون ملک نہیں جانا چاہتا تھا
احمر کی باتوں پر نادیہ نے مزید بحث کا ارادہ ترک کردیا.
کیونکہ وہ جانتی تھی کہ احمر اپنی ضد کا پکا ہے
وہ کبھی بھی سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں کرے گا.
مگر وہ رات تو نادیہ پر خاصی بھاری گزری.
ساری رات وہ سو نا سکی
کبھی اسکی آنکھوں کے سامنے سر کٹا کالا کتا آجاتا
تو کبھی بچوں کی قبریں
اگلے دن احمر کے دفتر جانے کے بعد وہ خالہ کا انتظار کرنے لگی
آج خالہ معمول سے کچھ لیٹ ہوگئ
آدھا گھنٹہ مزید انتظار کرنے کے بعد بھی جب وہ نہ آئی تو اس نے دھوپ لگوانے کیلئے بستر اٹھاۓ اور چھت پر جانے کیلئے سیڑھیاں چڑھنے لگی.
چھت کا دروازہ کھول کر جیسے ہی اس نے چھت پر پہلا قدم رکھا خوف اور دہشت سے بے اختیار اسکی چیخ نکل گئی

ایک لمحے کیلئے تو وہ پتھرا کے رہ گئی
پوری چھت اس وقت چھوٹے بڑے چمگادڑوں سے بھری پڑی تھی
بدصورت خوفناک بہت سارے چمگادڑ چھت پر اڑتے گرتے بڑا ہی ہیبت ناک منظر پیش کررہے تھے.
دن کے اس پہر میں بھی اسے لگا کہ یہ رات کے کسی پہر کا ڈراؤنا خواب ہے.
ایک جھٹکے سے وہ الٹے قدموں واپس بھاگ آئی
بستر تو سارے سیڑھیوں پر پی گر گئے تھے
کچھ دیر بعد خالہ آگئی
اور نادیہ نے ڈرتے دروازہ کھولا
شکر ہے خدایہ خالہ آپ آ گئی
ارے کیا ہوا بی بی خیریت تو ہے ؟
خالہ خیریت ہی تو نہیں ہے
نادیہ نے سارا ماجرا بتادیا

بی بی میری بات مانو تو یہاں سے چلی جاؤ
اس سے پہلے کہ تمہیں اور تمہارے شوہر کو نقصان پہنچے
نادیہ پہلے ہی خوفزدہ تھی خالہ کی بات سن کر اور دہل گئی
شام کو احمر آفس سے آیا تو نادیہ آج کا واقعہ سنانے کیلیے بے چین تھی
احمر نے خاموشی سے سارا واقعہ سنا دل ہی دل میں احمر سوچ رہا تھا کہ نادیہ کو وہم ہونے لگا ہے اور اس کے وہم کا علاج تسلی کے علاوہ کچھ نہیں
اس لئے اس نے بات بدلنا ہی مناسب سمجھا
تم فکر نہ کرو نادیہ اللہ خیر کرے گا
مجھے بھوک لگی ہے جلدی سے میرے لیے کھانا لے آؤ
یہ کہہ کر وہ وہ نہانے چلا گیا
نادیہ مرے مرے قدموں سے کمرے سے باہر نکل گئی
پندرہ منٹ بعد وہ نہا کر باہر نکلا تو حیران رہ گیا
بستر کی چادر جو پندرہ منٹ پہلے صاف تھی اب اس پر جگہ جگہ خون کے چھینٹے پڑے ہوۓ
تھے
ٹھہرے ٹھہرے قدموں سے آگے بڑھا
خون کے تازہ قطروں کو غور سے دیکھا
یکا یک اسے احساس ہوا کہ خون اسکے انگوٹھے سے بہہ رہا ہے
بلکل اسی جگہ سے جہاں سے اس نے بستر پر لگے خون کو چھوا تھا
اس نے تولیے سے خون صاف کیا مگر خون دوبارہ بہنا شروع ہو گیا
کبھی وہ حیرت سے اپنے انگوٹھے سے بہتے خون کو دیکھتا
تو کبھی بستر پر پڑے خون کے چھینٹوں کو
یہ وہم ہرگز نہ تھا

