دوسری طرف، معطر نے توقیر کو کال کرکے سارا معاملہ سمجھایا، "میں نے اپنے ٹیوٹر سرفراز کو اس کام کے لیے راضی کر لیا ہے۔ رات کے ایک بجے وہ مجھے گودام کے دروازے سے باہر نکالے گا، اور تمہاری بتائی ہوئی جگہ پر میں آ جاؤں گی۔ اس کے بعد سرفراز کا کام ختم ہو جائے گا، اور میں تمہارے ساتھ چلی جاؤں گی۔" توقیر اس کی بات سن کر شاطرانہ انداز میں مسکرا رہا تھا۔
سرفراز اپنے گھر میں ماں باپ کے ساتھ رات کا کھانا کھا رہا تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ اس کے والدین جلدی سونے چلے جائیں تاکہ وہ مقررہ وقت پر گھر سے نکل سکے، کیونکہ ایک بجے اسے معطر کو گھر سے نکالنا تھا۔ اسی دوران کسی بات پر عمر دراز کی اپنی بیوی سے کھٹ پٹ ہو گئی۔ وہ غصے سے اٹھا اور باہر چلا گیا۔ سرفراز اپنی ماں کے پاس بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد اس کی ماں سو گئی۔ سرفراز اپنے کمرے میں ٹہل رہا تھا، لیکن جیسے ہی باہر پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس کے باپ نے جاتے ہوئے باہر والے دروازے پر تالا لگا دیا تھا۔ سرفراز کو اس سنگین صورتحال کا ادراک اس وقت ہوا جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ وہ سر پیٹ کر رہ گیا اور واپس اپنے کمرے میں آ کر اپنے بال نوچنے لگا۔
اچانک اس کی ماں کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے اپنے بیٹے کو پریشان دیکھا تو پوچھا، "کیا بات ہے؟ پریشان لگ رہے ہو۔" سرفراز نے کہا، "مجھے اپنے ایک دوست سے ملنے جانا تھا، اور والد صاحب نے جاتے ہوئے باہر سے تالا لگا دیا۔" اس کی ماں نے سادگی سے کہا، "تو کیا، آج ہی اس دوست سے ملنا ضروری تھا؟ کل مل لینا۔" اس وقت ماں کا ہمدردانہ رویہ بھی سرفراز کو بری طرح کھل رہا تھا۔ سارا غیض و غضب ماں پر اتار کر وہ ڈولتا ہوا اپنے پلنگ پر لیٹ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ اسی اثنا میں طے شدہ وقت کے مطابق معطر کی کال موصول ہوئی۔ پہلے تو وہ پھٹی پھٹی نظروں سے موبائل کو دیکھتا رہا، پھر کال اٹھائی اور معذرت کے ساتھ اپنے مسمار خوابوں کی داستانِ غم سنا دی۔ کپکپاتے لہجے میں اس نے دوسرے دن آنے کا وعدہ بھی کر ڈالا۔ لیکن مخالف سمت سے اسے غموں میں ڈوبی سسکیاں سنائی دیں۔ معطر نے سلسلہ منقطع کر دیا۔ سرفراز اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور رو پڑا۔ اس کی ماں تفکر اور اداس نگاہوں سے بیٹے کو دیکھتی رہی اور من ہی من میں عمر دراز کو سلواتیں سناتی رہی۔
معطر کا دل اتنی تیزی سے تڑپ رہا تھا کہ اس نے کپکپاتا ہوا ہاتھ اپنے دل پر رکھ دیا۔ ناصر کی کال پر کال آ رہی تھی، لیکن وہ اٹھا نہیں رہی تھی۔ بالآخر اس نے اپنا سیل فون اٹھایا اور لرزیدہ لہجے میں بولی، "اب تو نئی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ میرے ٹیوٹر نے عین وقت پر دھوکہ دے دیا۔ سارا معاملہ تمہاری وجہ سے بگڑ گیا۔ اگر تم خود آ کر دروازے کا تالا کھولتے تو شاید میں اس وقت تمہارے ساتھ ہوتی۔ اب تو سارا معاملہ گڑبڑ ہو گیا۔" ناصر نے دل ہی دل میں سرفراز کو ایک موٹی سی گالی دی اور بولا، "ڈرپوک گیدڑ دبک کر بیٹھ گیا!" معطر نے حیرانگی سے جواب دیا، "وہ اگر ڈرپوک گیدڑ ہے تو تم بھی اس کے بھائی ہو!" ناصر کی مردانگی پر ضرب پڑی تو وہ بلبلا اٹھا اور فوراً بولا، "میں آ رہا ہوں، معطر! تمہیں لینے آ رہا ہوں!" یہ کہتے ہوئے اس نے موبائل بند کیا اور قریب کھڑی ٹیکسی کو ہاتھ دکھایا۔
معطر کی کوٹھی سے کافی فاصلے پر اس نے ٹیکسی رکوائی، کرایہ دیا، اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا گودام کے اس دروازے پر پہنچ گیا جہاں بڑا سا تالا اس کا منہ چڑھا رہا تھا۔ دل شکستہ لہجے میں اس نے خود کلامی کی، "چابی تو سرفراز کی جیب میں ہے، اب کیا کروں؟" اچانک اس کی نظر گودام کی دیوار سے ملحق برگد کے درخت پر پڑی، جس کی لمبی لمبی شاخیں نیچے لٹک رہی تھیں۔ وہ بے دھڑک درخت پر چڑھ گیا، لیکن اندھیرے کی وجہ سے گودام کی چھت تک پہنچنے میں اسے کافی وقت لگ گیا۔ اپنی جان پر کھیل کر جب اس نے زمین پر پاؤں رکھے تو اسے لگا جیسے موت کی وادی سے گزر کر زندگی سے ہاتھ ملایا ہو۔ ایک طویل، پرسکون سانس لی اور کوٹھی کی جانب قدم بڑھائے۔
کمرے کے دروازے کھلے ہوئے تھے اور خوبصورتی سے سجے ہوئے تھے۔ وہ آنکھیں پھاڑ کر دیکھ رہا تھا۔ اس کی متلاشی آنکھیں معطر کو ڈھونڈ رہی تھیں، لیکن اس کی پرچھائیں کا بھی پتہ نہ تھا۔ اچانک اس کی سماعت سے معطر کی آواز ٹکرائی۔ وہ کسی سے کچھ کہہ رہی تھی۔ ناصر نے آواز کی سمت قدم بڑھا دیے۔ جس کمرے سے معطر کی آواز آ رہی تھی، وہ دودھیا روشنی سے جگمگا رہا تھا، لیکن دروازہ بند تھا۔ ناصر نے بغیر سوچے سمجھے دروازے کو دھکیلا۔ دروازہ کھلتا چلا گیا۔ کمرے کے وسط میں سیٹھ مہتاب غیظ کے عالم میں کھڑا، گہری الود نگاہوں سے معطر کو گھور رہا تھا۔ درمیانی ٹیبل پر ایک سوٹ کیس رکھا تھا، جو سیٹھ مہتاب نے معطر کے ہاتھوں سے چھین کر اپنے قبضے میں لے رکھا تھا۔ کرخت اور دھمکی آمیز لہجے میں وہ معطر سے سوٹ کیس کی چابی طلب کر رہا تھا۔ معطر نہایت درشتی اور ہٹ دھرمی سے ترکی بہ ترکی جواب دے رہی تھی، لیکن اپنے ہینڈ بیگ کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھی۔
ناصر کو اچانک اپنے سامنے دیکھ کر معطر چونک گئی اور بے ساختہ بولی، "توقیر، تم؟" سیٹھ مہتاب نے معنی خیز انداز میں گردن ہلائی اور طنز آمیز تبسم کے ساتھ بولا، "تو یہ ہے وہ آشناے راز، جس کے ساتھ ہماری کبوتری پھڑپھڑا رہی ہے!" ناصر ہونق بن کر منہ کھولے، آنکھیں پھاڑے چاروں طرف نظریں گھما رہا تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ لمحوں میں ساری صورتحال بھانپ گیا۔ اس کی نظر ایک جگہ جا کر ٹھٹک گئی۔ آنکھوں میں چمک لہرائی، اور اس نے چھلانگ لگا کر سیٹھ مہتاب کے بیڈ سے وہ ریوالور اٹھا لیا جو تکیے کے قریب رکھا تھا۔ معطر نے گھبرائی ہوئی، تشویش ناک نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے سرزنش کی، "توقیر، یہ کیا کر رہے ہو؟ میں تمہارے ساتھ چلنے کو تیار ہوں۔ اس سوٹ کیس پر خاک ڈالو!"
