Sublimegate Urdu Font Stories
غیرت مند عاشق - پارٹ 2
”آج تم نے پھر سکول میں جھگڑا کیا ہے ؟“رضوان آفس سے لیٹ آیا تھا اور اس کے تازہ دم ہونے تک کھانا لگ چکا تھا ۔
”پاپا!....میں تو نہیں لڑی، نمرہ ہی میرے ساتھ بدتمیزی کر رہی تھی۔مجبوراََ مجھے جواب دینا پڑا۔“
”تمھاری ہیڈمسٹریس تو کچھ اور کہہ رہی تھی۔“رضوان اپنے لیے پلیٹ میں سالن نکالنے لگا ۔
”جھوٹ بولتی ہے وہ۔“دعا نے بدتمیزی سے کہا۔
”شرم تو نہیں آئی ایسا کہتے ۔“رخسانہ نے اسے ڈانٹا۔”دو دن پہلے بھی کلاس کی استانی نے تمھاری شکایت کی تھی۔“
”امی جان!.... یہ نک چڑھی مجھ سے بھی ہر وقت لڑتی رہتی ہے ۔“ افنان نے فوراََ لقمہ دیا ۔”اتنا بھی احساس نہیں کہ میں اس کا بڑا بھائی ہوں ۔“
”تمھاری عزت کرتی ہے میری جوتی ۔“دعا ہتھے سے اکھڑ گئی تھی ۔” اور ساری استانیاں جھوٹ بولتی ہیں۔“
”ایسا نہیں کہتے گڑیا ....کتنی بدتمیز ہوتی جا رہی ہو تم ۔“ محمود نے اسے ہلکے سے جھڑکا۔
”مجھے کھانا ہی نہیں کھانا ۔“ اس نے غصے سے پلیٹ کو دور دھکیلا اور اپنے کمرے کی جانب بھاگ گئی ۔باقی کچھ بھی کہتے رہتے اسے فرق نہیں پڑتا تھا ،مگر محمود کا ذرا سا ڈانٹنا بھی وہ برداشت نہیں کرتی تھی ۔
”گڑیا !....بات تو سنو....“وہ پریشان ہو گیا تھا ۔
”چھوڑو محمود !....جانے دو، بھوک لگے گی تو عقل ٹھکانے آ جائے گی۔ دماغ خراب ہو گیا ہے اس کا۔“ رخسانہ محمود کو مخاطب ہوئی ۔
”چچی جان !....بچی ہے اور پھر میں نے بھی تو زیادتی کی ہے نا۔“
”غضب خدا کا یہ کون سی زیادتی ہے ؟ اور اسے خواہ مخواہ اتنا سر پر نہ چڑھاو، اس کی بدتمیزیاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ اپنے مزاج کے خلاف کچھ سننے کو تیار ہی نہیں ہوتی ۔“
”رخسانہ ٹھیک کہہ رہی ہے بیٹا!“رضوان نے بیوی کی ہاں میں ہاں ملائی ۔”ہیڈ مسٹریس جہاں اس کی ذہانت کی تعریف کرتی ہے، وہیں اس کے جھگڑوں سے بھی سخت نالاں ہے ۔“
”چچا جان !....وہ معصوم ہے، بڑی ہو گی تو سمجھ دار بھی ہو جائے گی اور پھر تالی ایک ہاتھ سے تو نہیں بجتی نا، ضرور دوسری لڑکی نے بھی کوئی زیادتی کی ہو گی۔“
رخسانہ نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔”اب اس کی طرف سے صفائیاں دینے کی ضرورت نہیں،چھوڑو اسے اور کھانا کھاو۔“
”امی جان ،صحیح کہہ رہی ہیں محمود بھائی!....آپ نے دعا کی عادتیں بگاڑ دی ہیں،آج اسے بھوکا سونے دو۔ کل کلاں کو بدتمیزی نہیں کرے گی ۔“افنان نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی کہ چھوٹی ہونے کے باوجود دعا اسے کوئی اہمیت نہیں دیتی تھی ۔
”تمھیں کس نے بڑوں کے درمیان بولنے کی اجازت دی ہے ۔“محمود نے اسے جھڑکا ۔
”بھیا !....افنان کی بات تو ٹھیک ہے ۔“فیضان کا ووٹ بھی دعا کے خلاف تھا ۔
”یار فیضان !....تم تو اچھے خاصے سمجھ دار ہو،اس کی عمر ہی کتنی ہے اور پھر چھوٹی بہنیں، بھائیوں سے لاڈ نہیں اٹھوائیں گی تو ........؟“
”محمود !....چھوڑو اس موضوع کواور آرام سے کھانا کھاو۔“ رخسانہ نے اسے بات پوری نہیں کرنے دی تھی ۔”اسے اگر بھوک لگے گی تو باورچی خانے کو تالا نہیں لگا ہوتا۔“
محمود نے خاموشی سے سر جھکا لیا ۔لیکن اس سے ایک نوالہ بھی نہیں لیا گیا تھا ۔ رخسانہ سے اس کی حالت پوشیدہ نہیں تھی مگر وہ خاموش رہی ۔
کھانے کے بعد سب اپنے اپنے کمروں کی جانب بڑھ گئے تھے ۔مگر محمود وہیں بیٹھ رہا۔ ملازمہ برتن سمیٹنے لگی ۔
”ویسے دعا بیٹی کو ساری رات بھوکا رکھنا بہت بڑی سزا ہوگی ۔“ رضوان خواب گاہ میں جاتے ہی بیوی کو مخاطب ہوا۔
رخسانہ نے منہ بنایا۔”ہم نے تو نہیں کہا کہ کھانے کی میز سے اٹھ کر چلی جائے۔“
”پھر بھی ،تم جانتی تو ہو وہ کتنی ضدی ہے ۔“رضوان کی شفقت پدری نے بے چینی ظاہر کی ۔
”ہاں ....ہاں اچھی طرح جانتی ہوں ۔“رخسانہ متبسم ہوئی ۔”مگر آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ۔اس کا محمود بھائی ابھی تک بیٹھا ہے ۔مجال ہے جو اس کے جانے کے بعد اس لڑکے نے ایک نوالہ بھی لیا ہو۔ اب جب تک اسے کھانا کھلا نہیں لے گا محترم کو نیند نہیں آئے گی، کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے دعا کی اصل ماں یہ ہے۔“
”کہتی تو صحیح ہو ۔“اس کی بات پر رضوان بھی کھلکھلا کر ہنس پڑا تھا ۔
”اور جو پلیٹ کو یوں پھینک کر گئی ہے ،وہ بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ اسے بھوکا رہنا نہیں پڑے گا۔“
”ہاں بیگم !....ایسے بھائی قسمت والیوں کو ملتے ہیں ۔“رضوان نے ٹھنڈا سانس بھرا۔”اللہ پاک اپنا کرم فرمائے اور ہماری گڑیا کو ایسا چاہنے والا شوہر بھی ملے ۔“
”آمین ۔“رخسانہ کے بھی دل سے دعا نکلی تھی ۔دعا اسے بھی بہت عزیز تھی ۔وہ کبھی بھی اس کے بھوکا سونے کے حق میں نہیں تھی ۔بلکہ کوئی بھی ماں اولاد کے حق میں ایسی نہیں ہوتی ۔ لیکن وہ کیا کرتی کہ محمود اس سے بھی بڑھ کر دعا کا خیال رکھتا تھا ۔اسے ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی اس کاخیال رکھنے کی ۔یوں بھی دونوں میاں بیوی محمود کی دعا کے ساتھ محبت و شفقت کو دیکھ کر دعا پر تھوڑی بہت سختی روا رکھنا ضروری سمجھتے تھے ورنہ وہ بالکل ہی قابو سے نکل جاتی ۔
٭٭٭
تمام کے اپنے اپنے کمروں میں گھستے ہی وہ اٹھ کر دعا کے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔ وہ تکیے میں منہ گھسائے لیٹی تھی ۔
”ارے اتنی لمبی ہو گئی ہے میری گڑیا !“محمود اس کے پاوں سے سر تک اپنی بالشت سے ناپنے لگا ۔
مگر وہ خاموش پڑی رہی ۔محمود نے پینترہ بدلتے ہوئے کہا۔
”اس نمرہ کی بچی سے تو میں کل سکول میں جا کر نبٹوں گا ،ہر وقت میری گڑیا سے جھگڑتی رہتی ہے ۔“
”مجھے آپ کی ہمدردی کی کوئی ضرورت نہیں سمجھے۔“وہ اٹھ کر اس کی چھاتی پر تھپڑ مارنے لگی ۔”آپ بس باقیوں کی طرح مجھے ڈانٹیں ،کیا ضرورت ہے میری طرفداری کی۔“
”ارے !....میں نے کب ڈانٹا ہے ؟اور میں بھلا نمرہ کی یا کسی دوسرے تیسرے کی طرفداری کیوں کروں گا ۔“
”تو وہ کیا تھا ؟“دعا کی موٹی موٹی آنکھیں آنسووں سے بھر گئی تھیں ۔
” میں نے یہ کہا تھا کہ اچھی بچیاں اپنی استانیوں کی عزت کرتی ہیں ۔نمرہ جیسی گندی بچیاں اپنی استانیوں کے خلاف بات کرتی ہیں، میری گڑیا تو گندی نہیں ہے نا۔“
”بس میں نے کھانا نہیں کھانا آپ جائیں اور صبح ناشتہ بھی نہیں کروں گی ۔“دعا نے دوٹوک الفاظ میں اپنا فیصلہ سنا دیا تھا ۔
”ٹھیک ہے ،میں بھی نہیں کھاوں گا۔“محمود نے بےپروائی سے کندھے اچکائے۔
”نہ کھاو، مجھے کیا۔“دعا دوبارہ لیٹ گئی تھی ۔
”اچھا پتا ہے، اپنے محلے میں ٹھنڈی بوتلوں کی دکان کھلی ہے اور اس کے پاس ہر قسم کی آئس کریم بھی دستیاب ہے، یقین کرو رات کے دس بجے تک کھلی رہتی ہے۔ ابھی تک تو ساڑھے آٹھ ہوئے ہیں ۔“
آئس کریم کی دیوانی ایک دم اٹھ بیٹھی ۔” بھیا !....چلیں نا۔“
”نہیں بھئی !....“محمود نے انکار میں سر ہلایا۔” آئس کریم کے حق دار وہی بچے ہوتے ہیں جنھوں نے رات کا کھانا پیٹ بھر کھایا ہوا ہو۔“
”اچھا ٹھیک ہے ،آپ کھانا لے آئیں میں کھا لیتی ہوں ،مگر اس کے بعد آئس کریم کھانے چلیں گے۔“
”ہاں ....اس بارے سوچا جا سکتا ہے ۔“محمود نے سر جھکاتے ہوئے سوچنے کی اداکاری کی ۔
”چلیں پھر کھانا لے آئیں ۔“وہ خوشی سے چہکی اور محمود مسکراتا ہوا باورچی خانے کی طرف بڑھ گیا ۔تھوڑی دیر بعد وہ کھانے سے فارغ ہو کر دعا کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر آئس کریم کھلانے لے جا رہا تھا ۔
موٹر سائیکل سٹارٹ ہونے کی آواز سن کر رخسانہ ،رضوان کو مخاطب ہوئی ۔
”لیں جی !....آپ کی لاڈلی نے پیٹ بھر کر کھا لیا ہے اب آئس کریم کھانے کے لیے تشریف لے جا رہی ہے ۔“
جواباََ رضوان نے ہنسنے پر اکتفا کیا تھا ۔
دفتر سے واپسی پرموٹر سائیکل کھڑی کرتے ہوئے اسے رخسانہ چچی کی اونچی آواز سنائی دی ،کسی کو ڈانٹ رہی تھیں وہ ۔
ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر روتی ہوئی دعا پر پڑی ۔
”ارے کیا ہوا میری گڑیا کو ۔“وہ تڑپ کر آگے بڑھا ۔
”ابھی تک کچھ نہیں ہوا ،آج میرے دو ہاتھ پڑیں گے تب سدھرے گی تمھاری گڑیا۔“ رخسانہ چچی نے محمود کو دیکھتے ہی غصیلے لہجے میں کہا ۔ گویا یہ محمود کو واضح الفاظ میں خبردار کرنا تھا کہ اس وقت دعا کی طرف داری نہ کرے ۔
”آخر کچھ پتا تو چلے چچی جان !“اس نے ہاتھ میں تھاما بیگ میز پر رکھا اور روتی ہوئی دعا کو گود میں بٹھا کر پیار کرنے لگا ۔
”نواب زادی کو سکول جانے اور آنے کے لیے کار چاہیے کہ اس کی کئی کلاس فیلوز کو ان کے سرپرست کار میں لے کے آتے ہیں ۔تمھاری بائیک اسے کھٹارا لگتی ہے اور اس پر سکول آنا جانا اسے اپنی شان کے خلاف نظر آتا ہے ۔“چچی جان نے دعا کا مسئلہ اس کے سامنے دہرا دیا۔
”کیا یہی بات ہے ؟“اس نے دعا کی ٹھوڑی سے پکڑ کر اس کا رخ اپنی جانب موڑا ۔ ”بھیا !....آپ کی موٹر سائیکل کو کھٹارا میں نے تو نہیں کہا ۔وہ تو کائنات، سدرہ اور شمائلہ کہہ رہی تھیں کہ میں کھٹارا بائیک پر سکول آتی ہوں ۔ وہ تینوں کار پر آتی ہیں ۔اور روزانہ میرا مذاق اڑاتی ہیں ۔“دعا نے منہ بسورتے ہوئے ساری کہانی دہرا دی ۔
”ویسے اور لڑکیاں بھی تو بائیک پر اور رکشے وغیرہ میں سکول آتی ہوں گی نا ؟ تمام تو کار میں نہیں آتیں ۔“محمود نے اسے پیار سے سمجھایا۔
”مجھے کچھ نہیں پتا میں نے چڑیل کائنات کو کہہ دیا ہے کہ ایک ہفتے کے اندر اندر ہم کار خرید لیں گے ۔“دعا کچھ سمجھنے کو تیار نہیں تھی اور اب تو یوں بھی محمود موجود تھا کہ اس کے ہوتے ہوئے وہ کسی سے بھی نہیں ڈرتی تھی ۔
”سن لیا اب اس کی لاج رکھنے کے لیے ہم کار خریدیں گے ۔“ رخسانہ طیش بھرے لہجے میں بولی ۔
”اچھا ایسا ہے کہ میں صبح سویرے اٹھ کر گڑیا کو پاپا کی کار میں سکول چھوڑ کے آیا کروں گا اور واپسی پر بائیک میں آئیں گے ٹھیک ہے ۔“
”تمھارا دماغ تو نہیں خراب ہوا ۔“رخسانہ بپھر کر بولی ۔”تم کیسے ترتیب بنا پاﺅ گے کہ صبح سویرے نواب زادی کو سکول چھوڑکے آﺅ، پھر واپس گھر آ کر دوبارہ دفتر اپنی بائیک پر جاﺅ۔“
”نہیں مجھے واپسی بھی کار پر آنا ہے ۔“رخسانہ کے غصے کو خاطر میں لائے بغیر دعا مچلی۔
”دیکھ لیا ،یہ لاتوں کے بھوت ہیں ،باتوں سے ماننے والے نہیں ۔“
”ارے بھئی کس کی پٹائی کی بات ہو رہی ہے ؟“رضوان نے ڈرائینگ روم میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا ۔
”تمھاری لاڈلی کے علاوہ کون ہو سکتا ہے بھلا۔“رخسانہ نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا ۔
”کچھ پتا تو چلے ۔“وہ بیگم کے پہلو میں ٹک گیا تھا ۔
رخسانہ نے شوہر کے سامنے بھی سارا مسئلہ رکھ دیا ۔
”دعا !....یہ کوئی اچھی بات تو نہیں ہے نا ۔ہم دو دو گاڑیاں خریدنے کی طاقت تو نہیں رکھتے نا بیٹی ۔“
”کیوں نہیں خرید سکتے ،آپ کائنات کے باپ سے غریب ہو کیا ؟“
رضوان ہنسا۔”تو اور کیا ،تمھارے خیال میں ہم بہت امیر ہیں ۔“
”پاپا!....کلاس کی آدھے سے زیادہ لڑکیاں کار میں آتی ہیں ۔“
”تو میں نے کہہ تو دیا کہ تمھیں کار ہی پر چھوڑ کر آیا کروں گا ۔بس واپسی بائیک پر آنا پڑے گا ۔“محمود نے اسے شفقت بھرے لہجے میں تسلی دی ۔
”نہیں واپسی بھی کار پر ہو گی ۔“دعا نے نفی میں سرہلایا۔
”اچھا جس دن مجھے موقع ملا میں تمھیں لینے آجاﺅں گا ۔“ رضوان نے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی ۔
”آپ کے دفتر سے اس کے اسکول تک گھنٹے سے زیادہ وقت لگ جاتا ہے ۔“ رخسانہ نے شوہر کی توجہ اصل مسئلے کی طرف مبذول کرائی ۔”محمود کا دفتر بھی بالکل مخالف سمت میں ہے ورنہ وہ آپ کی کار میں اسے گھر چھوڑ جاتا اور پھر یہ بھی سوچو ایک دن کی بات نہیں ہے روزانہ کا مسئلہ ہے ۔ البتہ اگر آپ بائیک پر دفتر آنا جانا شروع کر دیں تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا ۔“
محمود نے فوراََ نفی میں سرہلایا۔”نہیں چچا جان کیسے بائیک پر سفر کریں گے ۔“
”تو نئی کار لے لیں نا ؟“دعا نے اپنی راگنی الاپی ۔
”چپ کر دعا !....ہر وقت ضد نہیں کرتے ۔“رضوان نے اسے ہلکے سے ڈانٹا ۔
”میں سکول ہی نہیں جاﺅں گی ۔“وہ تڑپ کر محمود کی گود سے نکلی اور اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی ۔
”اس سب کا ذمہ دار یہ ہے ،اسے اتنا زیادہ سر پر چڑھا دیا ہے کہ اب وہ اپنی ضد سے سرِمُو پیچھے نہیں ہٹتی ۔“رخسانہ محمود پر بگڑنے لگی ۔
محمود بے بسی سے بولا۔”چچی جان !....کچھ نہیں ہوتا میں اسے سمجھا لوں گا ۔“
”دو تین لگایا بھی کرو نا ،تاکہ اس کی سمجھ میں جلدی آ جایا کرے ۔“
”چھوٹی سی بچی ہے چچی جان !....اور بچے ایسی ضد کرتے رہتے ہیں۔ساری قصوروار وہ بھی نہیں ہے ۔ہم نے اسے اچھے سکول میں داخل کرایا ہوا ہے اور آپ جانتی ہیں بچوں کے اندر اس طرح طنز و طعنے چلتے رہتے ہیں ۔انھیں اگلے کے گھریلو حالات کا علم تھوڑی ہوتا ہے اور آپ فکر نہ کریں میں اسے سمجھا لوں گا ۔“
”ہاں سمجھا تو تم لو گے ،اتنے پیسے جو نہیں ہیں تمھارے پاس ۔ورنہ یقینا صبح نئی کار آ گئی ہوتی ۔پہلے اپنی لاڈلی کی کوئی بات ٹالی ہے تم نے ۔اگر شروع دن سے کچھ سختی روا رکھتے تو اتنی ضدی نہ ہوتی ۔اور سچ کہوں تو تم نے اسے اتنا سر پر چڑھا دیا ہے کہ اب وہ ہمارے ڈانٹنے اور سمجھانے کی ذرا بھی پروا نہیں کرتی ۔اس کا محمود بھیا موجود ہے جو اس کی ساری خواہشات پوری کرے گا ۔اب بھگتو خود ہی ۔“
آخری فقرہ رخسانہ نے مزاحیہ انداز میں کہا تھا ۔محمود نے خاموشی سے سر جھکا لیا کہ دعا کی وجہ سے عموماََ اسے ڈانٹ پڑ جایا کرتی تھی ۔یوں بھی چچا جان اور چچی کی ڈانٹ کو وہ اتنی اہمیت نہیں دیا کرتا تھا ۔
اپنے کمرے میں جا کر وہ تازہ دم ہونے لگا ۔نہا کر کپڑے تبدیل کرنے تک شام کی آذان ہونے لگی تھی ۔نماز کے لیے اس نے مسجد کا رخ کیا ۔چچا رضوان بھی اس کے ہمراہ ہی تھا ۔ مسجد سے واپسی پر اس کا رخ دعا کے کمرے کی طرف ہو گیا ۔حسب توقع وہ تکیے میں منہ گھسیڑے لیٹی تھی ۔
”گڑیا !....نماز نہیں پڑھی نا ،دیکھو کتنی بری بات ہے ۔“اس کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ کر وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔اس نے سات سال کی عمر ہی سے دعا کو نماز کی عادت ڈال دی تھی۔
وہ بگڑ کر بولی ۔”نہیں پڑھوں گی نماز ،سکول بھی نہیں جاﺅں گی اور کھانا بھی نہیں کھاﺅں گی ۔“
”اچھا ایک ہفتے کی مہلت تو دی ہے نا تم نے ۔وہ مہلت تو پوری ہونے دو ۔“محمود نے وقتی طور پر اس سے جان چھڑانا چاہی ۔
”پہلے آپ وعدہ کریں کہ اگلے ہفتے نئی کار لے آئیں گے ۔“وہ اٹھ کر لاڈ بھرے انداز میں اس سے لپٹ گئی تھی ۔
”اچھا یوں ہے کہ ابھی تم تیسری کلاس میں ہو ۔مجھے تھوڑی سی مہلت دو ،میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگلی کلاس میں تمھیں کار میں لایا لے جایا کروں گا ۔“
”بالکل بھی نہیں ۔“اس نے منہ بسورا ۔”کائنات اور سدرہ میرا مذاق اڑائیں گی ۔ اور بھیا اب مجھ سے بالکل بھی پڑھائی نہیں ہوتی میں ہر وقت سوچتی رہتی ہوں کہ کیسے ان کا منہ بند کروں۔“
”تم کلاس میں پہلی پوزیشن لے کر ان کا منہ بند کر سکتی ہو نا بھیا کی جان ۔“محمودبے بسی سے بولا تھا ۔
اس نے ضدی لہجے میں پوچھا۔”آپ نے کار خریدنا ہے کہ نہیں ؟“
”اچھا اس بارے بعد میں بات کریں گے ،ابھی ہفتہ پڑا ہے ۔فی الحال تم اٹھ کر وضو کرو ،نماز پڑھو اور اللہ پاک سے خصوصی دعا کرنا کہ تمھارے بھیا کو اتنے پیسے دے دے تاکہ وہ اپنی گڑیا کے لیے ایک چھوٹی سی ،پیاری سی کار خرید لے ۔“
یہ کہہ کر اس نے دعا کی پیشانی چومی اور اس کے کمرے سے نکل آیا ۔اس کا دماغ نئی کار لینے کے منصوبے بنا رہا تھا ۔
٭٭٭
وقتی طور پر تو اس نے دعا کو بہلا لیا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ دعا کو بات بھولتی نہیں تھی ۔ایک ہفتے بعد اس نے پھر واویلا کرنا تھا ۔اور اس سے پہلے وہ کوئی بندوبست کر لینا چاہتا تھا۔ایک طریقہ تو یہی تھا کہ وہ دعا کو چچا رضوان کی کار میں چھوڑ کر آتا اور واپسی پر اپنے دفتر کے کسی ساتھی کی کار پر اسے سکول سے لینے آ جاتا ۔لیکن اس طرح اس کے صبح کے اوقات بری طرح متاثر ہوتے ۔اب تو اسے سکول چھوڑ کر وہ دفتر آ جایا کرتا۔ پھر یہ بھی تھا کہ دعا کو بھی عام روزمرہ سے کچھ پہلے سکول جانا پڑتا ۔اپنی حد تک تو وہ برداشت کر لیتا مگر دعا کے آرام میں خلل ڈالنا اسے بالکل گوارا نہیں تھا۔
ایک دو شورومز سے اس نے نئی سوزکی مہران کی قیمتیں بھی دریافت کر لی تھیں۔ کافی دیر سوچنے کے بعد اس نے ایک فیصلہ کر لیا ۔لیکن اس بات کی ہوا بھی اس نے چچی کو نہیں لگنے دی تھی ۔
اتوار کی صبح کو نماز پڑھ کر دوبارہ لیٹ جایا کرتے اور ناشتا کہیں نو بجے کرتے تھے۔ وہ بھی اتوار کی ایک خوش گوار صبح ہی تھی ۔ناشتا کرتے ہوئے وہ چچا رضوان کو مخاطب ہوا ۔
”چچا جان آج گاﺅں سے نہ ہو آئیں کافی دنوں سے چکر نہیں لگایا۔
”مجھے تھوڑا کام تھا ۔“رضوان نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھر بولا۔”چلو ٹھیک ہے چلے جاتے ہیں ۔“
”میں بھی چلوں گی ۔“دعا فوراََ تیار ہو گئی تھی ۔
”بالکل میری لاڈو رانی تو لازماََ جائے گی ۔“محمود نے اثبات میں سر ہلا کر چچی سے پوچھا ۔”چچی جان !....آپ بھی چلیں گی ؟“
”نہیں ،آپ لوگ ہو آئیں ۔“رخسانہ نے نفی میں سر ہلا دیا ۔افنان اور فیضان ابھی تک سوئے تھے اس لیے وہ انھیں جگائے بغیر چل پڑے۔
ان کا گاﺅں وہاں سے دو اڑھائی گھنٹے کی مسافت پر تھا ۔دس بجے تک وہ جانے کے لیے تیار تھے ۔ڈرائیونگ کی ذمہ داری محمود نے سنبھالی تھی ۔شہر سے نکلتے ہی وہ چچا کو مخاطب ہوا ۔
”چچا جان !....ایک مشورہ کرنا تھا ۔“
”بولو بیٹا!“وہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔
”چچا جان !....اگر میں اپنے حصے کی زمین بیچ دوں تو ....؟“
”ایسی بھی کیا ضرورت آن پڑی ہے ۔“رضوان حیران رہ گیا تھا ۔
”ضرورت تو کوئی خاص نہیں ہے چچا جان !....یوں بھی زمین کی آمدنی سے میں نے کبھی بھی چاچوں سے کچھ نہیں مانگا ۔الحمداللہ میری نوکری بھی ہے ۔اس زمین کو میں اپنے پاس رکھ کر کیا کروں گا ۔اس کے بجائے اگر میں تھوڑی سی رقم لے کر زمین دونوں چاچوں کے نام کر دوں تو زیادہ بہتر نہیں ہوگا ۔آپ نے بھی تو اپنا حصہ بھائیوں کے نام کر دیا تھا ۔“
”دیکھو بیٹا !....اس بارے میں کیا مشورہ دے سکتا ہوں ،تم میرے بھتیجے ہو اور وہ بھائی ۔میرے لیے دونوں برابر ہو ۔باقی اپنی زمین کے بارے تو میں فیصلہ کر سکتا تھا ۔تمھاری زمین کے بارے میں کیا فیصلہ کروں ۔ہو سکتا ہے کبھی تمھیں ضرورت پڑ جائے اور اس وقت تمھارے ذہن میں یہ سوال اٹھے کہ میں نے تمھیں کوئی بہتر مشورہ نہیں دیا تھا ۔“
”صحیح کہا چچا جان !....لیکن پانچ چھ ایکڑ زمین میرے کس کام آئے گی ۔یوں بھی کاشت کاری وغیرہ کا مجھے کوئی تجربہ ہے نہیں کہ میں گاﺅں منتقل ہونے کا سوچوں ۔اس لیے اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنی زمین چاچوں کے نام کر دیتا ہوں ۔“
”اس معاملے میں نہ تو کوئی مشورہ دوں گا اور نہ تمھیں منع کروں گا ۔“
”بھیا چھلی کھانی ہے ۔“روڈ کے کنارے کھڑی ریڑھی والے کو چھلیاں بیچتے دیکھ کر دعا نے فوراََ فرمائش کر دی ۔
”اچھا ٹھیک ہے ۔“بیک مرمر میں دعا کے معصوم چہرے پر نظر ڈالتے ہوئے اس نے اثبات میں سرہلایا۔” آگے جیسے کوئی چھلیوں والا نظر آیا میں لے لیتا ہوں ۔“
دعا کو کہہ کر وہ چچا سے باتیں کرنے لگا ۔جلد ہی اسے ایک چھلیوں والا نظر آ گیا تھا ۔
”چچا جان !....آپ چھلی کھانا پسند کریں گے ۔“کار سڑک کے ایک طرف روکتے ہوئے وہ مستفسر ہوا ۔
”نہیں بیٹا !“رضوان نے نفی میں سر ہلایا۔اور محمود سر ہلاتے ہوئے نیچے اتر گیا ۔
دعا کے لیے ایک چھلی خرید کر وہ دوبارہ آگے بڑھ گئے ۔
”ویسے بریرہ کیسی لڑکی ہے ؟“رضوان نے سرسری انداز میں پوچھا ۔
”کیا مطلب کیسی لڑکی ہے ؟“وہ چونک کر چچا جان کا منہ دیکھنے لگا ۔
رضوان ہنسا ۔”جب کوئی بڑا کسی لڑکی کے بارے پوچھتا ہے تو اس کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے برخوردار!“
”ابھی تک اس بارے میں نے کچھ نہیں سوچا چچا جان !“
محمود کی آنکھوں میں بریرہ کا خوب صورت چہرہ لہرایا ۔وہ سلمان چچا کی بیٹی تھی ۔اور ایف اے کے بعد تعلیم کو خیر باد کہہ چکی تھی۔
”تو کب تک سوچو گے ،خیر سے برسر روزگار ہو اور اب مزید انتظار بھی مجھے مناسب نہیں لگتا ۔“
”جیسا آپ کہیں چچا جان !....“محمود نے زیادہ بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا ۔
بریرہ خوش شکل اور اچھے اخلاق کی مالک لڑکی تھی ۔یوں بھی آج تک اس نے کسی لڑکی کو ایسی نظروں سے نہیں دیکھا تھا ۔اس لیے بریرہ کو بطور شریک حیات قبول کرنا اسے مناسب لگا تھا ۔
”ٹھیک ہے ،واپسی پر رخسانہ سے مشورہ کر کے باقاعدہ رشتہ لے کر آئیں گے ۔“ اور محمود نے اثبات میں سر ہلانے پر اکتفا کیا تھا ۔
رضوان موضوع تبدیل کر کے اس کے دفتر وغیرہ کے بارے تفصیلات پوچھنے لگا۔ اپنے آبائی گھر پہنچنے تک وہ مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے رہے۔
ان کے آبائی گھر کا رقبہ دو اڑھائی کنال کے قریب تھا ۔دونوں چاچوں نے آہستہ آہستہ پرانے اور کچے کوٹھے گرا کر پختہ کمرے بنا لیے تھے ۔تعمیر کے لیے انھوں نے بس دیہاتی ترتیب ہی مدنظر رکھی تھی ۔ایک سیدھی لائن میں سات آٹھ کمرے بنا کر ان کے سامنے ایک لمبا برامدہ بنا دیا تھا ۔
اس کے چچا سلمان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ان کے گاﺅں میں لڑکیوں کے لیے بھی ہائر سیکنڈری سکول بن چکا تھا ۔بریرہ سلمان کی سب سے بڑی بیٹی تھی اور ایف اے کرچکی تھی۔اس سے چھوٹی نمرہ مڈل میں تھی اورسب سے چھوٹا بلال ساتویں میں پڑھتا تھا۔ جبکہ سب سے چھوٹے چچا عمران کے تین بیٹے سلطان، عدنان کامران اور ایک بیٹی ساجدہ تھی ۔سلطان اور عدنان نے پرائمری کے بعد سکول کو خیر باد کہہ دیا تھا اور کھیتی باڑی میں باپ اور چچا کا ہاتھ بٹاتے تھے ۔ان سے چھوٹا کامران اور بیٹی ساجدہ البتہ بڑے شوق سے پڑھ رہے تھے ۔
اسی طرح اس کی پھوپھو شہناز کی بڑی بیٹی بختاور کی شادی ہو چکی تھی ۔اس سے چھوٹی عمارہ پھر طفیل اور سب سے چھوٹی بیٹی عاتکہ تھی ۔عمارہ نے ایف اے کر کے ساتھ والے گاﺅں کے کالج میں تھرڈ ایئر میں داخلہ لے لیا تھا ۔ طفیل میٹرک میں پڑھتا تھا اور سب سے چھوٹی عاتکہ ساتویں کلاس میں تھی ۔
محمود نے جونہی کار اپنے آبائی مکان کے سامنے روکی اپنا پھوپھی زاد طفیل اسے گھر سے باہر نکلتا دکھائی دیا ۔اس کا اپنا گھر دو گلیاں چھوڑ کر تھا ۔کار کو دیکھتے ہی وہ خوشی سے کھل اٹھا تھا۔
”ماموں جان !“اس نے آگے بڑھ کر کار کا دروازہ کھولتے ہوئے خوشی سے بھرپور لہجے میں کہا ۔
”کیسے ہو طفیل بیٹا !“رضوان نے کار سے اتر کر اپنے بھانجے کو چھاتی سے لگایا۔
”بالکل ٹھیک ٹھاک ماموں جان!“رضوان سے مل کر وہ محمود کی طرف متوجہ ہوا ۔ ”محمود بھائی !....کیا حال ہے ۔بڑے دنوں بعد زحمت کی ہے ۔“اس کا لہجہ ہلکا سا شکوہ لیے ہوئے تھا۔
”بس یار موقع ہی نہیں ملتا ۔“محمود نے اس کا مصافحے کے لیے بڑھا ہوا ہاتھ تھامتے ہوئے مسکرا کر جواب دیا ۔
”فیضان اور افنان نہیں آئے ؟“
”انھیں ہم نے مطلع ہی نہیں کیا ،بس ایک دم ارادہ ہوا اور ہم نکل پڑئے ۔“
”اچھا میں امی جان کو بتا دوں ،کل ہی آپ کو کال ملانے کا کہہ رہی تھیں اور اس وقت بد قسمتی سے میرے موبائل فون میں بیلنس ہی موجود نہیں تھا ۔“طفیل خفیف انداز میں ہنسا ۔
”ٹھیک ہے بیٹا !“کہہ کر رضوان آگے بڑھ گیا ۔محمود بھی دعا کی انگلی پکڑ کر چل پڑا ۔
ان کے اندر داخل ہوتے ہی گھر میں موجود تمام چھوٹے بڑے ان کے گرد اکٹھے ہو گئے تھے ۔
چھوٹے چچا عمران کے دونوں بیٹے سلطان اور عدنان زمینوں پر گئے ہوئے تھے باقی تمام گھر ہی میں موجود تھے ۔محمود نے سرسری نظر تمام پر ڈالی ۔ان میں بریرہ بھی موجود تھی جو اسے دیکھتے ہی اپنا دوپٹہ ٹھیک کرنے لگ گئی تھی ۔
”کیسے ہو محمود بھیا !“باقیوں کے ساتھ اس نے بھی محمود کا حال پوچھا تھا ۔
”بالکل ٹھیک !....“کہہ کر محمود اپنی چچیوں کی طرف مڑ گیا ایک دم اسے بریرہ سے حجاب آنے لگا تھا ۔
شکیلہ چچی اس کی سگی خالہ بھی تھی ۔اس نے بے اختیار محمود کو اپنے ساتھ لپٹا لیا ۔ ”کیسا ہے میرا بیٹا !“اس نے محمود کے ماتھے پر بوسا دیتے ہوئے پوچھا ۔
”بالکل ٹھیک ہوں خالہ جان !“وہ اسے بچپن سے خالہ جان ہی کہا کرتا تھا ۔
”اسلام علیکم نرگس چچی !“اس نے چھوٹی چچی کے سامنے سر جھکا دیا ۔
”وعلیکم اسلام محمود بیٹا !“محمود کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس نے دعا کو اپنے گود میں کھینچ لیا ۔
”ارے میری بہو بھی ساتھ آئی ہے ۔“وہ مزاحیہ انداز میں بولی ۔محمود مسکرانے لگ گیا تھا۔
مگر دعا مچل کر اس کی گود سے نکلی اور دوبارہ محمود کا ہاتھ تھام لیا ۔محمود کے علاوہ اسے کسی سے دلچسپی نہیں ہوتی تھی ۔اور کسی دوسرے کے گھر میں جانے کے بعد تو وہ محمود کی جان بالکل بھی نہیں چھوڑتی تھی کہ کہیں کوئی اور بچہ محمود کی گود میں نہ گھس جائے ۔
”اپنے بھیا کے علاوہ بھی کبھی کسی کی گود میں بیٹھ جاﺅ ۔“ شکیلہ خالہ نے دعا کے گال پر ہلکی سی چٹکی کاٹی ۔
”یہ ماں کے پاس نہیں جاتی آپ کسی دوسرے کی بات کر رہی ہیں ۔“ رضوان ہنستے ہوئے کہہ کر صحن میں بچھی ہوئی چارپائی پر بیٹھ گیا تھا ۔
بریرہ ،نمرہ اور ساجدہ کمروں سے چارپائیاں نکال کر صحن میں رکھنے لگیں تاکہ باقی بھی بیٹھ سکیں ۔وہ صحن ہی میں بیٹھ کر گپ شپ کرنے لگے ۔اسی دوران پھوپھو شہناز بھی وہاں پہنچ گئی۔ طفیل ، عمارہ اور عاتکہ بھی ساتھ تھے ۔عمارہ شوخ و شنگ کپڑوں میں کسی طرح بھی شہری لڑکی سے کم نظر نہیں آ رہی تھی ۔وہ گندمی رنگت اوراچھے نین نقش کی لڑکی تھی ۔جبکہ بریرہ کی رنگت دودھیا سفید تھی ۔اس کی آنکھیں بھی عمارہ سے موٹی تھیں ۔اس کی بہن گو ابھی تک چھوٹی تھی مگر وہ بھی بڑی بہن کی طرح نہایت خوب صورت تھی ۔عمران چچا کی بیٹی ساجدہ البتہ سانولے رنگ کی تھی ۔ اسے بس قبول صورت کہا جا سکتا تھا ۔
اس دن جانے کیوں محمود نے اپنی تمام کزنز کو گہری نگاہ سے دیکھا تھا ۔ان میں سب سے بہتر اسے بریرہ نظر آئی تھی ۔عمارہ بھی ٹھیک ٹھاک تھی ۔مگر پھر اس نے سر جھٹک کر ان پریشان کن سوچوں سے جان چھڑائی ۔اس کی شریک حیات جو بھی بنتی اسے قبول تھی ۔پیار محبت اور عشق وغیرہ کے چکروں میں نہ تو وہ کبھی پڑا تھا اور نہ اس کی طبیعت ہی ایسی تھی ۔چچا رضوان نے بھی بریرہ کی طرف متوجہ کر کے اسے عجیب جھنجٹ میں ڈال دیا تھا ۔
وہ کافی دیر وہیں گپ شپ کرتے رہے ۔دوپہر کا کھانا بھی انھوں نے وہیں بیٹھ کر کھایا تھا ۔اس دوران عدنان اور سلطان بھی واپس آ گئے تھے ۔
کھانے کے بعد لڑکے بالے آہستہ آہستہ دائیں بائیں ہونے لگے ۔پھوپھی شہناز بھی کسی کام کی وجہ سے گھر چلی گئی وہ اپنے تینوں چچوں کے ساتھ اکیلا رہ گیا ۔تبھی اس نے نپے تلے لفظوں میں دونوں چاچوں کو مخاطب کیا ۔
”چچاجان !....آپ دونوں سے ایک کام تھا ۔“
”حکم کرو بیٹا !“سلمان نے شفقت بھرے لہجے میں پوچھا ۔عمران بھی اس کی جانب متوجہ ہو گیا تھا ۔
”چچا جان !....اپنی زمین کا حساب کرنے آیا ہوں ۔“
”سو بسم اللہ بیٹا !....تمھارا حصہ تو شروع دن سے علیحدہ ہے ۔گھر میں بھی اور زمین میں بھی ۔“
”چچا جان !....مجھے کچھ رقم کی ضرورت ہے تو آپ کا کیا خیال ہے یہ زمین کس بھاﺅ بک جائے گی ؟“محمود نے دبے لفظوں میں اپنا مطمح نظر بیان کیا ۔
”بیٹا !....کتنی رقم کی ضرورت ہے ؟....اور زمین بیچنے کے حق میں تو ہم دونوں نہیں ہیں ،بلکہ بھائی جان بھی اس معاملے میں ہماری تائید کریں گے ۔“
سلمان نے رضوان کی طرف تائید بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا اسے محمود کی بات یقینا پسند نہیں آئی تھی ۔اس کے ساتھ چچا عمران کے چہرے پر بھی ناپسندیدگی کے آثار پھیل گئے تھے ۔
”تو آپ دونوں خرید لیں ۔“محمود نے پہلے سے طے کیے منصوبے کے مطابق انھیں دعوت دی ۔
”اگر ہمارے پاس اتنی رقم ہوتی تو یقینا آپ کو یہ کہنے کی ضرورت نہ پڑتی بیٹا !“ سلمان کے لہجے میں ہلکی سی اداسی در آئی تھی ۔
”آج کل کیا بھاﺅ چل رہا ہے چچا !“اس نے دلچسپی لی ۔
”سات آٹھ لاکھ روپے فی ایکڑ تو پچھلے سال کا بھاﺅ ہے ۔“چچا عمران نے ایک محتاط اندازے سے کہا ۔
”اور میری زمین ہے کتنی ؟“محمود نے اگلا سوال پوچھا ۔
”سات ایکڑ اور دو کنال ۔“اس مرتبہ بھی اس کے چچا عمران نے جواب دیا تھا ۔
”تو ایسا ہے چچا جان !....گھر میں موجود حصہ میں آپ دونوں کو بغیر کچھ لیے دے دیتا ہوں ۔باقی زمین پانچ لاکھ ایکڑ کے حساب سے آپ خرید لیں ۔اور اس میں سے بھی سات لاکھ روپے آپ مجھے دو تین دنوں تک برابر کر دیں باقی کی رقم جب کبھی سہولت ہو ادا کردینا ۔میرا مطلب دو،تین ،چار جتنے سالوں میں آسانی سے ادا کرسکیں کر دینا ۔اور بالفرض اتنے پیسے نہیں ہو پاتے تب بھی گھر کی بات ہے ۔آپ میرے لیے غیر نہیں ہیں میرے ابوجان کی جگہ پر ہیں ۔ مجھے نہ تو کوئی شکوہ شکایت ہو گی اور نہ کوئی افسوس ۔“
”مگر بیٹا !....یہ تو تمھارے ساتھ سراسر زیادتی ہو گی ۔“سلمان نے نفی میں سر ہلایا۔
”کوئی زیادتی نہیں ہے چچا جان !....گھر کی بات ہے ۔یوں بھی میں کاشت کاری وغیرہ کے بارے کچھ نہیں جانتا ۔ہماری آبائی زمین اگر اپنوں کے ہاتھ رہے گی تو یقینا یہ بات ہم سب کے لیے باعث اطمینان ہوگی ۔باقی اگر مجھے رقم کی اشد ضرورت نہ ہوتی تو یقینا میں یہ بوجھ بھی آپ لوگوں پر نہ ڈالتا ۔
”یہ کوئی بوجھ نہیں ہے بیٹا !....کل پرسوں تک تمھیں اتنی رقم مل جائے گی ۔اور زمین بھی ہمارے نام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔یوں بھی اتنے سال سے ہم تمھاری زمین کاشت کر رہے ہیں اتنا حصہ تو تمھارا بنتا ہے نا ۔“چچا سلمان کا خلوص بھرا لہجہ اسے مسرت سے ہمکنار کر گیا تھا ۔اللہ پاک نے یقینا اسے بہت اچھے چاچوں سے نوازا تھا ۔
”اللہ پاک آپ کو خوش رکھے چچاجان !....لیکن یقین مانیں مجھے اس زمین کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے ۔میری نوکری ہے اور اللہ پاک کے فضل سے بہت اچھا گزارا ہو رہا ہے ۔ آپ بس کاغذی کارروائی مکمل کرائیں اور پرسوں تک مجھے چھے سات لاکھ تک دے دیں ۔“
اس کے دونوں چاچوں نے کافی دیر حجت کی مگر وہ پہلے سے فیصلہ کر کے آیا تھا ۔ چچا رضوان نے البتہ اس ضمن میں نہ تو کوئی مشورہ دیا تھا اور نہ کسی کی طرف داری کی تھی ۔
”آپ لوگ جو چاہیں کریں میرے لیے دونوں فریق ایک جیسے ہیں ۔“کہہ کر اس نے اس بحث میں حصہ لینا ہی گوارا نہیں کیا تھا ۔
شام کا کھانا کھا کر ہی وہ لوٹے تھے ۔شام تک عمارہ بھی اسے اپنے دائیں بائیں پھرتی نظر آئی ۔اسے محسوس ہوا کہ وہ اس کی ذات میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لے رہی تھی ۔اس کے برعکس بریرہ کی طرف سے اسے ایسی کوئی کوشش ہوتی نظر نہیں آئی تھی ۔
چچا رضوان چھوٹے بھائیوں کو کوئی بات سمجھانے لگ گیا تھا ۔وہ اور دعا کار میں آ کر بیٹھ گئے ۔
”بھیا !....آپ نے زمین کار خریدنے کے لیے بیچی ہے نا ؟“وہ جونہی اسٹیئرنگ پر بیٹھا ۔اس کی گود میں گھستے ہوئے دعا نے اس کے گلے میں اپنی ننھی منی بانہیں ڈالتے ہوئے مسرت بھرے لہجے میں پوچھا ۔
”تمھیں کیسے پتا چلا ؟“وہ اس ننھی فتنہ کی بات سن کر حیران رہ گیا تھا ۔گو وہ اس کی چاچوں سے ہونے والی بات چیت کے دوران اس کے ساتھ ہی بیٹھی تھی مگر اتنی کم سن بچی کا یوں اندازہ لگا لینا اسے حیران کر گیا تھا ۔
”میں بچی تھوڑی ہوں ....اتنی بڑی تو ہو گئی ہوں ۔“وہ فخریہ لہجے میں بولی ۔
محمود قہقہہ لگا کر ہنسا ۔”ہاں یہ تو ہے ۔“
”اچھا بتائیں نا ،زمین اسی لیے بیچی ہے نا ؟“
”ہاں اسی لیے بیچی ہے ۔“وہ اس کے ماتھے پر بوسا دیتا ہوا بولا ۔”میری گڑیا کھٹارا سی بائیک پر اسکول جائے اور وہ کائنات اور نمرہ جیسی چڑیلیں کار میں اسکول آئیں ،میں ایسا کب ہونے دوں گا ۔“
”آئی لو یو بھیا !“وہ محمود کے گال چومنے لگی ۔
”ارے بڑا پیار آرہا ہے بھائی پر ۔“رضوان کار کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا ۔
وہ فخر سے بولی ۔”میرے بھیا ہیں ہی پیارے ۔“
”مجھ سے بھی ؟“رضوان نے اسے محمود کی گود سے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھاتے ہوئے پوچھا ۔
”ہاں آپ سے بھی اور امی جان سے بھی اور فیضان بھیا اور افنان سے بھی ۔“
”یہ تو زیادتی ہے جی !....کوئی تو ایسا ہوگا جو تمھارے محمود بھیا سے پیارا ہو ؟“
”کوئی بھی نہیں ہے پاپا!“
وہ دوٹوک لہجے میں بولی ۔رضوان کے ساتھ محمود بھی اس کے معصومیت بھرے انداز پر مسکرا پڑا تھا ۔
تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں
غیرت مند عاشق اردو کہانی - پارٹ 3
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
0 تبصرے