آخری رات

Sublimegate Urdu Stories

نائل کی بیوی، ماریہ، ابھی تک سو رہی تھی اور وہ خود بستر پر لیٹا بڑی سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کے لیے اپنی بیوی کو نیند سے جگانا بالکل ویسا ہی تھا جیسے کوئی مشکل ریاضی کا سوال حل کرنا، مگر یہ اب اس کی روزمرہ کی عادت بن چکی تھی۔ خود بستر سے اٹھنے اور کسی اور کام میں مصروف ہونے سے پہلے، ہر صبح ماریہ کو جگانا گویا اس کا پہلا فریضہ ہوتا تھا۔ ہر صبح جب وہ ماریہ کو نیند سے جگاتا، اندر ہی اندر غصے کی آگ میں جل رہا ہوتا۔ البتہ، اس غصے کی آنچ کبھی ماریہ تک نہ پہنچی۔ نائل نے ماریہ کے چہرے سے نظریں ہٹا کر کروٹ بدلی اور دیوار کی طرف رخ کرتے ہوئے بولا کہ ماریہ، سات بج گئے ہیں۔ ہر روز یہ جملہ ماریہ کے لیے اس کی طرف سے گویا صبح کا پیغام ہوتا تھا۔ ماریہ سے اس نے اپنی پہلی بیوی کی وفات کے بعد دوسری شادی کی تھی۔ دونوں ایک ہی دفتر میں کام کرتے تھے، اور یہ شادی نائل کی پسند کی شادی تھی۔

جب وہ پہلی بار ماریہ سے ملا تھا، اس وقت اس کی پہلی بیوی، رومیصہ، زندہ تھی۔ ماریہ نے تب ہی دفتر جوائن کیا تھا۔ نائل کو وہ پہلی نظر میں ہی پسند آ گئی تھی۔ اسے دیکھ کر نائل نے سوچا تھا، کاش اُس نے شادی نہ کی ہوتی۔ رومیصہ اسے کبھی خاص پسند نہیں آئی تھی۔ اس نے اس سے صرف دولت کی خاطر شادی کی تھی۔ اگر دولت نہ ہوتی تو وہ رومیصہ کے آوارہ اور جواری بھائی کی وجہ سے کبھی اس سے شادی نہ کرتا۔ نائل نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ماریہ سے اس کی اتنی جلدی قربت ہو جائے گی۔ رومیصہ کی ناگہانی موت نے نائل کو ماریہ سے شادی کا موقع فراہم کر دیا۔ ماریہ کو حاصل کرنا نائل کا خواب تھا، اور اس خواب کو پورا کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا تھا۔ نائل تکیے سے ٹیک لگائے بستر پر خاموشی سے ماریہ کو دیکھ رہا تھا۔ وہ بستر سے اٹھ چکی تھی اور اب ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کرسی پر بیٹھی بالوں میں برش کر رہی تھی۔ نائل نے کہا کہ تم کب تک ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی رہو گی، جا کر محب کو دیکھو، وہ اپنے کمرے میں ناشتے کا منتظر ہو گا۔ نائل کی بات سنتے ہی ماریہ بغیر کوئی جواب دیے جلدی سے اٹھی اور بیٹے کے کمرے کی طرف چلی گئی۔نائل نے وال کلاک پر ایک نظر ڈالی اور اچانک بستر سے نیچے اتر آیا۔ بستر کے پاس کھڑے ہو کر اس نے گہرے سانس لیے، بازو پھیلا کر ایک بھرپور جماہی لی۔ اسے اپنا سر بھاری محسوس ہونے لگا۔ یہ سب اعصابی تناؤ اور ذہنی دباؤ کا نتیجہ ہے، ڈاکٹر کا جملہ اس کے ذہن میں گونجا۔ 

نائل نے سلیپر پہنے، جو الٹے تھے، پھر سیدھا کر کے وہ واش روم میں چلا گیا۔ آفس کے لیے تیار ہونے کے بعد جب وہ ڈائننگ ٹیبل پر پہنچا تو ماریہ ناشتہ لگا چکی تھی۔ ماریہ نے شوخی سے کہا کہ میں آپ کے لیے کافی بناتی ہوں۔ نائل نے محب کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے پوچھا کہ ہیلو محب، تمہارا رزلٹ آ گیا؟ محب نے بےچینی سے پہلو بدلا۔ اس دوران ماریہ نائل کی خالی پیالی میں کافی انڈیل رہی تھی، مگر اس کا ہاتھ کانپنے لگا۔ اس نے کہا کہ محب کی پروگریس رپورٹ اچھی نہیں تھی، میں نے رپورٹ پر خود دستخط کر دیے، آئندہ محنت کرے گا تو اچھے نمبروں سے کامیاب ہو جائے گا۔ نائل نے غضبناک نظروں سے ماریہ کو دیکھا اور کہا کہ یہ تمہاری نرمی کا نتیجہ ہے جو یہ دن بہ دن پڑھائی میں کمزور ہوتا جا رہا ہے، ہر وقت کمپیوٹر کے آگے بیٹھا رہتا ہے یا کھیل میں مصروف ہوتا ہے، میرے یہاں سے جانے کے بعد تو یہ بالکل آزاد ہو جائے گا۔ ماریہ نے نرمی سے کہا کہ آپ فکر نہ کریں، صرف ایک مہینے کی تو بات ہے، آپ نے کہا تھا کہ کراچی پہنچتے ہی ہمیں وہاں بلا لیں گے۔ نائل نے جھنجھلاہٹ سے جواب دیا کہ گھر ڈھونڈنا اتنا آسان نہیں، بڑی مشکل سے میں نے اپنا تبادلہ کروایا ہے، اب میرا اس شہر میں رہنے کو بالکل دل نہیں چاہتا، عجیب سی وحشت کا شکار رہنے لگا ہوں۔

 ماریہ نے کہا کہ دن بہ دن آپ کو کیا ہوتا جا رہا ہے؟ ہم لوگ یہاں ملتان میں اچھی خاصی زندگی گزار رہے ہیں، آخر آپ کو کراچی جانے کی کیا سوجھی ہے؟ نائل نے سخت لہجے میں کہا کہ میری مرضی، جہاں دل چاہے گا وہاں رہوں گا۔ پھر اس نے محب سے کہا کہ آئندہ پڑھائی کے حوالے سے کوئی شکایت نہ سنوں۔ محب نے سر جھکا کر جواب دیا کہ جی پاپا، ایسا ہی ہو گا، اور وہ کرسی سے اٹھ کر کمرے کی طرف چلا گیا۔ نائل نے ماریہ سے پوچھا کہ تم نے میرے سامان کی پیکنگ شروع کی یا ابھی تک گھر کے فضول کاموں میں مصروف ہو؟ ماریہ نے کہا کہ آپ کی پیکنگ میں نے کافی حد تک مکمل کر لی ہے، ابھی تو آپ کی روانگی میں پانچ روز باقی ہیں۔ نائل نے کہا کہ ہاں، مگر تمہیں اپنا کام وقت پر مکمل کر لینا چاہیے۔ یہ کہہ کر وہ ناشتہ کرنے لگا، اور ناشتے کے بعد ماریہ کو خدا حافظ کہہ کر آفس روانہ ہو گیا۔ کچن میں کام کرتی ماریہ سوچ رہی تھی کہ نائل کو کیا ہو گیا ہے، آخر وہ کیوں بلا وجہ اپنا تبادلہ کرا کے کراچی جا رہا ہے۔
☆☆☆
نائل پچھلے دو دن سے کراچی میں اپنے دوست روحان کے گھر ٹھہرا ہوا تھا۔ روحان کا ایک سو بیس گز کا مکان تھا، جس کی اوپری منزل پر ایک کمرہ بنا ہوا تھا۔ اسی کمرے میں روحان نے نائل کو ٹھہرا دیا تھا۔ صبح کے چار بج رہے تھے، نائل بستر پر بیٹھا سگریٹ پینے میں مصروف تھا۔ اس نے نصف سے بھی کم جلی ہوئی سگریٹ ایش ٹرے میں مسل دی۔ سرہانے رکھے موبائل پر نگاہ دوڑائی لیکن نیند کی گولیاں کھانے کے باوجود نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ نائل نے دوبارہ بستر پر لیٹ کر کتاب اٹھائی اور پڑھنے کی کوشش کی، مگر جلتی ہوئی آنکھیں الفاظ کو پہچاننے سے قاصر تھیں۔ جب عبارت کا مفہوم سمجھنے میں ناکامی ہوئی تو تنگ آ کر اس نے کتاب بند کی اور سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔ آخرکار پانچ بجے اس کی آنکھ لگ گئی، مگر پندرہ منٹ بعد ہی وہ ایک جھٹکے سے بیدار ہو گیا۔ ایک بھیانک خواب اس کا مسلسل پیچھا کر رہا تھا۔ دل میں اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ آج دفتر نہیں جائے گا بلکہ کسی ماہرِ نفسیات سے مل کر اپنا مسئلہ زیرِ بحث لائے گا۔ ساڑھے سات بجے روحان اس کے کمرے میں آیا تو نائل بستر پر بیٹھا ہوا تھا۔ روحان نے اسے بغور دیکھتے ہوئے تشویش بھرے لہجے میں کہا کہ کیا بات ہے، تم ابھی تک تیار نہیں ہوئے، میں تو تمہیں ناشتے کے لیے بلانے آیا تھا، تمہیں دیکھ کر تو لگتا ہے جیسے تم ساری رات سوئے ہی نہیں ہو۔ نائل نے بےاختیار جواب دیا کہ کیا کروں، نیند آ ہی نہیں رہی تھی، سونے کی بہت کوشش کی، یہاں تک کہ ٹیبلیٹ بھی لی۔

 روحان نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ہاں، جگہ کی تبدیلی سے ایسا ہو جاتا ہے، ایک دو دن میں تم یہاں سیٹ ہو جاؤ گے۔ نائل نے کہا کہ میری کوشش یہی ہے کہ جلد از جلد یہاں کرائے کا مکان ڈھونڈ کر اپنی فیملی کو بلوالوں، ویسے بھی آج آفس جانے کا موڈ نہیں ہے۔ روحان نے حیرت سے پوچھا کہ کیوں، کیا کہیں اور جانے کا پروگرام ہے؟ نائل نے بات گول کرتے ہوئے کہا کہ ہاں، مجھے کسی سے ملنے جانا ہے، فی الحال میں ناشتے کے بعد سونا چاہوں گا۔ اس نے دانستہ طور پر ڈاکٹر سے ملاقات کا ذکر نہیں کیا کہ کہیں روحان اسے نفسیاتی مریض نہ سمجھ بیٹھے۔ روحان نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا کہ چلو نیچے چل کر ناشتہ کرتے ہیں، اور نائل بھی بستر سے اٹھ کر اس کے ساتھ ہو لیا۔
☆☆☆
دروازے پر لگی ہوئی نیم پلیٹ ڈاکٹر عمار حسن کے موجود ہونے کا اعلان کر رہی تھی۔ کیا آپ نے ملاقات کے لئے وقت لے رکھا ہے؟ کائونٹر پر موجود لڑکی نے پوچھا۔ وہ بڑے غور سے نائل کو دیکھ رہی تھی۔ نائل کو اس کی یہ بات ناگوار لگ رہی تھی۔جی، میں نے اپائنٹمنٹ لے لیا تھا۔ نائل نے جیب سے ایک پرچی نکال کر اسے دکھائی۔نائل نے کہا کہ کم خوابی کا شکار ہوں، مجھے نیند نہیں آتی، مہینوں ہو گئے ہیں، میں اچھی اور پُرسکون نیند کو ترس گیا ہوں۔ ڈاکٹر عمار حسن کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ ابھری۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگ یہی شکایت کرتے ہیں، قسم کھاتے ہیں کہ ہفتوں سے نیند نہیں آ رہی، جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ کم یا زیادہ نیند ضرور آتی ہے، البتہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ بالکل نہیں سوئے۔ نائل بولا کہ اس طرح تو کبھی کبھار میری آنکھ بھی لگ جاتی ہے، مگر صرف پندرہ منٹ کے لیے، مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں ایک گھنٹے سے زیادہ کبھی سویا ہوں۔ جب بھی سوتا ہوں، کوئی بھیانک خواب میری نیند اُڑا دیتا ہے۔ زیادہ تر میں دو ہی خواب دیکھتا ہوں۔ ایک خواب میں خود کو ہر طرف سے آگ کے شعلوں میں گھرا ہوا پاتا ہوں۔ دوسرے خواب میں کوئی شخص میرے تعاقب میں ہوتا ہے، جو مجھ پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور میں اس سے بچنے کے لیے بھاگ رہا ہوتا ہوں۔ ڈاکٹر نے پوچھا کہ کیا آپ اس شخص کو جانتے ہیں جو خواب میں آپ کا پیچھا کرتا ہے؟ نائل نے جواب دیا کہ جی ہاں، وہ شخص میری پہلی بیوی کا بھائی ہے۔ 

ڈاکٹر نے کہا کہ آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں، علاج کے لیے آپ کی مکمل کہانی جاننا ضروری ہے۔ نائل نے کہا کہ میرا نام نائل فاروقی ہے، عمر چھتیس سال، ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کرتا ہوں۔ میں نے دو شادیاں کیں، پہلی بیوی رومیصہ کی وفات کو آٹھ سال ہو چکے ہیں۔ اس کی موت کے فوراً بعد میں نے دوسری شادی کی، دوسری بیوی سے میرا ایک بیٹا ہے جس کی عمر تقریباً سات سال ہے۔ ڈاکٹر نے پوچھا کہ آپ کی پہلی بیوی جوانی میں ہی وفات پا گئی تھیں، ان کی موت کی وجہ؟ نائل نے آہستگی سے جواب دیا کہ ایک حادثہ۔ ڈاکٹر نے مزید پوچھا کہ کیسا حادثہ؟ نائل نے قدرے ناگواری سے کہا کہ کیا یہ بتانا ضروری ہے؟ ڈاکٹر نے نرمی سے جواب دیا کہ ہاں، ہو سکتا ہے اس سے مجھے آپ کا کیس سمجھنے میں مدد ملے۔ نائل نے ایک گہری سانس لی اور بولا کہ وہ آگ میں جل کر مر گئی تھی۔ پھر وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر خواب آلود لہجے میں گویا ہوا کہ ڈاکٹر، آپ کے سوال نے مجھے ماضی میں دھکیل دیا ہے۔ دسمبر کا مہینہ تھا، آدھی رات کا وقت تھا جب یہ حادثہ پیش آیا۔ سردی کے باعث کمرے میں ہیٹر جل رہا تھا۔ کسی طرح بستر کی چادر میں آگ لگ گئی۔ کم از کم پولیس افسر کا یہی خیال تھا، جو اس کیس کی تفتیش کر رہا تھا۔ 

نائل دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ ڈاکٹر کو یہ بتانے کی کیا ضرورت ہے کہ اس کی بستر پر لیٹ کر سگریٹ پینے کی عادت نے یہ آگ بھڑکائی تھی۔ بدقسمتی سے میری آنکھ رومیصہ کے چیخنے پر کھلی۔ اس وقت پورا کمرہ آگ کی لپیٹ میں آ چکا تھا۔ سارا کمرہ دھوئیں سے بھرا ہوا تھا، رومیصہ کچھ کہہ رہی تھی مگر میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، مجھے اپنی جان بچانے کی فکر تھی۔ کمرے کے دروازے میں آگ لگی ہوئی تھی، میں اسے کھول نہیں سکتا تھا۔ یہ دیکھ کر میں باتھ روم کی طرف بھاگا، میرے اوسان خطا ہو چکے تھے۔ باتھ روم کے روشندان سے میں نیچے کود گیا۔ میں نے رومیصہ کو بھی کہا کہ وہ اسی راستے سے نکلے، مگر وہ اونچائی کے خوف سے کودنے کو تیار نہیں تھی۔ مجبوراً مجھے اسے چھوڑ کر اپنی جان بچانی پڑی۔ پہلے فلور سے کودنے پر مجھے زیادہ چوٹ نہیں آئی۔ 

نیچے پہنچتے ہی میں نے اوپر کی طرف دیکھا، سارا گھر شعلوں میں گھرا ہوا تھا۔ یہ کہہ کر نائل نے آنکھیں بند کر لیں، جیسے بات کرتے کرتے تھک گیا ہو۔ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد وہ دوبارہ گویا ہوا کہ جب تک فائر بریگیڈ پہنچی، سب کچھ ختم ہو چکا تھا، رومیصہ آگ میں جل کر مر گئی تھی۔ ڈاکٹر نے پوچھا کہ کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ اسے بچا سکتے تھے، مگر آپ نے بچانے کی کوشش نہیں کی؟ نائل اس سوال پر خاموش ہو گیا اور خالی خالی نظروں سے سامنے الماری میں رکھی موٹی موٹی کتابوں کو گھورنے لگا۔ ڈاکٹر نے نرمی سے پوچھا کہ کیا آپ خود کو اپنی بیوی کی موت کا ذمے دار سمجھتے ہیں؟ کیا یہی خیال آپ کی نیندیں اُڑا لے گیا ہے؟ نائل نے قدرے سخت لہجے میں جواب دیا کہ ایسی کوئی بات نہیں ڈاکٹر۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اگر ہو بھی تو یہ کوئی غیر فطری بات نہیں، کیونکہ آپ اپنی ہر ممکن کوشش کیوں نہ کر لیتے، پھر بھی ممکن ہے کہ ضمیر آپ کو اس کی موت کا مجرم ٹھہراتا، کیونکہ آپ بچ نکلے اور وہ جل گئی۔ نائل نے تنک کر کہا کہ میں نے کہا نا ڈاکٹر، یہ بات نہیں ہے، میں جانتا ہوں کہ اس معاملے میں میرا کوئی قصور نہیں، اس لیے میں خود کو مجرم کیوں سمجھوں؟ مسئلہ یہ ہے کہ رومیصہ کا بھائی، جو میرا جانی دشمن بن چکا ہے، اس نے میری راتوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ وہ مجھے اپنی بہن کی موت کا ذمے دار سمجھتا ہے۔ ڈاکٹر نے پوچھا کہ مگر کیوں؟ وہ ایسا کیوں سوچتا ہے؟ نائل نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا کہ مجھے کیا معلوم؟ مجھے رومیصہ کا بھائی علمیر شروع سے ناپسند تھا۔ 

جس وقت حادثہ ہوا، وہ دوسرے شہر میں تھا۔ اس کے ذہن میں میرے خلاف شکوک و شبہات پیدا ہو گئے۔ اخبارات میں کچھ ایسی خبریں بھی شائع ہوئیں جن میں مجھے مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی گئی۔ ڈاکٹر نے پوچھا کہ کیسے شکوک و شبہات؟ نائل نے جواب دیا کہ یہی کہ میں نے اپنی جان تو بچا لی اور رومیصہ کو جل جانے دیا۔ علمیر نے رومیصہ کی تدفین کے موقع پر لوگوں کے سامنے کھل کر کہا کہ میں رومیصہ کی موت کا ذمے دار ہوں اور یہ کہ وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا۔ شکر ہے کہ رومیصہ کی موت کے تیسرے روز ہی پولیس نے اسے ڈکیتی کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ اس نے مجھے ایک خط بھی لکھا تھا، بڑا عجیب و غریب خط تھا۔ آپ دیکھتے تو یقیناً اس کے ذہنی توازن پر شک ہونے لگتا، مگر میں نے وہ خط ضائع کر دیا۔ ڈاکٹر نے پوچھا کہ کیا علمیر ابھی تک جیل میں ہے؟ نہیں، دو مہینے پہلے وہ رہا ہو چکا ہے۔ اس نے مجھے فون کیا تھا اور فون پر مجھے ڈرانے دھمکانے کی پوری کوشش کی تھی۔ ڈاکٹر نے پوچھا کہ کیا آپ نے پولیس کو مطلع کیا؟ نائل نے جواب دیا کہ نہیں، دیکھئے ڈاکٹر صاحب، علمیر کو اپنی بہن سے بہت محبت تھی، میں جانتا ہوں کہ وہ جذبات میں آ کر مجھے دھمکیاں دے رہا ہے۔ اس جیسے شخص سے یہی توقع کی جا سکتی ہے۔ کم عمری میں وہ برے لڑکوں کی صحبت میں آ کر چوری چکاری کرنے لگا تھا۔ محلے میں اس کی غنڈہ گردی مشہور تھی۔ اسے تو میرا احسان ماننا چاہیے کہ میں نے اس جیسے شخص کی بہن سے شادی کی۔ 

علمیر کے جیل سے آنے کے بعد سے میری نیندیں اڑ گئی ہیں۔ ڈاکٹر عمار نے کہا کہ میرا مشورہ مانیں اور پولیس کو اس سلسلے میں ضرور اطلاع دیں، وہ شخص آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ دوائیں میں لکھ رہا ہوں، ایک ہفتے بعد آ کر دوبارہ معائنہ کروائیں۔ ڈاکٹر نے دوائیں لکھ کر پرچہ نائل کی طرف بڑھایا، اور نائل پرچے پر نظر ڈالتے ہوئے ان کے کمرے سے باہر نکل آیا۔ کلینک سے نکل کر وہ سیدھا ایک شاپنگ مال گیا، جہاں اس نے اپنی پسند کے ملبوسات خریدے اور رات کا کھانا ایک ریسٹورنٹ میں کھایا۔ رات گیارہ بجے وہ روحان کے گھر واپس پہنچا۔ دس منٹ روحان کے پاس بیٹھنے کے بعد وہ اوپر اپنے کمرے میں چلا آیا اور پھر جانے کب نیند آ گئی۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد اچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔ بستر پر لیٹے لیٹے اس نے سگریٹ سلگایا اور ایک کے بعد ایک پیتا چلا گیا۔ تین بجے کے قریب جھنجھلا کر اس نے خالی پیکٹ اٹھا کر ڈسٹ بن میں پھینکا اور الماری سے نیا پیکٹ نکالنے کے لیے اٹھا، مگر معلوم ہوا کہ الماری میں سگریٹ کا کوئی پیکٹ موجود نہیں۔ بے خوابی کی مصیبت کیا کم تھی کہ اب سگریٹ بھی ختم ہو چکے تھے۔ وہ بستر پر دوبارہ لیٹ گیا اور ڈاکٹر عمار سے اپنی ملاقات کے بارے میں سوچنے لگا۔ اسے ماہرِ نفسیات کے پاس جانے سے کوئی فائدہ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ اگرچہ ڈاکٹر نے اسے ایک ہفتے بعد بلایا تھا، مگر وہ دوبارہ جانے کا خواہشمند نہیں تھا۔

 ڈاکٹر کے سامنے گزشتہ زندگی کا ذکر کرنے سے اس کے ذہن میں بار بار رومیصہ کا خیال آ رہا تھا۔ وہ رومیصہ کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتا تھا، مگر ذہن خودبخود اُسی طرف پلٹ رہا تھا۔ اس کے ذہن میں برسوں پہلے ابو کے کہے گئے الفاظ گونجنے لگے: اگر اس کا بھائی آوارہ اور جواری ہے تو اس میں اس بےچاری کا کیا قصور ہے؟ یہ وہ جملہ تھا جو ابو نے رومیصہ سے شادی کے لیے نائل کو رضامند کرنے کی کوشش میں کہا تھا۔ رومیصہ نائل کے والد سلیم احمد کے سیکنڈ کزن کی بیٹی تھی۔ رومیصہ کے والد جوانی میں انتقال کر گئے تھے، جب وہ محض تین سال کی تھی۔ اس کی ماں، فاخرہ بیگم، اپنے اکلوتے بیٹے علمیر کی آوارگی اور مجرمانہ فطرت سے سخت پریشان رہتی تھیں۔ معقول شکل و صورت کی حامل ہونے کے باوجود رومیصہ کے لیے کوئی رشتہ نہیں آتا تھا۔ ایسے میں ایک دن سلیم احمد نے نائل کے سامنے رومیصہ کا ذکر چھیڑ دیا۔ وہ چاہتے تھے کہ نائل کی شادی رومیصہ سے ہو جائے، لیکن نائل نے فوراً انکار کر دیا۔ ایک تو رومیصہ اسے پسند نہیں تھی، کیونکہ اس نے اپنی شریکِ زندگی کے حوالے سے جو خواب دیکھے تھے، رومیصہ ان پر پوری نہیں اترتی تھی، دوسرے وہ علمیر کی مجرمانہ سرگرمیوں کی وجہ سے بھی اس گھر میں رشتہ کرنے کو تیار نہیں تھا۔

سلیم احمد نے جب دیکھا کہ نائل اس رشتے پر کسی طرح راضی نہیں ہو رہا تو وہ فوراً اصل وجہ پر آگئے، جس کی بنا پر وہ نائل کی شادی رومیصہ سے کروانا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بیٹا، رومیصہ کے باپ کی اچھی خاصی زمینیں ہیں۔ فاخرہ کا کہنا ہے کہ وہ آدھی زمینیں تمہارے نام کر دے گی، جو تمہیں رومیصہ سے شادی کے موقع پر ملیں گی۔ میرے خیال میں تمہیں فوراً ہامی بھر لینی چاہیے۔ نائل نے ہچکچاتے ہوئے کہا کہ ابو، میں نے ایسا کبھی سوچا نہیں۔ سلیم احمد نے کہا کہ سوچا نہیں تو اب سوچ لو، تمہیں زندگی بنانے کا موقع مل رہا ہے۔ اگر رومیصہ کا باپ زندہ ہوتا تو کبھی اس کی شادی ہمارے گھر میں نہ کرتا، وہ دولت کی وجہ سے اپنے آپ کو مجھ سے برتر سمجھتا تھا۔ آج اس کے بیٹے کی آوارگی کی وجہ سے حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ فاخرہ نے خود بیٹی کا رشتہ دیا ہے۔ سلیم احمد کے سمجھانے پر نائل کو ہامی بھرنا پڑی۔ رومیصہ سے شادی کر کے وہ ایسا ناخوش بھی نہیں تھا، مگر اچانک ماریہ اس کی زندگی میں آگئی اور اسے افسوس ہونے لگا کہ اس نے رومیصہ سے شادی کیوں کی۔ پھر ایک دن قسمت نے اسے رومیصہ سے چھٹکارے کا موقع فراہم کر دیا۔

 آدھی رات کو سگریٹ پیتے ہوئے وہ ماریہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ سوچتے سوچتے اسے نیند آ گئی، اور اس نے ادھ جلی سگریٹ ایش ٹرے میں رکھ دی۔ نیند میں اسے معلوم نہ ہوا کہ ایش ٹرے بیڈ پر رکھنے کے باعث کب بستر پر گری اور چادر نے آگ پکڑ لی۔ اس کی آنکھ رومیصہ کے چیخنے سے کھلی۔ وہ باتھ روم میں داخل ہوا تھا تاکہ رومیصہ کے ساتھ باہر نکل سکے، مگر جان بوجھ کر روشندان کے راستے پہلے خود نکل گیا۔ اسے اس وقت صرف اپنی جان بچانے کی فکر تھی۔ علمیر اسے رومیصہ کی موت کا ذمے دار سمجھتا تھا، اور حقیقت بھی یہی تھی۔ آگ لگنے کے واقعے پر غور کرتے ہوئے وہ ماضی سے حال میں لوٹ آیا۔ اپنے بستر پر کروٹیں بدلتے ہوئے اس کی آنکھ بڑی مشکل سے لگی۔ سات بجے گھڑی کا الارم بجا تو وہ فوراً بستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر آفس روانہ ہو گیا، جہاں اسے معلوم ہوا کہ کمپنی کا جنرل منیجر اس سے ملنا چاہتا ہے۔ وہ فوراً اس کے دفتر میں پہنچا۔ جنرل منیجر نے مسکرا کر کہا کہ دیکھیں بھئی، آپ دھیان سے اپنا کام کریں۔ ابھی آپ کو دفتر جوائن کیے چند دن ہی ہوئے ہیں، ایک دن آئے اور پھر اگلے دن غائب ہو گئے۔ 

پرسوں جو فائل آپ نے مجھے مکمل کر کے بھجوائی، اس میں کئی غلطیاں تھیں جو آپ کو نظر نہیں آئیں۔ نائل نے آہستگی سے کہا کہ میں شرمندہ ہوں سر، آج کل طبیعت کچھ ٹھیک نہیں، اسی لیے کل چھٹی کرنا پڑی۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ آپ کو مجھ سے شکایت نہیں ہو گی۔ جنرل منیجر نے کہا کہ آپ کی حالت سے لگ رہا ہے کہ آپ تھکاوٹ کا شکار ہیں، کسی اچھے ڈاکٹر سے چیک اپ کروائیں اور اس کی ہدایات پر عمل کریں۔ یہاں انسان کی قدر اس کے کام سے ہوتی ہے، کوشش کریں کہ مجھے آپ سے آئندہ کوئی شکایت نہ ہو۔ نائل نے کہا کہ جی سر، ایسا ہی ہوگا۔ دل میں وہ سوچ رہا تھا کہ اس کی تمام پریشانیوں کی وجہ علمیر ہے۔ اس سے پہلے وہ کمپنی کا کام بخوبی انجام دیتا رہا ہے، کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ دفتر میں مصروف دن گزارنے کے بعد جب وہ گھر روانہ ہو رہا تھا تو اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ علمیر سے خوفزدہ ہونے کے بجائے اس سے ملاقات کرے گا اور معلوم کرے گا کہ وہ اسے چھوڑنے کے بدلے کیا چاہتا ہے۔ 

رات کو اس نے ہمت کر کے علمیر کو فون کیا۔ اس نے کہا کہ میں نائل بات کر رہا ہوں، دیکھو، مجھے ہمارے درمیان یہ کشیدگی پسند نہیں، کیوں نہ ہم بیٹھ کر معاملے کو سلجھا لیں۔ علمیر کی طنزیہ آواز ابھری کہ بہت جلدی خیال آ گیا تمہیں، مجھے پتا ہے کہ تم کراچی پہنچ چکے ہو، تم کیا سمجھتے ہو کہ میں تمہیں وہاں نہیں ڈھونڈ سکتا؟ میں کل شام تمہیں کراچی میں ملوں گا۔ نائل نے بے چینی سے پوچھا کہاں؟ علمیر نے جواب دیا کہ میں تمہیں کراچی پہنچ کر بتاؤں گا اور پھر فون بند کر دیا۔ نائل موبائل ہاتھ میں لیے سوچنے لگا کہ کیا اس نے علمیر سے ملاقات کرنے کا فیصلہ صحیح کیا ہے یا غلط۔ رات کو لیٹتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔ اس نے خواب میں خود کو آگ کے شعلوں میں گھرا ہوا دیکھا۔ وہ ہیجانی کیفیت میں چیخنے لگا، پوری شدت سے چلاتے ہوئے علمیر کو برا بھلا کہہ رہا تھا، جس کے خوف نے اس کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں۔ کچھ دیر بعد جب وہ نارمل ہوا تو اپنے طرزِ عمل پر خود حیران تھا۔ صبح جب وہ روحان کے ساتھ ناشتہ کر رہا تھا تو روحان نے دبے لفظوں میں رات کے طرزِ عمل کے بارے میں شکایت کی کہ میں حیران تھا تمہیں کیا ہو گیا تھا، کس سے لڑ رہے تھے۔ میں اسی وقت اوپر آتا، مگر تمہارے چیخنے کی آواز بند ہو گئی تھی، اور غزالہ نے بھی منع کر دیا کہ میں آدھی رات کو اوپر نہ جاؤں۔ یہ کہتے ہوئے اس نے کن انکھیوں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا جو ان باتوں سے بے نیاز ناشتہ کرنے میں مصروف تھی۔ 

نائل نے معذرت خواہ لہجے میں کہا کہ بھائی، سوری، میری وجہ سے آپ کی نیند میں خلل پڑا، آئندہ آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔ غزالہ نے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنے گھر کے لیے کسی اسٹیٹ ایجنٹ سے بات کی؟ روحان نے اسے گھورا، وہ جانتا تھا کہ غزالہ چاہتی ہے کہ نائل جلد از جلد اس گھر سے چلا جائے۔ نائل نے کہا کہ بات تو کی ہے، دعا کریں جلد گھر کا بندوبست ہو جائے اور میں آپ کی جان چھوڑ دوں۔ روحان بولا کہ نائل کیسی باتیں کر رہے ہو، یہ تمہارا اپنا گھر ہے، جب تک دل چاہے یہاں رہو۔ نائل نے جلدی سے ناشتہ ختم کیا اور آفس روانہ ہو گیا۔ آج کا دن اس کے لیے بہت اہم تھا، کیونکہ آج اسے علمیر سے ملاقات کرنی تھی۔ وہ بے چینی سے شام ہونے کا منتظر رہا۔شام سے رات ہو گئی، مگر علمیر کا فون نہیں آیا۔ اس نے اپنے موبائل سے اس کا نمبر ملایا، مگر علمیر کا فون بند تھا۔ ساری رات وہ بے چین رہا۔ 

اگلے دن وہ آفس سے گھر روانہ ہو رہا تھا کہ علمیر کا فون آ گیا۔ علمیر اس سے ملاقات کا خواہشمند تھا۔ نائل آفس سے سیدھا اس کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچ گیا۔ اس نے اسے ہائی وے پر واقع جس کالونی کا پتہ بتایا تھا وہ ابھی پوری طرح آباد نہیں ہوئی تھی۔ ڈور بیل بجاتے ہوئے انجانے خوف نے نائل کو گھیرا ہوا تھا۔ بیل بجاتے ہی نائل کی نظر علمیر پر پڑی۔ آٹھ سال کی قید با مشقت نے اس کے چہرے کے خدوخال تبدیل کر دیے تھے، وہ ایک وہیل چیئر پر بیٹھا ہوا تھا۔تمہاری ٹانگوں کو کیا ہوا؟ نائل نے اس پر نظر پڑتے ہی پوچھا۔جیل سے رہا ہونے کے بعد ایک ٹریفک حادثے میں میری ٹانگیں مفلوج ہو گئی ہیں۔ نائل کو اپنے خوف پر بے اختیار ہنسنے کا دل چاہ رہا تھا۔ اس نے بڑے مطمئن انداز میں علمیر کی طرف دیکھا۔علمیر نے وہیل چیئر ایک طرف کھسکاتے ہوئے اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔ نائل کو اپنی حماقت پر افسوس ہو رہا تھا کہ اسے پہلے پتا چل جاتا کہ علمیر معذور ہو گیا ہے تو وہ اس سے ملنے کی حماقت نہ کرتا۔ علمیر کے پیچھے چلتا ہوا وہ کمرے میں داخل ہوا۔ صوفے پر بیٹھتے ہی اس نے علمیر سے کہا۔ مجھے تم سے ہمدردی ہے۔ اس حال میں دیکھ کر بہت دکھ ہو رہا ہے۔اپنی ہمدردی اپنے پاس رکھو ، مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ علمیر نے پیشانی پر بل ڈالتے ہوئے جواب دیا۔ بہت نفرت کرتے ہو مجھ سے ؟ہاں، میرے لئے تمہارے وجود کو برداشت کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ علمیر کے چہرے پر نفرت کے آثار پھیل گئےتھے۔علمیر ! میں جانتا ہوں کہ اخباروں میں الٹی سیدھی خبریں پڑھ کر تم مجھے قاتل سمجھ رہے ہو مگر حقیقت وہ نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو۔ تم نے آج تک بھی مجھے صفائی پیش کرنےکون کی صفائی پیش کرنا چاہتے ہو۔ اپنے دل سے پوچھو تم بے گناہ ہو۔ 

علمیر نے نائل کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ علمیر ! پر سکون ہو کر میری بات سنو، میں چاہتا ہوں کہ آج اس معاملے کو نمٹالیا جائے، جذبات میں آکر تم اپنے مجرم دوستوں کے ذریعے میرے خلاف کوئی قدم اٹھائو میں اس سے تمہیں باز رکھنے آیا ہوں۔ تمہاری بہن میری وجہ سے نہیں مری۔ قدرت نے اس کے نصیب میں جل کر مرنا لکھا تھا۔ تم جو چاہے سوچتے رہو۔ یہ بات پولیس بھی ثابت نہیں کر سکتی ہے۔ تمہاری دھمکیاں میری سمجھ سے باہر ہیں۔ تم آخر چاہتے کیا ہو؟تمہاری موت ۔ میں مانتا ہوں کہ میں ایک برا انسان ہوں۔ معاشرے کی نظر میں میں ایک مجرم ہوں اس کے باوجود میں نے آج تک کسی کی جان نہیں لی۔ مجھے اپنی بہن سے بہت محبت تھی۔ اس محبت کی شدت کا اندازہ مجھے اس کی موت کے بعد ہوا ہے۔ تم نے میری بہن سے بھی محبت نہیں کی، محض جائداد ہتھیانے کے لئے اس سے شادی کی ۔ وہ تو تمہیں اس بات کا دکھ ہے کہ میں تمہارے باپ کی جائداد پر عیش کر رہا ہوں۔ میں تمہیں کچھ رقم دینے کے لئے تیار ہوں۔ بشر طیکہ تم ہمیشہ کے لئے کہیں دفع ہو جائو، تم نے میرا ذہنی سکون تباہ کر دیا ہے۔ میں چاہتا تو اس معاملے میں پولیس کی مدد لے سکتا تھا مگر میری خواہش ہے کہ یہ معاملہ بات چیت کے ذریعے طے ہو جائے۔ 

علمیر اسے چند لمحوں تک گھورتا رہا، پھر بولا۔ مجھے بے حد افسوس ہو رہا ہے رومیصہ تمہارے پیچھے اتنی پاگل کیوں تھی۔ اس نے تم سے شادی کرنے کے لئے خود کشی کی کوشش کی، بدلے میں تم نے اسے کیا دیا اس سے بے وفائی کی۔رومیصہ نے خود کشی کرنے کی کوشش کی تھی کب ؟ نائل حیرانی سے بولا۔ تم تو ہمارے گھر اکثر آیا کرتے تھے اس وقت میری مجرمانہ سر گرمیوں کی شہرت نہیں ہوئی تھی۔ رومیصہ سمجھتی تھی کہ تم اسے پسند کرتے ہو ، بعد میں تم نے ہمارے گھر آنا بند کر دیا تھا۔ رومیصہ نے وجہ پوچھی تھی، تو تم نے کہا تھا کہ تم میری بدنامی کی وجہ سے ہمارے گھر نہیں آنا چاہتے ۔ اس نے تم سے شادی کی خواہش ظاہر کی تو تم نے صاف انکار کر دیا تھا۔ رومیصہ تمہارے عشق میں اس حد تک گرفتار ہو چکی تھی، تمہاری باتوں سے دلبرداشتہ ہو کر اس نے نیند کی گولیاں کھا کر خود کشی کی کوشش کی ۔ امی کو جب ساری صورتحال پتا چلی تو وہ بیٹی کی محبت سے مجبور ہو کر تمہارے گھر خود رشتہ لے کر پہنچ گئیں۔ تمہارے لالچی باپ کی فطرت کو وہ اچھی طرح جانتی تھیں۔ چچا سلیم احمد خود تو زندگی بھر کچھ نہ کر سکے ، ہمیشہ دوسروں کی دولت پر ان کی نظر رہی، امی نے جب چچا کے سامنے رومیصہ اور تمہاری شادی کی تجویز رکھی اور ساتھ ہی آبائی زمینوں میں سے آدھی زمینیں تمہارے نام کرنے کا وعدہ کیا، تا کہ تم لوگوں کی طرف سے انکار کی گنجائش نہ رہے اور ہوا بھی یہی ، امی کی توقع کے مطابق رومیصہ کی شادی تم سے ہو گئی۔
 شادی کے بعد رومیصہ بہت خوش تھی، اپنی موت سے دوماہ پہلے اس نے امی سے تمہارے بدلتے ہوئے رویے کی شکایت کی تھی۔ رومیصہ نے امی کو بتایا تھا کہ اسے یوں لگ رہا ہے کہ تمہاری زندگی میں کوئی دوسری عورت داخل ہو گئی ہے۔ رومیصہ کی اس طرح ناگہانی موت کی خبر میرے اور امی کے لئے کسی شاک سے کم نہیں تھی۔ امی نے اس کی موت کا بہت اثر لیا۔ ایک ہفتے بعد وہ اس دنیا سے چل بسیں۔ ماں اور بہن کو کھونے کے بعد مجھے رشتوں کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوا۔ یہ رشتے ایسے ہیں جو دنیا کی کسی دولت سے نہیں خریدے جاسکتے ۔ تم مجھے اتنا گرا ہوا انسان سمجھ رہے ہو کہ میں چند نوٹوں کے عوض تمہیں معاف کر دوں گا، تمہیں مارنے کے لئے مجھے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں، میں اکیلا تمہیں موت کے گھاٹ اتار سکتا ہوں۔تم اب کچھ نہیں کر سکتے ۔ ایک سسکتی ہوئی زندگی گزار سکتے ہو۔ مجھے دیکھو میں نے زندگی میں جو چاہاتھا پالیا اور ایک تم ہوا اپنے باپ کی جائداد کو بے رحمی سے لٹادیا۔ بہت افسوس ہو رہا ہے مجھے تمہاری حالت پر ، اچھا تم مجھے قتل خود کرو گے مگر کیسے ؟ نائل نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔علمیر کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ تم سمجھتے ہو کہ میں تمہیں ٹھکانے نہیں لگا سکتا۔

 یہ تمہاری بھول ہے تمہاری موت تمہیں مجھ تک لے آئی ہے ۔ علمیر یہ بولتے ہوئے وہیل چیئر پر تیزی سے گھوما اور حیرت انگیز رفتار سے کمرے کے ایک گوشے میں رکھی میز کے پاس پہنچ کر اس کی دراز کھولنے لگا۔نائل بڑی دلچسپی سے اس کی ایک ایک حرکت کو دیکھ رہا تھا، اس نے علمیر کو روکنے کے لئے ذراسی بھی کوشش نہیں کی وہ بڑے مطمئن انداز میں کھڑا تھا یہاں تک کہ جب علمیر نے دراز سے ریوالور نکال لیا، تب بھی نائل کے چہرے پر گھبراہٹ کا کوئی تاثر نہیں تھا۔اس کو پر سکون حالت میں کھڑا دیکھ کر علمیر نے ریوالور پر گرفت اور مضبوط کر لی ۔ اس ریوالور کی گولی کو تمہارے سینے تک پہنچنے کے لئے ٹانگوں کی ضرورت نہیں ہے۔ عمیر نے ریوالور کارخ نائل کی طرف کرتے ہوئے کہا۔ دیکھ لیا کہ میں اپاہج ہونے کے باوجود کس طرح تمہیں ختم کر سکتا ہوں-میں اسے تمہاری حماقت کہہ سکتا ہوں، جذبات میں آکر بے وقوفی مت کرو۔زندگی کا سفر خاصا طویل ہے۔ میری آفر قبول کرلو۔ تمہاری باقی زندگی سکون سے بسر ہو جائے گی۔ نائل اس کی طرف بڑھا۔ اس خطر ناک کھلونے کو ایک طرف رکھ دو۔

 نائل نے ریوالور لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا اور بڑی مضبوطی سے اس کی کلائی پکڑ لی۔ مجھے مارنا چاہتے ہو، میں اتنی آسانی سے مرنے والوں میں سے نہیں۔ میں تمہیں اسی جگہ پہنچائوں گا جہاں میں نے تمہاری بہن کو پہنچایا تھا۔ نائل نے اس کے ہاتھ سے ریوالور چھینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔علمیر کے سوکھے ہاتھوں میں نائل کے اندازے سے زیادہ طاقت تھی، لیکن پھر بھی نائل اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور تھا۔اس کشمکش کے درمیان وہیل چیئر کے پہیے اپنی جگہ سے پھیلے ، علمیر نے اپنا توازن – پھیلے، علمیر نے اپنا توازن سنبھالنے کے لئے دوسرا ہاتھ آگے بڑھایا۔ نائل نے پلٹا کھایا اور ریوالور کی نال علمیر کے سر کی جانب اٹھ گئی۔ اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔ اس نے انگلی ٹرائیگر سے ہٹانے کی کوشش کی۔نائل نے محسوس کیا ، اب تک وہ جتنا علمیر سے ڈرتارہا تھا وہ تمام دہشت اب اس کے دشمن میں منتقل ہو چکی ہے۔ علمیر منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑایا۔نائل نے پوری طاقت سے اس کی انگلی د بادی اور اس وقت تک و با تار ہا جب تک فائر نہیں ہو گیا۔ ایک دھماکا ہوا اور علمیر کا چہرہ خون سے نہا گیا۔ نائل پیچھے ہٹ گیا۔ 
ریوالور علمیر کی بے جان انگلیوں سے چھوٹ کر فرش پر گر گیا۔ وہ مر چکا تھا۔نائل کو اس کا کوئی افسوس نہیں تھا۔ علمیر اپنے ریوالور سے ہلاک ہوا تھا، اس کی موت خود کشی کا تاثر دے رہی تھی۔ نائل نے کچھ سننے کی کوشش کی۔ اس مکان میں اس کے علاوہ کوئی اور تو نہیں، مگر اندر بدستور خاموشی تھی۔ گولی چلنے کی آواز کا کوئی رد عمل ظاہر نہیں ہوا تھا۔اسی وقت میز پر رکھا موبائل بجنے لگا۔ نائل تیزی سے وہاں سے باہر نکل گیا۔ وہ رات نائل نے پولیس کے خوف سے ڈرتے ہوئے گزاری۔ وہ خود کو تسلی دے رہا تھا کہ بھلا پولیس کو اس پر کیسے شک ہو سکتا ہے۔ پولیس کو سمجھنے کے لئے اتناہی کافی ہے کہ ایک اپانچ آدمی نے اپنی بے سہارا اور محتاج زندگی سے تنگ آکر خود کشی کر لی۔اگلے دن نائل آفس سے نکلتے ہوئے پر سکون تھا۔ اس کا خوف ختم ہو گیا تھا۔ 

وہ شام اس نے سنیما ہال میں فلم دیکھ کر گزاری، فلم ختم ہوتے ہی وہ بال سے باہر نکلا تو اسے بھوک کا احساس ہوا۔ وہ ایک ریسٹورنٹ میں پہنچاوہاں پہنچ کر اس نے کھانے کا آرڈر دیا۔ کافی دنوں کے بعد وہ کھانے میں ایک نیا ذائقہ اور نئی لذت محسوس کر رہا تھا۔ کھانا کھا کر اس پر غنودگی طاری ہونے لگی۔رات ساڑھے گیارہ بجے وہ گھر پہنچا تو روحان اس کا منتظر تھا۔ کہاں چلے گئے تھے تم؟ روحان نے اسے دیکھتے ہی کہا۔ دولبس یار پکچر دیکھنے کا موڈ بن گیا تھا۔ کھانا میں نے باہر کھا لیا ہے۔ دو میں تمہارا انتظار کر رہا تھا اور تم کھانا باہر کھا کر آگئے۔ میں غزالہ اور بچوں کو لینے سسرال جارہا ہوں، رات دیر سے واپس آئوں گا۔ٹھیک ہے تم بے فکر ہو کر جائو، مجھے سخت نیند آرہی ہے۔ میں سونا چاہتا ہوں، نائل بولا۔ ایک تو تمہیں نیند بہت آتی ہے گھر آتے ہی کمرے میں بند ہو جاتے ہو، جائو تم آرام کرو، کل سنڈے ہے۔ آرام سے بیٹھ کر باتیں ہوں گی۔ جب سے تم آئے ہو تمہارے ساتھ اطمینان سے بیٹھ کر باتیں کرنے کا موقع نہیں ملا۔ او کے خدا حافظ، نائل نے کہا۔ اسے بیزاری سی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ بڑبڑایا، ہو نہ، مجھے بڑی نیند آتی ہے۔ اسے کیا پتا پر سکون نیند لیے مجھے کتنا عرصہ ہو گیا ہے۔ پھر وہ سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔ اوپر اپنے کمرے میں پہنچ کر اس نے سگریٹ سلگایا اور کپڑے تبدیل کیے بغیر بستر پر دراز ہو گیا۔ سگریٹ کے کش لیتے ہوئے اسے ایک فرحت بخش احساس ہوا۔ اس پر نیند طاری ہونے لگی۔ اسے یوں لگا جیسے کوئی تھپک تھپک کر سلا رہا ہو۔ پلکوں کا بھاری پن بڑھتا جا رہا تھا۔

روحان انسپکٹر نواز کے سامنے پریشان کھڑا تھا۔ انسپکٹر صاحب! آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس حادثے میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں، نائل میرا دوست تھا۔ میری بھلا اس سے کیا دشمنی ہو سکتی تھی۔آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں۔ آگ گھر والوں کی غفلت سے نہیں لگی۔ آپ پر کوئی الزام نہیں آسکتا۔ انسپکٹر نواز، روحان کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔ آپ کا تو بڑا نقصان ہوا ہے، گھر کا خاصا حصہ تباہ ہو گیا ہے۔انسپکٹر صاحب! کیا کہوں دوستی بڑی مہنگی پڑ گئی۔ایسے لوگوں کو کبھی عقل نہیں آئے گی۔ حالانکہ آپ نے انہیں ہزار بار منع کیا ہو گا کہ بستر پر لیٹ کر سگریٹ نہ پئیں لیکن کون سنتا ہے۔ انسپکٹر نے گھوم کر اسٹریچر پر پڑی نائل کی جھلسی ہوئی لاش پر نظر ڈالی جو ایک سفید چادر سے ڈھکی ہوئی تھی۔انسپکٹر نواز کے چہرے پر ہمدردی اور تاسف کا تاثر ابھرا۔ بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔ یہ شخص ضرور گھوڑے بیچ کر سونے والوں میں سے تھا، بھلا اتنی گہری نیند کہ بستر الا تو بن گیا مگر اس کی آنکھ نہیں کھلی۔

(ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