غیرت مند عاشق - پارٹ 4

 اردو کہانی

Sublimegate Urdu Font Stories

غیرت مند عاشق -  پارٹ 4

فیضان اور بریرہ کا رشتہ رخسانہ چچی کو بالکل قبول نہیں تھا ۔وہ فیضان کے لیے کسی بڑے گھر کی لڑکی کو بہو بنانے کا سوچے بیٹھے تھی ۔محمود کی بات سنتے ہی وہ ہتھے سے اکھڑ گئی تھی ۔
”یہ نہیں ہو سکتا ۔اور پھر بڑا ہونے کے ناطے پہلے تمھارا شادی کرنا بنتا ہے ،سارے خاندان والے کیا سوچیں گے کہ بڑے کو چھوڑ کر چھوٹے کے بیاہ کی فکر اس لیے پڑ گئی کہ بڑا میرا اپنا بیٹا نہیں ہے ۔“
محمود نے جلدی سے کہا ۔”ایسی کوئی بات نہیں ہے چچی جان !....فیضان اور بریرہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور میرا نہیں خیال کہ ان کی پسند کو یوں نظر انداز کر دینا کوئی عقل مندانہ فیصلہ ہو گا ۔“
”محمود بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے ۔“رضوان نے فوراََ محمود کی تائید کی تھی ۔
”ہاں تمھیں تو بس اپنے غریب بھائیوں کا غم کھائے جا رہا ہے ۔“ رخسانہ جلے کٹے لہجے میں بولی ۔
”نیک بخت !....میرے کون سے کارخانے چل رہے ہیں ؟“
”نہیں فیضان کے لیے میری نظر میں ایک رشتہ موجود ہے ۔“ رخسانہ حتمی لہجے میں بولی ۔”یوں بھی شکیلہ بیگم مشکل ہی سے فیضان کے لیے ہاں کرے گی ۔وہ تو اپنے بھانجے کے لیے ادھار کھائے بیٹھی ہے ۔اور مجھ سے اس کے ترلے نہیں ہونے والے ۔“
محمود جھٹ بولا۔”خالہ کو منانا میری ذمہ داری ہے ۔“
”آخر تم کیوں اس شادی کے لیے اتنا زور دے رہے ہو ؟“رخسانہ نے تیکھے لہجے میں پوچھا ۔
محمود نے کہا ۔”فیضان میرا چھوٹا بھائی ہے اور اس کی طرفداری کرنا میرا فرض بنتا ہے ۔“
رخسانہ چچی نے منھ بناتے ہوئے کہا ۔”یہ فرض اور واجبات میرے لیے چھوڑ دو ،میں جانوں اور فیضان۔“
”ٹھیک ہے چچی جان !....جو آپ کی مرضی آئے کرنا لیکن اب میرے لیے بریرہ کے رشتے کی بات نہ چلانا ۔میں اس سے شادی نہیں کر سکتا ۔“
”تو پھر تمھارے رشتے کی بات کہاں چلاﺅں ؟“رخسانہ نے گہری نظروں سے اس کی جانب دیکھا تھا۔
”فی الحال میرا شادی کا کوئی ارادہ نہیں ۔جب تک میں اپنے لیے ذاتی گھر نہیں بنا لیتا میں شادی نہیں کروں گا ۔“یہ کہتے ہوئے وہ وہاں سے اٹھ کر آ گیا تھا ۔
چچی کے ساتھ یہ بات چیت اس نے سہ پہر کے وقت دفتر سے لوٹ کر کی تھی ۔اس وقت فیضان اور افنان گھر سے باہر تھے ۔شام کو گھر میں داخل ہوتے ہی فیضان اس کے پاس دوڑا چلا آیا تھا ۔
”محمود بھائی !....بات ہوئی امی جان سے ؟“
”وہ نہیں مان رہیں یار !....البتہ میں نے اپنے لیے بریرہ کا رشتہ مانگنے سے منع کر دیا ہے ۔“
”انھیں مسئلہ کیا ہے ؟“فیضان نے غصے بھرے لہجے میں پوچھا ۔
”یہ معلوم کرنا آپ کا کام ہے ۔“محمود نے بے پروائی سے کندھے اچکائے ۔ ”جتنا مجھ سے ہو سکتا تھا میں نے ان کی منتیں کی ہیں مگر میری بات کو انھوں نے درخور اعتنا ءنہیں جانا ۔ چچا جان کا ووٹ بھی تمھاری طرف ہے ۔چچی جان ان کی بات بھی سننے کو تیار نہیں ہیں ۔“
”شکریہ محمود بھائی !....اب آپ فکر نہ کریں باقی میں سنبھال لوں گا ۔“
رات کو فیضان کھانے کی میز پر حاضر نہیں تھا ۔کھانے کے بعد رخسانہ بیٹے کے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔جونھی ماں بیٹے کی تکرار شروع ہوئی محمود دعا کو گود میں اٹھا کر کار میں آ بیٹھا ۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ رخسانہ اور فیضان کے جھگڑے کو دیکھ کر دعا پریشان ہو جائے ۔وہ ایک حساس بچی تھی اس کی پریشانی محمود کو کسی بھی طرح گوارا نہیں تھی ۔وہ اسے گھر سے سیدھا آئس کریم شاپ پر لے گیا وہاں سے لمبی ڈرائیو پر نکل گیا ۔دعا اپنی کلاس فیلوز کی حیرانی کے بارے بتا رہی تھی کہ اس کے بھیا کی نئی کار دیکھ کر کائنات اور سدرہ وغیرہ کتنی شرمندہ ہوئی تھیں ۔محمود اس کی معصومانہ باتیں سن کر خوش ہوتا رہا ۔گھنٹا ڈیڑھ بعد وہ گھر میں داخل ہوئے تو خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔
رات گئے فیضان نے اس کے کمرے میں آ کرخوش خبری سنائی کہ رخسانہ چچی طوعن و کرہن مان گئی تھی لیکن اس کے ساتھ اس نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ اگر شکیلہ نے ذرا سی بھی آئیں بائیں کی تو وہ اس رشتے پر تھوک کر واپس آ جائے گی ۔
”بھیا !....اب ساری بات آپ کے ہاتھ میں ھے ۔شکیلہ چچی آپ کی کوئی بات بھی نہیں ٹالتیں ۔“ساری بات سناتے ہی فیضان نے لجاجت سے کہا ۔
محمود نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا ۔”تم فکر نہ کرو ،میں کل دفتر سے واپس آتے ہی خالہ کی طرف چکر لگا آﺅں گا ۔“
”آئی لو یو بھیا !“فیضان اس کے گال پر بوسا دیتے ہوئے بولا۔
”ہاں اب تو محبت آئے گی بھائی پر ۔“محمود نے اس کا کان کھینچتا ۔فیضان قہقہہ لگا کر ہنس پڑا تھا ۔
٭٭٭
”ارے آج میرا بیٹا کہاں آ نکلا ۔“شکیلہ خالہ اسے دیکھتے ہی خوش ہو گئی تھیں ۔“
”بس آپ کی یاد آئی اور میں آ گیا ۔“وہ خالہ کے ساتھ ہی بیٹھ گیا تھا۔
”اللہ کرے میری یاد تمھیں روزانہ آیا کرے ۔“شکیلہ خالہ نے ہنستے ہوئے کہا ۔نرگس چچی بھی اس کی بات پر ہنس دی تھیں۔
”اور میری بہو کو بھی ساتھ لے آیا ہے۔“نرگس چچی نے حسبِ عادت محمود کی گود میں بیٹھی دعا کو چھیڑا۔
”میں بھیا کی بہو بنوں گی ۔“دعا نے منھ بناتے ہوئے جواب دیا ۔وہاں موجود تمام لوگ اس کی بات پر بے اختیار ہنس پڑے تھے ۔
”پہلے اپنے بھیا کی شادی تو کرا دو ۔“شکیلہ خالہ نے اسے محمود کی گود سے اٹھا کر اس کا منھ چوم لیا تھا ۔
”نہیں بھیا شادی نہیں کریں گے ۔“دعا نے معصومیت بھرے لہجے میں انکشاف کیا ۔ ”بھیا نے میرے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ وہ بریرہ آپی سے شادی نہیں کریں گے ۔“
شکیلہ نے اسے چھاتی کے ساتھ بھینچتے ہوئے کہا ۔”تو پھر تم اپنے بھیا کی بہو کیسے بنو گی گڑیا ۔“باقی تمام بھی اس انکشاف پرہنسنے لگے تھے ۔بریرہ کے چہرے پر حیا کی سرخی پھیل گئی تھی۔وہ وہاں سے ہٹ گئی ۔یوں بھی اسے فیضان پہلے سے محمود کی وہاں آمد کا مقصد بتا چکا تھا ۔
تھوڑی دیر گپ شپ کے بعد محمود نے شکیلہ کو کہا ۔”خالہ جان !....آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے ۔“
”کہو نا بیٹا !“وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی ۔
”یہ بچہ پارٹی یہاں سے غائب ہو جائے ۔“زیادہ تر لڑکے ،لڑکیاں تو یوں بھی وہاں سے دائیں بائیں ہو گئے تھے ۔جو دو تین وہاں بیٹھے تھے وہ بھی محمود کی بات سن کر اٹھ گئے ۔
”خالہ جان !....میں بریرہ اور فیضان کے رشتے کی بات کرنے آیا ہوں ۔“محمود بغیر تمہید باندھے مطلب کی بات پر آ گیا ۔
”کک....کیا بات کر رہے ہو بیٹا !“شکیلہ نے ہکلا کر اپنے شوہر کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر کوئی خاص اثر ظاہر نہیں ہوا تھا ۔
”میں جانتا ہوں خالہ جان !....آپ کی خواہش کیا ہے ،لیکن یقین جانیے بریرہ کو میں نے ہمیشہ اپنی چھوٹی بہن ہی سمجھا ہے ۔سب سے بڑھ کر یہ کہ فیضان اسے بہت پسند کرتا ہے۔ رضوان چچا کی بھی یہی خواہش تھی کہ میری اور بریرہ کی شادی ہو جائے یہ بات جونھی فیضان کو پتا چلی اس نے بھوک ہڑتال کر دی ہے ۔ہمارا آپس کا تعلق ہمیشہ سگے بھائیوں جیسا رہا ہے ۔ اب میں چھوٹے بھائی کا دل نہیں توڑ سکتا ۔“
”اور خالہ کا دل توڑ دو گے ۔“شکیلہ نے مایوسی بھرے لہجے میں کہا ۔
”کیا کسی کی خوشیوں کا قاتل بن کر مجھے سکون مل جائے گا خالہ جان !“
”کسی ایک کے چاہنے سے تو فیصلے نہیں ہوتے نا بیٹا !“خالہ اب تک خود کو قائل نہیں کر پا رہی تھی ۔
”خالہ جان !....آپ جانتی ہیں کہ بریرہ مجھ سے کتنی بے تکلف ہے ،کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کی مرضی جانے بغیر میں آپ سے بات کرتا ۔“
”محمود ٹھیک کہہ رہا ہے ۔بریرہ اور فیضان ایک دوسرے کو بہت پسند کرتے ہیں ۔“ نرگس چچی نے سرہلاتے ہوئے محمود کی تائید کی ۔
”کیا گھر میں بڑے تمھی تھے جو یوں رشتہ مانگنے بھاگے چلے آئے ۔“شکیلہ خالہ نے نرگس کی بات پر ہتھیار پھینک دیے تھے ۔
”میں رشتہ مانگنے نہیں ،اپنی پیاری خالہ کو راضی کرنے آیا تھا ۔“خالہ کی بات سن کر محمود نے سکون بھرا سانس لیتے ہوئے کہا ۔
”اسی لیے تمھاری لاڈو رانی نے پہلے سے انکشاف کر دیا تھا کہ اس کا بھیا جان ،بریرہ سے شادی نہیں کرے گا ۔“شکیلہ خالہ کے چہرے پرپھیکی مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔
”اس معصوم کو شادیوں کا کیا پتا خالہ جان !“محمود نے ساتھ بیٹھی دعا کو اپنے ساتھ لپٹا لیا تھا ۔
”اچھا شام کی آذان کب کی ہو چکی ہے نماز قضا ہو جائے گی ۔“سلمان چچا نے انھیں یاد دہانی کرائی اور وہ اٹھ گئے ۔
رات کا کھانا کھا کر محمود نے واپسی کی راہ لی تھی ۔گاﺅں سے نکلتے ہی اسے بریرہ کا میسج ملا ۔
”بہت بہت شکریہ بھائی جان !....مجھے اپنے پیارے بھائی پر ہمیشہ فخر رہے گا ۔“
وہ دونوں کہنیاں اسٹیرنگ وہیل پر ٹیک کر اس کا جواب لکھنے لگا ۔”ہاں بہنا !....ایک اور بندہ بھی میرا بہت زیادہ شکر گزار ہوگا ۔“
”جی بھائی جان!“بریرہ کا مختصر سا جواب آیا ۔اور وہ مسکرا کر ڈرائیونگ کی طرف متوجہ ہو گیا۔دعا سیٹ سے ٹیک لگائے سونے جاگنے کی کیفیت میں تھی ۔محمود نے کار روک کر اسے عقبی نشست پر لٹا کر اپنی چادر اوڑھائی اور آگے بڑھ گیا ۔فیضان بڑی شدت سے اس کا منتظر تھا ۔ یوں تو اسے بریرہ کی زبانی ساری بات کا پتا چل گیا تھا اس کے باوجود وہ محمود کی زبان سے سب کچھ سننا چاہتا تھا ۔رخسانہ چچی اور رضوان کو بھی محمود کے گاﺅں جانے کی غایت معلوم تھی ۔کار کا ہارن سن کر گھر کا دروازہ فیضان ہی نے کھولا تھا ۔اس کی خوشی دیدنی تھی ۔چھوٹے بھائی کو خوش دیکھ کر محمود کو سکون کا احساس ہوا تھا ۔یقینا اپنی ذات پر دوسرے کو ترجیح دے کر جو سکون ملتا ہے اس کا مقابلہ کوئی اور نیکی نہیں کر سکتی ۔
٭٭٭
تعلیم سے فارغ ہوتے ہی فیضان کو دو تین ماہ کے اندر ایک غیرملکی کنسٹریکش کمپنی میں بہت اچھی جاب مل گئی تھی ۔جاب کے حصول کے ساتھ ہی اس نے ماں باپ پر شادی کے لیے زور دیا اور بریرہ اس کی دلھن بن کر گھر میں آ گئی ۔لیکن وہ زیادہ دن اس گھر میں نہیں رہی کہ فیضان اسے بھی اپنے ساتھ دبئی لے گیا تھا ۔رخسانہ چچی کواس کا یوں ملک سے باہر منتقل ہونا بہت کھَلا مگر وہ فیضان کو منع بھی تو نہیں کر سکتی تھیں ۔
فیضان کی شادی کے بعد رضوان چچا نے محمود کو بھی شادی کے لیے زور دیا مگر وہ خوب صورتی سے ٹال گیا ۔اسی دوران اس کی پھوپھو کی بیٹی عمارہ، کالج کی تعلیم سے فارغ ہو کر یونیورسٹی میں داخل ہوئی۔ چونکہ روزانہ آنا جانا ممکن نہیں تھا اس لیے شہر میں اس کی رہائش کے لیے ہوسٹل میں داخل کرانے کا فیصلہ ہوا ۔رضوان چچا کو معلوم ہوا تو اس نے ہوسٹل میں داخلے کی سختی سے ممانعت کرتے ہوئے کہا ۔
”جب اپنا گھر موجود ہے تو ہاسٹل میں رہنے کی کیا ضرورت ہے ۔“
اور عمارہ ان کے گھر منتقل ہو گئی ۔فیضان کا کمرہ خالی تھا وہ اسی میں رہنے لگی ۔اسے یونیورسٹی چھوڑنے کی ذمہ داری بھی محمود کے سر آن پڑی تھی۔یونیورسٹی ان کے گھر سے اتنی دور نہیں تھی اس لیے وہ آسانی سے عمارہ کو یونیورسٹی میں اتارکر وہاں سے دعا کے اسکول جاسکتا تھا۔
دعا اب چھٹی کلاس میں تھی ۔پہلے ہی دن عمارہ تیار ہو کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی ۔دعا ابھی تک تیار ہو کر کمرے سے نہیں نکلی تھی ۔محمود اسی کے انتظار میں کھڑا تھا ۔کار کے نزدیک پہنچتے ہی دعا نے عمارہ کو فرنٹ سیٹ پر بیٹھے دیکھ کر تیوری چڑھا لی تھی ۔
”عمارہ آپی !....آپ پیچھے بیٹھ جائیں ۔“الفاظ کے ساتھ اس کا لہجہ بالکل میل نہیں کھا رہا تھا ۔
عمارہ کو سخت توہین کا احساس ہوا تھا ۔اس نے مدد طلب نظروں سے محمود کی طرف دیکھا ۔
”گڑیا !....بری بات بڑوں سے ایسے بات نہیں کرتے ۔“
اس نے منھ بناتے ہوئے جواب دیا ۔”میں نے تو کوئی بات ہی نہیں کی ہے بھیا! بس آپی کو پیچھے بیٹھنے کا کہا ہے ۔“
”جانے دو عمارہ !....آپ ہی پیچھے بیٹھ جاﺅ ،یہ ضدی اپنی منوا کر ہی رہے گی ۔“ محمود کے لہجے میں بے بسی تھی ۔
عمارہ قہر آلود نگاہیں دعا پر ڈال کر باہر نکلی اس کا دل تو نہیں کر رہا تھا کار میں بیٹھنے کو لیکن ایک چھوٹی بچی کے ساتھ مقابلہ کرنا بھی اسے نہیں جچتا تھا ۔طوعن و کرہن وہ عقبی نشست پر بیٹھ گئی ۔دعا اطمینان سے آگے بیٹھ کر کوئی ملی نغمہ گنگنانے لگی ۔
”ویسے پھوپھو جان کو کیسے منا لیا آپ نے ؟....ہمارے خاندان کے لڑکے بھی پڑھنے سے زیادہ کھیتی باڑی میں دلچسپی لیتے ہیں آپ کو ایک لڑکی ہونے کے باوجود یونیورسٹی میں داخلے کی اجازت مل گئی ۔“
کار آگے بڑھاتے ہی وہ بیک مرمر میں عمارہ کے لال بھبکا چہرے کا جائزہ لیتا ہوا پوچھنے لگا ۔دعا کی بدتمیزی کا ذکر اس نے جان بوجھ کر نہیں کیا تھا کہ ایک تو اس بات سے دعا نے ناراض ہو جانا تھا اور دوسرا یہ کوئی پہلی بار نہیں ہو رہا تھا کہ وہ اس بات کو خاطر میں لاتا۔یہ تو دعا کی پختہ عادات میں سے ایک تھی ۔فرنٹ سیٹ پر محمود کے ساتھ بیٹھنے کا حق صرف اسے حاصل تھا ۔ کار کوئی دوسرا ڈرائیو کر رہا ہوتا اور محمود بھی اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا ہوتا تو وہ اس کی گود میں بیٹھ جاتی ۔ البتہ اس کے عقبی نشست پر بیٹھے ہونے کی صورت میں وہ فرنٹ سیٹ کی جان چھوڑ دیتی تھی ۔گویا اس کا مسئلہ فرنٹ سیٹ نہیں محمود کا ساتھ ہوتا تھا ۔
”اجازت ملی نہیں میں نے زبردستی لی ہے ۔“اس کا چہرہ دیکھنے کے لیے عمارہ نے بھی بیک مرر ہی کا سہارا لیا تھا ۔
”پھوپھو جان اور طفیل تو آپ کی قابلیت کی بڑی تعریف کر رہے تھے ۔“
وہ ہنسی ۔”اس میں شک ہی کیا ہے ۔“
”یہ تو خیر پہلے سمیسٹر کے اختتام پر ہی پتا چل جائے گا ۔“
”بالکل ۔“اعتماد سے کہہ کر وہ پوچھنے لگی ۔”ویسے آپ کے بھی سبجیکٹ یہی تھے نا ؟“
”اب مجھے آپ کے مضامین کا کیا ....“
”بھیا !....آپ اس دن بتا رہے تھے نا کہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق دنیا کے سب سے اونچے گدھے کا قد پانچ فٹ آٹھ انچ ہے ۔“دعا نے اسے بات پوری نہیں کرنے دی تھی ۔
”ہاں ....مگر یہ کون سا موقع ہے گڑیا !....اور پھر کتنی بار منع کیا ہے کہ کسی کی بات کے درمیان میں نہیں بولتے ۔“
”اچھا آئندہ خیال رکھوں گی ۔لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ دنیا کی سب سے اونچی گدھی کا قد کتنا ہے ؟“اس نے سرعت سے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے پوچھا، اس کے لہجے سے بالکل بھی یہ ظاہر نہیں ہو رہا تھا کہ وہ اس بات پر عمل کرنے کا کوئی ارادہ رکھتی ہے ۔
محمود کے لبوں پر مسکراہٹ کھل گئی تھی ۔”الٹی باتیں نہ کیا کرو سمجھیں یہ نہ ہو کوئی گدھے کی بچی کے قد کے بارے پوچھنا شروع کر دے ۔“
محمود کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اس نے یہ سوال کیوں پوچھا ہے۔چند دن پہلے ہی محمود نے اسے کہا تھا کہ جو شخص اپنی تعریف کرتا ہے اس سے بڑا گدھا کوئی نہیں ہوتا ۔اور دوسرا وہ اپنی موجودگی میں یہ بالکل برداشت نہیں کرتی تھی کہ محمود کسی اور کے ساتھ گپ شپ کرے ۔
”بھیا !....آپ بھی نا ۔“وہ لاڈ بھرے انداز میں اس کے کندھے پر تھپڑ مارنے لگی ۔
عمارہ کو بھی یہ محسوس ہو گیا تھا کہ گدھی کی بابت پوچھتے ہوئے دعا کا اشارہ اس کی ذات ہی کی طرف تھا ۔لیکن اس نے کچھ کہنے سے اس لیے گریز کیا کہ وہ کسی قسم کی بدمزگی نہیں چاہتی تھی ۔اور پھر یونیورسٹی آنے تک دعا نے محمود کی جان ہی نہیں چھوڑی تھی کہ وہ محمود سے کوئی بات کر سکتی۔
”واپسی پر آپ کا انتظار کروں یا بس کو ہاتھ کھڑا کرنا پڑے گا ۔“یونیورسٹی گیٹ کے سامنے اتر کر عمارہ مستفسر ہوئی ۔
”دو بجے دعا کو لینے آتا ہوں اڑھائی تین بجے تک پہنچ سکتا ہوں تمھارے پاس ۔“
”تو ڈیڑھ بجے آجانا،مجھے اٹھا کر دعا کے سکول چلے جائیں گے ۔“اس نے امید بھرے لہجے میں کہا ۔
”اچھا کوشش کروں گا ۔“کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا ۔
”بھیا !....اگر آپ نے آئندہ مجھے عمارہ آپی کے سامنے ڈانٹا نا تو پکی کٹی کر لوں گی۔“
”مگر میں نے تمھیں کب ڈانٹا ہے ۔“اس نے حیرانی بھرے لہجے میں پوچھا ۔
”دو دفعہ ڈانٹا ہے ۔سمجھے آپ ۔“وہ قدرے غصے میں بولی تھی۔ ” گھر سے نکلتے وقت کہا کہ ،بڑوں سے یوں بات نہیں کرتے اور دوسری بار رستے میں کہ، کسی کی بات کے درمیان میں نہیں بولتے ۔“
”تو کیا غلط کہا ہے ۔“
اس نے منھ بناتے ہوئے کہا ۔”نہیں ،آپ کی ہر بات ٹھیک ہوتی ہے ۔لیکن کسی کے سامنے ڈانٹ کھانا مجھے بالکل پسند نہیں ۔“
محمود بس حیرانی بھرے انداز میں اسے گھور کر رہ گیا تھا ۔وہ بمشکل گیارہ بارہ سال کی تھی اور اتنی عمر ہی میں بھی بڑی بڑی باتیں کرنا سیکھ گئی تھی ۔
”اچھا ٹھیک ہے ،لیکن تم بھی خیال کیا کرو ۔آج دیکھو عمارہ کے ساتھ تم کتنی بدتمیزی سے پیش آئیں ۔جانے کیا سوچ رہی ہو گی وہ تمھارے بارے ۔“
اپنے سکول کے سامنے اترتے ہوئے اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ ”بھیا !.... اگر کسی کو مجھ سے کوئی مسئلہ ہے نا ،تو یہ اس کا مسئلہ ہے ۔“
محمود بھی بے ساختہ مسکرا پڑا تھا ۔یہ بات اسے خود محمود نے کہی تھی ۔جب ایک دن وہ اپنی کسی کلاس فیلو کا بتا رہی تھی کہ وہ دعا سے حسد کرتی ہے ۔تبھی محمود نے اسے یہی نصیحت کی تھی ۔ اور آج حرف بہ حرف وہی بات دہرا کر اس نے محمود کو ایک بار پھر یہ باور کرا دیا تھا کہ وہ باتوں کو بھولتی نہیں تھی ۔
”اور ہاں بھیا !....کوشش کرنا کہ دفتر سے سیدھا میرے سکول آجانا ،اگر رستے میں آپی کو پہلے اٹھانا ضروری سمجھیں تو اسے ،اس کے بیٹھنے کی جگہ کے بارے واضح طور پر بتا دینا ۔یہ نہ ہو گھر واپسی پر مجھے پھر آپ کی کڑوی کسیلی باتیں سننا پڑیں ۔“
محمود نے مصنوعی غصے سے پوچھا ۔”کیا مطلب ؟“
”مطلب بالکل واضح ہے بھیا !....اگر وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تو مجھے پھر وہی کہنا پڑے گا جو میں نے صبح کہا تھا ۔اور چونکہ ابھی میں آپ کو منع کرچکی ہوں کہ مجھے کسی کے سامنے نہ ڈانٹا کریں تو یقینا آپ نے مجھے کمرے میں جا کر ڈانٹنا ہے ۔اس لیے ....“اتنا کہہ کر اس نے شرارتی انداز میں کندھے اچکائے اور اسکول کے گیٹ کی طرف چل دی ۔محمود کے چہرے پر کھسیانی ہنسی نمودار ہوئی اور وہ آگے بڑھ گیا ۔
٭٭٭
واپسی پر عمارہ کو یونیورسٹی سے اٹھاتے ہوئے وہ دعا کی بابت بتا رہا تھا ۔
”دیکھو عمارہ !.... دعا گھر بھر کی لاڈلی ہے ۔خاص کر میرے لیے تو اس سے بڑھ کر کوئی بھی نہیں ہے ۔اسی طرح میرے قریب وہ مشکل ہی سے کسی کو برداشت کرتی ہے ۔وہ میرے لیے چھوٹی بہن سے بھی بڑھ کر ہے ۔اس کی طرف سے میں معذرت خواہ ہوں صبح اس نے کافی بدتمیزانہ انداز میں آپ کو مخاطب کیا تھا ۔اب بھی میں آپ سے یہی درخواست کروں گا کہ جب اس کے اسکول پہنچیں تو آپ نے عقبی نشست پر منتقل ہو جانا ہے ۔“
”یقینا آپ میری توہین کر رہے ہیں ۔“عمارہ کو محمود کی باتیں کافی بری لگی تھیں ۔
”بالکل بھی نہیں ۔“محمود نے نفی میں سر ہلایا۔”وہ معصوم بچی ہے جبکہ آپ ٹھیک ٹھاک سمجھ دار خاتون ہیں ۔“
عمارہ نے منھ بناتے ہوئے کہا ۔”اب خاتون جیسا ثقیل لفظ تو میرے ساتھ نہ لگائیں۔ لڑکی ہی کہہ دیں ۔“
محمود ہنسا ۔”مطلب ایک ہی بنتا ہے ۔“
عمارہ معنی خیز لہجے میں بولی ۔”ویسے ایک جوان لڑکی اور لڑکا ، لڑکے کی بہن کو موضوع گفتگو بنانے کے علاوہ بھی کئی باتیں کر سکتے ہیں ۔“
”مثلاََ۔“
عمارہ نے معنی خیز لہجے میں کہا ۔”مثلاََ یہ کہ ایک دوسرے کی پسند کے بارے پوچھ سکتے ہیں ،مستقبل کے ارادوں کے بارے بات ہو سکتی ہے اور ....شادی کے بارے رائے لی جا سکتی ہے ۔“
اس کے معنی خیز لہجے کو نظر انداز کرتے ہوئے محمود نے جواب دیا ۔”پسند تو کوئی خاص ہے نہیں ،شادی کا فی الحال ارادہ نہیں اور مستقبل کس نے دیکھا ہے ۔“
”سنا ہے بریرہ کا رشتا پہلے آپ سے ہو رہا تھا ،بعد میں فیضان اور بریرہ کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے ان دونوں کی شادی کر دی گئی ۔“
”صحیح سنا ہے ۔“محمود نے اثبات میں سر ہلایا۔
”کیا آپ بھی بریرہ کو پسند کرتے تھے ۔“عمارہ نے جیسے کچھ کھوجنے کی کوشش کی ۔
”میں نے کبھی کسی کے بارے ایسا سوچا ہی نہیں تھا ۔رضوان چچا نے میری رائے پوچھی اور میں نے ان کی مرضی پر سر جھکا لیا ۔بعد میں فیضان نے میرے پاس آکر اپنے اور بریرہ کے تعلق کے بارے سب کچھ بتا دیا پس میں نے ان کے درمیان سے ہٹنا ہی بہتر سمجھا ۔“
عمارہ نے ذومعنی لہجے میں پوچھا ۔”اگر کسی اور لڑکی کے بارے آپ کی رائے پوچھی جاتی تو آپ کا جواب کیا ہوتا ؟“
”کس کے بارے میں ۔“سرخ بتی پر رکتے ہوئے محمود اس کی جانب متوجہ ہوا ۔
”کوئی بھی لڑکی ....فرض کرو میرے بارے میں ۔“عمارہ نے دبے لفظوں میں اظہار کر ہی دیا تھا ۔
گہرا سانس لیتے ہوئے محمود نے سرخ بتی کو گھورا اور پھر آہستہ سے بولا ۔”تب بھی میں وہی کہتا جو اس وقت کہا تھا ۔“
”گویا میں آپ کو قبول ہوں ۔“عمارہ کی آواز جذبات سے بوجھل ہو گئی تھی ۔
سبز بتی جلی اور اس نے کار آگے بڑھا دی ۔کار میں خاموشی چھا گئی تھی ۔دو تین منٹ عمارہ نے انتظار کی سولی پر لٹکتے گزارے تھے ۔وہ محمود کی جانب دیکھنے کے بہ بجائے گود میں رکھے ہاتھوں کی طرف متوجہ تھی۔
”ہاں ۔“طویل ہوتی خاموشی کو محمود کی گھمبیر آواز نے خوشی کے نغمے کا روپ دیا ۔
”شکریہ محمود !....آپ نے مجھے اتنا مان دیا ۔“عمارہ کی آواز میں خوشی ہلکورے لے رہی تھی ۔
”عمارہ !....میں نے زندگی میں کسی سے محبت کی ہے تو وہ دعا ہے ،کسی کو توجہ دی ہے تو وہ دعا ہے ،کسی کا خیال رکھا ہے تو وہ دعا ہے ،کسی کے لیے راتیں جاگا ہوں تو وہ دعا ہے، کسی کی بہتری کے لیے سوچا ہے تو وہ دعاہے ۔میں نے اسے ماں کی ممتا سے بھی نوازا ہے ،باپ کی شفقت بھی دی ہے اوربھائی کا مان اور عزت بھی دی ہے۔ اس کی ہر جائز و ناجائز خواہش پوری کی ہے ۔ جو اس نے مانگا ہے وہ بھی دیا اور جو نہیں مانگا وہ دینے کی کوشش بھی کی ہے۔ تو مجھ سے رشتا باندھنے سے پہلے یہ ذہن میں رہے کہ آپ کو دعا کا وجود برداشت کرنا ہوگا ۔بعض اوقات وہ ہٹ دھرمی اور ضد پر اتر آتی ہے ،ایسے موقع پر آپ نے حوصلے اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا ۔وہ میرے لیے بہن بھی ہے بیٹی بھی ہے اور میری سب سے اچھی دوست بھی ہے ۔اس لیے یہ نہ ہو کہ آپ اس کی عادتوں یا باتوں کو لے کر اپنا خون بھی جلاتی رہیں اور اس کے خلاف دل میں کوئی الٹا سیدھا سوچتی رہیں ۔اگر ایسا ہے تو ہم ابھی سے اس رستے پر قدم نہیں بڑھاتے ۔اور یہ بھی یاد رکھنا کہ اس کی شادی کے بعد میرا اور اس کا تعلق اسی طرح رہے گا ۔میں اس کی ہر بات کو اسی طرح اپنی پہلی ترجیح پر ہی رکھوں گا ۔اگر آپ کو یہ سب قبول ہے تو مجھے آپ سے اچھا رشتا اور ملے گا بھی نہیں ۔آپ خوب صورت ہیں ،پڑھی لکھی ہیں اور سب سے بڑھ کر میری پیاری پھوپھو کی بیٹی ہیں ۔“
”تقریر آپ کافی اچھی کر لیتے ہیں ۔“اس کی مفّصل بات کے خاتمے پر عمارہ کے لبوں پر خوب صورت مسکراہٹ کھلنے لگی تھی۔
”کسی کو زندگی کا ساتھی بنانے سے پہلے اپنی کمزوریوں اور خامیوں سے آگاہ کرنا ضروری ہوتا ہے ۔اور دعا میری سب سے بڑی کمزوری ہے ۔اگر میں چچا رضوان کے گھر اب تک ٹکا ہوا ہوں تو اس کی واحد وجہ دعا کا وجود ہے ۔“
”میرا خیال ہے دعا بی بی کا تذکرہ کافی سے زیادہ ہو گیا ہے اب اپنے بارے کچھ اور بھی بتایئے ۔“عمارہ نے بہ ظاہر مزاحیہ انداز اختیار کیا تھا لیکن اس کے لہجے میں ہلکے سے حسد کی بو آ رہی تھی ۔
”اور کیا بتاﺅں ،ابھی ایک ہی گھر میں تو رہ رہے ہیں میرے بارے جلدی ہی سب کچھ جان لو گی ۔کون سا ہماری آج ہی شادی ہو رہی ہے ۔“
”اگر باقی سب کچھ جان لوں گی تو دعا کے بارے بھی تو میں نے جان لینا تھا ۔“ عمارہ کو اب تک دعا والی باتیں ہضم نہیں ہوئی تھیں ۔محمود ابھی تک اس کا بنا نہیں تھا اور دعا اسے ایک ناپسندیدہ ہستی لگنے لگی تھی ۔شادی کے بعد تو شاید وہ دعا کو ایک لمحہ بھی برداشت نہ کر پاتی ۔
”ہاں مگر اس کے بارے اس لیے بتانا ضروری سمجھا کہ بعد میں حجت قائم رہے ۔یہ نہ ہو شادی کے بعد آپ دعا کی طرف میرا التفات دیکھ کر مجھ سے جھگڑنے کی کوشش کریں تو میں نے پہلے سے متنبہ کرنا ضروری سمجھا ۔“
”محمود !....ایک لڑکی کواپنے شوہر کی توجہ کسی دوسری لڑکی کی طرف منتقل ہوتے دیکھ کر تب غصہ آتا ہے جب شوہر کی سوچ میں آلودگی ہوتی ہے ۔اگر کسی کا شوہر اپنی بہن کا خیال رکھتا ہے یا اسے اہمیت دیتا ہے تو اس کا کسی بیوی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔اگر کسی کے تنہائی کے ساتھی کی تنہائیاں صرف اس کے لیے مخصوص ہیں تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا ،کہ اس کی بہن کی اس کی زندگی میں کیا اہمیت ہے یا اس کی ماں کو اس کی زندگی میں کیا مقام حاصل ہے ۔“
”مجھے آپ سے یہی امید تھی ۔“دعا کے اسکول کے سامنے کار روکتے ہوئے اس نے عمارہ کے ہاتھ کو پکڑ کر دبا دیا تھا ۔وہ ٹھیک چھٹی وقت پر پہنچے تھے ۔بچیاں کسی سیلاب کی طرح اسکول کے گیٹ سے نکل کر پارکنگ میں کھڑی کاروں ، رکشوں ، سوزکیوں، اور موٹرسائیکل پر بیٹھ رہی تھیں ۔کچھ پیدل ہی مخصوص جانب روانہ تھیں ۔جلد ہی دعا بھی اسکول کے دروازے سے باہر نکلتی نظر آئی ۔عمارہ بغیر کچھ کہے عقی جانب منتقل ہو گئی تھی ۔
دعا آتے ہی ۔”اسلام علیکم !“کہہ کر اگلی سیٹ کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی ۔
”آج تو میری گڑیا کچھ زیادہ ہی تھکی تھکی لگ رہی ہے ؟“ محمود نے کار آگے بڑھاتے ہوئے شفقت بھرے لہجے میں پوچھا ۔
وہ تھکے تھکے لہجے میں بولی ۔”ہاں نا بھیا !....امتحانات قریب ہیں اور ساری استانیاں اپنے بچے ہوئے اسباق ختم کرنے کے چکروں میں ہیں ۔“
”تو اس دفعہ ارادہ کیا ہے ۔اپنی پہلی پوزیشن برقرار رکھنی ہے یا کسی اور کو آگے آنے کا موقع دو گی ۔“
”کسی کو میں اتنی آسانی سے تو آگے آنے کا موقع نہیں دیا کرتی ، البتہ قسمت کسی کا ساتھ دے جائے تو کچھ کہہ نہیں سکتی ۔“
”یہ تو وقت آنے پر پتا چلے گا نا ؟“عمارہ کے دماغ میں عجیب و غریب سوچ لہرائی ۔ محمود کی وضاحت اور اس کے اپنے اعتراف کے باوجود نہ جانے کیوں دعا اسے ایک رقیب کی طرح لگ رہی تھی ۔ایک چھوٹی سے بچی کو اپنا رقیب سمجھنا اس کی بیمار سوچ ہی کا شاخسانہ تھا ۔
”اچھا دوپہر کا کھانا تو وقت پر کھا لیا تھا نا؟“
”بھیا !....وہ ....میں....“دعا نے ہکلاتے ہوئے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی ۔
”ہاں کیا وہ ؟“محمود نے اس کی طرف خفگی بھری نظروں سے گھورا ۔
”بھیا !....لنچ بکس کھولا تو آلو مٹر بنے تھے اور آپ جانتے ہیں کہ مجھے یہ سالن ایک آنکھ نہیں بھاتا۔“
”تو کینٹین سے کچھ کھا لیتیں ؟“محمود کی خفگی برقرار تھی ۔
”میں نے سوچا آج بھیا سے خرچا کرواﺅں گی ۔“دعا نے پینترا بدلتے ہوئے کہا ۔ ”یوں بھی آج عمارہ آپی کا پہلا دن تھا تو ان کی دعوت کرنا تو بنتا ہے نا ۔“
محمود کو اس کی چالاکی پر ہنسی آ گئی تھی ۔اپنے فعل کی کوئی نہ کوئی توجیہہ اس کے پاس ضرور موجود ہوتی تھی ۔
”ویسے تمھیں اتنی جلدی مناسب بہانہ کیسے سوجھ جاتا ہے ۔“ محمود نے اس کی طرف جھک کر سرگوشی کی ۔
”ہا....ہا....ہا۔“دعا نے قہقہہ لگایا۔محمود کو محسوس ہوا دعا کے خوب صورت قہقہے نے کار کی فضا میں نغمے بکھیر دیے تھے۔جبکہ اس کا یوں ہنسنا عمارہ کی سماعتوں پر سخت گراں گزرا تھا ۔ اپنی اپنی سوچ اور ترجیحات ہوتی ہیں ۔ایک ہی شخصیت کسی کے لیے دنیا کی سب عزیز اور پیاری ہستی ہوتی ہے جبکہ دوسرے کے لیے مبغوض ترین اور قابلِ نفرت شخصیت۔
”ویسے عمارہ آپی آپ بتائیں کیا میں نے غلط کہا ہے ؟“دعا پیچھے مڑ کر اس کی جانب متوجہ ہوئی ۔
”میں کیا کہہ سکتی ہوں ۔“عمارہ نے روکھے سے لہجے میں کہا ۔چاہنے کے باوجود وہ دعا کو وہ اہمیت نہیں دے پارہی تھی جس کا محمود نے اس سے تقاضا کیا تھا ۔
”گویا آپ کو محمود بھائی کی جیب ہلکی کروانا گوارا نہیں ہے۔“ دعا اس کے روکھے پن کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی ۔
محمود نے ایک اچھے سے ہوٹل کی پارکنگ میں کار موڑی کہ دعا کی ہر خواہش کو پورا کرنا وہ ضروری خیال کیا کرتا تھا ۔پارکنگ میں کار روک کر وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولا ۔
”یہ جو تم تھکی تھکی اور مضمحل لگ رہی ہو نا ،اس کی وجہ یہی ہے کہ تم نے دوپہر کا کھانا نہیں کھایا ہے ۔آئندہ لنچ بکس گھر ہی میں کھول کر دیکھ لیا کرو تاکہ میں رستے میں کوئی اچھی چیز پیک کروا کر تمھارے حوالے کر دیا کروں ۔“
”دعا بی بی کا کھانا نہ کھانا گویا بہت بڑا مسئلہ ہے جو موصوف کو اتنی پریشانی ہو رہی ہے۔“ عمارہ نے جل کر سوچا۔مگر یہ بات وہ ہونٹوں پر نہیں لا سکتی تھی ۔ابھی تک وہ محمود کے لیے اتنی ضروری نہیں ہوئی تھی کہ وہ اس کی بات کو کوئی اہمیت دیتا ۔سب سے پہلے اسے محمود کے دل میں جگہ بنانا تھی اس کے بعد ہی دعا کا سدباب کر سکتی تھی ۔
انھیں فیملی کیبن میں لے جا کر بٹھاتے ہوئے محمود نے عمارہ سے اس کی پسند پوچھی ۔
عمارہ نے جواب دیا ۔”آلو مٹر قیمہ بہتر رہے گا ۔“
”گڑیا تو بریانی ہی کھائے گی نا ؟“محمود نے دعا سے پوچھا ۔
اس نے اثبات میں سر ہلانے پر اکتفا کیا تھا ۔
محمود نے بیرے کو بلا کر کہا ۔”دو پلیٹ آلو مٹر قیمہ اور ایک بریانی لے آﺅ ۔“
”وہ جی سر !....“کہتے ہوئے باہر نکل گیا ۔
محمود نے عمارہ کو کچھ کہنے کے لیے لب ہلانے چاہے کہ اچانک دعا اٹھتے ہوئے بولی۔
”مجھے نہیں کھانا کھانا۔“یہ کہتے ہی وہ اٹھ کر دروازے کی طرف چل پڑی تھی ۔
”ارے گڑیا کیا ہوا ۔“محمود نے پریشان ہو کراسے آواز دی ۔مگر وہ سنی ان سنی کرتے ہوئے کیبن سے باہر نکل گئی تھی ۔
محمود نے سوالیہ نظروں سے عمارہ کی طرف دیکھا ۔وہ منہ بناتے ہوئے کندھے اچکا کر رہ گئی تھی ۔
”مجھے معلوم ہے ۔“محمود پھیکے انداز میں ہنسا ۔”چلو کھانا پیک کرواتے ہیں، گھر جا کر کھالیں گے۔“
”مگر ....“عمارہ نے کچھ کہنے کے لیے لب ہلانے چاہے ۔اور پھر محمود کو کاﺅنٹر کی طرف جاتے دیکھ کر اس نے اپنے لب سختی سے بھینچ لیے تھے ۔اس کے دماغ میں فوراََ محمود کی گفتگو گونجنے لگی ۔یقینا محمود عقل مند تھا جو اس نے عمارہ سے تعلق کی ابتدا کرنے سے پہلے ہی اس کے امکانی غصے کا سدباب کر دیا تھا ۔وہ اپنا شولڈ ر بیگ کندھے سے لٹکا کر پارکنگ کی طرف چل پڑی۔ دعا کار کے ساتھ ٹیک لگا کر منھ بنائے کھڑی تھی ۔
”یہ کیا حرکت ہے دعا !....جانتی ہو کتنی بد تہذیبی اور گنوار پن کی علامت ہے یہ ؟“ محمود کی آمد سے پہلے اس نے دعا کو ہلکی سی سرزنش کرنا ضروری سمجھا تھا ۔
عمارہ آپی !....یقینا آپ مجھے تہذیب سکھانے نہیں بلکہ اپنی پڑھائی مکمل کرنے آئی ہیں تو کیوں نہ آپ اپنی پڑھائی ہی پر توجہ دیں اور میرے اخلاق سدھارنے کا کام محمود بھیا پر چھوڑ دیں ۔“
اس کے جچے تلے جواب سے عمارہ سلگ کر رہ گئی تھی ۔کم عمر ہونے کے باوجود وہ بات کرنا جانتی تھی ۔عمارہ کو لگا وہ اتنا آسان ہدف بھی نہیں تھا ۔اس کے باوجود اس نے اپنی کوشش جاری رکھی ۔
”آپی بھی کہتی ہو اور میرے سمجھانے کا برا بھی مناتی ہو ؟“
”آپی تو میں خود سے بڑی ہر لڑکی کو کہتی ہوں تو کیا مجھ سے جتنی بھی بڑی لڑکیاں ہیں تمام کو اپنا سرپرست مان کر ان کے احکامات کی بجا آوری شروع کر دوں ۔“
عمارہ کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ وہ چھوٹی سی لڑکی اتنی حاضر جواب ہو گی ۔مگر اب خاموش ہو جانا ہار ماننے کے مترادف تھا اور وہ دعا سے ہار ماننے پر تیار نہیں تھی ۔
”مگر میں تو تمھاری سگی پھوپھو کی بیٹی ہوں تمھاری حقیقی آپی اور پھر میں تمھارے بھیا کی بیوی بھی تو بننے والی ہوں ۔“
اس کی آخری بات پر دعا نے اسے کڑے تیوروں سے گھورا عمارہ کو لگا وہ اسے خاموش کرانے میں کامیاب ہو گئی ہے ۔لیکن یہ اس کی خام خیالی تھی ۔ایک لمحے کی خاموشی کے بعد وہ نپے تلے الفاظ میں بولی ۔
” آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ بھیا کی بیوی کون بنے گی اس کا فیصلہ میں کروں گی ،اگر آپ کو میری بات میں کوئی شک ہے تو ابھی بھیا سے تصدیق کروا کر دے سکتی ہوں۔ اور جہاں تک تعلق ہے آپ کے آپی ہونے کا تو اسی وجہ سے تو اتنی دیر سے آپ کی جلی کٹی سن رہی ہوں اگر کوئی دوسری لڑکی ہوتی تو وہ کھری کھری سناتی کہ کسی اپنے کو بھی نصیحت کرنا بھول جاتی ۔“
”پتا نہیں اس کے علاوہ تم کیا کھری کھری سناﺅ گی ۔“جلے کٹے انداز میں کہہ کر وہ ہوٹل کے داخلی دروازے کی طرف متوجہ ہو گئی جہاں سے محمود پیک کرائے ہوئے کھانے کا شاپر پکڑے ان کے قریب آ رہا تھا ۔قریب آ کر اس نے کار کا دروازہ کھولا اور خاموشی سے اندر بیٹھ گیا اس وقت دعا سے کچھ پوچھنا جنگ چھیڑنے کے مترادف تھا ۔
دعا نے بھی محمود کے چہرے پر خفگی کے اثرات دیکھ لیے تھے ، مگر وہ ایسی باتوں کو خاطر میں لانے والی نہیں تھی ۔اس کے نزدیک خفا ہونا صرف اس کا حق بنتا تھا اور آج تک وہ اپنے اس حق کا بے دریغ استعمال کرتی آرہی تھی ۔
رستے بھر وہ خاموش رہے تھے ۔محمود نے ایک دو بار دعا کو مخاطب کرنے کی کوشش کی مگر وہ جواب دیے بغیر خاموش بیٹھی رہی ۔مجبوراََ محمود کو بھی چپ سادھنا پڑی۔
کار گیراج میں کھڑی کرتے ہی دعا ایک جھٹکے سے دروازہ کھولتے ہوئے نیچے اتری اور اپنے کمرے کی جانب بڑ ھ گئی ۔
”اچھا ایسا ہے آپ جا کر تازہ دم ہوں میں شاہینہ ماسی کو کہہ دیتا ہوں وہ آپ کے لیے کھانا گرم کر دے گی ۔مجھے فی الحال دعا کے ساتھ ہی کھانا پڑے گا ۔“
غلطی بھی اس کی ہے اور آپ اسے مناتے بھی رہیں گے ۔“
”غلطی کون سی ،چھوٹی سی بچی تو ہے وہ ۔“
”ویسے اس کی ناراضگی کی وجہ کیا ہے ؟“عمارہ نہ چاہتے ہوئے بھی پوچھ بیٹھی ،ورنہ اس کے نزدیک دعا کی شخصیت اتنی اہم نہیں تھی کہ پیٹھ پیچھے اسے یاد کیا جاتا ۔
”وجہ ....“محمود بے اختیار ہنس پڑا ۔”وجہ یہ ہے کہ آلو مٹر اسے پسند نہیں ہیں اور آج دوپہر کا کھانا بھی اس نے اسی وجہ سے نہیں کھایا تھا ۔آپ کے آلو مٹر قیمہ منگوانے کی وجہ سے میں نے بھی غلطی سے اسی سالن کا بتا دیا ۔اور یہ اس کے تیئں اسے نظر انداز کرنے والی بات ہے۔ بس خفا ہونے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگایا ۔“
”اور ابھی اگر آپ نے اسے نہ منایا پھر؟“عمارہ نے اسے کھوجتی ہوئی نگاہوں سے گھورا۔
”پھر وہ ساری رات بھوکی رہے گی اور صبح ناشتا بھی نہیں کرے گی ۔اسکول جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔“
عمارہ نے مشورہ دیتے ہوئے کہا ۔”میرا خیال ہے اگر ایک دو رات اسے بھوکا رہنے دیا جائے تو اس کا دماغ درست ہو سکتا ہے ؟“
”وہ تو شاید ایک رات کی بھوک برداشت کر لے ،اگر اس نے نہ کھایا تو مجھے ضرور کچھ ہو جائے گا ۔“ محمود نے افسوس بھرے انداز میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔”اللہ کی بندی مجھے ابھی تک اس کے دوپہر کو کھانا نہ کھانے کی تکلیف محسوس ہو رہی ہے اور آپ اس کے رات بھر بھوکا رہنے کی تیاری کیے بیٹھی ہیں ۔“
”اس طرح تو وہ نہیں سدھرے گی ۔“
”وہ بگڑی کب ہے کہ سدھرے گی ؟“اس مرتبہ محمود کے لہجے میں طنز شامل تھا ۔
”تو اور بگڑنا کسے کہتے ہیں ۔“
”یہ بگڑنا نہیں ہے محترمہ !....یہ صرف اپنے بھیا سے لاڈ اٹھوانا ہے ۔ایسا وہ صرف میرے ساتھ کرتی ہے ۔وہ میرے بارے حساس ہے اور وہ اگر کھانا چھوڑ کر آئی ہے تو اسی لیے آئی ہے کہ اسے یقین تھا کہ بریانی اس کے پیچھے پیچھے پہنچے گی ۔اور مجھے یہ بتاﺅ جب آپ اس کے پاس پہنچی تھیں کیا وہ آپ سے باتیں کر نہیں رہی تھی ؟“
”ہاں کر رہی تھی ۔“عمارہ نے اعتراف میں سر ہلایا۔
”اور جب میں نے دو تین بار مخاطب کیا تو کوئی جواب بھی نہیں دیا ۔کس لیے ؟.... کیونکہ ناراضگی صرف میرے ساتھ تھی ۔“
”ٹھیک ہے جی !“عمارہ کار سے باہر نکلتی ہوئی بولی ۔”آپ جانیں اور آپ کی لاڈلی، مجھے اس جھگڑے سے دور ہی رکھو ۔“
محمود بھی کار سے باہر نکل آیا ۔شاہینہ ماسی کو کھانے کا پیکٹ دے کر اس نے گرم کرنے کا کہا اور خود تازہ دم ہونے کے لیے اپنے کمرے میں گھس گیا ۔
اس کے واپس باورچی خانے پہنچنے تک شاہینہ ماسی بریانی گرم کر کے ٹرے میں ڈال چکی تھی۔ اس نے اپنے لیے بھی بریانی ہی پیک کروائی تھی ۔عمارہ کے لیے ماسی کو کھانا لگانے کا کہہ کر وہ خود ٹرے اٹھا کر دعا کے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔وہ اسکول ہی کے کپڑوں میں بیڈ پر لیٹی تھی ۔ کھانے کی ٹرے سنٹر ٹیبل پر رکھ کر وہ اس کے ساتھ بیٹھ گیا ۔
”جی اب بتائیں کیا ہوا ہے ؟“جانتے بوجھتے وہ انجان بن گیا تھا ۔مگر وہ اس کی بات کا جواب دیے بغیر خاموش لیٹی رہی ۔
”گڑیا کچھ پتا تو چلے نا....اب خواہ مخواہ ہوٹل سے اٹھ کر بھاگ آنا ۔جانے تمھاری عمارہ آپی بھی کیا سوچ رہی ہو گی کہ کتنی بدتمیز گڑیا ہے محمود کی ،جو نہ تو اس کی بات مانتی ہے اور نہ بڑوں کا احترام کرتی ہے ۔“
”کسی کو میرے بارے سوچنے کی ضرورت نہیں سمجھے ،آپ کو بھی نہیں ہے ۔جائیں اپنی عمارہ کے ساتھ آلو مٹر کھائیں ۔“وہ تو جیسے دکھ سے بھری ہوئی تھی ایک دم پھٹ پڑی ۔
”ہاہاہا۔“ محمود نے قہقہہ لگا کر اس کا ماتھا چوم لیا ۔”بس اتنی سی بات پر خفا ہو گئی ہو ۔“
”یہ اتنی سی بات ہے ۔جب آپ کو معلوم ہے کہ مجھے آلو مٹر پسند نہیں ہیں تو آپ نے اپنے لیے کیوں منگوائے ؟“
”اچھا غلطی ہو گئی میری توبہ ۔“محمود نے فوراََ اپنے کان پکڑ لیے تھے ۔”اب اٹھو اور بریانی کھاتے ہیں ۔میں اپنے لیے بھی بریانی ہی لایا ہوں ۔“
”ایک چمچ بھی بریانی کا نہیں لینے دوں گی سمجھے آپ ،بس مجھے کھلائیں ۔“اس نے دوٹوک فیصلہ سنا دیا ۔
”ٹھیک ہے میں نہیں کھاتا ۔یوں بھی میری گڑیا جو کچھ کھاتی ہے وہ میرے ہی پیٹ میں تو جاتا ہے ۔“محمود نے اسے بازوﺅں میں بھر کر اٹھایا اور صوفے پر لا کر بٹھا دیا ۔
اس کے ہاتھ سے دو تین چمچ کھانے کے بعد وہ ناراضگی ختم کرتے ہوئے بولی ۔
”اچھا ٹھیک ہے اب خود بھی کھا لیں ۔“
محمود نے ہنس کر پوچھا ۔”مجھے میری گڑیا نہیں کھلائے گی ؟“
اس نے انکار میں سرہلایا۔”نہیں ....میری ناراضگی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی ۔“
”ایک چمچ تو کھلا ہی سکتی ہو نا ۔“محمود نے منت بھرے لہجے میں کہا ۔اور وہ اثبات میں سر ہلا کر اسے کھلانے لگی ۔
کھانا کھا کر محمود نے اسے کپڑے تبدیل کر کے آرام کرنے کا کہا اور بریانی کی ٹرے اٹھائے اس کے کمرے سے نکل آیا۔ عمارہ ابھی تک کھانے کی میز پر بیٹھی تھی ۔وہ اسی کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا ۔
”راضی ہو گئی ہے آپ کی لاڈلی !“اس نے بظاہر ہنس کر پوچھا تھا مگر جانے کیوں محمود کو اس کی ہنسی کے پیچھے طنز چھپا نظر آرہا تھا ۔
محمود کو اس کے طنز یا غصے کی کوئی پروا نہیں تھی ۔وہ اطمینان بھرے لہجے میں بولا ۔ ”اسے منانا تو میرے بائیں ہاتھ کا کام ہے ۔“
”ویسے آپ کو نہیں لگتا کہ وہ بڑی ہو گئی ہے اور اب اسے بچگانہ حرکتیں اور ضد چھوڑ دینا چاہیے ۔“
”بڑی ہو گئی ہے ۔“محمود کے لہجے میں حیرانی بھری تھی ۔ ”عمارہ آپ بھی کمال کرتی ہیں ۔“یہ کہتے ہی اس نے وہاں رکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی ۔عمارہ گہری سوچ میں کھو گئی تھی ۔محمود کو پانے کی راہ میں ایک بہت بڑا کانٹا اسے دعا کی صورت نظر آ رہا تھا ۔وہ چھوٹی سی لڑکی اتنا بڑا فتنہ ہو گی یہ اس کی وہم و گمان میں بھی نہیں تھا ۔اور آج جس طرح اس نے عمارہ کو محمود کی شادی کے بارے متنبّہ کیا تھا وہ اسے سر سے پاﺅں تک سلگانے کے لیے کافی تھا ۔اب تک عمارہ اس کے طنزیہ لہجے کی تلخی دماغ سے جھٹک نہیں پائی تھی ۔وہ فقرہ بار بار اس کے دماغ میں گونجنے لگتا ۔
” آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ بھیا کی بیوی کون بنے گی اس کا فیصلہ میں کروں گی ،اگر آپ کو میری بات میں کوئی شک ہے تو ابھی بھیا سے تصدیق کروا کر دے سکتی ہوں۔“
اس بارے عمارہ نے محمود سے بھی کوئی بات نہیں کی تھی نہ جانے کیوں اسے دعا کے کہے ہوئے الفاظ میں شبے کی کوئی گنجائش نظر نہیں آ رہی تھی ۔
رات کو بستر پر لیٹتے ہوئے بھی وہ کافی دیر اسی بارے سوچتی رہی آخر وہ اسی نتیجے پر پہنچی کہ اسے دعا کو اپنے حق میں کرنے کے لیے اس وقت تک برداشت کرنا ہو گاجب تک کہ محمود سے اس کی بات پکی نہیں ہو جاتی ،ورنہ بعید نہیں تھا کہ وہ اس کے اور محمود کے ملاپ میں سچ مچ رکاوٹ کھڑی کر دیتی ۔

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں 

غیرت مند عاشق اردو کہانی - پارٹ 5

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں