راحیلہ سے میری دوستی تھی۔ بہت اچھی عادت کی مالک تھی۔ بدقسمتی سے اس کی شادی شوکت نامی ہمارے ایک پڑوسی سی ہو گئی۔ ہم تو جانتے تھے کہ یہ شخص سخت بد مزاج اور شکی ہے لیکن بیچاری راحیلہ کے والدین نہیں جانتے تھے۔ وہ بہت شریف لوگ تھے۔ اس کے والد منان صاحب کی چار بیٹیاں تھیں۔ جن میں راحیلہ سب سے بڑی تھی۔ ایک عزت دار اور سفید پوش آدمی کو جو رزق حلال پر گزارا کرتا ہو اپنی جواں سالہ بچیوں کی شادی کی فکر دن رات ستاتی ہے۔
ان کے ایک واقف کار نے شوکت کا رشتہ بتایا۔ شوکت کی پہلی بیوی اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی اور وہ اب دوسری شادی کا خواہش مند تھا۔ وہ ایک سرکاری محکمے میں کلرک تھا۔ بوڑھے والدین اور دو چھوٹے بھائی جو کالج میں زیر تعلیم تھے وہ بھی ساتھ رہتے تھے اس کے گھر کے باقی سبھی افراد ٹھیک تھے یعنی محلے والوں کو ان سے کوئی شکایت نہ تھی۔ مگر شوکت کے اکھڑ پن کے باعث جو اسے دیکھتا کترا کر نکل جاتا۔ شاید اسی باعث اس کی پہلی بیوی بھی اس کو چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ راحیلہ کے گھر والے ہمارے محلے دار نہ تھے۔ ان کو شوکت یا اس کے گھر والوں کے بارے میں کچھ علم نہ تھا۔
منان صاحب کے دوست جس نے رشتہ کروایا۔ اس نے ان کی بے حد تعریف کی واقعی منان صاحب تو قابل تعریف تھے ہی۔ تاہم شوکت کے والد بھی بہت نیک اور سیدھے سادے آدمی تھے۔ دونوں بزرگ آپس میں ملے۔ ایک دوسرے سے بات جیت کی تو منان صاحب نے بیٹی کے رشتے کے لیے ہاں کر دی۔ یوں راحیلہ بیاہ کر ہمارے محلے میں آگئی۔ اس نے آتے ہی گھر سنبھال لیا۔ اپنے بوڑھے ساس سسر کی خدمت میں بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ شوہر کا ایک اچھی بیوی کی مانند خیال رکھتی۔ اس کی سلیقہ شعاری سے بکھرا ہوا گھر سنور گیا تھا۔
جلد ہی اللہ تعالی نے ایک بیٹے اور پھر بیٹی سے نواز دیا وہ بچوں کی پرورش میں گم ہو گئی۔ اب شوکت کو اتنا وقت نہ دے پاتی کیونکہ اسے گھرداری کے ساتھ بچوں کا بھی خیال رکھنا پڑتا تھا۔ اس بات پر شوکت اس سے الجھنے اور چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں پر چیخ چیخ کر گھر سر پر اٹھا لیتا۔ اگر پانچ منٹ کھانا لگانے میں دیر ہو جاتی تو وہ چلانے لگتا اور آسمان سر پر اٹھا لیتا۔ والدین بھی اس کو سمجھاتے کہ پہلے بھی تم نے یوں ہی اپنا گھر برباد کیا ہے۔ ذرا غصے پر قابو رکھو اب تمہارے دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ گھر میں کوئی ملازمہ یا دوسری عورت تمہاری بیوی کا ہاتھ بٹانے والی نہیں ہے۔ اس بیچاری کو اکیلے ہی سب کام کرنا پڑتے ہیں کچھ تو خدا خوفی کرو۔
وہ کسی کی نہ سنتا۔ کیونکہ بد مزاجی اس کی فطرت ثانیہ بن چکی تھی۔ راحیلہ صبر سے برداشت کرتی رہی اور وقت کو خاموشی سے گزارتی رہی۔ وہ کبھی کبھی حالات سے تنگ آ جاتی تو میرے سامنے رو لیتی۔ میں اس کو تسلی دے کر ڈھارس بندہ تھی ایک روز کہنے لگی تانیہ اگر تم مجھے اپنے آفس میں ملازمت دلوا سکو تو ہمارے گھر کے حالات کافی حد تک ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ تم کو شوکت بھائی ملازمت کی اجازت دیں گے؟ کہنے لگی انہوں نے ہی کہا کہ پڑھی لکھی ہو اگر کہیں ملازمت کر لو تو ہمارے حالات سدھر جائیں گے۔ دراصل شوکت کی تنخواہ کم ہے اوپر سے بچوں کا خرچہ اور پھر مہنگائی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ راحیلہ گریجویٹ تھی لہذا میں نے اسے کہا کہ میں آفس میں منیجر سے بات کروں گی۔ اگر ضرورت ہوئی تو شاید تم کو ملازمت مل جائے۔
میں نے اپنے مینیجر صاحب سے بات کی۔ چند دنوں بعد ہماری ایک کولیگ لڑکی نے ملازمت چھوڑ دی تو مینیجر صاحب نے مجھے بلا کر کہا کہ جس خاتون کے لیے تم نے ملازمت کے لیے کہا تھا۔ اس کی اسناد کی نقول اور سی وی لے آنا۔ ہمیں ایک خاتون کی ضرورت ہے۔ انٹرویو کے لیے بلا لیں گے۔ میں نے راحیلہ کے گھر جا کر بتایا۔ وہ بہت خوش ہوئی اور اپنے کاغذات میرے حوالے کر دیے۔ مینجر صاحب نے دو روز بعد رحیلہ کو آفس آنے کا کہا۔ اس کا مختصر سا انٹرویو لیا اور تقرر نامہ تیار کرا دیا۔ راحیلہ پر اب دوہری ذمہ داری تھی۔ ہمارے آفس کی چھٹی پانچ بجے ہوتی اور ہم تقریبا چھ بجے گھر پہنچ پاتے تھے۔ اس کے بچے دادی جانے کیسے سنبھالتی گھر جاتے ہی راحیلہ رات کا کھانا تیار کرتی۔ جبکہ ناشتے سے پہلے وہ کچھ گھریلو کام کرنے کے بعد دوپہر کا کھانا بھی تیار کر کے نکلتی تھی۔ انہی دنوں افس میں ایک اور آسامی خالی ہوئی اور ایک نیا جونیئر مینیجر سیٹ پر آگیا جس کا نام شہاب تھا شہاب صاحب کا تعلق ایک دوسرے شہر سے تھا وہ کمپیوٹر پر کام جانتے تھے۔ یاد رہے کہ ان دنوں کمپیوٹر نیا نیا دفاتر میں آیا تھا۔ ہمارے آفس میں چند ہی لوگ اس پر کام کرتے تھے۔ ان میں ایک شہاب صحابی تھے۔ ان کے ذمے یہ کام لگایا گیا کہ وہ ہم خواتین کو کمپیوٹر کا استعمال سکھائیں گے۔ لہذا بریک میں وہ ایک دن مجھے اور ایک دن راحیلہ کی اس ہنر میں رہنمائی کرنے لگے۔
ایک روز باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ ابھی ان کی شادی نہیں ہوئی ہے اور گھر بھی دوسرے شہر میں ہے چونکہ مینجر صاحب ان کے بڑے بھائی کے دوست اور کلاس فیلو رہے ہیں۔ اس لیے انہوں نے ان کو یہاں ملازمت پہ بلایا ہے۔ رحیلہ نے پوچھا اپ رہتے کہاں ہیں؟ میں فی الحال تو ہوٹل میں کمرہ لے کر رہ رہا ہوں۔ کوئی چھوٹا سا دو کمروں کا گھر کرائے پر مل جائے گا تو شفٹ ہو جاؤں گا تبھی میں نے کہا کہ اگر اپ کو چھوٹی سی رہائش درکار ہے تو میرے بھائی کے دوست کا مکان خالی پڑا ہے اور اس کی چابی میرے بھائی کے پاس ہے۔ ان کا دوست تین سال کے لیے بیرون ملک گیا ہوا ہے۔ آپ کہیں تو اپنے بھائی سے بات کروں یہ مکان آپ کو کرائے پر مل سکتا ہے۔ ضرور بات کریں آپ کا احسان ہوگا۔ شہاب نے جواب دیا۔
میں نے بھائی سے بات کی انہوں نے کہا کہ ہاں مل سکتا ہے۔ شہاب صاحب کو میں نے اپنے بھائی کا فون نمبر دیا تھا۔ انہوں نے بات کی دونوں نے اپس میں وقت طے کیا اور میرے بھائی نے مکان ان کو دکھا دیا۔ جو ہمارے گھر سے اگلے بلاک میں تھا یہ آفس سے بھی زیادہ دور نہیں تھا۔ شہاب نے مکان کرائے پر لے لیا اور اس میں شفٹ ہو گئے۔ چھٹی کے وقت کبھی تو راحیلہ میرے ساتھ واپسی پہ گھر آجاتی اور کبھی جب اس کا کوئی بچہ بیمار ہوتا تو مینیجر صاحب کو مجبوری بتا کر وقت سے گھنٹہ ادھ گھنٹہ پہلے چھٹی لے کر گھر چلی جاتی۔ لیکن وہ اپنا کام پورا کر کے جاتی تھی اس روز بھی اس کا بیٹا بیمار تھا اس نے چھٹی لی اور جلدی گھر جانے لگی تبھی شہاب صاحب نے کہا کہ راحیلہ اگر برا نہ مانو تو میں تم کو تمہارے گھر کے پاس چھوڑ دوں کیونکہ مجھے بھی آج جلدی جانا ہے۔ میرے والد صاحب خانیوال سے آرہے ہیں۔ وہ شہاب صاحب کے ساتھ ان کی گاڑی میں چلی گئی۔
بدقسمتی سے شوکت اسی وقت دفتر سے گھر آ رہا تھا کیونکہ وہ چار بچے اپنے آفس سے گھر پہنچ جاتا تھا۔ بیوی کو گاڑی سے اترتے دیکھ لیا ۔بس پھر کیا تھا یہ ایک غلطی جو راحیلہ سے سرزد ہو گئی تھی۔ ناقابل معافی تھی مانا کہ اس کی غلطی تھی لیکن لفٹ لینے دینے میں دونوں میں سے کسی کی بھی بدنیتی شامل نہ تھی۔ تا ہم اس غلطی کی سزا تو ملنی ہی تھی۔ شوکت ایسا شکی شوہر بھلا کب اپنی بیوی کو معاف کر سکتا تھا۔ اس روز شوکت نے بیوی پر بہت سنگین الزام لگایا اس پر بری طرح چلایا کہا کہ تم ملازمت پر جانے کے بہانے یاروں سے ملتی ہو اور ان کے ساتھ آوارہ موٹروں میں گھومتی پھرتی ہو۔ اس کے بعد تو روز ہی شوکت بیوی سے جھگڑنے لگا۔ بات بے بات اس کی تذلیل کرتا اور آوارہ عورت کہتا۔ بات اڑتے اڑتے تمام محلے میں پھیل گئی۔
میں جانتی تھی راحیلہ ایسی عورت نہیں تھی ۔وہ بالکل بھی ایسی نہ تھی جیسا محلے والوں نے اس کے بارے میں گند پھیلا دیا تھا۔ وہ صرف اپنے گھر شوہر اور بچوں کے بارے میں ہی سوچتی تھی اور انہی کی سکھ کی خاطر اتنی محنت کر رہی تھی اس نے تنگ آ کر شوہر سے کہا اگر تم کو مجھ پر اعتبار نہیں ہے تو میں چھوڑے دیتی ہوں نوکری۔ ملازمت بھی تو میں آپ کی مالی پریشانیاں کم کرنے کے لیے کر رہی ہوں۔ شوکت نے کہا: ٹھیک ہے تم ملازمت چھوڑ دو مجھے ایسی عورت کی کمائی نہیں چاہیے۔ جو اپنی عزت بیچ کر گھر میں لاتی ہو۔ راحیلہ نے اتنے سخت الزامات کی بوچھاڑ سے گھبرا کر ملازمت چھوڑ دی اور گھر بیٹھ گئی اس نے سوچا کہ خود کو اور اپنے معصوم بچوں کو تکلیف دے کر میں جس شخص کی معاونت کرنے کو کشت اٹھا رہی ہوں۔ جب وہی مجھے بد کردار ثابت کرنے پر تلا ہے تو کیوں نہ اپنے بچوں کے ساتھ گھر میں بیٹھوں۔ اس نے نوکری چھوڑی تو شوکت اور تیش میں رہنے لگا اس کا رویہ بہتر نہ ہوا۔ اس نے رحیلہ پر عرصہ حیات تنگ کر دیا اس کے چلانے کی آواز ہم تک آتی تھی۔
ایک روز شہاب نے پوچھ ہی لیا کہ رحیلہ نے کیوں نوکری چھوڑ دی؟ اسے تو ملازمت کی اشد ضرورت تھی۔ میں نے بتایا کہ آپ کی وجہ سے چھوڑی ہے۔ آپ نہ اس روز اس کے گھر تک ڈراپ کرنے کا کہتے اور نہ یہ حالات بنتے۔ اس کا شوہر بہت شکی آدمی ہے۔ اس نے راحیلہ کو گھر کے پاس آپ کی گاڑی سے اترتے دیکھ لیا تھا۔ تبھی سے اس کی زندگی اجیرن کر دی۔ شوکت اب روز ہی اس کو گھر سے نکال دینے کی دھمکیاں دیتا ہے۔ اپنے والدین کی سمجھانے سے بھی نہیں سمجھتا مجھے تو لگتا ہے جیسے اس کی پہلی بیوی نے طلاق لے لی تھی۔ وہ راحیلہ کی بھی ایک دن طلاق تک نوبت پہنچا دے گا۔ شہاب صاحب کو بہت دکھ ہوا کہا کہ رحیلہ سے کہنا اگر تمہارا شوہر تم کو میری وجہ سے گھر سے نکالے یا طلاق دے تو تم مجھ سے رابطہ کرنا میں اس مسئلے کا حل نکال لوں گا۔
میں نے رحیلہ سے یہ بات کہہ دی۔ ایک دن بھی نہ گزرا تھا کہ شوکت نے پھر سے بد سلوکی کی اور راحیلہ کو گھر سے نکال دیا۔ یہ رات 10 کا وقت تھا اس وقت وہ نہ تو کسی کے گھر جا سکتی تھی اور نہ اپنے والدین کی طرف کہ وہ دور رہتے تھے وہ ہمارے گھرآئی۔ میں اس کو تسلی دی اور کہا کہ تم رات ہمارے گھر رکو صبح ہم شوکت کو سمجھائیں گے۔ میرے شوہر جا کر اس کو سمجھانے کی کوشش کریں گے وہ رو رہی تھی کیونکہ اپنے بچوں کے بغیر رہنا اس کے لیے بہت دشوار تھا۔ بہرحال کسی طرح رات کٹی صبح ہوئی ناشتے کے بعد فہیم شو کت کے پاس گئے کہا کہ کیا تم نے بیوی کو رات گھر سے نکال دیا تھا کہ وہ خود چلی گئی تھی؟ شوکت نے کہا میں نے خود نکالا تھا اس آوارہ کو۔ خدا جانے شادی سے پہلے اس کے کیا سلسلے تھے اور اب بھی کیا ہے؟ میں نہیں رکھ سکتا ایسی بیوی کو۔ اور بچوں کا کیا سوچا ہے؟ میں بچوں کو بھی اس کے حوالے کر دوں گا ۔میری بوڑھی ماں وہ بھلا کیوں کر ان کو سنبھال سکتی ہے۔ جب میرے بچے بڑے ہوں گے تو لے لوں گا۔ ایسے جوابات نے میرے شوہر کو لاجواب کر دیا۔ گھر آ کر مجھ سے کہا کہ ایسے شوہر کو سمجھانا بیکار ہے اگر اس نے راحیلہ کو رکھ بھی لیا تو اسی طرح اس کی زندگی اجیرن رکھے گا۔ کوئی علاج نہیں ہے ایسے آدمی کا ہم نے رحیلہ کو اس کے والدین کے گھر چھوڑا وہ بیچاری روتی ہوئی چلی گئی۔ لیکن اس کو بچوں کے بغیر چین کہاں تھا اس کے والد داماد کے پاس آئے کہ صلح کی کوئی صورت نکلے تب شوکت نے بچے بھی سسر کو تھما دیے کہ لے جاؤ ان کو انہوں نے رو رو کر جینا حرام کر دیا ہے میں تمہاری بیٹی کو کاغذات بھیج دوں گا۔ وہ بیچارے بچوں کے ساتھ نہ لائے اور گھر چلے آئے۔
شہاب صاحب کو مجھ سے ہی پتہ چلا کہ رحیلہ نے والد کو کہا کہ اگر شوکت مجھے نہیں رکھنا چاہتے تو اپ میرے بچوں کو تو لے آتے وہ بولے بیٹی کچھ دن بچے انہی کے پاس رہنے دو اور صبر سے بیٹھ جاؤ اللہ تعالی سے امید ہے کہ کوئی اچھا حل نکل ائے گا۔ رحیلہ کو صبر نہ آیا۔ وہ میرے پاس دفتر ائی کہ بچے مجھے لا کر دے د۔و شہاب صاحب بولے کہ بچے تم کو آسانی سے نہیں ملیں گے۔ تمہارا شوہر بہت ٹیڑھا آدمی ہے۔ تاہم کوشش کر لو ورنہ میرے پاس آ جانا۔ میں کوئی حل نکال لوں گا راحیلہ نے ہر طرح سے کوشش کی کہ شوکت اس کو معاف کر دے یا بچے اسے دے دے۔ مگر اس نے معاف کیا نہ بچے دیے۔
تب ایک روز وہ آفس آئی۔ شہاب سے ملی اس نے رحیلہ کو کار میں بٹھایا کہا کہ دفتر میں اتنی بات نہیں ہو سکتی۔ تم میرے ساتھ گھر چلو سکون سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں تمہارے بچے تم کو مل جائیں گے۔ وہ اس کے ساتھ اس کے گھر آگئی۔ شہاب نے رحیلہ کو گھر کی بیٹھک میں بٹھا دیا کیونکہ دو ہی کمرے کا مکان تھا۔ ایک بیڈ روم دوسرا بیٹھک جس کا دروازہ اور کھڑکیاں باہر کی طرف تھیں۔ شوکت کے دل میں کوئی بے ایمانی نہ تھی لیکن رحیلہ کی حالت دیکھ کر اس کو اس عورت پر بہت ترس آیا۔ اس نے کہا رو مت اگر شوکت نے تم کو بچے نہ دیے یا دوبارہ گھر نہیں لے گیا بچے ضرور تم کو مل جائیں گے۔ اس طرح کی تسلیاں اس نے رحیلہ کو دیں تو ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق اس نے اس کو اپنا نجات دہندہ سمجھ لیا۔
کچھ دن بعد وہ پھر چھٹی کے روز میرے پاس آئی۔ بچوں کی خیریت دریافت کی اور جاتے ہوئے شہاب کی بیٹھک پر دستک دی کہ اس کا مکان زیادہ دور نہ تھا۔ شہاب نے در کھولا۔ بیٹھک میں اسے بٹھایا کہا کہ اگر اتنی ہی بے چین ہو تو اپنے گھر کے اندر چلی جاؤ۔ تمہارے ساتھ سسر اور دیور بھی تو گھر میں ہے۔ وہ تمہارا ساتھ دیں گے۔ ممکن ہے شوکت دوبارہ تم کو رکھ لے۔ ورنہ میں عدالت سے تم کو بچے دلوانے میں مدد کروں گا۔ شہاب نے تو اس کے بچوں کے لیے بے قراری دیکھ کر یہ کہا تھا وہ اسی وقت بیٹھک سے نکلی اور دوبارہ شوکت کے گھر پہنچی ۔دروازہ کھلا تھا۔ وہ اندر چلی گئی۔ ساس نے اسے بٹھا لیا۔ اس نے بچوں کو گلے لگایا۔ پیار کیا اور کہا شوکت جو مجھ سے سلوک کرے۔ مارے پیٹے مگر میں یا تو بچوں کے پاس یہاں رہوں گی ورنہ اپنے بچے لے کر جاؤں گی۔ اس روز شوکت گھر پر نہ تھا پس وہ بچوں کے پاس دن بھر رہی رات کو وہ آگیا۔ رحیلہ کو دیکھ کر آگ بگولا ہو گیا۔ جب میں نے تم کو گھر سے نکال دیا تو پھر کیوں آئی ہو۔ چلو نکلو میرے گھر سے۔ کیا تم بچے اغوا کرنے آئی ہو؟ غرض اس نے دوبارہ رحیلہ کو گھر سے نکال دیا۔ وہ اس بار ہمارے گھر نہیں آئی پھر سے شہاب کے گھر چلی گئی اس کو روداد سنانے کے لیے۔ دستک دی وہ باہر نکلا ۔راحیلہ کو دیکھ کر کچھ گھبرا گیا۔ کہا کہ جانتی ہو میں اکیلا رہتا ہوں رات کے وقت تم کو نہیں آنا چاہیے تھا۔ خیر آگئی ہو تو اب اندر آ جاؤ جو بات کہنی ہے بتا دو۔ راحیلہ کو اس نے بیٹھک میں بٹھا دیا۔ وہ بولی جو تم نے کہا میں نے کیا ساس سسر مجھے واپس لانا چاہتے ہیں۔ مگر شوکت ان سے زور آور ہے اب بس اندھیرا ہی میری زندگی میں ہے آگے کی سب راہیں بند ہیں کیا کروں؟
اچھا تم اس وقت اپنے والدین کے گھر جاؤ یہ وقت میرے پاس آنے کا ہرگز مناسب نہیں ہے بلکہ میں خود تم کو تمہارے والدین کے پاس چھوڑ آتا ہوں۔ صبح بات کریں گے۔ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی ۔ یہ شوکت تھا جس نے رحیلہ کو گھر سے نکالا تو اس کا پیچھا کیا کہ کس کے ساتھ جاتی ہے اور اب دیکھوں تو کہ کہاں جاتی ہے؟ جب دیکھا کہ وہ اس مکان میں داخل ہوئی ہے۔ جو اگلے بلاک میں سڑک پر ہے اس نے محلے والوں کو اکٹھا کیا۔ شہاب نے پوچھا کون ہے ایک نہیں بہت سے لوگوں کی آوازیں آئیں دروازہ کھولو جیسے بلوائی ہوں اور لوٹ مار یا قتل و غارت کے لیے دروازہ پیٹ رہے ہوں ان دونوں کی عزت جانے کے خوف سے بری حالت تھی راحیلہ تو تھر تھر کانپ رہی تھی۔
جیسے باہر ایک مجمع ہاتھ میں پتھر لیے کھڑا ہو۔ شور بڑھنے لگا دروازہ دڑا دھڑ پیٹا جانے لگا۔ لگتا تھا کہ دونوں در کے پٹ اکھڑ کر ان کے سروں پر آ لگے گے پٹوں کی چولے بھی ہلنے لگی۔ بیٹھک کی ایک کھڑکی سڑک پر کھلتی تھی۔ اس کی درد سے جھانکا راحیلا کو سامنے شوکت بہت سے لوگوں کے ہمراہ کھڑا نظرآگیا اب تو اس کا مر جانا یقینی تھا۔ ہائےری عورت کی عقل۔ وہ اس وقت یہاں آئی ہی کیوں۔ کیا مایوسی نے مت مار دی تھی؟ یا بچوں کی جدائی نے؟ جان سے زیادہ جب عزت کو خطرہ ہو آدمی مر جانے کا ہی سوچتا ہے۔ مگر موت بھی کہاں اپنے بس میں ہوتی ہے۔ شہاب کو پہلے تو گھبراہٹ میں کچھ نہ سوچا۔ اچانک یاد آیا کہ اس کے بھائی کا ایک دوست یہاں ڈی ایس پی لگا ہوا ہے۔ اس نے بڑے بھائی کو فون کر کے فوری معلوم کیا اور پھر پولیس افیسر کو فون کر دیا۔ اسکی خوش قسمتی کہ اس نے فون اٹھا لیا۔ اس سے پہلے کہ لوگ دروازہ توڑ ڈالتے۔ پولیس وین پہنچ گئی اور لوگوں کو پرے کیا۔ رحیلہ نے برقعہ اوڑا ہوا تھا۔ پولیس نے اس کو تحویل میں لے لیا اور ساتھ لے گئی۔ لوگوں سے کہا جو معزز لوگ دعویدار ہوں صرف وہی قریبی تھانے آ جائیں تھانہ دور نہ تھا سڑک پار تھا۔
جب تک لوگ پہنچے انہوں نے خاتون کو خواتین والے کمرے میں بٹھا دیا۔ شوکت نے کہا یہی ہے وہ بدمعاش جس نے میری بیوی کو ورغلایا ہے۔ میرا گھر برباد کیا ہے اور اب یہ رنگ ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔ انسپیکٹر نے جواب دیا ٹھیک ہے آپ کی شکایت بھی لکھتے ہیں اپ نےنکاح نامہ اور شادی کے ثبوت لائیے والدین موجود ہوں تو مرد و عورت دونوں کے باپ بھی آئیں تاکہ تصدیق و شناخت ہو۔ خاتون پردہ نشین ہے امکان ہے کہ اس شہاب صاحب کے پاس کسی کام سے آئی ہوں اور کوئی مسئلہ درپیش ہو۔ جو قصور وار ہوگا ضرور انصاف ہوگا۔ یہ دونوں ہماری تحویل میں ہیں اپ لوگ نقص امن کا باعث نہ بنے اور نہ قانون کو ہاتھ میں لیں۔ ساری کاروائی باضابطہ ہوگی۔
شوکت کے والد نے تو تھانے آنے سے انکار کر دیا۔ البتہ فاصلے کے سبب راحیلہ کے والد صبح آئے۔ لوگ بھی انتظار کر کے چلے گئے۔ شوکت سے بھی کہا گیا کہ صبح آنا اس وقت ہم کسی خاتون کو جس کی جان کو خطرہ ہو آپ کی تحویل میں نہیں دے سکتے۔ خواہ اپ کی بیوی کیوں نہ ہو شہاب نے بھائی کو بات کر کے واقعہ سمجھا دیا تھا اور کہا کہ رات کے 10 بجے تھے اور خاتون برقعہ اوڑھے بیٹھک میں بیٹھی تھی۔ اس کا کوئی مسئلہ تھا اور وہ پہلے میرے آفس میں کام کرتی تھی دوبارہ نوکری کا سلسلہ تھا اس لیے آئی تھی۔ بھائی جان گیا کہ اس کا بھائی بے قصور ہے تاہم قصور وار بھی ہوتا تو اپنے ناموس کی خاطر پولیس والوں سے منت کرنی ہی پڑتی۔ یہ تو اس کے دوست پولیس افسر کے آرڈر پر پولیس وین ان کی جان بچانے اگئی تھی۔
بہرحال تھانے میں ہی اگلے روز راحیلہ کو شوہر نے طلاق دے دی اور بچے بھی اس کے حوالے کر دیے کیونکہ وہ خود بچوں کی دیکھ بھال کر سکتا تھا اور نہ اس کے والدین۔ بچے بھی ماں کے لیے پریشان تھے۔ راحیلہ کا باپ بیچارا بیٹی اور اس کے بچوں کو لے کر خانیوال چلا گیا۔ شہاب نے بھی ملازمت اور ہمارے شہر کو خیرباد کہہ دیا اور اپنے بھائی کے پاس لاہور چلا گیا۔
راحیلہ کی زندگی برباد ہو گئی، بدنامی کا ایسا دھبہ لگا کہ کہیں شادی نہ ہو سکی۔ اس بات کو تین ماہ بیت گئے۔ ایک دن شہاب دوبارہ آفس آئے مجھ سے ملے اور راحیلہ کے بارے میں دریافت کیا۔ مجھے جو معلوم تھا اسے بتا دیا۔ وہ بھی شرمندہ تھے کیونکہ وہ جیسے راحیلہ کی زندگی میں آئے اس پر برا وقت آ گیا، اور اب وہ اپنے دو بچوں کیساتھ کسی مسیحا کی راہ دیکھ رہی تھی۔ شہاب نے تمام روداد سن کر مجھے کہا کہ میں راحیلہ شادی کرنا چاہتا ہوں تاکہ جو پچھتاوا میرا سکون برباد کر رہا ہے اس سے رہائی پا سکوں۔
اسی دن میں ، میرا شوہر فہیم اور شہاب کے بھائی کیساتھ ہم لوگ منان صاحب کے گھر گئے، اور منان صاحب سے راحیلہ کی شادی کی بات کی۔ منان صاحب نے خوش دلی سے رشتہ قبول کرلیا، اصل میں منان صاحب بچوں کی مستقبل کی وجہ سے پریشان تھے۔ تب شہاب نے کہا: کہ وہ بچوں کی ذمہ داری بھی اٹھا لیں گے۔ آخر شہاب اپنی دلہن اور دونوں بچوں کو لے کر لاہور چلے گئے اور راحیلہ کی اجڑی زندگی میں پھر سے بہار آ گئی۔
(ختم شد)