سوتیلی بیٹی کا فرار

Sublimegate Urdu Stories

عمر دراز خان نے گھر میں داخل ہوتے ہی ایک طویل سانس لی اور باورچی خانے سے اٹھنے والی اشتہا انگیز خوشبوؤں نے اس کا استقبال کیا۔ وہ بے اختیار بولا، "سرفراز کی ماں، آج تو کوئی تہوار یا بہار بھی نہیں ہے، پھر یہ گھر اتنی اچھی اچھی خوشبوؤں سے کیوں مہک رہا ہے؟" تھوڑے سے توقف کے بعد عمر دراز کی بیوی انوری باورچی خانے سے برآمد ہوئی۔ اس نے اپنا دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے کہا، "ارے، تمہاری اس سانس کی بیماری نے تمہیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ صبح تو میں نے بتایا تھا کہ خیر سے سرفراز کو ایک امیرزادی کو پڑھانے کا کام مل گیا ہے۔ اس کی خوشی میں کچھ کھٹا میٹھا بنا کر نیاز دے رہی ہوں۔"

عمر دراز نے کھوئے ہوئے لہجے میں ایک لمبی آہ بھری اور پھر تلخ لہجے میں بولا، "ساری زندگی محنت مزدوری کرکے بیٹے کو پڑھایا لکھایا کہ ہم بھی کبھی اچھے دن دیکھیں گے، لیکن ہمارے تو نصیب ہی کھوٹے ہیں۔ اتنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسے ایک ٹیوشن ملی تو تم شکرانے کی نیاز کرنے لگیں۔ ارے بھاگوان، کبھی تو عقل سے کام لیا کرو!" انوری نے ایک دلدوز آہ بھری اور نہایت نرم آواز میں بولی، "سرفراز کے بابا، کبھی تم بھی رب کا شکر ادا کر لیا کرو۔ جس نے کم دیا ہے، وہ ایک دن زیادہ بھی دے گا۔ اس کے خزانے میں کوئی کمی تو نہیں۔ میرا بچہ سلامت رہے، ہزاروں روزگار مل جائیں گے۔" عمر دراز نے بیوی کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور خاموشی سے باہر چلا گیا۔ اس کی خوش مزاجی رخصت ہو چکی تھی۔

سرفراز نے جب کیمسٹری میں ایم ایس سی کیا، اس وقت تک وہ خود بھی یہی سمجھ رہا تھا کہ یہ ڈگری کوئی جادو کی چھڑی ہے، جسے گھمانے سے اس کی دنیا بدل جائے گی۔ لیکن سڑکیں ناپتے ناپتے اس کے پاؤں شل ہو گئے، مگر کوئی امید بر نہ آئی۔ نوکری نہ ملی، گویا ریت میں چھپی ہوئی سوئی ہو گئی، جسے تلاش کرتے کرتے وہ نڈھال ہو گیا۔ اسی دوران اس کے دوست عظمت نے اسے خوشخبری سنائی کہ شہر کے مشہور صنعت کار مہتاب سیٹھ کی بیٹی کے لیے ایک ذہین ٹیوٹر کی ضرورت ہے۔ لڑکی نے میٹرک بڑی مشکل سے کیا اور اب انٹرمیڈیٹ میں پھر اٹک گئی ہے۔ عظمت نے کہا، "اگر تم میں دم خم ہے اور لڑکی کو پہلے ہی دھکے میں انٹر کا سرٹیفکیٹ دلا سکتے ہو، تو تمہارے وارے نیارے ہو جائیں گے۔" سرفراز نے ہچکچاتے ہوئے نفی میں سر ہلایا اور آگے بڑھ گیا، لیکن عظمت اس کے گھر کے حالات سے واقف تھا۔ وہ فوراً اس کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا اور بولا، "کوئی زندگی بھر تو ٹیوشن نہیں پڑھانی۔ ذرا سی لڑکی پر محنت کرکے اسے کامیابی دلا دو۔ اسی بہانے سیٹھ صاحب کے دل میں جگہ بنانے کی کوشش کرو۔ شہر میں ان کی دو ٹیکسٹائل مِلوں کا کاروبار ہے۔ وہ اپنے ورکرز سے کام لیتے ہیں تو پیسہ بھی بھرپور دیتے ہیں۔ اگر مل کے کیمیائی سیکشن میں جگہ مل گئی تو تمہارے دن بدل جائیں گے۔"

