Sublimegate Urdu Stories
بے بس اور مجبور لڑکی - مکمل اردو کہانی
ان دنوں مشرقی پاکستان کے حالات خراب تھے۔ یہ 1974ء سے قبل کا احوال ہے۔ ہم وہاں ایک شہر میں رہتے تھے۔ گزر بسر خوشحالی سے ہو رہی تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کے سیاسی حالات بگڑتے گئے، جس کا اثر کاروباری اور ملازمت پیشہ افراد پر بھی ہوا اور ایک روز کمپنی نے میرے ابا جان کو ملازمت سے برخاست کر دیا کیونکہ ان کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا۔
والد بیروزگار ہو گئے اور ہم معاشی طور پر مفلوج ہو کر رہ گئے۔ امی جان کا تعلق مغربی پاکستان سے اس طرح قائم تھا کہ یہاں ان کی منہ بولی بہن فوزیہ رہتی تھیں۔ وہ کئی بار امی کے پاس آ چکی تھیں۔ ان دنوں خط و کتابت رابطے کا ذریعہ تھی۔ خالہ فوزیہ باقاعدگی سے امی کو خط لکھتی تھیں اور وہ بھی ہر خط کا جواب باقاعدگی سے دیتی تھیں۔ درمیان میں ایک معاملہ یہ بھی تھا کہ فوزیہ خالہ مجھے پسند کرتی تھیں اور اپنی بہو بنانے کا ارادہ کر چکی تھیں۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا، جس کا نام سمیع تھا۔ وہ خوش شکل اور ہنس مکھ لڑکا تھا۔ امی کا بھی ارادہ اسے مستقبل میں داماد بنانے کا تھا۔
دونوں طرف زبانی بات چیت ہو چکی تھی لیکن منگنی وغیرہ نہیں کی گئی تھی۔ کسی کو خبر نہیں تھی کہ حالات اتنے خراب ہو جائیں گے کہ بنگالی لوگ مغربی پاکستانی بھائیوں کے خون کے پیاسے ہو جائیں گے۔ وہ اب ہمارا وہاں رہنا برداشت نہیں کر رہے تھے۔ جن کے کاروبار تھے، ان سے کاروبار لے لئے گئے، اور جو نوکریوں پر تھے، انہیں بے روزگار کر دیا گیا تاکہ ہم مغربی پاکستان کوچ کر جائیں۔ سب کو حالات سنبھلنے کا انتظار تھا۔ لوگ اپنا جما جمایا کاروبار چھوڑ کر نقل مکانی نہیں کرنا چاہتے تھے، لیکن حالات سنبھلنے کی بجائے خونی ہنگامے پھوٹ پڑے۔ تب امی میرے بارے میں متفکر ہو گئیں۔ ابھی وہ سوچوں میں تھیں کہ میرا جوان بھائی ریحان لاپتا ہو گیا۔ وہ ایک روز کالج گیا تو پھر نہ لوٹا۔ اس کی گمشدگی نے امی ابو کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ اب والد صاحب چاہتے تھے کہ مجھے اور امی کو پاکستان بھیج دیں، مگر والدہ کسی طور تیار نہ ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا جب تک میرا بیٹا نہیں ملے گا، میں کہیں نہیں جاؤں گی۔ ممتا کے فیصلے عجیب ہوتے ہیں۔ اس وقت جب چاروں طرف خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی، وہ بیٹے کے ملنے کی آس میں آگ میں گھری ہوئی تھیں اور ایک قدم ملنے پر تیار نہ تھیں۔ مجبوراً مجھے ایک واقف کار کنبے کے ہمراہ پاکستان فوزیہ خالہ کے گھر روانہ کر دیا گیا اور خود امی جان کے پاس رک گئے۔
میں جن لوگوں کے ہمراہ کراچی پہنچی تھی، وہ ہمارے پڑوسی اور شریف لوگ تھے۔ انہوں نے مجھے بحفاظت خالہ کے گھر پہنچا دیا اور خود لاہور چلے گئے۔ خالہ فوزیہ کا گھر بظاہر تو بڑا پرسکون تھا۔ خالو کی اچھی ملازمت تھی، اور سمیع اپنے دوست کے ساتھ کاروبار سیٹ کرنے میں لگا ہوا تھا۔ وہ زیادہ تر گھر سے باہر رہتا تھا۔ خالو صبح جاتے تو شام کو لوٹتے تھے۔ گھر میں اکیلی خالہ رہ جاتی تھیں۔ میرے آجانے سے وہ خوش ہو گئیں کیونکہ اب وہ اکیلی نہیں رہیں۔ وہ کچھ بیمار بھی رہتی تھیں، اسی لیے گھر کے کام کاج میں دقت محسوس کرتی تھیں۔ مجھ سے انہیں بہت آرام ملا کیونکہ گھر کی ذمہ داری میں نے سنبھال لی تھی۔ امی نے مجھے شروع سے ہی کام کی عادت ڈالی تھی، لہٰذا میں گھریلو کاموں میں طاق تھی۔ میرے سگھڑاپے پر خالو ابرار بھی بہت خوش تھے کہ اب انہیں گرم کھانا، دھلے ہوئے، استری شدہ کپڑے اور تمام ضروری اشیاء وقت پر مل جاتی تھیں۔ کچھ دن تو ٹھیک گزرے۔ میں یہاں آکر بظاہر مطمئن تھی، مگر اندر ہی اندر ماں باپ اور بھائی کی فکر کھائے جاتی تھی۔ ہنگاموں کی اطلاعات دل ہلا دینے والی آرہی تھیں، اس پر ستم یہ کہ امی ابو کا کوئی خط اور خیریت کی اطلاع نہیں آرہی تھی۔ نجانے وہ کس حال میں تھے۔
دن رات میں خالہ سے پوچھتی کہ کسی طرح پتہ کر لیں کہ امی ابو کس حال میں ہیں؟ خالہ تسلی دیتیں کہ بیٹی صبر کرو۔ سمیع کسی کام کے سلسلے میں باہر گیا ہوا ہے، وہ لوٹ آئے تو کہیں سے کھوج لگائے گا، مگر وہ گھر نہ آیا۔ ایک روز خبر آئی کہ وہ کسی گروہ کے ساتھ منشیات کی اسمگلنگ کرتے پکڑا گیا ہے۔ یہ خبر سن کر خالہ بستر پر پڑ گئیں اور پھر نہ اٹھ سکیں۔ بیٹے کے غم میں روز بہ روز کھلتی گئیں۔ والدین اور بھائی کا غم تو مجھے بھی کھائے جا رہا تھا، مگر میں مجبور تھی۔ سوائے انتظار کے کیا کر سکتی تھی۔ اپنوں سے ناتا ٹوٹ گیا تھا، اب تو فوزیہ خالہ اور ان کے شوہر کا آسرا ہی رہ گیا تھا۔ شکر کرتی تھی کہ ان کے گھر پناہ مل گئی، ورنہ جانے کہاں دھکے کھا رہی ہوتی۔ خالو نے بیٹے کو چھڑوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، روپیہ پانی کی طرح بہایا مگر اسے جیل سے رہائی نہ دلا سکے۔ خالہ فوزیہ پوری طرح بستر سے لگ گئیں۔ اب ان کے گھر کی تمام ذمہ داریاں میرے ناتواں کندھوں پر تھیں۔ کھانا پکاتی، برتن دھوتی، کپڑے، صفائی اور خالہ کی تیمار داری کے ساتھ، خالو کے بھی سبھی کام کرتی۔
صبح پانچ بجے اٹھتی تو کہیں رات گیارہ بجے لیٹنا نصیب ہوتا۔ لگتا تھا خالہ پر جو بربادی آنے والا تھا، اللہ تعالی نے مجھے یہاں پہنچا کر ان کے دکھ بانٹنے کا انتظام کر دیا تھا۔ میں ان کو باقاعدگی سے دوا پلاتی، ہاتھ منہ دھلاتی، کپڑے تبدیل کراتی، خالو کے دفتر کے کاغذات تک میں سنبھال کر رکھتی تھی۔ خالہ تو شام کو ہی نیند کی گولیاں کھا کر سو جاتی تھیں اور خالو دفتر سے رات کو دیر سے گھر آتے تھے۔ ان کا دفتر بھی گھر سے کافی دور تھا۔ مجھے ان کے آنے تک جاگنا پڑتا۔ وہ آتے تو میں کھانا گرم کر کے ان کے آگے رکھتی، پھر برتن سمیٹتی۔ جب وہ سو جاتے تب کہیں مجھے سونا نصیب ہوتا۔ خالہ بیٹے کے جیل جانے کے صدمے سے زیادہ بیمار ہو گئی تھیں۔ ڈاکٹر انہیں خواب آور گولیاں دیتے تھے کہ جاگتے رہنے سے زیادہ بیمار نہ ہو جائیں، مگر میری حالت ان سے زیادہ بری تھی کہ اب مجھے ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا تھا۔ سمیع ہی میری امید کی آخری کرن تھا اور وہ جیل میں تھا۔ اس کے دوست ساتھی بھی سب اس قماش کے تھے۔
اگر میری شادی اس سے ہو بھی جاتی تو بھی بھلا میرا مستقبل کیا تابناک ہو سکتا تھا۔ یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوتی اور چھپ کر رویا کرتی۔ اللہ سے سوال کرتی کہ اے خالق! مجھے زندہ رکھنے میں تیری کون سی مصلحت تھی؟ جب مجھے اپنے ماں باپ اور بھائی سے بچھڑ ہی جانا تھا۔ اس سے تو اچھا تھا کہ یہاں نہ آتی۔ خالہ تھیں کہ اچھا ہونے کا نام نہ لیتی تھیں۔ ان کی حالت سنبھلنے کی بجائے روز بہ روز بگڑتی جا رہی تھی۔ گولیوں کی مقدار انہوں نے بڑھا لی اور ہر وقت غنودگی میں رہنے لگیں۔ ان کو خبر ہی نہ تھی کہ گھر کس طرح چل رہا ہے، کیا ہو رہا ہے؟
ادھر حالات سے تنگ آکر خالو اکھڑے اکھڑے اور چڑچڑے رہنے لگے تھے۔ مجھ سے سیدھے منہ بات نہ کرتے، جیسے چاہتے ہوں کہ میں ان کے سامنے کم ہی جایا کروں۔ مجھے ان کے اس بدلے ہوئے رویّے کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ میں تو ایک بے بس اور مجبور لڑکی تھی، کہ ہر حال میں ان کے گھر میں پناہ لینے پر مجبور تھی۔ اس جگہ کے سوا میرا کوئی ٹھکانہ تھا اور نہ یہاں میرا کوئی اپنا تھا۔ کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتا کہ خالو مجھے بہت غور سے دیکھ رہے ہیں، مگر جب بھی میں ان کی طرف دیکھتی، وہ نظریں پھیر لیتے اور گھر سے باہر چلے جاتے۔ ان کا یہ انداز میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ان کو مجھ سے کوئی شکایت ہے، نفرت سے دیکھتے ہیں یا کسی اور جذبے سے۔ میری عمر سترہ برس تھی اور وہ سینتالیس سال کے تھے۔ ان کی اور میری عمر و عقل میں تیس برس کا فرق تھا۔ میں ناتجربہ کار تھی، لیکن اچھی اور بری نظر کا فرق محسوس کرنے لگی تھی۔ کبھی کوئی ایسا ویسا خیال آجاتا تو توبہ کرتی کہ یہ میرا خیال نہیں ہو گا۔ خالو بیچارے تو اپنی پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ بیٹا جیل میں اور بیوی بستر سے لگی ہے۔ بیچارے کیا کریں؟ ان کو تو کوئی تسلی دینے والا بھی نہیں ہے۔ شاید یہ سوچ انہیں پریشان کئے ہوئے ہے، تاہم میں اکیلی ایسے حالات میں گھری تھی کہ عقل کی آنکھیں بند نہیں کر سکتی تھی، اور خالہ روز بہ روز زیادہ بیمار ہو رہی تھیں۔ ایک روز ان کی طبیعت بہت خراب ہو گئی تو خالو ڈاکٹر کو گھر لے آئے۔
اس کے مشورے پر خالہ کو اسپتال میں داخل کرادیا گیا۔ خالہ اگرچہ بیمار تھیں اور چلنے پھرنے سے بھی معذور تھیں، تاہم گھر میں ان کی موجودگی میرے لئے ایک مضبوط قلعے کی طرح تھی۔ وہ اسپتال چلی گئیں تو ان کی غیر موجودگی، آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل والا معاملہ ہو گیا۔ خالو صبح آفس اور شام کو اسپتال چلے جاتے، تمام رات وہاں رہتے اور میں گھر میں بالکل اکیلی ڈرتی رہتی۔ چند دن بیمار رہ کر بالآخر فوزیہ خالہ اللہ تعالی کے پاس چلی گئیں۔ ان کے کفن دفن کے بعد دو چار دن پڑوس کی عورتیں باری باری رات کو میرے پاس آکر رہیں، پھر انہوں نے معذرت کر لی۔ بھلا روز روز کون اپنا گھر چھوڑ سکتی تھی؟ چار دن بھی نہ گزرے تھے کہ انہی عورتوں نے باتیں بنانی شروع کر دیں کہ جوان لڑکی کا اس طرح خالو کے ساتھ اکیلے رہنا اچھی بات نہیں، تب پڑوسیوں نے خالو کو صلاح دی کہ وہ یا تو کسی سے میری شادی کرادیں یا پھر مجھے میرے والدین کے پاس واپس بھیج دیں۔ میرے ماں باپ ہوتے تو وہ مجھے واپس بھیج دیتے، لیکن ان کا تو کوئی اتا پتا ہی نہیں تھا۔ یقین ہو گیا کہ وہ بھی ہنگاموں میں مارے گئے ہیں، ورنہ کسی ذریعے سے خود آ جاتے یا کچھ بھجواتے، کسی طرح تو رابطہ کرتے۔ ایک دن خالو نے مجھے کہا، میمونہ، برا نہ مانو تو ایک بات کہوں؟ بولے، سمیع آزاد بھی ہو جائے تو تمہارے لائق نہیں۔ اس کے ساتھ جس بھی لڑکی کا مستقبل وابستہ ہو گا، وہ تباہ ہی ہو گی۔ میں بھی اکیلا رہ گیا ہوں۔ مجھے گھر سنبھالنے کے لئے ایک سمجھدار اور شریف گھر والی کی ضرورت ہے۔ اس طرح میری گزر بسر نہیں ہو سکتی اور ہمارے اس طرح رہنے سے لوگ ہمیں جینے نہیں دیں گے۔
اگر تم اپنی بھلائی سوچو تو مجھ سے نکاح کر لو اور ہمیشہ کے لئے خود کو اس گھر کی چار دیواری میں محفوظ کر لو۔ میں عمر میں تم سے بڑا ضرور ہوں، مگر اتنا بوڑھا بھی نہیں ہوا کہ دوسری شادی نہ کر سکوں۔ بولو! تمہاری کیا رائے ہے؟ میں چپ رہی تو کہا، ٹھیک ہے، اگر تم کو منظور نہیں تو کوئی زبردستی نہیں ہے، لیکن اس طرح تمہارا میرے ساتھ تنہا رہنا ٹھیک نہیں۔ میں بھی انسان ہوں، کسی وقت بھی مجھ پر شیطان غالب آ سکتا ہے۔ اگر تم راضی نہیں ہو تو میں تم کو دار الامان یا کسی فلاحی ادارے میں بھجوا دیتا ہوں۔ یہ سن کر میں اور زیادہ پریشان ہو گئی کہ نجانے وہاں میرے ساتھ کوئی کیا سلوک کرے، پھر میں کہاں جاؤں گی؟ تب میں نے کہا، خالو جی، مجھے چند روز سوچنے کا موقع دیں۔ اگلے دن ہماری پڑوسن آ گئی۔ یہ ادھیڑ عمر خاتون تھی۔ میں نے ان سے خالو کی باتوں کا ذکر کیا تو وہ بولیں، بیٹی، زمانہ خراب ہے اور تم نا تجربہ کار ہو۔ اگر خالو تم سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، تو تم اس بات کو قبول کر لو۔ اس شخص میں کوئی برائی نہیں۔ وہ تم سے عمر میں بڑے ضرور ہیں، مگر شادی ہو جائے گی تو تم اگلے پچھلے سب دکھ بھلا کر ان کی محبت میں کھو جاؤ گی۔ میری مانو تو ان کو ہاں کہہ دو، ورنہ در در ٹھوکریں کھاتی پھرو گی۔
غرض اس عورت نے اس طرح کی باتیں کیں کہ مجھے بھی اپنے بچاؤ کی اور کوئی صورت نظر نہ آئی۔ دراصل اس عورت کو خالو نے ہی اس کے شوہر کی منت سماجت کر کے میرے پاس بھیجوایا تھا۔ شاید میرے نصیب میں یہی لکھا تھا کہ مجھے اس طرح بے آسرا، بے سہارا اور مجبور ہونا تھا، اور کلی طور پر میں ابرار صاحب کے رحم و کرم پر رہ گئی تھی۔ یہ بھی غنیمت تھا کہ انہوں نے سیدھے سبھاؤ نکاح کا کہا اور کسی قسم کی غلط حرکت نہیں کی، ورنہ میں کس سے شکوہ کرتی؟ خالوجی مجھ سے نکاح کر کے میرے شوہر بن گئے۔ دو چار قریبی پڑوسنوں نے آکر مجھے دلہن بنایا، اور میں بہت مجبور ہو کر حالات کے سامنے جھک گئی۔ برسوں بعد جب سمیع جیل سے چھوٹ کر آیا تو میں اس کے تین سوتیلے بہن بھائیوں کی ماں بن چکی تھی۔ اس نے مجھے ماں کے روپ میں قبول نہ کیا، اور ہمیشہ کے لئے گھر چھوڑ کر چلا گیا، لیکن میں اس گھر کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتی تھی کیونکہ اب یہی میرا گھر اور پناہ گاہ تھی۔
میرا شوہر عمر رسیدہ سہی، اس نے مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ دی، ہر طرح سے میرا خیال رکھا۔ آخر کار میں نے بھی اس کو اپنے بچوں کا باپ سمجھ کر قبول کر لیا۔ سب کچھ انسان کے خواب اور خواہشات نہیں ہوتیں، خاص طور پر عورت کے لئے تو اس کی عزت والی زندگی ہی اس کے لئے راحت اور عافیت ہوتی ہے۔ اب بچے بڑے ہو گئے ہیں اور میں ان کی محبت میں کھو کر اپنے سارے دکھ بھول چکی ہوں، البتہ یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ملکوں کے بٹوارے اور جنگیں بہت خوف ناک ہوتے ہیں۔ خدا کسی کو بھی ان کا شکار نہ کرے۔
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
0 تبصرے