شکی مزاج بیوی

Sublimegate Urdu Stories

جب میرے والد صاحب کی پھوپی کی بیٹی چھ برس کی تھیں ، وہ اپنے والدین سے بچھڑ گئیں۔ وہ مشرقی پنجاب کے کسی گائوں میں رہتے تھے ، بلوہ میں ان کے والدین کو مارا گیا تو یہ منظر کنول نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ان کا ذہن معصوم تھا۔ صدمہ نا قابل برداشت تھا مگر کوئی کیا کر سکتا تھا کہ شاید خدا کو یہی منظور تھا۔ والد صاحب کے دو بہن بھائی تھے۔ ایک تایا جان اور دوسری پھپھو صائمہ ۔ جب کنول زندہ ملبے سے مل گئیں، والد ان کو گھر لے آئے اور وہ ان کے زیر سایہ پرورش پانے لگیں۔ تایا اب انڈیا میں تھے جبکہ والدین ہم بچوں کو لے کر اپنے نئے وطن پاکستان آگئے۔ کنول بھی ہمارے ساتھ نئے وطن آگئیں ۔ امی ان کا بہت خیال رکھتی تھیں تا کہ والدین کی کمی محسوس نہ ہو۔ وہ ہمہ وقت خاموش رہتیں۔ بہت حساس تھیں اسی وجہ سے اپنے والدین کی دردناک موت کا منظر نہ بھلا سکیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ کنول بڑی ہو گئیں۔ میرے والدین نے میٹرک تک تعلیم دلوائی اور سلائی کے اسکول میں داخل کرادیا۔ وہ بہت اچھی سلائی سیکھ گئیں۔ کنول بے حد ذہین تھیں جو کام کرتیں، نہایت سلیقے اور خوش اسلوبی سے، خوبصورت بھی تھیں۔ جو دیکھتا، بس دیکھتارہ جاتا۔ یہی وجہ تھی کہ میٹرک پاس کرتے ہیں ان کے بہت اچھے رشتے آئے۔ والد صاحب نے ایک رشتہ ان کیلئے مناسب جان کر منتخب کر لیا۔ لڑکے کا نام آفاق تھا اور انجینئر نگ میں ڈپلومہ کیا تھا۔ ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازم تھا اور خوبرو تھا۔ والد صاحب نے بیٹی بنا کر پالا اور بیٹی کی طرح رخصت کیا۔ مقدور بھر جہیز بھی دیا۔ شروع میں آفاق اور کنول کی زندگی اچھی طرح گزرنے لگی۔ دونوں پر سکون اور خوش نظر آتے تھے لیکن پھر کنول پھپھو کے شوہر پریشان دکھائی دینے لگے۔ ایک روز والد صاحب نے پریشانی کی وجہ پوچھی۔ آفاق پھو پھانے کہا۔ میں کنول کی وجہ سے پریشان ہوں۔ 

کچھ دنوں سے اصرار کر رہی ہے کہ ہم گھر بدل لیں جبکہ بڑی مشکل سے یہ گھر ملا ہے ، کرایہ کم ہے، کمپنی سے قریب ہے، مجھے دفتر آنے جانے میں آسانی ہے۔ نجانے کیوں وہ اصرار کر رہی ہے کہ گھر بدلنا ہے۔ میں کنول سے پوچھوں گا کیوں ایسا چاہتی ہے جبکہ اس مکان میں کوئی تکلیف نہیں اور کرایہ مناسب ہے۔ کنول ملنے آئی۔ والد صاحب نے دریافت کیا۔ بیٹی ! کیوں تم مکان بدلنے کا کہتی ہو ؟ وہاں کیا تکلیف ہے۔ مجھے بتائو تاکہ میں آفاق کو راضی کروں کہ وہ کوئی دوسرا مکان کرائے پر لے لے۔ پہلے تو چپ رہیں۔ جب والد صاحب نے بہت اصرار کیا تو بولیں۔ اس گھر کے ۔ کے سامنے جو مکان ہے، وہاں ایک لڑکی کھڑکی میں سے جھانکتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ آفاق کو دیکھتی ہے۔ ڈرتی ہوں کہیں میرے شوہر کو اپنی جانب متوجہ نہ کرلے اور میرا گھر برباد ہو جائے۔ والد صاحب نے سمجھایا۔ بیٹی ! یہ تم کیسی باتیں سوچتی ہو۔ اچھا بھلا گھر ملا ہوا ہے ، کرائے پر ایسا اچھا گھر ملنا آسان بات نہیں۔ اپنے شوہر کو پریشان مت کرو۔ غرض والد صاحب نے کافی سمجھایا۔ کنول پھپھو اثبات میں سر ہلاتی رہیں جیسے کہ دل سے سب وسوسہ نکل گیا ہو۔ ابو مطمئن ہو کر آگئے کہ اب یہ اپنے خاوند کو پریشان کرے گی اور نہ خود پریشان رہے گی۔ ان کا خیال غلط ثابت ہوا۔ 

دس روز بعد آفاق رونی صورت بنا کر آئے ۔ آگاہ کیا کہ مکان بدلنے کا اصرار جاری ہے اور اپنی ضد پر اڑی ہیں ۔ اب تو کھانا پینا، بولنا ترک کر دیا ہے، زیادہ وقت کھٹر کی میں سامنے والے گھر کو دیکھتی رہتی ہیں۔ تو میاں مکان بدل ہی لو۔ وہ کہ کسی و ہم کا شکار رہیں گی تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ آفاق نے والد صاحب کے کہنے سے دوسر امکان تلاش کیا اور وہاں شفٹ ہو گئے ، یہی سوچ کر کہ میری بیوی پر سکون ہو جائے گی تو زندگی سکون سے بسر ہو گی۔ دوماہ بمشکل نئے مکان میں رہے کہ کنول پھیپھو کو پھر مکان بدلنے کا خیال ستانے لگا۔ پہلے دبے لفظوں پھر کھلم کھلا وہ تقاضا کرنے لگیں کہ یہاں مجھے سکون نہیں ہے، یہ جگہ ٹھیک نہیں ہے ، گھر تو بدلنا ہی ہوگا۔

اب کیا مسئلہ ہے ؟ شوہر نے پوچھا۔ برابر والے گھر میں جو لڑکی رہتی ہے ، عین اس وقت گیٹ پر آجاتی ہے جب تم دفتر جانے کے لئے گھر سے نکلتے ہو۔ وہ روز ایسا کیوں کرتی ہے آخر ؟ مجھے کیا معلوم ، ارے بھئی میں نے تو غور ہی نہیں کیا کہ جب میں گھر سے نکلتا ہوں کوئی گیٹ پر آکر جھانکتا ہے یا مجھے دیکھتا ہے۔ میں کوئی ایسا گلفام ہوں کہ ساری دنیا کی لڑکیاں اپنے گھر سے مجھے دیکھنے کو جھانکتی ہیں۔ انہوں نے بہت سمجھایا۔ کنول پھپھو کو نہ سمجھنا تھا اور نہ سمجھیں۔ شوہر کی زندگی اجیرن کر دی کہ اس گھر کو بھی بدلنا ہو گا۔ وہ ایک دن شوہر کی غیر موجودگی میں پڑوس کے اس گھر میں چلی گئیں۔

 وہاں ان کو لڑکی تو نہ دکھائی دی۔ اس کا باپ اور بھائی گیٹ پر مل گئے۔ مجھے دراصل آپ لوگوں سے ہی بات کرنی تھی۔ آپ اپنی لڑکی کو سمجھائے جب آفاق دفتر جانے کو گھر سے نکلتے ہیں، گیٹ پر آکر جھانکتی ہے۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ کیا یہ شکایت آپ کے شوہر نے کی ہے ؟ لڑکی کے بھائی نے سوال کیا۔ وہ کیوں شکایت کریں گے ۔ مجھے تو لگتا ہے کہ وہ آپ کی لڑکی سے ملے ہوئے ہیں۔ وہ مرد ہیں مگر ان کا کیا جائے گا، بد نامی تو آپ کی لڑکی کی ہو گی ۔ کنول محترمہ یہ کہہ کر گھر کو لوٹ آئیں مگر بھس میں چنگاری ڈال آئی تھیں۔ اگلے روز جب آفاق پھوپھا دفتر جانے کو گھر سے نکلے ، پڑوس کے چار نوجوان جو اس لڑکی کے بھائی تھے ، ہاتھوں میں ڈنڈے اور ہاکیاں تھامے کھڑے تھے۔ 

وہ آفاق کی طرف بڑھے اور للکار کر کہا کہ یہاں رہنا ہے تو شریفوں کی طرح رہنا ہو گا۔ یہ شریفوں کا محلہ ہے۔ کل تمہاری بیوی شکایت لے کر آئی تھی کہ تم ہمارے گھر کی طرف تاکتے ہو اور تمہارے غلط ارادے ہیں۔ باز آجائو ور نہ مار مار کر بھر کس نکال دیں گے ۔ بہتر ہے جلد از جلد بوریا بستر باندھو اور یہاں سے نکل جائو، کوئی دوسر امکان تلاش کر لو۔ انہوں نے آگے بڑھ کر دو چار ضربیں بھی لگادیں۔ بھونچکا آفاق پھوپھا دفتر جانے کی بجائے چوٹ کھا کر ہمارے گھر آگئے۔ روہانسے ہو کر ساری روداد والد صاحب کے گوش گزار کر کے بولے۔ آپ نے کیا نفسیاتی مرئضہ میرے پلے باندھ دی ہے۔ جو بات میرے وہم و گمان میں نہیں ، کنول وہ سچ کر دکھانے کی سعی میں لگی ہے۔ 
آخر اس کا کیا مطلب ہے۔ ابو سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور پھر گاڑی میں بٹھا ان کو اسپتال لے گئے تاکہ ضربات کیلئے دوادار و کرادیں۔ اس واقعہ سے پھوپھا کی ایسی بے عزتی محلے میں ہو گئی کہ انہوں نے بغیر کچھ اور سوچے آنا فانا گھر بدل لیا۔ جلدی میں جیسا بھی ملاء لے لیا۔ مکان ہوا دار نہ تھا اور کرایہ بھی زیادہ تھا لیکن مجبوری تھی کہ وہاں اب مزید رہنے کا حوصلہ نہ تھا۔ ایک تو پڑوسی دشمن ہو گئے، اوپر سے یہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے تھے۔ نیا مکان لیتے وقت اس امر کا خاص خیال رکھا کہ پاس پڑوس میں کوئی مکان نہ ہو۔ میاں آفاق پر جو گزری سو گزری لیکن کنول بی بی چند دن بہت نہال رہیں کہ میاں کو کسی دوسری کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہونے سے بچالائی تھیں۔ بہت شاد تھیں۔ ہمارے گھر آئیں تو چہک رہی تھیں۔ بلا سے مکان اچھا نہیں مگر سکون تو ہے۔ ہم سب نے صد شکر کہا۔ چلو اب تو ان کو سکون مل گیا، روز روز کی کل کل سے نجات مل گئی ہو گی آفاق پھوپھا کو بھی، چین کی بانسری بجاتے ہوں گے۔

 دفتر دور پڑتا تھا، کیا ہوا آخر تو نئی موٹر بائیک خرید لی ہے۔ چھ ماہ تک کوئی شکایت موصول نہ ہوئی۔ اس عرصے میں یہ دونوں میاں بیوی ہمارے گھر ساتھ آئے۔ نارمل حالات لگتے تھے۔ کھانا وغیرہ کھایا اور سکون سے باتیں کرتے رہے۔ امی ابو نے شکر کیا کہ اب کنول، آفاق کو پریشان نہ کرے گی۔ بھلا کیوں کرے گی۔ یہاں تو کوئی پاس پڑوس میں ایسی لڑکی موجود نہ تھی جو ان کے خوبصورت شوہر پر بری نظر رکھتی ہو۔ چھ ماہ بعد ایک دن پھوپھا پھر منہ پھلائے آگئے۔ بولے ۔ لگتا ہے ہماری بیوی کا وہم ہماری جان لے کر ملے گا… اب کیا مسئلہ ہو گیا؟ اب تو تم نے دوسرا گھر بھی بدل لیا اور ایسے ویرانے میں گھر لیا ہے کہ جہاں آگے پیچھے، ادھر اُدھر بھی کوئی مکان نہیں ہے۔ ہاں پاس پڑوس میں کوئی نہیں ہے لیکن سامنے میدان کے اس پار ایک بڑا اسپتال ہے۔ تو کیا ہوا اسپتال سے کیا دوائوں کی بد بو آتی ہے ؟ ابد بو آتی ہے ؟ ارے میاں، وہ تو میل بھر دور ہے۔ دوائوں کی بو نہیں آتی لیکن وہاں نرسیں تو کام کرتی ہیں۔ نرسیں تو ہر اسپتال میں ہوتی ہیں ؟
ہماری بیگم کا کہنا ہے کہ تم اپنی چھت پر جا کر اسپتال کی نرسوں کو دیکھتے ہو۔ یہ مکان ایسا بنا ہوا ہے کہ گھٹن ہوتی ہے، ہوا کی آمدورفت کا صحیح انتظام نہیں ہے ، روشن دان بھی نہیں ہیں۔ تنگ گھروں میں کشادگی کا احساس کہاں، میں شام کو دفتر سے آکر تھوڑی دیر کیلئے تازہ ہوا لینے چھت پر چلا جاتا ہوں ۔ فورا کنول پیچھے آجاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ سامنے جو اسپتال ہے ، وہاں کسی نرس سے تمہاری دوستی لگتی ہے۔ اسی کو دیکھنے روز ، روز چھت پر جاتے ہو۔ آپ یقین کیجئے وہاں سے اول تو کوئی نظر نہیں آتا، اگر نظر آبھی جائے تو ایسے جیسے ہوائی جہاز سے کوئی زمین کو دیکھے تو چھوٹے چھوٹے مکانات گڑیوں کے گھروں کی طرح دکھائی دیں۔ انسانی چہرے تو دور بین سے ہی شاید نظر آجائیں تو بات ہے۔ انسانی آنکھیں کچھ نہیں دیکھ سکتیں، بھلا میں کوئی جن ہوں یا کہ خلائی مخلوق جو اتنی دور سے کسی نرس کو اشارے کرنے چھت پر جاتا ہوں۔

 امی نے تسلی دی کہ حوصلہ رکھو، ہم خود تم کو کوئی اچھا سا کشادہ گھر تلاش کئے دیتے ہیں تب تک تم ہمارے گھر کے اوپر والے پورشن میں شفٹ ہو جائو۔ یہ ویسے ہی خالی پڑا ہے ، کرائے کی زحمت سے بچے رہو گے اور کنول یہاں دم نہ مار سکے گی۔ تمہیں زچ نہیں ہونا پڑے گا۔ آفاق پھوپھا ہمارے اوپر والے پورشن میں شفٹ ہو گئے۔ کنول نہال کہ پھر سے میکے کا قرب حاصل ہو گیا۔ پکانے سے بھی جان چھڑالی، جو پکتا ہماری ماں ان کو بھی بھجوادیتیں کہ کچھ دنوں کی بات ہے جب ان کو گھر مل جائے گا، فی الحال تو مہمان ہیں۔ پھر والد صاحب نے گھر کے نزدیک وہ پلاٹ خرید لیا جو کچھ عرصے سے برائے فروخت تھا۔ آفاق سے کہا کہ کچھ رقم کا تم بند و بست کرو، بنیاد میں ڈلوا دیتا ہوں۔ دو کمرے فی الحال اس پر بنوالو ۔ گھر ہم سے قریب ہو گا تو کنول کو بھی ڈر رہے گا، تم کو تنگ کرنے کی جرات نہ کرے گی اور مکان بھی بن جائے گا۔ بیچارے پھوپھا اسی تگ و دو میں لگ گئے۔ دو سال بعد اللہ نے بیٹی دے دی۔ گھر خوشیوں سے بھر گیا۔ ننھے منوں کی چہکاروں سے آنگن کھنکنے لگا۔ ہم سب خوش تھے کہ اب کنول پھوپی اپنی زندگی میں سیٹ ہو گئی ہیں۔ ان کی چھوٹی بیٹی چار برس کی تھی کہ ایک روز منہ بسورتی آگئیں اور آتے ہی امی کے گلے سے لگ کر رونے لگیں۔ 
والدہ نے پوچھا۔ خیر تو ہے بیٹی ! کیا ہوا ہے، کیوں رو رہی ہو، کچھ بتائو تو سہی ؟ آفاق نے اور شادی کر لی ہے۔ کیا کہہ رہی ہو، کہیں کوئی ڈرائو نا خواب تو نہیں دیکھ لیا ؟ سچ کہہ رہی ہوں۔ کس سے کی ہے شادی؟ یہ تو پتا نہیں لیکن گھر سے نکلتے ہیں تو خوب بن سنور کر ، سینٹ لگا کر اور پہلے خود کو آئینے میں خوب اچھی طرح دیکھتے ہیں۔ نئے جوڑے بھی انہی دنوں سلوائے ہیں۔ ان باتوں سے یہ مطلب تو نہیں کہ انہوں نے دوسری شادی کر لی ہے۔ بغیر کسی ثبوت کے تم کیسے اتنی بڑی بات کہہ رہی ہو ؟ امی نے کافی سمجھایا، کنول پھپھو کی عقل نے کوئی تاویل تسلیم نہ کی، بس رونے سے کام تھا۔ شام تک روتی بلکتی رہیں۔ امی نے بہت کوشش کر کے کسی طرح ان کو گھر بھیجا کہ جائو آفاق کے آنے کا وقت ہو رہا ہے۔ 

بچے بھی تم کو روتا پا کر پریشان ہیں، تم جاکر شوہر کو کھانا دو، ذرادیر بعد میں آجائوں گی اور آفاق سے پوچھوں گی کہ کیا کیا ہے اور کیوں کیا ہے؟ پھپھو کنول اس وقت تو چلی گئیں لیکن آفاق انکل سے وہاں نہ جانے کیا معاملہ ہوا کہ رات کو گھر سے غائب ہو گئیں۔ بچوں نے بتایا کہ امی نے لڑائی کی تو ابو نے امی کو مارا تھا۔ وہ گھر سے چلی گئیں۔ آفاق بھی پریشان تھے کہ کئی دنوں سے یہی رٹ لگارکھی تھی۔ تم نے اور شادی کر لی ہے۔ میں نے قرآن شریف اٹھا کر یقین دلایا کہ تمہار او ہم ہے۔ میں نے کسی سے شادی نہیں کی۔ آج دفتر سے آیا تو پھر وہی رٹ لگادی۔ مجھے غصہ آگیا تب دو تھپڑ لگائے تو گھر سے نکل گئیں کہ بھائی صاحب کے گھر جارہی ہوں ، اب وہیں آنا۔ ہمارے یہاں تو نہیں آئی ہیں۔ امی نے بتایا۔ بہر حال کافی تلاش کیا۔ انکل آفاق اور بچے افسردہ و پریشان رہے تھے۔ 
بالآخر دار لامان سے فون آیا۔ پتا چلا وہاں جا پہنچی ہیں۔ ان کو لانے گئے، آنے سے صاف انکار کر دیا کہ یہ لوگ سبھی میری جان کے درپے تھے۔ مجھے کھانے میں زہر دے رہے تھے ، وہ تو میں نے سن لیا، بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگی ہوں۔ بچوں تک سے ملنے سے انکار کر دیا۔ سب نے کہا کہ ابھی وہاں رہنے دو، کچھ دن گزریں گے ، بچوں کی یاد ستائے گی، منا کر لے آئیں گے تو آپ ہی چلی آئیں گی۔ اس بار گئے تو پتا چلا کہ نفسیاتی امراض کے اسپتال میں ہیں، علاج ہو رہا ہے۔ وہاں گئے تو ڈاکٹر نے مایوسی ظاہر کر دی۔ بہر حال چھ ماہ بعد ان کو پاگل خانے بھجوادیا گیا اور وہیں کچھ عرصے بعد انتقال ہو گیا۔ آج تک کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ پاگل تھیں یا کہ ہم سب پاگل تھے کیونکہ وہ جب باتیں کرتی تھیں، اس قدر سیانے پن کی کرتی تھیں کہ عقل دنگ رہ جاتی تھی۔ کسی نے خوب کہا ہے وہم کا کوئی علاج نہیں ہے۔ کنول کے دل و دماغ میں جانے ایسی باتیں کہاں سے سما جاتیں تھیں۔ جس کا اثر اس کی شادی شدہ زندگی پر ایسا پڑا کہ سب برباد کر گیا۔