اچانک، زمین سے روشنی پھوٹ پڑی۔ زینب کی آنکھوں کے سامنے وہی مناظر ابھرےستاروں بھرا آسمان، عجل، اور وہ عورت۔ اس بار عورت نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا، "زینب، تم واپس آئی ہو۔ اب وقت ہے کہ تم اپنی حقیقت جانیں۔"
زینب کے جسم میں سنسنی دوڑ گئی۔ "آپ کون ہیں؟" اس نے چیختے ہوئے پوچھا۔
عورت نے مسکرایا۔ "میں تمہاری رہنما ہوں۔ تمہارا خون اس جگہ سے جڑا ہے۔"
زینب کے دماغ میں سوالات کا طوفان اٹھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور پوچھے، زمین ہلنے لگی۔ ایک گہری گرج سنائی دی، جیسے کوئی بھاری دروازہ کھل رہا ہو۔ زینب چیخی اور اس کی آنکھیں کھل گئیں۔ وہ زمین پر گری ہوئی تھی۔ اس کے سامنے ایک سایہ کھڑا تھا۔ علی۔ اس کی آنکھیں غصے اور خوف سے بھری تھیں۔
"تم نے کیا کیا، زینب؟" اس کی آواز میں لرزش تھی۔
زینب سانس لینے کی کوشش کر رہی تھی۔ "وہ عورت... وہ کون تھی؟"
علی نے اس کا بازو پکڑا اور اسے کھڑا کیا۔ "تم نے ستاروں کا دروازہ کھول دیا۔ اب وہ جاگ اٹھی ہیں۔"
"کون جاگ اٹھی ہیں؟" زینب نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔
علی نے گردوپیش دیکھا، جیسے کوئی سن رہا ہو۔ "وہ... جو صدیوں سے سو رہی تھیں۔ اب ہم سب خطرے میں ہیں۔"
زینب کے دل میں خوف اور تجسس دونوں بڑھ گئے۔ وہ جانتی تھی کہ اب پیچھے ہٹنے کا وقت نہیں تھا۔ اسے اپنی حقیقت جاننی تھی، چاہے اس کی قیمت کچھ بھی ہو۔ لیکن اسے نہیں پتہ تھا کہ اس کا اگلا قدم اسے ایک ایسی دنیا میں لے جائے گا، جہاں اس کی ماں، اس کا خاندان، اور ہنزہ کا ہر راز آپس میں جڑا ہوا ہے۔
زینب کا دل اس کی پسلیوں سے ٹکرا رہا تھا، جیسے کوئی اسے اندر سے کھرچ رہا ہو۔ جنگل کی وہ خالی جگہ، جہاں پتھروں کا دائرہ صدیوں سے خاموشی میں سہما پڑا تھا، اب ایک نامعلوم طاقت سے لرز اٹھا تھا۔ علی کی باتوں نے اس کے ذہن میں خوف اور تجسس کا طوفان اٹھا دیا تھا۔ "ستاروں کا دروازہ"، "وہ جو صدیوں سے سو رہی تھیں"۔ یہ الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے، جیسے کوئی اسے پکار رہا ہو۔ وہ گھر واپس تو آ گئی، لیکن نیند اس کی آنکھوں سے غائب تھی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے وہی چہرہ بار بار ابھر رہا تھا۔ وہ عورت، جس کا چہرہ اس کی ماں فوزیہ سے ملتا تھا، لیکن اس کی آنکھوں کی گہرائی زینب کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی، جیسے کوئی راز اسے نگل لینا چاہتا ہو۔
رات بھر وہ کھڑکی کے پاس بیٹھی رہی، ہنزہ کی وادی گہرے سکوت میں ڈوبی تھی۔ ہوا کی سریلی سیٹیں اس خاموشی کو چیر رہی تھیں، اور زینب کے ہاتھوں میں ماں کا نیلا دوپٹہ تھا، جس کی ریشمی نرمائی اسے ایک عجیب سا سکون دے رہی تھی۔ لیکن اس کے دل میں ایک فیصلہ پختہ ہو چکا تھا۔ وہ اس راز کی تہہ تک جائے گی، چاہے اسے کتنا ہی خطرہ کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ کیا تم ہمت کرو گی؟ اس نے خود سے پوچھا، اور اس کے دل نے جواب دیا: ہاں۔
اگلی صبح زینب کالج کے لیے تیار ہوئی۔ اس نے بیگ میں پرانی کتاب "ہنزہ کی گمشدا داستانیں" اور جنگل کے نقشے کی کاپی رکھی۔ سرد ہوا اس کے چہرے سے ٹکرائی جب وہ پتھریلی پگڈندی پر چلتی ہوئی کالج کی طرف بڑھی۔ جنگل کے کنارے سے گزرتے ہوئے اس نے ایک لمحے کو رُک کر اس کی گہرائیوں کی طرف دیکھا۔ دن کی روشنی میں وہ پرسکون لگ رہا تھا، لیکن اس کی تاریک شاخوں کے پیچھے کچھ چھپا تھا۔ کوئی راز جو اسے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ کیا وہ واقعی مجھے پکار رہا ہے؟ زینب نے سوچا، اور اس کے قدم تیز ہو گئے۔
کالج پہنچ کر اس نے ایمن کو ڈھونڈا۔ وہ کینٹین میں نہیں تھی۔ زینب نے اسے کلاس روم کے ایک کونے میں پایا، جہاں وہ سر جھکائے نوٹ بک کے ساتھ بیٹھی تھی۔ ایمن کا چہرہ زرد تھا، اس کی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقوں نے اس کی بے چینی کو عیاں کر دیا تھا۔
"ایمن، کیا ہوا؟ تم ٹھیک ہو؟" زینب نے تشویش سے پوچھا، اس کا ہاتھ ایمن کے کندھے پر رکھتے ہوئے۔
ایمن نے سر اٹھایا، اس کی نظریں خالی تھیں۔ "زینب... رات کو میں سو نہ سکی۔ وہ جنگل... وہ پتھروں کا دائرہ..." اس کی آواز لرز رہی تھی۔ "مجھے لگتا ہے ہم نے کوئی بڑی غلطی کی۔"
زینب کا دل زور سے دھڑکا۔ "کیا کہہ رہی ہو؟" اس نے ایمن کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا، جیسے اسے ہمت دینا چاہتی ہو۔
ایمن نے ہکلاتے ہوئے کہا، "رات کو میں نے خواب دیکھا۔ وہی دائرہ، وہی عجیب روشنی... اور ایک عورت۔ اس نے کہا، 'دروازہ کھل چکا ہے۔' اس کی آواز... جیسے میرے دل کے اندر گونج رہی تھی۔ زینب، مجھے ڈر لگ رہا ہے۔"
زینب کے جسم میں سنسنی دوڑ گئی۔ کیا ایمن نے بھی وہی عورت دیکھی؟ "وہ عورت کیسی تھی؟ اس کا چہرہ... کیا تم نے دیکھا؟" اس نے بے چینی سے پوچھا۔
ایمن کی آواز کانپ گئی۔ "اس کا چہرہ دھندلا تھا، لیکن اس کی آنکھیں... جیسے مجھے گھور رہی تھیں، زینب۔ ہمیں اس جگہ سے دور رہنا چاہیے۔ یہ کوئی عام جگہ نہیں۔"
زینب خاموش ہو گئی۔ وہ ایمن کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی، لیکن اس کا تجسس اسے کھائے جا رہا تھا۔ "ٹھیک ہے، تم فکر نہ کرو۔ میں کچھ نہیں کروں گی۔" اس نے ایمن کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا، لیکن اس کے دل میں طوفان اٹھ رہا تھا۔ کیا یہ سب سچ ہے؟ یا صرف ایک وہم؟
کالج کے بعد زینب لائبریری کی طرف دوڑی۔ اس نے "ہنزہ کی گمشدا داستانیں" دوبارہ کھولی اور "ستاروں کی رسم" والے صفحے پر نظریں جمائیں۔ لکھا تھا کہ یہ رسم ہر سو سال بعد ہوتی ہے، جب ستارے آسمان پر ایک خاص ترتیب میں چمکتے ہیں۔ اس کا مقصد ایک "دروازہ" کھولنا تھا۔ ایک ایسی دنیا سے جوڑتا تھا جو نہ زمین کی تھی، نہ آسمان کی۔ لیکن اسے کھولنے کے لیے ایک "چنندہ" کی ضرورت تھی۔ ایک شخص جس کا خون وادی کے قدیم خاندانوں سے جڑا ہو۔
زینب کے ہاتھ کانپنے لگے۔ کیا میں... وہ چنندہ ہوں؟ اس کا باپ اسلم ہنزہ کا رہائشی تھا۔ کیا اس کا خاندان اس راز سے جڑا تھا؟ اس نے کتاب کے آخری صفحے پر ایک عجیب علامت دیکھی۔ ایک دائرہ، بیچ میں ایک ستارہ، اور نیچے لکھا تھا: "دروازہ کھولنے کی قیمت ایک قربانی ہے۔"
زینب کا دل بیٹھ گیا۔ قربانی؟ کیا اس کا مطلب... میری جان؟ اس کے ذہن میں سوالات کا ہجوم اٹھا۔ وہ کتاب بند کر کے لائبریری سے باہر نکل آئی۔ صحن میں اس کی نظر علی پر پڑی۔ وہ ایک پرانے برچ کے درخت کے نیچے کھڑا تھا، اس کی جیکٹ کا کالر کھڑا تھا، اور بال ہوا میں لہرا رہے تھے۔ زینب نے ہمت کی اور اس کے پاس چلی گئی۔
"علی، تم مجھ سے کچھ چھپا رہے ہو!" اس نے سخت لہجے میں کہا، اس کی نظریں علی کی آنکھوں سے مل رہی تھیں۔
علی نے اسے دیکھا، اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی اداسی تھی۔ "زینب، یہ تمہاری سمجھ سے باہر ہے۔"
"تو سمجھاؤ!" زینب نے غصے سے کہا، اس کی آواز بلند ہو گئی۔ "وہ عورت کون تھی؟ وہ دروازہ کیا ہے؟ اور تم اس سب میں کیوں ہو؟"
علی نے گہری سانس لی، جیسے کوئی بوجھ اس کے سینے پر پڑا ہو۔ وہ کچھ دیر خاموش رہا، پھر دھیمی آواز میں بولا، "وہ عورت... ہمارے خاندان کی رہنما ہے۔ وہ صدیوں سے اس دروازے کی محافظ ہے۔ لیکن اسے کھولنا... یہ تباہی ہے۔"
"تباہی؟" زینب نے حیرت سے پوچھا۔ "کیا مطلب؟"
علی نے گردوپیش دیکھا، جیسے کوئی ان کی بات سن رہا ہو۔ پھر وہ زینب کے قریب آیا اور سرگوشی میں بولا، "وہ دروازہ ایک تاریک دنیا سے جوڑتا ہے۔ وہاں سے جو بھی آیا، اس نے سب کچھ برباد کیا۔ ہمارے خاندان نے اسے بند رکھا۔ لیکن تم... تم نے اسے جگا دیا۔"
زینب کے جسم میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔ "میں نے؟ لیکن کیسے؟"
"تم چنندہ ہو،" علی نے کہا، اس کی آواز میں شدت تھی۔ "تمہارا خون اس دروازے سے جڑا ہے۔ وہ عورت تمہیں اسے کھولنے کے لیے پکار رہی ہے۔ اگر تم نے یہ کیا تو ہنزہ کی وادی... سب کچھ ختم ہو جائے گا۔"
زینب کے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ چنندہ؟ "لیکن میری ماں... وہ اس سب سے کیوں دور رہی؟"
علی نے اس کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں درد جھلک رہا تھا۔ "تمہاری ماں سب جانتی ہے۔ اس سے پوچھو۔" وہ یہ کہہ کر چلا گیا، اور زینب وہیں کھڑی رہ گئی، اس کے ذہن میں سوالات کا طوفان اٹھ رہا تھا۔ کیا میری ماں اس راز کا حصہ ہے؟
اس رات زینب نے فوزیہ کو فون کیا۔ فوزیہ کی آواز سن کر اسے ایک لمحے کے لیے سکون ملا، لیکن اس کے دل میں غصہ اور بے چینی تھی۔ "اماں، آپ نے مجھ سے کچھ چھپایا ہے، نا؟" زینب نے براہ راست پوچھا، اس کی آواز میں سختی تھی۔
فوزیہ خاموش ہو گئی۔ کچھ دیر بعد اس کی آواز کانپی۔ "زینب، تم کیا کہہ رہی ہو؟"
"ہنزہ کا جنگل، وہ دروازہ، وہ عورت... آپ سب جانتی ہیں!" زینب کی آواز میں درد اور غصہ تھا۔
فوزیہ نے گہری سانس لی، اس کی آواز ٹوٹ رہی تھی۔ "زینب، میں تمہیں اس سب سے بچانا چاہتی تھی۔ ہاں، میں جانتی ہوں۔ تمہارا باپ... اسلم... وہ خان خاندان سے ہے۔ اور میں... میں بھی اس وادی سے جڑی ہوں۔"
زینب کا دل بیٹھ گیا۔ "آپ... اس راز کا حصہ ہیں؟"
"ہاں، زینب۔" فوزیہ کی آواز میں درد تھا۔ "میں خود چنندہ تھی۔ لیکن میں نے اس دروازے سے بھاگنے کا فیصلہ کیا۔ اسلم سے شادی کے بعد مجھے پتہ چلا کہ وہ بھی اس راز کا محافظ ہے۔ میں تمہیں اس خطرے سے بچانے کے لیے کراچی چلی گئی۔ لیکن تم... تم اس کا حصہ ہو۔"
زینب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ "اماں، آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟"
"کیونکہ میں تمہیں اس خطرے سے دور رکھنا چاہتی تھی۔ زینب، وعدہ کرو کہ تم جنگل سے دور رہو گی۔"
زینب نے فون بند کر دیا۔ اس کا دل غصے، دکھ، اور دھوکے سے بھر گیا تھا۔ میری ماں نے مجھ سے اتنا بڑا راز چھپایا؟ وہ رات بھر سو نہ سکی۔ اسے لگ رہا تھا کہ اس کی پوری زندگی ایک جھوٹ تھی۔
اگلی صبح زینب نے اپنے باپ سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسلم باغیچے میں چائے پی رہا تھا، اس کے چہرے پر ہلکی مسکراہٹ تھی۔ لیکن جب زینب نے جنگل اور دروازے کا ذکر کیا، اس کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔
"بیٹی، تم کیسے...؟" اسلم کی آواز کانپ رہی تھی۔
"ابو، آپ سب جانتے ہیں۔ کیوں چھپایا؟" زینب نے غصے سے پوچھا۔
اسلم نے سر جھکایا۔ "ہم تمہیں بچانا چاہتے تھے۔ وہ دروازہ... وہ خطرہ ہے۔ ہمارے خاندان نے صدیوں سے اسے بند رکھا۔ تمہاری ماں... اس نے تمہارے لیے سب کچھ چھوڑ دیا۔"
زینب کے دل میں درد اٹھا۔ "لیکن میں... چنندہ ہوں، نا؟"
اسلم نے سر اٹھایا، اس کی آنکھوں میں خوف تھا "تمہیں کس نے بتایا؟"
"علی نے۔" زینب نے سخت لہجے میں کہا۔ "اور اب میں اس راز کو سلجھاؤں گی۔"
اسلم نے اس کا ہاتھ پکڑا۔ "زینب، مت جاؤ۔ وہ جگہ تمہیں نگل لے گی۔"
زینب نے ہاتھ چھڑایا اور کمرے میں چلی گئی۔ اس کا فیصلہ پختہ تھا۔ وہ اس رات جنگل واپس جائے گی۔ کیا یہ میری تقدیر ہے؟ یا میری تباہی؟
شام ڈھلتے ہی زینب نے بیگ اٹھایا۔ اس نے ٹارچ، نقشہ، اور ایک چھوٹا چاقو ساتھ رکھا۔ وہ چپکے سے گھر سے نکلی۔ جنگل میں گہرا اندھیرا تھا، اور ہوا میں ایک عجیب سی سردی تھی۔ اس کے قدم پتھروں کے دائرے کی طرف بڑھ رہے تھے، لیکن اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ شاخوں کے درمیان سے چھن کر آنے والی چاندنی زمین پر عجیب سی شکلیں بنا رہی تھی، جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہو۔
دائرے کے قریب پہنچ کر زینب نے ٹارچ کی روشنی زمین پر ڈالی۔ پتھر اپنی جگہ پر تھے، لیکن ان پر عجیب علامتیں چمک رہی تھیں، جیسے کوئی پراسرار طاقت ان میں جاگ اٹھی ہو۔ زینب نے گہری سانس لی اور دائرے کے بیچ کھڑی ہو گئی۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور دل سے کہا، "مجھے سچ جاننا ہے۔"
اچانک زمین سے ایک دھیمی روشنی پھوٹ پڑی۔ ہوا تیزی سے گھومنے لگی، اور زینب کے کانوں میں ایک سرگوشی گونجی—اس کا نام، بار بار۔ اس کی آنکھوں کے سامنے مناظر ابھرے: ستاروں بھرا آسمان، ایک پراسرار عجل، اور وہ عورت۔ اس بار عورت اس کے قریب تھی، اس کا ہاتھ زینب کے کندھے پر تھا، سرد اور بھاری۔
"زینب، تم واپس آئی ہو،" عورت کی آواز گہری تھی، جیسے وہ اس کے دل کے تار چھیڑ رہی ہو۔ "اب وقت ہے کہ تم اپنی حقیقت جانیں۔"
"آپ کون ہیں؟" زینب نے چیختے ہوئے پوچھا، اس کی آواز ہوا میں گونجی۔ "اور یہ دروازہ کیا ہے؟"
عورت نے مسکرایا، اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ "میں تمہاری رہنما ہوں۔ تمہارا خون اس وادی سے جڑا ہے۔ یہ دروازہ... تمہاری تقدیر ہے۔ اسے کھولو، اور اپنی اصل طاقت کو جانیں۔"
زینب کے دل میں خوف اور جوش اٹھ رہے تھے۔ "لیکن اس کی قیمت کیا ہے؟"
عورت کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ "قیمت... تمہاری زندگی۔ بدلے میں تم وہ سب پاؤ گی جو اس دنیا سے باہر ہے۔"
زینب کا دل دھڑکا۔ زمین زور سے ہلی، ایک گہری گرج سنائی دی، اور پتھروں کا دائرہ چمکنے لگا۔ آسمان سے ایک عجل نیچے اتر رہا تھا، اس کی روشنی اتنی تیز تھی کہ زینب کی آنکھیں چندھیا گئیں۔
اچانک ایک آواز گونجی۔ "زینب، رک جاؤ!"
یہ علی تھا۔ وہ دوڑتا ہوا دائرے کے قریب آیا، اس کے ہاتھ میں ایک پرانا تعویذ تھا، جس پر ستاروں کی علامت کندہ تھی۔ اس کا چہرہ خوف اور عزم سے بھرا تھا۔ "تم یہ نہیں کر سکتی!"
"کیوں؟" زینب چیخی، اس کی آواز ہوا میں گونجی۔ "یہ میری حقیقت ہے!"
علی نے اس کا بازو پکڑا۔ "یہ حقیقت نہیں، تباہی ہے! یہ دروازہ ایک تاریک دنیا سے جوڑتا ہے، جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ اگر تم نے اسے کھولا تو ہنزہ کی وادی، سب کچھ... ختم ہو جائے گا۔"
زینب نے اسے جھٹکا دیا۔ "تم کیوں روک رہے ہو؟ تمہارا خاندان اس راز کا محافظ ہے، نا؟"
علی کی آنکھوں میں درد جھلکا۔ "ہاں، لیکن ہم نے اسے بند رکھنے کی قسم کھائی تھی۔ تمہاری ماں... اس نے تمہیں بچانے کے لیے سب چھوڑ دیا۔"
زینب حیران رہ گئی। "میری ماں؟"
علی نے تعویذ اس کے ہاتھ میں دیا۔ "یہ تمہاری ماں کا ہے۔ اس نے مجھے دیا تھا، کہا تھا کہ اگر تم یہاں آئی تو تمہیں روکوں۔"
زینب نے تعویذ کو دیکھا۔ اس پر فوزیہ کا نام کندہ تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ "اماں..."
عجل کی روشنی اور تیز ہو گئی۔ عورت کی آواز گونجی۔ "زینب، فیصلہ کرو۔ دروازہ کھولو، یا اسے ہمیشہ کے لیے بند کرو۔"
زینب کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ ایک طرف وہ عورت تھی، جو اسے اپنی تقدیر کی طرف بلا رہی تھی۔ دوسری طرف علی، اس کا باپ، اور اس کی ماں کی قربانی۔ اس نے تعویذ کو مضبوطی سے پکڑا اور آنکھیں بند کیں۔ اس کے ذہن میں فوزیہ کی آواز گونجی"زینب، وعدہ کرو کہ تم جنگل سے دور رہو گی۔"
زینب نے آنکھیں کھولیں۔ اس کا فیصلہ پختہ تھا۔ وہ دائرے کے بیچ کھڑی ہوئی اور تعویذ کو زمین پر رکھ دیا۔ بلند آواز میں بولی، "میں اس دروازے کو ہمیشہ کے لیے بند کرتی ہوں!"
زمین زور سے ہلی۔ ایک زبردست گرج سنائی دی، اور عجل کی روشنی اچانک غائب ہو گئی۔ پتھروں کا دائرہ ٹوٹ کر بکھر گیا، اور عورت کی ایک دہلا دینے والی چیخ فضا میں گونجی، پھر سب خاموش ہو گیا۔ زینب زمین پر گر گئی، اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ علی نے اسے سہارا دیا۔
"تم نے صحیح کیا،" علی نے دھیمی آواز میں کہا، اس کی آواز میں سکون تھا۔
زینب کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ "لیکن... وہ عورت... وہ کیوں مجھے پکار رہی تھی؟"
علی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ "وہ تمہاری کمزوری کا فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔ لیکن تم نے اس راز کو ختم کر دیا۔ اب یہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔"
زینب نے آسمان کی طرف دیکھا۔ ستارے چمک رہے تھے، لیکن اب ان میں کوئی پراسراریت نہیں تھی۔ وہ پرسکون تھے، جیسے وادی کی طرح۔
اگلے دن زینب نے فوزیہ سے فون پر بات کی۔ فوزیہ کی آواز میں سکون تھا۔ "زینب، تم نے وہ کیا جو میں نہ کر سکی،" اس نے کہا، اس کی آواز میں فخر تھا۔ "تم نے ہنزہ کو بچا لیا۔"
زینب نے اسلم سے بھی بات کی۔ اس نے معافی مانگی۔ "بیٹی، ہم تمہیں اس راز سے دور رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن تم نے ہمت دکھائی۔"
ہنزہ کی وادی اب پہلے سے زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔ زینب نے فیصلہ کیا کہ وہ یہیں رہے گی۔ وہ کالج جاتی رہی، ایمن اس کی سب سے اچھی دوست بن گئی، اور علی اس کا سہارا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کا خاندان اب اس راز سے آزاد ہے۔
ایک شام زینب خوبانی کے باغیچے میں بیٹھی تھی۔ سورج غروب ہو رہا تھا، اور وادی سنہری روشنی میں نہا رہی تھی۔ اس نے ماں کا نیلا دوپٹہ سر پر ڈالا اور مسکرائی۔ وہ اپنی حقیقت جانتی تھی۔ وہ ہنزہ کی بیٹی تھی، ایک ایسی لڑکی جس نے صدیوں پرانے راز کو شکست دی۔
لیکن جیسے ہی وہ اٹھی، اس کی نظر باغیچے کے کنارے پر پڑی۔ وہاں ایک عجیب سی چمک تھی۔ دھیمی، لیکن مانوس۔ اس نے دل کی دھڑکن کو دبایا اور قریب گئی۔ زمین پر ایک چھوٹی سی علامت کندہ تھی۔ ایک دائرہ، بیچ میں ایک ستارہ۔ اس کے نیچے کوئی تحریر نہیں تھی، لیکن زینب کے دل میں ایک سوال اٹھا: کیا یہ واقعی ختم ہو گیا؟ وہ مسکرائی، دوپٹہ مضبوطی سے پکڑا، اور وادی کی طرف دیکھا۔ ہنزہ اس کا گھر تھا، اس کی کہانی تھی، اور اس کی فتح تھی۔
(ختم شد)