غیرت مند عاشق - پارٹ 5

 اردو کہانی

Sublimegate Urdu Font Stories

غیرت مند عاشق -  پارٹ 5

صبح ناشتے کی میز پر عمارہ نے اپنے منصوبے کی طرف پہلا قدم بڑھایا اور دعا کے لیے بریڈ پر جیم لگا کر اس کے سامنے رکھے ۔مگر دعا نے وہ پلیٹ ایک طرف کرتے ہوئے کہا ۔

”عمارہ آپی !....آپ نے جیم کچھ زیادہ ہی لگا دیا ہے یہ آپ خود ہی کھا لیں ۔“یہ کہہ کر وہ محمود کی طرف متوجہ ہوئی ۔ ”بھیا !....میں آپ کو نظر آ رہی ہوں کہ نہیں ؟“
اور محمود جو عمارہ کے اقدام پر دل ہی دل میں خوشی محسوس کرتے ہوئے اپنا ناشتہ کر رہا تھا دعا کی بات سنتے ہی جلدی سے بولا۔
”ہاں ہاں ابھی اپنی گڑیا کا ناشتہ تیار کرتا ہوں ۔“

”تم نے چکھے بغیر کیسے فیصلہ کر دیا کہ عمارہ نے جیم زیادہ لگایا ہے ؟“ رخسانہ سے چپ نہیں رہا گیا تھا ۔دعا کو کڑے تیوروں سے گھورتے ہو ئے اس نے سخت لہجے میں پوچھا ۔

”امی جان !....میں نے کسی کو نہیں کہا ہے کہ میرے لیے ناشتہ تیار کرے ۔ اور جب مجھے بھیا کے علاوہ کسی کے ہاتھ کا تیار کیا ناشتہ اچھا نہیں لگتا تو میں کیوں کھاﺅں ؟“
”عمارہ بیٹی !....دفع کرو اس بد تمیز کو اس کے لاڈ اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔یہ جانے اور اس کا بھیا محمود !“یہ کہتے ہوئے رخسانہ نے غصے بھری نگاہ محمود پر ڈالی جو دعا کو اس کی بدتمیزی پر ڈانٹنے کے بہ جائے اس کے لیے سرعت سے بریڈ تیار کر رہا تھا ۔

”کوئی بات نہیں ممانی جان !“عمارہ نے غصے کا کڑوا گھونٹ حلق سے اتارتے ہوئے بظاہر مسکرا کر کہا ۔”چھوٹی سی بچی ہی تو ہے ۔“
”اب آپ کے منھ میں بھی محمود کی زبان آ گئی ہے ۔“رخسانہ چچی نے عمارہ کو ہلکے سے ڈانٹا۔”چھٹی کلاس میں پڑھ رہی ہے اور ابھی تک بچی ہے ۔نہ کسی بڑے کی تمیز ہے اور نہ بات کرنے کا سلیقہ ۔ جانے کیا بنے گا اس لڑکی کا ۔اور اسے بگاڑنے میں سارا ہاتھ اس کے بھیا صاحب کا ہے ۔دیکھا نہیں اپنا ناشتا چھوڑ کر کیسے جلدی جلدی اس کے لیے ناشتا تیار کر رہا ہے ۔ یہ نہیں کہ اس کی بدتمیزی پر اسے ڈانٹے ۔ مجال ہے جو اس لڑکے کو ذرا بھر بھی یہ پروا ہو کہ لڑکی روز بہ روز بدتمیز اور خود سر ہوتی جارہی ہے ۔“

محمود جانتا تھا کہ چچی کا غصہ اس کی طرف رخ کرنے والا ہے لیکن وہ سر جھکائے دعا کے لیے بریڈپر جیم لگاتا رہا ۔بریڈ اس کے سامنے رکھ کر محمود نے اس کے لیے انڈہ چھیلا اور پھر ملک شیک کا گلاس بھی اسے پکڑا دیا ۔
دعا ماں کی پروا کیے بغیر ناشتے کو جڑ گئی ۔محمود بھی خفیف سی ہنسی ہونٹوں سے چپکائے اپنے ناشتے کی طرف متوجہ ہو گیا ۔رضوان چچا نے اس معاملے میں بالکل بھی زبان نہیں کھولی تھی۔ یوں بھی یہ آئے روز کا تماشا تھا ۔محمود کو وہ کئی بار نصیحت کر چکا تھا اور اس کی ادنا سی بات پر عمل کرنے والے محمود نے اس معاملے میں کبھی بھی اس کی نصیحت کو درخور اعتنا نہیں جانا تھا ۔

چھٹی کے وقت عمارہ کو یونیورسٹی سے اٹھاتے وقت محمود نے اس کا شکریہ اداکرنا نہیں بھولا تھا ۔
”’شکریہ عمارہ !....آپ نے دعا کی بات کا برا منائے بغیر اس کی طرف داری کی ۔
”کوئی بات نہیں محمود !....وہ بے وقوف سی بچی ہی تو ہے ۔“اس نے خود پر جبر کرتے ہوئے جواب دیا ۔اس کی بات پر محمود نے جاندار قہقہہ لگایا تھا ۔
محمود کی حالت دیکھتے ہوئے عمارہ کو بچپن میں سنی ہوئی وہ کہانی یاد آ گئی تھی جس میں ایک دیو کی جان چھوٹے سے طوطے میں ہوتی ہے ۔اسے لگا محمود کی جان بھی دعا کے اندر تھی اور اب اسے محمود کو دعا کے اثر سے باہر نکالنا تھا ۔بغیر ماں باپ کے پلنے والا لڑکا اپنی ساری توجہ اور محبت اپنے چچا کی بیٹی کو بہن بنا کر اس پر نچھاور کر رہا تھا ۔
اب اس کی توجہ کا رخ اپنی جانب موڑنا تھا ۔اسے اپنی محبت اور توجہ کے جال میں ایسے گرفتار کرنا تھا کہ وہ اپنی ساری توجہ اور محبت عمارہ کی جانب پھیر دیتا ۔اور اس بات میں لازماََ وقت تو لگنا تھا اور وقت کی اس کے پاس کوئی کمی نہیں تھی۔ سب سے بڑھ کر محمود اگر کسی دوسری لڑکی سے محبت نہیں کرتا تھا ۔اس کی رقیب کوئی جوان لڑکی نہیں بلکہ محمود کی چھوٹی بہن تھی ۔یوں بھی محمود اور دعا کی عمروں کا تفاوت دیکھتے ہوئے اس کا دماغ اس متعلق سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ محمود ،دعا کو چھوٹی بہن کے علاوہ کوئی اور مقام دے بھی سکتا تھا ۔
دعا کو اسکول سے اٹھا کر وہ گھر کی طرف بڑھ گئے ۔رستے میں عمارہ ، دعا کی تعلیم ،اس کی سہیلیوں اور اساتذہ وغیرہ کے بارے پوچھ کر اسے خود سے مانوس کرنے کی کوشش کرتی رہی ۔ اس دوران ایک بات اسے اچھی طرح محسوس ہو گئی تھی کہ دعا کا رویہ اکھڑا اکھڑا سا تھا نا معلوم ایسی کیا بات تھی کہ وہ اس کی محبت بھری گفتگو کو کوئی توجہ دینے پر آمادہ نظر نہیں آ رہی تھی ۔اس کے دل میں دعا کے لیے نفرت کا گراف مزید اونچا ہو گیا تھا لیکن اس کے باوجود اسے یہ ڈراما کرتے رہنا تھا ۔ دعا کی ہر بدتمیزی اور بےجا ضد پر اسے ”چھوٹی سی بچی ہی تو ہے ۔“کا وہ فقرہ بولتے رہنا تھا جو محمود کے لیے پسندیدہ ترین فقرہ تھا ۔
اسی دن رات کا کھانا کھا کر محمود نے عمارہ کو تیار ہونے کا کہا اور خود دعا کے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔

”چلو گڑیا !....آئس کریم کھانے چلیں ۔“وہ اس وقت اپنی کتابیں کھولے محمود ہی کی منتظر تھی ۔ سونے سے پہلے وہ اسکول کا کام ضرور مکمل کرتی ۔اس ضمن میں محمود روزانہ اس کا ہاتھ بٹاتا تھا ۔
”سچ بھیا !....“وہ خوشی سے اچھل پڑی ۔
”ہاں اور عمارہ آپی کا تھوڑا سا خیال کیا کرو گڑیا !....وہ ہمارے گھر مہمان ہیں ۔اور پھر تم سے بھی کتنے پیار سے پیش آتی ہیں ۔تمھیں تو خوش ہونا چاہیے کہ بھیا کے ساتھ ایک پیار کرنے والی آپی بھی تمھیں مل گئی ہیں ۔“
”بھیا اب تو میں نے ایسی کوئی بد تمیزی نہیں کی کہ آپ کو سمجھانے کی ضرورت پیش آئے ۔“
”بد تمیزی تو میری گڑیا کسی سے بھی نہیں کرتی ۔“ اس کی بغلوں میں ہاتھ دے کر عمار نے سر سے بلند کیا ۔”یہ تو میں یونھی اپنی شہزادی گڑیا کو سمجھا رہا تھا ۔“
”بھیا !....کہیں عمارہ آپی بھی ہمارے ساتھ ہی تو نہیں جا رہیں ۔“
”ہاں نا ....وہ ہماری مہمان ہیں اور مہمان کی خدمت سے تو اللہ پاک خوش ہوتے ہیں ۔“
”ٹھیک ہے آپ لوگ جائیں ،مجھے پڑھائی کرنا ہے ۔“دعا کی خوشگواری فوراََ سنجیدگی میں تبدیل ہو گئی تھی ۔
”یہ بھلا کیا بات ہوئی ۔“اسے نیچے اتار کر محمود نے خفگی بھرے لہجے میں پوچھا ۔
”بھیا !....آپ ،عمارہ آپی کو روزانہ یونیورسٹی چھوڑنے اور لانے جاتے ہیں میں نے کبھی اعتراض نہیں کیا ۔لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ ہر وقت ہمارے بیچ گھسی رہیں گی ۔“
”گڑیا بدتمیزی نہیں کرتے ۔“محمود نے اسے ہلکے سے ڈانٹا ۔
”اگر یہ بد تمیزی ہے تو میں کرتی رہوں گی سمجھے آپ ....اور جائیں اپنی لاڈلی مہمان کو ساتھ لے جائیں ۔میں نے نہیں جانا ۔“
عمارہ تیار ہو کر اپنے کمرے سے نکل آئی تھی ۔دعا کے غصے بھری آواز اس کے کانوں میں پڑی اور وہ اس کے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔
”ارے ہماری گڑیا کس بات پر غصے ہو رہی ہے ۔“کھلے دروازے سے اندر قدم دھرتے ہوئے اس نے لہجے میں مٹھاس سمونے کی کوشش کی تھی ۔
”کچھ نہیں ایسے ہی کبھی کبھی بے وقوف بن جاتی ہے ۔“محمود نے جلدی سے دعا کی بات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ۔

وہ کہاں باز آنے والی تھی ،فوراََ بولی ۔”بے وقوف نہیں ہوں ،سب سمجھتی ہوں ۔“
”ہوا کیا ہے آخر، مجھے بھی تو بتائیں ۔“عمارہ ان دونوں کے بیچ خود کو ہونّق محسوس کر رہی تھی ۔نامعلوم دونوں کس بات پر جھگڑتے اور کیسے راضی ہوتے تھے ۔
”ہوا یہ ہے کہ آئس کریم کھانے میں اور بھیا جا رہے ہیں ہمارے ساتھ اور کوئی نہیں آ رہا ۔“دعا نے بغیر لگی لپٹی اصل بات اگل دی ۔
عمارہ کو لگا کسی نے اس کے سر پر بم پھوڑ دیا ہو ۔وہ حد سے زیادہ خود سر لاڈلی اور ناقابل ِعلاج تھی ۔
ایک دو لمحے اسے خود پر قابو پانے میں لگے مگر جب اس نے زبان کھولی تو یہ غصہ مفقود تھا ۔”ہاں یہ ٹھیک ہے ،مجھے ویسے بھی تھوڑا مطالعہ کرنا تھا ۔“یہ کہتے ہوئے وہ ایک جھٹکے سے پیچھے مڑی اور دعا کے کمرے سے باہر نکل گئی ۔
”چلیں اب ۔“دعا نے افسوس بھری نظروں سے اپنی جانب گھورتے محمود کا ہاتھ پکڑ کر اسے دروازے کی جانب کھینچا ۔اور وہ بے بسی کا گہرا احساس لیے اس کے ساتھ چل پڑا ۔
واپس لوٹتے ہوئے دعا نے ۔”عمارہ آپی کے لیے بھی آئس کریم لے لیں ۔“کہہ کر محمود کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دی تھی ۔اسے امید ہو چلی تھی کہ عمارہ جلد ہی دعا کے دل میں جگہ بنا لے گی اور اسے بھی ایسی ہی شریک حیات کی ضرورت تھی جو ہمیشہ اس کی گڑیا کی زیادتیوں کو خوش دلی سے برداشت کرتی رہے ۔
کار گیراج میں کھڑی کرتے ہوئے اس نے دعا کو کہا تھا کہ وہ خود عمارہ آپی کو آئس کریم دے آئے ۔وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے عمارہ کے کمرے کی طرف بھاگ گئی ۔دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے وہ اندر داخل ہوئی ۔عمارہ اس وقت اپنی کتابیں کھولے بیٹھی تھی مگر اس کا دماغ اپنے اور محمود ہی کے بارے سوچ رہا تھا ۔
”آپی!.... آپ کے لیے آئس کریم لائی ہے ۔“دعا نے قریب جا کر آئس کریم کا کپ اس کی جانب بڑھایا ۔عمارہ کا جی تو چاہ رہا تھا کہ وہ کپ اس کے منھ پر دے مارے ،مگر زبردستی کی مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر بکھیرتے ہوئے اس نے آئس کریم کا کپ دعا کے ہاتھ سے لیا ۔

”ارے واہ !....ہماری گڑیا تو بہت اچھی ہے اور اپنی آپی کا اتنا خیال کرتی ہے ۔“
”سوری آپی !....کل ہم آپ کو بھی ساتھ لے جائیں گے ۔“دعا نے آنکھیں جھکاتے ہوئے آہستہ سے کہا ۔
اسے اپنے ساتھ لپٹاتے ہوئے عمارہ نے اس کے گال کو چوما اور مسکراتے ہوئے بولی۔
”اگر میری چھوٹی سی بہن مجھے ساتھ لے جائے گی تو میں ضرور چلوں گی ۔“
محمود یہ سارا منظر دروازے پر کھڑے ہو کر دیکھ رہا تھا اس کا دل خوش گوار انداز میں دھڑکنے لگا ۔
دعا کے وہاں سے نکلتے ہی وہ عمارہ کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولا ۔” اتنی سی بات تھی۔ دعا راضی ہو گئی ہے نا ۔بچے تو بس توجہ کے بھوکے ہوتے ہیں ۔اور یقین مانو اس نے خود سے یہ کہا کہ آپی کے لیے آئس کریم خریدتے ہیں ۔اب کل آپ کو اپنے ساتھ لے جانے پر بھی تیار ہو گئی ہے ۔“
”تو میں نے کب شکایت کی ہے ۔“عمارہ آئس کریم کا کپ کھول کر کھانے لگی ۔
”اچھا میں گڑیا کو اسکول کاکام کروا دوں ۔“وہ کھڑا ہو گیا ۔
”کبھی مجھ سے بھی پوچھ لیا کریں یا میں کوئی ٹیوٹر رکھ لوں ۔“
”جو چیز سمجھ میں نہ آئے وہ میرے لیے چھوڑ دیا کرو، گڑیا کو پڑھا کر تمھیں بھی سمجھا دیا کروں گا ۔“
”ٹھیک ہے ۔“عمارہ نے اثبات میں سر ہلایا اور محمود اس کے کمرے سے نکل گیا ۔
”کبھی تو وہ دن بھی آئے گا جب تم مجھ سے پوچھو گے کہ کیا میں دعا کے پاس جا سکتا ہوں اور میں انکار میں سر ہلا دوں گی ۔“زہربھری سوچیں دماغ میں پالتے ہوئے وہ آئس کریم کھاتی رہی ۔آئس کریم کی ٹھنڈک بھی اس کی تپتی سوچوں کو ٹھنڈا نہیں کر پائی تھی ۔

صبح ناشتے کی میز پر ایک بار پھر اس نے جرّات کر کے دعا کے لیے بریڈ پر جیم لگا کر اس کے سامنے رکھے۔یہ دیکھ کر محمود کی خوشی کی انتہا نہیں رہی تھی کہ دعا بغیر ناک بھوں چڑھائے بریڈ کھانے لگ گئی تھی ۔عمارہ نے آہستہ آہستہ دعا کے دل میں جگہ بنانے کے ساتھ محمود کو بھی اپنا گرویدہ کر لیا تھا ۔چند ماہ کے اندر وہ اچھی خاصی عمارہ سے مانوس ہو گئی تھی ۔لیکن کچھ باتوں پر وہ اب بھی سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں تھی ۔کار کی اگلی نشست پر صرف اس کا حق تھا ۔عمارہ اسے ڈانٹ نہیں سکتی تھی بس اس کی تعریفیں کر سکتی اور اس کے ہر غلط کام پر اس کی طرف داری کر سکتی تھی ۔
محمود بھی عمارہ کی موجودگی میں اسے نہیں سمجھا سکتا تھا ۔عمارہ محمود کے ساتھ اکیلے کہیں نہیں جا سکتی تھی اور ان دونوں کے ساتھ بھی اس کے جانے کا انحصار دعا کے چاہنے پر منحصر ہوتا تھا ۔دعا کے کسی بات پر ناراض ہونے یا خفا ہوجانے کی صورت میں عمارہ کو اجازت نہیں تھی کہ اسے منائے ورنہ وہ مزید بگڑ جاتی ۔

ان تمام باتوں پر سمجھوتہ کر کے عمارہ نے محمود کے دل میں اپنے لیے کافی جگہ پیدا کر لی تھی ۔اب یونیورسٹی سے اسکول تک جاتے ہوئے محمود اس سے ہلکی پھلکی محبت بھری باتیں کر لیتا تھا۔ اس کے ساتھ وہ مستقبل کے متعلق بھی کچھ نہ کچھ سوچ لیتے تھے ۔عمارہ کو دو تین بار وہ چوری چوری شاپنگ بھی کروا لایا تھا ۔اس مقصد کے لیے عمارہ کو یونیورسٹی اور محمود کو دفتر سے چھٹی کرنا پڑی تھی ۔ عمارہ اپنی کارکردگی سے مطمئن تھی ۔
انھی دنوں اس نے محمود پر زور دینا شروع کر دیا کہ وہ چچا رضوان کو کہہ کراس کا باقاعدہ رشتہ طلب کرے ۔محمود زیادہ دن اس کی بات نہ ٹال سکا اور رخسانہ چچی اور چچا رضوان کو اس نے عمارہ کا رشتہ مانگنے شہناز پھوپھو کے گھر بھیج دیا۔شہناز پھوپھو نے ہاں کرنے میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں کی تھی ،محمود جیسے سلجھے ہوئے ،باتمیز اور برسرروزگار لڑکے کے رشتے سے بھلا کون انکار کر سکتا تھا۔
منگنی کی تقریب گاﺅں میں ہوئی تھی ۔دعا آخری وقت تک اس بات سے بے خبر تھی کہ اس کے بھیا کی منگنی ہونے جا رہی ہے ۔اس کے کان اس وقت کھڑے ہوئے جب عمارہ اور محمود نے ایک دوسرے کو منگنی کی انگوٹھیاں پہنائیں ۔غصے کی شدت سے وہ ایک لمحہ بھی وہاں نہ رکی اور فوراََ شہناز پھوپھو کے گھر سے نکل کرعمران چچا کے گھر میں آگئی تھی ۔سارے گھر والے شہناز پھوپھو کے گھر میں تھے وہ اکیلی ہی صحن میں بچھی چارپائی پر لیٹ گئی ۔
منگنی کی رسم ادا ہوتے ہی محمود کی بےچین نگاہیں اس کی متلاشی ہوئیں مگر وہ وہاں نہیں تھی ۔مختلف لوگوں سے پوچھتا ہوا وہ اپنے چاچوں کے گھر آگیا ۔دعا کو وہاں مغموم لیٹا دیکھ کر وہ تڑپ کر آگے بڑھا ۔
”ارے میری گڑیا !....میں تمھیں وہاں ڈھونڈ رہا ہوں اور تم یہاں لیٹی ہوئی ہو ۔“
مگر دعا اس کی بات کا جواب دیے بغیر لیٹی رہی ۔
”کیا بات ہے بھیا کی جان ۔“وہ اس کے ساتھ بیٹھ گیا ۔
”آپ نے مجھے بتائے بغیر آپی سے شادی کیوں کی ؟“
”شادی تو نہیں ہوئی ،ابھی تو صرف منگنی ہوئی ہے اور شادی تو میں اپنی گڑیا سے پوچھ کر ہی کروں گا ۔“
”تو کیا منگنی کسی اور سے اور شادی کسی اور سے کی جا سکتی ہے ؟“اس نے سوالیہ لہجے میں پوچھا ۔

”ہاں کیوں نہیں ۔“محمود اس کے اتنی جلدی مان جانے پر کھل اٹھا تھا ۔اسے منگنی کے بارے بھی اس نے اسی لیے پہلے سے آگاہ نہیں کیا تھا کہ وہ کوئی نہ کوئی ہنگامہ کھڑا کر دیتی ۔
”یاد رکھنا ،اگر شادی سے پہلے مجھ سے نہ پوچھا نہ تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روٹھ جاﺅں گی ۔“دعا نے فوراََ اسے تنبیہ کی ۔
”اپنی گڑیا کو بھلا میں روٹھنے دے سکتا ہوں ۔“محمود اس کے پیٹ میں گدگدی کرنے لگا اور وہ کھل کھلا کر ہنسنے لگی ۔
٭٭٭
منگنی کے بعد عمارہ کے رویے میں بتدریج تبدیلی آنے لگی تھی ۔پہلے ہی دن اس نے اکیلے میں دعا کو طعنہ دینے کے انداز میں کہا ۔
”تم تو کہہ رہی تھیں کہ تمھارا بھیا تم سے پوچھے بغیر شادی نہیں کرے گا ۔اور اس کی شادی کس سے ہونا ہے یہ تم طے کرو گی ،جبکہ اس نے تو تمھیں منگنی کی ہوا بھی نہیں لگنے دی ۔“
”تو ٹھیک کہا تھا نا ،شادی وہ مجھ سے پوچھ کر ہی کرے گا ۔یہ تو منگنی تھی ۔“
”تو شادی اسی سے ہی ہوتی ہے جس سے منگنی کی جائے ۔“ عمارہ اس کی بےوقوفی پر طنزیہ انداز میں مسکرادی ۔اسے رقیب بھی ملی تھی تو نا سمجھ بچی جسے اپنی ہار کا بھی پتا نہیں تھا ۔
”نہیں بھیا نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مجھ سے پوچھ کر ہی شادی کریں گے ۔“دعا نے تیقن سے کہا اور وہاں سے چل دی ۔
جبکہ عمارہ فخریہ اندا زمیں مسکرانے لگی ۔آخر اس نے محمود کو جیت ہی لیا تھا ۔محمود کے نام کی سنہری انگوٹھی کو ہونٹوں کے قریب لا کر اس نے محبت سے چوم لیا۔
اپنی عارضی جیت کی خوشی میں اس نے دعا سے قائم کیے ہوئے تعلق کو توڑ دیا تھا ۔ وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ چھوٹی سی بچی کتنی حساس اور سمجھ دار ہے۔
٭٭٭
اگلی صبح ناشتے کی میز پر اس نے حسب سابق دعا کے لیے بریڈ تیار کر کے اس کے سامنے رکھے ۔جنھیں بے زاری سے ایک جانب کرتے ہوئے وہ محمود کو مخاطب ہوئی ۔
”بھیا !....آپ کو میری بھی کوئی فکر ہے کہ بس اپنے ناشتے اور کھانے پینے ہی کی لگی رہتی ہے ۔“
”تمھارے لیے آپی نے بریڈ تیار کر دیے ہیں نا ؟“محمود نے حیرانی سے اس کی جانب دیکھا ۔
”مگر مجھے آپ کے ہاتھ سے ناشتا کرنا ہے سمجھے آپ ۔“
”کیوں نہیں جی بالکل ۔“وہ اس کے ساتھ ہی بیٹھا تھا ذرا سا اٹھ کر اس نے دعا کے ماتھے پر بوسا دیا ہے اور اس کے لیے ناشتا تیار کرنے لگا ۔
”کل تک تو میرے ہاتھ کا بنا ناشتا ٹھیک تھا ،آج ایسا کیا ہوگیا ؟“ عمارہ نے طنزیہ لہجے میں پوچھا ۔
دعا تنک کر بولی ۔”میں آپ کو جواب دینے کی پابند نہیں ہوں ۔“
رخسانہ کو بھی جانے کیوں عمارہ کا انداز پسند نہیں آیا تھا لیکن وہ خاموش بیٹھی رہی ۔ یوں بھی ناشتے اور کھانے کی میز پر دعا کا بگڑنا روز کا معمول تھا ۔
”اچھا چھوڑو گڑیا !....میں ہوں نا ،سب کچھ میں خود ہی تیار کروں گا ۔عمارہ کو کوئی ضرورت نہیں ہے میری گڑیا کا ناشتا تیار کرنے کی ۔“
عمارہ ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ سجا کر اپنا ناشتا کرنے لگی ۔اسے دعا کے غصے کی بابت اچھی طرح معلوم تھا لیکن اب اسے دعا کی چاپلوسی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ اس نے جو مقصد حاصل کرنا تھا وہ کر لیا تھا ۔لیکن دعا ،محمود کو کس قدر عزیز تھی ابھی تک بھی وہ بے وقوف یہ انداز ہ نہیں کر پائی تھی ۔وہ محمود سے منگنی ہو جانے ہی کو کامیابی کی معراج سمجھ رہی تھی حالانکہ نکاح اور شادی کا مرحلہ باقی تھا ۔
٭٭٭
”محمود بھائی !....میری سمجھ میں یہ سوال نہیں آ رہا ؟“ اسی رات دعا ہاتھ میں ریاضی کی کتاب اٹھائے بے دھڑک عمارہ کے کمرے میں گھس گئی تھی۔
اسے دیکھ کر عمارہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔ مگر وہ کچھ بولے بنا خاموش بیٹھی رہی۔
محمود نرمی سے بولا۔”اچھا گڑیا !تم کل سمجھ لینا پلیز۔میں عمارہ کے ساتھ تھوڑی مدد کر لوں۔“
”بالکل بھی نہیں ۔“وہ ہٹ دھرمی سے بولی ۔”جب تک مجھے سبق یاد نہیں ہوتا آپ کسی اور کو نہیں پڑھائیں گے ۔“
”گڑیا !....“محمود نے آواز میں غصہ سمونے کی ناکام کوشش کی ۔”ابھی تمھیں سب کچھ سمجھا کر تو آیا ہوں ۔“
”تو اب مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا نا،اور کل ٹیسٹ بھی ہے ۔میں نہیں چاہتی کسی کے مجھ سے زیادہ نمبر آئیں۔“
”اچھا میں تھوڑی دیر بعد آتا ہوں۔“
”نہیں پہلے مجھے پڑھاو گے ۔“دعا نے آگے بڑھ کر بدتمیزی سے عمارہ کی کتاب بند کر دی ۔اور محمود کے بازو سے پکڑتے ہوئے بولی ۔”اٹھیں.... اٹھیں چلیں میرے ساتھ ۔“
”کتنی بد تمیز ہو گئی ہو گڑیا !“محمود بے بسی سے بولا۔
”اسے ایک لگاو نا ،تاکہ بڑے چھوٹے کی تمیز اس کی سمجھ میں آجائے ۔“عمارہ سے اپنا غصہ برداشت نہ ہوسکا اور وہ پھٹ پڑی ۔
”او بی بی !....“دعا تنک مزاجی سے بولی ۔”یہ غصہ کسی اور کو دکھانا۔مجھے کوئی ہاتھ لگا کر تو دیکھے ۔“

”محمود !....دیکھ رہے ہو اسے ۔“عمارہ نے محمود کو اکسایا۔منگنی ہونے کے بعد وہ دعا کو وہ اہمیت دینے پر تیار نہیں تھی جس کا محمود متقاضی تھا۔
محمود نے ایک گہرا سانس لیا اور دعا کی جانب ملتجی نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔ ”گڑیا!....میری بات نہیں مانو گی ۔“
”جی نہیں ۔“دعا نے نفی میں سر ہلایا۔
”اف....“کہہ کر وہ کھڑا ہوگیا ۔”اچھا عمارہ میں اسے یہ سوال سمجھا کر آتا ہوں ۔“
دعا نے فاتحانہ نظروں سے عمارہ کی جانب دیکھا اور محمود کو ساتھ لیے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی ۔جبکہ عمارہ خاموشی سے اپنے ہونٹ کاٹتی رہی ۔اسے محمود پر سخت غصہ چڑھا ہوا تھا جو اس بالشت بھر چھوکری کی کوئی بات نہیں ٹالتا تھا ۔
”جی بتاو ،کون سا سوال تمھاری سمجھ میں نہیں آ رہا۔“
”یہ پوری مشق ہی سمجھ میں نہیں آ رہی ۔“دعا نے کتاب کھول کر اس کے سامنے رکھ دی۔
”ابھی تھوڑی دیر پہلے تم نے پچھلی مشق پڑھی ہے اور اب یہ دوسری نکال لی ہے ، میں نے سوچا شاید پہلے والی تمھاری سمجھ میں نہیں آ رہی ۔“
”نہیں وہ آتی ہے ،اب آپ یہ والی مشق سمجھا دیں ۔“
”تو یہ کل نہیں پڑھی جا سکتی تھی ۔“
”نہیں ....ابھی پڑھنا ہے اور پوری مشق سیکھ کر جانے کی اجازت دوں گی ۔“
”گڑیا !....تم بہت بد تمیز ہوتی جا رہی ہو۔“
”آپ نے پڑھانا ہے کہ نہیں ؟“
”تو کیا کل نہیں پڑھی جا سکتی ۔“
”ٹھیک ہے جائیں ....نہیں پڑھنا مجھے ۔“دعا نے ریاضی کی کتاب بند کر کے صوفے کی جانب اچھالی اور خود منھ پھلا کر لیٹ گئی ۔
محمود سے کوئی بات منوانے کا یہ اس کا سب سے بڑا ہتھیار تھا ۔
’اچھا ....اچھا پڑھتے ہیں ۔“محمود نے فوراََ ہتھیار ڈال دیے ۔
”شکریہ ،میں پڑھ لوں گی ،آپ جائیں اپنی لاڈلی عمارہ کے پاس ۔“ اس نے تکیہ اٹھا کر اپنے چہرے پر رکھ لیا تھا ۔
”اچھا سوری نا ،پڑھاتا ہوں ۔“محمود جلدی سے صوفے سے کتاب اٹھا کر لے آیا۔کیونکہ وہ دعا کی عادت سے اچھی طرح واقف تھا ۔
اس وقت بھی وہ اسے جواب دیے بغیرخاموشی سے لیٹی رہی جبکہ محمود، عمارہ کو بھول کر اس کی منتیں کرنے لگا۔کافی منتوں کے بعد اس کے راضی ہونے پر محمود نے سکھ کا سانس لیاتھا۔اس کے بعد بارہ بجے تک وہ پڑھتی رہی ۔یہاں تک کہ محمود کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہونے لگی تھیں ۔
”میرا خیال ہے اب آرام کرنا چاہیے ۔“محمود جمائی لیتا ہوا مستفسر ہوا۔
”ہاں ٹھیک ہے ۔“خلاف توقع وہ بغیر حجت کے مان گئی تھی ۔
اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے محمود نے نظر اٹھا کر عمارہ کے کمرے کی جانب دیکھا جس میں اندھیرا نظر آ رہا تھا ۔ہلکی سی ندامت اس کے دل میں پیدا ہوئی لیکن جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا ۔
٭٭٭
اس کے بعد عمارہ اور دعا میں باقاعدہ ٹھن گئی تھی ۔دعا ہر موقع پر عمارہ کی مخالفت کرنے سے باز نہ آتی ،اسی طرح عمارہ نے بھی پہلے والی نرمی اور اس کی طرف داری کا ڈراما بند کر دیا تھا ۔ کبھی وہ ممانی کو دعا کی بد تمیزیوں کے بارے بھڑکا رہی ہوتی اور کبھی رضوان ماموں کے سامنے شکایات کا پٹارا کھولا ہوتا ۔محمود کے سامنے تو وہ ہر وقت دعا کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتی رہتی ۔
محمود جو پہلے عمارہ کے رویے پر خوش ہو کر اسے اپنانے پر راضی ہو گیا تھا اب یہ سوچ کر پریشان تھا کہ آخر دعا اور عمارہ کے درمیان نفرت کی خلیج کو کیسے پاٹا جاسکے گا ۔اکیلے میں وہ دونوں کو سمجھاتا رہتا لیکن دونوں ہی اس کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھیں ۔دعا اس کی لاڈلی تھی تو عمارہ اس کی منگیتر اور دونوں اپنی حیثیت کا فائد اٹھا رہی تھیں۔ گو دعا تو پہلے سے جانتی تھی کہ وہ محمود کے لیے کیا حیثیت رکھتی ہے لیکن عمارہ کو منگنی کے بعد اپنی اہمیت کا اندازہ ہوا تھا۔ خاص کر جب اکیلے میں محمود اسے لجاجت سے سمجھاتا کہ وہ کیوں دعا کے پیچھے پڑی ہے۔چھوٹی سی بچی ہی تو ہے وہ اور آخر کب تک وہ اس گھر میں رہے گی آخر ایک دن تو اسے بھی اپنے گھر کا ہونا ہے ۔اس کے ساتھ وہ اسے پہلے دن کے کیے ہوئے وعدے یاد دلاتا ،مگر عمارہ کچھ سمجھنے کا تیار نہیں تھی ۔
یہاں تک کہ ایک دو مرتبہ اسے دعا کو ڈانٹتے دیکھ کر رخسانہ چچی نے بھی اسے سرزنش کی تھی ۔پر اب عمارہ اپنا کھونٹا مضبوط تصور کر رہی تھی ۔یوں بھی اس نے اور محمود نے شادی کے بعد وہاں تھوڑی رہنا تھا جو اسے رخسانہ ممانی کی پروا ہوتی ۔

اور پھر ایک دن انھونی ہو گئی ۔محمود نے اس دن دونوں کو یونیورسٹی اور اسکول سے لاکر گھر چھوڑا اور خود خاص میٹنگ میں شمولیت کی غرض سے واپس دفتر چل دیا ۔دفتر سے لوٹنے پر ایک ہنگامہ اس کا منتظر تھا ۔دعا نے چیخ چیخ کر گھر سر پر اٹھایا ہوا تھا ۔اس کے رونے کی آواز سن کر محمود بےچین ہو کر اس کے کمرے کی طرف بھاگا۔رخسانہ چچی اسے بہلانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی ۔محمود کے کمرے میں گھستے ہی دعا نے اور زور زور سے رونا شروع کر دیا تھا ۔
”ارے کیا ہوا گڑیا کو ،کس نے مارا ہے میری شہزادی کو ۔“کہتے ہوئے وہ کمرے میں داخل ہوا ۔دعا اس سے بری طرح لپٹ گئی تھی ۔محمود کے تھپکنے سے اس کا رونا بتدریج سسکیوں میں ڈھل گیا ۔
”چچی جان !....ہوا کیا ہے ؟“اس نے رخسانہ چچی سے پوچھا ۔دعا تو اس کی کسی بات کو جواب نہیں دے رہی تھی ۔
”عمارہ نے تھپڑ مارا ہے ۔“رخسانہ کو بھی عمارہ کی حرکت ناپسند آئی تھی ،لیکن محمود کی منگیتر ہونے کی وجہ سے وہ کوئی سخت بات نہیں کہہ سکی تھی ۔
”کیوں ....؟“محمود کے لہجے شامل غصہ رخسانہ کے لیے غیر متوقع نہیں تھا ۔وہ تفصیل بتاتے ہوئے بولی ۔
”عمارہ تمھارے کمرے میں جا کر کوئی کتابیں وغیرہ اٹھا رہی تھی دعا نے دیکھ لیا اور فوراََ اس کے سر ہو گئی کہ وہ اس کے بھیا کے کمرے کی کسی چیز کو ہاتھ نہ لگائے ۔اورآپ کے کمرے سے اٹھائی ہوئی کتابیں بھی اس سے چھیننے کی کوشش کی ۔پس عمارہ نے اسے تھپڑ مار دیا ۔ اسی وقت سے یہ روئے جا رہی ہے ۔“
”ایک منٹ ۔“دعا کو خود سے علیحدہ کر کے محمود کے قدم عمارہ کے کمرے کی جانب اٹھ گئے ۔
”محمود !....کوئی بدمزگی نہ کھڑی کر دینا ۔“اس کے چہرے پر چھائے تاثرات دیکھ کر رخسانہ چچی نے فوراََ اسے تنبیہ کی لیکن وہ غصے سے طنطناتا عمارہ کے کمرے میں گھس گیا ۔
وہ بے پروائی سے اپنے بیڈ پر بیٹھی مطالعہ کر رہی تھی ۔
”عمارہ !....آپ نے دعا کو تھپڑ کیوں مارا ہے؟“اس کے کمرے میں جاتے ہی محمود نے غصے بھرے لہجے میں پوچھا ۔
”کیونکہ وہ ہے ہی اسی لائق ،سر پر چڑھ گئی ہے ،بدتمیز ،ضدی اور ہٹ دھرم ۔“
”آپ کو اس کا اخلاق سدھارنے پر کس نے مامور کیا ہے ؟“محمود کو خود اپنے آواز اجنبی محسوس ہو رہی تھی ۔

”یہ آپ کس لہجے میں مجھے مخاطب ہیں ۔“عمارہ بھی بگڑ گئی تھی ۔”اور اگر آپ اس کے اخلاق نہیں سدھاریں گے تو وہ اسی طرح مار کھائے گی ۔آج تو صرف ایک تھپڑ پڑا ہے آئندہ وہ میرے کام میں دخیل ہوئی تو مزید بھی پٹے گی ۔“
”آپ ابھی اسے ہاتھ لگا کر دیکھیں ۔“محمود غصے سے پھٹ پڑا تھا ۔دعا کو مارنے کی اجازت وہ رخسانہ چچی اور رضوان چچا کو نہیں دیتا تھا کجا عمارہ اس پر ہاتھ اٹھاتی پھرتی ۔
”میں آپ کی ہونے والی بیوی ہوں ،کیا کل کلاں کو بھی وہ اسی طرح مجھے تمھاری چیزوں کو ہاتھ لگانے سے روکے گی ۔“
”ہاں ہمیشہ روکے گی اور ہمیشہ میری چیزوں پر پہلا حق اسی کا ہوگا ۔“محمود دوٹوک لہجے میں بولا ۔عمارہ کو زندگی میں ایسی سبکی کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا ۔رخسانہ اور رضوان نے تو اس سے کوئی باز پرس نہیں کی تھی اور اس کا شریک حیات اپنی منھ بولی بہن کے لیے اس کی ہتک پر آمادہ ہو گیا تھا ۔
”بہتر ہو گا کہ پھر اسی کو اپنی بیوی بنا لو۔“عمارہ نے اپنے اندر جمع ہوا زہر اگلا۔
”کیا بکواس کر رہی ہو تم ....تمھارے جیسی بدزبان اور واہیات لڑکی سے شادی کرنے سے بہتر ہے میں کنوارا ہی مر جاﺅں ۔“ محمود ساری اخلاقیات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے دھاڑا اور اس کے ساتھ ہی اس نے ہاتھ میں پہنی منگنی کی انگوٹھی اتارتے ہوئے اس کی جانب اچھالی ۔ ”یہ لو سنبھالوچند ماشے چاندی جس کے بل بوتے پر تم مجھے اتنی اذیت پہنچانے کا باعث بنی ہو ۔ اور افسوس یہ فیصلہ مجھے بہت پہلے کر دینا چاہیے تھا ۔“پیچھے مڑ کر وہ تیز قدموں سے چلتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔رخسانہ چچی یہ ساری باتیں سن رہی تھی ۔وہ فوراََ اس کے پیچھے بھاگی ۔

”محمود بیٹا!.... غصہ تھوک دو ۔ایسا نہیں کرتے ۔یہ منگنی صرف تم دونوں کا نہیں پورے خاندان کا معاملہ ہے ۔دعا تو بچی ہے ،کیا ہے اگر عمارہ نے ہلکا سا تھپڑ مار دیا۔ بڑی بہنیں ، چھوٹی بہنوں کو تھپڑ مارتی رہتی ہیں ۔“
”چچی جان !.... مجھے یہ بھی گوارا نہیں کہ دعا پر آپ یا چچا جان ہاتھ اٹھائیں تو اپنے ہونے والی بیوی کو میں یہ کیسے اجازت دے سکتا ہوں ۔اور پھر اس کی بے ہودہ اور واہیات بات سنی تھی ۔میری چھوٹی بہن کے بارے اس نے کیا غلیظ الفاظ استعمال کیے ہیں ۔اب اس کی گھٹیا بات کے جواب میں کیا میں یہ کہتا ہوا اچھا لگوں گا کہ اس کا بھی تو بھائی موجود ہے جائے اسی سے نکاح پڑھوا لے ۔“
”غصہ تھوک دو بیٹا !“رخسانہ کو اندازہ نہیں تھا کہ بات اتنی بگڑ جائے گی ۔دعا کے بارے محمود کتنا حساس تھا یہ تو وہ شروع دن سے جانتی تھی ۔لیکن دعا کے بارے وہ اس حد تک چلا جائے گا یہ اندازہ اسے نہیں تھا ۔
اسی وقت عمارہ وہاں داخل ہوئی۔”ممانی جان !....چھوڑیں اس کی منتیں کرنا ۔میں خود ایسے انسان سے شادی نہیں کرنا چاہتی جسے رشتوں کی پہچان ہی نہیں ہے ۔ شکر ہے کہ جلد ہی اس کی اصلیت کھل کر سامنے آ گئی ہے ۔“یہ کہتے ہوئے اس نے بھی محمود کی پہنائی ہوئی انگوٹھی اتار کراس کی جانب پھینکی ۔”یہ لو ....اپنی جس لاڈلی کو پہنانا چاہو پہنا لینا ۔“
بین السطور اس نے پھر زہر اگلا اور وہاں سے نکل گئی ۔رضوان اپنے کمرے سے باہر نکل آیا تھا ۔اس نے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی مگر دونوں فریق اپنی بات پر ڈٹے رہے ۔
عمارہ نے رضوان کو کہا ۔”ماموں جان !....میں اسی وقت گھر جانا چاہتی ہوں ۔اگر آپ زحمت نہ سمجھیں تو مجھے چھوڑ آئیں ۔“
اور رضوان بےبسی سے سر ہلاتا ہوا کار کی چابی اٹھانے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

گھر پہنچتے ہی عمارہ نے رو رو کر ساری بات اپنی ماں کے گوش گزار کر دی ۔شہناز بیگم ، رضوان پر برس پڑی تھی ۔وہ سر جھکائے بڑی بہن کی جلی کٹی سنتا رہا ۔گھر واپسی پر اس نے محمود کو بھی سرزنش کی اور شہناز پھوپھو سے جا کر معافی مانگنے کا کہا ۔مگر محمود نے خاموش رہتے ہوئے گویا اس کی بات نہ ماننے کا اعلان کر دیا تھا ۔
صبح ناشتے پر سوائے دعا کے تمام پریشان تھے ۔رضوان چچا اور افنان نے تو باقاعدہ دعا کو ڈانٹا بھی تھا لیکن وہ بے پروائی سے ناشتا کرتی رہی ۔عمارہ کے بھاگ جانے پر وہ بہت خوشی محسوس کر رہی تھی اور یہ خوشی اس سے چھپائے نہیں چھپ رہی تھی ۔اس کے محمود بھیا کی ذات میں شرکت کی دعوے دار، ان کی جان چھوڑ گئی تھی ۔اب بھائی اور باپ کے ڈانٹنے کا اثر اس پر نہیں ہونے والا تھا ۔رخسانہ چچی البتہ عمارہ کی واہیات بات اپنے کانوں سے سننے کے بعد بالکل خاموش تھی ۔محمود کے چہرے پر بھی کسی قسم کی پشیمانی یا دکھ کے آثار نظر نہیں آرہے تھے ۔
اسکول سے واپسی پر دعا ہوٹل میں کھانا کھانے پر مچل گئی اور محمود کو کار ایک اچھے ہوٹل کی طرف موڑنا پڑی ۔
”بھیا !....اب آپ کسی سے شادی یا منگنی وغیرہ نہیں کریں گے ۔“کھانا کھاتے ہوئے دعا نے حکمیہ انداز میں کہا ۔
”ہاں گڑیا !....ا تمھاری شادی تک تو میں یہ غلطی نہیں کروں گا ۔“
”میں بھی شادی نہیں کروں گی اور ہم دونوں اکٹھے رہیں گے ۔“اس نے فوراََ طویل مدتی منصوبے کا اعلان کیا ۔

محمود کھل کھلا کر ہنس پڑا ۔”ویسے ارادہ تو اچھا ہے ۔“
”ٹھیک ہے نا ؟“اس نے کرسی سے اٹھ کر معصومیت سے محمود کے گلے میں بانہیں ڈال دیں ۔اور محمود اس کے معصومیت بھرے انداز سے محظوظ ہونے لگا ۔وہ معصوم اپنے محمود بھیا کو کسی کو سونپنے پر تیار نہیں تھی ۔لیکن محمود جانتا تھا کہ ابھی تک وہ رشتوں کی نزاکت سے ناواقف تھی۔ باشعور ہوتے ہی اس نے کسی ایسے ساتھی کی تلاش میں خوابوں سے تعبیر تک کا سفر شروع کر دینا تھا جو اس کے ایسے رازوں کا امین ہوتا جس کے بارے وہ اپنے بھیا سے بات نہ کر سکتی ۔اور جس سے وہ ایسی محبت کرتی جو اپنے بھیا سے کرنا ممکن نہیں تھا ۔
گھر واپسی پر ایک اور درد سر اس کا منتظر تھا ۔سلمان اور عمران چچا اس کی خالہ شکیلہ کے ساتھ ڈرائینگ روم میں براجمان تھے ۔دعا نے انھیں سلام کرتے ہوئے ان سے پیار لیا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی جبکہ وہ دونوں چاچوں سے ہاتھ ملا کر شکیلہ خالہ کی بغل میں بیٹھ گیا ۔ رخسانہ بھی وہیں بیٹھی تھی ۔رضوان البتہ اب تک دفتر سے نہیں لوٹا تھا ۔
”بیٹا !....کیا بات ہوئی ہے جو آپ لوگوں نے اتنا بڑا مسئلہ کھڑا کر دیاہے ۔“شکیلہ خالہ کو رخسانہ تمام تفصیل بتا چکی تھی اس کے باوجود اس نے محمود سے پوچھنا ضروری سمجھا تھا ۔
اس نے عمارہ سے ہونے والے جھگڑے پر روشنی ڈالے بغیر کہا ۔”خالہ جان !.... میں فی الحال شادی نہیں کرنا چاہتا ۔میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ پہلے چھوٹی بہن کی شادی کروں گا اس کے بعد اپنے لیے سوچوں گا ۔“
”تو ٹھیک ہے شادی پر کس نے زور دیا ہے تم دعا بیٹی کی شادی کے بعد شادی کر لینا مگر منگنی تو نہ توڑو نا ۔“

”خالہ جان !....آپ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن میں کسی لڑکی کو اپنے نام پر نہیں بٹھانا چاہتا ۔منگنی کی شرط کے بغیر اگر عمارہ میرے لیے بیٹھنا چاہتی ہے تو دعا کی شادی کے بعد بات کرلیں گے ۔“
عمران چچا نے زبان کھولی ۔”اس طرح نہیں ہوتا بیٹے !....کوئی لڑکی یونھی تو کسی کے انتظار میں نہیں بیٹھ سکتی نا ۔“
”چچا جان !.... میں نے کب کہا ہے کہ کوئی بیٹھے ۔“
”بیٹے !....اصل بات یہ ہے کہ ہم وہ رشتا دوبارہ سے جوڑنے آئے ہیں ۔اور مجھے یقین ہے کہ آپ ہماری بات نہیں ٹالیں گے ۔“شکیلہ خالہ نے اسے جذباتی طور پر بلیک میل کرنا چاہا ۔
محمود گلوگیر لہجے میں بولا۔”آپ تمام کے بڑے احسانات ہیں ۔مجھ یتیم کو نہ تو آپ لوگوں نے امی جان کی کمی محسوس ہونے دی اور نہ ابوجان کی ۔میں اگر ساری زندگی بھی آپ لوگوں کے پاﺅں دھو دھو پیتا رہوں تب بھی آپ کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتا ۔لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ میرا حقیقی بھائی بہن کوئی نہیں ہے ۔اور میں نے زندگی میں سب سے بڑھ کر جسے چاہا ہے وہ میری گڑیا دعا ہے ۔آپ تمام کے ہزاروں لاکھوں احسانات کے باوجود میری دعا سے محبت اور شفقت کا پلڑا بھاری ہے ۔رخسانہ چچی کی ڈانٹ کا سامنا مجھے صرف دعا کی وجہ سے کرنا پڑتا ہے ۔اسی طرح رضوان چچا نے بھی کبھی سرزنش کی ہے تو اس کی وجہ دعا ہی تھی ۔اور یہ دعا ہی ہے جس کی وجہ سے میں آج تک چچا رضوان کے گھر پڑا اپنی ذات پر ان کے احسانات کو بڑھاتا جا رہا ہوں ، ورنہ میرے لیے علیحدہ گھر لے کر رہنا کوئی مشکل نہیں ہے ۔دعا کو ڈاٹنے کی اجازت تو میں نے کبھی رخسانہ چچی کو بھی نہیں دی حالانکہ وہ اس کی حقیقی ماں ہیں اور یقینا مجھ سے کئی گنا بڑھ کر اس سے محبت کرتی ہوں گی ۔
یہی بات میں نے تعلقات کی ابتدا ہی میں عمارہ کو سمجھا دی تھی کہ ہمارے تعلق کے بیچ کبھی میری چھوٹی بہن کو نہ لانا ۔اور کبھی اس سے مقابلہ کرنے کی کوشش نہ کرنا ۔ جب وہ اپنے گھر کی ہو جائے گی،پھر کب بہنوں کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ بھائیوں کے پاس جا سکیں ۔وہ غریب تو اپنے گھر بار کے بکھیڑوں سے جان نہیں چھڑا پاتیں ۔ عمارہ نے یہ سب باتیں ماننے کا وعدہ کیا لیکن جونھی ہماری منگنی ہوئی اس کے تیور بدل گئے۔ دعا کا وجود اسے کانٹے کی طرح چبھنے لگا ۔میں بچہ نہیں تھا سب کچھ دیکھ رہا تھا ۔وہی دعا جو پہلے آپی آپی کہتے نہیں تھکتی تھی اس کا روکھا اور کرخت رویہ دیکھ کر اس سے چڑنے لگی ۔بجائے اس کے کہ عمارہ اسے بچی سمجھ کر بہلاتی اور اسے اپنے نزدیک کرتی، محترما نے اسے دھتکارنا شروع کر دیا ۔ یہاں تک کہ اس کے چہرے پر تھپڑ تک دے مارے ۔

دعا کو ایک بار رخسانہ چچی نے ہلکے سے تھپڑ مارا تھا اس کی تکلیف مجھے آج تک محسوس ہوتی ہے ۔عمارہ بی بی نے تو صاف کہہ دیا کہ یہ پہلی بار نہیں ہے وہ آئندہ بھی دعا کی پٹائی کرے گی ۔اور پھر جانتے ہیں اس نے مجھے کیا طعنہ دیا ۔ محترما نے منگنی کی انگوٹھی میرے منھ پر مارتے ہوئے کہا کہ یہ میں اپنی لاڈلی کی انگلی میں پہنا دوں ۔ کیا اس سے گھٹیا بات ہو سکتی ہے ۔آپ لوگ پھر بھی مجھے زور دے رہے ہیں کہ میں ایسی لڑکی سے منگنی جوڑ دوں ۔تو سن لیں ایسا ہونا بالکل بھی ممکن نہیں ہے ۔پہلے میں دعا کی شادی کروں گا اس کے بعد اپنے بارے میں سوچوں گا ۔اگر میرے اس فیصلے سے آپ لوگوں کو دکھ پہنچا ہے تو میں ہاتھ جوڑ کر اور پاﺅں پکڑ کر آپ سے معافی مانگتا ہوں ۔لیکن خدارا مجھے اس بارے مجبور نہ کریں ۔آپ لوگوں کے بہت زیادہ احسانات ہیں ، ان میں ایک احسان کا اضافہ کر دیں اور مجھے اس بارے مجبور نہ کریں ۔یقین مانیں عمارہ اور میری طبیعت میں بہت تضاد ہے ۔آج تو صرف منگنی ٹوٹی ہے جو کہ عام سی بات ہے اب بھی عمارہ کو مجھ سے کئی گنا بہتر اور عمدہ رشتے مل جائیں گے لیکن اگر شادی کے بعد کوئی ایسا حادثہ پیش آگیا تو یقینا یہ ہونا بہت بڑا نقصان اور خسارہ ہو گا۔“
محمود کی بے لاگ اور وضاحت بھری گفتگو نے تمام کی زبانوں پر تالے لگا دیے تھے ۔
رخسانہ چچی بڑی مشکل سے گلا کھنکار کر بولیں ۔”بیٹا !....ایسا ہے کہ فی الحال منگنی جوڑ دو شادی بلا شبہ جب مرضی آئے کر لینا ۔اور عمارہ کو بھی ہم اب یہاں نہیں رکھیں گے اس طرح دعا اور اس کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہو سکے گا ۔“
”ہاں یہ ٹھیک ہے ۔“شکیلہ خالہ نے فوراََ اس کا سر اپنی جانب جھکا کر اس کا ماتھا چوم لیا تھا ۔

”مگر خالہ !....“محمود نے احتجاج کرنا چاہا ۔
”کوئی اگر مگر نہیں ....“عمران چچا اور سلمان چچا نے بیک زبان اسے بات کرنے سے روک دیا تھا ۔”بس اب طے ہو گیا ہے ۔کہاں ہے منگنی کی انگوٹھی ہم خود جا کر عمارہ بیٹی کو پہنا دیں گے ۔“اس مرتبہ محمود نے بے بسی سے سر جھکا دیا ۔اور رخسانہ چچی نے خوشی خوشی وہ انگوٹھی نکال کر شکیلہ خالہ کے حوالے کر دی ۔
وہ رات انھوں نے وہیں گزاری اگلی صبح افنان اپنے والد کی کار پر انھیں گاﺅں چھوڑنے گیا ۔وہ تمام سیدھے شہناز پھوپھو کے گھر پہنچے ،منگنی کی انگوٹھی واپس آتے دیکھ کر شہناز پھوپھو ہتھے سے اکھڑ گئی تھی ۔ اس کی زہریلی باتوں کا نشانہ افنان غریب بن گیا تھا ۔محمود کے بارے تو اس نے ایسی موشگافیاں کیں کہ وہاں جانے والا سارا وفد ہکا بکا رہ گیا تھا ۔پرائے ٹکڑوں پر پلنے والا، بھیک منگا ،بے غیرت ،بے حیا ،احمق اور بھی جانے کون کون سے القابات سے اسے نوازا ۔اس کے ساتھ شہناز بوا نے یہ بھی طعنہ دیا تھا کہ اگر اس کی لاڈلی کی انگلی میں وہ انگوٹھی نہیں آرہی تو انگوٹھی کا سوراخ کسی سنیار سے چھوٹا کروا لے ۔لیکن اب وہ گھٹیا انگوٹھی اس کی بیٹی عمارہ نہیں پہنے گی ۔
انگوٹھی واپس آتے دیکھ کر عمارہ نے بھی یہی سمجھا کہ شاید محمود اس کی محبت کی وجہ سے جھک رہا ہے ۔اپنی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے اس نے بھی صاف صاف انکار کر دیا کہ وہ اب کسی چور یا خانہ بدوش سے شادی کر لے گی مگر محمود کو منھ نہیں لگائے گی ۔
شکیلہ خالہ ،عمران اور سلمان شہناز اور عمارہ کی باتیں سن کر سخت رنجیدہ ہوئے تھے ۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ماں بیٹی ایسا برتاﺅ کریں گی ۔اسی وقت ان پر محمود کی باتوں کی حقیقت کھلی ۔جو لڑکی اپنے ماموں اور ممانی کی سامنے اس لہجے میں بات کر سکتی تھی اس نے محمود سے کس لہجے میں گفتگو کی ہو گئی ۔

شہناز پھوپھو کو سمجھانے کے بجائے انھوں نے ہاتھ جوڑ کر اپنی غلطی کی معافی مانگی اور افنان کے حوالے انگوٹھی کر کے اسے بھی کہہ دیا کہ ان کی طرف سے محمود سے معذرت کر لے ۔
گھر آکرافنان نے تمام باتیں بلا کم و کاست ماں کے سامنے دہرا دیں ۔رخسانہ یوں بھی رضوان کے خاندان سے متنفر تھی ۔
”بھاڑ میں جائے تمھاری شہناز پھوپھو۔“کہہ کر اس نے انگوٹھی واپس لے لی ۔دفتر سے واپسی پر جب محمود کو یہ باتیں معلوم ہوئیں تو اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ کم از کم وہ اپنی خالہ ،دونوں چاچوں اور رخسانہ چچی کے سامنے سرخرو ٹھہرا تھا ۔

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں 

غیرت مند عاشق اردو کہانی - پارٹ 6

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے