طوائف زادی کا حج

Sublimegate Urdu Stories

یہ بیس فلیٹوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی عمارت تھی، جہاں پڑھے لکھے اور معزز لوگ رہ رہے تھے۔ عصر کا وقت تھا، عمارت کے گراؤنڈ میں بچے کھیلنے ملنے میں مصروف تھے۔ ادھیڑ عمر شخص وہیل چیئر پر بیٹھا بچوں کو کھیلتے دیکھ کر دل بہلا رہا تھا۔ سامنے ہی عمارت کے داخلی دروازے پر تیس برس کی عورت رکشے والے سے کرایے کے پیسوں پر بحث کر رہی تھی۔ بلڈنگ کی کھڑکی سے جھانکتی دو عورتوں میں سے ایک نے دوسری سے نفرت بھرے لہجے میں کہا، اب اس قسم کی عورتیں ہم شریفوں کے محلے میں آکر رہیں گی، تو ماحول تو خراب ہوگا۔ واجدہ آپا، آپ جمال بھائی سے بات کر کے گناہوں کی اس گٹھڑی کو یہاں سے چلتا کریں۔ آخر وہ یونین کے صدر ہیں۔ تم کیا سمجھتی ہو، میں نے ان سے بات نہیں کی ہوگی؟ نگار خانم کو اتنی آسانی سے یہاں سے چلتا نہیں کیا جا سکتا۔ اُس نے فلیٹ خریدا ہے، کرایے پر نہیں لیا۔ اگر وہ کرایے پر آتی، تو پھر بھی مدثر صاحب سے بات کی جا سکتی تھی کہ انہوں نے ایک بازاری عورت کو اپنا فلیٹ کرایے پر کیوں دیا؟ مگر انہوں نے تو محلے والوں کا خیال کیے بغیر ہی اپنا فلیٹ اسے فروخت کر دیا۔ واجدہ بیگم نے بتایا۔ 

پڑوسن ذکیہ سے ان کی خوب بنتی تھی۔ واجدہ بیگم اور ان کے شوہر جمال الدین کی پوری بلڈنگ میں عزت تھی۔ جمال الدین ایک دیندار انسان تھے۔ یہی وجہ تھی کہ محلے والوں نے انہیں یونین کا صدر بنایا تھا۔ بلڈنگ کے تمام معاملات وہی دیکھتے تھے جب کہ واجدہ بیگم جو استانی جی کے نام سے مشہور تھیں، بچوں کو قرآن پڑھاتی تھیں۔ بیڑہ غرق ہو مدثر صاحب کا، ذکیہ بڑبڑائیں پھر مزید گویا ہوئیں، کل فاروق صاحب سے بات ہوئی تھی۔ میں نے ان سے نگار خانم کے بارے میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ جب تک وہ قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتی، وہ اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے سکتے۔ انہوں نے تو بتایا تھا کہ اسے تین مہینے ہوئے ہیں جیل سے رہا ہوئے اور یہ منحوس منہ اٹھائے یہاں چلی آئی۔ اپنے شوہر کے قتل کے جرم میں یہ اندر تھی۔ ظاہر ہے، اس طرح کی بد کردار عورتیں ہی اپنے شوہر کو قتل کریں گی نہ کہ ہم جیسی شریف عورتیں۔ پیسےکے پیچھے اس نے اپنے شوہر کو قتل کیا ہوگا۔ فاروق صاحب تو بتا رہے تھے کہ اس پر جرم ثابت نہیں ہوا ہے، تبھی تو یہ چھوٹ گئی ہے؟ بس رہنے دو ذکیہ، ہمارے ملک میں ایسی باتیں عام ہیں۔ مجرم دندناتے باہر گھومتے ہیں۔ چھوڑو اس ذکر کو، یہ بتاؤ آج تم نے کیا پکایا ہے؟ وہ موضوع بدلتے ہوئے کھڑکی سے ہٹ گئیں۔
٭٭٭
رات کی تاریکی، صبح کاذب کے اجالے میں غائب ہونے کو تھی۔ کھڑکی میں کھڑی نگار ڈوبتے ستاروں کو دیکھنے میں محو تھی۔ بظاہر اس کی نگاہیں آسمان پر مگر ذہن ماضی میں بھٹک رہا تھا۔ نگار جس ماحول میں پلی پڑھی تھی، وہاں عورت کا ایک خاص روپ تھا۔ وہاں عورت ناچتی، گاتی اور مردوں کا دل بہلا کر اُن کی جیبیں خالی کرواتی تھی۔ نگار کی سمجھ میں یہ باتیں رفتہ رفتہ آئی تھیں۔ ہوش سنبھالنے کے بعد والدین کے تصور سے واقف ہونے پر اسے سب سے پہلے انہی کا خیال آیا تھا اور اس نے نرگس بائی، جنہیں اس سمیت تمام لڑکیاں آپا جی کہہ کر مخاطب کرتی تھیں، ان سے اپنے والدین کے بارے میں پوچھا تھا، جس پر انہوں نے اُسے بڑی محبت اور اپنائیت سے بتایا تھا کہ کچھ لوگ اُسے کہیں سے اٹھا کر لائے تھے اور انہوں نے رقم کے عوض اسے بیچ دیا تھا، اس لیے وہ اس کے والدین کے بارے میں نہیں جانتیں۔ پھر وہ مزید گویا ہوئی تھیں کہ وہ انہیں ہی اپنی ماں سمجھے۔ ویسے بھی اسے یہاں کس چیز کی کمی تھی۔ ان کی بات بھی ٹھیک تھی۔

 نگار کو یہاں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ کم عمری میں اس کی دوشیزگی کا سودا کر دیا گیا تھا۔ وہ بہترین رقاصہ تھی۔ اس کے حسن و شباب کا اس کی ہم عمر لڑکیوں سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔ وہ اُن سب سے زیادہ حسین تھی۔ نرگس بائی اُس سے بہت خوش تھی کہ اُس نے کوٹھے کی آمدنی میں بہت اضافہ کر دیا تھا، مگر نگار کو یہ زندگی اچھی نہیں لگتی تھی۔ اُسے تو وہ زندگی پسند تھی جہاں عورتیں اپنے شوہروں کے ساتھ رہتی تھیں۔ نگار کو اس زندگی کا کوئی تجربہ نہیں تھا، پھر بھی وہ یہ زندگی گزارنا چاہتی تھی اور سوچتی تھی کہ اگر اسے کبھی کسی کی بیوی بننے کا موقع ملا، تو وہ یہ چانس ضائع نہیں کرے گی۔ وہ کھڑکی میں کھڑی یہی سوچ رہی تھی کہ کیا اُس کا سالار سے شادی کا فیصلہ غلط تھا؟
٭٭٭
بچے سپارہ پڑھ کر جا چکے تھے۔ طبیعت کی خرابی کے باعث واجدہ بیگم نے آج بچوں کی جلدی چھٹی کر دی تھی۔ مغرب سے پہلے زرینہ ٹرے اٹھائے اندر داخل ہوئی اور ان کی سوالیہ نگاہوں کے جواب میں بتایا کہ پڑوسن کو بہت خیال ہے آپ کا، تب ہی آپ کے لیے گرما گرم بریانی اور زردہ دے گئی ہیں۔ یہ وہی ہیں، جو اس سے پہلے بھی کچھ نہ کچھ لے کر آتی رہی ہیں؟ جی ہاں، آپ کے کہنے پر میں نے ان کا نام پوچھا ہے۔ نگار نام بتایا ہے انہوں نے۔ یہ سنتے ہی واجدہ بیگم کا دماغ سن ہو گیا اور وہ بیڈ سے اتر کر کھڑی ہو گئیں۔ زرینہ، دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا یا سٹھیا گئی ہو؟ تم مجھے ایک دھندہ کرنے والی کے گھر کا کھانا کھلاتی رہی ہو؟ ہم شریف لوگ مر سکتے ہیں، مگر کسی ایسی عورت کے گھر کا نوالہ نہیں کھا سکتے۔ واجدہ بیگم نے ٹرے زرینہ کے ہاتھ سے لی اور گھر کے گیٹ پر کھڑی نگار کے پاس جا پہنچیں، جو چادر میں لپٹی کھڑی تھی۔ اے بی بی، اپنی ٹرے پکڑو اور یہاں سے دفع ہو جاؤ۔ تمہارا ناپاک وجود اس قابل نہیں کہ منہ اٹھائے یہاں آ جائے۔ آئندہ یہاں قدم نہ رکھنا۔واجدہ بیگم کی پھٹکار پر نگار کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ایک لمحے کو انہیں اپنے الفاظ پر شرمندگی ہوئی، مگر اگلے ہی لمحے ان کے دل نے کہا کہ شرمندگی نگار کو ہونی چاہیے، نہ کہ انہیں، جو اپنے پاکیزہ گھر میں اس کا غلیظ وجود برداشت کر رہی ہیں۔ 

نگار نے کانپتے ہاتھوں سے ٹرے پکڑی اور بغیر کچھ کہے واپس چلی گئی۔اگلا دن جمعے کا تھا۔ بلڈنگ میں خواتین کی محفلِ میلاد تھی۔ واجدہ بیگم کی آواز لاؤڈ اسپیکر پر گونج رہی تھی۔ وہ پڑوسیوں سے حسنِ سلوک کے بارے میں بتا رہی تھیں۔ نگار اپنی سہیلی گلناز سے آئی برو بنوانے میں مصروف تھی، تب ہی گلناز بولی کہ بڑی آئیں استانی، خود میں حسنِ اخلاق نہیں اور چلی ہیں دوسروں کو لیکچر دینے۔ کل جب تم روتی ہوئی آئی تھیں اور ان کے ہاتھوں اپنی بے عزتی کا بتایا تھا، جب سے مجھے اس عورت پر شدید غصہ آ رہا ہے۔ اس طرح کسی کا دل دکھانا کیا زیب دیتا ہے اسے؟چھوڑو بھی اس موضوع کو۔ بدنصیب ہیں ہم، جو ایسی جگہ سے تعلق رہا ہے۔ نگار نے کہا اور ہاتھ میں پکڑے شیشے میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے بولی کہ اس جگہ کچھ بال رہ گئے ہیں۔ اس نے انگلی سے اشارہ کیا، تو گلناز دوبارہ اس کی بھنویں بنانے میں مصروف ہو گئی۔ 

چند گھنٹوں بعد جب وہ چلی گئی، تو کرسی پر بیٹھی نگار کے سامنے برسوں پہلے کی اس رات کا منظر گھوم گیا، جب کوٹھا تماش بینوں سے بھرا ہوا تھا، جن میں سے اکثریت مشروبِ خاص کے خمار میں دھت تھی اور وہ خود گلابی رنگ کے بھڑکتے لباس میں ان مدہوش تماش بینوں کے درمیان ناچ رہی تھی۔ اُس کی نازک کلائیوں میں پھولوں کے گجرے تھے، جن سے بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی۔ تماش بین اس کے تھرکتے جسم اور مدہوش کن حسن میں مست، جذباتی انداز میں آہیں بھر رہے تھے۔اس ماحول میں جب کہ ہر کوئی ارد گرد سے بیگانہ تھا، نگار کی نظریں سالار پر پڑیں۔ اُس نے ناچتے ہوئے ایک ادائے دلبرانہ سے مسکرا کر اُس کی طرف دیکھا، اپنی خوبصورت ناک چڑھا کر آنکھ سے اشارہ کیا اور اُس کے نزدیک پہنچ گئی۔ سالار کے چہرے پر ایسے تاثرات تھے، جیسے وہ اس محفل کا مہمانِ خصوصی ہو۔ نگار اس کے گرد دیوانہ وار ناچ رہی تھی، تبھی محفل میں موجود دو منچلے نوجوانوں نے فحش جملے بازی شروع کر دی۔

 نگار نے تو ان پر کوئی خاص توجہ نہ دی، وہ اس صورتِ حال کی عادی تھی، مگر سالار کے لیے یہ ناقابلِ برداشت تھا۔ اس نے اُن سے ہاتھا پائی شروع کر دی۔ وہاں موجود لوگوں نے بیچ بچاؤ کر کے معاملہ ٹال دیا، ورنہ سالار انہیں جان سے مار ڈالنے پر تُلا ہوا تھا۔ نشے میں دھت تماشائیوں کا نشہ ہرن ہو گیا تھا۔ سالار نے نگار کو ایک بڑے سرکاری افسر کی پارٹی میں رقص کرتے ہوئے دیکھا تھا، تبھی وہ اس پر مر مٹا تھا اور نگار کے کوٹھے پر باقاعدگی سے آنے لگا تھا۔ نرگس بائی اس تنگڑی آسامی سے بہت خوش تھی۔ اُس نے نگار پر جو محنت کی تھی، اس کی قیمت وصول ہو رہی تھی، کیونکہ نگار ایک بہترین رقاصہ اور مغنیہ تھی۔ جب وہ گاتی، تو اس کے دل میں ایک لہر سی اٹھتی، اس لہر میں ایک نشہ سا ہوتا تھا، جو سننے والوں کو سرشار اور مخمور کر دیتا تھا۔ اسی طرح جب وہ محوِ رقص ہوتی، تو اپنے آپ سے بیگانہ ہو جاتی۔ خدا نے اسے ایسا فن عطا کیا تھا کہ بڑے سے بڑا سرکش بھی اسے ایک نظر دیکھ لینے کے بعد اپنی گردن جھکا دینے پر مجبور ہو جاتا۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا، اس کے حسن و موسیقی کی شہرت دور تک پھیل رہی تھی اور اس کے حسن کے دیوانے نرگس بائی کے کوٹھے کے گرد منڈلاتے نظر آتے تھے۔ نرگس بائی، جو اس کی ماں جیسی تھی، اس نے نگار پر کڑی نظر رکھی ہوئی تھی۔ نگار کے حسن اور اس کے فن کے قدردانوں سے وہ گزشتہ پندرہ سالوں سے منہ مانگی قیمت وصول کر رہی تھی۔ فانوس کی روشنی میں نگار خانم کا حسن سالار کی آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا۔ رقص و سرود کی محفل جھگڑے کے باعث ختم ہو چکی تھی۔ سالار کا موڈ درست ہوا، تو اس نے اپنا لایا ہوا ہیروں کا نیکلس نگار کو دیا، تو وہ شکرانے کے طور پر تسلیمات بجا لائی اور اس کے نزدیک بیٹھ کر لگاوٹ بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

نرگس بائی کو موجود نہ پا کر سالار نے کہا۔ سنو! کیا تمہیں اپنی اس زندگی سے گھن نہیں آتی ؟ یہاں تمہیں مالِ غنیمت کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ میں نے سمجھوتہ کر لیا ہے اس زندگی کے ساتھ۔ میں چاہوں بھی تو یہاں سے نہیں نکل سکتی۔ کون میرا ہاتھ تھامے گا؟میں تھاموں گا تمہارا ہاتھ۔ سالار نے فوراً کہا۔اسی لمحے قدموں کی آہٹ سنائی دی، تو وہ آہستہ سے بولا، نگار، میں پھر تم سے اس موضوع پر تفصیل سے بات کروں گا۔ نگار نے کوئی جواب نہ دیا۔ اُسی وقت نرگس بائی ہال میں داخل ہوئی تو وہ اجازت لیتا ہوا وہاں سے اٹھ گیا، حالانکہ اس کا دل جانے کو نہ چاہ رہا تھا۔ جاتے ہوئے بھی وہ کئی بار مڑ کر نگار کو دیکھتا رہا۔ جب بھی ان کی نظریں ملیں، وہ مسکرا دی اور کچھ اس طرح دیکھا، گویا کہہ رہی ہو کہ دوبارہ ضرور تشریف لائیے گا۔ وہ نگار کی لگاؤٹ بھری مسکراہٹ اور نظروں سے ٹپکنے والے پیغام کو دیکھ کر خاصا مسرور تھا۔ اس کے جاتے ہی نرگس بائی کا موڈ بگڑ گیا۔ خوش اخلاقی اور نرمی کے آثار جو اس کے چہرے سے ظاہر ہو رہے تھے، ایک دم زائل ہو گئے۔ نگار اپنی چوٹی سے کھیلتے ہوئے، اپنے خیالات میں کھوئی ہوئی تھی کہ نرگس کی بڑبڑاہٹ سن کر چونکی اور اس کی جانب متوجہ ہوئی۔آیا بڑا وڈیرا، پورے دو گھنٹے میں تمہارے فن کی قیمت اس ہار کی صورت میں ادا کی ہے اس نے۔ نرگس بائی نے ہار لہرایا۔ میرے خیال میں یہ بہت مناسب قیمت ہے۔ نگار بولی تو نرگس کو برا لگا۔ تمہیں اس کی دی ہوئی قیمت مناسب لگ رہی ہے؟ پندرہ سال بیت گئے تمہیں اس پیشے سے وابستہ ہوئے، مگر مجال ہے جو تمہیں مردوں کی جیبیں خالی کرنے کا فن آیا ہو۔ 

میں تمہاری دوست ہوں دشمن نہیں۔ اپنے فن کا صحیح حرج وصول کرو۔ سالار کوئی معمولی آدمی نہیں ہے، اس کے جذبات کا فائدہ اٹھاؤ، کوئی بنگلہ یا کوٹھی اپنے نام لکھواؤ۔ نگار بے دلی سے نرگس بائی کی بات سن رہی تھی۔ اب وہ اسے کیسے بتاتی کہ وہ اپنا دل سالار کے قدموں میں رکھ چکی ہے۔ اس کے دل کی دنیا سالار کے تصور سے آباد تھی۔ محبت کی آگ دونوں طرف سے لگی ہوئی تھی۔ 

کھڑکی کے پردوں سے جھلکتی دھوپ دن چڑھنے کا اعلان کر رہی تھی۔ نگار خانم انگڑائی لیتے ہوئے بیدار ہو گئی۔ آج اس کی آنکھ وقت سے کچھ پہلے کھل گئی تھی۔ شاید اس کی وجہ گلی سے آتی لوگوں کی آوازیں تھیں۔ اس نے گھڑی پر نظر ڈالی، ابھی صرف بارہ بجے تھے۔ وہ بستر سے اٹھی اور پاؤں میں چپل ڈالتے ہوئے کھڑکی میں جا کھڑی ہوئی۔ سامنے والے چوبارے کے پاس لوگوں کا مجمع اکٹھا تھا۔اتنے میں رخسار اس کے کمرے میں داخل ہوئی، تو نگار خانم اسے دیکھتے ہی پوچھ بیٹھی، یہاں مجمع کیوں اکٹھا ہے؟ کیا کسی کی لڑائی ہو گئی ہے؟لڑائی تو نہیں ہوئی، کوئی اپنا بچہ یہاں چھوڑ گیا ہے۔ رخسار نے اپنے بالوں کو لپیٹتے ہوئے جواب دیا۔بچہ یہاں چھوڑ گیا ہے؟ بھلا کوئی اتنی قیمتی چیز یوں پھینکتا ہے؟ نگار بڑبڑائی۔حرامی بچہ ہو گا، تبھی تو کوئی یہاں چھوڑ گیا۔رخسار منہ بنا کر بولی۔ مجھے تو اس بچے پر ترس آ رہا ہے۔ یہ تکلیف میں ہے، تبھی گلا پھاڑ کر رو رہا ہے۔ رونے دو، تمہارا بچہ تھوڑی ہے جو تمہیں ہمدردی ہو رہی ہے۔ ویسے بھی تمہیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کوئی نہ کوئی پولیس کو خبر کر دے گا، وہ اسے لے جائے گی اور کسی فلاحی ادارے میں چھوڑ دے گی۔ میں ذرا نیچے جا رہی ہوں، جانے کسی نے پولیس کو خبر کی بھی ہے یا نہیں۔ تم بھی کسی جھنجھٹ میں پڑ رہی ہو۔ نرگس آپا ناراض ہوں گی۔ رخسار کی بات ان سنی کرتے ہوئے نگار کمرے سے نکلی اور سیڑھیاں اترنے لگی۔ پورا دن اسپتال میں گزارنے کے بعد جب شام ڈھلے وہ لوٹی، تو نرگس بائی کے تیور بگڑے ہوئے تھے۔ کیا ضرورت تھی تمہیں سڑک پر پڑے بچے کو اسپتال لے جانے کی؟ اپنی صورت دیکھی ہے تم نے؟ تھکن سے چہرہ اترا ہوا ہے۔ اس حالت میں تم کیا خاک مجرا کرو گی؟ وہ اسے دیکھتے ہی بولی۔زندگی میں ہر کام پیسے کے لیے تو نہیں کیا جاتا۔ انسانی ہمدردی بھی کوئی چیز ہے۔ 

جس لاوارث بچے کو میں اسپتال لے کر گئی تھی، چیونٹیوں نے اس کے پورے جسم کو کاٹ ڈالا تھا۔ شکر ہے وہ بچ گیا۔ اب اس کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ اس کے علاج کی تمام ذمے داری میں نے لے لی ہے۔ جب وہ ٹھیک ہو جائے گا، تو فلاحی ادارے والے لے جائیں گے۔ اس کی پرورش پر جو اخراجات ہوں گے، وہ میں دوں گی۔ نگار خانم نے کسی دباؤ میں آئے بغیر کہا، تو نرگس بائی کو اپنے لہجے کی ناگواری کا احساس ہوا۔ وہ نرم لہجے میں بولی، میں تو تمہیں سمجھا رہی تھی۔ پرائے بچے کی ذمہ داری اپنے سر لینا آسان نہیں۔ اگر تمہاری خوشی اسی میں ہے، تو شوق سے نیکی کرتی پھرو۔ وڈیرے سالار کا فون آیا تھا، وہ تم سے ملنے آ رہا ہے۔ تمہارے من پسند عاشق کو میں منع کر کے ناراض تو نہیں کر سکتی تھی، اس لیے بلا لیا۔ مگر سالار نے تو مجھ سے کہا تھا کہ وہ کچھ دنوں کے لیے یہاں نہیں آئیں گے، وہ گاؤں جا رہے ہیں۔ نگار بولی۔ارادہ بدلتے دیر کتنی لگتی ہے۔ سچا عاشق ہے وہ تمہارا… دل کہیں بھی ہو، تمہاری محبت کھینچ لاتی ہے اسے۔ اب جاؤ، جا کر فریش ہو جاؤ۔ نرگس بائی نے کہا، تو وہ تھکے قدموں سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔

مجھے گاؤں جانا تھا، مگر تمہاری چاہت یہاں کھینچ لائی۔ سالار نے گلاب کی آدھ کھلی کلی اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ کچھ توقف کے بعد وہ مزید گویا ہوا، نگار، میں اب تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میری غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ تم اپنی ناز و ادا سے دوسروں کا دل بہلاؤ۔ کل بھی میں تم سے ضروری باتیں کرنا چاہتا تھا، مگر نہ کر سکا۔ میری نظر میں تمہاری بہت عزت ہے۔ میں نے تمہیں کبھی مالِ تجارت نہیں سمجھا، اور نہ ہی میں خود کو تمہارا گاہک سمجھتا ہوں۔ مجھے تم سے بے حد محبت ہے۔ میرا دل ایک ایسی آگ میں جل رہا ہے، جس میں تمہاری محبت کے سوا ہر شے جل کر راکھ ہو گئی ہے۔ میں تمہیں اپنانا چاہتا ہوں۔نگار، جو چپ سادھے اس کی باتیں سن رہی تھی، اس نے دکھ بھرا سوال کیا، آپ کی بیوی اور بچے مجھے قبول کر لیں گے؟انہیں قبول کرنا ہو گا۔ میرے پاس اتنی دولت ہے کہ میں دو کیا، چار بیویاں رکھ سکتا ہوں۔ سالار نے محبت سے معمور لہجے میں جواب دیا، تو نگار خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کرنے لگی۔ کسی کی بیوی بننا اس کا خواب تھا اور وہ اس خواب کی تعبیر چاہتی تھی۔ 

میں نے ایسا کیا کہہ دیا جو تم گم صم سی ہو گئی ہو؟ اسے سوچتا دیکھ کر سالار نے نرمی سے پوچھا۔میں حیران ہوں کہ آپ نے اتنا بڑا فیصلہ کیسے کر لیا؟ آپ ایک خاندانی شخص ہیں، پھر بھی آپ نے مجھے اس قابل سمجھا۔ آپ کے لیے اچھی لڑکیوں کی کمی تو نہیں ہے۔ نگار نے جواب دیا۔ اسے اپنی حیثیت کا بخوبی اندازہ تھا۔ ایک ناچنے گانے والی عورت کو سالار جیسا باوقار اور سماجی حیثیت رکھنے والا شخص اپنی بیوی بنانے جا رہا تھا — یہ اس کے لیے کسی معجزے سے کم نہ تھا۔صحیح کہا تم نے، میرے لیے لڑکیوں کی کمی نہیں، مگر دل پر کسی کا زور نہیں ہوتا۔ تم اپنی کہو، کیا تم مجھ سے شادی پر راضی ہو؟مجھے بھلا کیا اعتراض ہو گا آپ کی بیوی بننے پر؟ میں تو خود یہاں سے نکلنا چاہتی ہوں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ یہاں سے بھاگ جاؤں، مگر کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اب آپ کے طفیل مجھے یہاں سے جانے کا موقع مل رہا ہے، تو میں اپنی ساری زندگی آپ کے نام کرنا چاہتی ہوں۔ نگار کی آواز جذبات سے بوجھل ہو گئی۔ٹھیک ہے، تم راضی ہو تو میں نرگس بائی سے بات کر لیتا ہوں۔ تمہیں پانے کے لیے میں اس کی ہر شرط پوری کروں گا، کیونکہ مجھے تم سے سچی محبت ہے۔ سالار نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا، پھر بولا، میں زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا قائل ہوں کیونکہ یہ ایک بار ہی ملتی ہے۔ جب تک بابا حیات تھے، میں نے ان کی ہر بات مانی۔ اب ان کے دنیا سے جانے کے بعد کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ مجھے اپنی مرضی کی زندگی گزارنے سے روکے۔ بہت جلد ہمارا نکاح ہو گا اور تم میرے ساتھ اُس کوٹھی میں رہو گی، جو تمہاری ملکیت ہوگی۔

حیرت سے پلکیں جھپکاتی نگار خانم خواب کی سی کیفیت میں تھی۔ وہ اپنی زندگی کے باقی دن سالار کے سنگ گزارنا چاہتی تھی۔ آنے والے دنوں میں سالار نے نرگس بائی سے تمام معاملات طے کرنے کے بعد نگار خانم سے نکاح کر لیا۔ شادی کے بعد وہ اس کوٹھی میں منتقل ہو گئی، جو سالار نے اس کے لیے خریدی تھی۔ وہ مستقل اس کے ساتھ نہیں رہ سکتا تھا، اور نگار اس کی غیر موجودگی میں کوٹھی میں تنہا نہیں رہ سکتی تھی۔ اس لیے کل وقتی طور پر دو ملازموں کا بندوبست کیا گیا، جو میاں بیوی تھے۔ فیض بخش ایک قابلِ بھروسہ آدمی تھا، جسے سالار نے گاؤں سے بلوا کر اس کی بیوی سمیت رکھا تھا۔ سالار کی یہ تیسری شادی تھی۔ اس کی پہلی بیوی، دوسری بیٹی کی پیدائش کے دوران وفات پا گئی تھی۔ اس کے بعد سالار نے اپنے باپ کی خواہش پر اپنی مرحومہ بیوی کی بہن، غزل سے شادی کر لی تھی۔ غزل اس کی چچازاد بھی تھی۔ نگار سے شادی کے متعلق اس نے غزل کو کچھ نہیں بتایا تھا، لیکن غزل کو یہ بات اس کے بھائی کی زبانی معلوم ہو گئی تھی۔ اور یہ خبر سن کر وہ شدید غم اور غصے کی کیفیت سے دوچار ہو گئی تھی۔ بڑی حسین عورت ہے، جس سے سالار نے شادی کی ہے۔ اسے دیکھ کر چاند بھی شرما جائے۔ اگر اس سے سالار کی اولاد ہو گئی، تو وہ تمہارے بچوں کی جائیداد میں حصے دار بن بیٹھے گی۔ تم نے سالار سے ذکر کیا تھا، اس پر وہ کیا بولا تھا؟ سرمد نے پوچھا۔ پہلے تو وہ مسکرا دیا کہ اس نے شادی کی ہے، مگر جب میں نے ثبوت پیش کیے، تو اس نے مان لیا۔ تم نے کہا نہیں کہ وہ اس عورت کو طلاق دے؟کہا تھا، مگر اس نے انکار کر دیا۔ بقول اس کے، اس نے گناہ کے دلدل میں پھنسی ایک عورت کو باعزت زندگی دی ہے۔ وہ اپنی نیکی کو ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ غزل نے جواب دیا۔ 

بڑا مولوی بن رہا ہے۔ میں آج یہیں رکا ہوں، رات میں اس سے بات کر کے جاؤں گا۔ سرمد نے فکر مندی سے کہا۔اسی رات اس نے سالار سے بات کی۔ سالار، تم نے اچھا نہیں کیا کہ ایک طوائف سے شادی کر لی۔ خاندانی مرد کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ کسی بازاری عورت سے نکاح کرے۔ کل کلاں کو تمہاری اس سے اولاد ہو گئی، تو وہ وراثت میں حق دار ہو جائے گی۔ اور ہماری خاندانی جائیداد کنجروں میں تقسیم ہو، یہ مجھے گوارہ نہیں۔یہ سن کر سالار کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ سرمد، تم کچھ زیادہ ہی بول رہے ہو۔ اولاد ابھی ہوئی نہیں اور تم نے جائیداد کی تقسیم شروع کر دی۔ اس نے غصے سے کہا۔ جب تم نے چھپ چھپا کر تیسری شادی کر ہی لی ہے، تو بچے بھی ہو ہی جائیں گے، جو میرے بچوں کا حق غضب کریں گے۔ پھر وہ تمہاری منکوحہ ہے، کل کو اگر تمہیں کچھ ہو گیا، تو وہ بھی وراثت میں میری طرح حق دار ہو گی۔ پہلے ہی تم نے اس پر کیا کم لٹایا ہے؟ گلبرگ کے مہنگے علاقے میں اسے کوٹھی دینے کے علاوہ بھاری رقم اس کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کی ہے۔ اس کی ماں کو بھی بہت کچھ دے چکے ہو۔ سالار، تم میرا اور میرے بچوں کا حق مار رہے ہو۔ یہ شادی آگے چلی، تو وہ نہ جانے اور کیا کچھ اپنے نام کرالے گی۔

 غزل نے تنقیدی انداز میں کہا۔ مجھے جو کچھ نگار کو دینا تھا، دے دیا۔ تم لوگ فضول کی باتیں کر کے مجھے پریشان کر رہے ہو۔ تم بہن بھائی لکھ لو کہ میں نگار کو طلاق نہیں دوں گا۔ سالار کسی طور بھی نگار کو چھوڑنے پر آمادہ نہ تھا۔غزل اور سرمد کے چہروں پر پریشانی چھا گئی کیونکہ سالار کسی دباؤ میں نہیں آ رہا تھا۔ غزل سے شادی کے بعد سالار کی کئی عورتوں سے وابستگی رہی اور وہ ان پر پیسے بھی لٹاتا رہا، مگر غزل نے کبھی ہنگامہ نہیں کیا۔ لیکن نگار کا معاملہ مختلف تھا۔ وہ اب اس کی سوکن بن کر قانونی حیثیت میں برابر کی شریک تھی، اور یہی بات غزل کو سب سے زیادہ کھٹک رہی تھی۔