اسی دوران کمرے سے باہر قدموں کی آہٹ ابھری اور بیگم مہتاب کمرے میں داخل ہوئیں۔ متوحش اور تعجب خیز نگاہوں سے انہوں نے کمرے کا جائزہ لیا اور مرتعش، تجسس آمیز لہجے میں بولیں، "یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ یہ اجنبی کون ہے؟" ناصر اور معطر کے ہونٹ سلے ہوئے تھے، لیکن سیٹھ مہتاب خاموش نہ رہا۔ اس کی زبان آگ اگل رہی تھی۔ بیوی کے سامنے وہ بیٹی کے کرتوت بیان کر رہا تھا۔ اسی چھولا بیانی کے دوران اس نے ناصر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، "یہ ہے تمہاری بیٹی کا آشنا، جس کے ساتھ کافی کچھ لے کر فرار ہو رہی تھی!" بیگم مہتاب غیظ و غضب کا پیکر بنی ہوئی تھیں۔ وہ ناصر پر چڑھ دوڑیں۔ ریوالور ابھی تک ناصر کے ہاتھ میں تھا۔ ناصر کی کوشش تھی کہ کسی طرح سوٹ کیس اس کے ہاتھ آ جائے۔ اسی جھپٹا جھپٹی میں وہ سوٹ کیس اٹھانے کے لیے جھکا۔ اسی لمحے گولی چلنے کی آواز نے خاموشی اور سناٹے کو چیر کر رکھ دیا۔ سیٹھ مہتاب کا لعیم شہیم جسم کسی تناور درخت کی طرح گرتا چلا گیا۔ کمرے کا قالین خون سے تر بتر ہو گیا۔ بیگم مہتاب نے ایک دلدوز چیخ ماری اور غش کھا کر گر پڑیں۔
معطر نے ناصر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ وہ زار و قطار رو رہی تھی۔ ہچکیوں اور سسکیوں کے درمیان وہ بار بار ناصر سے کہہ رہی تھی، "تم نے ڈیڈی کو کیوں مارا؟ تم نے کیوں گولی چلائی؟" ناصر عالمِ سکوت میں کھڑا تھا۔ معطر کے چیخنے چلانے پر احتجاج کرتے ہوئے لڑکھڑاتی آواز میں بولا، "میں نے گولی نہیں چلائی! میں سچ کہہ رہا ہوں، میں نے تمہارے ڈیڈی کو نہیں مارا!" باہر گیٹ پر کھڑا واچ مین ہاتھ میں اپنا سروس ریوالور تھامے جب جائے وقوعہ پر پہنچا تو چکرا کر رہ گیا۔ دہشت زدہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے وہ بھاری آواز میں بولا، "یہ... یہ سب کیا ہو گیا؟" اس کے بعد اس نے اپنے موبائل سے پولیس اسٹیشن کا نمبر ملایا اور ڈیوٹی افسر کو اس خون آشام واقعے کی اطلاع دی۔
عمر دراز نے جب اپنے گھر کا دروازہ کھولا تو دیکھا کہ اس کا بیٹا کمرے میں یوں ٹہل رہا ہے جیسے پنجرے میں بند ببر شیر۔ باپ بیٹے کی نظریں جونہی چار ہوئیں، سرفراز نے نفرت اور خفگی سے منہ پھیر لیا۔ بیٹے کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر عمر دراز مسکرایا۔ سرفراز تیزی سے چلتا ہوا باہر نکل گیا۔ اس کی ماں ناشتے کے لیے پکارتی رہ گئی۔ وہ چند قدم ہی چلا تھا کہ موبائل وائبریٹ کرنے لگا۔ عظمت کا نام دیکھ کر چلتے ہوئے ٹھٹک گیا اور اپنے مخصوص انداز میں ہیلو کہتے ہوئے اس کی خیریت دریافت کی۔ عظمت نے الگ سی لے کے بعد خوش دلی سے کہا، "تمہارے لیے ایک گڈ نیوز ہے!" سرفراز کو اس وقت عظمت کی کال بری طرح کھل رہی تھی، لیکن گڈ نیوز سن کر اس کا موڈ خوشگوار ہو گیا اور پراشتیاق لہجے میں بولا، "اب سنا بھی دو، کیوں سسپنس پیدا کر رہے ہو؟"
عظمت نے ہنستے ہوئے کہا، "ارادہ تھا پہلے مٹھائی کھاؤں گا۔ چلیے جناب، سنا دیتے ہیں۔ تم بھی کیا یاد کرو گے! تم نے جس انٹرنیشنل کمپنی میں جاب کے لیے اپلائی کیا تھا، وہاں تمہارا سلیکشن ہو گیا ہے!" سرفراز خوشی سے اچھل پڑا۔ اگر عظمت سامنے ہوتا تو شاید اس کا منہ چوم لیتا۔ فی الحال اس نے اپنے موبائل کو بوسہ دیتے ہوئے کہا، "جیو میرے دوست، ہمیشہ خوش رہو! اب یہ خوشخبری اپنی اماں اور بابا کے بعد معطر کو سناؤں گا۔ اور تمہاری مٹھائی پکی، آج شام!" عظمت پھر متجسس ہوا، "یہ معطر کون ہے، جناب؟" سرفراز کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ سنبھلتے ہوئے بولا، "ارے یار، میری سٹوڈنٹ، معطر، سیٹھ مہتاب کی بڑی صاحبزادی۔ بہت عزت و احترام کرتی ہے۔ میرا پرخلوص اور انسان دوست رویہ ہے۔ میں نے اسے بتایا تھا کہ میں روزگار کے سلسلے میں بہت پریشان ہوں۔"
عظمت نے سخت اور تنبیہی لہجے میں الفاظ چباتے ہوئے کہا، "تمہاری بےخبری اور سادہ لوحی کسی دن تمہیں لے ڈوبے گی۔ اب کبھی بھول کر بھی اس طرف کا رخ نہ کرنا۔ تمہیں علم نہیں کہ رات وہاں کیا قیامت ٹوٹی ہے!" سرفراز نے چونکتے ہوئے استفسار کیا، "کیوں، کیا ہوا؟" عظمت نے اپنی جان چھڑاتے ہوئے اگتائے انداز میں کہا، "میں زیادہ وضاحت تو نہیں کر سکتا، میرا ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ بہرحال، سیٹھ مہتاب کو کسی چور نے گھر میں گھس کر قتل کر دیا ہے۔ ٹی وی پر نیوز چل رہی ہے۔ مسز مہتاب کا فون آیا تھا، قانونی کارروائی کے سلسلے میں پاپا سے مشورہ طلب کر رہی تھیں۔ میں ابھی ابھی پاپا کو اپنی گاڑی سے چھوڑ کر آیا ہوں۔ اچھا دوست، اب اجازت دو۔" یہ کہتے ہوئے اس نے موبائل آف کر دیا۔
سرفراز کا چہرہ لکڑی کی طرح سفید پڑ گیا۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اچانک کڑکڑاتی بجلی گری اور سب کچھ بھسم ہو گیا۔ مختلف اندیشوں میں گھرا ہوا وہ سیٹھ مہتاب کی کوٹھی کی بجائے اپنے گھر کی جانب مڑ گیا۔ بدحواس اور گھبرایا ہوا جب وہ گھر پہنچا تو عمر دراز اور اس کی ماں نے اسے حیران و پریشان نگاہوں سے دیکھا اور پوچھا، "کیا ہوا؟ اتنے جلدی لوٹ آئے؟ اور یہ صورت پر کیوں مارے جا رہے ہیں؟ کیا بات ہے؟" سرفراز نے جلتے لہجے میں کہا، "ارے اماں، آپ بھی پیچھے پڑ جاتی ہیں! آج ناشتہ نہیں کیا، اس لیے کمزوری محسوس ہو رہی ہے۔" یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں گھس گیا۔
چند گھنٹوں بعد ٹی وی اور اخبارات نے وضاحت کے ساتھ اس واردات کو ایکسپوز کیا۔ جو سنسنی خیز انکشافات ہوئے، وہ سرفراز کو ہکا بکا کر گئے۔ خون کی گردش تیز ہو گئی۔ اس رات ناصر وہاں موجود تھا، اور پولیس کی تفتیش اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ قاتل ناصر ہی ہے۔ مسز مہتاب نے بھی سخت آہ و زاری اور آنسوؤں سے بھیگی آواز میں یہی بیان دیا کہ اس شخص کو انہوں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ وہ ڈکیتی کی نیت سے گھر میں گھسا اور نرسی اور زیورات سفری بیگ میں لے جا رہا تھا کہ کھٹ پٹ کی آواز سن کر معطر کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے اپنے باپ کو مطلع کیا۔ سیٹھ مہتاب اس ڈاکو پر پل پڑے۔ ڈاکو نے اپنا دفاع کرتے ہوئے سیٹھ مہتاب کا ریوالور اٹھا لیا اور گولی چلا دی۔ اس کی چشم دید گواہ خود معطر اور ان کا چوکیدار تھے۔ معطر نے بھی کچھ اسی قسم کا بیان دیا، لیکن اس کی آواز حلق میں پھنسی رہی اور وہ خوف سے کانپ رہی تھی۔ چونکہ ریوالور پر ناصر کی انگلیوں کے نشانات تھے، اس لیے پولیس نے فوراً اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔ ناصر کے گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔
ناصر کے گھر کے حالات زار دیکھ کر سرفراز دل ہی دل میں خدائے بزرگ و برتر کا شکر بجالایا اور اپنے آپ سے سرگوشی کرتے ہوئے بولا، "اے خالق کائنات، تیرا دستِ غیب نہ ہوتا تو آج ناصر کی جگہ میں بیٹھا ہوتا، اور ناصر کے والدین کی بجائے میرے ماں باپ سر کے بال نوچ رہے ہوتے۔" اس کے بعد سرفراز نے معطر کو پڑھانا چھوڑ دیا۔ اس کے سر سے عشق کا بھوت بھی اتر گیا۔ اچھی کمپنی میں جاب مل جانے کی وجہ سے وہ ساری باتیں بھول گیا اور اپنے ماں باپ کے ساتھ ایک نئی زندگی شروع کر دی۔