Sublimegate Urdu Font Stories
غیرت مند عاشق - پارٹ 1
محمود کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا ۔وہ سر پکڑ کر بستر پر لیٹ گیا ۔ اسے اپنے آپ سے گھن آنے لگی تھی۔اگر اس کے دل میں چھپی خواہش کا چچا، چچی کو معلوم ہوجاتا تو یقینا اسے دھکے دے کر گھر سے نکال دیتے ۔دوسروں سے تو کیا وہ خود سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہا تھا ۔
اس کی آنکھوں میں ایک بار پھر دعا کا سراپا لہرایا اور اس نے جلدی سے آنکھیں کھول دیں ۔مگر آنکھیں کھولنے کا ذرہ بھر بھی فائدہ نہیں ہوا تھا ۔ہلکے نیلے رنگ کی چھت تو گویا ٹی وی سکرین بن گئی تھی اور اس پر کچھ دیر پہلے دیکھے مناظر فلم کی طرح چلنے لگے تھے ۔
گیلے بالوں پر تولیہ رگڑتی دعا کی گہری سیاہ زلفیں کہ جن کی ہمسری کا دعویٰ اماوس کی رات بھی نہیں کر سکتی تھی اس کے مقدر کی تاریکی کو اجاگر کرنے لگیں ۔۔۔
”یہ میں کیا سوچ رہا ہوں ....اتنا گھٹیا ہو گیا ہوں میں ؟....وہ بمشکل سترہ اٹھارہ سال کی ہے اور میں اڑتیس سال کا .... نہیں ....نہیں یہ نہیں ہو سکتا ۔“اس نے اپنی پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر زور سے کھینچا ۔
”اس میں گھٹیا پن کی کیا بات ہے ؟“دل نے ضمیر کے خلاف میدان ِ دلائل میں چھلانگ لگائی ۔”وہ کون سا تمھاری سگی بہن ہے ۔کیا بہن کہنے سے وہ سچ مچ کی بہن ہو گئی ؟“
5 اقساط |
”میں اسے بہن کہتا ہی نہیں سمجھتا بھی ہوں ....اور پھر میں نے اسے اپنی گود میں کھلایا ہے ۔“
”ہا....ہا....ہا کوئی بات کرو یار !....گود میں کھلایا ہے ،اس کا خیال رکھا ہے ،اسے بہن سمجھا ہے ۔ان سب باتوں میں کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں جو شرعی طور پر اسے تمھارا ہونے سے روک سکے ۔“
”نہیں ....میں ایسا سوچنے سے پہلے مر جانا پسند کروں گا ۔میں احسان فراموش نہیں ہوں ،چچاجان نے میرے لیے جو کچھ کیا ہے اس کے بعد ایسا سوچنا ہی گناہ عظٰم ہے ۔“
اسے چچا کے گھر میں اپنی آمد کا دن بھولا نہیں تھا ۔وہ خود کو سمجھانے کے لیے ماضی کے سفر پر روانہ ہو گیا ....
”یہ کیا مصیبت اٹھا لائے ہو ؟“رخسانہ اپنے شوہر پر برس پڑی تھی ۔
”بھتیجا ہے میرا نیک بخت۔“
”تمھارے دوسرے دو بھائی بھی تو ہیں ،لیکن کہاں؟ تمھیں ثواب کمانے کا شوق جو زیادہ ہے۔“
” میں بڑا بھائی ہوں اس لیے میری ہی ذمہ داری بنتی تھی نا اور پھر دونوں چھوٹے بھائی بمشکل اپنے بیوی بچو ں کو پال رہے ہیں ، اس اضافی بچے کو کیسے پالتے۔“
”ہاں ....ہاں ،تمھاری تو فیکٹریاں چل رہی ہیں نا ،ان دونوں بھائیوں کے بچوں کو بھی ساتھ لے آنا تھا ۔“
”کس چیز کی کمی ہے نا شکری عورت ؟“رضوان نے جھلا کر پوچھا ۔
”کوئی ایک چیز ہو تو بتاوں ۔“
”تم سے تو بحث ہی فضول ہے ۔“کہہ کر وہ کمرے سے باہر نکل گیا ۔
وہ اس وقت ڈرائینگ روم کے صوفے پر سہما ہوا بیٹھا تھا۔بارہ سال کی عمر اتنی بھی کم نہیں ہوتی کہ اسے چچا ،چچی کے درمیان ہونے والی بحث کا پتا نہ چلتا ۔
”ارے بیٹا !....پریشان کیوں بیٹھے ہو،آو تمھارا کمرہ دکھاوں ۔“
وہ سر ہلاتے ہوئے کھڑا ہو گیا ۔
”ٹھہرو ۔“وہ دو قدم بھی نہیں لے پائے تھے کہ رخسانہ نمودار ہوئی ۔”اسے سٹور روم والا کمرہ دینا ،کہیں فیضان اور افنان کے ساتھ نہ گھسا دینا ۔“
”خدا کی بندی !یہ اکیلا کیسے سوئے گا۔ “رضوان نے معترض ہوا۔ ”پھر وہاں کتنا کاٹھ کباڑ پڑا ہے ۔“
”تو صفائی کرلے گا،ننھا بچہ تو نہیں ہے۔“
”اور اتنے کمرے جو خالی پڑے ہیں گھر میں ۔“
”جب مہمان آئیں گے تو انھیں کہاں سلائیں گے ؟“رخسانہ کے پاس ہر سوال کا جواب موجود تھا ۔
”بارش ہونے سے پہلے بھیگ رہی ہو نیک بخت !....جب مہمان آئیں گے تو ان کے سونے کی جگہ بھی بن جائے گی۔“
”کبھی عقل کی بات نہ کرنا ۔“محمود کو کڑے تیوروں سے دیکھ کر وہ بڑبڑاتی ہوئی واپس مڑ گئی ۔
”آو بیٹا !....اس کی باتوں پر غور نہ کرنا ۔“اس نے اپنے بچوں سے ملحق کمرہ محمود کے حوالے کر دیا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک اس کے کانوں میں چچا کی آواز پڑی ۔”محمود !....بیٹا کہاں ہو تم ؟“
”جی چچا جان !....“وہ خیالوں کی دنیا سے باہر آ گیا ۔چچا جان اسے آوازیں دے رہے تھے ۔وہ اپنے کمرے سے باہر نکلا چچا جان ڈرائینگ روم میں بیٹھے تھے اس کے قریب ہی دعا بھی موجود تھی ۔
”بھیا !....سو رہے تھے ۔“ ٹی وی سکرین سے نظریں اٹھا کر اس نے محمود کی جانب مسکراتی ہوئی نگاہوں سے گھورا ۔عجیب سحر آفرین تبسم تھا ،جب بھی مسکراتی یوں لگتا سارا ماحول مسکرا رہا ہو ۔محمود اس کے دلکش چہرے سے نظریں چرا کر چچا جان کی طرف متوجہ ہوا۔
”جی چچا جان !....“
”بیٹا میں دفتر میں کچھ ضروری فائلیں بھول آیا ہوں ۔اور تم جانتے تو ہو کہ میں اپنا دفتر خود ہی تالا کرتا ہوں ۔اگر زحمت نہ ہو تو وہ فائلیں اٹھا لاﺅ ۔“
اس کے چچا ایک کمپنی کا ایم ڈی تھے۔ اور اپنے دفتر کے بارے وہ بالکل وہمی سے تھے ۔یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہو رہا تھا ۔ پہلے بھی وہ کئی بار محمود کو فائلیں لینے بھیج چکے تھے ۔صبح اپنے دفتر کی صفائی بھی وہ اپنی نگرانی میں کرایا کرتے تھے ۔
”زحمت کیسی چچا جان !“وہ خوش دلی سے بولا ۔”بس یہ بتا دیں وہ فائلیں پڑی کہاں ہیں ؟“
”تمام فائلیں ایک فولڈر میں بند ہیں اور میری میز پر بس ایک ہی فولڈر پڑا ہو گا وہی لیتے آنا ۔“
”جی چچا جان !“محمود نے اپنے چچا سے دفتر کی چابی پکڑی ۔
”میں بھی چلوں گی ۔“دعا اٹھتے ہوئے بولی ۔
”نہیں ،میں نے ایک ضروری کام سے دوست کی طرف جانا ہے ۔“محمود نے فوراََ بہانہ گھڑا ۔۔
زندگی میں شاید پہلی بار اس نے دعا کو اس طرح کہا تھا ورنہ اس کی ہر بات کو پورا کرنا وہ اپنا فرض سمجھا کرتا تھا ۔ رضوان کو بھی محمود کی بات پر حیرت ہوئی تھی مگر اس نے کچھ کہنے سے گریز کیا تھا ۔
دعا البتہ حیرانی ظاہر کیے بغیر اطمینان سے بولی ۔”جو آپ کا ضروری کام ہے نا وہ کسی اور وقت بھی ہو سکتا ہے ،اس وقت آپ مجھے گھمانے لے جا رہے ہیں اور بس۔“
”افف !....“اس نے بے زاری سے سر ہلایا۔”مجھے بہت ضرری کام ہے اور ....“
”ٹھیک ہے نہیں جاتی ....“اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے دعا پیر پٹختے ہوئے اپنی خواب گاہ کی طرف بڑھ گئی ۔
وہ جانتا تھا اگر اس نے اسی وقت دعا کو راضی نہ کیا تو اس نے بھوک ہڑتال کر دینا تھی ۔محمود کی ذرا سی بےتوجہی بھی اسے گوارا نہ تھی ۔گھر میں اس کا سب سے بڑا طرف دار، زیادہ لاڈ اٹھانے والا اور اس کی ہر ایک بات کو مکمل توجہ دینے والا محمود ہی توتھا ۔ اپنے دونوں بھائیوں سے تووہ ہر وقت جھگڑتی رہتی ،بلکہ ان دونوں کے ساتھ دعا کی گفتگو توتو میں میں کے علاوہ کبھی ہو ہی نہیں پاتی تھی۔
(گو اب تو دونوں بھائی شادی کے بعد ان سے علیحدہ ہو گئے تھے )غلطی پر ہوتے ہوئے اسے ماں اور باپ کی ڈانٹ کھانا پڑتی مگر محمود اس کی ہر غلطی کا دفاع کرنے کے لیے موجود ہوتا تھا ۔ اس کی طرف داری کرنے پر وہ کئی بار چچی اور چچا جان کی ڈانٹ کھا چکا تھا ۔لیکن دعا اسے پیاری ہی اتنی زیادہ تھی کہ اس کی خاطر وہ کچھ بھی کرنے پر تیار ہو جایا کرتا تھا ۔اور اس میں بھی کوئی شک نہیں تھا کہ اس کی محبت ہر قسم کی آلودگی سے پاک تھی ۔
04 اقساط |
نامعلوم آج ایسی کون سی بات ہوگئی تھی کہ وہی مقدس ، پاکیزہ اور ہر آلودگی سے پاک محبت نے ایک نیا موڑ اختیار کر لیا تھا ۔ایک ایسا موڑ جو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ چچا چچی کی نظر میں اس کا مقام گرانے والا تھا ۔اس وقت بھی اس سے دعا کا خفا ہونا برداشت نہ ہوا اور وہ اسے آوازیں دیتا ہوا اس کے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔
”گڑیا !....اوئے گڑیا !....بات تو سنو ....یونہی خفا ہو جاتی ہو ۔میں مذاق کر رہا تھا۔ “
اس کی منت بھری آواز سنتے ہی رضوان نے مسکراتے ہوئے محمود کو آواز دی ۔ ”جب جانتے ہو کہ اس کی خفگی تم سے برداشت نہیں ہونی پھر یوں اکڑخانی کا مطلب ؟“
وہ چچا کی بات کا جواب دیے بغیر دعا کی خواب گاہ میں گھس گیا ۔وہ منہ پھلائے بیٹھی تھی ۔اس کے خفگی بھرے چہرے پر نظر ڈالتے ہی محمود کی دھڑکنیں ایک بار پھر زیر و زبر ہونے لگیں۔ جانے اسے کیا ہوگیا تھا ۔
”اچھا چلو نا گڑیا!.... ضد نہیں کرتے ۔“وہ بمشکل بول پایا تھا ورنہ پہلے تو وہ اسے بلا تکلف گود میں بھی اٹھا لیا کرتا تھا اور آج اس کی جانب دیکھتے ہوئے بھی گھبرا رہا تھا ۔
”بس میں نے نہیں جانا ۔“وہ منہ بسورتے ہوئے بولی ۔
محمود چند لمحوں بےبس سا اسے گھورتا رہا مگر پھر اس نے اپنی اندر اتنی ہمت مفقود پائی کہ اسے چھو سکتا ۔وہ دھیمے لہجے میں ۔”جو تمھاری مرضی ۔“ کہہ کر واپس مڑ گیا ۔
دعا ششدر ہو کر اس کی پشت کو گھورتی رہ گئی تھی ۔محمود کے باہر نکلتے ہی اس نے سامنے پڑی تپائی کو زوردار ٹھوکر رسید کی اور اوندھے منہ بستر پر گر کر بےآواز رونے لگی ۔محمود کا یوں چلے جانا جہاں اس کی سمجھ سے باہر تھا ،وہیں اس کے دل کوعجیب قسم کی تکلیف بھی دے رہا تھا۔
تپائی پر پڑا شیشے کا جگ اس کے پاﺅں کی ٹھوکرسے دیوار سے جا ٹکرایا تھا ۔ شیشہ ٹوٹنے کی آواز کم از کم اتنی ضرور تھی کہ ڈرائینگ روم میں بیٹھے رضوان کے کانوں تک پہنچ جائے ۔
”یہ کیا بد تمیزی ہے ؟“اس کی خواب گا ہ میں داخل ہوتے ہی رضوان نے سخت لہجے میں پوچھا ۔مگر وہ باپ کی بات کا جواب دیے بغیر اوندھے منھ لیٹی ٹسوے بہاتی رہی ۔
”وہ تمھیں بلانے تو آیا تھا ، انکار کر کے یوں رو رہی ہو ۔“
”پاپا!....آج میں نے کھانا نہیں کھانا سمجھے آپ ،نماز بھی نہیں پڑھوں گی ،اور اور پڑھائی بھی نہیں کروں ....“تکیے سے چہرہ اٹھاتے ہوئے اس نے اشک بہاتے ہوئے غصے بھرے لہجے میں کہا ۔
”تو مجھے کیا ۔“رضوان نے بمشکل ہنسی ضبط کرتے ہوئے کندھے اچکائے ۔
”آپ ابھی بھیا کو کال کر کے یہ بتائیں ،بس ابھی بتائیں انھیں۔“
”یہ تمھارا اور اس کا ذاتی معاملہ ہے مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے فضولیات میں پڑنے کی ، البتہ اس کے بعد اگر تم نے کوئی توڑ پھوڑ مچانے کی کوشش کی تو تمھارے کان ضرور کھینچوں گا اور یہ جگ بھی تمھارے جیب خرچ کے پیسوں سے لایا جائے گا ۔“
”پاپا!....آپ نے دیکھا تو تھا محمود بھیا نے مجھے کیسے دھتکارا ،اب ان کے دوست مجھ سے اہم ہو گئے ہیں اور دوسرے کام بھی ۔“وہ دوبارہ آنسو بہانے لگی ۔
”تو ضروری کا م تو کسی کو بھی پیش آ سکتا ہے ؟“رضوان نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ گھر بھر کی لاڈلی ہی تو تھی ۔یہ علیحدہ بات کہ محمود کے بہت زیادہ لاڈ پیار کی وجہ سے باقی اپنے لاڈ پیار کو ذرا سنبھال کر رکھتے تھے ۔
”مجھے نہیں پتا ۔“وہ طیش بھرے لہجے میں کہتے ہوئے دوبارہ لیٹ گئی ۔اور رضوان دکھ بھرے انداز میں سر ہلاتا ہوا اس کی خواب گاہ سے باہر نکل آیا ۔وہ جانتا تھا محمود ہی واپس آ کر اسے منا سکتا تھا اس کے علاوہ اس نے کسی کی نہیں سننا تھی۔
32 اقساط |
حیات محمد کے چار بیٹے تھے ،احسان ،رضوان ،سلمان اور عمران جبکہ ایک بیٹی تھی شہناز۔ شہناز چاروں بھائیوں سے بڑی تھی ۔حیات محمد نے کوشش تو کافی کی تھی کہ اس کے بیٹے پڑھ لکھ جائیں مگر سوائے رضوان کے کوئی بھی پرائمری سے آگے نہیں پڑھ سکا تھا ۔رضوان گاوں کے سکول میں میٹرک کرنے کے بعد شہر جا کر پڑھنے لگا ۔
اس کے بڑے بھائی احسان نے زمینیں سنبھال لیں چھوٹے والے دونوں محنت مزدری کرنے لگے ۔ رضوان تعلیم کی تکمیل کے بعد ایک غیر ملکی کمپنی میں جاب کرنے لگا ۔بڑی بہن شہناز کی شادی ان کے ماموں فیض علی کے بیٹے اکرام سے ہوئی ۔احسان اور رضوان کے لیے حیات محمد نے فیض علی کی بیٹیوں کی بابت ہی سوچا ہوا تھا ،مگر رضوان کے انکار پر احسان اور سلما ن کی شادی فیض علی کی بیٹیوں سے کر دی گئی ۔
رضوان کو خاندان سے باہر کی ایک لڑکی پسند تھی ۔رضوان کے اصرار پر حیات محمد نے رخسانہ کے والد سے بات کی ۔ رخسانہ کا والد تو گویا ان کی طرف سے رشتے کی آمد کا منتظر تھا ۔بغیر کسی رکاوٹ کے دونوں کی شادی ہو گئی ۔شادی کے چند ماہ بعد ہی وہ اپنی بیوی کو لے کر شہر منتقل ہو گیا ۔کمپنی سے اسے اچھی تنخواہ مل رہی تھی ۔اپنی جمع پونجی سے اس نے پہلی فرصت میں بارہ مرلے کا پلاٹ خریدا ۔ مکان کی تعمیر کے لیے اسے کچھ رقم کمپنی سے ادھار مل گئی اور کچھ رقم اسے سسر نے دے دی تھی۔
والدین کی وفات کے بعد گھر کا بڑا احسان ہی تھا ۔اس نے تمام بھائیوں کو بلا کر زمین اور جائیداد تقسیم کر دی ۔رضوان نے والد کے ترکے سے کچھ لینا پسند نہیں کیا تھا۔اوراس بات پر رخسانہ بیگم نے اس سے اچھا خاصا جھگڑا بھی کیا تھا۔ گو رضوان یہ سب پہلے سے جانتا تھا کہ وہ اپنی بیگم کی طبیعت سے اچھی طرح واقف تھا، مگر اپنے بھائیوں کی غربت کو دیکھتے ہوئے اسے زمین جائداد سے حصہ لینا گوارا نہیں ہوا تھا ۔۔۔
وقت گزرتا رہا ۔رضوان کے دو بیٹے فیضان اور افنان پیدا ہوئے ۔اس کے بڑے بھائی احسان کا ایک ہی بیٹا تھا محمود،کیونکہ بیٹے کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کی بیوی اللہ کو پیاری ہو گئی تھی ۔احسان بیٹے کی محبت میں دوسری شادی نہ کر سکا ۔بیٹے کے لیے اس نے ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں ۔
وہ خود تو تعلیم حاصل نہیں کر سکا تھا البتہ بیٹے کو وہ اپنے چھوٹے بھائی رضوان کی طرح خوب پڑھانا چاہتا تھا۔ مگرمحمود کی بدقسمتی کہ موت نے اس کے باپ کو مہلت نہ دی ۔اور ایک سیاہ رات میں کھیتوں کو پانی لگاتے ہوئے وہ زہریلے سانپ کا شکار ہو گیا اور محمود کے سر سے باپ کا سایہ بھی اٹھ گیا۔
بھائی کی آخری رسومات میں شمولیت کے لیے رضوان بیوی بچوں سمیت وہاں پہنچ گیا۔ رخسانہ تو ایک شب قیام کر کے، اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ واپس لوٹ گئی تھی البتہ رضوان سوگ کے تین دن وہیں مقیم رہا ۔واپسی پر وہ اپنے یتیم بھتیجے محمود کو بھی ساتھ لے آیا تھا تاکہ اسے تعلیم دلا کر بڑے بھائی کی خواہش کو پورا کر سکے ۔
”یہ لیں چچا جان !“محمود نے فولڈر چچا کے سامنے رکھ دیا ۔
”شکریہ بیٹا!....تم بہت جلدی لوٹ آئے ۔“
”ہاں چچا جان !....بس تھکن محسوس کر رہا تھا ،تھوڑی دیر آرام کروں گا ۔“
”یہ کوئی آرام کا وقت نہیں ہے شام ہونے کو ہے ۔اور میں جانتا ہوں تمھیں کون سی تھکن ہے ۔“رضوان مسکرایا ۔”یقینا اسی لیے تم اپنے ضروری کام کو بھی چھوڑ آئے ہو۔ بہرحال پیغام یہ ہے کہ وہ نہ تو کھانا کھائے گی ،نہ پڑھائی کرے گی اور نہ نماز ہی ادا کرے گی ۔“
محمود کے چہرے پر پھیکی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور وہ افسوس بھرے انداز میں سر ہلاتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھا ۔
”اور ہاں ۔“رضوان چچا نے اسے آواز دی ۔”ایک شیشے کا جگ اور گلاس محترمہ نے توڑ دیا ہے جس کی کٹوتی اس کے جیب خرچ سے ہو گی ۔اگر تم نے وہ رقم اپنے پلے سے ادا کرنے کی کوشش کی تو اپنی چچی سے خود نمٹنا میں بالکل بھی تمھاری طرف داری نہیں کروں گا ۔“
11 اقساط |
وہ رک کر آہستہ سے بولا۔”چچا جان !....وہ نادان بچی ہے ۔“لیکن یہ کہتے ساتھ اس کی آنکھوں کے سامنے دعا کی شبیہ لہرائی یقینا محمود کی یہ بات غلط تھی اور اسی وقت اس کے اس خیال کی تصدیق اس کے چچا نے یہ کہتے ہوئے کر دی ۔
”اب وہ بچی نہیں رہی برخوردار.... سیکنڈ ایئر کی طالبہ ہے ۔کچھ علاقوں میں اس عمر کی لڑکی کی شادی کر دی جاتی ہے ۔“
”ویسے میرا اندازہ ہے کہ چچی جان کو جگ ٹوٹنے کی بابت اب تک کچھ معلوم نہیں ہوا گا۔“
”کسی وقت بھی معلوم ہو سکتا ہے ۔“
”اس سے پہلے میں وہاں نیا جگ گلاس رکھ کر پہلے والے جگ گلاس کی کرچیاں سمیٹ چکا ہوں گا ۔“
رضوان مسکرایا۔”انھیں کوئی بتا بھی تو سکتا ہے ۔“
”بغیر ثبوت چچی جان کچھ نہیں کر سکتیں ۔یوں بھی اس معاملے میں مجھے جھوٹ بولنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی ۔“
”یقینا اسے بگاڑنے میں تمھارا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔اللہ پاک کرے اسے شوہر بھی ایسا نصیب ہو جو اس کا ہر طرح سے خیال رکھ سکے ۔کچھ زیادہ ہی لاڈو رانی بن گئی ہے ۔“ رضوان کے لہجے میں مستقبل کے اندیشوں کی لرزش واضح طور پر محسوس کی جا سکتی تھی ۔
محمود صدق دل سے ”آمین ۔“ کہتے ہوئے باورچی خانے کی طرف بڑھ گیا ۔اپنی گڑیا کی خوشیاں تو اسے اس وقت سے عزیز تھیں جب سے وہ اس دنیا میں تشریف لائی تھی ۔نیا جگ گلاس اٹھا کر وہ دعا کی خواب گاہ کی طرف بڑھ گیا ۔وہ ابھی تک اوندھے منہ لیٹی تھی ۔اس کی بھاری سانسیں اعلان کر رہی تھیں کہ اسی طرح لیٹے لیٹے اسے نیندآ گئی ہے ۔اس کے سراپے سے نگاہیں چرا کر وہ خواب گاہ سے باہر نکلا اور ملازمہ کو ٹوٹنے والے جگ گلاس کی کرچیاں سمیٹنے کا کہہ کر وہ اپنی خواب گاہ کی طرف بڑھ گیا ۔
بستر پر لیٹتے ہی دعا دھم سے اس کی آنکھوں کے سامنے آ کودی تھی ۔اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ خود کو کیسے اس کی کشش سے دور کرے ۔ اسے عزیز تو وہ پہلے سے تھی ۔مگر اس کی شفقت ،ہمدردی اور چاہت نے کیسے روایتی محبت کا روپ دھارا تھا یہ بات اس کی سوچ سے بعید تھی ۔
آج ایک دم اس کا نہا کر غسل خانے سے باہر آنا اور گیلے کپڑوں کا بدن سے چپک کر بدن کے کچھ ایسے زاویوں اور قوسوں کو اجاگر کرنا جو عام حالت میں نہاں رہتے ہیں ۔اس منظر نے ایک دم اسے یقین دلا دیا کہ وہ بچی نہیں رہی ۔لیکن اس کے ساتھ یہ بھی تو حقیقت تھی کہ اس نے ایک دم آج ہی تو جوانی کی حد میں قدم نہیں دھرا تھا، پھر اسے کیوں وہ ایک دم یوں جاذب نظر لگنے لگی تھی ۔اس سے پہلے بھی وہ اسے دیکھ کر خوش ہو جایا کرتا تھا۔ اس کی دید ہمیشہ محمود کی آنکھوں کی پیاس بجھایا کرتی ۔وہ اسے اتنی معصوم ،پاکیزہ ،اجلی اجلی اور مقدس لگتی کہ شاید ہی کسی کو اپنی سگی بہن ہی لگتی ہو ۔اپنے دونوں بھائی تو کیا محمود نے اسے اس کی ماں اور باپ سے بھی بڑھ کر چاہا تھا اور ان دونوں سے بڑھ کر اس کا خیال رکھا تھا ۔ اور اس کے ساتھ محمود کی بے پایاں محبت ہی نے تو محمود کی اہمیت اس گھرانے میں بڑھائی تھی ورنہ اسے اپنی چچی جان کا رویہ بھولا نہیں تھا ۔جب وہ چچی کے تیئں بن بلائے مہمان کی صورت اس گھر میں وارد ہوا تو چچی اسے کن نظروں سے گھورا کرتیں اور کن القابات سے نوازا کرتیں وہ ہرلمحہ اس کی آنکھوں کے سامنے کھلی کتاب کی صورت موجود تھا ۔
”تمھارا دماغ ٹھیک ہے ۔“رخسانہ کو شوہر کی بات بالکل پسند نہیں آئی تھی ۔
”تو اسے یہاں لانے کا مقصد کیا تھا ۔“
”خیر سے تمھارے دو بیٹے موجود ہیں، ان کی پڑھائی پر توجہ دیں ۔کسی غیر کے بچے کو پڑھا کر تمھیں کیا ملے گا ؟“
رضوان جھلا کر بولا۔”میرا بھتیجا ہے وہ غیر کا بچہ نہیں ہے ۔“
”ہونہہ !....بھتیجا۔“رخسانہ نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔”پرائی اولاد بھی کبھی اپنی بنی ہے۔“
”نیک بخت !....نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی ۔اور یاد رکھنا،یہاں نہیں تو وہاں اس کی جزا ضرور ملتی ہے ۔“
”بس تم تو کیلکولیٹر لے کے اپنی نیکیوں کا حساب کتاب کرتے رہنا ۔کبھی اپنے بچوں کا حق غیر کے حوالے کرنے کے گناہ کے بارے نہ سوچنا ۔“
”میں بچوں کا حق غیر کے حوالے کب کر رہا ہوں ،کیامیرے بچے پڑھ نہیں رہے یا انھیں کھانے پینے کو اچھا نہیں مل رہا ؟....پڑھی لکھی ہو کر جاہلوں جیسی باتیں کرتی ہو۔“
”ہاں جاہل تو میں تمھیں لگوں گی ،سچی بات جو کر رہی ہوں ۔“
”رخسانہ بیگم !....میں بحث کرنے کے حق میں بالکل نہیں ہوں ۔یہ میرا حتمی فیصلہ ہے۔“اس نے دوٹوک انداز میں کہا ۔
”میر ی پہلے کب سنی ہے تم نے ۔“
”ہمیشہ تمھاری ہی سنتا آیا ہوں۔“
”ہونہہ !....میری سنتے آئے ہو۔“وہ بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے چلی گئی ،جبکہ رضوان محمود کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
08 اقساط |
”کیا اس کا داخلہ سرکاری سکول میں نہیں ہو سکتا تھا ۔“ رخسانہ کسی موقع پر محمود کے خلاف بات کرنے سے نہیں چوکتی تھی ۔
”پہلے تم نے میرے بھتیجے کی آمد پر اعتراض کیا،پھر اس کی پڑھائی پرناک بھوں چڑھائی اور اب اس کے اچھے سکول میں داخلے پرسیخ پا ہو ۔واہ رخسانہ بیگم !....واہ ۔داد دینا پڑے گی تمھاری حاسد فطرت کی۔“
وہ ترکی بہ ترکی بولی ۔”میری فطرت حاسد نہیں ہے ،تمھیں ہی اپنے بھتیجے میں محبت میں کچھ سجھائی نہیں دے رہا ۔“
رضوان نے اطمینان بھر ے لہجے میں کہا ۔”جب تم جان گئی ہو کہ محمود کے معاملے میں تمھاری کوئی بات نہیں سننے والا تو پھر اس چخ چخ کا فائدہ۔“
”چخ چخ کا فائدہ ۔“چڑانے والے انداز میں کہتے ہوئے وہ باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی۔
”تنگ دل عورت ۔“زیر لب بڑبڑاتے ہوئے وہ محمود کے کمرے میں گھس گیا ۔ اپنے بستر پر بیٹھا وہ چچا اور چچی کے درمیان ہونے والی تکرار سن رہا تھا ۔
”تم پریشان نہ ہونا بیٹا !....تمھاری چچی کی تو یہ عادت ہے۔“ اس نے محمود کو تسلی دی ۔
”جی چچا جان!“اس نے آہستہ سے کہتے ہوئے سر جھکا لیا ۔یوں بھی ماں باپ کا سایہ اٹھنے کے بعد بچپن باقی رہتے ہوئے بھی بچپنا رخصت ہو جایا کرتا ہے ۔چھوٹے بچے کو وہ آگہی اور شعور مل جاتا ہے جو اس عمر کے بچے سے توقع نہیں کی جاسکتی ۔
”اچھا اپنی کتابیں دیکھ لی ہیں،مشکل تو نہیں ہیں نا؟“
”استاد سمجھائیں گے تو سمجھ میں آ جائیں گی چچا جان !“
”شاباش ۔“کہہ کر رضوان نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی اور کمرے سے باہر نکل گیا۔اور محمود اپنی کتابوں کی ورق گردانی کرنے لگا ۔اسے پڑھنے کا شوق تھا ۔گاوں کے سکول میں وہ ایک ہونہار طالب علم کے طور پر جانا جاتا تھا ۔پرائیویٹ سکول کی کتابیں گو سرکاری اسکول سے مختلف تھیں مگر محمود کو یقین تھا کہ وہ جلد ہی دوسرے طلبہ کے ساتھ مل جائے گا ۔
چند ماہ کے اندر اس کا شمار کلاس کے نمایاں لڑکوں میں ہونے لگا ۔محنتی ہونے کے ساتھ وہ ذہین بھی تھا ۔اورسالانہ امتحان میں کلاس میں تیسری پوزیشن لے کراس نے یہ ثابت بھی کردیا تھا ۔لیکن اس نے اس پوزیشن پر اکتفا نہیں کیا ۔اگلی کلاس میں اس نے پہلی دو پوزیشنوں پر براجماں دونوں لڑکوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا ۔
رخسانہ کو اس کے پوزیشن لینے سے کوئی غرض نہیں ہوتی تھی ۔سکول سے واپسی پر تھوڑی دیر آرام کے بعد اس کے ذمہ گھر کا سودا سلف لانے کے ساتھ روز مرہ کے اور بھی کئی چھوٹے موٹے کام ہوتے تھے ۔ عصر کے وقت اس کی جان خلاصی ہوتی لیکن عصر سے شام تک کا وقت بھی وہ پڑھائی میں گزار دیتا۔ اس کے دونوں چچا زاد پڑھائی میں واجبی سے تھے ۔بس ہر سال پاس ہو جایا کرتے تھے۔ رضوان کی نگاہ سے بھی رخسانہ کا رویہ اوجھل نہیں تھا لیکن اتنا تو وہ بھی جانتا تھا کہ اس بارے وہ رخسانہ پر کسی قسم کی سختی نہیں کر سکتا تھا آخر کو وہ اس کی بیوی تھی ۔البتہ اپنے تیئں وہ محمود کو کسی قسم کی تنگی نہیں آنے دیتا تھا ۔
خود محمود بھی بہت شاکر و صابر لڑکا تھا ۔ رخسانہ چچی کے برے رویے کا ذکر اس نے کبھی بھولے سے بھی رضوان چچا تو کیا دوسرے چاچوں اور سگی خالہ کے سامنے بھی کبھی نہیں کیا تھا ۔اور نہ کبھی چچی کی سخت و تلخ کلامی پر پلٹ کی کوئی جواب دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے ناپسند کرنے کے باوجود رخسانہ کو کوئی ایسی بات ہاتھ نہیں آتی تھی کہ وہ شوہر کے سامنے محمود کی شکایت کر سکتی ۔اس نے کبھی بھی محمود کو ایک نوکر سے زیادہ اہمیت نہیں دی تھی ۔البتہ محمود اس کے سخت رویے کے باوجود نہایت احترام سے مخاطب کیا کرتا تھا۔
وہ سیکنڈ ائیر میں تھا جب چچا کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ۔رضوان اور رخسانہ تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے ۔دو بیٹوں کے بعد فطری طور پر ان کے دل میں بیٹی کی خواہش تھی اورحمل ٹھہرنے کے ساتھ ہی انھوں نے اللہ پاک سے بیٹی مانگنا شروع کر دیاتھا ۔ اللہ پاک نے ان کی دعاوں کو شرفِ قبولیت بخشا ۔
اس کا نام رکھنے پر بحث شروع ہوئی تو کم گو محمود نے آہستہ سے کہا۔
”چچا جان !....اتنی دعاوں کے بعد پیدا ہونے والی کا نام دعا ہی ہونا چاہیے ۔“
ہر بات میں اس کی مخالفت کرنے والی رخسانہ کو بھی یہ نام اتنا پسند آیا تھا ،کہ وہ اس کی بات سن کر خاموش رہی ۔کچھ نہ کہہ کر اس نے گویا محمود کی تائید کر دی تھی ۔
”ٹھیک ہے ۔“رخسانہ کی خاموش تائید پر رضوان نے دعا نام پر مہر تصدیق ثبت کر دی تھی۔
دعا کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے لیے آیا کا بندوبست کر دیا گیا ۔آیا چوبیس گھنٹے اس کا خیال رکھتی تھی ۔اور ایسا صرف دعا کے ساتھ نہیں ہوا تھا ۔رخسانہ کے پہلے دونوں بیٹے بھی ابتدائی دو سال اسی آیا کی گود میں پلے بڑھے تھے ۔
ایک دن محمود کالج سے لوٹا تو اسے دعا بےبی کاٹ میں زور و شور سے روتی نظر آئی۔وہ اڑھائی تین ماہ کی ہو گئی تھی ۔
”زبیدہ آیا ....زبیدہ آیا ۔“اس نے زور زور سے آیا کو آواز دی ۔
رخسانہ باورچی خانے کے دروازے پر نمودار ہوکر بولی ۔
”کیوں گلا پھاڑ رہے ہو ،وہ گھر چلی گئی ہے۔“
مزید کوئی بات کیے بغیر وہ اپنے کمرے میں گھس گیا کہ وہ رخسانہ چچی سے بحث و تکرار نہیں کیا کرتا تھا ۔مگر بچی کے رونے کی آواز تسلسل سے اس کے کانوں میں پڑتی رہی ۔کپڑے تبدیل کر کے وہ باورچی خانے میں آیا اور اپنے لیے کھانا گرم کرنے لگا ۔بچی کا رونا جاری تھا ۔
تنگ آکر وہ بےبی کاٹ کے پاس پہنچا ۔اس کی معصوم آنکھیں آنسووں سے تر تھیں جبکہ دونوں ہاتھ اور پاﺅں ایک تسلسل سے حرکت کر رہے تھے ۔محمود سے رہا نہ گیا ۔اس نے جھک کر اسے اپنی گود میں اٹھا لیا ۔وہ ایک دم خاموش ہو کر غوں غاں کرنے لگی ۔اس وقت وہ اسے اتنی پیاری لگی کہ وہ بے اختیار اس کے نرم نرم سرخ گال چومنے لگا ۔وہ دونوں ہاتھ اٹھا کر اس کے سر کے بالوں سے پکڑنے لگی ۔ننھے ننھے ہاتھوں سے اس نے محمود کی پیشانی کے بالوں کو اتنی مضبوطی سے جکڑا تھا کہ وہ بمشکل اپنے بال اس کی گرفت سے چھڑا پایا۔
ایک دو منٹ اسے بازووں میں جھلانے کے بعد محمود نے اسے دوبارہ بےبی کاٹ میں لٹایا اور کھانے پر بیٹھ گیا ۔مگر اس کے پہلا نوالا توڑنے سے پہلے بچی کی ریں ریں شروع ہو گئی۔ وہ توجہ دیے بغیر کھانا کھاتا رہا ۔اسی وقت اس کے دونوں چچا زاد بھائی بھی سکول سے لوٹ آئے ۔رخسانہ اپنے بچوں کے لیے کھانا لگانے لگی ۔
بچی کا رونا جاری تھا ۔رخسانہ نے نپل اٹھا کر بچی کے منہ میں دیا مگر وہ نپل پینے پر آمادہ نہیں تھی ۔اسے ماں کی گود درکار تھی ۔رخسانہ بے پروائی سے اپنے کاموں میں لگ گئی ۔اس دن آیا کے ساتھ شاید کام والی بھی چھٹی پر تھی، کہ چچی خود باورچی خانے میں گھسی ہوئی تھی ۔
کھانا کھا کر محمود نے برتن سمیٹے ۔اور کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔ لیکن دعا کے قریب سے گزرتے ہوئے ،اس کی ہچکیاں اور سسکیاں سن کر اس سے رہا نہ گیا اور اس نے ایک بار پھر اسے اٹھا لیا ۔اس کے بازووں میں آتے ہی وہ خوشی سے قلقاریاں مارنے لگی۔ وہ اسے لے کر اپنے کمرے میں گھس گیا ۔اس وقت وہ تھوڑا آرام کیا کرتا تھا ۔مگر دعا کی وجہ سے وہ سو نہ سکا ۔اس کی معصومانہ ادائیں ،تبسم، محمود کی آنکھوں اور ناک کے نتھنوں میں ننھی ننھی انگلیاں گھسیڑنا،محمود کے بالوں کو ننھے ننھے ہاتھوں سے گرفت میں لینا یہ سب کچھ محمود پر جادو کر گیا۔وہ گھنٹا ڈیڑھ اس سے کھیلتا رہا ۔ اچانک اس نے دوبارہ رونا شروع کر دیا ۔وہ بچی کواٹھائے اپنے کمرے سے باہر نکلا ۔ رخسانہ چچی نے اپنے کمرے سے آواز دی ۔
”یہ بھوکی ہو گی ،اسے یہاں لے آو۔“
15 اقساط |
وہ چچی کے کمرے میں داخل ہوا۔ رخسانہ نے کہا ۔
”اسے مجھے پکڑاو اور جاو فرج سے دودھ کی بوتل بھر لاو ۔“
”بوتل ....؟“
”باہر بےبی کاٹ میں پڑی ہو گی۔“چچی نے اس کا سوال پورا ہونے سے پہلے جواب دے دیا تھا ۔
اس نے فرج سے جا کر بوتل بھری اور واپس آکر بولا۔”چچی جان !....مجھے دیں میں اسے خود دودھ پلاتا ہوں ۔“
”آج تمھیں اس پر بڑی محبت آ رہی ہے ۔“رخسانہ نے حیرانی سے کہتے ہوئے دعا کو اس کی جانب بڑھا دیا ۔وہ ابھی تک رو رہی تھی ۔محمود نے جونہی بوتل اس کے ہونٹوں سے لگائی وہ ایک دم چپ ہو گئی ۔اس کے انداز پر محمود کو ہنسی آ گئی تھی ۔وہ اسے دوبارہ اپنے کمرے میں لے آیا ۔دودھ پیتے ہی وہ سو گئی تھی ۔محمود نے بھی آنکھیں بند کر لیں ۔دوبارہ اس کی آنکھ عصر کی آذان سے کھلی ۔اس نے اٹھ کر وضو کیا اور نماز کے لیے مسجد چلا گیا ۔جب واپس آیا تو وہ جاگ گئی تھی ۔ وہ اسے اٹھا کر باہر نکلا تو چچی نے اسے آواز دی ۔
” ادھر لے آو میں اس کا ڈائپر تبدیل کر دوں ۔“
دعا کو چچی جان کے حوالے کر کے وہ دیکھنے لگا کہ چچی کیسے اس کا ڈائپر تبدیل کرتی ہے۔
اسے وہیں کھڑے دیکھ کر رخسانہ چچی نے کہا ۔”اچھا تم جاو سودا سلف تو لے آ و نا۔“
”دعا کو ساتھ لے کر جاوں گا ۔“
”واپس آکر اسے اٹھا لینا پاگل !....اور پھر اس کی وجہ سے تمھیں پیدل جانا پڑے گا۔موٹر سائیکل پر یہ تھوڑا بیٹھ سکتی ہے ۔“چچی جان کی آواز میں خوش گوارحیرانی تھی ۔کیونکہ اس سے پہلے نہ تو دعا کو سگے بھائیوں میں سے کوئی ہاتھ لگاتا اور نہ محمود ہی کوئی توجہ دیتا تھا ۔گو روزانہ اسے سنبھالنے کے لیے آیا موجود ہوتی تھی ۔مگر پھر بھی ان تینوں نے کبھی دعا میں دلچسپی ظاہر نہیں کی تھی۔
”اچھا ٹھیک ہے ۔“وہ گویابادل نخواستہ راضی ہوا۔
”پیسے میرے پرس سے نکال لو۔“رخسانہ نے تپائی پر رکھے پرس کی طرف اشارہ کیا۔ اتنا یقین تو اسے محمود پر تھا کہ وہ کبھی چوری نہیں کرے گا ۔
”جی چچی جان !“کہہ کر اس نے پرس سے پانچ سو کا نوٹ نکالا اور بائیک پر بیٹھ کر بازار کی جانب روانہ ہو گیا ۔وہ بائیک اسے میٹرک میں سکول بھر میں پہلی پوزیشن لینے پر چچا رضوان نے لے کر دی تھی ۔
واپسی پر پڑھائی کرنے کے ساتھ وہ دعا کو بھی سنبھالتا رہا ۔رخسانہ اطمینان سے اپنے کام کرتی رہی ۔اس کی حیرانی اس وقت دو چند ہو گئی جب محمود نے اسے بتائے بغیر دعا کا بےبی کاٹ اپنے کمرے میں منتقل کر دیا تھا ۔
”یہ کیا ....؟“اس نے محمود سے پوچھا ۔
”چچی جان !....آیا نہیں ہے تو یہ میرے پاس ہی رہے گی ۔“
”بے وقوف!....“ زندگی میں پہلی بار اسے محمود کی کسی بات پر ہنسی آئی تھی ۔”اتنی سی بچی کو تم کیسے سنبھالو گے ؟“
”آج سارا دن سنبھالتا رہا ہوں نا ۔“محمود نے دبے لہجے میں احتجاج کیا ۔
”نہیں دن کی بات اور ہے ۔“رخسانہ نے نرمی سے کہا اور محمود کو خاموش ہو جانا پڑا۔
وہ سحر خیز تھا ،صبح کی نماز باقاعدہ مسجد میں ادا کیا کرتا تھا۔نماز سے لوٹتے ہی وہ دستک دے کر چچا کے کمرے میں داخل ہوا ۔دعا اٹھ گئی تھی رخسانہ اسے دودھ پلا رہی تھی ۔
”چچی جان !....میں اسے دودھ پلاتا ہوں آپ اپنے کام کریں ۔“ دودھ کی بوتل رخسانہ چچی کے ہاتھ سے لے کر اس نے دعا کو اٹھا لیا ۔
”اس کا ڈائپر بھی تبدیل کرنا ہے پاگل !“رخسانہ نے نرم لہجے میں سرزنش کی ۔
”میں کر دوں گا چچی جان !“کہہ کر وہ دعا کو لے کر اپنے کمرے میں آ گیا ۔اور پھر کالج جانے کے وقت تک وہ دعا کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتا رہا ۔نہ جانے کون سی ایسی کشش تھی دعا میں کہ ایک دن ہی میں وہ اس کے دل پر قابض ہو گئی تھی ۔یہ بات خود اس کی سمجھ سے بھی باہر تھی ۔
کالج سے واپسی پر آیا آگئی تھی ۔لیکن وہ دعا کو اس سے جھپٹ لے آیا ۔آیا کی کون سی اپنی بچی تھی کہ اسے زیادہ فکر ہوتی اس کے لیے تو یہ بات باعثِ سکون ہی تھی ۔جوں جوں دعا نے ہوش سنبھالنا شروع کیا محمود کی محبت اس سے بڑھتی گئی خود وہ بھی محمود کی موجودگی میں کسی کی گود میں جانے پر تیار نہ ہوتی ۔ سال بھر کے بچے میں اتنا شعور نہیں ہوتا لیکن ایک بجتے ہی اس کی آنکھیں دروازے کی جانب نگران ہو جاتیں گویا وہ محمود کا انتظار کر رہی ہو ۔اور محمود کی آمد کے ساتھ اس کے معصوم چہرے پر مسکراہٹ کھلنے لگتی ۔
آہستہ آہستہ محمود نے اسے رات کے وقت بھی اپنے پاس سلانا شروع کر دیا تھا ۔اب آیا کا کام صرف اتنی دیر دعا کو سنبھالنا ہوتا تھا جب تک محمود کالج سے نہ لوٹ آتا ۔اس کا دودھ گرم کرنا ،ڈائپر تبدیل کرنا ،اسے نہلانا ،اس کے کپڑے تبدیل کرنا ،دودھ کے علاوہ اس کی دوسری خوراک کا خیال کرنا یہ سب محمود نے اپنے ذمہ لیا ہوا تھا ۔اس کی دعا میں اس قدر دلچسپی دیکھ کر رضوان اور رخسانہ حیران رہ جاتے تھے ۔
شروع شروع میں انھوں نے اسے ایک لڑکے کا وقتی جوش سمجھا تھا ۔رخسانہ کا خیال تھا کہ شاید وہ اسے متاثر کرنے کے لیے دعا میں دلچسپی لیتا ہے ۔لیکن جلد ہی اسے اپنا خیال تبدیل کرنا پڑا ۔رات کو کھانے کی میز پر چچا ،چچی کے منع کرنے کے باوجود وہ اسے گود میں لے کے بیٹھا رہتا ۔کبھی آلو کے نرم ٹکڑے اس کے منہ میں دیتا اور کبھی روٹی اس کے منہ میں ٹھونس رہا ہوتا ۔بچوں کی نگہداشت سے متعلق ایک دو کتابوں کے مطالعے کے بعد وہ کام والی شاہینہ ماسی سے مختلف قسم کے دلیے اور حلوے وغیرہ بھی تیار کرا کے فرج میں رکھوا دیتا ۔اس کی گود میں بیٹھ کر دعا ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتی رہتی ۔
یہ قانون فطرت ہے کہ ہر جاندار توجہ کا بھوکا ہوتا ہے ۔چاہے وہ بچہ ہو یا بڑا ۔بچے کی پہلی پہچان اسی لیے ماں ہوتی ہے کہ وہ ہر وقت اس کی ضروریات و خوراک کا خیال رکھنے کے ساتھ اسے گود میں بھی اٹھائے رکھتی ہے ۔ یہاں ماں اور آیا کی موجودگی کے باوجود دعا کو ہر وقت محمود کی توجہ میسر تھی ۔اس کے رونے ،شور کرنے اور کسی بھی دوسری ضد پر محمود نے کبھی ناک بھوں نہیں چڑھائی تھی ۔اتنے لاڈ تو شاید اس کی سگی ماں بھی نہ اٹھاتی جتنے محمود اٹھاتا تھا ۔
گو ماں باپ کی آنکھوں کا بھی وہ تارا تھی ۔وہ اسے وقت بھی دیتے تھے اس کا خیال بھی رکھتے تھے لیکن محمود انھیں اس کا زیادہ موقع دیتا ہی نہیں تھا ۔دونوں بھائیوں کی بھی وہ لاڈلی تھی ۔لیکن انھیں شاید ہی کبھی اسے اٹھانے کا موقع ملا ہو ۔ ان کی محبت بس اتنی تھی کہ دن میں چند مرتبہ اسے چوم لیا ۔تین ماہ کی عمر کے بعد محمود ہر اتوار کے دن ڈیجیٹل کیمرے سے اس کی تصویر نکال کر صاف کر ا کے لے آتا ۔یوں وہ ہر سال کا البم بنا لیتا جس میں ہر ہفتے کی ایک تصویر کے حساب سے باون تصاویر محفوظ ہوتیں ۔ہر تصویر کے پیچھے وہ تصویر کھینچنے کی تاریخ درج کر دیا کرتا تھا۔
16 اقساط |
دعا آہستہ آہستہ بڑھنے لگی ۔ڈیڑھ سال کی عمر ہی میں اس نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ بولنا شروع کردیے تھے۔اب تو سودا سلف لانے کے لیے وہ محمود کے ساتھ بائیک کی ٹینکی پربیٹھ کر جایا کرتی ۔عصر کے وقت وہ اسے بائیک پر بٹھا کر پارک میں لے جاتا ۔جہاں سے ان کی واپسی شام کے وقت ہی ہوتی ۔عجیب بات یہ تھی کہ شروع دن سے وہ محمود کی ذرا سی بھی توجہ کسی دوسرے کی طر ف ہوتے دیکھ کر ہتھے سے اکھڑ جایا کرتی تھی ۔ایک بار ان کے گھر آئے مہمانوں کے کسی بچے کو محمود نے غلطی سے گود میں اٹھا لیا ۔وہ اس وقت چند قدم دور بیٹھی اپنی گڑیا سے کھیل رہی تھی ۔ فوراََ گڑیا کو پھینک کر محمود کے قریب آ گئی اور جب تک دوسرے بچے کو اس کی گود سے نکال کر خود نہ بیٹھ گئی اسے آرام نہ آیا ۔ تمام گھر والے اور مہمان اس کی معصومانہ حرکت پر ہنس پڑے تھے ۔
اس کے بعد تو اس کے دونوں بھائی جان بوجھ کر اسے تنگ کرنے کے لیے یہ کام کرتے۔ جب بھی پڑوس کی کوئی ایسی عورت ان کے گھر آتی جس کے پاس چھوٹا بچہ ہوتا ۔وہ اس بچے کو محمود کی گود میں بٹھا دیتے ۔اور دعا جس کھیل میں بھی مشغول ہوتی، فوراََ وہ چھوڑ کر بچے کو محمود کی گود سے باہر نکالنے کے لیے لپک پڑتی ۔
وہ چار سال کی تھی کہ چچا رضوان کو کہہ کر محمود نے اسے ایک اچھے سے اسکول میں داخل کرا دیا تھا ۔صبح وہ اسے خود وہاں چھوڑ کر آتا ۔اور پھر گیارہ بجے اپنے ایک پیریڈ کی قربانی دے کر اسے اسکول سے اٹھا کر گھر چھوڑتا اور دوبارہ یونیورسٹی لوٹ جاتا ۔یونیورسٹی سے واپسی پر وہ اپنی نگرانی میں اسے ہوم ورک کراتا ۔چار سال کے بچے کا ہوم ورک ہی کیا ہوگا ،مگر محمود کے توجہ دینے سے بچپن ہی سے اس کا ذہن کھلنے لگا اور اپنی کلاس کی وہ نمایاں ترین طالبہ بن گئی۔محمود اس کی استانیوں سے باقاعدہ رابطے میں رہتا تھا۔پہلے پہلے تو انھوں نے دعا کو محمود کی بیٹی ہی سمجھا تھا کیونکہ اتنی توجہ ماں باپ کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا ۔جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ وہ اس کا چچا زاد بھائی ہے تو ان کی حیرانی کی انتہا نہیں رہی تھی ۔
کے جی اور پریپ کے بعد وہ پہلی کلاس میں داخل ہوئی ۔اس کی ذہانت دیکھتے ہوئے ایک دو استادوں نے اسے دوسری کلاس میں بٹھانے کا مشورہ دیا لیکن محمود نے نرمی سے انکار کر دیا ۔وہ دعا کو وقت سے پہلے مشکل پڑھائی میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا ۔
وہ پہلی کلاس سے دوسری کلاس میں داخل ہوئی اس وقت محمود یونیورسٹی سے فارغ ہو کر نوکری کی تلاش میں مصروف ہو گیا تھا۔ رضوان کے ایک دوست کی وساطت سے جلد ہی اسے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں نوکری مل گئی ۔
اپنی پہلی تنخواہ وصول کرتے ہی اس نے دعا کے لیے اتنی خریداری کی تھی کہ چچی رخسانہ چیخ پڑی تھی ۔
”غضب خدا کا ،یہ کیا ہے ؟“اس نے برہمی سے پوچھا ۔
”چچی جان ....وہ ....میں....“محمود سے جواب نہیں بن پڑا تھا ۔
”ٹھیک ہے وہ تمھیں پیاری ہے لیکن اپنا دماغ بھی تو استعمال کرو نا ۔اب اتنے سوٹ اٹھا لائے ہو ،ان میں سے اگلے سال اسے ایک بھی پورا نہیں آئے گا ۔نہ وہ یہ درجن بھر جوتے ہی استعمال کر سکتی ہے ۔اور پھر کھلونے بھی ایک وقت ایک دو خریدے جاتے ہیں ۔یہ نری بیوقوفی ہے بیٹا !“
”آئندہ خیال رکھوں کا چچی جان ۔“وہ دھیرے سے بولا ۔
”ابھی بھی واپس ہوسکتے ہیں ۔دو تین کی ہی پیکنگ کھلی ہے ۔“رخسانہ چچی نے مشورہ دیا ۔
27 اقساط |
”نہیں ابھی تو دعا نے یہ سارا سامان دیکھ لیا ہے ۔“محمود نے بہانہ گھڑا ۔
”ہاں وہ تو بہت بڑی ہے نا کہ ایک نظر میں اس نے تمام سامان پہچان لیا ہے ۔شرم نہیں آتی یہ بات کرتے ۔“رخسانہ بڑبڑاتی ہوئی وہاں سے ہٹ گئی ۔اتنا تو وہ بھی جانتی تھی کہ محمود نے اس سامان میں سے کچھ بھی واپس نہیں کرنا تھا
تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
غیرت مند عاشق اردو کہانی - پارٹ 2
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
0 تبصرے