طوائف زادی کا حج - آخری حصہ

Sublimegate Urdu Stories

یہ سالن لیں ناں میں نے خاص طور سے آپ کے لیے بنایا ہے۔ نگار نے ڈش سالار کی طرف بڑھائی تو اس نے تھوڑا سا سالن پلیٹ میں ڈال لیا۔ آپ کی خاطر میں نے کھانا بنانا سیکھا اور آپ ہیں کہ بہت تھوڑا سا کھاتے ہیں۔ وہ لگاوٹ سے بولی۔اچھا خاصا تو کھاتا ہوں۔ تم کھانا اتنا اچھا بناتی ہو کہ جی چاہتا ہے پوری ڈش اکیلے کھالوں، سالار نے تعریف کی، پھر خاموشی سے کھانا کھانے لگا۔آپ کی غیر موجودگی میں، میں بہت بور ہو جاتی ہوں۔ آپ مجھے اپنے ساتھ کبھی گاؤں نہیں لے جاتے۔ میرا بھی دل چاہتا ہے کہ آپ کی فیملی سے ملوں۔ نگار، یہاں تمہیں کوئی کمی ہے، جو تمہارا وہاں جانے کو دل کرتا ہے؟ میں ویسے ہی بہت پریشان ہوں، اوپر سے تمہاری بے تکی باتیں۔ سالار کا لہجہ ایک دم تلخ ہو گیا تھا۔ تھوڑا سا کھا کر اس نے پلیٹ رکھ دی۔ سوری … میری بات اگر آپ کو بری لگی۔ نگار نے دھیمے لہجے میں کہا۔ جانے مجھے کیا ہو گیا ہے؟ ذرا ذرا سی بات پر غصے سے آؤٹ ہو جاتا ہوں۔ ذہنی سکون ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ جب بھی گاؤں جاتا ہوں، غزل آپے سے باہر ہو جاتی ہے۔ وہ تمہارے پیچھے پڑگئی ہے اور تمہیں اس سے ملنے کا شوق ہو رہا ہے۔ سالار کا لہجہ طنزیہ تھا۔ چھوڑیں اس ذکر کو… آپ بریانی تو لیں ناں۔ بس جو کھانا تھا، کھالیا۔ 

غزل نے تم سے کھلم کھلا دشمنی کا اظہار کر دیا ہے۔ میں اس کے پریشر میں نہیں آیا تو اس نے میرے بچوں کی ہمدردی حاصل کر کے انہیں اکسایا ہے کہ مجھے مجبور کریں۔ بیٹیوں نے تو اس معاملے پر مجھ سے کوئی بات نہیں کی، وہ دونوں مجھ سے اٹیچڈ نہیں ہیں، البتہ دونوں بیٹے جو میرے ساتھ دوستوں کی طرح رہتے ہیں، ماں کی جذباتی بلیک میلنگ میں آکر مجھ سے بدتمیزی پر اتر آئے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ میں تمہیں طلاق دے دوں۔ سالار نے اپنی پریشانی اس کے سامنے رکھ دی تھی۔آپ کے بیٹے بارہ، پندرہ سال کے ہیں۔ وہ اتنے چھوٹے نہیں کہ معاملے کی نوعیت کو نہ سمجھ سکیں۔ میں تو یہ سن کر پریشان ہو گئی ہوں جانے آگے کیا ہو گا؟ نگار خانم کے چہرے پر تفکر کے آثار تھے۔ اسے نرگس بائی کی باتیں یاد آرہی تھیں، جو اس نے نکاح سے قبل اس سے کہی تھیں کہ بہت جلد تم دوبارہ یہاں پر ہو گی۔ مرد کے لیے نکاح کے بعد عورت کو چھوڑ دینا آسان ہوتا ہے۔ بس تین الفاظ کہہ دیئے اور قصہ ختم۔ کل جب سالار کا دل بھر جائے گا یا اس پر گھر والوں کا دباؤ بڑھے گا، تو وہ تمہیں فارغ کر دے گا۔ نگار کیا سوچ رہی ہو؟ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ میرا مسئلہ ہے کہ گھر والوں کو کیسے سنبھالنا ہے۔ ابھی ہماری شادی کی شروعات ہے۔ میری بیوی کے لیے تمہیں سوکن کے روپ میں قبول کرنا مشکل ہے۔ آہستہ آہستہ وہ خود ہی چپ سادھ لے گی۔ ویسے بھی میں نے کون سا گناہ کیا ہے، جو ان کے دباؤ میں آؤں۔ سالار کے تسلی دینے پر نگار کو کچھ حوصلہ ہوا۔
٭٭٭
سالار انکم ٹیکس کے سلسلے میں اپنے دوست ساحل کے پاس موجود تھا۔ ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد ساحل نے کہا، سالار، میں تم سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں، اگر تم برا نہ مانو۔ ہاں، کہو۔میں تمہیں اپنے بھائی جیسا سمجھتا ہوں، اس لیے ایک بات سمجھانا چاہتا ہوں۔ تم جیسے خاندانی مرد کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ نگار خانم جیسی عورت کو بیوی بنا کر رکھے۔ کچھ دن پہلے میرے پاس غزل بھابی کا فون آیا تھا۔ بہت پریشان ہیں۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ میں تمہیں سمجھاؤں، اس لیے میں نے سوچا تم سے اس موضوع پر کھل کر بات کروں۔ سالار، تم سمجھدار ہو۔ نگار جیسی عورت کو گھر میں رکھ کر دردسری کو مول لینے کا کیا فائدہ؟ وہ ایک ڈھلتی عمر کی عورت ہے۔ چند سالوں میں اس کی ڈیمانڈ ختم ہو جاتی، اس لیے اس نے تمہارا ہاتھ تھام لیا۔ پلیز ساحل، تم اس کے علاوہ کسی موضوع پر بات کرو۔ مجھے اس سے عشق ہے، تبھی میں نے اس سے شادی کی۔ وہ اب میری بیوی ہے اور باعزت زندگی گزار رہی ہے۔ بہتر ہو گا اس کے ماضی کے حوالے سے تم کیچڑ نہ اچھالو۔ سالار نے ٹھوس لہجے میں کہا تو ساحل کی مزید کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوئی۔ 

وڈیرہ سائیں، آپ سے ملنے کے لیے سرمد سائیں آئے ہیں۔ فیض بخش نے آکر اطلاع دی تو سالار متعجب ہوا۔ سرمد یہاں پر؟ وہ زیر لب بڑبڑایا۔ اس وقت رات کے دس بجے تھے۔ وہ نگار کے ساتھ کافی پینے میں مصروف تھا۔ ٹھیک ہے، انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھاؤ، میں آتا ہوں۔ سالار نے اس سے کہا، پھر نگار سے مخاطب ہوا۔ میں نے تم سے غزل کے بھائی سرمد کا ذکر کیا تھا۔ وہ ضرور یہاں کوئی فساد کھڑا کرنے آیا ہے ۔تو آپ کو اسے اندر بٹھانے کی کیا ضرورت تھی؟ گیٹ سے چلتا کر دیتے۔ نگار نے پریشان ہو کر کہا۔ سالار اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے اٹھ کر ڈرائنگ روم میں پہنچا، تو اس نے سرمد کو اپنا منتظر پایا۔ تم یوں بغیر اطلاع دیے یہاں چلے آئے۔ کم از کم آنے سے پہلے اطلاع تو کر دیتے۔ سالار نے سلام کا جواب دیتے ہوئے خوش دلی سے کہا، تو سرمد گویا ہوا۔غزل اور بچوں سے قطع تعلق کیے، تم پندرہ دن سے یہاں ہو۔ مجھے تم سے ضروری کام تھا۔ پتا نہیں تم میرا فون ریسیو کرتے یا نہیں۔ اس لیے بغیر اطلاع دیے چلا آیا۔ ٹھیک ہے، کیا کام ہے مجھ سے؟ سرمد نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک کاغذ نکالا اور اسے سالار کے سامنے ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا، اس پر سائن کر دو۔ اس کی رو سے تم نگار کو طلاق دے رہے ہو۔ تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے! مجھے اگر نگار کو چھوڑنا ہوتا، تو میں اُس سے شادی ہی کیوں کرتا؟ تو تم یوں نہیں مانو گے۔ 

سرمد نے جملہ ادھورا چھوڑ کر جیب سے ریوالور نکال لیا۔اچھا! تو اب تم مجھ پر گولی چلا کر اپنی بہن کو بیوہ کر دینا چاہتے ہو؟ سالار غصے میں دھاڑا۔ تو ٹھیک ہے، میں اس فساد کو ہی ختم کر دیتا ہوں۔ سرمد نے یہ کہتے ہوئے ٹرائیگر دبا دیا۔ سالار نے تیزی سے نگار کو اپنے پیچھے کر کے بچانا چاہا، نتیجے میں ریوالور سے نکلی ہوئی گولی اس کے سینے میں گھستی چلی گئی۔ وہ اسی وقت دم توڑ گیا۔ نگار چیختی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔ اس نے دروازے کو باہر سے لاک کر دیا۔ سرمد سخت حواس باختہ تھا، مگر اس کی یہ حالت چند منٹ کی تھی۔ نگار نے فوراً ہی پولیس کو کال کر دی تھی۔ ابتدائی مرحلے پر پولیس نے اس کیس کے سلسلے میں نگار کو شاملِ تفتیش کیا تھا، کیونکہ سرمد نے قتل کا الزام اس پر لگایا تھا، مگر عدم ثبوت کی بنا پر وہ بری کر دی گئی۔

ڈور بیل کئی بار بجی، تو نگار ماضی سے حال میں لوٹ آئی۔ اس کی نگاہ وال کلاک پر پڑی۔ رات کے ساڑھے
 گیارہ بج رہے تھے۔اس وقت کون ہو سکتا ہے، وہ بڑبڑائی۔ بیرونی دروازے پر جمال الدین کھڑے تھے۔ نگار نے مینٹی نینس کی رقم ان کے حوالے کی تو وہ رسید دیتے ہوئے گویا ہوئے کہ نگار صاحبہ، میں اپنی بیوی کے رویے پر شرمندہ ہوں۔ آپ اتنی محبت سے کھانا لائیں اور انہوں نے آپ کی بے عزتی کر ڈالی۔ ہو سکے تو آپ ہمیں معاف کر دیجئے گا۔ جمال صاحب، آپ کو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں، میں نے انہیں معاف کر دیا ہے۔ نگار نے یہ کہہ کر دروازہ بند کر دیا۔ اسے جمال الدین بھلے آدمی لگے تھے۔

اگلے دن شام کے وقت جمال الدین، واجدہ بیگم کو لے کر ڈاکٹر کے ہاں جانے کے لیے نکلے، تو انہیں داخلی گیٹ پر نگار کار میں بیٹھی نظر آئی۔ گلابی رنگ کے سوٹ میں وہ خود بھی گلاب کا پھول لگ رہی تھی۔ میک اپ سے مزین چہرے میں وہ کل سے کافی مختلف دکھائی دے رہی تھی۔ وہ ہنس ہنس کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص سے باتیں کر رہی تھی۔ جمال الدین نے رکشے کی تلاش میں نظریں دوڑائیں، اُسی وقت نگار جس کار میں بیٹھی تھی، وہاں سے روانہ ہو گئی۔ جو آپ نے مجھے اتنی باتیں سنا دی تھیں، میں نے تو اسے اس کی اوقات یاد دلائی تھی۔ جہنم میں جائے گی یہ عورت اور اپنے ساتھ ان مردوں کو بھی لے کر جائے گی، جو اس کے حسن سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔ واجدہ بیگم نے جل کر کہا۔ واجدہ بیگم، ہمیں کیا پتا کہ کون جنتی ہے اور کون جہنمی؟ توبہ کا دروازہ تو موت تک کھلا رہتا ہے۔ دنیا بہت ظالم ہے۔ یہاں ہر کوئی دوسرے کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔واجدہ بیگم، جن کے چہرے پر ناگواری پہلے ہی پھیلی ہوئی تھی، شوہر کی بات پر ان کا موڈ مکمل آف ہو گیا۔ انہیں جمال الدین کا یوں نگار کی طرف داری کرنا برا لگا۔ وہ تپ کر بولیں، آپ بڑی سائڈ لے رہے ہیں اس کی۔ کہیں اس نے آپ کو دعوتِ گناہ تو نہیں دے ڈالی ہے؟ کس قسم کی باتیں کر رہی ہو تم؟ یہاں رکشے میں بیٹھ کر ایسی باتیں کرنا زیب نہیں دیتا تمہیں۔ ساری زندگی گزار دی تمہارے ساتھ، پھر بھی تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں ہے۔ جمال الدین کا موڈ بھی خراب ہو گیا۔ 

باقی کا سفر ان دونوں نے خاموشی سے طے کیا۔ جمال الدین اور ان کی بیگم کی دلی خواہش تھی کہ وہ حج پر جائیں۔ گزشتہ سال دونوں میاں بیوی نے حج کی درخواست جمع کرائی تھی، جو مسترد ہو گئی تھی، البتہ اس سال ان کا نام فہرست میں آ گیا تھا۔ تمام جاننے والے ان کو مبارک باد دینے آ رہے تھے۔ کمپاؤنڈ میں جمال الدین کی سرسری سی ملاقات نگار سے ہوئی، تو اس نے بھی مبارک باد دے ڈالی۔ جمال صاحب، آپ حج پر جا رہے ہیں۔ وہاں مجھ بد نصیب کے لیے ضرور دعا کیجئے گا کہ مجھے بھی یہ سعادت نصیب ہو۔ میں نے بھی درخواست جمع کرائی تھی، مگر میرا نام نہیں آیا۔ آئندہ سال پھر کوشش کروں گی۔ جمال الدین کو نگار کا یوں راستہ روک کر باتیں کرنا عجیب سا لگ رہا تھا۔ ہاں ہاں، میں ضرور دعا کروں گا۔ خدا نے چاہا، تو آپ کو حج کی سعادت ضرور نصیب ہو گی۔ یہ کہہ کر وہ زینے کی جانب بڑھ گئے۔ گھر میں داخل ہوئے تو واجدہ بیگم جیسے ان ہی کی منتظر تھیں۔ پوری بلڈنگ میں ایک آپ ہیں، جو اس کنجری کو منہ لگاتے ہیں۔ دنیا میں نیک لوگ ختم ہو گئے، جو نگار جیسی عورتیں حج کرنے جائیں گی۔ واجدہ بیگم انہیں دیکھتے ہی چمک کے بولیں۔ جمال الدین اس وقت الجھنے کے موڈ میں نہیں تھے، پھر بھی بولے کہ آپ کی یہی عادت بہت بری ہے۔ جب دیکھو، آؤ دیکھا نہ تاؤ، زبان زہر اگلتی ہے۔ نگار مسلمان ہے، اس پر بھی ہماری طرح حج فرض ہے۔ اب یہ تو خدا کی مرضی ہے، وہ جسے چاہے اپنے گھر کی زیارت کے لیے بلائے۔ آپ یا میں کون ہوتے ہیں فیصلہ کرنے والے؟واجدہ بیگم نے کچھ کہنا چاہا، مگر پھر لبوں کو سختی سے بھینچ لیا۔

 اگلے مہینے وہ دونوں حج کو روانہ ہو گئے۔ فرائض کی ادائیگی کے دوران، لاکھوں کے مجمع میں واجدہ بیگم کا ہاتھ شوہر کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور وہ لوگوں کے ریلے میں کہاں سے کہاں نکل گئیں۔ گرمی کی شدت سے انہیں اپنا دم گھٹتا محسوس ہوا اور وہ چکراتے ہوئے گر پڑیں۔ موت ان کی آنکھوں کے سامنے ناچنے لگی تھی۔ کسی نے اپنا پاؤں ان کی ٹانگوں پر رکھا تو خوف سے ان کی چیخ نکل گئی۔ اُسی وقت کسی نے ان کا ہاتھ پکڑ کر سہارا دے کر کھڑا کر دیا۔ حواس بحال ہونے پر انہوں نے پاس کھڑی عورت کے چہرے پر نگاہ کی، جس نے اس نازک گھڑی میں ان کی مدد کی تھی۔ انہیں اپنا ہاتھ تھامے نگار کھڑی نظر آئی۔ وہ اپنی محسن کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھیں، مگر حواس باختہ ہو گئی تھیں۔ نگار انہیں گھسیٹتی ہوئی ریلے سے دور نکال لائی تھی۔ رش میں سے نکلتے ہی نگار نے ان کا ہاتھ چھوڑا تو ان کی نظر جمال الدین پر پڑی۔ ان کو دیکھتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔آپ مجھے اتنی بھیڑ میں چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے؟ اگر مجھے کچھ ہو جاتا تو؟میں نے جان کر تمہارا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔ وہاں رش ہی اتنا تھا، ہر کوئی آگے بڑھنے کے چکر میں تھا۔ شکر ہے، تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔نقصان کیا، میں تو جان سے جاتی، اگر نگار آگے بڑھ کر مجھے نہ بچا لیتی۔ وہی مجھے یہاں پہنچا کر گئی ہے، ورنہ آج میرا قصہ تمام ہوتا۔ نگار؟ وہ یہاں کہاں سے آ گئی؟ اس نے تو مجھے خود بتایا تھا کہ اس کی حج کی درخواست ریجیکٹ ہو گئی ہے۔ تم نے ضرور کسی اور کو دیکھا ہے۔ جمال الدین کے لہجے میں حیرانی تھی، تبھی واجدہ بیگم نے نگار کی تلاش میں نظریں دوڑائیں، مگر وہ تو رش میں کہیں اور نکل گئی تھی۔جانے کہاں چلی گئی وہ؟ میں تو اس کا شکریہ بھی ادا نہ کر سکی۔ کوئی بات نہیں، اب ملاقات ہو تو شکریہ ادا کر دینا۔ انہوں نے یہ کہہ کر بیگم کو مطمئن کر دیا، جبکہ دل میں وہ سوچ رہے تھے کہ ضرور ان کی بیوی کو غلط فہمی ہوئی ہے۔

حج کی ادائیگی کے بعد وہ اپنے گھر پہنچے، تو پڑوس کے لوگ مبارک باد دینے آ گئے۔ ذکیہ بانو بھی کچھ عورتوں کے ہمراہ مٹھائی کا ڈبہ اور ہار پھول لیے پہنچیں۔ واجدہ بیگم نے اپنے سفر کے بارے میں بتاتے ہوئے نگار سے ملاقات کا ذکر بھی کر ڈالا۔ ذکیہ، جس وقت میں گری، میں نے سمجھ لیا تھا کہ میرا آخری وقت آ گیا ہے۔ بھلا ہو نگار کا، جانے وہ کیسے وہاں پہنچ گئی اور مجھے نہ صرف اٹھایا، بلکہ رش کی جگہ سے دور لے گئی۔انہوں نے بتایا، تو ذکیہ بانو سمیت تمام پڑوسنیں حیرت سے ان کے چہرے کو تکنے لگیں۔آپ کس نگار کی بات کر رہی ہیں؟ارے، اپنی پڑوسن نگار خانم کی۔ مذاق نہ کریں واجدہ آپا، وہ تو آپ کی روانگی کے چند دن بعد کہیں جانے کے لیے نکلی، تو اسے گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ قتل کر دیا؟ مگر کس نے؟قتل کا تو پتا نہیں، مگر لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس کے شوہر کا سالا، جو جیل میں ہے، اسی نے نگار کو قتل کروایا ہے۔ وہی تو چشم دید گواہ تھی اس کے جرم کی۔ یہ تو بہت غلط ہوا۔ پولیس نے قاتلوں کو نہیں گرفتار کیا؟پولیس اثر و رسوخ والے بندے کے قاتلوں کو ڈھونڈ لے، وہی بہت ہے۔ اس کے پاس اتنا وقت نہیں کہ نگار جیسی طوائف کے قاتلوں کو ڈھونڈے۔ذکیہ بانو اور بھی کچھ کہہ رہی تھیں۔ 
واجدہ بیگم جو غائب دماغی سے ان کی باتیں سن رہی تھیں، ایک دم سے رونے لگیں۔استانی جی، آپ نگار جیسی عورت کی موت پر رو رہی ہیں؟ آپ تو اس کے وجود کو ناپاک کہتی تھیں۔ یہی تو میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ جس عورت کے وجود کو میں ناپاک کہتی تھی، خدا کو جانے اس کا کون سا عمل پسند آ گیا، جو اسے اپنے گھر بلا لیا۔انہوں نے روتے ہوئے کہا، تو ذکیہ بانو سمیت تمام خواتین حیرت سے انہیں دیکھنے لگیں۔ انہیں واجدہ بیگم کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی، جو نگار جیسی عورت کی موت پر ندامت کے آنسو بہاتے ہوئے اپنے بدصورت رویے پر شرمندہ تھیں۔

(ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