عزت کا محافظ

urdu font stories

کاشف ایک چھوٹے سے گاؤں سے لاہور آیا تھا، اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ یہاں کوئی اچھی ملازمت تلاش کرے، اپنی زندگی بہتر بنائے، اور اپنے والدین کا سہارا بنے۔ لیکن قسمت نے اسے آزمائش میں ڈال دیا۔ ایک دن، جب وہ ایک پرائیویٹ آفس میں چھوٹے ملازم کے طور پر کام کر رہا تھا، اس پر کرپشن کا جھوٹا الزام لگا دیا گیا۔ آفس کے مالک نے بغیر کسی تفتیش کے اسے پولیس کے حوالے کر دیا۔

کاشف کے لیے یہ وقت کسی طوفان سے کم نہ تھا۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ایک ماہ گزارنا، اس کے لیے شدید ذلت کا باعث تھا۔ وہ اکثر خود سے سوال کرتا، "کیا میں نے واقعی کوئی غلطی کی؟" لیکن اس کا دل جانتا تھا کہ وہ بے گناہ تھا۔ جب وہ آزاد ہوا تو وہ خود کو بکھرا ہوا اور بے بس محسوس کر رہا تھا۔

کاشف نے کئی جگہ ملازمت کی درخواست دی، مگر اس کا ماضی اس کے راستے میں دیوار بن کر کھڑا ہو گیا۔ کوئی اسے موقع دینے کو تیار نہ تھا۔ وہ دن رات نوکری کے لیے بھٹکتا رہا، لیکن ناکامی اس کا مقدر بنتی گئی۔

ایک دن، کاشف اپنے پرانے دوست فرحان سے ملا۔ فرحان نے اسے مشورہ دیا، "کاشف، کیوں نہ تم موٹر سائیکل چلا کر اپنی روزی کماؤ؟ لاہور میں 'بائیکا' نام کی ایک ایپ آئی ہے، جس سے لوگ موٹر سائیکل یا کار کے ذریعے سواریوں کو ان کی منزل تک پہنچا کر پیسے کما رہے ہیں۔ یہ تمہارے لیے ایک اچھا موقع ہو سکتا ہے۔"

کاشف کے لیے یہ تجویز عجیب ضرور تھی، لیکن حالات نے اسے سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اگلے ہی دن اس نے اپنی پرانی موٹر سائیکل کو صاف کیا، اور بائیکا کے ساتھ رجسٹر ہو گیا۔ شروع شروع میں اسے جھجھک محسوس ہوئی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس نے اس کام میں مہارت حاصل کر لی۔

جلد ہی کاشف کی زندگی کا پہیہ ایک بار پھر چلنے لگا۔ وہ دن بھر محنت کرتا، اور شام کو تھکا ہارا، لیکن سکون کے ساتھ گھر آتا۔ لوگوں کی دعائیں اور تھوڑا تھوڑا جمع ہونے والا پیسہ اس کے دل میں ایک نئی امید جگا رہا تھا۔ کچھ مہینے بعد، اس نے اپنی آمدن بڑھانے کے لیے ایک کار کرائے پر لی اور اسے چلانا شروع کر دیا۔

اب کاشف ایک مطمئن زندگی گزار رہا تھا۔ اس نے سیکھ لیا تھا کہ زندگی میں مشکلات آئیں تو ان سے ہارنے کی بجائے، نئے راستے تلاش کرنے چاہییں۔ اس کا دل مطمئن تھا، اور وہ جانتا تھا کہ ہر ناکامی ایک نئی شروعات کا سبب بن سکتی ہے۔

رات کے سناٹے میں لاہور کی سنسان سڑکوں پر کاشف اپنی گاڑی چلاتا ہوا واپس جا رہا تھا۔ دن بھر کی تھکن اس کے چہرے پر نمایاں تھی، مگر دل مطمئن تھا کہ گاڑی وقت پر واپس کر دے گا۔ راستے میں اچانک اسے رفع حاجت کی حاجت محسوس ہوئی، تو اس نے گاڑی ایک طرف روکی اور قریب جھاڑیوں کے پیچھے گیا۔

چاند کی مدھم روشنی میں ماحول پراسرار لگ رہا تھا۔ ابھی وہ جھاڑیوں کے پاس ہی تھا کہ ایک عجیب سی سرسراہٹ نے اسے چونکا دیا۔ "کیا یہ ہوا ہے؟ یا کچھ اور؟" وہ خود سے سوال کرتا ہوا رک گیا۔ کچھ لمحے خاموشی رہی، پھر دوبارہ وہی آواز آئی۔ دل تیزی سے دھڑکنے لگا، اور وہ جھاڑیوں کی طرف بڑھا۔

سامنے کا منظر دیکھ کر کاشف کا دل دہل گیا۔ ایک لڑکی وہاں بندھی ہوئی تھی، اس کے ہاتھ اور پاؤں رسیوں سے جکڑے ہوئے تھے، اور منہ پر ٹیپ لگی ہوئی تھی تاکہ وہ چیخ نہ سکے۔ اس کا وجود کانپ اٹھا، اور خوف نے اسے جکڑ لیا۔ "یہ کیا ہے؟ یہ لڑکی یہاں کیسے؟" اس نے سرگوشی کی۔

کاشف کے قدم پیچھے ہٹنے لگے۔ "یہ جگہ خطرناک ہو سکتی ہے، مجھے یہاں سے نکل جانا چاہیے!" وہ دل میں سوچتا ہوا گاڑی کی طرف دوڑا۔ لیکن جیسے ہی وہ دروازہ کھولنے لگا، ایک خیال نے اس کے قدم روک دیے۔ "اگر یہ میری بہن ہوتی؟ کیا میں اسے یوں چھوڑ کر جا سکتا تھا؟"

کاشف نے ہمت جمع کی اور دوبارہ جھاڑیوں کی طرف بڑھا۔ اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی، لیکن وہاں کوئی اور موجود نہیں تھا۔ لڑکی نیم بے ہوشی کی حالت میں تھی۔ وہ دھیرے سے اس کے قریب گیا اور اس کے ہاتھ اور پاؤں کی رسیاں کھولنے لگا۔ رسیوں کے نشانات اس کی کلائیوں پر نمایاں تھے، جو اس کی حالت کی گواہی دے رہے تھے۔

لڑکی کے ہونٹوں پر بندھی ٹیپ کو اتارتے ہوئے کاشف نے آہستگی سے کہا، "ڈرو نہیں، میں تمہیں نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔" لیکن وہ لڑکی اتنی کمزور تھی کہ بولنے کے قابل بھی نہ تھی۔ اس کی آنکھیں آدھی کھلی تھیں، اور اس کا چہرہ خوف اور بے بسی سے بھرا ہوا تھا۔

کاشف نے جلدی سے اسے سہارا دیا اور اپنی گاڑی میں ڈال دیا۔ لیکن اب ایک اور سوال اس کے ذہن میں تھا، "میں اسے کہاں لے جاؤں؟ پولیس کے پاس؟" فوراً ہی اس نے یہ خیال جھٹک دیا۔ "اگر میں پولیس کے پاس گیا تو الٹا مجھ پر ہی شک کیا جائے گا، اور میرا ماضی میرے خلاف گواہی دے گا۔"

کاشف نے گاڑی کا رخ اپنے چھوٹے سے کرائے کے کمرے کی طرف موڑ دیا، جہاں وہ رہتا تھا۔ راستے بھر اس کا دل تیزی سے دھڑکتا رہا۔ وہ بار بار آئینے میں پیچھے کی طرف دیکھتا، جیسے ڈر ہو کہ کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔

جب وہ کمرے میں پہنچا، تو اس نے لڑکی کو احتیاط سے اتارا اور صوفے پر لٹا دیا۔ وہ ابھی تک نیم بے ہوش تھی۔ کاشف نے پانی کا گلاس بھرا اور اس کے چہرے پر ہلکے سے چھینٹے مارے۔ لڑکی نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔ وہ گھبرائی ہوئی تھی، اور اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔

"تم محفوظ ہو،" کاشف نے نرمی سے کہا۔ "ڈرو نہیں، میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔"

لڑکی نے کچھ کہنے کی کوشش کی، لیکن آواز نہ نکل سکی۔ کاشف نے اسے تسلی دی اور ایک کمبل لا کر اس کے اوپر ڈال دیا۔ "پہلے آرام کرو، پھر سب بتانا۔"

یہ رات کاشف کے لیے بھی بے چینی سے بھری ہوئی تھی۔ وہ بار بار سوچتا کہ یہ لڑکی کون ہے، اور اسے اس حال میں کس نے چھوڑا؟ لیکن ایک بات طے تھی، وہ اس لڑکی کی مدد کے لیے ہر حد تک جائے گا، چاہے خود کو خطرے میں ہی کیوں نہ ڈالنا پڑے۔

لڑکی بلا کی خوبصورت تھی۔ وہ کمزور اور سہمی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے کی معصومیت اور خوف کا امتزاج دل کو ہلا دینے والا تھا۔ کاشف کے دل میں ایکل عجیب سا اضطراب پیدا ہوا۔ اس کے دل میں سوالات کے طوفان اٹھ رہے تھے، لیکن ایک بات واضح تھی: یہ لڑکی بے قصور ہے اور کسی بہت بڑی مصیبت کا شکار ہوئی ہے۔

کمرے میں خاموشی تھی، بس دیوار گیر گھڑی کی ٹک ٹک سنائی دے رہی تھی۔ کاشف نے کچھ دیر لڑکی کی طرف دیکھا اور پھر خود کو جھٹکتے ہوئے سوچا، "یہ غلط ہے۔ مجھے اسے آرام کرنے دینا چاہیے اور خود یہاں سے ہٹ جانا چاہیے۔"

لیکن شیطان نے اس کے دل میں وسوسے ڈالنے شروع کر دیے۔ "یہ لڑکی یہاں اکیلی ہے، کوئی کچھ نہیں جانتا۔ تمہیں کون دیکھ رہا ہے؟ یہ لمحہ تمہارے لیے ہے!"

کاشف نے اپنی مٹھی زور سے بھینچی اور خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ "نہیں، یہ غلط ہے۔ یہ میری امانت ہے، اور مجھے اس کی حفاظت کرنی ہے۔" اس نے اپنا چہرہ پانی سے دھویا اور گہری سانس لی۔

جب وہ کمرے میں واپس آیا، تو لڑکی نے تھوڑی سی حرکت کی۔ کمبل اس کے کندھے سے نیچے سرک گیا تھا، اور اس کا چہرہ چاندنی کی مدھم روشنی میں اور بھی معصوم لگ رہا تھا۔ کاشف کے دل میں پھر وہی وسوسے سر اٹھانے لگے۔

"نہیں! میں ایسا کچھ نہیں کر سکتا۔ اگر میں نے اس لڑکی کی عزت پر کوئی حرف بھی آنے دیا تو میں اپنی ہی نظروں میں گر جاؤں گا!" کاشف نے خود سے وعدہ کیا۔

اس نے جلدی سے ایک جیکٹ اٹھائی اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ لاہور کی سرد راتوں میں ہوا کاٹنے والی تھی۔ اس کے دانت بجنے لگے، لیکن وہ جانتا تھا کہ اگر وہ کمرے میں رہا، تو اس کا دل بہک سکتا ہے۔ اس نے اپنے آپ کو سزا دی اور باہر سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔

رات کے اندھیرے میں وہ آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔ "یا اللہ، مجھے ہدایت دے اور اس لڑکی کی حفاظت کا ذریعہ بنا۔ مجھے میرے نفس سے بچا لے۔"

کاشف نے ساری رات سردی میں گزار دی، بار بار اپنے آپ کو قابو میں رکھنے کے لیے دعائیں کرتا رہا۔ اس کا جسم کانپ رہا تھا، مگر دل مطمئن تھا کہ اس نے ایک معصوم کی عزت کی حفاظت کے لیے صحیح فیصلہ کیا۔

صبح جب سورج کی پہلی کرنیں زمین پر پڑیں، کاشف نے دروازہ کھولا اور کمرے میں داخل ہوا۔ لڑکی اب ہوش میں آ چکی تھی اور حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ کاشف کے چہرے پر تھکن کے آثار تھے، لیکن آنکھوں میں سکون تھا۔

لڑکی نے دھیرے سے کہا، "آپ کون ہیں؟ اور مجھے یہاں کیوں لائے؟"

کاشف نے نرمی سے جواب دیا، "میں کوئی مسیحا نہیں، صرف ایک عام انسان ہوں۔ میں نے تمہیں سڑک کنارے پایا اور تمہیں وہاں چھوڑنے کا حوصلہ نہیں کر سکا۔ تم محفوظ ہو، اور تمہاری عزت بھی۔"

لڑکی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے کانپتے ہوئے کہا، "آپ جیسے لوگ آج کل کہاں ملتے ہیں؟"

یہ لمحہ دونوں کے لیے خاص تھا۔ ایک طرف کاشف نے اپنی خواہشات پر قابو پا کر اپنی انسانیت کو ثابت کیا، اور دوسری طرف لڑکی نے پہلی بار کسی مرد کو اپنی حفاظت کرتے ہوئے دیکھا، بغیر کسی غرض کے۔

صبح کی مدھم روشنی کمرے میں داخل ہوئی تو لڑکی نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ وہ ایک اجنبی جگہ پر تھی۔ دیوار پر لٹکی ہوئی پرانی گھڑی، سادہ سا بستر، اور کونے میں رکھی کتابیں دیکھ کر وہ خوفزدہ ہو گئی۔ اس کے ذہن میں کل رات کے دھندلے مناظر تیزی سے گردش کرنے لگے۔

"میں کہاں ہوں؟ یہ جگہ کون سی ہے؟" وہ سوچتے ہوئے گھبرا کر اٹھنے لگی لیکن کمزوری کے باعث دوبارہ بستر پر گر گئی۔

اسی لمحے کاشف دروازہ کھول کر اندر آیا۔ اس کے چہرے پر رات بھر جاگنے کی تھکن عیاں تھی، مگر آنکھوں میں نرمی اور سکون تھا۔ لڑکی کو جاگتا دیکھ کر وہ دھیرے سے بولا، "آپ ہوش میں آ گئی ہیں، یہ اچھی بات ہے۔ پریشان نہ ہوں، آپ محفوظ ہیں۔"

لڑکی کا خوف کم نہ ہوا۔ اس نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا، "تم کون ہو؟ مجھے یہاں کیوں لائے؟"

کاشف نے ایک گلاس پانی اس کے پاس رکھا اور نرمی سے جواب دیا، "میرا نام کاشف ہے۔ کل رات میں نے آپ کو سڑک کنارے جھاڑیوں میں بندھا ہوا پایا تھا۔ میں آپ کو وہاں چھوڑنے کی ہمت نہیں کر سکا، اس لیے یہاں لے آیا۔"

لڑکی نے پانی کا گھونٹ لیا اور دھیرے سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس کے چہرے پر الجھن کے آثار تھے۔ اس نے کاشف کی طرف دیکھا اور کہا، "مجھے میرے گھر پہنچا دو، مجھے یہاں نہیں رہنا۔"

کاشف نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا، "میں آپ کو گھر چھوڑ دوں گا، مگر پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا۔ آپ اس حالت میں کیسے پہنچیں؟"

لڑکی نے ایک گہری سانس لی، جیسے اپنے اندر ہمت جمع کر رہی ہو۔ پھر وہ بولی، "میرا نام نمرہ ہے۔ میں ایک کاروباری شخص کی بیٹی ہوں۔ میرے والد ایک ہفتے کے لیے امریکہ گئے تھے اور میں گھر میں اکیلی تھی۔ میرے چچا کو ہمیشہ سے ہماری دولت پر نظر تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ میں راستے سے ہٹ جاؤں تاکہ ساری جائیداد ان کے ہاتھ آ سکے۔"

کاشف کی آنکھوں میں تجسس اور ہمدردی کا ملا جلا اظہار تھا۔ نمرہ نے اپنی بات جاری رکھی، "دو دن پہلے میرے چچا کے آدمیوں نے مجھے اغوا کر لیا۔ انہوں نے مجھے ایک ویران جگہ پر لے جا کر قید رکھا۔ وہ میرے والد کی واپسی سے پہلے مجھے ختم کرنا چاہتے تھے تاکہ یہ پورا معاملہ میرے والد کے علم میں نہ آ سکے۔"

نمرہ کی آواز تھوڑی کانپنے لگی، "کل رات وہ مجھے کسی اور جگہ منتقل کر رہے تھے۔ راستے میں پولیس کا ناکہ دیکھ کر وہ گھبرا گئے اور مجھے جھاڑیوں میں پھینک کر فرار ہو گئے۔ سردی اور خوف کے باعث میں بے ہوش ہو گئی تھی۔ باقی کہانی مجھے خود یاد نہیں..."

یہ سن کر کاشف کا دل بھر آیا۔ اسے نمرہ کی حالت پر افسوس ہوا اور اپنے آپ پر فخر بھی کہ اس نے اس معصوم لڑکی کی مدد کی۔ وہ نرم لہجے میں بولا، "آپ گھبرائیں نہ، اب آپ محفوظ ہیں۔ میں آپ کو آپ کے گھر چھوڑ دوں گا، لیکن اس سے پہلے ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ آپ کے چچا کو اس کے کیے کی سزا کیسے دی جا سکتی ہے۔"
نمرہ نے آنکھوں میں امید کے ساتھ کاشف کی طرف دیکھا، جیسے پہلی بار کسی پر بھروسہ کر رہی ہو۔ اس لمحے اس کی آنکھوں میں بے شمار سوالات تھے، اور کاشف کے دل میں ایک نیا مقصد جاگ رہا تھا: نمرہ کی حفاظت اور اس کے حق کے لیے لڑنا۔

رات کا اندھیرا گہرا ہو رہا تھا، اور لاہور کی خنک ہوائیں کاشف کے ارد گرد چل رہی تھیں۔ کاشف نے نمرہ کو گاڑی میں بٹھایا اور فیصلہ کیا کہ اسے اس کے گھر پہنچا دے۔ راستے میں نمرہ خاموش تھی، لیکن کاشف کے دل میں کئی سوالات گردش کر رہے تھے۔ جیسے ہی وہ نمرہ کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچے، کاشف کا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ حیرت اور ششدر رہ گیا جب اس نے نمرہ کے والد کو دیکھا۔

یہ وہی شخص تھا جس نے ایک ماہ قبل کاشف پر کرپشن کا جھوٹا الزام لگا کر اسے جیل بھجوایا تھا۔ کاشف کا دل تو چاہا کہ وہ فوراً پلٹ جائے، لیکن نمرہ کے لیے وہ رک گیا۔ نمرہ کے والد نے اپنی بیٹی کو دیکھا تو خوشی سے بے قابو ہو گیا۔ نمرہ نے اپنے والد کو گلے لگایا اور ساری کہانی تفصیل سے سنائی کہ کیسے اس کے سوتیلے چچا نے اسے اغوا کیا اور کیسے کاشف نے اس کی جان بچائی۔

یہ سن کر نمرہ کے والد کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ انہوں نے فوراً پولیس کو بلایا اور اپنے بھائی اور ان تمام افراد کو گرفتار کروا دیا جو اس سازش میں ملوث تھے۔ نمرہ کے والد نے کاشف کی طرف دیکھا، اور ان کی آنکھوں میں شرمندگی اور تشکر دونوں جھلکنے لگے۔

"بیٹا، میں نے تمہارے ساتھ بہت زیادتی کی،" نمرہ کے والد نے اعتراف کرتے ہوئے کہا۔ "ایک غلط فہمی کی وجہ سے میں نے تم پر کرپشن کا الزام لگا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک ماہ بعد اصل مجرم پکڑا گیا تھا، لیکن تب تک تمہیں نقصان پہنچ چکا تھا۔ آج تم نے میری بیٹی کی جان بچا کر ثابت کر دیا کہ تم واقعی ایماندار اور نیک دل انسان ہو۔"
نمرہ کے والد نے کاشف کو ایک بڑی پوسٹ کی پیشکش کی، لیکن کاشف نے نرمی سے انکار کر دیا۔ "جناب، میں نے جو کیا، وہ میرا فرض تھا۔ مجھے آپ کی پیشکش قبول نہیں۔" یہ کہہ کر وہ وہاں سے جانے کے لیے مڑ گیا۔

کاشف کے جانے کے بعد نمرہ کی آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن یہ آنسو دکھ کے نہیں بلکہ محبت کے تھے۔ وہ جان چکی تھی کہ کاشف نہ صرف ایک نیک انسان تھا بلکہ ایک سچا محافظ بھی۔ وہ رات جب کاشف اس کے قریب تھا، تب بھی اس نے خود پر قابو رکھا اور نمرہ کی عزت کا محافظ بن گیا۔

نمرہ نے کاشف سے ملنا شروع کر دیا۔ ان کی ملاقاتیں بڑھتی گئیں، اور ان کے درمیان ایک خوبصورت رشتہ پروان چڑھنے لگا۔ نمرہ نے آخر کار اپنی محبت کا اظہار کر دیا اور کاشف کو پروپوز کیا۔

کاشف نے پہلے تو انکار کیا، یہ کہتے ہوئے کہ وہ نمرہ کے معیار کا نہیں ہے۔ لیکن نمرہ کے والد، جو اب کاشف کے کردار کے معترف ہو چکے تھے، نے اپنی بیٹی کی خواہش کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔

"کاشف، تم سے بہتر کوئی میری بیٹی کا محافظ اور شوہر نہیں ہو سکتا،" نمرہ کے والد نے کہا۔
یوں نمرہ اور کاشف کی شادی دھوم دھام سے ہوئی۔ کاشف، جس نے اپنی زندگی میں بہت کچھ کھویا تھا، اب نمرہ کی محبت کے ساتھ سب کچھ پا چکا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار زندگی گزارنے لگے، اور کاشف کی ایمانداری اور قربانی کی کہانی ہمیشہ کے لیے یادگار بن گئی۔