ہم شکل بھائی

Sublimegate Urdu Stories

میں تقریباً دو سال کا تھا جب میرے سر سے والدین کا سایہ اُٹھ گیا۔ قسمت نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا۔ میرے لیے کیا چھوڑا؟ صرف دُکھ، جو میں آج تک جھیل رہا ہوں۔ کچھ عرصے بعد میرے بڑے بھائی کی شادی ہو گئی۔ میری بھابھی کیا آئیں، گھر جیسے روشن ہو گیا۔ سب بہن بھائی کہنے لگے، طارق! تمہاری امی آ گئی ہیں، یہ تمہاری امی ہیں۔ میں سب بہن بھائیوں سے چھوٹا تھا، اتنی سمجھ بوجھ نہ تھی کہ اپنے اور پرائے کی پہچان کر سکوں۔ میں نے اُنہیں امی کہنا شروع کر دیا۔ اور وہ واقعی میری ماں بن گئیں۔ 

کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ ہر ایک سے میرا تعارف کرایا، ہر رشتے کا شعور دیا۔ میرے والد صاحب آرمی میں کیپٹن تھے۔ ہم چار بھائی ہیں۔ بڑے بھائی کے بعد دلاور بھائی صاحب، جو مجھ سے بے حد پیار کرتے تھے۔ دل اور بھائی جان ایک فرشتہ صفت انسان تھے۔ میرے لیے وہ واقعی ایک فرشتہ تھے، جنہوں نے مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھا۔ بھائی جان نے لاہور لاء کالج میں داخلہ لے لیا۔ اُس وقت میں ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ انہوں نے مجھے بھی لاہور بلا لیا اور مسلم ٹاؤن کے پاکستان ماڈل ہائی اسکول میں داخل کروایا۔ بھائی جان کسی مجبوری کی وجہ سے وکالت کا کورس مکمل نہ کر سکے، کیونکہ اُن کا شروع سے ہی خیال تھا کہ میں بھی آرمی میں جا کر اپنے والد کی طرح ملک و قوم کی خدمت کروں۔ میں بھائی جان کے ساتھ دو سال پڑھتا رہا۔

اُنہیں یہ شوق تھا کہ میں زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کروں۔ ہمارے رشتہ دار گلبرگ میں رہتے تھے۔ بھائی جان لاء کالج چلے جاتے اور میں اسکول سے چھٹی کے بعد گھر آتا، کھانا کھاتا اور پڑھنے بیٹھ جاتا۔ بھائی جان نے میرے لیے بہت کچھ سوچ رکھا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ طارق کو پڑھا کر یہ بنائیں، وہ بنائیں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ میں زیادہ تعلیم حاصل نہ کر سکا۔

ایک دن محلے کے لڑکوں کے ساتھ قذافی اسٹیڈیم چلا گیا۔ دوسرے لڑکے مجھے چھوڑ کر پتہ نہیں کہاں چلے گئے، اور میں اکیلا رہ گیا۔ اکیلا ہی گھومتا گھامتا گلبرگ چلا گیا۔ دیکھتا ہوں کہ ایک عورت اپنی کوٹھی کے گیٹ پر کھڑی اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہی ہے کہ بیٹے، گھر جلدی آ جانا، زمانہ بہت برا ہے، ورنہ پٹائی کر دوں گی، سمجھ گئے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ہاں امی، سمجھ گیا، جلدی واپس آ جاؤں گا۔ اس نے اسکوٹر اسٹارٹ کیا اور چل دیا۔ یہ سب باتیں سن کر میرا دماغ گھوم گیا، اور مجھے احساس ہوا کہ کاش میری امی بھی زندہ ہوتیں۔ اُس عورت کی نظر مجھ پر پڑی، اُس نے آواز دی کہ بیٹے ادھر آؤ، کیا سگریٹ پی رہے ہو اس عمر میں؟ میں نے سگریٹ نیچے پھینک دی۔ وہ بولیں، بری بات ہے۔ 

میں نے جب نظریں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا، تو میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ انہوں نے پوچھا، کیوں رو رہے ہو، کچھ بتاؤ تو سہی؟ میں روئے جا رہا تھا، اپنا بازو چھڑا کر بھاگا تو انہوں نے اپنے نوکر کو کہا کہ اسے پکڑ کر لاؤ۔ نوکر نے مجھے پکڑ کر ان کے پاس لا کھڑا کیا۔ وہ مجھے اپنے بنگلے کے اندر لے گئیں۔ میں کچھ گھبرا سا گیا۔ وہ مجھ سے پوچھ رہی تھیں کہ بتاؤ کیا بات ہے، رونے کی وجہ تو بتاؤ، کیا راستہ بھول گئے ہو؟ کیا ہوا ہے؟ اتنے میں انہوں نے اپنی بیٹی کو آواز دی، بیٹا پانی کا گلاس لاؤ۔ بیٹی دوڑتی ہوئی آئی، وہ مجھے زبردستی پانی پلانے لگے، حالانکہ مجھے پیاس بالکل نہیں تھی، پھر بھی میں نے تھوڑا سا پانی پی لیا۔ ان کی تین بیٹیاں تھیں، سب میرے ارد گرد آ کر بیٹھ گئیں، اور مجھ سے سوالات شروع ہو گئے کہ کہاں کے ہو اور کیوں رو رہے ہو؟ امی، یہ لڑکا ہے کون اور کیوں رو رہا ہے؟ میں نے بتایا کہ میں سیالکوٹ کا رہنے والا ہوں، میرا اس دنیا میں کوئی بھی نہیں۔ یہ سن کر لڑکیاں بھی رونے لگیں، اور ان کی ماں کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔

 تھوڑی دیر بعد خاموشی چھا گئی۔ پھر وہ عورت بولیں کہ بیٹے، ادھر کیا کرتے ہو؟ میں نے اُن کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ مجھے جانے دیں، ورنہ مجھے مار پڑے گی۔ میں حیران تھا کہ ان سب کو میری بات سن کر رونا کیوں آ گیا؟ وہ کہنے لگیں کہ تو بھی میرے واجد بیٹے جیسا ہے۔ میرا ایک ہی بیٹا ہے، اور دوسرا تو اب مل گیا ہے۔ جب واجد تمہیں دیکھے گا تو بہت خوش ہو گا کہ میرا دوسرا بھائی بھی مل گیا ہے۔ اسی دوران میں ان سب سے گھل مل گیا، ایسے جیسے میں بھی اسی گھر کا فرد ہوں، اور میں اُس عورت کو امی کہنے لگا۔

مجھے جانے دیں، دیکھیں کافی دیر ہو گئی ہے۔ تھوڑی دیر اور بیٹھو، واجد آتا ہی ہوگا، وہ تمہیں چھوڑ آئے گا۔ یہ سب باتیں میں ان کی بڑی بیٹی روبینہ سے کر رہا تھا۔ مجھے کیا پتا تھا کہ امی سے پوچھے بغیر جانا مشکل ہوگا۔ امی نے دوسرے کمرے سے آواز دی، بیٹی روبینہ! طارق کو کمرے میں لاؤ۔ میں بلا جھجک کمرے میں چلا گیا۔ امی بولیں، بیٹے! قمیص کی جیب میں کیا ہے؟ میں چونک گیا۔ کچھ بھی نہیں، میں نے کہا۔ قریب آؤ، امی نے میری جیب سے ولز کے سگریٹ کا پیکٹ نکالا، اسے توڑ کر ٹوکری میں پھینک دیا اور بولیں، آئندہ کے لیے توبہ کرو اور مجھ سے وعدہ کرو کہ سگریٹ کو ہاتھ تک نہ لگاؤ گے، توبہ توبہ۔ میں نے فوراً توبہ کی، کہا آئندہ آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا، امی! ماں کا لفظ سنتے ہی وہ بولیں، تمہیں امی بہت یاد آتی ہیں؟ میں نے جواب دیا، ہاں، کیوں نہیں، بہت زیادہ! بولیں، کیا میں تمہاری امی نہیں؟ میں نے کہا، کیوں نہیں، آپ ہی میری امی ہیں اور میں آپ کا بیٹا ہوں۔

 سوال جواب ہو ہی رہے تھے کہ واجد بھی آ گیا۔ آتے ہی بولا، امی! ذرا دیر ہو گئی، معافی چاہتا ہوں، مگر یہ لڑکا کون ہے؟ امی نے جواب دیا، یہ لڑکا نہیں، تمہارا بھائی ہے، اس کا نام طارق ہے۔ واجد نے سب کچھ جاننا چاہا۔ امی نے ساری بات بتا دی۔ جب اسے سب معلوم ہو گیا تو وہ مجھ سے ہاتھ ملاتے ہی گلے لگ گیا، مجھے خوش کرنے کے لیے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا، بولا طارق! چلو کہیں گھومنے چلتے ہیں، اسکوٹر تو ہے، اگر ڈیڈی جلدی آ گئے تو گاڑی بھی مل جائے گی۔ میں نے اجازت چاہی، لیکن امی نے بہت اصرار کیا، کہنے لگیں واجد تمہیں چھوڑ آئے گا اور تمہارا گھر بھی دیکھ لے گا، اگر تم خود نہ آئے تو میں خود تمہیں لینے آؤں گی۔ میں دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ انہیں اپنا گھر کیسے دکھاؤں؟ فوراً ایک ترکیب ذہن میں آئی، کیوں نہ اپنے آپ کو کسی کا ملازم ظاہر کر دوں، جھوٹ تو بولنا پڑے گا، کوئی بات نہیں، یہی ہوگا کہ آئندہ اس طرف رخ نہیں کروں گا۔ میں نے کہا، میں مسلم ٹاؤن میں ایک گھر میں ملازمت کرتا ہوں، بہت اچھے لوگ ہیں، ساتھ پڑھاتے بھی ہیں، لیکن آپ جیسے نہیں ہو سکتے، آپ بہت اچھے ہیں۔

 امی نے حیرت سے پوچھا، کیا تم واقعی کسی کے گھر ملازمت کرتے ہو؟ پھر دعائیں دینے لگیں، بولیں، طارق بیٹے! میں تمہیں کسی کے پاس نہیں رہنے دوں گی، تم دوبارہ آؤ گے، میں تمہارے ساتھ جا کر تمہیں اپنے گھر لے آؤں گی۔ اچھا اب جاؤ، جلدی واپس آنا۔ دیکھو، ماں کو بھولو گے تو نہیں؟ میں نے کہا، یہ کیسے ہو سکتا ہے! امی نے کہا، اگر وہ لوگ زیادہ ناراض ہوں کہ تم اتنی دیر کہاں تھے، تو بے شک ہمارا بتا دینا۔ جاؤ۔ میں اللہ حافظ کہہ کر گیٹ سے نکل ہی رہا تھا کہ ایک کار میرے سامنے آ کر رکی، شاید واجد کے ڈیڈی ہوں، مگر میں نے کوئی خاص توجہ نہ دی اور سیدھا گھر چلا آیا۔ میرے انتظار میں بھائی جان سخت پریشان تھے، نہ کچھ پوچھا، نہ کچھ کہا، بس تین چار تھپڑ رسید کر دیے، مگر مجھے کچھ محسوس نہ ہوا، میرا دل و دماغ تو گلبرگ کے اُس گھر میں اٹکا ہوا تھا، جن سے میں جھوٹ بول کر آیا تھا۔ بھائی جان نے اُس دن سے سختی کر دی، کہنے لگے، آئندہ اگر اتنی دیر گھر سے غائب رہے تو اچھا نہیں ہوگا، سمجھے؟ چلو کھانا کھاؤ۔ 

لیکن میری بھوک ختم ہو چکی تھی، دو لقمے لیے اور چھوڑ دیے۔ اگلے دن اسکول گیا، ہمارے گھر کے ساتھ جو گھر تھا، وہاں بہت اچھے لوگ رہتے تھے، ان کا بیٹا نثار میرا بہت قریبی دوست تھا۔ اسکول سے واپس آ کر سیدھا نثار کے پاس چلا گیا-

میں نے ساری کہانی نثار کو سنا دی۔ اب بتاؤ، میں کیا کروں؟ میں نے ان سے کہا ہے کہ میں کسی کے گھر کام کرتا ہوں، ہو سکتا ہے وہ کسی نہ کسی دن وہاں آ جائیں۔ انہوں نے مجھے بیٹا کہا ہے اور میں نے انہیں ماں کہا ہے۔ جھوٹ بولا، یہ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی۔ اب یہی ہو سکتا ہے کہ میں کہوں تمہارے گھر کا کام کرتا ہوں، تم بات کرنا۔ اگر یہ سارا بھید کھل گیا تو میرے لیے اچھا نہ ہو گا، انہیں بہت دکھ ہو گا۔ میں تو ویسے بھی سیالکوٹ جا رہا ہوں، پھر کبھی کبھار تمہیں ملنے آیا کروں گا۔ اچھا چلو، ٹھیک ہے۔ یہ بتاؤ وہ لوگ کب آ رہے ہیں؟ اتوار کو میری چھٹی ہے، اتوار کو ہی ان کے ہاں جاؤں گا، پھر وہ میرے ساتھ آئیں گے۔ نثار! تم گھر پر رہنا۔

 اتوار کا دن آیا، میں گلبرگ امی کے پاس چلا گیا۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ روبینہ میرے لیے کھانا لے کر آگئی، سب نے بیٹھ کر کھانا کھایا۔ کچھ دیر بعد واجد کے ڈیڈی بھی آ گئے۔ آتے ہی پوچھا، واجد کی امی! آج اتوار ہے، ہمارا بیٹا طارق نہیں آیا؟ امی نے کہا، طارق کب سے آیا ہوا ہے۔ انہوں نے آواز دی، بیٹے اٹھو، واجد کے ڈیڈی تمہیں دیکھنے کے بہت خواہشمند ہیں۔ میں کچھ شرما سا رہا تھا، بڑی ہمت کر کے اندر داخل ہوا۔ وہ بولے، بیٹے! تم آئندہ ہمارے ہاں رہو گے، یہ تمہارا اپنا گھر ہے۔ امی نے بھی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا، طارق بیٹا ادھر ہی رہے گا، اسے بھی واجد کے ساتھ اسکول میں داخل کروائیں گے، دونوں بھائی اکٹھے پڑھا کریں گے۔ 

جہاں یہ کام کرتا ہے، واجد کو ساتھ لے کر وہاں جاؤں گی، بات کر کے ہمیشہ کے لیے طارق کو اپنے پاس لے آؤں گی۔ واجد کے ڈیڈی بولے، ضرور جانا۔ میں نے کہا، ہمارے صاحب جو ہیں، آج کل کاروبار کے سلسلے میں کہیں گئے ہوئے ہیں، جانے کا فائدہ نہیں، دس پندرہ دن میں واپس آئیں گے، ان کے آنے پر ہم تمہیں لے آئیں گے۔ یہ تو میرے دل یا میرے اللہ کو پتا تھا کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے، کون اس کے گھر میں آئے گا؟ میں اپنی غلطی پر بہت رویا، اگر جھوٹ نہ بولتا تو بہتر ہوتا۔ اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا، سوائے پچھتاوے کے۔ میں اپنے گھر واپس آ گیا۔ 

گھر آ کر بھی سوچتا رہا کہ کیا ہو گا۔ میرا دل بھی گھر میں نہ لگا۔ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر پھر ان کے گھر چلا گیا۔ پندرھواں روزہ تھا۔ روزہ کھلنے سے پہلے ہی امی کے پاس چلا گیا۔ سب افطاری کی تیاریاں کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر سب بہت خوش ہوئے، جیسے کوئی برسوں سے گم چیز واپس ملی ہو۔ میرا روزہ نہ تھا، پھر بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر کھایا پیا۔ روبینہ پوچھنے لگی، تمہارے صاحب واپس آ گئے ہیں؟ میں نے یونہی مذاق میں کہا، نہیں، ہاں، اگر آ بھی گئے تو مجھے ہرگز نہ چھوڑیں گے، ہو سکتا ہے کہ میں اس گھر میں نہ آ سکوں۔ وہ روپڑی۔ کہنے لگی، طارق! ایسا مت کہو، وہ کیوں نہ چھوڑیں گے، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ تم اس گھر میں ضرور آؤ گے۔ کیا تمہیں کسی کا کوئی احساس نہیں؟ جب روبی کے آنسو زیادہ بہنے لگے تو میں نے کہا، روتی کیوں ہو؟ وہ تو کل رات ہی آ گئے تھے۔ 
اتنے میں روبی کی امی بھی آ گئیں۔ امی نے روبی کی طرف دیکھا، اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں، گالوں پر ایک دو آنسو بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ امی بولیں، دیکھو بیٹے! روبی کو تم سے کتنا پیار ہے۔ اسی طرح واجد اور کوثر کو بھی تم سے بہت محبت ہے۔ جب تم نہیں آتے، تو پوچھتے رہتے ہیں، طارق آیا نہیں؟ کیا بات ہے؟ گھر کیوں نہیں آیا؟ اگر نہ آؤ گے، تو خود جا کر تمہیں لے آئیں گے، کیونکہ انہیں تم سے پیار ہے۔ میں نے کہا، میں بھی اس گھر کے لیے تڑپتا ہوں۔ بات ختم ہوتے ہی امی بولیں، ہم تمہارے ساتھ چلتے ہیں۔ واجد کو آواز دی، واجد! ڈرائیور سے کہو گاڑی نکالے، اور تم بھی تیار ہو جاؤ، طارق کے ساتھ جانا ہے۔ واجد کا خوشی سے برا حال تھا۔ میرے ساتھ جانے کا جب بھی نام لیتے، تو کھڑے ہو جاتے۔

میں اُن کو ساتھ لے گیا۔ وہاں نثار انتظار میں تھا، باہر آیا۔ ہم جب ڈرائنگ روم میں پہنچے تو نثار ہمیں دیکھتے ہی فوراً اندر چلا گیا۔ میں نے بیل بجائی، امی کو اندر بٹھایا اور چائے لینے چلا گیا۔ جب واپس آیا تو واجد بولا، چائے بعد میں پئیں گے، پہلے اُن صاحب کو بلاؤ جو تمہیں یہاں رہنے کی اجازت دیں گے، اور تم خود بھی تیار ہو جاؤ۔ میں نے نثار کو بلایا، آتے ہی اس نے سلام کیا۔ نثار اور واجد کی گفتگو شروع ہوئی۔ نثار بولا، میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا، ڈیڈی آئیں گے تو وہی بات کریں گے۔ واجد کی امی نے پوچھا، تمہاری امی کہاں ہیں؟ نثار بولا، وہ تو گھر پر نہیں ہیں، کسی کام سے باہر گئی ہوئی ہیں۔ بات بن نہ پائی۔ وہ سب بڑے غمگین ہو کر واپس چلے گئے اور کہہ گئے کہ پرسوں دوبارہ آئیں گے۔ میں اور بھی زیادہ پریشان ہو گیا۔ اگر وہ پرسوں آئے تو نہ جانے کیا ہو۔ میں انتظار کرتا رہا، مگر وہ نہ آئے۔ 

چند دن بعد ہی عید آ گئی۔ میرا ارادہ تھا کہ سیالکوٹ جا کر عید مناؤں۔ میرا جانا ضروری تھا کیونکہ میں نے اسکول چھوڑ دیا تھا اور ہمیشہ کے لیے سیالکوٹ واپس جا رہا تھا۔ لاہور میں اکیلے کیسے رہتا؟ بھائی جان کو آرمی میں کمیشن مل گیا تھا۔ عید سے پہلے، میں خود ہی واجد، امی اور سب سے ملنے چلا گیا۔ امی سے ملاقات ہوئی، روبی، کوثر اور واجد سب ہی آ گئے۔ ان سب کو مجھے دیکھ کر اتنی خوشی ہوئی کہ میں خود حیران رہ گیا۔ میں نے امی سے کہا، میں عید کرنے سیالکوٹ جا رہا ہوں، ان شاء اللہ عید کے بعد جلد واپس آؤں گا۔ امی بولیں، بیٹے! کیا عید ہمارے ساتھ نہیں کرو گے؟ میں نے جواب دیا، ضرور کرتا، میرا بھی دل یہی چاہتا ہے کہ آپ لوگوں کے ساتھ عید مناؤں، اور ہمیشہ کے لیے یہیں آ جاؤں، لیکن سیالکوٹ جانا بھی ضروری ہے۔ امی بولیں، اچھا بیٹے، اگر جانا ضروری ہے تو تمہاری خوشی۔ تھوڑی دیر بیٹھو تو سہی۔ روبی بھائی بھائی کرتی آئی، اُس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا لفافہ تھا، جو لا کر مجھے دیا۔ کہنے لگی، یہ تمہاری عیدی ہے۔ اگر ہمارے ساتھ عید کرتے تو بہت اچھا ہوتا۔ 
میں تمہیں ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتی ہوں۔ گھر کا ایک ایک فرد مجھ سے وعدہ لے رہا تھا کہ طارق کو عید کے بعد ضرور آنا ہوگا ورنہ ہم ناراض ہو جائیں گے۔ روبی کا تو رو رو کر برا حال تھا، مجھ سے بات تک نہ کر رہی تھی۔ جب اُسے یقین ہو گیا کہ طارق رُکے گا نہیں، جانا ہی ہے، تو مجبور ہو کر کہنے لگی، دیکھو! مجھ سے جھوٹ نہیں بولنا، خدا کے لیے وعدہ کرو کہ واپس آؤ گے نا؟ میں نے جواب دیا، ہاں! ضرور آؤں گا۔ سب سے باری باری ملا، سب کی آنکھوں میں آنسو تھے، میری اپنی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔ میری چیخ نکل گئی، جیسے کلیجہ پھٹ رہا ہو۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ میری اُن سے آخری ملاقات ہے۔ کیوں نہ جی بھر کے باتیں کرلوں، شاید دوبارہ مل نہ سکوں، منہ بھی نہ دکھا سکوں۔ جھوٹ تو جھوٹ ہوتا ہے، ایک نہ ایک دن پکڑا ہی جاتا ہے۔ امی نے بڑے پیار سے مجھے رخصت کیا۔

گھر پہنچ گیا، مگر دل کو کوئی سکون نہ تھا۔ عید کا بھی کوئی مزا نہ آیا۔ ہر وقت میرا دل و دماغ لاہور میں اٹکا رہتا۔ عید کو گزرے ایک مہینہ ہو چکا تھا۔ نثار کے خط کا انتظار تھا۔ آخرکار خط آ ہی گیا۔ خط ہاتھ میں تھا، مگر اتنی ہمت نہ ہو رہی تھی کہ کھول کر پڑھ سکوں۔ نہ جانے اس میں کیا لکھا ہو گا۔ کافی دیر بعد جب خط کھولا تو پڑھتے ہی چکرا سا گیا… یوں لگا جیسے قیامت ٹوٹ پڑی ہو۔ خط میں لکھا تھا:

ڈیئر طارق! آداب… طارق، اب اپنی کارکردگی کا انجام بھی پڑھ لو۔ طارق، کسی کو دھوکے میں نہیں رکھنا چاہیے۔ میں اس دن کو بہت پچھتا رہا ہوں، جب واجد اور اس کی امی پہلی بار آئے تھے۔ مجھے اسی وقت سچ بتا دینا چاہیے تھا کہ سب کچھ غلط ہے۔ اب سنو، میں اس دن گھر پر نہ تھا، کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا۔ واجد، اس کی امی اور بہن گھر آئے تھے۔ میری امی سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا طارق عید کے بعد واپس نہیں آیا؟ امی نے بتایا کہ طارق تو میرے بیٹے کا دوست ہے، ہمارا ملازم نہیں۔ اس کا بھائی سیالکوٹ گیا تھا، وہ بھی اس کے ساتھ چلا گیا۔ یہ سن کر واجد کی امی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا طارق، جو میرے ہم شکل تھا، برسوں پہلے کھو گیا تھا۔ بہت تلاش کیا، مگر نہ مل سکا۔ اس کی یاد میں ماں، باپ، بہن، بھائی سب تڑپتے رہے اور آج بھی تڑپ رہے ہیں۔
 وہ رو کر چلی گئیں۔طارق! تم اب ان لوگوں کو دوبارہ نہیں مل سکو گے، لیکن ایک ماں کے جذبات کو تم نے بہت ٹھیس پہنچائی ہے۔ وہ ماں جس کا بیٹا کھو گیا تھا اور جس نے تمہاری شکل اور نام میں اپنے بیٹے کی شبیہ تلاش کی۔ میں کئی مرتبہ لاہور گیا، گلبرگ بھی گیا، مگر گھر کے سامنے جا کر بھی حوصلہ نہ ہوا کہ دروازہ کھٹکھٹاؤں۔ کئی بار چھپ کر ان لوگوں کو دیکھا۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ واقعی میری ماں ہوں۔ میں بھی تو ماں کے پیار کو ترسا ہوا تھا۔ شاید کسی نفسیاتی کمی کے باعث میں نے یہ جھوٹ بولا۔ کاش! میں ایسا نہ کرتا۔ کاش! میں یہ جھوٹ نہ بولتا تو سب کتنا اچھا ہوتا۔