عظمت کی دلیل نے سرفراز کو قائل کر لیا۔ چونکہ تمام مضامین پڑھانے تھے، اس لیے ٹیوشن کی فیس بھی اچھی خاصی تھی۔ اس نے آمادگی ظاہر کرنے میں تاخیر نہ کی۔ جب وہ سیٹھ مہتاب کے گھر پہنچا، تو ایک لڑکی نے ریشمی آواز میں کہا، "میرا نام معطر ہے۔" سرفراز کو لگا جیسے شہنائیاں بج اٹھیں۔ معطر کو دیکھ کر وہ اپنی سب کی محبوباؤں کو بھول گیا۔ اس کا پہلا پیار، جو یک طرفہ تھا، اپنے خاندان کی ایک لڑکی سے ہوا تھا۔ اس نے اپنی داستانِ عشق اپنی ماں کو سنا دی اور لجاجت آمیز لہجے میں گڑگڑایا کہ خالہ بختاور کے گھر جا کر رشتہ مانگ لیں۔ ماں نہ صرف خوش ہوئی بلکہ فوراً جانے کی تیاری کر لی۔ الماری سے برقعہ کھینچ کر پہن رہی تھی کہ حسبِ عادت عمر دراز مسکراتا، کھنکھارتا گھر میں داخل ہوا۔ اس نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا، "آج کدھر کی اڑان ہے؟" انوری نے خوشی سے بے قابو ہو کر ساری تفصیل شوہر کے گوش گزار کر دی۔ عمر دراز فوراً بولا، "انوری، بیٹا تو ہمارا باؤلا ہی ہے، لیکن تم بھی عمر کے ساتھ ساتھ سٹھیا گئی ہو۔ گھر میں تین افراد کے لیے نپا تلا کھانا پکتا ہے۔ جب تک تیرا لاڈلا اپنی کمائی گھر نہیں لائے گا، یہاں کوئی شادی خانہ آبادی نہیں ہو سکتی۔" بات ختم ہونے سے پہلے سرفراز گھر سے کھسک لیا۔ ماں نے بھی جل کر خاموشی اختیار کر لی۔ یوں اس کی پہلی عشقیہ داستان ختم ہو گئی۔

اس کا دوسرا عشق ایک کلاس فیلو سے ہوا۔ جس روز وہ اس سے اظہارِ عشق کرنے والا تھا، اسی روز پتا چلا کہ اس کی منگنی ہو چکی ہے اور اس کا منگیتر امریکہ میں مقیم ہے۔ اپنے دونوں ناکام عشق کی ٹیسیں وہ آج بھی محسوس کرتا تھا۔ جب وہ سیٹھ مہتاب کے گھر کے لیے نکل رہا تھا، تو ماں نے واقعی اس کے لیے گوشت کے کباب بنائے۔ شام کی چائے کے ساتھ چنے کی دال کا حلوہ اور کباب کھا کر اس نے ماں کے سامنے سر جھکایا۔ ماں نے اپنا دستِ شفقت اس کے سر پر پھیرا، جیسے وہ کسی محاذ پر جا رہا ہو۔

مطلوبہ کوٹھی کے گیٹ پر پہنچتے ہی گارڈ نے فوراً گیٹ کھول کر اسے اندر کا راستہ دکھایا۔ وہ وسیع و عریض لان کے اس حصے میں پہنچا جہاں سیٹھ مہتاب اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر شام کی چائے سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ چونکہ اس کی آمد متوقع تھی، اس لیے کسی نے کوئی سوال نہ کیا۔ سیٹھ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بیٹھنے کو کہا۔ سرفراز نے تھرتھراتے ہاتھوں سے ایک کرسی گھسیٹی اور اس پر بیٹھ گیا۔ وہ بری طرح گھبراہٹ کا شکار تھا۔ ایک سلیک کے بعد سیٹھ بھاری بھرکم آواز میں بولا، "تم غالباً عظمت کے توسط سے آئے ہو۔ میں نے دراصل اس کے والد سخاوت خان سے اس کی ٹیوشن کے لیے کہا تھا۔ ویسے شہر میں کئی کوچنگ سینٹرز اور اکیڈمیز ہیں، لیکن میں نہیں چاہتا کہ لڑکی کو باہر کے حوالے کیا جائے۔" اتنا بول کر سیٹھ نے طویل توقف کیا۔ وہ بڑے اعتماد سے بول رہا تھا، اور یہ اعتماد یقیناً دولت کا عطا کردہ تھا۔ پھر اس نے اپنے پہلو میں بیٹھی خاتون کا تعارف کرواتے ہوئے کہا، "بیکہار، یہ ہماری بیگم عرشیہ مہتاب ہیں۔" سرفراز نے ڈرتے ڈرتے بیگم صاحبہ کی جانب دیکھا تو احساس ہوا کہ ایسا سحر انگیز حسن کبھی کبھار ہی جنم لیتا ہے۔ گزرتے ہوئے ماہ و سال ابھی بھی اس خاتون پر اثر انداز نہیں ہوئے تھے۔ سرفراز نے خاتونِ خانہ کو بغور دیکھتے ہوئے تعظیماً سر خم کیا۔

سیٹھ نے پرے بیٹھی ہوئی حسین اور نوجوان لڑکی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، "یہ ہے ہماری بڑی بیٹی، اور یہی تمہاری شاگرد ہے۔" جیسے ہی سرفراز اور اس لڑکی کی آنکھیں چار ہوئیں، وہ بری طرح گھبرایا۔ ایسا طلسماتی حسن اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔ ہڑبڑا کر وہ دوسری جانب دیکھنے لگا۔ سیٹھ نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے اپنے دونوں چھوٹے بچوں کا بھی تعارف کروایا۔ دونوں بچوں نے اٹھ کر اس سے ہاتھ ملایا تو سرفراز کا کھویا ہوا اعتماد بحال ہوا۔ اس نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے پہلی بار زبان کھولی، اس ملاقات پر خوشی کا اظہار کیا اور یقین دلایا کہ وہ انتہائی محنت سے اپنا فرض انجام دے گا اور انہیں یا ان کی بیٹی کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دے گا۔ اب کافی حد تک اس کے چہرے پر چھائی گھبراہٹ اور خاموشی کم ہو گئی تھی، اور زبانی کلامی سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ وہ سیٹھ کے تینوں بچوں سے ان کی پڑھائی کے موضوع پر باتیں کر رہا تھا۔ سیٹھ اور سیٹھانی بھی ان کی باتوں میں دلچسپی لے رہے تھے۔ اس دوران سرفراز نے اندازہ لگایا کہ سیٹھ اپنے اکلوتے بیٹے اور چھوٹی بیٹی پر تو واریں واری جاتا تھا، لیکن جب اپنی بڑی بیٹی سے بات کرتا تو اس کی آواز میں کچھ سردمہری آ جاتی تھی۔ لیکن سرفراز نے اسے اپنا وہم سمجھ کر ذہن سے جھٹک دیا۔

سیٹھ نے اوقاتِ کار بتاتے ہوئے اسے اگلے دن آنے کو کہا۔ سرفراز فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور رخصتی کا سلام کرکے اپنے گھر کی راہ لی۔ سیٹھ صاحب کی عالی شان رہائش گاہ کا اندرونی حصہ دیکھ کر سرفراز ہکا بکا رہ گیا۔ ایک باوردی ملازم اسے جس کمرے میں بٹھا کر گیا، وہ انتہائی روشن، ہوادار اور کشادہ تھا۔ فرنیچر بھی جدید اور قیمتی تھا۔ سرفراز چور نگاہوں سے ہر چیز کا جائزہ لے رہا تھا کہ اچانک اسے ایک آہٹ محسوس ہوئی اور سیٹھ صاحب کی بڑی بیٹی کمرے میں داخل ہوئی۔ سرفراز نے مسکراتی نظروں سے اس کا استقبال کیا۔ معطر نے نصابی کتابیں میز پر رکھ کر اپنی نشست سنبھالی اور کہا، "میرا نام معطر ہے۔" سرفراز کا دل چاہا کہ کہہ دے کہ آپ اس نام میں مسمی ہیں، مگر بمشکل اس نے اپنی زبان پر قابو کیا۔ پہلے ہی دن اس نے اندازہ لگا لیا کہ لڑکی ذہین ہے۔ اگر پوری توجہ سے اسے رہنمائی کی جائے تو وہ نمایاں کامیابی حاصل کر سکتی ہے، لیکن وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہے، جس نے اس کی صلاحیتوں کو ماند کر دیا ہے۔ اپنی ڈیوٹی انجام دے کر جب وہ سیٹھ صاحب کی کوٹھی سے باہر آیا تو پسینے سے اس کے کپڑے تر بھ تر تھے۔ وہ اپنے آپ سے ہم کلام تھا، "خدایا، میں اس لڑکی کو کیسے پڑھاؤں؟" گھر پہنچ کر اس نے کھانا بھی نہ کھایا اور خرابی طبیعت کا بہانہ کرکے بستر پر لیٹ گیا۔

چونکہ اگلا دن اتوار تھا، اس لیے سیٹھ صاحب کی کوٹھی پر حاضری نہ دینا تھی۔ ناشتے کے فوراً بعد اس کے قدم اپنے دوست ناصر کے گھر کی طرف اٹھ گئے۔ وہ دل کی بیماری کا شکار تھا، اور اس کا علاج ناصر اچھی طرح جانتا تھا، کیونکہ وہ اس میدان کا پرانا کھلاڑی تھا۔ ناصر کا باپ پنساری تھا، اور دکان گھر سے متصل تھی۔ جیسے ہی سرفراز نے آواز لگائی، ناصر کے باپ نے غضب ناک نگاہ سے اسے دیکھا اور درشت لہجے میں بولا، "سو رہا ہے نوابزادہ، ذرا اور زور سے آواز مارو!" لیکن سرفراز کو دوسری آواز لگانے کی ضرورت نہ پڑی۔ ناصر بستر سے اٹھ کر آنکھیں ملتا ہوا اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ اس کا حلیہ دیکھ کر سرفراز نے کہا، "ارے یار، تجھ سے ایک مسئلے پر بات کرنی ہے اور مشورہ لینا ہے۔ ذرا اپنی شکل درست کر لے، ناشتہ تو میں باہر ہی کروا دوں گا۔"

ناصر جلدی سے اندر گیا اور تھوڑی دیر بعد باہر نکلا تو مکمل طور پر تر و تازہ اور ہشاش بشاش تھا۔ دونوں قریبی ہوٹل میں جا بیٹھے۔ سرفراز کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر ناصر نے ٹٹولتی نگاہوں سے اس کا جائزہ لیا اور پوچھا، "کیا بات ہے؟ کیا تیرے بابا نے آج پھر جھاڑ پلا دی کہ تو یوں منہ لٹکائے بیٹھا ہے؟" سرفراز اپنی محویت سے چونکا اور بغیر کسی وقفے کے اپنے دل کی لگی ناصر کے سامنے بیان کر دی، لیکن اپنی شاگرد اور اس کے باپ کا نام راز میں رکھا، کیونکہ اسے اچھی طرح علم تھا کہ مالدار لڑکیوں کو پھانس کر ان کے پیسوں پر عیش کرنا ناصر کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ناصر نے حلوہ پوری پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے چائے کا کپ اپنی طرف گھسیٹا اور گردن ہلاتے ہوئے بولا، "تو یہ بات ہے! جناب کو اپنی شاگرد سے عشق ہو گیا ہے۔" پھر قدرے توقف سے بولا، "تو ٹھہرا بکری کا بچہ!" سرفراز نے اس کی بات کا برا نہ مانا بلکہ اعترافی لہجے میں کہا، "اب میں تیری طرح نڈر اور جری تو نہیں ہوں۔ تو ہی بتا، مجھے کیا کرنا چاہیے؟ اسی لیے تو صبح صبح تیرے پاس دوڑا چلا آیا ہوں۔"

ناصر نے سینہ پھلا کر، گردن اکڑاتے ہوئے اپنے تجربات بیان کیے، جن میں اسّی فیصد جھوٹ کی آمیزش تھی۔ ہر قصے کا لبِ لباب یہ تھا کہ اس کی ہر معشوقہ اس کے لیے جان دینے کو تیار تھی۔ سرفراز نے اس کی لچھے دار باتوں سے تنگ آ کر جلتے ہوئے لہجے میں کہا، "میں تجھ سے صرف ایک مشورہ لینے آیا ہوں۔ وہ لڑکی میرے حواس پر چھا گئی ہے۔ کیا اس ٹیوشن پر لات مار دوں؟" ناصر نے دیدے نچاتے ہوئے کہا، "نہ نہ، ایسا ہرگز نہ کرنا! لڑکی کا باپ تجھے اچھی خاصی فیس دے رہا ہے، اور پڑھانے کے بہانے دیدارِ یار بھی ہو رہا ہے۔ اور کیا چاہیے؟ مجھ سے رابطے میں رہنا، تاکہ میں تجھے بتاؤں کہ اگلا قدم کیا اٹھانا ہے۔ میں تجھے مایوس نہیں کروں گا۔" سرفراز نے اس کی بات مان کر سر ہلایا اور اٹھ کھڑا ہوا۔

سیٹھ مہتاب کی فیملی اور سرفراز کے درمیان جو اجنبیت اور نا آشنائی کی دیوار تھی، وہ آہستہ آہستہ گرتی چلی گئی۔ گھر کے نوکر بھی اسے پہچاننے لگے تھے۔ یہاں اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے سرفراز کا تیسرا مہینہ تھا۔ وہ روزانہ اپنے دل سے ایک جنگ لڑ کر پوری مستعدی اور جانفشانی سے معطر کو پڑھانے کی کوشش کرتا، لیکن اس کا دل دیوانہ بار بار تنگ کرتا۔ پھر اس کے بوڑھے والدین کے چہرے اس کی نظروں میں گھوم جاتے، جو پچھلے دو مہینوں سے پیٹ بھر کر کھانا کھا رہے تھے۔ اس بات کا بھی یقینی امکان تھا کہ اگر سیٹھ اور سیٹھانی کو ذرا سی بھی بھنک پڑ جاتی کہ ٹیوٹر ان کی بیٹی کو کس نظر سے دیکھ رہا ہے، تو اسے بھاگنے کا راستہ بھی نہ ملتا۔ اسی لیے اس نے اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔

اس کی جان توڑ محنت کے باوجود معطر کی پڑھائی میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ کلاس ٹیچرز نے رپورٹ کارڈ پر "ہوپ لیس" لکھ کر تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی تھی۔ میاں بیوی کا سارا غصہ سرفراز پر نکلا۔ سرفراز نے صبر کا بڑا سا گھونٹ پی کر مزید محنت کا وعدہ کیا، لیکن سیٹھ مہتاب نے سرفراز کو خوب سنائی اور معطر کو بھی نہیں چھوڑا۔ بیٹی سے مخاطب ہو کر بولا، "لڑکی، سدھر جاؤ، ورنہ اب تمہاری ماں کی بھی نہیں سنوں گا۔ ہاسٹل بھجوا کر دم لوں گا۔" اس کا لہجہ دھمکی آمیز تھا، لیکن معطر کے چہرے پر خوف کے بجائے بے خوفی تھی۔ وہ نڈر ہو کر ترکی بہ ترکی جواب دے رہی تھی۔ بیگم مہتاب مسلسل سرزنش کر رہی تھیں، لیکن معطر کی سرکشی اور خود سری سر چڑھ کر بول رہی تھی۔ سیٹھ مہتاب غصے سے اٹھ کھڑا ہوا اور جاتے جاتے ایک دھماکہ خیز بات کہہ گیا، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس نے کہا، "شکر ہے، میرے دونوں بچے اس پر نہیں گئے۔ میں تو ان دونوں کو اس کے سائے سے بھی دور رکھوں گا۔"

یہ فقرہ سرفراز کے سر سے گزر گیا، لیکن معطر زخمی ناگن کی طرح پھنکارنے لگی۔ بیگم مہتاب بھی اس بات پر چراغ پا ہو گئیں اور نہایت رنجیدہ لہجے میں شوہر سے بولیں، "تفریق کا بیج آپ ہی نے بویا ہے۔ پتا نہیں یہ نفسانفسی کس دن کیا گل کھلائے گی۔" یہ کہتے ہوئے بیگم مہتاب نے معطر کا ہاتھ پکڑا اور اس کی پشت پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، "اپنے بیڈ روم میں جا کر آرام کرو، میں بھی وہیں آ رہی ہوں۔" معطر کے جانے کے بعد وہ سرفراز سے مخاطب ہوئیں اور پھنسی ہوئی آواز میں بولیں، "سرفراز، آج تو تم جاؤ، کل اپنے وقت پر آ جانا۔" "اوکے میڈم،" سرفراز نے مختصراً کہا اور وہاں سے ایسی سرپٹ دوڑ لگائی کہ اپنے گھر پہنچ کر ہی دم لیا۔
اس رات وہ دیر تک سیٹھ مہتاب کے خاندان کے بارے میں سوچتا رہا۔ کسی حد تک بات اس کی سمجھ میں آ گئی تھی کہ معطر سیٹھ مہتاب کی اولاد نہیں ہے۔ وہ رات بھر بے قرار اور مضطرب رہا۔ سونے سے پہلے اس نے فیصلہ کر لیا کہ کل وہ نہ سیٹھ مہتاب کے گھر جائے گا اور نہ معطر کو پڑھائے گا۔ اس فیصلے سے مطمئن ہو کر وہ گہری نیند سو گیا۔ مگر صبح جاگا تو رات کا طے شدہ فیصلہ ریت کے گھروندے کی طرح مسمار ہو گیا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے قدم ایک بار پھر درِ محبوب کی دہلیز کی جانب اٹھتے چلے گئے۔

اس روز بیگم مہتاب نے سرفراز کا استقبال کیا اور پراعتماد لہجے میں بولی، "آئندہ تمہیں معطر سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ تمہاری محنت ضائع نہیں جائے گی۔" یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنی توجہ معطر کی جانب مبذول کی اور تصدیق طلب نظروں سے بیٹی کی طرف دیکھا۔ جواب میں معطر نے اپنی سفید، سنائی دار گردن کو ہلکی سی جنبش دی۔ ایک دن پہلے کی تیز و تند طبیعت رخصت ہو چکی تھی۔ ماں نے پیار سے اس کے گالوں کو تھپتھپایا اور کمرے سے نکل گئیں۔ آج سرفراز نے بھی عشق و محبت کو ایک طرف رکھ کر صرف اور صرف درس و تدریس پر توجہ دی۔ معطر نے بھی پورے انہماک اور توجہ سے اس کا لیکچر سنا اور درمیان میں چند سوالات بھی کیے۔ اپنی ڈیوٹی پوری کرکے جب سرفراز اٹھا تو اس کا موڈ کافی حد تک خوشگوار تھا۔ معطر بھی پچھلے دنوں کے مقابلے میں کھلی کھلی سی دکھائی دے رہی تھی۔

اپنے پرتعیش بیڈ روم میں معطر ماہ و خواب تھی کہ سرہانے رکھا ہوا سیل فون گنگنایا۔ اسکرین پر توقیر کا نام دیکھ کر اس کی نیند آنکھوں سے غائب ہو گئی۔ "سوئے نہیں ابھی تک؟" دوسری جانب سے مردانہ ہنسی کی گونج سنائی دی اور پھر جذبات سے مغلوب بھاری آواز میں کہا گیا، "تم آج کی بات کر رہی ہو؟ ہماری نیندیں تو اس روز سے اڑ گئیں جب سے تمہیں دیکھا ہے۔ بس اب تو تم ہو اور تمہارا تصور ہے۔" اپنے حسن کی تعریف سن کر معطر شرما گئی اور کوئی جواب نہ دیا۔ مخالف سمت سے ترنگ بھری آواز آئی، "اوہو، شرما گئیں! کاش اس شرماتے لجائے روپ میں تمہیں دیکھ سکتا، مگر میری ایسی قسمت کہاں؟ اور سنو، تمہاری پڑھائی کیسی چل رہی ہے؟" معطر نے ناک سکوڑتے ہوئے برا سا منہ بنایا اور ترش لہجے میں بولی، "اگر پڑھنے لکھنے میں دل لگا لیا تو اماں میری شادی چھ سات سال کے لیے ٹال دیں گی، اور میں تمہیں کھونا نہیں چاہتی۔ بس کسی دن اپنے مما پاپا کو ہمارے گھر لے آؤ۔ اتنے بڑے گھرانے سے تمہارا تعلق ہے، میرے والدین تو انہیں دیکھتے ہی فرش راہ بن جائیں گے، اور پھر تمہارے ہاتھ میں میرا ہاتھ ہوگا۔ اف، پھر زندگی کتنی حسین، کتنی خوبصورت ہوگی!" اس کی آواز خوشی سے سرشار تھی۔

دوسری جانب طویل خاموشی چھا گئی۔ اچانک چھا جانے والے اس سناٹے نے معطر کے دل کی دھڑکن بڑھا دی۔ وہ تشویش ناک لہجے میں بولی، "توقیر، تم خاموش کیوں ہو گئے؟" دوسری طرف سے آواز ابھری، "معطر، آج میں تم سے کچھ نہیں چھپاؤں گا۔ ساری حقیقت تختہ مشق کر دوں گا۔ دراصل ممی اور پاپا اس وقت پاکستان میں ہی نہیں ہیں۔ اگر وہ یہاں آتے بھی ہیں تو وہ ہرگز تمہارے یہاں میرا رشتہ لے کر نہیں جائیں گے، کیونکہ امریکہ میں رہنے والے میرے ایک چچا کی بیٹی سے وہ مجھے منسوب کر چکے ہیں، جو ہم سے زیادہ دولت مند ہیں۔ چچا چاہتے ہیں کہ میں جا کر ان کا بزنس سنبھالوں اور گھر داماد بن کر رہوں۔ میں تمہاری وجہ سے ٹال مٹول سے کام لے رہا ہوں۔"

"توقیر، یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟" معطر نے حیرت سے کہا۔ "ہم چھپ چھپ کر کئی بار ملے، تم نے کبھی اس بات کا ذکر بھی نہیں کیا۔ یہ امیر چچا اور ان کی بیٹی اچانک کہاں سے ٹپک پڑے؟ جو صورتحال تم بتا رہے ہو، یہ تو بڑی سنگین ہے۔ اب اس کا کوئی حل سوچو۔ میں تو تمہارے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔" ہلکے سے توقف کے بعد معطر کی سماعت سے ایک سرد آہٹ ٹکرائی۔ توقیر نے انتہائی حسرت ناک آواز میں کہا، "ممی پاپا میری منگیتر کو انگوٹھی پہنانے ہی تو گئے ہیں۔ سچ کہتا ہوں معطر، میرا دل رو رہا ہے۔ نہ دن کو چین، نہ رات کو آرام۔" وہ جیسے ہی خاموش ہوا، اسے معطر کی سسکیوں کی آواز سنائی دی۔ وہ بھیگی آواز میں کہہ رہی تھی، "میں اپنے ہی گھر میں کون سی خوش و خرم تھی؟ ایک اماں کے علاوہ تو سب ہی سوتیلے ہیں۔ باپ سوتیلا، بہن بھائی سوتیلے۔ سوچا تھا شادی کے بعد تمہارا ساتھ ہوگا اور میرا اپنا گھر ہوگا۔ کیسے کیسے سپنے بنے تھے، لیکن میرا پھوٹا نصیب..." وہ بات مکمل نہ کر پائی اور جملہ منہ میں رہ گیا۔

مخالف سمت سے توقیر کی ہمت اور حوصلے سے بھرپور آواز گونجی، "معطر، تمہارے آنسو میرے دل پر گر رہے ہیں۔ ارے بے وقوف لڑکی، خواب تو ہم دونوں نے مل کر دیکھے ہیں، اور جب ان کی تعبیر سامنے آئے گی تب بھی ہم دونوں برابر کے حصہ دار ہوں گے۔" معطر کی خوشی میں ڈوبی آواز ابھری، "سچ؟ سو فیصد سچ؟" "ہاں، ایک پلان میرے ذہن میں آیا ہے، بشرطیکہ تم پورا ساتھ دو۔ میری ہم قدم بن کر میری سانس چلتی رہو گی تو ہم ایک دن منزل پا لیں گے۔" دوسری طرف سے توقیر کا پرجوش جواب موصول ہوا۔ قدرے توقف کے بعد معطر کی سوچ میں ڈوبی آواز ابھری، "یہ بتاؤ، منصوبہ کیا ہے؟" توقیر کا تمانیت سے بھرپور قہقہہ گونج اٹھا۔ اس بار معطر بھی اس خوشی میں شریک تھی۔ کھل کھلاتی ہوئی ہنسی کے بعد وہ بولی، "لگتا ہے کوئی حل مل گیا ہے، تب ہی توقیر کے لہجے سے لگ رہا ہے۔"

توقیر نے خوشگوار موڈ میں کہا، "ارے بھائی، بتاتا ہوں، بتاتا ہوں۔ ذرا دل تھام کر سنو، میری جان۔ یہ تو ساری دنیا کو علم ہے کہ تمہارا گھر تمہارے لیے قید خانہ بنا ہوا ہے۔ تمہارے اور تمہارے سوتیلے باپ سیٹھ مہتاب واٹل والے، جو پہلے تمہارا چچا تھا، کے درمیان ایک منٹ بھی بنتی نہیں۔ ہمیشہ اس کی اور تمہاری ٹھن رہتی ہے۔ سیٹھ کے طعنے، آزادی کا فقدان، اور بے جا پابندیاں تمہاری جان نہ لے لیں۔ اس لیے میری رائے یہ ہے کہ ہم ایک دن اور وقت مقرر کرتے ہیں۔ میں تمہیں ریلوے اسٹیشن پر ملوں گا۔ ہمارا ریزرویشن پہلے سے ہو چکا ہوگا۔ پہلے ہم لاہور جائیں گے، کسی ہوٹل میں قیام کریں گے۔ میں تمہیں اپنے گھر بھی نہیں لے جاؤں گا۔ ہوٹل کے قریب جو بھی مسجد ہوگی، وہاں ہم نکاح پڑھوا لیں گے۔ نکاح کے بعد ہمارے قدم مضبوط ہو جائیں گے۔ خوب گھومیں پھریں گے، موج مستی کریں گے۔ پھر تم اپنے والدین پر یہ راز آشکار کر دینا، اور میں اپنے ممی پاپا کو ساری بات بتا کر تمہیں ان کے سامنے بحیثیت بہو پیش کر دوں گا۔ کیوں، کیسی رہی میری حکمت عملی؟ تیار ہو ساتھ دینے کے لیے؟"

معطر نے ساری بات سننے کے بعد کافی دیر سے روکی ہوئی سانس خارج کی اور بولی، "غلام، تمہارا پلان تو بہت اچھا ہے، لیکن مجھے خوف محسوس ہو رہا ہے۔ گھر سے بھاگی ہوئی لڑکیوں کو کوئی اچھی نظروں سے نہیں دیکھتا۔ معاشرے میں ان کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ میری اماں تو بے موت مر جائیں گی۔" اپنا موقف بیان کرکے جیسے ہی اس نے توقف کیا، توقیر نے سخت لہجے میں کہا، "چلو تو پھر تم اپنی موت کو گلے لگا لو!" یہ کہہ کر رابطہ منقطع کر دیا۔ معطر ڈبڈبائی آنکھوں سے سیل فون کو گھورتی رہی، پھر تکیے میں منہ چھپا کر باقاعدہ سسکیاں لینے لگی۔
👇👇