اگر یہی بات اسے نادیہ بتاتی تو وہ ہر گز یقین نہ کرتا اور وہم قرار دے دیتا
مگر اس غیر معمولی نوعیت کے واقع نے نے اس کے ہوش و حواس کھو دیے
احمر کھانا تیار ہے آجائیں
میں کب سے آپکا انتظار کر رہی ہوں
نادیہ یہ بولتے ہوئے جب کمرے میں داخل ہوئ تو اندر کا منظر دیکھ کر اسکی زبان تالو سے چپک گئی
وہ رات دونوں نے جاگتے ہی گزاری
اگلے دن نادیہ نے احمر سے کہا کہ جب تک خالہ نہ آجائے آپ کام پر مت جایۓ گا
فکر نہ کرو میں تب ہی جاؤں گا جب خالہ آجاۓ گی
احمر آپ جلد از جلد کوئی گھر دیکھیں
پہلے بھی آپ میری بات پر یقین نہیں کرتے تھے مگر اب تو آپ نے اپنی آنکھوں سے دیک لیا
تم فکر نہ کرو نادیہ میں کچھ کرتا ہوں
اسی وقت بیرونی دروازے پر گھنٹی بجی
لگتا ہے خالہ آگئی

نادیہ یہ کہتے ہوئے دروازہ کھولکھولنےچلی گئی
شہروز احمر کا اچھا دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا کولیگ بھی تھا
آفس کا کام نمٹانے کے بعد وہ دونوں کیبن میں بیٹھے اور احمر نے سارا واقعہ بیان کر دیا
وہ خاموشخاموشیسے سب سنتا رہا پھر بولا
بات تو خاصی تشویشناک ہے
میں ایک پیر کو جانتا ہوں
بابا جی کے نام سے مشہور ہیں
مجھے یقین ہے کہ وہ تمہاری
پریشانی حل کر دیں گے
تو پھر کب چلیں انکے پاس ؟
جب تم کہو!
ٹھیک ہے آج ہی چلتے ہیں
احمر نے اپنے انگوٹھے کی طرف دیکھا زخم تو بھر چکا تھا
لیکن زخم کا نشان کافی بڑا داغ نما ظاہر ہو رہا تھا
نادیہ نے احمر کے گھر آنے تک ہی خالہ کو گھر روک کے رکھا تھا
کیونکہ اکیلے رہنا اب اس کے لئے بہت مشکل ہو گیا تھا
احمر آفس سے واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک بابا جی جو کہ لمبی سفید داڑھی کیساتھ داخل ہوۓ
احمر نے نادیہ کو ایک طرف لے جا کر بابا جی کے بارے میں بتایا
تو نادیہ نے سکون کا سانس لیا
اور اسے امید کی ایک کرن نظر آئی
بابا جی نے سارے گھر کا جائزہ لیا

بابا جی گھر کے تمام افراد نادیہ احمر اور حتیٰ کہ خالہ کو بھی گھور گھور کر عجیب نظروں سے دیکھنے لگے
گھر میں کتنے افراد رہائش پذیر ہیں ؟؟
اس دوران وہ ہاتھ میں تسبیح لیے مسلسل کچھ پڑھتے چلے جا رہے تھے
خالہ نسرین کے منہ سے بے اختیار نکلا
120 اس گھر میں 120افراد ہیں
نادیہ اور احمر نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے خالہ کو دیکھا
احمر کو خالہ کی دماغی حالت پر شبہ ہوا
نادیہ کو خالہ سے اس بیوقوفی کی توقع نہیں تھی
بابا جی بھی خالہ کی طرف متوجہ ہو گئے
خالہ بڑبڑا کر بولی
معاف کیجیے گا
میں مکان نمبر بتا بیٹھی
بابا جی گھر کے در و دیوار کو دیکھتے ہوئے بولے
پورا کنبہ رہتا ہے یہاں
اچھی خاصی تعداد ہے
کیا مطلب ہے بابا جی ؟
میں سمجھا نہیں ؟
وہ بابا جی کو لیے ڈرائنگ روم میں آگیا تھا
اور نادیہ خالہ نسرین کو لیے کمرے میں چلی گئی
بیٹا سمجھا دوں اتنی جلدی کس بات کی ہے
لیکن فلحال میں اتنا ہی کہوں گا کہ اس گھر میں جنات کا بسیرا ہے اور تعداد بھی بہت زیادہ ہے
میاں تمہارا کام تھوڑا مشکل ہے
مگمگرہو جاۓ گا ذرا دیر لگے گی
مگرتم اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا
تم کل آنا میرے پاس میں تمہیں تعویذات وغیرہ دوں گا اور تفصیلات بھی بتا دوں گا
اور جتنا زیادہ ہو سکے گھر میں قرآن پاک کی تلاوت کیا کرو
باوضو رہا کرو

انشا اللہ مصیبتوں سے بچے رہو گے.
اچھا اب میں چلتا ہوں اور ہاں میاں ایک بات اور
گھر کے تمام افراد پر کڑی نظر رکھنا
یہ آخری بات احمر کی سمجھ میں نہیں آئی
انکی اس بات کا آخر کیا مطلب تھا ؟
اور گھر میں تو افراد ہی تین تھے
یہ باتیں احمر کی سمجھ سے بالا تر تھی
اگلا دن بڑا ہی عجیب تھا
وہ آفس کے بعد بابا جی کی طرف گیا مگر وہاں پہنچ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی
جب اسے پتا چلا کہ بابا جی وفات پاچکے ہیں
اس نے اسی وقت شہروز کو بتایا شہروز بھی بہت حیران ہوا
اس بات نے احمر کو تو ہلا کے رکھ دیا
اچھے بھلے بابا جی جنہیں کل رات وہ اپنے گھر لے کر گیا تھا
آج اس دنیا میں ہی نہیں رہے
بہت سے راز وہ اپنے سینے میں لیے اس دنیا سے چلے گئے
انہوں نے آج تعویذ دینے کے ساتھ ساتھ بہت سی باتیں بھی بتانی تھی
مگر قدرت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا
اور انکی گھر کے افراد پر نظر رکھنے والی بات نے بھی احمر کو بے چین کر رکھا تھا

وہ بہت رنجیدہ سا گھر واپس آ گیا
کیا بات ہے آج خالہ جلدی چلی گئی ہیں کیا ؟
ہاں انکو کوئی ضروری کام تھا
میں نے بہت روکا مگر وہ چلی گئی
اچھا گھر میں سب خیریت ہے؟
ہاں ابھی تک تو خیر ہے
نادیہ ایک بری خبر ہے
کیا بری خبر ہے ؟
وہ بابا جی کا انتقال ہو گیا ہے
کیا؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟
نادیہ تو ایک بار پھر گھبرا گئی
احمر اب کیا کیا ہوگا؟
تم فکر نہ کرو اللہ خیر کرے گا
اگلے دو دن تک خالہ نسرین نہ آئی
وہ دونوں حیران تھے
آخر خالہ بغیر اطلاع کے گئی تو گئی کہاں
احمر نادیہ کو تسلی دیتے ہوئے آفس جاتا اور چھٹی ہوتے ہی بھاگم بھاگ واپس آجاتا
دن کا وہ حصہ نازیہ بڑی ہی اذیت سے گزارتی خوف کے ساۓ منڈلاتے رہتے
اوپر سے روز کوئی نہ کوئی غیت معمولی واقعہ ہونا بھی لازمی جیسے لازمی ہوتا تھا
کبھی چھت سے کسی کے بھاگنے کی آواز آتی تو کبھی پچھلے صحن سے عورتوں کے ہنسنے کی آواز آتی
نادیہ بہت بہت خوف کیساتھ دن گزارتی
اور ہر رات ان کے بیڈ پر خون کے چھینٹے پڑنا تو معمول کی بات ہو گئی تھی
دونوں کی زندگی کافی مشکل ہو گئ تھی
تیسرے ہی دن اس کے آساب جواب دے گئے
برداشت کی ہمت ختم ہو گئی
نادیہ کو یاد آیا کہ خالہ گلی کے کونے پر رہنے والی فرحد باجی کے گھر بھی کام کرتی ہیں

گھر میں ہونے والے پر اثرار واقعات میں پھنس کر دماغ ایسا معوف ہوا تھا کہ وہ اب تک فرحد باجی کے گھر بھی نہ جاسکی تھی
احمر کے آفس جاتے ہی وہ فرحد باجی کے گھر گئی
فرحد باجی کو اپنا تعارف کروانے کے بعد نادیہ نے خالہ نسرین کے بارے میں پوچھا تو وہ حیرت سے بولی
میں تو شروع سے ہی اپنے گھر کے کام خود ہی کرتی ہوں
میں نے تو آج تک کوئی بھی کام والی نہیں لگوائی
کیا ؟
آپ کسی کام والی خالہ کو نہیں جانتی ؟
نہیں میں بلکل نہیں جانتی
اس محلے میں جو عورتیں گھروں میں کام کرتی ہیں انہیں میں اچھی طرح جانتی ہوں
نسرین نام کی تو کوئی خالہ نہیں ہے
اور مجھے اس محلے میں رہتے ہوئے پندرہ سال ہو چکے ہیں
فرحد باجی کی باتیں سن کر نادیہ کے پیروں تلے زمین نکل گئی
خالہ نسرین کون تھی ؟
کہاں سے آئی اور کہاں گئی؟
نادیہ حیرت اور خوف میں ڈوبی گھر واپس آئی
اس وقت اسکی حالت ایسی تھی کہ نادیہ بیرونی دروازہ ہی بند کرنا بھول گئی
اندر داخل ہوتے ہی اس کے قدم جیسے زمین نے جکڑ لیے
اسے یوں لگا کہ وہ پتھر ہو گئی ہو

لاؤنج پر صوفے پر خالہ نسرین بیٹھی تھی
نادیہ حیران تھی کہ اول تو کبھی خالہ نے اتنی جرات نہ کی کے کبھی صوفے پر بیٹھے
دوسرا سوال یہ اٹھتا تھا کہ خالہ اندر کیسے آئی
خالہ آپ اندر کب آئی؟
خالہ نے ایک عجیب سے انداز میں قہقہہ لگایا
یہ ایک غیر انسانی قہقہہ تھا
نادیہ کا دل تو بند ہونے لگا
دیکھتے ہی دیکھتے خالہ کی شکل تبدیل ہونے لگی
اسکی آنکھیں پھیل کر آنکھوں تک چلی گئی
اور نچلا جبڑا کھل کر یوں لٹک گیا جیسے فالج زدہ ہو
نادیہ خوف کے مارے بے ہوش ہونے کو تھی
یہ گھر ہمارا ہے
ہم نے تمہیں بہت دفعہ پیار سے سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ چلی جاؤ یہاں سے اپنے شوہر کو لیکر
چھوڑ دو یہ مکان
مگر تم لوگ تو نہیں سمجھے

اور تم چلے تھے ہمیں یہاں سے نکلوانے ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا
کہاں گیا وہ تمہارا بابا ؟
اسکو بھی ہم نے ہی موت کے گھاٹ اتارا ہے
جو بھی ہمارے راستے میں آتا ہے زندہ نہیں بچتا
شکل کیساتھ ساتھ تو خالہ کی آواز بھی بدل گئی
نادیہ آنکھیں پھاڑے خوف میں مبتلا خالہ کو دیکھ رہی تھی
اسے یہ سب کسی ڈراؤنے خواب کی طرح لگ رہا تھا
اچانک گھر کے پچھلے صحن سے شور کی آواز سنائی دی
اور پھر یکا یک بہت سی خوفناک شکلوں والی عورتیں اور عجیب و غریب ہیبت ناک بچے دھڑا دھڑ لاؤنچ میں داخل ہونے لگے
اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا لاؤنچ اس غیر انسانی مخلوق سے بھر گیا
پچھلے صحن سے مسلسل عجیب و غریب آوازیں آرہی تھی
جیسے وہاں ابھی بھی بہت سے لوگ موجود ہوں
وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی مگر
ٹانگوں میں جیسے جان ہی نہ رہی ہو
زرد چہرہ لیے وہ بمشکل دیوار کا سہارا لے کر وہ خود کو گرنے سے بچا پائی تھی
وہ عورت جس نے خالہ نسرین کے نام سے انسانی روپ دھار رکھا تھا اچانک نادیہ کے بے حد قریب آگئی
اس سے پہلے کہ وہ نادیہ کو چھوتی وہ چکرا کر گری اور ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی
دوسری طرف احمر کو ایک عجیب سی بے چینی ہو رہی تھی جسے وہ کوئی نام نہیں دے پا رہا تھا
بار بار کام سے توجہ بھٹک جاتی
شہروز نے اس کی بڑھتی ہوئی بے چینی نوٹ کی تو وہ بول اٹھا
خیریت تو ہے یار ؟
یار نادیہ اکیلے گھر میں پتا نہیں کس حال میں ہو گی
خالہ بھی نہیں آرہی
یار تمہارا ذہن تو گھر میں ہی اٹکا رہتا ہے
یار گھر فون کر لو
شہروز کے کہنے پر احمر نے گھر کال کی تو نادیہ فون ہی نہیں اٹھا رہی تھی
اس نے بار بار کال کی مگر کوئی جواب موصول نہ ہوا
اب تو أ کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا
احمر اٹھا اور کام شہروز کے حوالے کیا اور گھر آگیا
گھر کے دروازے پر پہنچ کر وہ بڑا حیران ہوا بیرونی دروازہ پہلے سے ہی کھلا ہوا ہوا تھا
نادیہ اتنی لاپرواہ تو نہیں ہے کہ دروازہ کھلا چھوڑے
اسے انہونی کا احساس ہوا تو وہ کھلا گیٹ پار کر کے اندر داخل ہوا اندر سے آنے والی عجیب و غریب آوازوں نے اسے تیز تیز چلنے پر مجبور کر دیا
دروازہ کھول کر وہ لاؤنچ میں داخل ہوا تو اندر کا منظر دیکھ کر اسکی تو سانس ہی اٹک گئی
مگر نادیہ کو اس غیر انسانی مخلوق کے ہاتھوں میں دیکھتے ہی اس نے ہوش کے ناخن لیے
اس نے اپنے ہوش پر قابو پانے کی کوشش کی تو اسے بابا جی کی بات یاد آئی احمر نے آنکھیں بند کر کے اونچی آواز سے قرآن پاک کی تلاوت شروع کردی
کافی دیر بعد جب اسے کمرے میں خاموشی کا احساس ہوا تو اس نے جھٹ سے آنکھیں کھول لی
نادیہ ایک کونے میں بے ہوش پڑی تھی
وہ جلدی سے نادیہ کی طرف لپکا
اور اسے اٹھا کر باہر گاڑی تک لایا
گاڑی میں ڈال کر اس نے گاڑی تیز رفتاری سے ہسپتال کی طرف روانہ کردی
ڈاکٹروں کی کوششوں کے بعد نادیہ کو بچا لیا گیا
ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ نادیہ کو گلہ دبا کر مارنے کی کوشش کی گئی ہے
اگر اسے ہسپتال لانے میں ذرا بھی دیری ہوتی تو اسےبچانا ناممکن تھا
یہ بات بھی سامنے آچکی تھی کہ بابا جی نے گھر کے افراد پر نظر رکھنے کو کیوں کہا تھا
اس واقع کو احمر نے میڈیا سے کیسے چھپایا یہ ایک الگ کہانی ہے
آج اس واقعہ کو کافی سال بیت چکے ہیں
نادیہ کے صحت یاب ہونے کے بعد غلطی سے بھی کبھی انہوں نے اس مکان میں قدم نہیں رکھا
اور دوسرا مکان کراۓ پر لیکر رہنے لگے
مگر اتنے سال گزر جانے کے بعد آج بھی وہ مکان اندرون لاہوری گیٹ لاہور کے ایک محلے میں وہ پراثرار مکان بڑی ہی ہیبت سے ویران اور خالی کھڑا ہے
شام کے بعد لوگ اس مکان کے آگے سے گزرنے سے بھی خوف کھاتے ہیں
THE END
-----------------------------
Urdu Stories, Urdu Kahani, Hindi Stories, Stories in Urdu

تمام اردو کہانیوں کے لیے یہاں کلک کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے