Sublimegate Urdu Font Stories
غیرت مند عاشق - پارٹ 3
”محمود بیٹا!....کھانا لگ گیا ہے ۔“شاہینہ ماسی کی آواز اسے ماضی کی یادوں سے واپس کھینچ لائی ۔
” طبیعت ٹھیک نہیں ہے ماسی !....میں تھوری دیر آرام کروں گا ۔“ اس نے دوبارہ کمبل میں منہ چھپا لیا ۔
شاہینہ ماسی نے پوچھا ۔”یہیں کمرے میں کھانا لے آﺅں بیٹا۔“
”نہیں ،بھوک لگی تو بعد میں کھا لوں گا ۔“
اور وہ ۔”ٹھیک ہے بیٹا!“ کہہ کر اس کی خواب گاہ سے نکل گئی ۔
تھوڑی دیر بعد رضوان اور رخسانہ وہاں پہنچ گئے ۔”کیا ہوا بیٹا !....“رضوان نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا ۔
” چچا جان!.... پریشانی کی کوئی بات نہیں ۔سر میں ذرا سادرد تھا۔“
”دوائی لے لی ۔“رخسانہ نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر ٹمپریچر دیکھا ۔
وہ پھیکی مسکراہٹ سے بولا۔”ایسی بھی کوئی بات نہیں چچی جان !....ہلکا پھلکا درد تو چلتا رہتا ہے ۔“
”ویسے اس ہلکے پھلکے درد کی وجہ نے بھی کھانا نہیں کھایا ہے ۔“رضوان بات کی تہہ تک پہنچتا ہوا بولا۔رضوان کی بات پر رخسانہ بھی کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی ۔
”ابھی تک وہ ناراض ہے ۔“محمود نے لہجے میں مصنوعی حیرانی پیدا کی۔
رضوان ہنسا ۔”یہ بھی خوب کہی ۔“
”آپ نے مجھے لڑائی کی وجہ نہیں بتلائی ؟“رخسانہ اپنے شوہر سے پوچھنے لگی ۔
”پہلے بھی کبھی مناسب وجہ پر تمھاری لاڈلی خفا ہوئی ہے ۔“ رضوان نے منھ بنا کر جواب دیا ۔
”ملازمہ ،جگ گلاس وغیرہ کے ٹوٹنے کا کچھ کہہ رہی تھی ۔“ رخسانہ نے معنی خیز انداز میں پوچھا ۔
”مجھ سے گر گیا تھا چچی جان !“محمود سرعت سے بولا۔
”یقینا تم سچ کہہ رہے ہو ،بہت بے پروا اور نکمے ہو تم ۔“رخسانہ نے اس انداز میں کہا کہ رضوان کی ہنسی چھوٹ گئی ۔
”آپ نے تو ہنسنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔جوان بیٹی کی حرکتوں کے بارے نہ سوچنا ۔ “ رخسانہ جلے کٹے انداز میں بولی ۔
”دیکھو بیگم !....بات کچھ یوں ہے کہ میں نے محمود میاں کو کسی کام کے سلسلے میں دفتر بھیجا اور ہماری بٹیا بھی فوراََ ساتھ جانے کے لیے تیار ہو گئی ۔محمود میاں کا کوئی ضروری کام تھا اس نے ہلکی سی معذرت کی ۔اس کے بعد جگ گلاس کیسے ٹوٹا یہ مجھے کوئی خاص معلوم نہیں ، بس چھناکے کی آواز میں نے سنی تھی ۔اس کے بعد محمود میاں کو باورچی خانے سے نیا جگ گلاس اٹھا کر وہاں رکھتے بھی میں نے ان گناہ گار آنکھوں سے دیکھا ۔یہ ہے کل کہانی ۔اب آپ خود انصاف کریں ۔کیا محمود میاں کو اتنی بڑی زیادتی کرنا روا تھا ۔“رضوان نے دونوں ہاتھ پھیلا کر گویا اس زیادتی کا حجم بھی بتا دیا تھا ۔
”چچ....چچ....چچ ۔اتنی بڑی زیادتی ۔“رخسانہ نے بھی افسوس بھرے انداز میں سر ہلایا۔”اس بات پر تو بھوک ہڑتال بنتی ہے نا لاڈو رانی کی ۔“
”چچا جان !....وہ سوئی ہوئی تھی ۔کیا اسے کسی نے کھانے کے لیے جگایا بھی تھا یا ویسے ہی آپ دونوں ہمارا مذاق اڑائے جا رہے ہیں ۔“
رخسانہ نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔”محترم ! ملازمہ تین بار اسے بلانے گئی تھی ۔اس کا بدتمیزانہ جواب ہم نے تو کھانے کی میز پر بیٹھے ہوئے سن لیا تھا آپ پتا نہیں کن خیالوں میں کھوئے تھے ۔“
”اچھا میں اسے کھلا دیتا ہوں ۔“پریشانی بھرے انداز میں سر ہلاتے ہوئے وہ اٹھ بیٹھا۔
”جی جناب!....اسے کھلانا ہے یا نہیں ،خود کھا لو ۔“رخسانہ چچی شفقت بھرے انداز میں اسے جھڑکتے ہوئے باہر نکل گئی ۔رضوان چچا بھی اسے آنکھ مار کر مسکراتا ہوا باہر نکل گیا تھا۔
دعا کی خواب گاہ تک جانا اسے اتنا مشکل لگ رہا تھا کہ گویا اسے آگ میں گھسنا پڑ رہا ہے ۔اس سے پہلے تو گھر میں اس کی پسندیدہ جگہ دعا کی خواب گاہ ہوتی تھی ۔وہ بہت لاابالی طبیعت کی مالک تھی ۔اس کے سامان کو ترتیب سے رکھنا ۔ملازمہ سے اس کے کپڑے استری کروا کر الماری میں لٹکانا ،شام کو اسے دودھ کا گلاس اپنی نگرانی میں پلانا ،اس کی پڑھائی پر دھیان دینا سردیوں گرمیوں میں اس کے لباس اور کھانے پینے کا خیال رکھنا ۔گویا وہ سارے کام جو رخسانہ چچی کے کرنے کے تھے اس نے اپنے ذمہ لے رکھے تھے ۔اس عمر تک پہنچتے ہوئے اکثر لڑکیاں گھر کے سارے کام سنبھال لیتی ہیں مگر محمود کے بےجا لاڈ نے دعا کو کسی کام کے قابل نہیں چھوڑا تھا ۔
وہ جانتا تھا کہ اس کے نہ منانے کی صورت میں دعا نے رات بھر بھوکا رہنا تھا ۔اور یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا تھا کہ وہ اپنی خفگی ظاہر کر رہی تھی ۔یہ تو اس کا آئے روز کا معمول تھا ۔ذرا سی بات ہوئی اور اس کی ناراضگی شروع ۔چچا چچی اور بھائی تو اس کی اس عادت سے سخت نالاں تھے ۔ بلکہ تمام محمود کا مذاق اڑانے سے بھی باز نہیں آتے تھے ،لیکن اسے کسی کی پروا نہیں تھی ۔اس کی موجودگی میں دعا بھوکی سو جائے یہ کسی طور بھی ممکن نہیں تھا ۔پر آج اسے دعا کے قریب جانے کے خیال ہی سے وحشت ہو رہی تھی ۔اور اتنا تو اسے بھی معلوم تھا کہ دعا نے اس کے علاوہ کسی کی بات نہیں سننا تھی ۔اور جتنی بھی دیر ہوتی جاتی اس کی خفگی نے گہرا ہوتے جانا تھا ۔
طبیعت پر جبر کرتے ہوئے وہ طوعن و کرہن اٹھا اور اس کی خواب گاہ کی طرف بڑھ گیا۔ دھڑکتے دل سے دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوا ۔اس نے اوندھے منھ لیٹ کر تکیے میں منھ گھسیڑا ہوا تھا ۔بچپن ہی سے اس کے خفا ہونے کا یہی انداز تھا ۔بے ترتیب ہوتے لباس نے بدن کے کچھ ایسے زاویے نمایاں کر دیے تھے کہ محمود کو اس کے بدن سے نظر چرانا پڑی۔ نامعلوم آج کیوں وہ اسے ایک مکمل اور نامحرم عورت لگ رہی تھی ۔حالانکہ عورت ذات میں اس کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی ۔اسی وجہ سے تو چچا چچی کے زور دینے کے باوجود اس نے ایک بار رشتہ ٹوٹنے کے بعد دوبارہ شادی کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی ۔اس سے چھوٹا فیضان تو شادی کے بعد باہر ملک سیٹل ہو گیا تھا ۔افنان بھی شادی کرکے ان سے علیحدہ رہ رہا تھا ۔جبکہ اس نے خود چچا چچی کو کہا تھا کہ وہ دعا کی شادی کے بعد ہی شادی کرے گا ۔اور اب اسے لگ رہا تھا کہ دعا کی شادی جتنا جلدی ہو جاتی اتنا ہی بہتر تھا
چادر اٹھا کر اس نے دعا کے نظر بہکاتے وجود پر ڈالی اور بیڈ پر بیٹھ کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔ریشمی زلفوں کے لمس نے ایک دم اس کے دل کی دھڑکنیں تیز کر دی تھیں ۔اس کی سمجھ سے اپنی ناگفتہ بہ حالت باہر تھی ۔ایک دم اس نے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا ۔اور تھوک نگلتے ہوئے منمنایا ۔
”گڑیا !....اٹھو کھانا کھا لو ۔“اس کا یہ انداز بالکل نیا تھا ۔وہ تو پتا نہیں کیسے کیسے پچکارتے ہوئے اس کے لاڈ اٹھاتا ۔اسے کھانا کھانے پر راضی کرتا اور اپنے ناکردہ قصور کی معافیاں مانگا کرتا ۔
”آ گئی میری یاد !....پتا چل گیا کہ اس گھر میں کوئی بھوکا بھی موجود ہے ۔“خلاف توقع تکیے سے سر اٹھا کر وہ فوراََ اٹھ بیٹھی تھی ۔”جائیں آپ آرام کریں ۔یا ان دوستوں کے پاس تشریف لے جائیں جن کی ملاقات مجھ سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔بلکہ اپنے ضروری کام نبٹائیں مجھے بھوک لگے گی تو کھالوں گی ۔“
”گڑیا !....میرے سر میں درد ہے پلیز تنگ نہ کرو اور چلو کھانا کھاﺅ ۔“دعا کے لال بھبکا چہرے سے نظریں چراتے ہوئے اس نے آہستہ سے کہا ۔اس سے پہلے وہ اس کی ایسی بات پر مسکرا دیا کرتا ۔اسے اپنے ساتھ لپٹا کر گدگدی کرتا ،کسی چیز کا لالچ دے کر فوراََ راضی کر لیا کرتا ،مگر آج تو اسے سارے طور طریقے بھول گئے تھے ۔جانے ایک دم دعا میں کیسی تبدیلی آگئی تھی ۔ لیکن یہ تبدیلی دعا میں ایک دم تو نہیں آ سکتی تھی ،پھر اسے آج ایک دم کیسے محسوس ہو گئی تھی ۔ پچھلے ہی ہفتے تو اس کے خفا ہونے پر اس کے پیٹ میں مسلسل گدگدی کرتے ہوئے وہ اسے مجبور کر کے کھانے کی میز پر لے آیا تھا ۔شاید وہ آج سہ پہر ہی کو ایک دم چھوٹی بچی سے جوان لڑکی بن گئی تھی۔
”سر میں درد ہے تو آرام کریں ،کس نے منت کر کے بلایا ہے ۔“دعا کا لہجہ یونہی بدتمیزانہ ہوا کرتا تھا ۔وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ محمود کی نظر میں اس کی کتنی اہمیت ہے ۔گو یہ بدتمیزی اس کے لہجے تک ہی محدود تھی اور اتنا تو سب کو معلوم تھا کہ وہ بھی اسے دل گہرائیوں سے چاہتی ہے۔ کیونکہ دوتین بار محمود کی بیماری کی حالت میں وہ رات بھر جاگ کر اس کا سر دبانے کے ساتھ اسے دوائیاں وغیرہ دیتی رہی تھی ۔محمود اور ماں باپ کی لاکھ منتوں کے باوجود وہ سونے پر تیار نہیں ہوئی تھی ۔بلکہ اس سے اگلے دن اس نے اسکول سے بھی چھٹی کر لی تھی ۔
”اچھا اٹھو ضد نہیں کرتے۔“ دلی جذبات پر قابو پاتے ہوئے وہ جیسے کراہنے کے انداز میں بولا ۔
”بھیا !....کیا بات ہے ،آپ کی طبیعت کچھ زیادہ ہی خراب لگ رہی ہے ۔“اس کا معمول سے ہٹا ہوا لہجہ اور انداز ایسا نہیں تھا کہ دعا کو پتا نہ چلتا ۔اپنی خفگی پرے پھینکتے ہوئے وہ ایک دم اس کے قریب ہوئی اور اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اس کا بخار دیکھنے لگی ۔اس حالت میں وہ قریباََ اس سے چمٹ گئی تھی ۔اور کوئی پہلی بار اس کے اتنے نزدیک نہیں ہوئی تھی کہ اسے کچھ عجیب لگتا ۔لیکن محمود پر گویا قیامت گزر گئی ،جس بدن کو دیکھنے سے وہ نگاہیں چرا رہا تھا اس کے لمس کی یقینا اس میں تاب نہیں تھی ۔
”مم ....میں ٹھیک ہوں ۔“وہ گھبر کر کھڑا ہو گیا تھا ۔
”آپ بالکل بھی ٹھیک نہیں ہیں ۔“اسے ہاتھ سے کھینچ کر دعا نے بستر پر بٹھایا اور خود کھڑی ہو گئی ۔”میں کھانا لے کے آتی ہوں ۔اور اپنے ننھے سے بھیا کو اپنے ہاتھوں سے کھلاتی ہوں ۔“مزاحیہ انداز میں کہتے ہوئے وہ خواب گاہ سے باہر نکل گئی ۔
محمود جانتا تھا کہ اگر وہ اپنی خواب گاہ میں چلا گیا تو اس نے لازماََ وہاں پہنچ جانا تھا ۔ بہ حالت مجبوری وہ اس کی خواب گاہ سے نہ نکلا ۔البتہ اس کے بیڈ سے اٹھ کر صوفے پر جا کر بیٹھ گیا تھا ۔اس کی نظر سامنے والی دیوار پر ٹنگی دعا کی تصویروں میں الجھ گئی ۔ہر عیسوی سال کے پہلے ہفتے کی تصویر کو اس نے بڑا کرا کر لٹکایا ہوا تھا ۔اوپر کی رو میں دس تصاویر اور دوسری رو میں آٹھ تصاویر یہ اعلان کر رہی تھیں کہ وہ سترہ سال کی ہو کر اٹھارویں سال میں داخل ہو چکی تھی ۔ہر ہفتے اتوار کے دن کھینچی گئی تصاویر کے سالانہ البم محمود کے کمرے میں محفوظ تھے ۔اس کے لیپ ٹاپ کی ہارڈ ڈسک کا زیادہ ترحصہ دعا کی وڈیوز اور تصاویر سے بھرا ہوا تھا ۔یہی حال اس کے موبائل فون کا تھا۔ اس زندگی کے ہر گوشے میں دعا ہی چھائی ہوئی نظر آتی تھی۔لیکن اس کے دل میں آج سے پہلے نہ تو دعا کے بارے کوئی کھوٹ تھا اور نہ وہ اسے بہن کے علاوہ کچھ نظر آتی تھی ۔بلکہ وہ اس کے لیے بہن سے کچھ بڑھ کر ہی حیثیت رکھتی تھی ۔ نو دس سال کی عمر تک تو وہ اسے خود نہلایا کرتا تھا۔
دعا کی آمد نے اسے سوچوں کی دلدل سے باہر نکالا۔
”بھیا !....آپ نے بتایا ہی نہیں کہ آج بریانی بنی ہے ۔“چاولوں کی ٹرے اس کے سامنے رکھی ٹیبل پر رکھ کر وہ اس کے ساتھ ہی جڑ کر بیٹھ گئی ۔ان کی ہمیشہ سے یہی عادت تھی کہ جب وہ کمرے میں چاول کھاتے تو ٹرے میں کھاتے تھے ۔علیحدہ علیحدہ پلیٹ میں چاول ڈالنے کی زحمت انھوں نے کبھی نہیں کی تھی ۔
غیر محسوس انداز میں اس سے فاصلہ پیدا کرتے ہوئے وہ چاول کھانے لگا ۔اس نے دعا کی بات کا جواب نہیں دیا تھا ۔
دو تین چمچ زبردستی چبا کر وہ کھڑا ہو گیا ۔”ٹھیک ہے گڑیا !.... تم کھاﺅ میں ذرا آرام کرلوں ۔“
”یہ بھلا کیا بات ہوئی بھیا !“دعا نے منھ بسورا ۔
”یہ کوئی بات بھی نہیں ہے ۔“اس کے سر پر پیار بھری تھپکی دیتے ہوئے محمود نے زبردستی کی مسکراہٹ ہونٹوں پر بکھیری ۔”میں دوائی لے کے لیٹ رہا ہوں تم بھی کھانا کھا کر آرام کرو۔“
وہ جلدی سے بولی ۔”نہیں میں کھانا کھا کرآپ کے لیے چاٸے بناتی ہوں ۔“
محمود نے بہانہ گھڑا ۔”چاے پی لی تو نیند نہیں آئے گی اور مجھے سخت نیند آ رہی ہے ۔“
”اچھا میں تھوڑی دیر سر دبانے آﺅں گی ،جب آپ کو نیند آ جائے گی تب واپس آ جاﺅں گی ۔“دعا معمول کے مطابق بات کر رہی تھی ،جبکہ محمود کو اپنی وحشت چھپانے کے لیے عجیب و غریب بہانے گھڑنے پڑ رہے تھے ۔
”گڑیا !....جب تم سر دباﺅ گی تو مجھے نیند کیسے آئے گی ؟“اس نے پھیکی مسکراہٹ سے گویا دعا کی بے وقوفی اجاگر کی تھی ۔
دعا نے منھ بنایا ۔”پہلے تو آجایا کرتی تھی ۔“
”جی نہیں پہلے میں جھوٹ بولا کرتا تھا ۔“اپنے لہجے میں زبردستی کی شوخی پیدا کرتا وہ اس کے کمرے سے نکل آیا اور دعا عجیب انداز میں اس کی پشت گھورتی رہ گئی ۔وہ کسی گہری سوچ میں گم ہو گئی تھی ۔محمود کے جانے کے بعد وہ ایک چمچ بھی منھ میں نہیں ڈال سکی تھی ۔
کمرے میں گھستے ہی اس نے دروازہ اندر سے کنڈی کر دیا ۔ایسا وہ زندگی میں پہلی بار کر رہا تھا ۔ دعا سے کوئی بعید نہیں تھا کہ اس کے منع کرنے کے باوجود اس کا سر دبانے بھاگ آتی وہ حتی الوسع کوشش کر رہا تھا کہ اس سے دور دور رہے ۔
بستر پر لیٹ کر اس نے چادر اپنے اوپر تان لی لیکن نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔اس کی سمجھ میں اپنی قابو سے باہر ہوتی حالت نہیں آ رہی تھی ۔آخر ایسی کون سی بات ہوئی تھی جو ایک دم دعا کے بارے اس کے خیالات تبدیل ہو گئے تھے ۔دعا کے ساتھ گزارے ہوئے ماہ و سال اس کی یاداشت میں آج بھی اس طرح محفوظ تھے جیسے کل ہی کی بات ہو ۔کار والے واقعے پر رخسانہ چچی اتنی برہم ہو گئی تھیں کہ اسے گھر سے نکالنے پر تیار ہو گئی تھیں ۔اور پھر دعا ہی تھی کہ جس کی وجہ سے اس کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوا تھا ۔
عمران چچا نے اگلے ہی دن آٹھ لاکھ روپے لا کر اس کے حوالے کر دیے تھے ۔کچھ پیسے ان کے پاس پہلے سے موجود تھے کچھ انھوں نے چند مویشی اور اجناس وغیرہ بیچ کر پیدا کر لیے تھے ۔
چچا عمران کے رخصت ہوتے ہی اس نے شور روم کا رخ کیا تھا ۔سرخ رنگ کی سوزکی مہران اس نے دعا کی خواہش کی وجہ سے پسند کی تھی کہ اس نے محمود کو سرخ رنگ ہی کی کار لینے کا کہا تھا ۔کار کو دیکھ کر دعا خوشی سے دیوانی ہو گئی تھی ۔اسے ہنستے اور قلقاریاں مارتے دیکھ کر محمود خوشی سے جھوم اٹھا تھا ۔لیکن جونھی کار کے بارے رخسانہ چچی کو معلوم ہوا وہ ہتھے سے اکھڑ گئی تھی ۔
”کیا مطلب زمین اور گھر اپنے چاچوں کے نام کر دیا ہے ۔“رخسانہ نے ہاتھ میں پکڑا نوالا منھ کی طرف لے جانے کے بجائے واپس پلیٹ میں رکھ دیا تھا ۔
اس نے دھیمے لہجے میں جوا ب دیا ۔”چچی جان !....میں نے زمین کو کیا کرنا تھا اور پھر گاﺅں میں جا کر میں نے تھوڑی رہنا ہے ۔“
”تو کہاں رہو گے ،کیا ساری زندگی پرائے دروازے پر پڑے رہو گے؟“ رخسانہ چچی نے زہریلے لہجے میں حقیقت اگلی ۔”یہ گھر تو فیضان اور افنان کا ہے ۔“
محمود نے خاموشی سے سر جھکا لیا تھا ۔اس سے کوئی جواب ہی نہیں بن پڑا تھا ۔
”اس طرح نہیں کہتے نیک بخت !“رضوان نے دبے لہجے میں محمود کی طرف داری کی ۔
”تو کس طرح کہوں ؟اور آپ تو اس کی شادی کروانے کے چکر میں بھی ہیں ۔کیا اس کی بریرہ بی بی بھی یہیں آ کر ڈیرے جمائے گی ۔یہ یتیم خانہ یا بےگھروں کی پناہ گاہ نہیں میرا گھر ہے ۔“
”میں کرائے کا کوئی مکان تلاش کر لوں گا چچی جان !“
”جی ہاں ،بلکہ تمھیں یہ کام بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا ۔ہم سے جتنا ہو سکا تمھارے لیے کیا، اب تم اپنے پاﺅں پر کھڑے ہو گئے ہو ۔بہتر یہی ہے کہ اپنے لیے کرائے کا کوئی گھر تلاش کر لو تاکہ تمھاری خالہ کے پاس جا کر میں بریرہ کے رشتے کی بات کر سکوں ۔یا پھر انھی سے کہو کہ تمھیں گھر بنا کر دیں ۔تمھاری زمین پر بھی تو انہی نے قبضہ کر لیا ہے نا ۔“
”قبضہ کہاں کیا ہے اللہ کی بندی !“رضوان نے دوبارہ مداخلت کی ۔
”آپ چپ رہیں جی !....جب یہ چھوٹا تھا تو آپ نے اپنی من مانی کی ہے ۔اسے پڑھایا لکھایا ہے اچھی نوکری تلاش کر کے دی ہے ۔اب اس کا یہاں کیا کام؟“رخسانہ چچی کو اس کا چچوں کو زمین دینے کا فیصلہ بالکل ہی پسند نہیں آیا تھا ۔
”ٹھیک ہے چچی جان !....مجھے کل تک کی مہلت دیں ۔میں کرائے کا مکان تلاش کر لیتا ہوں ۔“
چچی کی باتیں سننے کے بعد اس سے کھانے کا نوالہ نہیں لیا گیا تھا ۔وہ اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔دعا بھی نم آنکھوں سے اسے گھور رہی تھی۔اس کے میز سے اٹھتے ہی وہ بھی اس کے پیچھے بھاگ پڑی ۔
”تم کہاں جا رہی ہو ؟....آرام سے بیٹھ کر کھانا کھاﺅ۔“رخسانہ نے غصے بھرے لہجے میں دعا کو آواز دی لیکن وہ سنی ان سنی کرتے ہوئے محمود کے کمرے میں گھس گئی ۔
رضوان بھی کھانا درمیان میں چھوڑ کر اپنی خواب گاہ کی طرف بڑھ گیا ۔رخسانہ کے ساتھ دونوں بیٹے ہی بیٹھے رہ گئے تھے ۔
”میں آپ کو کہیں نہیں جانے دوں گی ۔“وہ اپنے بیڈ پر بمشکل بیٹھا ہی تھا کہ دعا اس کے پیچھے کمرے میں پہنچ گئی تھی۔
”گڑیا !....یہ میرا گھر تو نہیں ہے نا ۔اور تم فکر نہ کرو میں روزانہ اپنی گڑیا کو کار پر سکول چھوڑنے اور واپس لینے آیا کروں گا ۔اب تو میرے پاس کار موجود ہے نا ۔میں دیکھتا ہوں کہ کائنات اور سدرہ جیسی چڑیلیں کیسے میری گڑیا کا مذاق اڑاتی ہیں ۔“
وہ بظاہر تو دعا کو تسلی دے رہا تھا لیکن اس کے اپنے دل کی جو حالت تھی یہ وہ خود جانتا تھا یا اس کا خدا ۔اسے غم تھا تو صرف اس بات کا کہ اس کے وہاں سے چلے جانے کی صورت میں دعا اس سے دور ہو جاتی ۔ لیکن اس کے ساتھ رخسانہ چچی نے جس طرح اس کی توہین و تذلیل کی تھی وہ بھی بھلائے جانے کے قابل نہیں تھی ۔
”نہیں مجھے کار نہیں چاہیے ۔“وہ روتے ہوئے اس سے لپٹ گئی ۔” آپ بس کار واپس کر دیں میں بائیک پر ہی چلی جاﺅں گی ۔لیکن آپ گھر چھوڑ کر نہ جائیں ۔“
”میں گھر چھوڑ کر نہیں جا رہا ہوں گڑیا !....میں روزانہ تمھیں ملنے آﺅں گا ۔“
”میں خود پاپا سے بات کرتی ہوں ۔“دعا نے اس کی گود سے اٹھنا چاہا ۔
”نہیں ۔“محمود نے اسے پکڑ کر دوبارہ اپنے گود میں بٹھا لیا ۔” یوں بڑوں کو تنگ نہیں کرتے گڑیا !....اور چچی جان نے صحیح کہا ہے کہ مجھے چلے جانا چاہیے ۔کب تک پرائے گھر میں پڑا رہوں گا ۔“آخری الفاظ کہتے ہوئے اس کی آواز بھرا گئی تھی ۔
”مجھے پتا ہے آپ جان بوجھ کر یہاں سے جانا چاہتے ہیں ۔آپ بھی مجھ سے تنگ آ گئے ہیں ۔“وہ مچل کر اس کی گود سے نکلی اور اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی ۔محمود جانتا تھا کہ اس نے کھانا نہیں کھایا ۔اور اب جب تک وہ محمود سے یہ نہ منوا لیتی کہ وہ اس گھر سے کہیں نہیں جائے گا اس نے کھانا نہیں کھانا تھا ۔لیکن محمود کی بدقسمتی کہ یہ بات اس کے بس سے باہر تھی ۔دل پر بھاری بوجھ لیے وہ لیٹ گیا ۔
تھوڑی دیر بعد اسے دعا کے کمرے سے اس کے چیخنے کی آواز سنائی دی ۔ غور کرنے پر اسے رخسانہ چچی کی آواز بھی سنائی دے گئی جو اسے زبردستی کھانا کھلانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ وہ اٹھ کر اپنے کمرے کے دروازے پر پہنچا اسی لمحے اس کے کانوں میں چٹاخ کی آواز گونجی ۔یقینا دعا کو ماں نے تھپڑ مارا تھا ۔اس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا تھا ۔اس سے صبر نہ ہوا اور وہ بھاگ کر وہاں پہنچا ۔دعا زور زور سے رونے لگ گئی تھی ۔
”چچی جان !....یوں تو نہ کریں نا۔“اس کی آواز میں غم، غصہ ، بے بسی اور نہ جانے کیا کیا شامل تھا ۔اس کی آنکھوں سے بےساختہ آنسو بہنے لگے تھے ۔روتی ہوئی دعا کو اٹھا کر اس نے اپنی چھاتی سے لگا لیا تھا ۔
”نہیں کھاﺅں گی کھانا ....نہیں کھاﺅں گی ....نہیں نہیں نہیں....“ دعا رورو کر چیختے ہوئے مسلسل کہے جا رہی تھی ۔
”ٹھیک ہے نہ کھاﺅ میری جان !“وہ اسے چھاتی سے لگائے باہر جانے لگا ۔
”بھاڑ میں جاﺅ ....نہ کھاﺅ ۔“رخسانہ غصے سے بڑبڑاتی اپنی خواب گاہ کی طرف بڑھ گئی ۔رضوان ،فیضان اور افنان بھی اپنے کمروں سے نکل کر باہر آ گئے تھے ۔رضوان بیوی سے دعا کے رونے کی وجہ دریافت کرنے لگا ۔جبکہ محمود اسے لے کر گھر سے باہر نکل گیا ۔
”کچھ بھی نہیں ۔ہلکا سا ڈانٹا ہے اور اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا ۔اس کا بھیا بھی یوں رو رہا ہے گویا میں نے اسے گولی ہی تو مار دی ہے ۔“افسوس بھرے انداز میں سر ہلاتی ہوئی وہ اپنی خواب گاہ میں گھس گئی ۔
”رخسانہ بیگم !....تمھیں محمود سے یوں گفتگو نہیں کرنا چاہیے تھی ۔“رضوان افسوس بھرے لہجے میں بولا۔
”ٹھیک ہی تو کہا ہے نا ....یہ بھلا کیا بات ہوئی ایک کار خریدنے کے لیے اپنی زمین کوڑیوں کے مول بیچ دی ،کہ اس کی لاڈلی کی تشریف ہی بائیک کی گدی پر نہیں ٹکتی ۔“رخسانہ نے جل بھن کر جوا ب دیا ۔”میں نے بھی جان بوجھ کر ایسی باتیں کی ہیں کم از کم بھیا کی لاڈلی کو بھی احساس ہوگا کہ ہمیشہ ضد کرنا اچھا نہیں ہوتا ۔“
”یعنی وہ سب باتیں یونہی دعا کو تنگ کرنے کے لیے کی تھیں ۔“ رضوان نے حیرانی سے پوچھا ۔
”نہیں ،اس کے بھیا صاحب کو بھی تو احساس دلانا تھا کہ بچوں کی ہر ضد کو پورا نہیں کیا جاتا ۔یہ تو نہیں کہ اس نے جو منھ سے نکالا محترم اسے پورا کرنے کے لیے بھاگ پڑا ۔“
”نیک بخت وہ اسے بہت زیادہ پیاری ہے ۔کوئی سگا بہن بھائی تو ہے نہیں ،اپنی ساری محبتیں اس نے دعا بیٹی پر نچھاور کر دی ہیں اور ا ب وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہے ۔“
رخسانہ نے منھ بنایا۔”تو کیا وہ ہمیں نہیں ہے پیاری ۔ابھی اس کے رونے کی وجہ سے میرے دل کی کیا حالت ہوئی ہے یہ میں بتا نہیں سکتی لیکن اس کی ضد کی وجہ سے مجھے غصہ بھی تو آیا ہوا تھا۔ گھر میں ایک کار موجود ہے ان پیسوں سے شادی کے لیے ضروری خریداری بھی تو کی جا سکتی تھی ۔آپ کی محترم بھابیاں تو یہ سمجھتی ہیں نا کہ میں نے محمود صاحب کی ساری تنخواہ سنبھالی ہوئی ہے ۔“
”اس نے تو ساری تنخواہ میرے حوالے ہی کرنا چاہی تھی میں نے خود منع کر دیا ۔اب بھی گھر کا سارا خرچ ،اسی کی تنخواہ سے چل رہا ہے ۔میری تنخواہ تو سیدھے سیدھے اکاﺅنٹ میں چلی جاتی ہے ۔“
”اچھا اچھا ٹھیک ہے زیادہ طرفداری کی ضرورت نہیں ،جانتی ہوں سب ۔“ رخسانہ نے بے زاری سے کہا ۔
”تو اب اس کے رشتے کی بابت کیا سوچا ہے؟“رضوان نے موضوع تبدیل کیا۔کیونکہ وہ جانتا تھا کہ رخسانہ کو محمود کی تعریف پسند نہیں تھی ۔
”آنے والی اتوار کو چلیں گے ۔یوں بھی اس کی بیوی نے اسی کے کمرے ہی میں رہنا ہے ۔تو اس میں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا ۔جب تک ہم دونوں موجود ہیں وہ یہیں رہ سکتا ہے ۔دعا کی شادی کے بعد اپنے گھر میں شفٹ ہو جائے گا ۔بلکہ ابھی سے اس کے کانوں میں ڈال لو کہ بچت وغیرہ کر کے کوئی پلاٹ وغیرہ خرید لے تاکہ کل کلاں کو آسانی سے گھر بنا سکے، ساری تنخواہ اپنی لاڈلی کے ناز نخروں پر نہ لٹاتا رہے ۔“
”صحیح کہا ۔“اس کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے رضوان نے اثبات میں سر ہلایا۔ یوں بھی رخسانہ کی بات رد کرنے کے قابل نہیں تھی ۔
محمود روتی مچلتی دعا کو اپنی کار میں بٹھا کر گھر سے باہر لے آیا ۔
”اچھا اب بس کرو نا، اچھے بچے روتے نہیں ہیں ۔“روڈ پر چڑھتے ہی اس نے دعا کو پچکارا ۔
”آپ کہیں نہیں جائیں گے ٹھیک ہے نا ۔“اس نے منھ بسورتے ہوئے کہا ۔
”اچھا ایسا ہے کہ میں ایک چھوٹا سا خوب صورت سا گھرخرید لیتا ہوں اور اس میں ،میں تم اور تمھاری بریرہ آپی رہیں گے ، بریرہ آپی تمھیں اچھی لگتی ہے نا۔“
”وہ کیوں ہمارے ساتھ رہے گی ۔“رونا بھلا کر وہ محمود کی طرف متوجہ ہو گئی ۔
”میں اس سے شادی کروں گا نا ؟....جیسے تمھاری امی جان ، تمھارے ابو جان کی بیوی ہے نا تو ایسے ہی تمھاری بریرہ آپی میری بیوی بنے گی ۔“
”نہیں،کوئی ضرورت نہیں....تمھاری بیوی میں خود بنوں گی ۔“اس نے معصومیت بھرے لہجے میں کہا ۔اور محمود قہقہہ لگا کر ہنس پڑا ۔
”نہیں نا ،میں تو تمھارا بھیا ہوں اور بہنوں سے شادی نہیں ہو سکتی ۔“
اس نے اپنے ننھے منے ذہن پر زور دے کر کچھ سوچا اور بولی ۔” اچھا ٹھیک ہے لیکن بریرہ آپی سے بھی شادی نہ کرو ۔بس نئے گھر میں ہم دونوں رہیں گے اور وہاں امی جان کو بالکل نہیں آنے دیں گے ۔“
”چلو یہ ٹھیک ہے ۔“محمود نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے ایک ہوٹل کی پارکنگ میں کار موڑ دی ۔
”اب بتاﺅ میری گڑیا کیا کھائے گی ۔“
”نہیں مجھے بھوک نہیں ہے ۔“اس نے نفی میں سر ہلایا۔
”کتنی بری بات ۔“محمود نے خفگی بھرے لہجے میں کہا ۔”کائنات اور سدرہ جیسے گندی بچیاں بڑوں کا کہنا نہیں مانتیں ۔میری گڑیا تو بڑوں کا کہنا مانتی ہے ۔“
”امی کا کہنا بالکل بھی نہیں مانوں گی ۔“دعا نے منھ بسورا ۔
”یہ تو اور بھی بری بات ہے ۔تمھیں بھی لوگ کائنات کی طرح گندی بچی سمجھیں گے۔“محمود ہمیشہ اس کی کلاس فیلو کائنات کی مثال دے کر اسے راہ راست پر لانے کی کوشش کرتا تھا۔اور کائنات کی طرح نہ بننے کے خیال میں وہ کافی باتیں مان جایا کرتی تھی ۔
”مجھے لوگوں کی پروا نہیں ہے ۔“بے پروائی سے کہتے ہوئے وہ کار سے اتر گئی ۔اس کے انداز پر محمود کو ہنسی آ گئی تھی ۔
دعا کی وجہ سے اس نے خود بھی تھوڑا سا کھانا زہر مار کیا ۔کھانے کے بعد وہ اسے آئس کریم کھلانے لے گیا وہاں سے اس نے ایک شاپنگ پلازہ کا رخ کیا جو رات گئے تک کھلا رہتا تھا ۔تبدیل ہوتے موسم کو مدنظر رکھ کر اس نے دعا کے لیے سرخ رنگ کا ایک خوب صورت کوٹ اور اسی رنگ کی گرم ٹوپی خریدی ۔حالانکہ اس کی الماری ایسے سامان سے بھری پڑی تھی پھر بھی محمود اس کے لیے کچھ نہ کچھ خریدتا رہتاتھا ۔گھنٹا ڈیڑھ گھر سے باہر رہنے کے بعد وہ اسے واپس لے آیا۔
”اب میری گڑیا سوئے گی ۔“ بیڈ پر لٹاتے ہوئے محمود نے اس کے ماتھے پر بوسا دیا اور شب بخیر کہتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔
رخسانہ انھی کی منتظر تھی ۔جب وہ دعا کی خواب گاہ کے قریب پہنچی اس وقت محمود وہاں سے نکل رہا تھا ۔
” اتنا خوبصورت کوٹ کس کا ہے ۔“ٹیبل پر رکھے نئے کوٹ کو اٹھا کر رخسانہ نے مصنوعی حیرانی سے پوچھا ۔
”میرے کوٹ کو ہاتھ نہ لگائیں ....اور میرے کمرے میں بھی نہ آیا کریں ۔“
”ارے میری ننھی پری کیوں خفا ہے مجھ سے ۔“اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے رخسانہ اسے چومنے لگی ۔
”محمود بھائی نیا گھر لے رہے ہیں اور وہاں ہم آپ کو بالکل بھی نہیں آنے دیں گے ، نئے گھر میں میں اور محمود بھیا اکیلے رہیں گے ۔اور وہ شادی بھی نہیں کریں گے ۔“
رخسانہ رونی صورت بنا کر بولی ۔”یہ تو زیادتی ہے نا مما کے ساتھ ۔آپ دونوں بھی تو اتنا عرصہ میرے گھر میں رہے ہو۔“
”آپ کے گھر تو نہیں رہے ۔ہم تو اپنے اپنے کمرے میں رہتے تھے ۔“ دعا جھگڑے کے لیے تیار تھی ۔
”اچھا صلح نہیں ہو سکتی ۔“
”بالکل بھی نہیں ۔“دعا نے نفی میں سر ہلایا۔
”اگر میں تمھارے محمود بھیا کو یہاں سے نہ نکالوں تو کیا پھر بھی صلح نہیں کرو گی ۔“
وہ ایک دم اٹھ کر اس سے لپٹتے ہوئے اس کے گال چومنے لگی ۔
”چاپلوس کہیں کی ۔“رخسانہ نے ہنستے ہوئے اسے اپنی چھاتی سے لگا لیا ۔
”مما!....میں بھیا کو کہوں گی وہ کار بھی واپس کر دیں گے بس آپ انھیں گھر سے نہ نکالیں ۔“
وہ ممتا بھرے لہجے میں بولی ۔”اچھا ٹھیک ہے اب سو جاﺅ میں تمھارے بھیا کو گھر سے نہیں نکالوں گی ۔اور اسے کار واپس کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔“
”ٹھہرو میں بھیا کو بتا دوں یہ نہ ہو وہ نیا گھر خرید لیں ۔“بیڈ سے چھلانگ لگا کر وہ محمود کے کمرے کی طرف بھاگ گئی ۔رخسانہ بھی ہنستے ہوئے اس کے پیچھے چل پڑی تھی ۔
”بھیا!.... بھیا۔“وہ بھاگتے ہوئے اس کے کمرے میں داخل ہوئی ۔وہ سونے کے لیے لیٹ گیا تھا ۔اسے جوش بھرے انداز میں اندر داخل ہوتا دیکھ کر اٹھ بیٹھا ۔
اس کے پاس جاتے ہی وہ اس سے لپٹ گئی ۔”بھیا !....نیا گھر نہ خریدنا ۔مما نے بتا دیا ہے کہ وہ آپ کو یہاں سے نہیں نکالیں گی ۔“ خوشی سے اس سے صحیح بات نہیں ہو رہی تھی ۔
”اچھا نہیں لیتا ۔اب تم جاﺅ اور سو جاﺅ۔“اسے پیار کرتے ہوئے وہ پھیکے انداز میں مسکرایا ۔وہ معصوم نہیں جانتی تھی کہ اس گھر میں رکنا محمود کے لیے کتنا مشکل تھا ۔اس کی انا اور خود داری پر جو تازیانے رخسانہ چچی نے چلائے تھے اس کے بعد تو وہ بے روزگار بھی ہوتا تو وہاں نہ ٹکتا۔ اب تو وہ ٹھیک ٹھاک نوکری کررہا تھا ۔
وہ جس طرح بھاگتے ہوئے وہاں آئی تھی اسی طرح تیز رفتاری سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی ۔اس کا مسئلہ حل ہو گیا تھا ۔
رخسانہ چچی کو اپنے کمرے میں داخل ہوتا دیکھ کر وہ کھڑا ہوگیا ۔
”بیٹھو ۔“اسے کہہ کر وہ بھی صوفے پر بیٹھ گئی ۔
محمود خاموشی سے بیٹھ گیا ۔”دیکھو محمود !....یقینا تمھیں میری آج کی گفتگو بہت بری لگی ہو گی ۔اور لگنا بھی چاہیے کہ میں نے الفاظ ہی اتنے تلخ استعمال کیے تھے ۔لیکن یاد رکھو کہ میں اس پر جتنی بھی معذرت کر لوں اور تمھیں ان الفاظ نے کتنی ہی اذیت کیوں نہ پہنچائی ہو ۔اس بات سے انکار نہ تم کر سکتے ہو اور نہ کوئی دوسرا تیسرا کہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے ۔گھر کا سارا انتظام تقریباََ تمھاری تنخواہ سے چل رہا ہے ۔اس کے علاوہ بھی تم نے اس گھر کے لیے بہت کچھ کیا ہے ۔ لیکن کیا اس وجہ سے فیضان اور افنان تمھیں اپنے گھر میں حصہ دینے پر تیار ہو جائیں گے ؟....
یقینا تمھارا جواب نہیں میں ہوگا ۔اور میں بھی تمھاری توجہ اسی طرف مبذول کرانا چاہتی تھی ۔گو میرے طریقے سے تمھیں اختلاف سہی پر میری نیت غلط نہیں ہے ۔تم خود سوچو اپنی زمین اور گھر کا حصہ اپنے دونوں چاچوں کے حوالے کرنا بے وقوفی نہیں تو اور کیا ہے ۔تم یتیم ہو انھیں چاہیے تمھاری مدد کریں نہ یہ کہ تمھاری ہی زمین کو اونے پونے داموں ہتھیانے کی کوشش کریں ۔“
وہ ایک لمحہ سانس لینے کو رکی اور پھر اس کی بات جاری رہی ۔”اور پھر تم نے دعا کے لیے کار خریدنے کے لیے اپنی ساری زمین کوڑیوں کے مول فروخت کر دی ۔وہ تو بچی ہے تم تو بچے نہیں ہو ۔اسے تم ویسے بھی ورغلا سکتے تھے ۔تمھاری کسی بھی بات سے وہ انکار نہ کرتی ۔اب بھی تمھارے جانے کا سن کر وہ کار واپس کرنے پر رضامند ہو گئی ہے کہ نہیں ۔کیا اس کی ہر خواہش پوری کرنا تمھارے لیے فرض ہے۔میں جانتی ہوں وہ تمھیں بہت پیاری ہے ۔تو کیا ہمیں نہیں ہے پیاری ۔وہ میری بیٹی ہے، میں اس کی بہتری کے لیے سختی روا رکھتی ہوں ورنہ میرا بھی دل کرتا ہے اس کی کسی بات کو رد نہ کروں ۔کل کو اس نے پرائے گھر جانا ہے ۔وہاں وہ اپنا محمود بھیا کہاں سے لائے گی؟ یقینا چند دن بھی سسرال میں نہیں بتا پائے گی ۔اور اس کا رشتا ٹوٹنے کا دکھ یقینا ہم سے کئی گنا زیادہ تمھیں ہوگا۔بیٹا !....یاد رکھنا مبالغہ کسی بھی چیز میں اچھا نہیں ہوتا ۔نہ محبت و شفقت میں اور نہ نفرت و دشمنی میں ۔“
رخسانہ نے زندگی میں شاید پہلی بار اسے بیٹا کہہ کر پکارا تھا ۔محمود نے عجیب سی نظروں سے اس کی جانب دیکھا لیکن منھ سے کچھ نہیں کہا تھا ۔”اور اب آرام کرو میں اس اتوار کو جاﺅں گی تمھاری خالہ کے پاس ۔فکر مت کرو تمھاری بریرہ کے لیے بھی اس گھر میں گنجائش موجود ہے ۔ مجھے بس وقتی طور پر غصہ آ گیا تھا کہ تمھیں اس طرح جھاڑ دیا ۔باقی یہ تو تمھاری گڑیا نے بتا ہی دیا ہوگا کہ نیا گھر خریدنے کی ضرورت نہیں ہے۔اسی وجہ سے اس بےچاری کو بھاگ کر تمھیں یہ بتانے آنا پڑا ۔اور تمھاری ہی وجہ سے اس نے مجھے اتنی جلدی معاف بھی کردیا ۔“ آخری فقرے رخسانہ نے ہنستے ہوئے کہے تھے ۔
محمود کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ کھلنے لگی تھی ۔رخسانہ کی باتوں سے ذرا سا بھی اختلاف نہ رکھنے کے باوجود وہ وہاں نہ ٹھہرتا مگر کیا کرتا کہ دعا کے بغیر رہنا بھی تو اسے کاردار لگ رہا تھا ۔
چچی کے جانے کے بعد اس نے نائیٹ بلب آن کیا اور آنکھیں بند کرلیں ۔صبح پہلے دن دعا نے کار میں اسکول جانا تھا ۔اسے یقین تھا کہ وہ اپنی کلاس فیلوز کے سامنے خوب باتیں بنائے گی ۔اس کے ہونٹوں پر ہنسی مچلنے لگی ۔دعا کو ہر جگہ سر بلند کرنا ہی تو اسے مقصد زندگی نظر آتا تھا ۔
اچانک اس کے دماغ میں چچی کی رشتا مانگنے والی بات آئی اور بریرہ کی دلکش صورت اس کی آنکھوں کے سامنے پھرنے لگی ۔تپائی پر پڑا موبائل فون اٹھا کر اس نے تصویروں کا فولڈر نکالا اس میں ایک جگہ بریرہ نے دعا کو گود میں اٹھا کر تصویر کھنچوائی تھی دعا کی وجہ سے اب تک وہ تصویر اس کے موبائل میں موجود تھی ۔تصویر کھول کر وہ بریرہ کا ہنستا مسکراتا چہرہ دیکھنے لگا ۔وہ واقعی اس قابل تھی کہ اسے شریک حیات بنایا جاتا ۔یوں بھی وہ اس کی چچا زاد کے ساتھ خالہ زاد بھی تھی ۔اور شکیلہ خالہ نے بغیر کسی تردد کے اس رشتے کے لیے ہاں کر دینا تھی ۔
وہ انھی خیالات میں کھویا تھا کہ دروزاہ ہلکے سے بجا۔اس نے حیرانی سے دروازے کی جانب دیکھا ۔اسی وقت اس کے کانوں میں فیضان کی مدہم سی آواز پڑی ۔
”محمود بھائی !....میں اندر آ سکتا ہوں ؟“
”آ جاﺅ دروازہ کھلا ہے ۔“حیرانی بھرے انداز میں کہتے ہوئے اس نے اپنا موبائل فون تکیے کے نیچے رکھا اور بیڈ سائیڈ کے کونے پر لگا ٹیوب لائیٹ کا بٹن آن کر دیا ۔
”معذرت خواہ ہوں بھیا !....آپ کو اس وقت زحمت دی ۔“فیضان کے چہرے پر چھائے عجیب سے تاثرات اسے مزید حیران کر گئے تھے ۔
”زحمت کی کیا بات ہے فیضان !....بیٹھو ۔“محمود نے صوفے کی طرف اشارہ کیا ۔
لیکن صوفے پر بیٹھنے کے بجائے اس نے صوفے کے ساتھ رکھی فوم والی کرسی اٹھائی اور بیڈ کے قریب رکھ کر اس پر ٹک گیا۔
”اچھا بتاﺅ کیا مسئلہ ہے ؟“اس کے بیٹھتے ہی محمود نے نرم لہجے میں پوچھا ۔
”بھیا !....“کہہ کر فیضان اضطراری انداز میں ہاتھ مروڑنے لگا ۔
”فیضان !....تم کافی پریشان لگ رہے کیا بات ہے مجھے بتاﺅ تو سہی ۔“محمود نے آگے ہو کر اس کے دونوں ہاتھوں سے تھام لیا ۔
”بھیا !....آپ خفا ہو جائیں گے ۔“فیضان کے لہجے میں گہرے دکھ کی آمیزش تھی ۔
”یار!.... کچھ پتا تو چلے ۔“محمود نے اسے کھینچ کر اپنے ساتھ بیڈ پر بٹھالیا ۔
”بھیا !....“فیضان نے سسکنے کے انداز میں کہا اور اس کی آنکھیں نمی سے بھر گئیں ۔
”ارے پاگل تو نہیں ہو گیا فیضان !....میں تمھارا بڑا بھائی ہوں ۔اگر سگا نہیں بھی ہوں تو یقین مانو میں نے تمھیں کبھی بھی سگے بھائی سے کم نہیں سمجھا۔“
”اسی سوچ نے توہمت دی ہے بھیا !“
”اب مجھ سے تھپڑ کھاﺅ گے فیضان !“محمود نے اسے پیار سے ڈانٹا۔
اس مرتبہ فیضان نے جھجکتے ہوئے اپنا موبائل فون نکالا اور ایک میسج سامنے لا کر موبائل فون اس کی جانب بڑھا دیا ۔
محمود نے حیرانی بھرے انداز میں اس کے ہاتھ سے موبائل فون لے کر سکرین پر نظریں دوڑائیں ۔کسی چاند کی طرف سے میسج تھا ۔وہ میسج پڑھنے لگا ۔
”فیضی !....پلیز تم چچا جان سے بات کرو نا یا محمود بھائی کو بتاﺅ ۔یقین مانو میں نے اسے ہمیشہ بھائی کی نظر سے دیکھا ہے میں یہ نیا رشتا کیسے نبھا پاﺅں گی ۔سب سے بڑھ کر تمھاری بھابی بننا مجھے زندگی سے بیزار کر دے گا ۔میں تمھارے بغیر مر جاﺅں گی فیضی ۔خدا کے لیے کچھ کرو۔“
”یہ بریرہ کا میسج ہے ؟“موبائل واپس اس کی جانب بڑھاتے ہوئے محمود نے اسے گہری نظروں سے دیکھا ۔
”جی بھیا !....“فیضان نے سر جھکاتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
”اور یہ چکر کب سے چل رہا ہے ؟“
”جب وہ آٹھویں میں پڑھتی تھی ۔“فیضان کی آواز میں کئی قسم کے اندیشے لرزاں تھے۔
”ہا....ہا....ہا۔“محمود کے ہونٹوں سے قہقہہ برا مد ہوا ۔”مطلب چار پانچ سال ہو گئے ہیں میرے چھوٹے بھائی کو جوان ہوئے ۔اور میں اسے ابھی تک نابالغ سمجھ رہا ہوں ۔“اس نے شفقت بھرے انداز میں فیضان کا کان پکڑا ۔
”بھیا !“وہ اس سے لپٹ کر رو پڑا تھا ۔
”پاگل !....یہ کوئی اتنی بڑی بات تو نہیں ہے کہ تم رات کے اس وقت پریشانی بھرے انداز میں میرے پاس دوڑتے چلے آئے ۔ بےوقوف مجھے تو پریشان ہی کر دیا تھا ۔“
”شکریہ محمود بھیا !....یقین مانو میری زندگی کا سوال تھا ۔“
”وہ بھی جاگ رہی ہو گی ہے نا ؟“
”جی بھیا !....جس وقت سے میں نے اسے یہ بات بتائی ہے وہ مسلسل روئے جا رہی ہے ۔“
”اچھا جاﺅ اسے چپ کراﺅ ۔اگر وہ مجھے بھائی سمجھتی ہے تو میں بھی اسے اپنی بہن ہی سمجھتا ہوں ۔اور اس کے بارے چچا جان نے کہا تھا ورنہ میرے تو گمان میں بھی یہ شادی وغیرہ نہیں تھی ۔“
”شکریہ بھیا !“فیضان خوشی سے اچھلتا ہوا اس کی خواب گاہ سے نکل گیا ۔وہ سول انجینئرنگ کر رہا تھا ۔چند ماہ تک اس نے اپنی تعلیم سے فارغ ہو جانا تھا ۔
فیضان کے جاتے ہی اس نے ٹیوب لائٹ آف کی اور سونے کے لیے آنکھیں بند کر لیں ۔تھوڑی دیر پہلے اس کے خیالوں کو رونق بخشنے والی بریرہ ایک دم اس کی سوچوں سے کوسوں دور چلی گئی تھی ۔وہ شروع دن سے اس کے ساتھ کافی بے تکلف تھی لیکن فیضان کے ساتھ اس کے چلنے والے چکر سے وہ بالکل ناواقف تھا ۔
تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں
غیرت مند عاشق اردو کہانی - پارٹ 4
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
0 تبصرے