محبت کی مار

sublimegate urdu stories

Sublimegate Urdu Stories

 محبت کی مار - سبق آموزکہانی

قسط وار کہانیاں
عنایت خان سوار کو جب پنشن ملنے لگی تو سرکاری کوارٹر سے دست بردار ہونا پڑا۔ تب اس نے چھاؤنی گوالیار میں جمنا دائی کی حویلی کے سامنے ایک معمولی مکان میں رہائش اختیار کر لی، جس کا کرایہ صرف تین روپیہ ماہوار تھا۔ لو بھئی ، اب باقی کیا بچا؟ صرف تین روپے۔ یہ تنگ دستی سوہان روح تھی۔ اس ایک ہی بیٹا تھا، نواب خان۔ نواب خان نے مڈل کا امتحان پہلے درجہ میں پاس کر لیا تو عنایت نے ایک دوست سے تنگ دستی کا حال بیان کیا تب اس نے صاحب بہادر کی سفارش سے نواب کو بیس روپیہ ماہوار پر اپنے اسٹاف میں شامل کر لیا۔ ان دنوں میں روپے آج کل کے دو ہزار کے برابر تھے۔ نواب فرمانبردار اور نماز روزے کا پابند نوجوان تھا، باپ نے اس کی شادی جھانسی میں کرادی تھی۔

جھانسی للت پور ، دینہ وغیرہ، بنڈھیل کھنڈ کا علاقہ کہلاتا تھا۔ یہاں کے اکثر و بیشتر باشندے بہت شاطر واقع ہوئے تھے جبکہ عورتیں ترقی پسند تھیں۔ یار لوگ تمثیل پیش کیا کرتے تھے کہ جھانسی گلے کی پھانسی، دینہ گلے کا ہار ۔ للت پور چھوڑ کر نہ جائیے جب تک ملے ادھار ۔ یہ کہاوتیں وہاں کے بارے میں مشہور تھیں۔ عنایت خان بہو کو چھاؤنی گوالیار لے آئے۔ دل میں بڑے خوش تھے کہ پالا مار لیا، لیکن کارکنان قضا و قدر اور فکر میں تھے۔ بہو نے بھی نمائشی طور پر ساس سسر کا احترام ملحوظ رکھا۔ بد قسمتی سے عنایت خان نمونیہ کی لپیٹ میں آگئے۔ بہو نے دوا میں زہر ملا کر ان کا خاتمہ کر دیا اور خود صدمہ سے نڈھال پڑ گئی۔ ظاہر ہے ، اپنا کیا تھا، دکھ کے اظہار کے لئے آنسو بہانے تو ضروری تھے۔اب تو گویا دروازہ کھل گیا۔ جھانسی کے وہ آوارہ لوگ، جن کے ساتھ بہو کے سابقہ تعلقات تھے تعزیت کے عنوان سے آنے جانے لگے۔ وہ بھی ان لوگوں کو اپنا قریبی رشتہ دار ظاہر کرتی رہی۔ بوڑھی ساس نے بہو کے یہ لچھن دیکھے تو ماتھا ٹھنک گیا۔ 

اس نے اپنا بگلے جیسا چونڈہ دھوپ میں تو سفید نہیں کیا تھا۔ اشاروں کنایوں سے طنز بھی کئے اور پردے ہی پردے میں سمجھانا بھی شروع کر دیا مگر بہو پہ اثر تو ہو۔ بیٹے سے کچھ کہنا، گویا پل بھر میں گھر کا اجاڑ دینا تھا۔ صدمے سے بیمار پڑ گئی تو عیار بہو نے اس کو بھی اسی ترکیب سے ملک عدم پہنچا کر سارے دکھوں سے نجات دلادی کہ جو بوڑھے سر پر آزمائی تھی۔ اب تو دونوں کانٹے راستے سے دور ہو گئے تھے۔ نواب سارا دن ڈیوٹی پر رہتا اور گھر میں آوارہ لوگوں کی عمل داری تھی۔ محلے والوں نے کان کھڑے کئے اور فضا میں خطرے کی بو سونگھنے لگے۔ اس پر عورت نے نئی چال چلی، نواب کو کہا کہ اس گھر میں اب دل نہیں لگتا۔ ساس سسر کی وفات کے بعد سے وحشت ہوتی ہے۔ یہ درو دیوار ان کی یاد دلاتے ہیں۔ خدارا اب تو جھانسی تبادلہ کروالیں۔ نواب نے بھاگ دوڑ کر کے جھانسی تبادلہ کروا لیا۔ اب تو بہو بیگم کے وارے نیارے ہو گئے۔ نواب کو آٹھ آٹھ دن گھر سے باہر رہنا پڑتا، جس دن گھر واپس آتا، نقشہ ہی بدلا ہوا پاتا۔

 بیوی سے پوچھتا۔ یہ ساز و سامان کہاں سے آتا ہے ؟ وہ بتائی کہ ایک نورانی داڑھی والے بزرگ یہ چیزیں دے جاتے ہیں۔ ان کا انتباہ ہے کہ کسی سے ذکر نہ کرنا، مگر نواب آخر مرد ذات، ایسا بھی بے وقوف نہ تھا۔ اس جواب سے اس کا دل مطمئن نہ ہوا، وہ بولا۔ خواہ وہ نورانی بزرگ ہی کیوں نہ ہوں، سن لو ! اب کوئی یہاں نہ آنے پائے۔ ایک ملازمہ بھی اس نے بیوی کی نگرانی پر رکھ لی۔ اس بد گمانی سے بہو کا دل ایسا بدلا کہ اس کو نواب کی صورت سے ہی نفرت ہو گئی اور وہ بے قرار اور مقید پنچھی کی طرح پھڑ پھڑانے لگی۔ آخر رہائی کی یہ صورت نظر آئی کہ ایک شب جبکہ نواب اپنے بستر میں میٹھی نیند سورہا تھا، اس نے لحاف پر تیل چھڑک کر دیا سلائی دکھا دی۔ آگ نے آن واحد میں لحاف کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پھر اس اذیت نے نواب کو موت کے دہانے پر پہنچادیا کہ زندگی کی توقع ہی ختم ہو گئی تھی۔ بیوی نے اس حادثے کو عتاب جنات کے عمل پر محمول کیا اور نواب نے ماموں کو تار بھیجا۔ کفایت حسن فورا تار کے جواب میں پہنچے اور سوختہ بھانجے کو اپنے گھر کی چھاؤں میں ، چھاؤنی مراد لے آئے۔

 یہاں عرصے تک نواب کا علاج ہوتا رہا۔ ممانی اور ماموں زاد بہن زرینہ دونوں ہی اس کی حالت سے کبیدہ خاطر تھیں۔ وہ تندرست ہو گیا تو ممانی اور ماموں نے اس کا عقد زرینہ سے کر دیا اور لڑکی کے بالغ ہونے پر رخصتی کا پرو گرام رکھا۔ نواب اس درجہ حیادار تھے کہ زرینہ کے سامنے آنے سے شرمانے لگے مگر اس کی خدمت گزاریاں اور بھولی بھالی صورت دل میں ایسے گھر کر گئی تھی کہ دیکھے بنا چین نہ پڑتا تھا۔ انہوں نے اپنا بستر مردان خانے میں لگادیا۔ مبادا دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر کبھی کوئی غلطی نہ کر بیٹھیں۔ وہ خوش تھے کہ چلو بدچلن عورت سے جان چھوٹی اور اس کے عیوض خدا تعالیٰ نے زرینہ سا ہیرا ان کو بخشا مگر نواب کی قسمت کا ستارا بھی گردش میں تھا۔ چند دنوں میں ہی زرینہ تب محرقہ میں مبتلا ہو کر اللہ کو پیاری ہو گئی۔ ماں باپ کے غم کا تو ٹھکانہ نہ تھا مگر نواب کی حالت بھی دیکھی نہ جاتی تھی۔ اجڑی ہوئی زندگی میں جو امید کی شمع روشن ہوئی تھی، وہ بھی کتنی جلدی بجھ گئی تھی۔ اب تو چار سو اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ اہل محلہ زرینہ کو دفن کرنے کو لئے جاتے تھے۔ جس کی ڈولی کاندھوں پر اٹھائی جانے والی تھی اب اس دنیا سے اس کا لاشہ جارہا تھا۔ نواب سے یہ نظارہ دیکھا نہ گیا اور وہ اسی دن مجمع سے غائب ہو گئے۔
اب دوہری مصیبت پیش آگئی۔ ایک تو زرینہ کی موت کا صدمہ پھر نواب کی گمشدگی کی پریشانی، کفایت حسین اور بیوی دونوں سخت پریشان تھے کہ کیا کریں، کہاں جائیں؟ کہاں سے نواب کو ڈھونڈ نکالیں۔ یہ خیال کر کے کہ کہیں غم سے خود کشی نہ کر لی ہو، انہوں نے شہر کے سب کنویں چھنوا لئے مگر نواب کا بال بھی دریافت نہ ہو سکا۔ شہر کے دائیں کنارے پر وسیع و عریض قبرستان تھا۔ اسی قبرستان میں ایک بزرگ کی پکی قبر تھی۔ عام طور پر مقبرے کے کوارٹر بند رہتے تھے۔ ہر جمعرات شہر سے ایک جاروب کش یہاں آتا اور کوارٹر کھول کر صفائی کر جاتا تھا۔ مقبرے میں پتھروں کی خوش نما جالیاں لگی ہوئی تھیں۔ جمعرات کے دن وہ حسب معمول صفائی کے لئے آیا۔ ابھی تالا کھولا بھی نہ تھا کہ بند مقبرے سے تلاوت کی آواز سن کر حیران ہوا۔ جالیوں سے اندر جھانکا تو تھرا کر رہ گیا۔ ایک مردہ سفید کفن میں ملبوس تعویذ کے متوازی لیٹا ہوا تھا۔ بے چارہ اصل بات کیا جانتا، سمجھا، یہ کرامت بزرگ کا کرشمہ ہے۔ 

عطر و عنبر کی لپیٹیں آرہی تھیں، قرآن پاک کی تلاوت سے کمرہ گونج رہا تھا۔ وہ تو خوفزدہ ہو کر شہر کی جانب بھاگا اور رستے میں جو بھی ملتا گیا ، اسے معجزے سناتا گیا کہ آج تو صاحب قبر بزرگ قبر سے باہر لیٹے ہوئے ہیں۔ پھر کیا تھا ؟ سارے شہر میں یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ سیکڑوں تشنہ کرامات زیارت کے لئے پہنچ گئے ، تاکہ کچھ بخشش ہو ، کچھ کفارہ گناہ ہو سکے۔ اس عجیب و غریب واقعہ کی خبر جب پولیس کے کانوں تک پہنچی تو عبد اللہ خان انچارج نے مجاور کو حکم دیا کہ مقبرے کا دروازہ کھولو۔ مجاور صاحب مقبرے کی دیوار کے شگاف میں چابی رکھ دیا کرتے تھے۔ دیکھا تو وہاں چابی ہے ، نہ تالا۔ گھبرا کر کہا۔ صاحب مزار نے چابی اور تالا دونوں چیزیں غائب کر دی ہیں۔ پولیس والوں نے لوہار کے ذریعہ چوبی کوارٹر الگ کروائے تو کیا دیکھتے ہیں کہ گم شدہ نواب دونوں آنکھیں بند کئے تلاوت قرآن میں مصروف ہے۔ پھولوں کے گجرے اور لوبان مہک رہے ہیں۔ قبر کے تعویذ کے متوازی زرینہ کی لاش کفن میں لپٹی رکھی ہے۔ تھانیدار نے گرج کر پوچھا۔ میاں یہ کیا ہو رہا ہے ؟ مگر عاشق بے نیاز نے کوئی نوٹس نہ لیا۔

 تلاوت جاری رکھی ، تب تھانیدار نے گردن پکڑ کر جھٹکا دیا اور اسے کھڑا کر دیا۔ یہ کیا ڈرامہ ہے میاں ! تمہاری تلاش میں تو تمہارے ماموں نے سارے شہر کے کنویں چھنوا مارے ہیں اور یہ میت بے گور کسی خستہ تن کی ہے ؟ نواب نے مجبوراً چونچ کھولی۔ یہ میری محبوبہ کا جسد خاکی ہے ، جسے میں کلام الہی کی طاقت سے زندگی عطا کرنا چاہتا ہوں۔ تھانیدار نے کہا۔ پاگل ہو گیا ہے ؟ تو مسلمان نہیں رہا ہے۔ ارے کہیں مردے بھی زندہ ہوتے ہیں۔ تھانیدار صاحب ایسی باتوں کے قائل نہیں تھے۔ عاشق نامراد کو وہیں پے ہتھکڑیاں پہنا دیں اور میت کا ڈاکٹری معائنہ کرانے بھجوادیا، پھر میت کا دوبارہ غسل ہوا اور وہ غریب آرام سے قبر میں جا سوئی۔
نواب محبت کے مارے نے پولیس کو بتایا کہ درد جگر کی ٹھسیں ایسی تھی کہ برداشت نہ ہوتی تھی۔ مجبور ہو کر میں نے اپنے دل کے سکون کی خاطر یہ غیر شرعی کام کیا۔ جس روز زرینہ کی لاش کو دفن کیا گیا، میں نے سر شام ہی گورکن سے پھاوڑا حاصل کیا۔ اب اس کو کیا معلوم کہ میں لاش کو قبر سے نکال رہا ہوں، ورنہ وہ مجھ کو پھاوڑا کیوں دیتا۔ میں ساری رات لاش کو باز و پر اٹھائے قبرستان میں پھرتا رہا اور روتا رہا۔ نماز فجر سے ذرا پہلے مقبرے کا رخ کیا۔ جانتا تھا کہ چابی کہاں رکھی جاتی ہے۔ میں نے تالا کھول کر لاش مقبرے کے قریب رکھ دی اور دروازہ بند کر کے محو تلاوت ہو گیا۔ مجھے یقین تھا کہ میری محبت کے جذبے سے مجبور ہو کر زرینہ کی لاش میں روح عود کر آئے گی مگر افسوس ہے. تھانیدار صاحب ! تم نے مہلت نہ دی۔ خدا کی قدرت اسی شام نواب کا ہارٹ فیل ہو گیا اور اس نے اپنی محبوبہ کے پہلو میں جگہ پائی۔ تھانیدار اس واقعہ سے اتنا متاثر ہوا کہ اس کا دل دنیا سے اچاٹ ہو گیا۔ وہ دیوانہ وار مزار کی سمت بھاگا، وردی کو خیر باد کہا اور سادہ لباس پہن لیا، پھر بقیہ عمر دشت جنوں کی سیاہی میں گزار دی۔

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے