غیرت مند عاشق - پارٹ 6

 اردو کہانی

Sublimegate Urdu Font Stories

غیرت مند عاشق -  پارٹ 6


جلد ہی عمارہ اور اس کے رشتے کی بات پرانی ہو گئی تھی۔شہناز پھوپھو کے ہاں اس کا آنا جانا بند ہو گیا تھا ۔ایک دو بار عمران چچا کے گھر شہناز پھوپھو سے اس کا ساسامنا ہوا تو پھوپھو نے اس کی خوب بے عزتی کی مگر وہ خاموشی سے سب کچھ سنتا رہا ۔دل کی بھڑاس نکال کر وہ چلی گئی تھیں ۔دعا کو تو اب وہ ایک آنکھ نہیں دیکھ سکتی تھیں ۔تعلیم کی تکمیل کے لیے عمارہ نے ہاسٹل میں رہائش اختیار کر لی تھی ۔گو رضوان نے ایک بار دبے لفظوں میں جا کر بڑی بہن کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن ان کی کڑوی کسیلی باتیں سن کر کان لپیٹ کر واپس آ گیاتھا ۔

ہاسٹل میں رہتے ہوئے عمارہ کو آزادی کی دنیا میسر ہوئی اور اس نے پر پرزے نکالنے شروع کر دیے ،جلد ہی اپنے ایک کلاس فیلو کے ساتھ عہد و پیمان باندھ کر وہ نئی دنیا کی تلاش میں سرگرداں ہو گئی۔ایک بار اتفاقاََ محمود ،دعا کو لے کر ایک ہوٹل میں گیا اور وہاں عمارہ کو دو اجنبی لڑکوں کے ساتھ کھانا کھاتے دیکھ کر وہ دنگ رہ گیا تھا ۔اس کا لباس محمود کو مزید ششدر کر گیا تھا۔ تنگ جینز کے ساتھ مختصر سی قمیض میں وہ کسی اشتہاری کمپنی کی ماڈل نظر آ رہی تھی ۔ایک نظر ادھر دیکھنے کے بعد محمود دوبارہ دعا کی طرف متوجہ ہو گیا تھا جو ہنستے ہوئے اپنی کسی کلاس فیلو کی بات سنا رہی تھی ۔

ہونٹوں پر ہنسی بکھیرتے ہوئے وہ دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کرنے لگا کہ اسے عمارہ جیسی لڑکی سے چھٹکارا مل گیا تھا اور اس کا سبب بھی اس کی ننھی شہزادی بنی تھی ۔وہ وہاں آئس کریم کھانے آئے تھے ۔جب وہ واپس جانے کے لیے اپنی جگہ سے اٹھے اس وقت بھی عمارہ وہیں بیٹھی بلند و بانگ قہقہے لگا کر خود کو بولڈ اور ماڈرن ثابت کرنے کی بونگی سی کوشش کر رہی تھی ۔ اس نے محمود کو بھی دیکھ لیا تھا ۔زور زور سے ہنستے ہوئے وہ گویا محمود کو جلا رہی تھی جو اس جیسی خوب صورت اور پرکشش لڑکی سے محروم رہ گیا تھا ۔حالانکہ وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اس سے جان چھوٹنے پر محمود شکرانے کے کئی نوافل ادا کر چکا تھا ۔
”ارے یہ تو عمارہ آپی ہیں ۔“دعا کی نظر جیسے ہی اس پر پڑی اس نے فوراََ محمود کو اس کی طرف متوجہ کرنا چاہا ۔

”چھوڑو گڑیا !....“محمود اسے بازو سے پکڑ کر اپنے ساتھ چلانے لگا ۔
صبح ناشتے کی میز پر دعا یہی بات اپنے والدین کو بتا رہی تھی ۔اپنی بھانجی عمارہ کی بے راہ روی کا سن کر رضوان بےچین ہو گیا تھا ۔لیکن رخسانہ چچی نے ۔”بھاڑ میں جائے ،تم اپنا ناشتا کرو۔“کہہ کر چاٸے کی پیالی کو منھ لگا لیا ۔
رضوان البتہ اس دن دفتر بھی نہیں جا سکا تھا ۔سیدھے گاﺅں کا رخ کر کے اس نے اپنی بڑی بہن شہناز اور بہنوئی اکرام کو تفصیل سے آگاہ کیا ۔مگر اس کی بہن شہناز الٹا اس سے جھگڑنے لگی کہ وہ اس کی شریف اور باکردار بیٹی پر کیچڑ اچھال رہا ہے ۔مجبوراََ اسے کان لپیٹ کر واپس آنا پڑا۔اس نے اپنا فرض پورا کر دیا تھا ۔عمارہ کے ماں باپ حیات تھے اس کی ذمہ داری ماں کی باپ کی توجہ بیٹی کی حرکتوں کی طرف مبذول کرنے سے زیادہ نہیں بنتی تھی ۔اور ایسا وہ کر چکا تھا ۔
شہناز پھوپھو کو جلد ہی اپنی بد زبانی اور دوسروں پر الزام تراشی کا صلہ مل گیا ۔فائنل سمیسٹر کے امتحان کے اگلے ہی دن عمارہ نے اپنے کلاس فیلو سے کورٹ میرج کر لی تھی ۔اپنی شادی کے لیے بنائے گئے زیور اور ماں کے ٹرنک میں رکھے اپنی شادی کے خرچ والے پیسے وہ آخری بار گھر سے آتے ہوئے اٹھا لائی تھی ۔

دعا میٹرک کے امتحانات کے بعد فارغ تھی ۔اس دن ناشتے کی میز پر رخسانہ چچی اسے مخاطب ہوئی ....
”شاہینہ چند دن نہیں آئے گی کچن سنبھال لینا ،یوں بھی تمھاری سکول سے چھٹیاں ہیں ۔“
”مجھ سے نہیں ہوتے کچن کے کام اور نہ میں توے کے سامنے کھڑے ہو کر روٹیاں بنا سکتی ہوں۔“اس نے دانتوں سے کاٹی بریڈ پلیٹ میں رکھتے ہوئے جوس کا گلاس اٹھا لیا ۔
”میں نے ناشتا بنا دیا تھا ،دوپہر کو چند روٹیاں ڈال دینا ۔“ رخسانہ نے غصے سے کہا ۔ ”اور دو تین دن کی بات ہے تم کچن کے کام کر کے مر نہیں جاو گی، آخر ایک دن تو تمھیں کچن سنبھالنا ہی ہوگا ۔“
اس وقت محمود ڈائنگ روم میں داخل ہوا ۔”اسلام علیکم چچی جان !“ کرسی سنبھال کر وہ ہاٹ پاٹ سے پراٹھا نکالنے لگا ۔گھر میں صرف وہی پراٹھے اور ہاف فرائی انڈے سے ناشتا کرتا تھا ۔

”ممی کہہ دیا نا،مجھ سے نہیں پکائی جاتی روٹیاں۔“وہ جوس کا آدھے سے زیادہ گلاس چھوڑ کر وہ جانے کے ارادے سے اٹھی ۔
”اے گڑیا !....کہاں جا رہی ہو بیٹھو ۔“محمود نے اس کی پلیٹ میں پڑے قریباََ سالم بریڈ اور جوس کے بھرے گلاس کو دیکھ کر اسے ہاتھ سے پکڑ کر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔
”کیا ہے محمود بھائی !“وہ روہانسی ہو کر بیٹھ گئی ۔
”بریڈ اور جوس کا گلاس ختم کرو پھر چلی جانا۔“
”میرا دل نہیں کر رہا ۔“وہ لاڈ سے بولی ۔
”اچھا میں اپنی گڑیا کو اپنے ہاتھوں سے کھلاتا ہوں۔“وہ اپنا پراٹھا چھوڑ کراسے بریڈ کھلانے لگا۔

”محمود بیٹا !....نہ بگاڑو اس کی عادتیں،تمھاری وجہ سے روز بہ روز بدتمیز ہوتی جا رہی ہے ۔“رخسانہ غصے میں آکر محمود کو جھڑکنے لگی ۔
”کہاں چچی جان!....ہماری گڑیا تو اتنی اچھی ،اتنی تمیز دار ہے۔ دیکھو ناشتا بھی کر رہی ہے اور جوس بھی پی رہی ہے۔“ محبت بھرے لہجے میں کہتے ہوئے محمود نے جوس والا گلاس اٹھا کر دعا کو پکڑا دیا۔
”خدا ہی تمھیں عقل دے ۔“رخسانہ سر پر ہاتھ مارتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔
”اب میں جاوں ؟“جوس کا گلاس ختم کرتے ہوئے وہ محمود سے اجازت لینے لگی۔
” جاو۔“محمود نے اثبات میں سر ہلایا۔”اور ہاں دوپہر کو میں ہوٹل سے کچھ لے آوں گا، تمھیں کچن میں جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔“
”تھینک یو محمود بھائی !“ اس کا گال چومتے ہوئے وہ اپنے کمرے کی جانب بھاگ گئی۔ناشتا ختم کر کے اس نے جلدی جلدی برتن سمیٹ کر کچن میں رکھے ۔اور دفتر چل دیا ۔ اپنے کمرے کی کھڑکی سے یہ منظر دیکھتی رخسانہ اپنا سر پکڑتے ہوئے بڑبڑائی ۔
”توبہ ہے، یہ لڑکا تو دعا کو کہیں کا نہیں رہنے دے گا ۔“
دفتر پہنچ کر اس نے سب سے پہلے تو اپنے دوست فرخ سے کام والی کسی عورت کی بابت استفسار کیا جو ہفتے بھرشاہینہ ماسی کی غیر موجودگی میں ان کا کچن سنبھال سکتی ۔

”ٹھیک ہے ،اگرآپ کو زیادہ ضرورت ہے تو ہفتے بھر کے لیے آپ میرے گھر کام کرنے والی کو رکھ لیں ،میں چند دن اس کے بغیر گزار لوں گا۔“فرخ نے فراخ دلی سے پیش کش کی تھی۔
فرخ کا شکریہ ادا کر کے وہ کام کی طرف متوجہ ہوگیا۔ٹھیک بارہ بجے اس نے ہوٹل پر جا کر چچی جان کے لیے سبزی اور روٹیاں ۔جبکہ باقیوں کے لیے بریانی پیک کروائی اور گھر کی جانب چل پڑا ۔لیکن اس سے پہلے وہ چچی کو کال کرنا نہیں بھولا تھا۔ان سے کوئی بعید نہیں تھا کہ وہ زبردستی دعا کو کچن میں گھسا دیتی ۔
”ہاں محمود بیٹا !....کیا بات ہے ؟“چچی کے لہجے میں حیرانی تھی کہ وہ اس وقت کال نہیں کیا کرتا تھا ۔
”چچی جان !....میں آج دوست کے ساتھ ہوٹل میں لنچ کرنے آیا تھا اور آپ لوگوں کے لیے بھی کھانا پیک کرا لیا ہے۔بہت اچھی مکس سبزی بنی تھی ۔ آج شاہینہ ماسی بھی نہیں ہے نا،تو میں نے سوچا آپ کو کچن سنبھالنے کی زحمت نہ کرنا پڑے ۔“
”جی ....جی ،میں جانتی ہوں کہ تمھیں میرا کتنا خیال ہے ۔اور تمھیں یہ کس نے بتایا کہ آج شاہینہ چھٹی پر ہے ۔“
”وہ ....چچی جان !....میں ....ہاں آج صبح آپ کو کچن میں کام کرتے دیکھا تو میں سمجھ گیا تھا کہ ....“

”کہ چچی تمھاری لاڈلی کو کچن میں گھسیڑ دے گی اور اسی وجہ سے تم برتن سمیٹ کر کچن میں رکھ رہے تھے بے شرم نہ ہو تو۔“ اسے جھڑکتے ہوئے چچی نے رابطہ منقطع کر دیا اور وہ خفیف سے ہنسی ہونٹوں پر سجائے گھر کی جانب روانہ ہو گیا تھا۔
میز پر کھانا رکھ کر اس نے سرعت سے پلیٹیں وغیرہ میز پر لگائیں اور چچی جان کو بلانے اس کے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔
”آئیں نا چچی جان !....دیکھیں آپ کے لیے کیسی سبزی لایا ہوں ۔“
”سبزی کے ساتھ آج آپ کو بریانی بھی اچھی لگی ہو گی کہ تمھاری لاڈلی کو سبزی ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ چکن بریانی پسند فرماتی ہیں ۔“رخسانہ کھانے کی میز کو دیکھے بغیر سمجھ سکتی تھی کہ وہ کیا لایا ہوگا۔
”وہ تو افنان کو اچھی لگتی ہے چچی جان !....آپ بھی نہ بس خواہ مخواہ بچی کو ڈانتی رہتی ہیں ،چھوٹی سی گڑیا تو ہے وہ ،بڑی ہوگی تو کچن بھی سنبھال لے گی۔“
”ایسا لگتا تو نہیں ہے ۔“رخسانہ نے منھ بنا کر کہا۔”خاص کر تمھاری موجودگی میں تو یہ لڑکی نہیں سدھرنے والی۔“
”چچی جان !....ایک دن پرائے گھر کی ہو جائے گی،پھر آپ یاد کیا کریں گی کہ اس چھوٹی سی گڑیا کو ۔“
”ہاں بیٹا !....بیٹیاں تو ہوتا ہی پرایا دھن ہیں ۔اور اسی وجہ سے تو میں چاہتی ہوں کہ وہ پڑھائی کے ساتھ گھر کے کام کاج سیکھ لے۔ مگر تم نے اسے بالکل بگاڑ دیا ہے ۔“
کرسی سنبھال کر وہ پیک کیا ہوا سبزی کا سالن پلیٹ میں ڈالنے لگی ۔جبکہ محمود بریانی پلیٹ میں ڈال کر دعا کو آواز دینے لگا ۔
”گڑیا ....اوگڑیا ....کھانا تیار ہے ۔“
”آئی بھیا !“ریشمی بال بکھرائے ،دوپٹے کو گلے میں جھولاتی وہ ننگے پاوں بھاگتی ہوئی آئی تھی ۔
”بہت سخت بھوک لگی ہے محمود بھائی !....کیا لائے ہیں،ارے بریانی ،واہ ۔“ کرسی سنبھالتے ہی وہ بریانی کی پلیٹ پر ٹوٹ پڑی ۔جبکہ محمود اس کے انداز کو دیکھتے ہوئے مسکرانے لگا۔
”اس کی حالت دیکھی ہے ۔“رخسانہ نے کڑے تیوروں سے محمود کو گھورتے ہوئے اس کی حالت کی جانب متوجہ کیا ۔
”کیا ہے امی !“دعا نے منھ بنایا۔
”دوپٹا سیدھے طریقے سے سر پر نہیں لیا جا سکتا اور ہر وقت ننگے پاوں کیوں بھاگتی پھرتی ہو ؟“
”ہر وقت نہیں کبھی کبھی ،ہے نا محمود بھائی ؟“
”ہاں بالکل !....ہماری گڑیا تو ہے ہی تمیز دار ۔چچی جان خواہ مخواہ ڈانٹ رہی ہیں۔“ محمود نے اس کی طرف داری کرنے میں دیر نہیں کی تھی ۔
”ویسے محمود بھائی !....بریانی بہت مزے کی بنی ہے،اگر شام کو بھی کچھ ہوٹل سے بن کر آ جائے نا۔“

”جی نہیں ،شام کو گھر پر پکے گا۔“رخسانہ دوٹوک لہجے میں بولی ۔”سالن میں بنا دوں گی ، روٹیاں تم ڈال لینا ۔“
”وہ ....چچی جان!.... میرے ایک دوست نے کچھ دنوں کے لیے دوسرے شہر میں جانا تھا ۔ اس کے گھر کام کرنے والی ہفتے کے لیے فارغ تھی ۔تو میں نے دوست کو آفر کر دی کہ ہفتے کے لیے اسے ہمارے گھر بھیج دے، غریب عورت ہے تو ....“محمود نے نیچے دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہا ۔
”ہاں میں جانتی تھی کہ جناب محمود صاحب کچھ ایسا ہی کریں گے اور میرا اندازہ پہلے کبھی غلط ہوا ہے ۔“
”ہا....ہا....ہا۔محمود بھائی زندہ باد ۔“دعا نے زور دار نعرہ لگایا۔
” تم نے تو کہنا ہے ۔بے شرم کہیں کی۔“رخسانہ خفیف انداز میں ہنس دی تھی ۔
”چچی جان !....ایمان سے بتائیں سبزی کیسی بنی ہے ؟“محمود نے جلدی سے موضوع تبدیل کیا۔ورنہ نصیحتوں کا پٹارا کھل جانا تھا۔
”اچھی ہے۔“رخسانہ نے تعریفی انداز میں سر ہلایا۔”ویسے تم نے تو ہوٹل میں کھا لیا تھا نا،پھر.... ؟“
”وہ ....میں ....بس ....اچھی بنی ہے بریانی تو۔“محمود گڑبڑاتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔ ”اچھا میں چلتا ہوں ۔“

”بیٹھو !....مجھے پتا ہے جو تم نے ہوٹل میں کھایا ہے۔“رخسانہ نے اسے شفقت بھرے لہجے میں ڈانٹا۔
محمود جلدی سے بیٹھ کر دوبارہ کھانے کو جڑ گیا ۔جبکہ دعا نے نیچے دیکھتے ہوئے زیر لب مسکرا کر سرگوشی کی ۔
”پکڑے گئے نا ،جھوٹ بھی صحیح طریقے سے نہیں بول سکتے بھیا !“
اس کی بات پر محمود کے ہونٹوں پر ہنسی کھل گئی تھی ۔یوں بھی اسے ہنستے دیکھ کر محمود کو دنیا جہاں کا سکون محسوس ہوتا تھا ۔

تعلیم کی تکمیل کے ساتھ ہی افنان نے نوکری کے لیے ہاتھ پاﺅں ہلانے شروع کر دیے ۔درمیانہ درجے کی نوکری میسر آتے ہی اس نے اپنی شادی کے لیے ماں سے کانا پھوسی شروع کر دی ۔
”پاگل تو نہیں ہوا ہے ،ابھی تک محمود کی شادی نہیں ہوئی ۔“رخسانہ نے اسے سمجھانا چاہا ۔
”امی جان !....محمود بھائی کی شادی تو فیضان بھائی سے بھی پہلے ہو جانا چاہیے تھی ۔ اب اگر وہ خود شادی نہیں کرنا چاہتے تو کیا ہم ان کے انتظار میں جوانی بتا دیں ۔“
”وہ صرف دعا بیٹی کی وجہ سے اپنی شادی موّخر کر رہا ہے ۔لیکن تمھیں اپنی بہن کا کوئی خیال نہیں ۔“
”کیوں خیال نہیں امی جان !....دعا اس سے زیادہ مجھے پیاری ہے ،لیکن مجھ سے اپنی محبت کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا جاتا ۔اور معاف کرنا کسی کی ہر جائز ناجائز خواہش کو پورا کرنا محبت نہیں دشمنی کہلاتا ہے ۔اس بات کا اندازہ آپ کو تب ہو گا جب دعا دوسرے گھر جائے گی ۔“
”اچھا اچھا ٹھیک ہے ،تمھیں بڑا بننے کی کوئی ضرورت نہیں ۔تمھارے ابو دفتر سے لوٹتے ہیں تو انھیں بتاتی ہوں تمھارا مسئلہ ۔یوں اب تک کوئی اچھا رشتا تلاش بھی کرنا پڑے گا۔“
”امی جان !....میں نے دیکھا ہوا ہے نا ۔“وہ ماں کے ساتھ بیٹھ کر اس سے لپٹ گیا۔
”ماشاءاللہ ،میرے بیٹے اس معاملے میں تو کچھ زیادہ ہی تیز ہیں ۔“رخسانہ طنزیہ ہنسی سے بولی ۔
”ارتضی نام ہے اور میری کلاس فیلو رہی ہے ۔“وہ ماں کے طنز کی پروا کیے بغیر بولا۔
رخسانہ نے متشکرانہ لہجے میں کہا ۔”شکر ہے تم نے بڑے بھائی کی نقل میں خاندان میں جھک نہیں ماری ۔“
ماں کی بات سن کر افنان نے سکھ کا سانس لیا تھا ۔یوں بھی گھر میں ماں ہی کا حکم چلتا تھا اور ماں کو اس نے راضی کر لیا تھا ۔

ارتضیٰ بھی کی اس کی طرح متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ۔رخسانہ اور رضوان کو انھوں نے خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہا تھا ۔شاید ارتضیٰ اپنے والدین کو سب کچھ بتا چکی تھی ۔ مگر ارتضیٰ کی والدہ سے گفتگو کرتے ہوئے رخسانہ کو معلوم ہوا کہ اس کا بیٹا کئی بار ان کے گھر آ چکا تھا اور ارتضیٰ کی ماں اس سے اچھی طرح واقف تھی ۔

ان کے رشتا مانگنے پر ارتضیٰ کے والدین نے بغیر کسی جھجک کے ہاں کر دی تھی ۔دونوں طرف سے رضامندی کے بعد شادی کی تیاریاں ہونے لگیں ۔فیضان بھی بھائی کی شادی پر شرکت کے لیے اپنے پورے کنبے کے ساتھ دبئی سے دو ہفتوں کے لیے آیا تھا ۔وہ دو خوب صورت بچوں کا باپ بن گیا تھا ۔چھے سالہ ریحان اور چار سالہ آصفہ نے ان کے گھر کی رونقیں وقتی طور پر بڑھا دی تھیں ۔دعا بھی ان کے ساتھ بچی بن کر سارا دن کھیلتی رہتی ۔محمود کو بھی وہ دونوں بچے بہت پیارے لگے تھے ۔ایک دن ناشتے کی میز پر بیٹھے ہوئے محمود نے آصفہ کو گود میں اٹھا لیا۔ دعا ابھی تک اپنے کمرے سے نہیں نکلی تھی ۔محمود کے پکارنے پر وہ اپنے کمرے سے باہر نکلی ۔ وہ ہمیشہ محمود کے ساتھ ہی بیٹھا کرتی تھی ۔نشست سنبھالنے سے پہلے وہ آصفہ کو محمود کی گود سے لے کر محمود کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولی ۔

”بھیا !....پتا ہے نا میں آپ کی گود میں اپنے علاوہ کسی کو برداشت نہیں کر سکتی ۔“ آصفہ کو اس نے اپنی گود میں بٹھا لیا تھا ۔اس کی بات پر محمود نے بے ساختہ قہقہہ لگایا ۔تمام گھر والے سوالیہ نظروں سے محمود کی طرف متوجہ ہو گئے تھے ، لیکن دعا کی بات چونکہ کوئی سن نہیں پایا تھا اس لیے وہ فقط انھیں گھور کر رہ گئے تھے ۔البتہ فیضان اندازہ لگائے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔
”محمود بھیا !....سچ سچ بتائیں ،دعا نے آپ کے کان میں یہی کہا ہے نا کہ آپ آصفہ کو گود میں نہ اٹھایا کریں ۔“
محمود نے حیرانی سے پوچھا ۔”آپ کو کیسے پتا چلا ؟“
”کیونکہ یہ حاسد بچپن سے آپ کی گود میں کسی اور کو نہیں دیکھ سکتی تھی ۔اب تک اس کی پرانی عادت نہیں بدلی ۔“
”عادتیں تبدیل نہیں ہوا کرتیں بھیا!“ دعا نے اعتراف کرتے ہوئے گویا فیضان کے اندازے کو درست قرار دے دیا تھا ۔
”اللہ پاک ہی اسے عقل دے ۔“رخسانہ نے افسوس بھرے انداز میں سر ہلایا۔
”ہاں بس میری تو ہر بات آپ کو غلط نظر آتی ہے ۔“منھ بناتے ہوئے دعا ناشتے کی طرف متوجہ ہو گئی ۔

”محمود بھیا !.... اب اسے خود کام کرنے کی عادت ڈالنے دیں ۔اب تک بچی بنی پھر رہی ہے۔“دعا کے لیے محمود کو انڈے چھیلتے دیکھ کر فیضان ٹوکے بنا نہیں رہ پایا تھا ۔
”بھیا !....پردیس جا کر بھی آپ کے دل میں چھوٹی بہن کی محبت نہیں جاگی ،آج بھی آپ افنان بھیا کی طرح میرے مخالف ہی ہیں ۔“
”مخالف نہیں تمھاری بہتری کا سوچتا ہوں ۔“
”ہاں ....جیسے بریرہ آپی کی بہتری کا سوچتے ہوئے آپ نے کھانا بنانا سیکھ لیا ہے ، ریحان بتا رہا تھا پاپا،مما سے اچھا کھانا بناتے ہیں ۔“
تمام نے زوردار قہقہہ لگایا اور فیضان بغلیں جھانکنے لگا ۔بریرہ کے چہرے پر بھی جھینپی جھینپی مسکراہٹ دوڑ گئی تھی ۔
”بیٹا !....اس کی زبان چاقو چھریوں سے بھی تیز چلتی ہے ۔اس لیے اسے اپنے حال پر چھوڑ دو ،یہ جانے اور اس کا محمود بھیا ۔“

”آپ چاہے جو بھی کہیں محمود بھیا کو مجھ پر غصہ نہیں آ سکتا ۔کیوں محمود بھیا !“ ماں کو جواب دیتے ہوئے وہ محمود کی طرف متوجہ ہوئی ۔
”بالکل ۔“محمود نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس کی تائید کی ۔
”ہاں ،یہ بات تو ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ تمھیں بگاڑنے میں کس کا ہاتھ ہے ، بس بگاڑنے والے کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی ۔“
رخسانہ نے محمود کو مطعون کرنے کی ناکام کوشش کی ۔حالانکہ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ دعا کی طرف داری کرتے ہوئے محمود ڈھیٹ پن کی حد بھی عبور کر جاتا تھا ۔اسے اگر دعا کی کوئی بات بری بھی لگتی تو وہ اسے اکیلے میں بے شک ڈانٹ دیتا مگر سب کے سامنے اس کا اظہار کرتے ہوئے جھجکا کرتا تھا ۔
افنان کی شادی کے ایک ہفتہ بعد فیضان اپنے کنبے کے ساتھ دبئی لوٹ گیا تھا ۔ رخسانہ کے پیہم اصرار پر بھی وہ دبئی چھوڑنے پر تیار نہیں تھا ۔
افنان کی دلہن ارتضیٰ پہلے ہی دن سے دعا کو پسند نہیں آئی تھی۔ وجہ کچھ بھی تھی ،لیکن اس وجہ سے گھر میں ہنگاموں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا تھا ۔دعا ہمیشہ اس کے پیچھے پڑی رہتی ۔اور بات بے بات اس سے جھگڑنے کی کوشش کرتی ۔
ماں باپ نے دعا کو سمجھانے کی کئی بار کوشش کی مگر وہ الٹا ارتضیٰ ہی پر الزام دھرنے لگتی۔ ارتضیٰ بھی کوئی ان پڑھ گنوار مشرقی لڑکی نہیں تھی ۔ماسٹر کر چکی تھی اور اسے گھر میں اپنے شوہر کی شہ حاصل تھی ۔اینٹ کا جواب پتھر سے دینا اسے آتا تھا ۔

محمود کے ساتھ ارتضیٰ کے تعلقات اچھے تھے وہ اسے بھی چھوٹی بہن ہی کی طرح سمجھتا تھا ۔صرف دعا ہی کو اس سے خدا واسطے کا بیر تھا ۔ان کے چھوٹے چھوٹے جھگڑے بڑی لڑائیوں کی شکل اختیار کرنے لگے ۔اس ضمن میں محمود نے بھی اکیلے میں دعا کو کافی نصیحتیں کیں مگر وقتی طور پر اثبات میں سر ہلا کر محمود کی ہاں میں ہاں ملانے والی محمود کے کمرے سے نکلتے ہی اس بات کو یوں بھلا دیتی گویا اس نے کوئی وعدہ ہی نہ کیا ہو۔
اور پھر ایک دن حد ہی ہو گئی کالج سے واپسی پر کھانے کی میز پر بیٹھتے ہوئے اس نے حکمیہ انداز میں ارتضیٰ کو کھانا لانے کو کہا ۔
”میرا خیال ہے میں تمھاری ملازمہ نہیں ہوں اور نہ تمھارے ہاتھ پاﺅں ہی ٹوٹے ہیں جو تم پر ترس کھا سکوں۔“
”ہاتھ پاﺅں ٹوٹیں تمھارے ،میرے کیوں ٹوٹیں ۔“یہ کہتے ہی اس نے سامنے رکھا شیشے کا گلاس اٹھا کر ارتضیٰ کے سر میں دے مارا ۔
محمود ،اسے کالج سے واپس لا کر دفتر لوٹ گیا تھا ۔اس وقت وہ کھانے کے کمرے میں اکیلی تھیں ۔ارتضی کی زور دار چیخ سن کر رخسانہ دوڑی چلی آئی تھی ۔اپنی بہو کے سر سے بھل بھل خون نکلتا دیکھ کر اس کے تو ہاتھ پاﺅں پھول گئے تھے ۔دعا بےپروائی سے باورچی خانے میں جا کر اپنے لیے کھانا نکالنے لگی ۔
رخسانہ نے جلدی جلدی ارتضیٰ کے سر پر اپنا دوپٹا لپیٹا اور اسے سہارا دے کر کمرے میں لے آئی ۔ارتضیٰ ہی سے اسے معلوم ہوا کہ یہ سب دعا کی کارستانی تھی ۔وہ غصے میں ابلتی ہوئی دعا کے پاس پہنچی ۔
”امی جان !....پہلے اس نے مجھے کہا کہ تمھارے ہاتھ پاﺅں ٹوٹ جائیں اور اس کی بد دعا سن کر مجھے بھی غصہ آگیا تھا ۔“

”تو غصہ آنے کا یہ مطلب ہے کہ دوسرے کو جان ہی سے مار دو ۔“
”اتنی آسانی سے نہیں مرنے والی ۔“دعا اطمینان سے کھانا کھاتی رہی ۔اس کے نزدیک یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی ۔
”شرم و حیا بھی نہیں آتی بےغیرت کو ۔“رخسانہ نے اپنے دائیں ہاتھ کا پنجہ ملامتی انداز میں اس کے چہرے کے سامنے لہرایا۔
”شرم اور غیرت اسے نہیں آتی جو ساری دن بستر پر پڑی اینڈتی رہتی ہے ۔کھانا ہی مانگا تھا اس سے ،نہ دیتی یوں جلی کٹی سنانے کا مطلب ۔اس کے گھر سے تو نہیں کھا رہی ہوں ۔ اس کے شوہر کی تنخواہ سے تو مہینے بھر کی سبزی بھی نہیں آتی ۔سارا گھر میرے بھیا کی تنخواہ سے چل رہا ہے ۔“
”اب اپنا منھ بند کرو گی یا تھپڑ کھا کر ہی چپ آئے گی ۔“رخسانہ غصے سے دھاڑی ۔
”آپ کو تو بس مجھی سے خدا واسطے کا بیر ہے ۔“کھانے سے ہاتھ کھینچتی ہوئی وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
”آج آنے دو اس بےحیا کو ....لیتی ہوں اس کی خبر ۔“رخسانہ غصے میں محمود کو کوسنے لگی ۔

رضوان کو گھر آتے ہی جونھی یہ بات پتا چلی ۔سب سے پہلے تو اس نے ارتضیٰ کو نزدیکی کلینک میں لے جا کر اس کی مرہم پٹی کروائی اور پھر دعا کو ڈانٹنے اس کے کمرے میں گھس گیا ۔وہ باپ کی ڈانٹ خاموشی سے سنتی رہی ۔یوں بھی ماں باپ کی ڈانٹ کھانے کی وہ بچپن سے عادی تھی ۔اس سے صرف محمود کا ڈانٹنا برداشت نہیں ہوتا تھا ،باقی کسی کے ڈانٹنے کو وہ خاطر میں نہیں لاتی تھی ۔
اصل ہنگامہ محمود اور افنان کی آمد پر ہوا تھا ۔وہ آگے پیچھے ہی گھر میں داخل ہوئے تھے۔افنان کے پاس محمود والی پرانی موٹر سائیکل تھی اسی پر وہ دفتر آیا جایا کرتا تھا ۔
پہلے محمود ہی گھر میں داخل ہوا تھا ۔ڈرائینگ روم ہی میں اسے رخسانہ چچی کا سامنا کرنا پڑ گیا ۔
چچی جان کی جلی کٹی سنتے ہی اس نے مسکرا کر پوچھا ۔”آخر ہوا کیا ہے چچی جان ؟“

جواباََ رخسانہ نے اسے اصل بات بتلا دی ۔محمود نے سب سے پہلے ارتضیٰ کے پاس جا کر اس کی طبیعت کا پوچھا اور اسے تسلی دے کر ۔دعا کے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔اسی وقت افنان گھر میں داخل ہوا ۔ارتضیٰ تو گویا اسی کی منتظر تھی اس کے آتے ہی رو رو کر ساری بات بتلا دی ۔
افنان غصے میں طنطناتا دعا کے کمرے کی طرف بڑھا اس سے پہلے بھی وہ دعا کو ارتضیٰ سے جھگڑا کرنے کی وجہ سے ڈانٹ چکا تھا ۔لیکن آج تو اس کا کوئی اور ارادہ تھا ۔محمود اس وقت دعا کے کمرے ہی میں تھا ۔افنان کو غصے سے اندر آتے دیکھ کر وہ اس کا غصہ دھیما کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا ۔
”میں نے اسے اچھی طرح ڈانٹ دیا ہے آئندہ یہ ایسا نہیں کرے گی ۔“
”یہ باتوں کے نہیں لاتوں کے بھوت ہیں ۔“افنان جارہانہ انداز میں چھوٹی بہن کی طرف بڑھا ۔

محمود نے فوراََ اسے تھام لیا ۔”کیا کر رہے ہو افنان !....پاگل تو نہیں ہو گئے ۔ چھوٹی سی بچی ہے ۔آئندہ نہیں کرے گی ایسا ۔“
”نہیں ہے یہ چھوٹی سی بچی ۔اور براہ مہربانی آپ ہمارے بیچ نہ آئیں ۔“
”بس کرو نا یار !....اب وہ معافی مانگ چکی ہے ۔“محمود نے اسے پیچھے کی جانب کھینچا ۔افنان کے غصے سے بےپروا دعا اپنے بیڈ پر بیٹھی تھی ۔بڑے بھائی کو غصے میں دیکھ کر اس کے چہرے پر ذرا بھر بھی خوف نہیں ابھرا تھا ۔اور خوف ہوتا بھی کیسے اس کا محمود بھیا وہاں موجود تھا۔ اس کی موجودگی میں کسی کی مجال تھی جو اسے چھو بھی لیتا ۔
”میں کہہ رہا ہوں چھوڑو مجھے ،آپ بیچ میں نہ آئیں ۔اور نہ آپ کو دعا کا ٹھیکیدار بننے کی ضرورت ہے ۔آپ سے زیادہ وہ میری بہن ہے ۔“
”یہ ٹھیکیداری کی بات رہنے دو ،تم ذرا گڑیا کو ہاتھ لگا کر دیکھو ۔“محمود اس سے کمزور تو تھا نہیں کہ دب جاتا۔ یوں بھی وہ ہمیشہ چھوٹے بھائی کی طرح ہی اس سے برتاﺅ کرتا آیا تھا ۔
”آپ مجھے روک کر دکھائیں ۔“افنان بھی آپے سے باہر ہو گیا تھا ۔
”روک لیا ہے ۔“محمود نے اسے دروازے کی طرف دھکا دیا ۔”یوں شیر بن کر اپنی بیوی کی طرف داری کرنے سے پہلے پوری بات سن لو ۔کیا ہوتا اگر وہ چھوٹی نند کے سامنے کھانا رکھ دیتی ۔گھر کی بہو کا حق بنتا ہے کہ وہ گھر کے چھوٹے بڑوں کے لیے کھانا بنا کر ان کے سامنے رکھے۔ اور نہیں رکھنا تھا تو بددعائیں اور طعنے دینے کی کیا ضرورت تھی ۔“
”تو یہ بھی منھ سے بکواس کرتی ۔“

”غصے میں ہو جاتا ہے ایسا ،آپ ذرا ٹھنڈے ہوں ۔بعد میں بات کرتے ہیں ۔“ افنان کا رویہ دیکھ کر نرم مزاج محمود کو بھی تپ چڑھ گیا تھا ۔یہ تو ممکن ہی نہیں تھا کہ اس کی گڑیا کو کوئی اس کے سامنے ہاتھ لگاتا ۔اور افنان اس کے سامنے دعا کی پٹائی کرنے پر تلا تھا ۔غصہ تو اسے آنا تھا ۔
اسی وقت رضوان اور رخسانہ وہاں پہنچے ۔دونوں کو آمنے سامنے دیکھ کر رضوان نے دونوں کو سخت الفاظ میں جھڑکا ۔
”شرم تو نہیں آتی ہو گی دونوں کو ۔نو عمر لڑکوں کی طرح جھگڑ رہے ہو ۔اور تمھیں توچلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے افنان ۔آج بیوی کی خاطر تم بڑے بھائی کے سامنے کھڑے ہو کل کو بیوی کی خاطر میرا گریبان تھامنے میں بھی پس وپیش نہیں کرو گے ۔“
”بھائی کا گریبان نہیں تھاما ،اپنی چھوٹی بہن کو تنبیہ کرنے آیا ہوں ۔اور کوئی بڑا بھائی ہے تو اسے بھی تو انصاف کرنا چاہیے نا ۔یہ نہیں کہ بس ایک ہی کو سر پر چڑھائے رکھے ۔“
”تم سے پہلے تمھاری ماں اور میں اسے ڈانٹ چکے ہیں ،محمود نے بھی سمجھا دیا ہے اور کیا اس کی جان لو گے ۔“رضوان کے دل میں اپنی گڑیا بیٹی کی محبت نے جوش مارا ۔”اور تمھاری بیوی سے بھی ہم تینوں نے معذرت کر لی ہے ۔اب اور کیا کریں بتاﺅ۔“
افنان باپ کی بات کا جواب دیے بغیر بڑبڑاتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا ۔
”معذرت خواہ ہوں چچا جان !“محمود نے سر جھکاتے ہوئے رضوان چچا کے غصے کو کم کرنا چاہا ۔
”خالی معذرت نہ کرو اسے بھی دو تین لگا دو ۔“رضوان نے دعا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے غصیلے لہجے میں کہا اور رخسانہ کو ساتھ لے کر کمرے سے باہر نکل گیا ۔

محمود سر پکڑ کر دعا کے بیڈ پر بیڈ گیا تھا ۔دعا کا رویہ اس کی سمجھ سے باہر تھا ۔نہ تو وہ اتنی بد تمیز تھی اور نہ ایسی جھگڑالو، مگر جانے کیوں وہ ارتضیٰ کو ایک آنکھ نہیں دیکھ سکتی تھی ۔حالانکہ ارتضیٰ ایک اچھی اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی ۔افنان کی پسند کو اس نے دل کھول کر سراہا تھا ۔
”بھیا !....آپ مجھ سے خفا ہیں ۔“اسے یوں پریشان دیکھ کر دعا اس سے لپٹ گئی تھی۔
”بھیا کی جان!.... خفا نہیں ہوں ،لیکن تمھارے رویے سے پریشانی ضرور ہے ۔ اب دیکھو افنان کو تم نے کتنا دکھ دیا ہے ۔بے چارہ تھکا ہارا دفتر سے لوٹا اور آگے سے اتنا بڑا مسئلہ کھڑا ہے ۔“
دعا نے منھ بناتے ہوئے کہا ۔”کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے ۔اسے ہی بس اپنی بیوی کی محبت میں کچھ نظر نہیں آتا ۔“
”تم نہیں سدھرو گی ۔“بے بسی سے مسکراتے ہوئے محمود نے اس کی ناک سے پکڑ کر مروڑا ۔
”افف بھیا ،اتنی زور سے تو نہ مروڑا کریں ۔“ناک پر ہاتھ رکھ کر وہ تکلیف بھرے انداز میں بولی ۔

محمود اس کے سر کے بال بکھراتا ہوا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا ۔
رات کو کھانے کی میز پر افنان اور اس کی بیوی نہیں آئے تھے ۔اور پھر بات یہیں تک محدود نہ رہی ۔اگلے دن ارتضیٰ کی ماں اسے ملنے آ گئی ۔اب جانے وہ اتفاق سے وہاں آئی تھی یا بیٹی نے خود کال کر کے اسے بلایا تھا ۔بہرحال بیٹی کے سر پر پٹی بندھی دیکھ کر اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔رخسانہ کو جلی کٹی سنا کر وہ بیٹی کو ساتھ لے گئی اور افنان کو فون کر کے بتا دیا کہ اگر بیوی کو علیحدہ گھر میں رکھ سکتے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ طلاق دے دو ۔ارتضیٰ اب اس گھر میں قطعاََ نہیں رہے گی ۔اس وقت افنان بھی وقتی طور پر غصے میں تھا ۔بیوی کو سمجھانے کے بجائے اس نے فوراََ کرایے کا مکان ڈھونڈنا شروع کر دیا ۔اوراگلے ہی دن ایک کمرے کا کوارٹر کرایے پر لے کر بیوی کے ساتھ وہاں منتقل ہو گیا ۔یوں رخسانہ کے دونوں بیٹے اس سے دور ہو گئے تھے۔

وقت ٹھہرتا نہیں، کبھی دبے قدموں اور کبھی تیز رفتاری سے گزر جاتا ہے ۔بچے جوان ہو جاتے ہیں ،جوان ادھیڑ عمر اور ادھیڑ عمر بڑھاپے کی حدود میں قدم رکھ لیتے ہیں ۔محمود کی عمر انیس بیس سال کی تھی جب دعا پیدا ہوئی تھی اور اب دعانے اٹھارویں سال میں قدم رکھ دیا تھا ۔ خود محمود اس عمر کو پہنچ گیا تھا جب ایک مرد کم از کم دو تین بچوں کا باپ بن جاتا ہے ۔اس سے چھوٹے فیضان کے دو بچے تھے ۔جبکہ افنان بھی ایک بچے کا باپ بننے والا تھا اور وہ ابھی تک شادی نہیں کر پایا تھا ۔ دعا سیکنڈ ایئر میں پہنچ گئی تھی ۔وہ صرف دعا کی وجہ سے شادی کرنے سے رکا ہوا تھا ۔ یوں بھی وہ کبھی کسی لڑکی میں دلچسپی نہیں لے سکا تھا ۔عمارہ کے ساتھ منگنی میں بھی اس کی پسند کا عمل دخل نہیں تھا ۔وہ تو بس عمارہ کے مجبور کرنے اور یہ سوچ کر حامی بھرنے پر مجبور ہوا تھا کہ آخر کبھی تو اس نے شادی کرنا ہی تھی پھر عمارہ ہی سہی ۔

عمارہ سے منگنی ٹوٹنے کے بعد اس نے دوبارہ اس بارے سوچا ہی نہیں تھا ۔اس کی سوچوں ،چاہتوں کا مرکز تو صرف اس کی گڑیا دعا تھی ۔ وہ دعا جسے دیکھ کر وہ ایک قسم کی پاکیزگی اور تقدس محسوس کیا کرتا تھا ۔وہ دعا جس نے اسے جینے کا حوصلہ اور وجہ فراہم کی تھی ۔دعا کے کام آکر، اسے خوش رکھ کر وہ بے پایاں خوشی محسوس کیا کرتا تھا ۔ دنیا کی ہر خوشی وہ دعا کے قدموں میں ڈھیرکرنے کا خواہش مند تھا ۔شادی سے بھی وہ اسی لیے انکاری تھا کہ دعا اس کی توجہ کسی اور کی طرف مبذول ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھی اور وہ دعا کو ہلکا سا دکھ پہنچانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ۔

لیکن پھر سب کچھ تلپٹ ہو کر رہ گیا ۔اس کی ہر قسم کی آلودگی سے پاک محبت اور چاہت کوکسی کی نظر لگ گئی ۔وہ خود سے نظریں ملانے کے بھی قابل نہ رہا ۔ایسا تو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا ۔ایک دن پہلے تک دعا کے بارے اس کے پاکیزہ احساسات اور خیالات ایک دم تبدیل ہو گئے تھے ۔وہ اسے ایک جوان اور نامحرم لڑکی نظر آنے لگ گئی تھی ۔کسی بھی لڑکی کو آلودہ نظروں سے نہ دیکھنے والا دل، دعا کے بارے جانے کیوں اس انداز میں دھڑک رہا تھا ۔حالانکہ اس دن کچھ بھی تو نیا نہیں ہوا تھا ۔

دفتر سے واپس آکر وہ اپنی عادت کے بہ موجب سب سے پہلے دعا کے کمرے میں پہنچا ۔گرمیوں کا موسم تھا ۔وہ جونھی اس کے کمرے میں داخل ہوا دعا اسی وقت نہا کر غسل خانے سے باہر نکلی تھی۔گیلے بدن پر ہی اس نے گرمیوں کے باریک کپڑے پہن لیے تھے ۔کاٹن کے لباس نے اس کے جوان ہوتے بدن سے چپک کر بہت سے رازوں کو آشکار اکر دیا تھا ۔لیکن وہ پہلی بار نہا کر اس طرح اس کے سامنے نہیں آئی تھی ۔اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ وہ اسے اس حالت میں دیکھ چکا تھا ۔لیکن آج اس کی نظروں نے جو گستاخی کی تھی وہ اس کے لیے نہ صرف حیرانی کا باعث تھی بلکہ وہ خود اپنے آپ سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہا تھا ۔
ساری رات وہ سو نہیں سکا تھا ۔خود کو کوستے اور ملامت کرتے اس نے صبح کر دی تھی ، لیکن اپنے دل میں وہ پہلے والی پاکیزگی اور تقدس پیدا نہیں کر سکا تھا ۔دعا کے بارے صبح دم بھی اس کے خیالات ویسے ہی تھے جیسے ایک جوان اور خوب صورت لڑکی کو دیکھ کر کسی بھی لڑکے کے دل میں پیدا ہو سکتے ہیں ۔نماز پڑھ کر جانے وہ کتنی دیر اپنے اللہ پاک سے خیالات کی پاکیزگی طلب کرتا رہا،لیکن شاید خیالات کی نجاست نے اس کی دعاﺅں سے شرف قبولیت چھین لیا تھا۔ اس کا دل، دماغ کے خلاف بر سرِ پیکار تھا ۔
دعا نہ تو اس کی سگی بہن تھی اور نہ ان دونوں کے ملاپ میں کوئی شرعی قباحت موجود تھی ۔وہ تو بس رشتا داروں کی طنزیہ نظروں اور چچا چچی کی ملامتی نظروں کاسامنا کرنے کی ہمت اپنے اندر مفقود پاتا تھا ۔پھر دعا بھی اس کے خیالات کو جان کر جانے کیا سوچتی ۔اس کے دل میں محمود کی ذات کا جو بلند و بالا بت ایستادہ تھا یقینا محمود کی خواہش جان کر آسمان کی بلندیوں کو چھونے والے بت نے اوندھے منھ پاتال میں گرکر اتنے ٹکڑوں میں تبدیل ہونا تھاجنھیں گنا بھی نہ جا سکتا ۔
ناشتے کی میز پر اس کی سرخ ہوتی آنکھوں کو دیکھ کر دعا نے فکر مندی سے پوچھا ۔
”بھیا !....اب تک آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہوئی ۔آپ اپنی خواب گاہ میں جائیں میں وہیں ناشتا لاتی ہوئی ۔“
وہ جلدی سے بولا ۔”نہیں میں ٹھیک ہوں ۔بس رات کو دیر تک نیند نہیں آئی اسی وجہ سے سر تھوڑا بھاری بھاری لگ رہا ہے ۔“
”تو آپ ابھی سو جائیں نا ....چلیں اٹھیں میں آپ کا سر دبا دیتی ہوں ۔“کرسی سے اٹھ کر وہ محمود کے بازو سے پکڑ کر کمرے کی طرف کھینچنے لگی ۔اس کے ملائم ہاتھ کا لمس گویا بجلی کی ننگی تار ہی تو تھا ۔وہ سرعت سے اپنا بازو اس کی گرفت سے آزاد کرتا ہوا بولا ۔

”ارے پاگل !....مجھے کچھ بھی تو نہیں ہوا ۔تم بیٹھو ناشتا کرو ....یوں بھی تمھارے امتحان قریب ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ میرے بہانے تم کالج سے چھٹی کرتی پھرو ۔“
”محمود بیٹا !....واقعی تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ۔میرا خیال ہے تمھیں آرام کرنا چاہیے ۔اور دعا کی فکر نہ کرو اسے والد کالج چھوڑ دے گا ۔“
”چچی جان !....آپ بھی کمال کرتی ہیں ۔مجھے ناشتا کرنے دیں سخت بھوک لگی ہے۔“ ہاٹ پاٹ سے پراٹھا نکال کر اس نے ہاف فرائی انڈے کی پلیٹ اپنی طرف کھسکائی اور ایک بڑا سا نوالہ لے کر گویا خود کو سخت قسم کا بھوکا ثابت کرنے کی کوشش کی حالانکہ اس وقت اسے بالکل بھی بھوک نہیں تھی ۔
رخسانہ چچی کندھے اچکاتے ہوئے ناشتے کی طرف متوجہ ہو گئی ۔دعا البتہ اسی کی جانب متوجہ رہی ۔دعا کی کھوجتی نظروں سے اسے سخت قسم کی بے چینی محسوس ہو رہی تھی ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ اس کے بارے کوئی اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی ہے ۔یوں بھی اتنا تو وہ جانتا تھا کہ دعا اس کے بارے سخت حساس ہے اور اس کی زیادہ تر باتوں کو وہ کہے بغیر جان جایا کرتی تھی۔ لیکن ابھی محمود جن کیفیات کا شکار تھا اس کے خیال کے مطابق دعا خواب میں بھی اس کا اندازہ نہیں لگا سکتی تھی ۔بلکہ دعا تو کیا اس بارے کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا ۔اس سے تو بس وہ واقف تھا یا وہ دلوں کے بھید جاننے والا کریم ربّ آگاہ تھاجس سے کوئی چیز بھی چھپی ہوئی نہیں ہے ۔
”گڑیا !....تم ناشتا نہیں کر رہیں ۔“دعا کو مسلسل اپنی جانب گھورتے پا کر وہ اس کی جانب متوجہ ہوا ۔
”ہاں ،کیونکہ آج آپ تو میرے لیے انڈے چھیلنا بھی بھول گئے ہیں ،بریڈ پر مکھن لگانا بھی یاد نہیں رہا اور جوس کا گلاس بھی خالی پڑا ہے ۔“اتنی بڑی ہونے کے باوجود آج بھی وہ سب کچھ اسی کے ہاتھ سے تیار کرانا پسند کرتی ۔
”خود تو کہہ رہی ہو کہ میں بیمار ہوں ،پھر بیمار سے خدمت بھی لیتی ہو ۔“اس نے پھیکی مسکراہٹ سے اپنی غفلت پر پردہ ڈالا ۔لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس کا ناشتا تیار کرنے لگ گیا تھا۔
وہ ترکی بہ ترکی بولی ۔”تو آپ اپنی بیماری تسلیم تو کریں نا ۔“
رخسانہ اور رضوان قہقہہ لگا کر ہنس پڑے تھے ۔ اس نے بھی اپنے ہونٹ ہنسنے کے انداز میں کھینچے لیکن یہ ایک ناکام کوشش تھی ۔
دعا کا ناشتا اس کے سامنے رکھ وہ اپنے لیے تھرماس سے چاے کی پیالی بھر کر پینے لگا ۔ کچھ بھی کھانے پر اس کی طبیعت آمادہ نہیں تھی ۔
”بھیا !....آپ کو سخت بھوک لگی تھی نا ؟“اسے پراٹھے کی طرف ہاتھ نہ بڑھاتے دیکھ کر دعا نے دھیمی مسکراہٹ سے پوچھا ۔
”تم دوسروں کے نوالے گننے کی بجائے اپنے ناشتے پر توجہ دو ۔“اسے ہلکے سے ڈانٹ کر اس نے چپ کرانا چاہا ۔

وہ اسے تنبیہ کرتے ہوئے بولی ۔”آپ شرافت سے اچھے بچوں کی طرح اپنا ناشتا ختم کریں ،یہ نہ ہو آج مجھے ڈانٹنے کا موقع مل جائے ، یا پھر تسلیم کر لیں کہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ،تاکہ مجھے بھی چھٹی کرنے کا بہانہ ہاتھ آجائے ۔“
”اچھا میں کھاتا ہوں ،تم ذرا جلدی کرو کہ تمھیں ابھی تک کالج کے لیے کپڑے بھی تبدیل کرنے ہیں ۔“یہ کہہ کر وہ ایک اور نوالہ زبردستی اپنے منھ میں ٹھونس کر چبانے لگا ۔
جوس کا گلاس ختم کر کے وہ اپنے کمرے کا رخ کرتے ہوئے بولی ۔”آپ یہ پراٹھا ختم کریں ،میں بس یوں آئی۔“
اس کے کمرے میں گھستے ہی محمود نے ادھ کھایا پراٹھا ہاٹ پاٹ میں رکھ کر اس کے اوپر ایک ثابت پراٹھا رکھا اور ہاف فرائی انڈا رضوان چچا کے سامنے رکھی پلیٹ میں ڈال کر چاے پینے لگا۔
”ویسے ڈر انسان کو کافی کچھ سکھا دیتا ہے ۔“رخسانہ ،مسکراتے ہوئے اپنے شوہر کو مخاطب ہوئی ۔
رضوان اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا ۔”صحیح کہا بیگم !....اتنا تو میں تم سے نہیں ڈرتا جتنا یہ گڑیا سے کان مارتا ہے ۔“
رخسانہ پر خیال لہجے میں بولی ۔”ویسے دعا بیٹی سوچے گی نہیں کہ ،اس کا ابو تو اپنی پلیٹ خالی کر چکا تھا پھر یہ ادھ کھایا انڈہ اس کی پلیٹ میں کہاں سے آ گیا ۔“
رضوان دونوں ہاتھ اٹھاتا ہوا بولا ۔”بھئی !....میں تو بالکل نہیں بتاﺅں گا ،لیکن اگر اس نے پوچھ لیا تو جھوٹ بولنا مجھے نہیں آتا ۔“
محمود چڑتا ہوا بولا ۔ ”یقینا آپ دونوں یہی چاہتے ہیں کہ آج وہ اسکول سے بھی ناغہ کر لے اور مجھے بھی دفتر نہ جانے دے ۔“
رخسانہ منھ بناتے ہوئے بولی ۔”ایسا ہم نے کب کہا ہے ؟“
محمود خوفزدہ نظروں سے دعا کے کمرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔”اگر اسے ذرا سی بھنک پڑ گئی نا ،پھر خود دیکھ لینا ۔“وہ اس وقت دعا کے ساتھ اکیلے کمرے جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔
”اچھا ڈرو مت اس کے آنے سے پہلے میں یہ برتن سمیٹ لیتی ہوں ۔“رخسانہ نے مسکراتے ہوئے اسے تسلی دی اور ناشتے کے برتن سمیٹنے لگی ۔
اسی وقت دعا کالج یونیفارم پہن کر کمرے سے باہر نکلی ۔ایک نظر اس پر ڈال کر محمود فوراََ نیچے دیکھنے لگا تھا ۔ان کپڑوں میں تو اس کا حسن اور نکھر آتا تھا ۔روزانہ جب وہ کمرے سے نکلتی تو محمود جانے کتنی دیر اسے اپنی نگاہوں کے حصار میں رکھتا تھا ۔وہ بھی اسے دیکھ کر معصومیت بھری مسکراہٹ سے اسے نوازتی رہتی ۔وہ خوب جانتی تھی کہ اپنے محمود بھیا کو وہ کتنی پیاری ہے ۔ محمود کا مسلسل گھورتے رہنا اسے پسند تھا ۔لیکن آج محمود کا ایک دم نگاہیں پھیر لینا اسے بے چین کرگیا تھا ۔نہ جانے کیوں اسے لگ رہا تھا کہ وہ پہلے والا محمود نہیں ہے ۔لیکن اس کی توجیہ سے وہ قاصر تھی ۔
محمود اٹھ کر اپنے کمرے سے کار کی چابی لینے چل پڑا جبکہ وہ ماں سے پوچھنے لگی ۔
”امی جان !....بھیا نے ناشتا کر لیا تھا نا ۔“
”کیا تمھیں اس کی خالی پلیٹ نظر نہیں آرہی ۔“رخسانہ گول مول انداز میں جواب دے کر بقیہ برتن اٹھانے لگی ۔
اثبات میں سر ہلاتے ہوئے وہ باہر کی طرف چل دی ۔
رستے میں محمود اس سے پڑھائی وغیرہ کے بارے رسمی سوال کرکے اپنی ذہنی رو بٹانے لگا ۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ دعا اس کے بدلے ہوئے رویے کے بارے الٹے سیدھے سوال شروع کر دے ۔ اس کی یہ تجویز کامیاب رہی تھی ۔
دعا کو کالج کے سامنے اتار کر وہ دفتر کی جانب بڑھ گیا ۔سارے راستے وہ دعا سے جان چڑھانے کا کوئی ایسا طریقہ سوچتا رہا جس سے سانپ بھی مر جاتا اور لاٹھی بھی سلامت رہتی۔ وہ دعا کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتا تھا ۔اس کا دل گوارا ہی نہیں کر سکتا تھا کہ اس کے رویے سے دعا کو ذرا بھر بھی تکلیف پہنچے ۔وہ جانتا تھا کہ وہ خود جتنا دعا کے بارے حساس تھا اتنی ہی وہ اس کے بارے زود رنج تھی ۔نہ تو وہ اسے کسی اور کی جانب ملتفت ہوتا دیکھ سکتی تھی اور نہ اس کی ناراضگی برداشت کر سکتی تھی ۔محمود کی خفگی پر وہ فوراََ خود کو سزا دینا شروع ہو جاتی ۔اورنہ صرف کھانا پینا چھوڑتی، بلکہ اسکول کا کام اور نماز تک چھوڑ دیتی تھی ۔
اس بات سے محمود اچھی طرح واقف تھا اس لیے اس نے کبھی ایک رات بھی دعا کو ناراض ہونے کا موقع نہیں دیا تھا اور نہ کبھی خود اس سے ناراض ہوا تھا ۔ان کی ناراضی لمحاتی ہوتی تھی ۔بلکہ ہمیشہ دعا ہی لاڈ بھرے انداز میں روٹھتی اور وہ فوراََ اسے منانے بھاگ پڑتا ۔اس کی پسندیدہ ترین جگہ دعا کا کمرہ ہوا کرتا تھا ۔اسے کالج سے گھر لا کر وہ دوبارہ دفتر جاتا اور واپسی پر بھی سب سے پہلے دعا کے کمرے میں جا کر اس کی زیارت کرتا۔ اگر وہ سوئی ہوئی ہوتی تو اس کے ماتھے پر بوسا دے کر اس پر چادر وغیرہ درست کرتا اور پھر اپنے کمرے میں لوٹتا ۔ہر نماز کے وقت وہ دعا کے نماز پڑھنے کی تصدیق لازمی کرتا ۔ کھانے اور ناشتے وقت اسے اپنے ساتھ بٹھاتا ۔گھر کے کسی دوسرے فرد سے جھگڑ کر اگر وہ کھانے یا ناشتے سے ہاتھ کھینچتی تو وہ اسے اپنے ہاتھوں سے کھلانے لگتا ۔رات کو جب تک وہ کالج کا کام مکمل نہ کر لیتی وہ اس کے پاس ہی بیٹھا رہتا ۔اس کی دلچسپیاں دعا کی ذات سے شروع ہو کر اسی کی ذات پر اختتام پذیر ہوتی تھیں ۔

لیکن اب اس کے اور دعا کے رشتے کے درمیان ایک بہت بڑی آڑ آگئی تھی ۔ہر وقت دعا کی قربت کا متلاشی اب اس سے دور بھاگنے کے طریقے سوچ رہا تھا ۔لیکن کسی بھی ترکیب تک اس کے ذہن کی رسائی نہیں پا رہی تھی ۔لے دے کے ایک ہی طریقہ تھا کہ دعا کی شادی ہو جاتی ۔اس کے سیکنڈ ایئر کے امتحانات شروع ہونے کو تھے اور امتحانات سے فارغ ہو کر وہ چچا چچی پر اس کی شادی کے لیے زور دے سکتا تھا ۔اس کے پاس سب سے بڑا بہانہ یہ تھا کہ دعا کی شادی کے بعد ہی اس نے شادی کرنا تھی اور اٹھارہ انیس سال کی عمر اتنی کم بھی نہیں ہوتی ۔ اس عمر میں تو شادی کرنا لڑکی کے لیے بہت فائدہ مند اور بہتر ہوتا ہے ۔شریعت بھی لڑکی ،لڑکے کے بالغ ہوتے ہی ان کی شادی پر زور دیتی ہے ۔اسے یقین تھا کہ چچا چچی اس کی بات کو بالکل نہ ٹالتے ،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ محمود ان سے زیادہ دعا کو چاہتا ہے ۔
سب سے مناسب رشتا تو عمران چچا کا بیٹا کامران تھا جو ماسٹر کر کے نوکری کر رہا تھا ۔لیکن اپنے خاندان میں رخسانہ چچی شاید نہ مانتی ۔اور خاندان سے باہر اتنی جلدی کسی اچھے رشتے کا ملنا آسان نہیں تھا ۔
”رشتا ڈھونڈنے والی خواتین اس بارے کافی ماہر ہوتی ہیں ۔“دفتر کی پارکنگ میں کار روکتے ہوئے اس نے خود کلامی کے انداز میں بڑبڑاتے ہوئے خود کو تسلی دی اور کارسے اتر کر اپنے دفتر کی طرف بڑھ گیا ۔
دفتر میں بیٹھے ہوئے اس کا دماغ اسی ادھیڑ بن میں مصروف رہا اور پھر کسی کام کے لیے وہ ایم ڈی کے دفتر میں داخل ہوا اس وقت وہ اپنی خاتون سیکریٹری کو اخبار میں اشتہار دینے کی بابت بتا رہا تھا ۔

ہاتھ میں پکڑی فائل ایم ڈی کے سامنے رکھتے ہوئے اس نے مسکرا کر پوچھا ۔
”پھر کن آسامیوں کی جگہ خالی ہو گئی ہے سر !“
ہاتھ کے اشارے سے محمود کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے اس نے جواب دیا ۔”یار ! چیئرمین نے پچھلے دنوں عمان کے شہر مسقط میں بھی کمپنی کی شاخ کھولی ہے ۔اب وہاں کے سٹاف میں انھیں کسی تجربہ کار سیلنگ ڈائریکٹر کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے ۔چند اور آسامیاں بھی ہیں ۔ اسی سلسلے میں اشتہار کا مضمون املا کروا رہا تھا ۔“
اچانک محمود کو اپنا مسئلہ حل ہوتا ہوا محسوس ہوا ۔فوراََ ایک حتمی نتیجے پر پہنچتے ہوئے وہ ایم ڈی کو کہنے لگا ۔
”میرا خیال ہے سیلنگ ڈائریکٹر کے لیے میں خود مسقط چلا جاتا ہوں ۔آپ یہاں کے لیے کسی دوسرے سیلنگ ڈائریکٹر کا بندبست کرلیں ۔“
”کیا ؟“ایم ڈی الیاس کا منھ حیرت سے کھلا رہ گیا تھا ۔”اگر ایسا ہو جائے تو چیئرمین صاحب خوشی سے ہواﺅں میں اڑنے لگیں ۔آپ جیسے تجربہ کار اور بھروسے مند آدمی کا مسقط جانے کی حامی بھرنا اس کی خوش قسمتی ہی ہے ۔اور یقین مانیں اس میں آپ کا بھی فائدہ ہے۔ آپ کی تنخواہ میں کم از کم ساٹھ ستر فیصد اضافہ ہو سکتا ہے ۔“
”تو بس آپ اس بارے چیئرمین صاحب کو مطلع کر دیں ۔“
”مطلع کیا کرنا ہے آپ تیاری پکڑیں۔اپنا پاسپورٹ بنوائیں ویزے کا انتظام چیئرمین صاحب خود کر لیں گے ۔“
”شکریہ الیاس صاحب !“کہہ کر وہ ایم ڈی کے دفتر سے نکل آیا جب کہ وہ خاتون سیکرٹری کو اشتہار کے مضمون میں تبدیلی کی املا کروانے لگا ۔

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں 

غیرت مند عاشق اردو کہانی - پارٹ 7

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے