دوسرے دن جب وہ سو کر اٹھی تو اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ بیگم مہتاب نے تشویش ناک نظروں سے اسے دیکھا اور بولیں، "مجھے لگتا ہے آج تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ میں سرفراز کو فون کرکے آنے سے منع کر دیتی ہوں۔" "اوہ، تھینکس مام!" معطر نے پرسکون سانس لے کر کہا۔ پھر سوچتے ہوئے بولی، "ملازمین کو بھی منع کر دیجیے کہ کوئی مجھے ڈسٹرب نہ کرے۔" یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں بند ہو گئی اور دروازہ اندر سے مقفل کر لیا۔
اپنے بیڈ پر لیٹ کر معطر سارا دن رات والے مسئلے پر ہی سوچتی رہی۔ وہ بری طرح تذبذب کا شکار تھی۔ قوتِ فیصلہ جواب دے چکی تھی، لیکن اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اپنے روٹھے ہوئے محبوب توقیر کو کس طرح منائے۔ ڈنر اس نے گھر کے تمام افراد کے ساتھ کیا، کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتی تو یقیناً ڈاکٹر کو بلایا جاتا۔ ڈنر کے بعد اپنی کتابیں لے کر سٹڈی روم میں بیٹھی اور چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔ گھر میں سناٹے کا راج تھا، سب اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔ مطمئن ہو کر اس نے نمبر ڈائل کیا اور پچھلی رات کا ٹوٹا ہوا سلسلہ پھر سے جوڑا۔ چند منٹ انتظار کے بعد کال اٹھائی گئی۔ جیسے ہی توقیر نے "ہیلو" کہا، معطر کے چہرے پر خوشی کی کونسے کھل اٹھیں۔ بالآخر ہتھیار ڈالتے ہوئے وہ بولی، "اچھا چلو، تم جیتے، میں ہاری۔ تم جو کہو گے، وہی کروں گی۔"
توقیر کی مسرت انگیز آواز لہرائی، "واقعی؟ تم سچ کہہ رہی ہو؟ سو فیصد؟" معطر نے جواب دیا۔ اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے اس نے فکر انگیز لہجے میں سرگوشی کی، "لیکن یہاں سے نکلنے کی ترکیب تم مجھے بتاؤ گے۔ آج میں صبح سے شام تک یہی سوچتی رہی، دماغ کی رگیں پھٹنے لگیں۔ آخر سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر فرار کا کون سا راستہ اختیار کروں؟ کچھ سمجھ نہیں آ رہا، کیونکہ ہماری کوٹھی کا مین گیٹ تو چوبیس گھنٹے گارڈ اپنے سروس ریوالور سمیت موجود ہوتا ہے۔ ذرا سی آہٹ ہوئی تو وہ فوراً ایکشن لے لے گا۔" توقیر کے منہ میں تلخی گھل گئی۔ تھوڑی دیر پہلے کی خوشی کافور ہو گئی۔ کھوکھلی آواز میں وہ بولا، "یہ تو تم صحیح کہہ رہی ہو۔ بڑی ٹیڑھی کھیر ہے، لیکن کوئی جگاڑ تو لگانا پڑے گا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے۔ جلد بازی سے کام نہیں لینا۔ مکمل یکسوئی سے تم بھی سوچو اور مجھے بھی مہلت دو۔ کوئی نہ کوئی راہ ضرور نکل آئے گی۔ تم بے فکر ہو کر اپنی پڑھائی میں دل لگاؤ تاکہ تمہاری اماں تم سے خوش ہو جائیں اور سیٹھ مہتاب سے بھی الجھنے کی کوشش نہ کرنا۔ اگر گھر میں ہی تم بگاڑ پیدا کرو گی تو سب تمہارے دشمن بن جائیں گے، اور تمہاری نگرانی میں مزید سختی بڑھتی جائے گی۔ میرا مشورہ ہے کہ شیر و شکر بن کر رہو۔ جیسے ہی اس مسئلے کا حل ہمارے ہاتھ آتا ہے، ہم اس چوہے دان سے نکل بھاگیں گے۔ ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟" معطر نے اس کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا، "ٹھیک ہے، جو تم کہو گے، ویسا ہی ہوگا۔ گڈ نائٹ، اب میں سونے جا رہی ہوں۔ آج دن بھر تم نے مجھے جس ذہنی اذیت میں مبتلا رکھا، اسے میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔ پلیز، آئندہ ایسی کوئی حماقت نہ کرنا۔"
بیگم مہتاب اور سرفراز کے لیے یہ بات انتہائی حیران کن اور خوش کن تھی کہ معطر کی ہٹ دھرمی اور ضد میں کافی کمی آ گئی تھی۔ ہوم ایگزامز میں تمام مضامین میں تسلی بخش نمبر تھے۔ سیٹھ مہتاب اور بیگم مہتاب نے بہترین کارکردگی کے صلے میں سرفراز کی ٹیوشن فیس میں قدرے اضافہ کر دیا تھا۔ چونکہ سرفراز کو ابھی تک ملازمت یا کوئی اور روزگار کی نوید نہیں ملی تھی، اس لیے معطر کی ٹیوشن سے آنے والا پیسہ اس کے گھر میں آکسیجن کا کام کر رہا تھا۔ دوسرے یہ کہ روزانہ معطر کی قربت بھی نصیب ہو جاتی تھی۔ اتوار کا دن اس سے کاٹے نہیں کٹتا تھا۔ جب بھی معطر کے چہرے پر نظر پڑتی، اس کی ساری بے چینی اور بے قراری ختم ہو جاتی۔ جب بھی فرصت کے لمحات نصیب ہوتے، وہ اپنے صلاح کار ناصر کے پاس پہنچ کر دل کا دکھڑا روتا۔ مغموم آواز میں دل کی بے قراری کا نقشہ کھینچتا، جسے سن کر ناصر بھی آبدیدہ ہو جاتا۔ ناصر کے تسلی آمیز جملوں سے سرفراز کے مردہ جسم میں نئی روح سمایا کرتی۔ اگلے دن وہ ایک نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ دیارِ محبوب جا کر معطر کے رخِ روشن کا دیدار کرتا تو دلِ بے قرار کو قرار آ جاتا۔
رات کو جب معطر نے توقیر سے رابطہ کیا تو اسے گھر سے فرار ہونے کا پلان بتانے لگی۔ معطر نے ایک ہنسی بھری آہ بھری اور بولی، "توقیر، کلمے ٹالتے ٹالتے میں اپنی کوٹھی کے پچھلے حصے میں چلی گئی، جہاں کی صفائی شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔ میرے مرحوم پاپا سیٹھ غلام واٹل والے کے زمانے میں اس حصے میں کافی چہل پہل اور گہما گہمی ہوتی تھی، کیونکہ اس وقت ہمارا کاروبار کافی بڑا تھا۔ تین لیدر فیکٹریاں اپنے عروج پر تھیں۔ اس لیے میرے پاپا نے کوٹھی کے عقبی حصے میں ایک چھوٹا سا گودام بنوایا تھا۔ جب ہمارے شہر کے سارے گودام بھر جاتے تو پاپا باقی سامان یہاں سٹور کروا دیا کرتے تھے۔ پاپا کی وفات کے بعد میرے چچا، جنہیں اب میں ڈیڈی کہتی ہوں، نے کاروبار کو سمیٹ کر کافی حد تک مختصر کر دیا۔ نتیجتاً تینوں فیکٹریاں بند ہو گئیں۔ لیکن اب ڈیڈی پھر سے ان فیکٹریوں میں کام شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اسی سلسلے میں وہ آج صبح ناشتے کی میز پر اماں سے بات کر رہے تھے۔ انہوں نے اماں کو ایک چابی دیتے ہوئے کہا، 'اس چابی کو سنبھال کر رکھنا، یہ عقبی گودام کی ہے۔' گودام کا دروازہ، جو باہر کی جانب کھلتا ہے، اس کا قفل بھی باہر سے لگایا جاتا ہے اور باہر سے ہی کھولا جاتا ہے۔ گودام کا نگران اپنے پاس چابی رکھتا، دروازہ کھلواتا، مزدوروں سے سامان رکھواتا، اور پھر اپنی نگرانی میں قفل کروا کر چابی پاپا کو دے دیتا۔ یہ چلن برسوں سے چلتا رہا۔ بہرحال، وہی سارا عمل اب بھی دہرایا جائے گا۔"
معطر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، "آج جب ڈیڈی اور اماں کی یہ گفتگو میری سماعت سے ٹکرائی تو میں نے اس حصے کا جائزہ لیا۔ توقیر، میرے دل کی دھڑکنیں خود بخود گنگنانے لگیں۔ گودام کے عقبی دروازے سے میں آسانی سے باہر نکل سکتی ہوں، بشرطیکہ تم باہر سے اس کا قفل کھول دو۔ اماں نے چابی کہاں رکھی ہے، میں نے اس کا پتہ لگا لیا ہے۔ میں وہ چابی تم تک پہنچا دوں گی، اور بس اس کے بعد میری جان، پھول ہی پھول راہوں میں کھل جائیں گے۔" معطر لہک لہک کر اپنا کارنامہ بیان کر رہی تھی۔ اسے یقین تھا کہ یہ ساری سرگزشت سن کر توقیر خوشی سے اچھل پڑے گا اور فوراً مناسب وقت دیکھ کر اسے اس چار دیواری سے نکال لے جائے گا۔ لیکن یہ سب اس کی خام خیالی تھی۔
توقیر قدرے توقف کے بعد بولا، "منصوبہ تو بڑا بے لاگ اور اچھوتا ہے، یقیناً کامیاب رہے گا۔ لیکن میری ممی اور پاپا لیٹ نائٹ سونے کے عادی ہیں اور میری حرکات و سکنات پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ پھر میری کوٹھی سے تمہاری رہائش گاہ کا فاصلہ کافی طویل ہے۔ ہمیں صحیح وقت پر اسٹیشن بھی پہنچنا ہوگا۔ اس لیے میرا وہاں تک آنا ناممکن ہے۔ ہاں، اگر خوبیِ قسمت ہمیں کوئی ہمدرد مل جائے جو اس قفل کو کھول دے، تو سمجھو کہ ہمارے نصیب کا بند دروازہ کھل گیا۔" معطر کی مایوسی آسمان کو چھونے لگی۔ وہ اشکبار آواز میں بولی، "تم تو کہتے تھے کہ میں تمہاری خاطر بھڑکتی ہوئی آگ میں کود سکتا ہوں، طوفانوں کا رخ موڑ سکتا ہوں، لیکن رات کو آ کر ایک دروازے کا قفل نہیں کھول سکتے؟ یہ ہیں تمہارے بلند و بانگ دعوے؟ اب تو مجھے تم سے خوف آ رہا ہے۔ پتا نہیں یہاں سے نکلنے کے بعد میرا کیا حشر کرو گے!"
توقیر بری طرح سٹپٹا گیا۔ اس کی ساری بساط ہی الٹ چکی تھی۔ حلق خشک ہو گیا۔ متوحش نظروں سے سیل فون کو گھورا اور مصنوعی چاشنی سے بھرے لہجے میں بولا، "جانِ من، ناراض کیوں ہوتی ہو؟ کچھ نہ کچھ تو کرتے ہیں۔ تم تو فوراً بھڑک جاتی ہو۔ ملول ہونے کی ضرورت نہیں، خاطر جمع رکھو۔ جو تم نے سوچا ہے، اس پر عمل کریں گے۔ دولت میں بڑی طاقت ہے۔ میں کرائے کا کوئی آدمی تلاش کرتا ہوں جو مقررہ وقت پر پہنچ کر دروازہ کھول دے اور تمہیں مجھ تک پہنچا دے۔ اس کے بعد سارا دردِ سر میرا ہے۔ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم دونوں شادی کے بندھن میں بندھ جائیں گے۔ پھر میں فوری طور پر سیٹھ مہتاب واٹل والے پر تمہارے حصے کی آدھی جائیداد کا کیس دائر کر دوں گا۔ سیٹھ کی عقل ٹھکانے آ جائے گی۔ ابھی وہ تمہیں بے یار و مددگار سمجھ رہا ہے۔ جب عدالتی کارروائی شروع ہوگی، تو پتا چلے گا کہ مخالف پارٹی کوئی معمولی چیز نہیں۔ لاہور کے مشہور و معروف سُند کار سیٹھ نور الدین کا بیٹا اور مرحوم سیٹھ غلام واٹل والے کا داماد، سیٹھ توقیر الدین ہے۔ چھکے چھوٹ جائیں گے، تم دیکھنا۔ تو صحیح، کیسا کٹھ پتلی کا تماشا دکھاتا ہوں!"
معطر کا بگڑا ہوا موڈ پل بھر میں بحال ہو گیا۔ خوشی سے سرشار لہجے میں بولی، "پہلے مجھے دل بھر کے رلاتے ہو، پھر تسلیاں دیتے ہو۔ شادی کے بعد دل بھر کر خبر لوں گی!" توقیر بوندے انداز میں ہنسنے لگا۔ معطر نے بھی سلسلہ کلام ختم کرتے ہوئے اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالی اور مطمئن ہو کر اپنے بیڈ پر لیٹ گئی۔ توقیر نے بھی ایک ٹھنڈی سانس بھری اور دونوں ہاتھ اٹھا کر بھرپور انگڑائی لی۔ اچانک ایک بھاری ہاتھ نے اس کی گردن کو ادھموچا، اور پھر اسے اپنے باپ کی کھردری آواز سنائی دی، "ناظرے، یہ تو ساری رات جاگ کر کس سے باتیں کرتا ہے؟ اس سے پہلے بھی میں نے دیکھا کہ تو موبائل سے لگا رہتا ہے۔ ایسا کون سا تیرا یار دوست ہے، ذرا مجھے بھی تو بتا!"
ناصر نے باپ کی گرفت سے اپنی گردن چھڑائی اور اجتہاج سے گردن سہلاتے ہوئے بولا، "ابا، آج تو تو نے مار ہی ڈالا تھا۔ ایمان سے میری تو جان ہی نکل گئی تھی۔ تجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، یہ میرا پرائیویٹ معاملہ ہے۔ بس اتنا بتا دوں کہ بہت جلد میرے وارے نیارے ہونے والے ہیں۔ بہت جلد میں سیٹھ بننے والا ہوں۔ اب کوئی مجھے پنساری کا بیٹا نہیں کہے گا!" ناصر کے باپ نے اسے دو ہتھڑ مارتے ہوئے ایک موٹی سی گالی دی اور بولا، "ہمارے دو نمبری پہلے بھی دو بار تیری ضمانت پر پیسہ خرچ کر چکا ہوں۔ پولیس والوں کے ہاتھ پاؤں جوڑے ہیں۔ اپنی محنت کے پیسوں سے ان کی مٹھی گرم کی، تب جا کر تجھے باہر نکالا۔ خود تو پائی پائی کے لیے محتاج ہے، لیکن مجھے بھی کلاش بنانے میں تو نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کبھی دکان پر بیٹھ کر باپ کا ہاتھ نہیں بٹایا۔ محنت تجھ سے ہوتی نہیں۔ میں تیرے سارے رنگ ڈھنگ دیکھ رہا ہوں۔ بہت جلد تجھے گھر سے چلتا کروں گا!" اپنا بھاشن ختم کرکے صابر نے جیسے ہی توقف کیا اور اپنی عینک کا زاویہ ٹھیک کرکے بیٹے کی طرف دیکھا، تو پتا چلا کہ وہ گہری نیند سو چکا تھا، بلکہ زور زور سے خراٹے بھی لے رہا تھا۔ مشتعل ہو کر اس نے بیٹے کی چارپائی کو ایک ٹھوکر ماری اور غصے سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
باپ کے جاتے ہی ناصر نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں اور اپنے ہاتھ سے اپنی پشت کو تھپتھپاتے ہوئے بولا، "بیٹا ناصر، تیری اداکاری بھی لاجواب ہے۔ تیرا باپ بھی تیرے سامنے پانی بھرتا ہے!" یہ کہہ کر اس نے قہقہہ لگایا اور کروٹ لے کر سونے کی کوشش کی، لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ چشمِ تصور سے وہ معطر کی اس دولت کو دیکھ رہا تھا جو عنقریب اس کے قبضے میں آنے والی تھی۔ اپنی مردانہ وجاہت کی بنا پر وہ کئی لڑکیوں کے ساتھ فلرٹ کر چکا تھا، لیکن کوئی لڑکی معطر کی طرح امیر کبیر نہیں تھی۔ اس لیے اس نے بڑی چابک دستی سے ان سے اپنا پیچھا چھڑا لیا۔ اپنی لچھے دار باتوں کا جادو جگا کر اور شہر کے ایک بڑے سُند کار کو اپنا باپ بتا کر معطر کے دل کے سنگھاسن پر اپنے قدم جما لیے۔ آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ معطر محض اس کی خاطر اپنے خون کے رشتوں کو بھی چھوڑنے کے لیے تیار تھی۔ ناصر اسے اپنی بڑی کامیابی تصور کر رہا تھا۔ معطر کی منصوبہ بندی سے وہ خود بھی متفق تھا، لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ یہی سوچتے سوچتے اسے نیند آ گئی۔
معطر ہر دوسرے تیسرے دن کال کرکے توقیر سے اس مسئلے کا حل دریافت کرتی، لیکن نفی میں جواب پا کر مایوس اور افسردہ ہو جاتی۔ ناصر اپنی جگہ ٹمک ٹوئیاں مار رہا تھا۔ اس نے اپنے دوستوں کے بارے میں سوچا تو سرفراز کا نام اس کے ذہن میں بجلی کی طرح چمکا، لیکن اگلے ہی لمحے اس نے سرفراز کا نام کھرچ کر پھینک دیا۔ اس کے نقطہ نظر سے سرفراز اس دور کا انسان ہی نہیں تھا۔ آہستہ سے خود کلامی کرتے ہوئے وہ بولا، "احمق ابھی تک زمانے کی اونچ نیچ سے ناواقف ہے۔ پتا نہیں اس کی محبوبہ نے اسے چارہ ڈالا یا ابھی تک جوتی کی نوک پر رکھا ہوا ہے۔" وہ انہی سوچوں میں غرق تھا کہ معطر کی کال آ گئی۔ اسے معلوم تھا کہ معطر کا موضوعِ گفتگو کیا ہوگا۔ تھوڑی سی پش و پیش کے بعد بالآخر اس نے موبائل اٹھا لیا، کیونکہ جھوٹ سچ بول کر باتیں بنانا وہ خوب جانتا تھا۔ لیکن آج معطر نے اسے لفاظی کا موقع ہی نہ دیا۔ اس کے بولنے سے پہلے ہی وہ خود شروع ہو گئی۔ اس کا لہجہ انتہائی سنجیدہ اور فیصلہ کن تھا۔
اس نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا، "توقیر، تم تو اول نمبر کے ناکارہ ہو! اس طرح سست روی سے کام کرو گے تو شاید ہم دونوں کا ملاپ روزِ قیامت ہی ہوگا۔ بہرحال، ایک تجویز ہے۔ یہ جو میرا ٹیوٹر ہے نا، وہ انتہائی سادہ لو، مہذب اور ٹھنڈے مزاج کا آدمی ہے۔ ہم اسے اپنا اعلیٰ کار بناتے ہیں۔" ناصر نے متجسس لہجے میں استفسار کیا، "کیا وہ اتنا سیدھا ہے کہ بغیر پیسے کے تمہاری بات مان جائے گا؟" معطر جل بھن کر بولی، "تمہارا تو دین ایمان ہی پیسہ ہے! وہ مجھ سے ایک پائی طلب نہیں کرے گا۔ میں صرف اسے اپنے حسن کی خیرات دوں گی۔ میں نے نہایت باریک بینی سے بھانپ لیا ہے کہ وہ میرے عشق میں سر سے پاؤں تک غرق ہو چکا ہے۔ اب میں جو کہوں گی، وہ وہی کرے گا۔" ناصر نے مصنوعی غزلانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا، "میری چیز پر رال ٹپکا رہا ہے؟ میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا!" معطر نے ایک تنزیہ آمیز قہقہہ لگایا اور بولی، "دروازے کا تالا تک تو کھول نہیں سکے اور چلے ہیں قتل کرنے؟ چھوڑو یہ شیخ چلی والی باتیں! تم ایک دولت مند باپ کے بیٹے ہو، اس لیے میں نے بھی منہ لگایا، ورنہ تم ہو کیا؟" معطر نے جانے انجانے میں اس کی اوقات یاد دلا دی۔ ناصر نے اس سچ کو کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی لیا۔ رابطہ ختم ہوتے ہی اس نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور آہستہ سے بولا، "گھر کی دہلیز پھلانگتے ہی تو میری چھری کے نیچے آ جائے گی، معطر۔ پھر دیکھ، میں کیا کرتا ہوں!" غیض و غضب اس کے دل و دماغ میں لہریں لے رہا تھا۔ معطر نے آئینہ دکھا کر اس کی اصلیت اجاگر کر دی تھی۔
سرفراز آج چوری چھپے نہیں بلکہ معطر کو بھرپور نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ معطر نے بھی اس کی گستاخ نگاہوں کو نہ برا مانا اور نہ ہی آنکھیں چرانے کی کوشش کی۔ آج اس نے سجنے سنورنے میں خاصی محنت کی تھی اور کئی بار آئینے میں اپنا جائزہ بھی لیا تھا۔ سبز رنگ کی بغیر آستینوں والی کھلے گلے کی قمیض کے ساتھ ٹراؤزر زیب تن کیا تھا۔ بالوں کے انداز پر بھی بھرپور توجہ دی تھی۔ اس کے بدلے ہوئے خلیے کو دیکھ کر سرفراز نے استفساریہ انداز میں پوچھا، "آپ آج کہیں جا رہی ہیں؟" معطر نے سفید جھوٹ بولا، "جی سر، ایک دوست کی برتھ ڈے پارٹی اٹینڈ کرنی ہے۔ ویسے، میں کیسی لگ رہی ہوں؟" اس نے اپنی جھیل جیسی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے معصومانہ انداز میں سوال کیا۔ سرفراز کے سارے جسم میں ایک لذت آمیز سنسناہٹ دوڑ گئی۔ دھوپ کا گولا نکلتے ہوئے وہ بولا، "آج آپ بالکل سبز پری لگ رہی ہیں۔" اس کی بات پر معطر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ سرفراز جھک کر کتابوں کو الٹ پلٹ کرنے لگا۔ اس روز سرفراز نے کیا پڑھایا اور معطر نے کیا پڑھا، دونوں کو ہوش نہ تھا۔ گھڑی نے ڈیوٹی ٹائم ختم ہونے کا اعلان کیا تو سرفراز نے اپنے کپکپاتے ہاتھ میں معطر کا نرم و نازک ہاتھ تھام کر کہا، "کل پھر ملیں گے۔" معطر پھولوں کی لدی ڈالی کی طرح لچکتے ہوئے لبک کشا ہوئی، "میں منتظر رہوں گی۔"
سرفراز کے باہر جاتے ہی معطر نے ایک قہقہہ لگایا اور بولی، "وہ کاٹا!" اپنی اس کامیابی پر وہ بے حد مسرور تھی۔ سرفراز بھی خوشی اور مسرت سے سرشار تھا۔ ہر چیز دلکش اور سہانی لگ رہی تھی۔ آج بجائے گھر کا رخ کرنے کے، وہ اپنے پیر و مرشد ناصر کے استھانے کی طرف مڑ گیا، جہاں ناصر کا باپ اس کی شان میں قصیدے پڑھ رہا تھا۔ سرفراز کو دیکھتے ہی اس کا پارہ مزید چڑھ گیا۔ سرفراز الٹے پاؤں بھاگ نکلا۔ وہ ناصر کو جلد سے جلد خوشخبری سنانا چاہتا تھا۔ بالآخر ایک چائے خانے میں اسے پکڑ ہی لیا۔ جاتے ہی ناصر کے ہاتھ چومتے ہوئے بولا، "یار ناصر، تو کمال چیز ہے! تو نے جو کچھ کہا تھا، وہ سو فیصد سچ نکلا۔ وہ لڑکی تو پکے پھل کی طرح میری گود میں آ گری!" ناصر نے خوشی کا ایک نعرہ لگایا اور بولا، "تو آج ڈنر ہو جائے، کسی اچھے سے ہوٹل میں!" سرفراز نے اس کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا، "میرے یار، مہینے کا اختتام ہونے والا ہے۔ پھوٹی کوڑی بانس نہیں۔ تیرا ڈنر ادھار رہا۔" اس کے جواب پر ناصر کو جنجھلاہٹ تو ہوئی، لیکن بظاہر خوش دلی سے بولا، "کوئی بات نہیں، اگلے مہینے صحیح۔ ویسے، اس چمک چھلوں کا نام اور عطا پتا کیا ہے؟ کچھ ہمیں بھی تو معلوم ہو۔"
سرفراز نے بات اڑاتے ہوئے خوشگوار لہجے میں کہا، "میں تو اسے سبز پری کہتا ہوں اور ہمیشہ یہی کہوں گا۔ عطا پتا پوچھ کر کیا کرو گے؟ بس یہ سمجھو کہ محلات میں رہنے والی شہزادی ہے۔" ناصر نے نہ صرف مسکرایا بلکہ سرگوشی میں بولا، "مطلب یہ کہ بہت بڑی جگہ ہاتھ مارا ہے۔" سرفراز نے اس بات پر گردن ہلائی اور دونوں ہاتھ ملاتے ہوئے وہاں سے نکل گئے۔
اسی شام معطر نے ناصر کو مطلع کیا کہ پہلے محاذ پر وہ فتح کا جھنڈا گاڑ چکی ہے اور یقیناً آگے بھی خیر ہی ہوگی۔ وہ پرعزم لہجے میں ساری روداد سنا رہی تھی۔ اس دوران اس کی کھنکدار ہنسی کی آواز ناصر کے کانوں سے ٹکرائی تو اس نے بات کاٹتے ہوئے کہا، "تم ہنس کیوں رہی ہو؟" معطر نے جواب دیا، "دراصل اچانک ایک بات یاد آ گئی۔ میرے ٹیوٹر نے میرا نیا نام تجویز کیا ہے۔" ناصر نے پورے شوق سے استفسار کیا، "کون سا نام؟ کیسا نام؟" معطر پھر ہنستے ہنستے بولی، "سبز پری!" ناصر اچھل پڑا۔ اس نے بے ساختہ کہا، "کیا کہہ رہی ہو؟" معطر خوش دلی سے بولی، "تم اتنے حیران و پریشان کیوں ہو رہے ہو؟ دراصل آج میں نے سبز رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا۔" ناصر نے "اچھا" اتنا طویل انداز میں ادا کیا کہ معطر نے سلسلہ ہی منقطع کر دیا۔ وہ بعد میں ہیلو ہیلو کرتا رہ گیا۔ اپنا موبائل پٹختے ہوئے بولا، "تو سبز پری کا گلفام یہ ہے! اب سرفراز، تجھے ایسے شکنجے میں پھنساؤں گا کہ زمین تجھ پر تنگ ہو جائے گی۔ زبانی کلامی ہمیشہ دوستی کا دم بھرتا ہے، لیکن مجھے آج تک تیرا وہ رویہ یاد ہے جب میٹرک کے امتحان میں نظر بچا کر تجھ سے میتھ کے پیپر میں مدد مانگی تھی۔ تو نے سارا وقت مجھے اس پر رکھا، لیکن اتنا بھی دامن نہ بھرا کہ مجھے پاسنگ مارکس ہی مل جاتے۔ اب تجھے سرکاری مہمان بنا کر سلاخوں کے اندر بٹھاؤں گا۔ وہاں بیٹھ کر معطر سے عشق لڑانا!" اس کے ہونٹوں پر ایک شاطر اور مکار مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
سرفراز بری طرح معطر کے جال میں پھنس چکا تھا، اور معطر اب اپنے اصل مقصد کی طرف بڑھ رہی تھی۔ آج جب معطر سرفراز کے سامنے بیٹھی تو اس کے چہرے پر اداسی کے بادل منڈلاتے دیکھ کر سرفراز نے پوچھ ہی لیا، "آپ اتنی اداس کیوں ہیں؟" معطر نے چالاکی سے ساری روداد سرفراز کے سامنے رکھ دی۔ انتہائی اداس لہجے میں وہ بولی، "میں سارا دن گھر میں قید رہتی ہوں۔ میرا بہت دل کرتا ہے کہ باہر کھلی ہواؤں کی سیر کروں، لیکن کوئی میرا درد سمجھنے کو تیار نہیں۔" یہ کہتے ہوئے معطر کی آنکھوں میں آنسو بہنے لگے۔ آخر کار آنسوؤں کا کھیل کامیاب رہا۔ سرفراز نے معطر کو روتے دیکھا تو اس کا دل پگھل گیا اور وہ بولا، "آپ فکر نہ کریں، میں آپ کی والدہ سے بات کروں گا اور کسی دن آپ کو باہر گھمانے لے جاؤں گا۔"
سرفراز کا اتنا کہنا تھا کہ معطر نے فوراً اسے روک دیا، "نہیں، ایسا مت کرنا! اگر میرے گھر والوں کو خبر ہو گئی تو وہ مجھے کبھی گھر سے باہر نہیں جانے دیں گے۔ لیکن اگر تم مجھے خوش دیکھنا چاہتے ہو تو ایک چھوٹا سا کام کرنا ہوگا، جس سے میں باہر گھوم پھر سکوں گی اور تمہارے ساتھ دیر تک انجوائے کروں گی۔ پھر رات کو واپس گھر بھی آ جاؤں گی۔" سرفراز بولا، "آپ ایک دفعہ کہہ کر تو دیکھیں، جیسا آپ کہیں گی، میں ویسا ہی کروں گا۔"
معطر نے تفصیل بتائی، "میں تمہیں کوٹھی کی پچھلی طرف جو گودام ہے، اس کے باہر کے دروازے کی چابی دوں گی۔ رات کے کسی پہر تم وہ دروازہ کھول دینا، اور میں اس سے باہر نکل آؤں گی۔ پھر ہم خوب سیر کریں گے، کھائیں گے، پیئں گے، اور انجوائے کریں گے۔ رات کو واپس آ کر تم دروازہ باہر سے لاک کر دینا اور اگلے دن وہ چابی مجھے واپس کر دینا۔" معطر کی بات سن کر سرفراز پہلے تو گڑبڑا گیا، لیکن اس کے آنسو دیکھ کر اس نے حامی بھر لی۔ اس طرح اگلی رات کا وقت طے ہو گیا۔ معطر نے چابی سرفراز کے حوالے کر دی اور کہا، "آج رات ایک بجے آ جانا اور دروازہ کھول دینا۔"