حسین دوشیزہ کا انتقام

Urdu Font Stories

وہ لڑکی میری ٹیکسی میں بیٹھ گئی، وہ اک حسین دوشیزہ لگ رہی تھی ، اس کے عمر بمشکل بائیس سال ہو گی، وہ مجھ سے کہنے لگی: اگر تم مجھے ہر روز  سات دن تک میری بتائی ہوئی جگہ چھوڑو گے تو میں تمہیں دُوگنا کرایہ دونگی، میں  فوراً راضی ہو گیا، لیکن میں حیران بھی تھا کہ وہ لڑکی ہر روزاک پرانی حویلی میں کیا کرنے جاتی ہے، ایک رات میں نے اس کا تعاقب کیا، میرے تو ہوش اڑ گئے جب اس 
لڑکی نے اپنے کپڑے اتارے اور  ؟؟

میرا نام جمیل ہے،  اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب ملازمت کے لیے دھکے کھانے لگا تو مجبوراً مجھے ٹیکسی چلانی پڑی، لیکن تھوڑے ہی دنوں میں مجھے محسوس ہونے لگا کہ اس کام میں اچھی خاصی کمائی ہے۔میرے حالات بہتر ہونے لگے پھر میں نے ملازمت کا خیال ہی دل سے نکال دیا۔ٹیکسی چلاتے ہوئے دوسرا سال تھا ۔دو سالوں میں میرے ساتھ بہت سے عجیب واقعات بھی پیش آئے،
کبھی کبھی خیال آتا کہ ٹیکسی چلانا چھوڑ کر کوئی اور کام کر لوں، دوسر ی طرف اچھا پیسہ آ رہا تھا تو دل نہیں مانا، تھوڑا بہت رسک لینا پڑتا ہے۔چھوٹے بڑے طبقے کےہر طرح کے مسافر ملے، کوئی مجبور دیکھا تو کوئی عیاش، کوئی مظلوم دیکھا تو کوئی ظالم۔خیر میں صرف اپنے کام سے کام رکھتا تھا اور یہی میرا اصول تھا، اس لیے میں کامیاب جا رہاتھا ۔
ایک ہفتہ قبل میں اک مسافر کو اس کی منزل پر پہنچا کر واپس لوٹ رہا تھا ، تو اک جگہ میں چائے پانی کی لیے رک گیا، کوئی دس منٹ گزرے ہوں گے کہ اک گھبرائی ہو لڑکی میرے پاس آئی اور کہنے لگی:  اگر آپ مصروف نہیں تو میں آپ کی ٹیکسی میں مسلم ٹاؤن تک جانا چاہتی ہوں۔میں اپنے چائے پانی کے کام سے فارغ ہو چکا تھا، اس لیے میں نے حامی بھر لی اور اسے ٹیکسی میں بٹھا لیا،
اس لڑکی نےچہرے کو نقاب سے ڈ ھا نپ رکھا تھا۔  اچانک مجھے یاد آیا کہ ٹیکسی کا پٹرول لیول کم ہے ، میں نیچے اترا اور پٹرول کی ٹینکی فل کرا لی، ویسے بھی میں رات کو بہت کم ٹیکسی چلایا کرتا تھا۔جب میں دوبارہ ٹیکسی میں بیٹھا تو میں حیران ہو ا کہ اب وہ لڑکی بغیر نقاب کے تھی، اس کا حسین، چہرہ دیکھ کر میرے دل میں خیال آیا کہ  واقعی دنیا میں بہت کم حسین لوگ بچے ہیں، جن میں یہ لڑکی بھی شامل ہے۔خیر ہمارا اک اصول ہے کہ مسافر کوئی بھی ہو اسے اسکی منزل تک پہنچاؤ، پیسے وصول کرو اور اگلے مسافر کی تلاش میں نکل جاؤ۔
وہ خاموشی سے بیٹھی باہر کی روشنیوں میں کھوئی ہوئی تھی، میں کبھی کبھی سامنے لگے شیشے میں اسے دیکھ لیتا،آدھے گھنٹے بعدہم  مسلم ٹاؤن کے پہلے چوک میں د اخل ہوئے تو میں نے اس سے پوچھا کہ آپ نے کس جگہ اتر نا ہے؟لیکن اس نے میری بات کا جواب دینے کی بجائے کہا:میں سارے رستے تمہارے بارے میں ہی سوچتی رہی ہوں۔میں بہت حیران ہوا کہ یہ کیا کہ رہی ہے؟ وہ پھر بولی: میں نے بہت سی ٹیکسی ڈ رائیوروں کیساتھ سفر کیا ہے لیکن تم وہ واحد انسان ہو جس نے پورے رستے کوئی ایسی ویسی بات نہیں کی، تمہاری اس بات نے مجھے بہت متاثر کیا ہے، لگتا ہے تم اپنے کام سے کام رکھنے والے بندے ہو۔ اتنا کہ کر وہ خاموش ہوئی لیکن میرے پاس اس کی کسی بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔
آخر اس نے کرایے کا پوچھا اور پیسے ادا کر کے ٹیکسی سے باہر نکل گئی۔لیکن اچانک واپس لوٹ آئی اور ٹیکسی کے دروازے کے پاس آ کر بولی:کیا تم مجھے کچھ دنوں کے لیے اسی چوک سے لے جایا کرو گے؟ مجھے سات دن تک اک جگہ جانا ہے، میں اس کام کے لیے دوگنا کرایہ ادا کر سکتی ہوں۔مجھے کام مل رہا تھا اس لیے میں نے ہاں میں جواب دیا، ویسے بھی مجھے اس بات سے کیا  کوئی غرض نہیں تھی کہ کس جگہ جانا تھا۔
اس لڑکی نے دو دن بعد رات دس بجے اسے اس چوک سے لینے کو کہا، میں نے رات میں بہت کم ٹیکسی چلائی تھی لیکن اس حسین لڑکی کیساتھ تو میں کہیں بھی ، کسی بھی وقت جانے کو تیار تھا۔وہ چلی گئی اور میں اپنے گھر کیطرف ورانہ ہو گیا۔
 میں وقت کا پابند تھا، اس لیے مقررہ وقت پر اسی جگہ موجود تھا لیکن پری چہرہ لڑکی ابھی نہیں آئی تھی، میں نے آج سارا دن ٹیکسی نہیں چلائی، بس دل ہی نہیں کیا ، اچھے کپڑے پہن کر ، پرفیوم چھڑک کر میں اس چوک میں کھڑا اس کا انتظار کرنے لگا۔اچانک میرے دل میں خیال آیا کہ کہیں اس لڑکی نے میرے ساتھ مذاق ہی نہ کیا ہو، میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ گلی سے ایک برقع پوش خاتون آئی اور میری ٹیکسی میں بیٹھ گئی، میں نے اس خاتون سے معذرت چاہی  کہ میں کسی کا انتظار کر رہا ہوں، اس خاتون نے برقع اتار دیا تو میرا دل دھک سے رہ گیا کیونکہ یہ تو وہی لڑکی تھی۔
 میں نے ٹیکسی اسٹارٹ کی اور اس کی بتائی ہوئی منزل پر ورانہ ہو گیا۔تھوڑی دیر بعد ہم اک ویران علاقے میں تھے، میں پہلی دفعہ اس طرف آیا تھا۔وہ لڑکی اتری اور جو کرایہ طے ہوا تھا ادا کرنے کے بعد بولی: اب تم جا سکتے ہوں اور کل بھی مجھے اسی چوک سے لینے آ جانا، میں واپس آ گیا اور کھانا کھا کر سو گیا۔
 میں حیران تھا کہ وہ لڑکی اس پرانے کھنڈر نما گھر میں کیا کرنے جاتی ہے، لیکن یہ اس کا پرسنل معاملہ تھا اگر پوچھتا تو وہ ناراض ہو سکتی تھی۔میرا تجسس بڑ ھ رہا تھا اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ اس پوچھنےکی بجائے اگر میں چھپ کر اسے دیکھوں تو ٹھیک رہے گا، یہ چھٹا دن تھا جب میں ا سے لے کر اس  پرانی سے حویلی پہنچا، وہ نیچے اتر کر اندر چلی گئی، میں، میں نے کچھ دور جا کر ٹیکسی روک کر نیچے اتر آیا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس حویلی کے عقبی حصے میں آیا وہاں ایک بڑا درخت تھا میں اس پر چڑھ کر دیوار کے اندر کود گیا، وہاں ویرانی تھی اور میرا دل دھڑک رہا تھا، مجھے لگا جیسے میں یہاں آ کر غلطی کر بیٹھا ہوں، لیکن اب تو میں اندر داخل ہو چکا تھا۔
حویلی میں سناٹا تھا،  میں آگے بڑھا تو میں نے اس لڑکی کو دیکھا، جو ابھی تک حویلی کی بوسیدہ صحن میں بے خوف و خطر موجود تھی، چاندنی رات میں اس کا ہیولا صاف نظر آ رہا تھا۔اچانک اس لڑکی نے اک ایسی حرکت کی ، جسے دیکھ کر میرا دل دھڑکنا بھول گیا، وہ اپنا لباس اتار رہی تھی، یہاں تک کہ بالکل برہنہ ہو گئی، میرے دماغ میں گھنٹیاں بجنے لگی، میں اپنے سامنے اس خوبصورت لڑکی کا سراپا دیکھ رہا تھا، چاندنی رات میں اس کا جسم دودھ جیسا چمک رہا تھا، اگلے ہی لمحے مجھ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پرے، کیونکہ وہ لڑکی اب اک چست لباس پہن رہی تھی۔
پھر اس نے اپنا پہلے والا لباس وہیں چھپا دیا اور حویلی سے با ہر جانے لگی، میں بھی رینگتا ہوا اس باہر جانے لگا اور دیوار کیساتھ چپک کر اس کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھا، آخر وہ اک کچے راستے پر چلتی ہوئی ایک شاندار گھر ک سامنے رکی اور اِدھر اُدھر دیکھ کر ایک ایسی قلابازی کھائی کر  کہ دوسرے ہی لمحے وہ اس گھر کے اندر تھی، لیکن میں اس گھر میں نہیں جا سکتا تھا، وہاں کچھ نہ کچھ ہونے والا تھا، میں وہیں رک کر انتظار کرنے لگا، ایک گھنٹہ گزر گیا جب میں نے پستول کی گولی چلنے کی آواز سنی تو د ل دھک کر رہ  گیا، لیکن دوسرے ہی لمحے وہ لڑکی لڑ کھڑاتی ہو ئی دیوار پھلانگ کر باہر گری ، اسکی چیخ نکل گئی اور وہ وہیں ساکت ہو گئی۔
میری سمجھ میں کچھ نہ آیا، کہ اس موقع پر مجھے کیا کرنا چاہیے، ابھی تک اس گھر سے بھی کوئی باہر نہیں آیا تھا،بلاآخر میں دوڑا اور اپنی ٹیکسی میں آ گیا، لیکن دوسرے ہی لمحے میں اس حسین لڑکی کا خیال آیا جو گھر کے باہر بے ہوش پڑی تھی،یا شاید گولی لگنے سے مر چکی تھی۔ میں ٹیکسی اس گلی میں لایا، دیکھا تو لڑکی زندہ ہے، میں نے فوراً اس لڑکی کو ٹیکسی میں ڈ ا لا اور واپس اپنے گھر آ گیا، اس لڑکی کو بستر پر ڈ الا ، وہ ابھی تک بے ہوش تھی۔
میں نے پانی کے چند قطرے اس کے چہرے پر گرائے تو اسے ہوش آگیا، لیکن مجھے اپنے سامنے دیکھ کر وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی، میں نےاسے ساری کہانی سنا ڈ الی وہ بولی: آپ بہت اچھے انسان ہیں، لیکن آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، آپ کو کچھ ہو سکتا تھا، جان بھی جا سکتی تھی۔
میں نے جب اس سے پوچھا کہ یہ سب کیا ماجرا ہے؟ وہ میری آنکھوں میں جھانکنے لگی اور بولی: یہ بات میں صرف تم سے شیئر کر رہی ہوں، اس لیے کہ مجھے تم پر بھروسہ ہے  اور تم نے میری جان بچا کر مجھ پر احسان کیا ہے، اور یہ بھی کہ تم میری بے ہوشی کا فائدہ بھی اٹھا سکتے تھے، لیکن تم نے ثابت کیا ہے کہ تم ہی اصل مرد ہو۔پھر وہ اپنی کہانی سنانے لگی۔
ایک سال پہلے اسے شرجیل نامی اک لڑکے نے دھوکے سے اپنے  گھر بلایا، جہاں وہ اپنے آوارہ دوستوں کیساتھ اس کی عزت سے کھیلتا رہا، جب دل بھر گیا تو اس کے دوست بھی اس کی عزت لوٹتے رہے، اس گھر میں اک ملازم بہت شریف سا ، خدا ترس بندہ تھا، اس کے مدد سے میں وہاں سے فرار ہوگئی، میں یونیورسٹی پڑھنے آئی تھی اور ہوسٹل میں رہتی تھی، اس دن میں یہ بتا کر آئی کہ اپنے گھر جا رہی ہوں، لیکن شرجیل اور اس کے دوستوں کی جال میں پھنس گئی۔
میرے دل میں بھڑکتی آگ نے مجھے انتقام لینے پر مجبور کر دیا، میں نے ان سب کو ہلاک کر ڈ الا، اور آج شرجیل کے سینے میں خنجر گھونپ کر میں نے اپنا انتقام لے لیا ہے، اتنا کہ کر وہ لڑکی چپ ہو گئی، میں نے پوچھا : پھر وہ گولی کس نے چلائی تھی؟ اس نے جواب دیا: شرجیل نے جب دیکھا کہ مجھ پر خون سوار ہے تو اس نے مجھ پر گولی چلا دی، جو میرے پاؤں کی پنڈلی چھیدتی ہوئی گزر گئی، بہتے خون کر روکنے کے لیے میں نے کپڑے کا اک ٹکڑ اباند ھ لیا تھا۔
میں حیران ہوا کہ یہ لڑکی نہیں کوئی آفت ہے، میں نے اس سے  کہا: اب تم کہاں جانا پسند کرو گی؟ وہ مجھے گھورنے لگی اور جواب دینے کی بجائے پوچھنے لگی کہ کیا تمہاری شادی ہوئی ہے؟ میں نے نہ میں سر ہلا دیا، تو اس نے مجھے پروپوز کر دیا، میں ہکا بکا اس کا منہ تکے جا رہا تھا۔
یہ سچ ہے کہ اس لڑکی پر ظلم ہوا تھا، اس کے ماں باپ بھی اس دنیا میں نہیں تھے، وہ بے چاری اکیلی تھی، لیکن اب وہ تنہا نہیں تھی، میں نے اس سے شادی کر لی اور وہ میرے ساتھ رہنے لگی۔
 محترم خواتین و حضرات  ۔۔۔ !ہماری معاشرے میں بہت سی مظلوم لڑکیاں شادی کے انتظار میں بیٹھی ہیں، خدا را کسی کا سہارا بنیں۔امید ہی آپ کو آج کی کہانی پسند آئی ہو گئی۔ ہمارے اس چینل کو سبسکرائب ضرور کر لیں، بہت شکریہ 

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے