میرا بھائی اسلم بہت شرارتی تھا۔ وہ بچپن میں ایک منٹ آرام سے نہیں بیٹھتا تھا۔ کبھی کبھی تو ابو اس کی شرارتوں سے اس قدر تنگ آجاتے کہ اس کی خوب پٹائی کرتے۔وہ میرا اکلوتا بھائی تھا اور میں اس کی اکلوتی بہن۔ امی ہم دونوں سے بہت پیار کرتی تھیں، لیکن بیٹے کے لئے ماں کے دل میں خاص جگہ ہوتی ہے۔ میرا بھائی بے شک شرارتی تھا، مگر ماں ہر وقت اس کے گن گاتی تھیں۔ وہ مجھے بھی اپنی شرارتوں میں شامل کرنا چاہتا، لیکن مجھ کو ناحق کسی کو پریشان کرنا پسند نہیں تھا، خواہ انسان ہو یا جانور۔
گرمیوں کی دو پہر میں جب سب آرام کر رہے ہوتے ، اسلم دوسرے گھروں کی بیل بجا کر بھاگ آتا۔ کبھی کسی بلی کی دم میں دھاگے سے کاغذ کا ٹکڑا باندھ دیتا۔ بھاگنے سے کاغذکھڑ کھڑاتا تو بلی ڈر کر اچھلتی، تب بھائی خوب ہنستا میں اور ابو اسے ڈانٹتے اور کاغذ کی کھڑکھڑاہٹ سے بیچاری بلی کو نجات دلا دیتے۔اسلم اپنے دوستوں کو اکٹھا کر لیتا اور پھر وہ نت نئی شرار میں سوچتے۔ کبھی کوئی اچھا سا مسلم زمین پر پھینک کر اسے دھاگے سے باندھ کر فریبی کھمبے سے لپیٹ دیتے اور دھاگے پر مٹی ڈال کر اسے بالکل چھپا دیتے۔
کوئی راہ گیر ادھ گیر ادھر سے گزرتا اور زمین پر ن پر مسلم پڑا دیکھ کر اسے اٹھانے لگتا، تو یہ دوست جو چھپ کر تماشا دیکھ رہے ہوتے، باہر نکل کر دھاگہ کھینچ لیتے جس سے سے مسلم بھی سرک جاتا اور بیچارا را بگ بگیر شرمندہ ہو کر رفو چکر ہو جاتا۔ اکثر محلے والے اسلم کی شکایت کرتے، لیکن میری ماں اپنے بیٹے کی محبت میں اس قدر سرشار تھیں کہ وہ اسے کو کچھ نہ کہتیں، ہلکی سی سرزنش بھی نہ کرتیں، جبکہ میں بھائی کو بہت سمجھاتی تھی کہ ان شرارتوں کا انجام بہت برا ہوتا ہے۔ ایسی شرارتیں جن کو ہم معمول گردانتے ہیں، کسی بڑے سانحے کی صورت میں گلے پڑ جاتی ہیں۔ابو قدرے سخت مزاج تھے۔ کوئی محلے دار اگر اسلم بھائی کی شکایت لے کر ان کے پاس آجاتا تو وہ اسی وقت بھیا کی ٹھکائی کر دیتے تھے۔ امی البتہ پیار سے کہتیں، مگر وہ امی کی بات کو خاطر میں نہ لاتا۔ امی ابو کو اسلم کی کوئی بات نہ بتاتیں کہ کہیں بیٹے کو مارنہ پڑ جائے۔
وہ اسلم کو پیٹتے نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ایک دفعہ اسلم دوستوں کے ساتھ گلی میں گلی ڈنڈا کھیل رہا تھا کہ گلی کے ایک لڑ کے اعظم کو گلی لگ گئی اور اس کی آنکھ ضائع ہو گئی۔ جب اسلم نے دیکھا کہ لڑکے کی آنکھ سے خون نکل رہا ہے ، تو وہ وہاں سے بھاگ گیا کہ اب ابا نہیں بخشیں گے ، بہت مار پڑے گی۔ ابو چھٹی پر گھر آئے ہوئے تھے۔ اسی وقت اعظم کے والدین زخمی بیٹے کو ہمارے گھر لے آئے اور ابو سے کہا۔ دیکھئے ، آپ کے لاڈلے نے کیا حشر کیا ہے ، ہمارے بیٹے گا۔ امی نے دیکھا تو لرز گئیں کیونکہ ابو نے دوست کہا تھا آنے تو دو، اس کی ایسی خبر لوں گا کہ ساری عمر یاد رکھے گا۔ اسلم کا ایک دوست بھی اعظم کے والدین کے ہمراہ ہمارے گھر آیا تھا۔ اس نے باہر جا کر اس کو کہا کہ آج تمہاری خیر نہیں ہے۔ تمہارے ابا بہت غصے میں ہیں۔ بہتر ہے کہ آج تم گھر نہ جائو۔ شاید اس وقت تک تمہارے والد کا غصہ کچھ کم ہو جائے۔اسلم کو تو پتا تھا کہ ابو کتنے سخت ہیں۔ وہ کبھی اس کو معاف نہیں کریں گے، سو وہ وہاں سے بھاگ گیا۔ ہم نے ہر طرف اس کا تلاش کیا، مگر وہ کہیں نہ ملا اور پھر لوٹ کر نہ آیا۔
دوسرے روز ابو نے اخباروں میں اشتہارات دیے، مسجد اور ٹیلی وژن پر ہر جگہ اعلان کروایا، مگر اس کا کہیں پتا نہ چلا۔ ابو کو شاید صبر آگیا، لیکن امی اور مجھے ہمہ وقت اسلم کی یاد ستاتی اور اس کی صورت در و دیوار میں نظر آتی تھی۔ ہم ماں بیٹی اسے یاد کر کے روتی تھیں۔ جس ماں کا اکلوتا بیٹا کھو جائے اور واپس گھر نہ لوٹے تو اس کا کیا حال ہوتا ہے، یہ وہی جانتے ہیں، جن پر گزرتی ہے۔ امی کا رو رو کر برا حال تھا۔ کھاتی تھیں، نہ پیتی تھیں۔ ہمہ وقت خود سے باتیں کرتیں۔ ماں کی حالت دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ ان دنوں میری عمر بارہ سال تھی، لیکن میں بھائی کا تصور کر کے روتی رہتی تھی۔
اتنی چھوٹی عمر میں، میں نے گھر کا کام سنبھال لیا۔ اس لئے امی کو کچھ پتا نہیں چلتا تھا۔ ابو نے ان کو اسپتال میں داخل کروادیا کیونکہ ڈاکٹروں نے کہا کہ صدمے کی وجہ سے ان کے دماغ پر اثر ہو گیا ہے۔ گھریلو کام کی وجہ سے میں پڑھائی پر توجہ نہ دے سکتی تھی، سو استانی مجھے ڈانٹتی تھیں، تب میں زیادہ چھٹیاں کرنے لگی۔ اس وجہ سے میرا نام اسکول سے خارج ہو گیا۔ میری سہیلی نے بتایا کہ تمہارا نام اسکول سے خارج ہو گیا ہے۔ بتاؤ! کیا تم نے اسکول نہیں آنا؟ کلاس ٹیچر نے پوچھا ہے۔ میں نے روبی کو کہا کہ تم مس کو کہہ دینا کہ اب میں نے اسکول نہیں آنا، تم میرا سرٹیفکیٹ لے آؤ۔ اس نے مجھے سرٹیفکیٹ لا دیا۔ دس روز بعد ابو نے پوچھا: سمیرا! تم اسکول کیوں نہیں جا رہی ہو؟ میں نے بتا دیا کہ اب میں نے نہیں پڑھنا کیونکہ پہلے بھائی اسلم مجھے اسکول چھوڑنے جاتے تھے۔
اب میرے ساتھ اسکول تک کون جائے گا؟ ابو یہ بات سن کر خاموش ہو گئے اور انہوں نے مجھے اسکول جانے کے لیے مجبور نہیں کیا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ امی کی بیماری نے انہیں گھر سنبھالنے کے قابل نہیں چھوڑا ہے اور سارا کام میں نے سنبھال لیا ہے۔ شاید اسی وجہ سے وہ چپ ہو گئے تھے۔ کچھ عرصے بعد امی ٹھیک ہو گئیں، پھر بھی میں نے ان کو گھر کا کام نہیں کرنے دیا۔امی اب بھی بیٹے کو یاد کر کے روتی تھیں اور کہتیں تھیں کہ اسلم خدا کے لیے واپس آ جاؤ۔ تمہارا باپ تمہیں کچھ نہیں کہے گا۔ وہ تو خود بوڑھا ہو گیا ہے تمہارے غم میں، اسے تمہاری سخت ضرورت ہے۔ آجا تو میرے لعل! میری آنکھیں تم کو دیکھنے کو ترس رہی ہیں۔ امی نماز پڑھتیں، تو ان کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا، اسی وجہ سے امی کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔ میرے سسرال والے شادی کی تاریخ مانگ رہے تھے، کیونکہ میری ہونے والی ساس بیمار رہنے لگی تھیں۔
ان سے کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔ مجھے پتا چلا تو میں نے امی کو کہا کہ ان کو جواب دے دیں۔ میرے بعد آپ کو کون سنبھالے گا؟ امی کہنے لگیں: بیٹی، ایسی بات کبھی سوچنا بھی مت، بیٹیاں سسرال میں اچھی لگتی ہیں۔ تمہارے بعد ہمارا خدا ہے اور میرا اسلم بھی تو ہے۔ کوئی بات نہیں اگر ہم سے روٹھ گیا ہے، تو کیا ہوا؟ ایک دن وہ ضرور واپس آ جائے گا۔میری شادی کی تاریخ رکھ دی گئی۔ تیاریاں شروع ہو گئیں۔ مہندی، مایوں کے گیت گانے سکھیاں آ پہنچیں۔ ان میں ہی میری عزیز ترین سہیلی ناصرت تھی۔ وہ بڑھ چڑھ کر گانوں میں حصہ لے رہی تھی۔ اسے ڈھولک بجانی بھی خوب آتی تھی۔ میری سہیلیوں کا دل کھلا ہوا تھا، انہیں میری شادی کی بہت خوشی تھی، لیکن میرا دل بجھا ہوا تھا۔
جانے کیوں یہ سب مجھے بر لگا رہا تھا، گیت کانوں میں چبھ رہے تھے، پھر جب مہندی والی رات، ناصرہ نے یہ گیت گایا کہ “کندھا ڈولی نوں دے جائیں ویروے”، تو مجھے اس اسلم اس قدر یاد آیا کہ میں نے اٹھ کر ناصرہ کو جھنجھوڑ ڈالا۔ میں رو رو کر پوچھ رہی تھی کہ کہاں ہے میرا ویرو؟ میرا بچھڑا ہوا بھائی؟ کیوں تم یہ گانا گارہی ہو؟ کیا تم نہیں جانتی کہ میرا بھائی چلا گیا ہے، جانے کہاں ہے؟ اب اگر تم نے یہ گانا گایا تو تیرے اگلے کو دبا دوں گی۔ مجھ پر جذباتی کیفیت طاری ہو گئی تو میری خالہ مجھے پکڑ کر اندر لے آئیں، پھر میں اور میری ماں دونوں مل کر اس قدر روئیں کہ یوں لگتا تھا کہ یہ شادی نہیں ہو رہی، یہاں سے میرا جنازہ اٹھے گا۔ میں بلک بلک کر رورہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ بھیا! اگر تم اس دنیا میں ہو، تو کیا تمہیں ہم یاد نہیں آتے؟ تیرے بغیر کیا ہم مکمل ہیں؟ مجھے کچھ ہوش نہیں تھا، کب مجھے لے جایا گیا۔سسرال میں ہوش آیا۔ میرے سسرال والے بہت اچھے لوگ تھے۔
انہوں نے مجھے اپنی بیٹی سے بڑھ کر سمجھا، مجھ سے محبت کی، پیار دیا اور میرے دولہا تو فرشتہ صفت ہیں۔ انہوں نے میرا دل، اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور میرا ہر طرح سے خیال رکھا۔ اگر میں رات کو کہتی کہ میں نے امی ابو سے ملنے جانا ہے، تو وہ کہتے کہ چلو، میں تمہیں ملالا تا ہوں۔ شادی کے دوسرے سال خدا نے مجھے ایک بیٹا دیا۔ اس کے پیار میں، میں اس قدر مگن ہو گئی کہ اسلم کا خیال دل سے نکل گیا۔ ایک دن امی کا فون آیا کہ تمہارے ابو کی طبیعت خراب ہے۔ ان کا بخار اترنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ میں نے اپنے میاں سے اجازت لی اور اکیلی چلی گئی، کیونکہ میری ساس کو فالج ہو گیا تھا اور وہ چلنے پھرنے سے معذور تھیں، جبکہ شوہر ایک مل میں کام کرتے تھے، ان کو چھٹی نہیں ملتی تھی، تو مجبوراً اکیلی چلی گئی تھی۔ بس میں سوار ہوئی، تو ڈرائیور اپنی سیٹ سے اٹھ کر دوسری خالی سیٹ پر آ گیا۔ اس کے ساتھ والی سیٹ پر میں بیٹھی تھی۔ نئے ڈرائیور نے نشست سنبھال کر گاڑی اسٹارٹ کی اور سابقہ ڈرائیور اونگھنے لگا۔ اتنے میں میرا بیٹا رونے لگا، کیونکہ بس جگہ جگہ رکتی جارہی تھی۔
بچے کے رونے سے اونگھتے ہوئے ڈرائیور کی نیند کا خمار ٹوٹ رہا تھا۔ اس نے کہا باجی اپنا بچہ مجھے دے دیں، شاید چپ ہو جائے۔ میں نے بیٹا اس کی طرف بڑھایا تو اچانک اس کی نظر میرے چہرے پر پڑی۔ وہ ٹھٹھک سا گیا۔ میں بھی اس کی طرف دیکھنے لگی۔ لمحے بھر کو وہ مجھے اپنا سا لگا جیسے وہی میرا کھویا ہوا بھائی اسلم ہو۔میں اس کی طرف دیکھ رہی تھی اور اچانک احساس ہوا کہ وہ بھی بار بار میری جانب دیکھ رہا ہے۔ اس بات سے مجھے شرمندگی سی ہوئی اور میں نے منہ دوسری طرف کر لیا۔ سوچنے لگی کہ میں تو اپنے کھوئے ہوئے بھائی کا خیال کر رہی ہوں، نجانے یہ مجھے کس لئے دیکھ رہا ہے؟ اسٹاپ آگیا تو میں نے کہا بھائی، اپنا بچہ مجھے دے دو۔ اس نے فوراً میرے بیٹے کو مجھے دے دیا، جو اس کی گود میں جاتے ہی چپ ہو گیا تھا۔ خیر، میں بس سے اتر کر تانگے پر اپنے گھر آگئی اور کچھ دن امی ابو کے ساتھ رہنے کے بعد پھر اپنے گھر جانے کی تیاری پکڑ لی۔ دل میں یہی تھا کہ اسلم بھائی کا ہم شکل ڈرائیور مل جائے۔ امی کو ہمیشہ یہی دعا کرتے سنا تھا کہ اے خدا! تو میری جان اس وقت نکالنا، جب میرا اسلم میرے پاس ہو۔جب میں لاری اڈے جانے لگی تو امی نے کہا کہ چلو، میں تم کو بس اسٹینڈ پر چھوڑ آتی ہوں۔ خیر، ذرا دیر بعد بس آگئی۔ میں اس میں سوار ہو گئی۔
ڈرائیور کو دیکھ کر میرا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ یہ وہی تھا، جس نے میرے بیٹے کو چپ کرایا تھا۔ اب یہ بس چلا رہا تھا۔ میں سیٹ پر بیٹھ کر اُسے غور سے دیکھنے لگی، تو میرے ساتھ بیٹھی عورت نے مجھے مشکوک انداز میں دیکھا، پھر میرے گھر والوں کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا۔ اس کو کچھ اور ہی شک تھا کہ شاید میں گھر سے بھاگ رہی ہوں، تبھی اس نے کہا بیٹیوں کو اکیلے گھر سے نہیں نکلنا چاہیے۔ تم اپنے کسی بہن بھائی کو ساتھ لے کر چلا کرو۔ میں نے کہا، میری بہن تو ہے نہیں اور بھائی عرصہ ہوا گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ اس کا کہیں پتا نہیں چلا۔ ہماری باتیں ڈرائیور کے کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ اس نے گاڑی چلاتے چلاتے پیچھے مڑ کر دیکھا، جیسے اسے بھی کسی کی تلاش ہو۔ عورت سے باتیں کرتے کرتے میرا اسٹاپ آگیا۔
میں بس سے اتر کر تانگے میں بیٹھ گئی۔ تانگے والا آواز لگا رہا تھا کہ چک نمبر چالیس کا کوئی مسافر ہو تو آجائے، تبھی وہ ڈرائیور آکر تانگے والے کے برابر میں بیٹھ گیا۔ تمام رستہ ہم میں سے کسی نے بات نہ کی۔ جب گاؤں آگیا تو میں جیسے ہی تانگے سے اتری، وہ ڈرائیور بھی اتر آیا۔ میں سوچنے لگی کہ یہ کیوں میرے ساتھ ساتھ آیا ہے؟ شاید اسے کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، تبھی چپ نہ رہ سکی اور اسے مخاطب کیا۔بھائی، تم کیوں میرے پیچھے چلے آ رہے ہو؟ کیا بات ہے؟ وہ فوراً گویا ہوا کہ ایک غلط فہمی ہو گئی ہے، جس کو دور کرنے کے لیے تمہارے پیچھے آیا ہوں۔ تم طاہر صاحب کی بیٹی تو نہیں ہو؟ہاں، میں ان کی ہی بیٹی ہوں۔تو وہ خوشی سے اتنی زور سے چلایا، جیسے اسے بہت بڑا خزانہ مل گیا ہو۔ اس نے کہا، میں اسلم ہوں، تمہارا بھائی۔جب مجھ پر انکشاف ہوا کہ یہ واقعی میرا بھائی ہے، تو میں نے اسے گلے لگا لیا اور گھر لے آئی۔
شوہر کو بتایا اور اسی دن ان کے ساتھ دوبارہ میکے گئی۔ امی نے ہی دروازہ کھولا۔ جب بیٹے کو دیکھا تو لمحہ بھر کو پہچان نہ سکیں، لیکن غور سے دیکھنے پر ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا، یہ تو میرا اسلم ہے!اسلم بھی امی سے چمٹ گیا۔ وہ رو رہا تھا۔ امی کو جب پتا چلا کہ یہ سچ میں ان کا بیٹا اسلم ہے تو خوشی سے چلائیں، ہمارا بیٹا اسلم آ گیا ہے! تبھی ابو بھاگتے ہوئے آئے اور اسلم کو اتنا پیار دیا کہ کیا بتاؤں۔ تھوڑی دیر سب خوشی مناتے رہے، پھر اسلم سے حال احوال کرنے لگے۔ اس نے بتایا کہ اس کے استاد نے اپنی چھوٹی بیٹی سے اس کی شادی کر دی ہے، اب اس کے ایک بیٹی اور بیٹا ہے۔امی، میں آپ سب کو اتنا یاد کرتا تھا کہ کیا بتاؤں؟ مگر گھر واپس لوٹ آنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ کس منہ سے آتا؟ البتہ میں نے صادق کو دو تین بار کہا تھا کہ امی کو بتا دو کہ میں ٹھیک ہوں۔ اگر باجی مجھے نہ ملتیں تو شاید میں بھی آپ سے نہ مل سکتا، اس لیے کہ مجھے گھر کا راستہ یاد نہ رہا تھا۔ میں نے جتنی تکلیفیں اٹھائی ہیں، اتنی کسی نے نہ اٹھائیں ہوں گی۔میرے پیارے بھائی کی داستان بہت دکھ بھری تھی۔
اس نے بتایا کہ اس نے ہوٹل پر برتن دھوئے، جھاڑو دی، پھر کنڈیکٹر کی نوکری کی اور آخر میں ایک اچھا انسان مل گیا، جس نے اسے ماں باپ کا پیار دیا اور ڈرائیونگ بھی سکھائی، جس کی وجہ سے آج وہ اپنے پیروں پر کھڑا تھا۔دو دن بعد ہم سب جا کر اسلم کی بیوی کو گھر لائے۔ وہ ہم سے مل کر بہت خوش ہوئی اور سسرال آنے کو فوراً تیار ہو گئی۔ وہ ایک اچھی لڑکی ہے کیونکہ اس کے والدین نیک دل اور شریف ہیں۔ یہی صفت ان کی اولاد میں بھی آئی، تو امی کو بہو سے مل کر سکون ملا کیونکہ اس نے بھی سب کو سکھ پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ ساس سسر کی خدمت کرتی، گھر کو سنبھال لیا۔
پہلے میں امی ابو کی بہت فکر کرتی تھی کیونکہ وہ اکیلے تھے، مگر اب اکیلے نہیں رہے تھے۔ بیٹا اور ایسی اچھی بہو آگئی تو میری ساری فکریں تمام ہو گئیں۔ امی کی دعا قبول ہوئی اور مجھے اپنا بھائی مل گیا۔ اب جب میکے سے سسرال جاتی ہوں، تو وہ مجھے چھوڑنے خود جاتا ہے۔ کہتا ہے، باجی تم نے بس میں ایک دفعہ کہا تھا کہ جن کا بھائی نہ ہو، وہ اکیلے ہی جایا کرتے ہیں۔ اب یہ بات تم نہیں کر سکتیں کیونکہ اب تمہارا بھائی ہے، جو سفر میں تمہارے ساتھ جانے والا ہے۔پہلے امی ابو نہ آسکتے تھے۔ اب بھائی مہینے میں ایک بار ضرور آتا ہے، میرا اور بچوں کا حال پوچھتا ہے تو میرا دل بڑا ہو جاتا ہے۔ میں سوچتی ہوں، بھائی کتنی بڑی نعمت ہوتے ہیں۔ اس کے آنے سے میرا حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔
میرے شوہر بھی اس کا خیال کرتے ہیں، عزت سے ملتے ہیں۔ جب وہ میرے گھر سے جانے لگتا ہے، دل خوف سے بیٹھ جاتا ہے کہ کہیں پھر نہ کھو جائے۔ میں خدا سے دعا کرتی ہوں کہ وہ تمام بھائیوں کو نیک کرے اور لڑکے شرارت سوچ سمجھ کر کریں، کیونکہ کبھی چھوٹی سی شرارت زندگی بدل کر رکھ دیتی ہے اور اس کی وجہ سے اپنوں سے اس قدر دوری ہو جاتی ہے کہ پھر اس دوری کے سمندر کو پار کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ آج میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے میرا بھائی مجھے واپس کر دیا ہے اور دعا بھی کرتی ہوں کہ اے خدا، تو نے جیسے میرا بھائی، مجھے واپس دے دیا، ایسے ہی سب بہنوں کے کھوئے ہوئے بھائی ان کو واپس دے دے۔ آمین۔
(ختم شد)