براہ مہربانی پلے کا بٹن ضرور دبائیں اور نیچے دی گئی کہانی پڑھیں۔ آپ کے تعاون کا بہت بہت شکریہ
👇👇
میں اب بھی سوچتی ہوں، کیا واقعی میں منحوس تھی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب میں آج تک نہ ڈھونڈ سکی۔ مگر یہ سوال سانپ کی طرح میرے وجود سے لپٹا ہوا ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا، یہی ایک جملہ میرے کانوں میں زہر گھولتا رہا: اری رجو، تُو تو بڑی منحوس ہے۔ شروع میں اس لفظ کی سنگینی کا نہ احساس تھا نہ مطلب سمجھ آتا۔ میں اکثر سوچتی، چچی مجھے ہر وقت منحوس کہہ کر کیوں بلاتی ہیں؟ مگر جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی، اس لفظ کی تلخی میرے اندر گہری اترتی گئی۔ یہاں تک کہ وہ میرے وجود، میری شناخت اور میری روح کا حصہ بن گئی۔
یہ سارا قصہ اس دن سے شروع ہوا جب ابا نے دنیا کو خیرباد کہا۔ میں اس وقت سال بھر کی تھی۔ امی کے سامنے میری پرورش کا سوال کھڑا ہو گیا۔ ان کا میکہ بہت غریب تھا۔ اگر وہ وہاں چلی جاتیں، تو اُن کی دوبارہ شادی کر دی جاتی۔ مگر امی نے دوبارہ سرخ دوپٹہ سجانے کی بجائے، بیوگی کی سفید چادر ہی اوڑھنے کا فیصلہ کیا۔ چچا، جو ابا سے بے حد محبت کرتے تھے، انہوں نے امی کو سہارا دیا اور میری پرورش کی ذمہ داری لے لی۔ ہمیں اپنے گھر میں رکھ لیا۔ مگر چچی کے دل پر جیسے سانپ لوٹ گیا۔ وہ امی کی زندگی کو مسلسل عذاب بنائے رکھتیں، اور امی صبر کے گھونٹ پیتی رہتیں۔ یہی چپ امی کے جگر کو اندر ہی اندر کترنے لگی۔ چچا سارا دن گھر سے باہر ہوتے، اور کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ اُن کی بیوی، امی کے ساتھ کیسا سلوک کر رہی ہے۔
وقت گزرتا گیا۔ میں پانچ برس کی ہو گئی۔ آخرکار امی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اُن کا جگر جواب دے گیا۔ ایک دن جب میں اسکول سے لوٹی تو دیکھا، سب لوگ امی کے کمرے میں جمع ہیں۔ کوئی کہہ رہا تھا، اسپتال لے چلو، تو کوئی کہہ رہا تھا، ڈاکٹر کو بلا لو۔ میں نے ڈرتے ڈرتے جھانکا تو دیکھا، امی کو خون کی الٹی آئی تھی۔ ان کا رنگ تو ویسے ہی زرد رہتا تھا، مگر اب تو وہ جیسے مرجھائے ہوئے سرسوں کے پھول سے بھی زیادہ پیلی ہو گئی تھیں۔ وہ ہلدی کی گانٹھ جیسی لگنے لگی تھیں۔ اتوار کا دن تھا۔ چچا سودا سلف لینے بازار گئے ہوئے تھے۔ جب واپس آئے تو امی کی حالت بگڑ چکی تھی۔ فوراً انہیں گاڑی میں ڈال کر اسپتال لے گئے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ امی کا جگر فیل ہو چکا ہے۔ انہیں کافی عرصے سے پہلو میں درد، متلی اور بھوک نہ لگنے کی شکایت تھی، مگر نہ کسی نے توجہ دی، نہ امی نے کسی سے ذکر کیا۔ اندر ہی اندر بیماری انہیں کھا گئی، اور یوں وہ ہمیں چھوڑ گئیں۔
امی کے جانے کے بعد چچی کی زبان کے تیراب براہِ راست میری طرف آنے لگے۔ وہ تو امی کے سامنے بھی مجھے منحوس کہا کرتی تھیں، مگر اب کھل کر کہتیں کہ رجو بڑی منحوس ہے، پہلے باپ کو کھا گئی، پھر ماں کو نگل گئی، اب دیکھنا کس کی باری ہے، اللہ خیر کرے۔ شروع میں ان کی باتیں میرے سر سے گزر جاتیں، دل پر اثر نہ کرتی تھیں۔ مگر رفتہ رفتہ ان کی زہریلی زبان میرے ننھے سے کلیجے میں چھید کر گئی۔
وقت گزرتا رہا۔ ہفتے، مہینے اور مہینے سالوں میں بدل گئے۔ میں اب اسکول بھی نہیں جا سکتی تھی۔ جو کام پہلے ماں سے لیا جاتا تھا، اب وہ سب مجھ سے لیا جانے لگا۔ چچا مجھے پڑھانا چاہتے تھے، مگر چچی واویلا کرنے لگتیں کہ اتنا کام مجھ سے ہوتا نہیں، یہ لڑکی کس مرض کی دوا ہے! جتنا پڑھ لیا، بس کافی ہے۔ کہتی تھیں کہ میں نے اسے اس لیے اسکول سے ہٹایا ہے کہ جب لڑکیاں پڑھنے کے بہانے گھر سے باہر قدم نکالتی ہیں تو ہوشیار ہو جاتی ہیں۔ زمانے کی ہوا لگتی ہے تو پر نکل آتے ہیں۔ لڑکوں سے باہر ملاقاتیں ہو جاتی ہیں، پھر ان سے باریاں لگتی ہیں۔ ارے بابا، یہ اکیلی گھر سے پڑھنے کو نکلے تو کون اس کے دو پیروں پر پہرہ دے گا؟ عزت بچانی ہے تو لڑکی کو چار جماعتیں پڑھا دینا ہی کافی ہے۔
چچا، جو مجھ سے بے حد محبت کرتے تھے اور بیوی کی فطرت سے خوب واقف تھے، جانتے تھے کہ اگر وہ میرے حق میں کھل کر بولے تو ان کے جاتے ہی چچی مجھ پر قہر برسا دیں گی۔ وہ دل مسوس کر رہ جاتے، مگر میری فکر دل سے کرتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے ایک ترکیب نکالی۔ کہنے لگے، میرے بھائی کی کچھ جائیداد ہے جس کا پہلے علم نہ تھا، اب وہ اسی لڑکی کے نام کی جائے گی۔ بہتر ہے کہ اسے میٹرک تک پڑھنے دیں، پھر رضیہ کی شادی میں اس کی اپنے بیٹے نوید سے شادی کر دیں گے۔ ورنہ جائیداد غیروں میں چلی جائے گی۔ چچی نے بہت سوچنے کے بعد کہا: اپنے بیٹے سے تو میں بہن کی بیٹی کی شادی کر دوں گی۔ یہ بات میں نے بچپن سے طے کر رکھی ہے۔ البتہ تمہاری بھیجی کسی غیر کے گھر نہیں جانے دوں گی، یہ میرے بھائی کی بیوی بنے گی۔
یہ سن کر میں بہت روئی۔ چچی کے بھائی کو میں ماموں رمضان کہتی تھی۔ جب بھی وہ آتا، مجھے دیکھ کر عجیب سی شکلیں بناتا۔ اس کی آنکھوں میں کچھ ایسی جھلک ہوتی تھی کہ جسے دیکھ کر میری روح کانپ جاتی۔ وہ عمر میں مجھ سے بہت بڑا تھا اور مجھے سخت ناپسند تھا۔ جب نوید کو معلوم ہوا کہ رجو کے بارے میں اس کی ماں کے یہ ارادے ہیں، تو اس نے ماں سے جھگڑا شروع کر دیا۔ چچا اور نوید ایک طرف تھے اور چچی دوسری طرف۔ بیٹے اور باپ کا اتحاد مضبوط دیکھ کر وہ سوچ میں پڑ گئیں کہ اب ان کی ایک نہ چلنے والی تھی۔ مگر وہ ایسی عورت نہ تھیں جو آسانی سے ہار مانیں۔ میری حالت دیدنی تھی۔ خوف سے دن رات کانپتی رہتی کیونکہ گھر میں جو جھگڑا ہو رہا تھا، وہ میری ذات کے گرد گھوم رہا تھا۔ بالآخر بیٹا جیت گیا اور ماں کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔
میری عمر بمشکل سولہ برس تھی کہ میری شادی نوید سے ہو گئی، جو مجھ سے صرف تین سال بڑا تھا۔ وہ خوبصورت تھا اور میں بھی شکل و صورت کی بری نہ تھی۔ سُجھ بوجھ رکھنے والے دیکھتے تو کہتے، چاند سورج کی جوڑی ہے، اللہ نظرِ بد سے بچائے۔ اب مجھے سکون مل جانا چاہیے تھا، کیونکہ میں اب ایک بوجھ نہیں رہی تھی بلکہ اس گھر کی بہو بن چکی تھی۔ مگر چچی کے دل پر مجھے بہو بنانے کا جو زخم لگا تھا، اُس سے ہر وقت لہو ٹپکتا رہتا تھا۔ انہوں نے ٹھان لیا تھا کہ اپنی بھانجی کو بھی بہو بنا کر ہی دم لیں گی، چاہے اس کے لیے مجھے کسی طرح راستے سے ہٹانا ہی کیوں نہ پڑے۔
شادی کا پہلا سال میں نے چچی کے کڑے تیوروں کے سائے میں سہم سہم کر گزارا۔ میرے ایک بیٹی ہوئی۔ وہ تو خوش نہ تھیں، لیکن ہم میاں بیوی اتنے خوش تھے جیسے ہمیں ہماری منزل مل گئی ہو۔ چچا زیرک انسان تھے، بیوی کے تیور اور گھر کے ماحول کو اچھی طرح بھانپتے تھے۔ انہوں نے اس کا بھی حل نکالا۔ بھاگ دوڑ کر کے نوید کا تبادلہ دوسرے شہر کروا لیا۔ ہم میانوالی سے مری آ گئے۔ ہمیں سرکاری گھر ملا، اور یہاں تین برس بہت سکون سے گزرے۔ میرے شوہر محکمہ جنگلات میں تھے۔ انہیں جنگلات کا سروے کرنا ہوتا تھا۔ ایک دن وہ سروے پر گئے تو جنگل میں سانپ نے ڈس لیا۔ زہر اتنا تیز تھا کہ سنبھلنے کا موقع نہ ملا۔ ان پر بے ہوشی طاری ہو گئی اور ان کے ساتھی جب تک ان کے قریب پہنچتے، وہ جان کی بازی ہار چکے تھے۔ انہیں اسپتال لے جانے کا موقع بھی نہ مل سکا۔
یہ خبر بجلی بن کر مجھ پر گری۔ اب میں صحیح معنوں میں غم سے آشنا ہوئی۔ میری دنیا اجڑ چکی تھی۔ جینے کا حوصلہ ٹوٹ گیا تھا، مگر اپنی بچی مومنہ کے لیے جینا تھا۔ میں خود یتیم ہو کر پلی تھی، یتیمی کا دکھ جانتی تھی۔ میں کسی طور اپنی بیٹی کو بے رحم زمانے کے حوالے نہیں کرنا چاہتی تھی۔ شاید میں اپنی ماں جیسا ہی نصیب لے کر پیدا ہوئی تھی۔ چچی شاید چاہتی تھیں کہ لوگ مومنہ کو بھی میری طرح منحوس سمجھیں۔ مگر میں نے تہیہ کر لیا کہ ہر حال میں جیوں گی اور اپنی بچی پر اپنی ہستی سے سایہ رکھوں گی۔
چچا اور چچی ہمیں واپس اپنے گھر لے آئے۔ چچی نے مجھے دیکھتے ہی پہلا جملہ کہا، نگل لیا نا میرے بیٹے کو بھی، سچ کہتی تھی میں کہ تُو منحوس ہے، اب مان گئی نا میری بات؟ میں نے کہا، ہاں چچی، مان گئی ہوں۔ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ میں واقعی منحوس ہوں۔ آپ سچ کہتی ہیں، آپ کا کوئی قصور نہیں، میں ہی نحوست کی ایک مورت ہوں۔ چچا نے مجھے دلاسا دیا۔ جب تک وہ زندہ رہے، ہم ماں بیٹی کو کبھی روٹی کی محتاجی نہ ہوئی۔ مگر ان کی بیوی اب مجھے ایسے دیکھتی جیسے سفید چادر پر داغ، کیونکہ میں اب ان کی ساس بن چکی تھی۔ چچا اکثر کہتے، ایک تو ڈائن، اوپر سے چرخ پر سوار۔ اس پر وہ سر پیٹ کر کہتیں، تمہاری بھتیجی ہے جو ہمارے بیٹے کو کھا گئی! خدا جانے کیوں پیدا ہوئی یہ منحوس! جنم لیتے ہی ماں کو کھا گئی، پھر باپ کو، اور اب میرے بیٹے کو بھی نگل گئی۔
ان کے بول کڑوے ضرور تھے، مگر اب تو مجھے بھی وہ حق بجانب لگتی تھیں، کیونکہ مومنہ ابھی سات برس کی ہی تھی کہ بازار میں دو آدمیوں کے درمیان جھگڑا ہوا اور گولیاں چل گئیں۔ چچا بیچارے ناحق بیچ میں آ گئے اور ایک گولی ان کا نشانہ بن گئی۔ جب پے در پے ایسے واقعات ہوں تو انسان سوچنے لگتا ہے کہ اگرچہ سب کچھ اللہ کی رضا سے ہوتا ہے، لیکن کبھی کبھار یہ بھی لگتا ہے کہ شاید یہ رب کی ناراضی کا اظہار ہے۔ ناراضی بچی پر تھی یا میں ہی سبز قدم تھی؟ یہ فیصلہ صرف رب کی ذات ہی جانتی ہے۔ ہم انسان تو محض کھلونے ہیں۔ کبھی حالات کے تھپیڑوں میں الجھ جاتے ہیں، کبھی تقدیر کے تیر کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ کانچ کا کھلونا اگر زمین پر گر جائے تو اس کی کیا مجال کہ ٹوٹے غیر بچ جائے؟
بیوہ ہوتے ہی چچی میکے چلی گئیں۔ چچا کی کل جائیداد اور روپے پیسے کو ان کے بھائیوں نے اپنی تحویل میں لے لیا، حتیٰ کہ وہ مکان بھی جس میں ہم سب رہتے تھے۔ ان کے میکے والے مجھ سے مکان خالی کرانے آ گئے۔ میں نے لاکھ منت سماجت کی کہ یہ میری بچی کے دادا کا گھر ہے، میں اس معصوم کو لے کر کہاں جاؤں؟ اس گھر میں مومنہ کا بھی حق ہے، ہمیں سر چھپانے کو ایک کمرہ دے دیجئے، تب تک تو رہنے دیں جب تک اس کی شادی نہ ہو جائے۔ اس پر رمضان نے کہا، ایک صورت میں رہ سکتی ہو، مجھ سے نکاح کر لو۔ میں نے کہا، میں آپ کے بھانجے کی بیوی تھی، اب آپ سے نکاح کرنا کہاں کا انصاف ہوگا؟ وہ منہ پھلا کر چلا گیا۔ چند دن ہی گزرے تھے وہ پھر آ گئے کہ ہم بچی کو لینے آئے ہیں، اس پر دادی کا بھی حق ہے، اگر اسے باپ دادا کی جائیداد کا وارث بننا ہے تو اسے اپنی دادی کے پاس رہنا ہوگا۔ میں سمجھ گئی کہ اب میری مصیبتوں میں اضافے کا وقت آ چکا ہے۔
بچی کو ساس کے حوالے کیا تاکہ وہ میرے خلاف مزید کانٹے نہ بچھائیں۔ میں نے کہا، آپ شوق سے پوتی کو رکھیے مگر مجھے بھی ساتھ رکھنا ہو گا، میرا آپ کے سوا کوئی نہیں، کوئی ٹھکانہ بھی نہیں۔ کہاں جاؤں گی؟ ساس نے کہا، نکاح تو کر سکتی ہو، ٹھکانہ بھی مل جائے گا۔ تم نکاح ثانی پر راضی ہو جاؤ، محفوظ ہو جاؤ گی، ابھی تمہاری عمر ہی کتنی ہے۔ میرے بھائی کو پسند نہیں کرتی ہو تو رمضان نہ سہی، میں کسی اور اچھے انسان سے تمہارا نکاح کروا دیتی ہوں، بچی سے بھی دور نہ رہو گی۔ تم عقل سے کام لو، سوچو، اگر کل میں مر گئی تو تم کہاں جاؤ گی؟
بچی کی خاطر میں نے ساس کی بات مان لی۔ انہوں نے میرا نکاح اپنے چچازاد بھائی شبیر سے کروا دیا۔ وہ ایک اچھا انسان تھا۔ جب تک زندہ رہا، مجھے کوئی تکلیف نہ ہونے دی، لیکن اس کی زندگی نے وفا نہ کی۔ وہ مجھ سے عمر میں بڑا تھا، میرے ساتھ بارہ برس گزار کر وفات پا گیا۔ میری بیٹی مومنہ اٹھارہ برس کی ہو رہی تھی۔ مجھے اس کی شادی کی فکر کھائے جا رہی تھی۔
میں نے اپنے سسر سے ذکر کیا کہ وہ بزرگ ہیں، نکاح خواں بھی ہیں، کئی گھروں سے مراسم رکھتے ہیں، شاید کسی نیک نوجوان کا رشتہ تلاش کر دیں۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ رنڈوے جانے کب سے دل میں دوسری شادی کا ارمان دبائے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے جو بات کہی، وہ میرے لیے کسی صدمے سے کم نہ تھی۔ کہنے لگے، کسی عالم سے پوچھتا ہوں کہ کیا بہو کے پہلے شوہر کی بیٹی سے نکاح جائز ہے؟ اگر اجازت ہو تو میں ہی مومنہ سے نکاح کر کے تمہیں سہارا دے دیتا ہوں۔ یہ سن کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔
کیا بیوہ عورت کو زندگی کی سانسیں قائم رکھنے کے لیے ایسی ہی بھیانک قربانیاں دینی پڑتی ہیں؟ بہرحال، میں کسی صورت یہ قربانی دینے کو تیار نہ تھی۔ سوچا، اب مجھے سسر کا گھر چھوڑ دینا چاہیے۔ وہ تو مومنہ سے نکاح کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے اور میں بیٹی کو لے کر فرار ہونے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔ ہمارے گھر کی ملازمہ سے میں نے اپنی مشکل بیان کی۔ اس نے اپنے بھائی کو، جو سرگودھا میں فوج میں حوالدار تھا، سارا احوال لکھ بھیجا۔ وہ اچھا انسان تھا۔ اس نے ہماری مدد کی ہامی بھر لی۔ ملازمہ مجھے اور مومنہ کو سرگودھا لے آئی۔ ہم کئی دن اس کے گھر چھپے رہے۔ مجھے ڈر تھا کہ سسر ہمیں ضرور ہراساں کریں گے۔ ملازمہ کے بھائی نے مجھے بہن بنا لیا اور ایک مناسب لڑکا تلاش کر کے مومنہ کی شادی کروا دی۔
جس روز میری بیٹی کی شادی ہوئی، میرے سر سے برسوں کا بوجھ اتر گیا اور میں پہلی بار سکون سے سو سکی۔ میرا داماد بہت امیر نہ تھا، مگر اس نے ہمیں عزت اور آرام دیا۔ وہ بھی فوج میں ایک معمولی ملازم تھا۔ میں سوچتی ہوں، میری تو ایک ہی بیٹی تھی اور میں عمر بھر مشکل میں گھری رہی۔ جن عورتوں کی کئی جوان بیٹیاں ہوتی ہیں، وہ اس معاشرے میں کیسے عزت سے جیتی ہوں گی؟ اس سماج میں بیوہ ماں ہونا، وہ بھی جوان بیٹیوں کی، واقعی ایک کڑی آزمائش ہے۔
(ختم شد)