آبرو کا امتحان

Sublimegate Urdu Stories

پھپھو اکیلی رہتی تھیں، پھوپھا بیرونِ ملک کمائی کے لیے گئے ہوئے تھے۔ اکیلے گھر میں پھپھو کا دل نہیں لگتا تھا، وہ مجھے اصرار کر کے اپنے گھر لے آئی تھیں اور شہر کے ایک اچھے کالج میں میرا داخلہ کرا دیا تھا۔ میرے پیپرز ہو چکے تھے اور چھٹیوں میں اپنے والدین کے پاس راولاکوٹ جانے کا پروگرام تھا کہ زلزلہ آ گیا اور ہزاروں لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔ امی ابو بھی اس میں وفات پا گئے۔ ان کا گھر زمین میں دھنس گیا تھا، جس میں تمام مکین زندہ دفن ہو گئے، جبکہ میرے بھائی بہن اللہ کی قدرت سے محفوظ رہے۔ وہ اس وقت اسکول جانے کے لیے نکلے تھے۔ ان کو معمولی چوٹیں ضرور آئیں کیونکہ وہ سڑک پر گر پڑے تھے۔ یوں کہہ لیں جسے اللہ رکھے، اسے وہ کون چکھے۔ پھپھو نے انہیں بھی اپنے گھر لے آئیں۔ جب میرے بہن بھائی دونوں میرے پاس آ گئے، تو اب ہم پھپھو کے گھر میں تین افراد ہو گئے۔ وہ دونوں کلاس ٹو میں پڑھتے تھے۔ انہیں یہ سمجھ نہیں تھی کہ ان کے والدین اس دنیا سے جا چکے ہیں، ہم انہیں پھر کبھی نہ دیکھ سکیں گے۔ میں بھی بہت زیادہ سمجھدار نہیں تھی، لیکن حالات کو کچھ نہ کچھ سمجھ رہی تھی۔

 ہمارے رشتہ دار امی ابو کے انتقال پر آئے تھے، گھر ان سے بھر گیا تو میں اپنا دکھ بھول گئی۔ سمجھی کہ میں اکیلی نہیں ہوں، بہت سے لوگ ہمدرد اور اپنے ساتھ ہیں۔ اس احساس نے دکھ کی شدت کو کم کر دیا تھا۔ میں اپنے چھوٹے بہن بھائی کو دیکھتی، تو آنسو پونچھ لیتی تھی تاکہ وہ مجھے روتا دیکھ کر پریشان نہ ہوں۔ میرے ساتھ وہ بھی تو ماں باپ کی شفقتوں سے محروم ہو گئے تھے اور اب میں انہیں ہنستا مسکراتا دیکھنا چاہتی تھی۔اپنوں کی ہمدردی اور محبت کا سہارا میری صرف خام خیالی تھی۔ رشتہ دار میرے والدین کے انتقال پر تو آئے، مگر اس کے بعد انہوں نے ہم بچوں کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ جس پھپھو کے گھر ہم رہ رہے تھے، ان کے داماد بھی اس زلزلے کی نذر ہو گئے اور ان کی بیٹی اپنے چار بچوں کے ساتھ بیوہ ہو کر ان کے گھر آ گئی تھی۔ اب پھپھو کے پاس کوئی سہارا نہیں تھا۔ بیوہ بیٹی اور یتیم نواسے نواسیوں نے بھی مستقل ان کے ساتھ رہنا تھا، یوں ان کا گھر چھوٹا پڑنے لگا۔ ان کی بیٹی کے بچوں کو بھی علیحدہ بیڈرومز درکار تھے۔ انہی دنوں پھپھو اپنے شوہر کے پاس بیرونِ ملک چلی گئیں اور گھر بیوہ بیٹی کے حوالے کر دیا۔

 اب ہمارا گھر میں رہنا محال ہو گیا۔ ان کا سلوک ہم سے بے رخی کا تھا۔ ان کے بچے باقاعدہ ذہنی اذیت دینے لگے تھے۔ایک روز پھپھو کا فون آیا، تو میں نے مختصراً انہیں حالات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں کچھ رقم تم کو بھیجواتی ہوں۔ تم کسی نزدیکی محلے میں کرایے پر گھر لے لو، جب میں وطن واپس آؤں گی تو تم لوگوں کے مسائل حل کر دوں گی۔ ابھی آنے سے مجبور ہوں۔ یہ کہنا بہت آسان تھا کہ الگ گھر لے کر رہو۔ ہمارا اکیلے رہنا مشکل تھا۔ پھپھو نے یہ نہ سوچا کہ یہ جوان لڑکی اپنے دو چھوٹے چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ کرایے کے گھر میں اکیلی کیسے رہے گی؟ انہیں ہماری پریشانیوں سے زیادہ اپنی بیٹی اور ان کے بچوں کے سکون کی فکر تھی۔خیر، انہوں نے ایک رشتہ دار کو فون کیا، جو پنڈی میں ہی رہتے تھے، رقم بھی بھیجوا دی اور ان صاحب سے جو رشتے میں ہمارے چچا ہوتے تھے، ہمیں ایک متوسط درجے کے محلے میں کرایے کا مکان لے دیا اور میں اپنے بھائی بہن کے ساتھ وہاں رہنے لگی۔

میں نے کالج جانا چھوڑ دیا تھا۔ سودا سلف سامنے والی دکان سے مل جاتا تھا۔ بجلی کا بل بھی ان کا نوکر بھر دیتا تھا، تاہم اس کے علاوہ بھی دسیوں کام تھے۔ رات کو اکیلے سونے سے ڈر لگتا تھا۔ ایک طرف میرا بھائی اور دوسری طرف بہن قدسیہ سوتی اور میں درمیان میں لیٹتی تھی۔ خوف کی وجہ سے ہم گرمیوں میں بھی کمرے کا دروازہ بند کر لیتے تھے، جبکہ محلے کے تمام لوگ صحن میں یا چھتوں پر سوتے تھے۔ مجھے ڈر لگتا تھا کہ اکیلے جان کر کوئی دیوار کود کر گھر کے اندر نہ آ جائے۔اخراجات کا ذمہ انہی چچا نے اٹھایا، جنہوں نے مکان ڈھونڈ کر دیا تھا۔ ان کا نام جلیل تھا اور یہ میرے والد کے چچا زاد بھائی تھے۔ باغ کے علاقے میں ان کی زمین اور باغات میں میرے والد بھی شریک تھے۔ چپ جلیل ہمارے گھر نہیں آتے تھے۔ نوکر کے ہاتھ رقم بھجوا دیا کرتے تھے۔

ہمارے پڑوس میں انکل شاہد رہتے تھے۔ وہ اور ان کی بیگم اکیلے تھے، ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ آنٹی بشری بہت اچھی خاتون تھیں۔ انہوں نے ہمارے اکیلے پن کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ وہ ہمارے اوپر والے پورشن میں جو خالی تھا، رہیں گی۔ یہ مکان دراصل انکل شاہد کا ہی تھا، جس کا اوپر والا پورشن کرایے کے لیے خالی تھا۔ انہوں نے مناسب نہ سمجھا کہ ہمارے ساتھ کرایہ دار بٹھائیں۔ خدا جانے کیسے لوگ آجائیں، پس وہ ہمارے اوپر والے پورشن میں شفٹ ہو گئے اور اپنا گھر جو برابر میں تھا، کرایے پر دے دیا۔ کہتے ہیں ناں کہ جس کا کوئی نہیں، اس کا خدا ہوتا ہے، تو اللہ نے ان لوگوں کے دلوں میں رحم ڈال کر ہماری مدد کی اور ہمیں تنہائی کے خوف سے نجات دلادی۔ اوپر والے پورشن میں آنٹی کے آجانے سے مجھے بہت سکون ملا۔ اب ہم اکیلے نہیں رہے تھے۔ یہ لوگ ہر طرح سے ہمارا خیال رکھنے لگے۔ آنٹی کے حوصلہ افزائی پر میں نے دوبارہ کالج جانا شروع کر دیا۔صبح سویرے آنٹی اٹھتیں، نماز کے بعد ناشتہ بناتیں۔ میں قدسیہ اور قدیر کو اسکول کے لیے تیار کرتی، تب وہ ناشتہ نیچے لے آتیں۔ تبھی انکل گاڑی نکالتے اور قدسیہ اور قدیر کو اسکول چھوڑتے ہوئے آفس چلے جاتے۔ میں کالج روانہ ہوتی، جب واپس لوٹتی تو میرے بہن بھائی اسکول سے آ چکے ہوتے۔ تب مجھے لگتا کہ انکل اور آنٹی کے روپ میں اللہ نے ہمیں ماں باپ دے دیے ہیں۔

 ان کی وجہ سے ہماری زندگی کی بہت سی مشکلات کم ہو گئی تھیں۔ دو سال اسی طرح گزر گئے۔ میں نے تعلیم مکمل کر لی۔ آنٹی کے چچا زاد بھائی کا اسکول ہمارے گھر سے تھوڑا سا دور تھا۔ انہوں نے ان کو کہہ رکھا تھا کہ جب آپ کے اسکول میں جگہ خالی ہو یا ٹیچر کی ضرورت ہو، مجھے آگاہ کرنا۔ بی اے کا نتیجہ نکلا تو آنٹی نے بتایا کہ میں نے تمہارے لیے فیصل بھائی سے کہہ رکھا تھا۔ ان کے اسکول میں ٹیچر کی جگہ خالی ہے۔ تم چاہو تو وہاں جاب کر لو۔ میں تو پہلے ہی تلاش میں تھی، بہت خوش ہوئی کیونکہ جتنا خرچہ چچا ہمیں دیتے تھے، وہ ہمارے گزارے کے لیے ناکافی تھا۔ اگلے دن میں آنٹی کے ہمراہ ان کے کزن کے اسکول چلی گئی اور سروس لے کر جوائن کر لی۔ زندگی کچھ آسان ہو گئی۔ اپنی تنخواہ سے گھر چلانے لگی۔ جو رقم چچا بھیجوا دیتے تھے، اس سے قدسیہ اور قدیر کی پڑھائی کا خرچہ مشکل سے نکلتا تھا، یوں شام کو میں ٹیوشن پڑھانے لگی۔ اس طرح میری زندگی بہت مصروف ہو گئی۔انکل اور آنٹی نے مجھے کہا کہ کسی طرح ایم اے کر لو تو تمہیں اچھی جاب مل جائے گی۔ ان کے حوصلہ افزائی سے میں نے ایم اے میں داخلہ لے لیا اور اسکول میں شام کی شفٹ پڑھانے لگی۔ آنٹی کے کہنے پر اسکول کے مالک نے میری تنخواہ میں بھی اضافہ کر دیا تھا۔

 یہ سب امداد ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہنچ رہی تھی۔ ایم اے کے بعد بھی مجھے نوکری کے لیے بھٹکنا نہیں پڑا۔ انکل اثر و رسوخ والے تھے۔ انہوں نے کوشش کر کے مجھے کالج میں لیکچرار لگوا دیا۔ پبلک سروس کا امتحان بھی میں نے پاس کیا۔ میں نے اپنے دن رات اپنے بہن بھائیوں پر قربان کر دیے۔اب ان چچا اور پھپھو وغیرہ کبھی کبھار آ جاتے اور کہتے کہ دیکھو، اب تم سیٹل ہو گئی ہو، اپنے پاؤں پر کھڑی ہو، صد شکر کہ کسی کی محتاج نہیں ہو۔ وہ امداد کرنے کا کہتے تو میں شکریہ کہہ دیتی کیونکہ جب مجھے ان کی اشد ضرورت تھی، اگر اس وقت سے امداد کرتے تو انہیں فرشتۂ رحمت سمجھتی۔ میں مجبور اور بے دست و پا تھی۔ اب تو میں خود بر سر روزگار تھی، کیوں ان کا دباؤ قبول کرتی۔ صد شکر۔ قدسیہ اور قدیر دونوں پڑھائی میں بہت لائق تھے۔ میں نے انہیں کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہونے دی اور دنیا کی ہر برائی سے بھی دور رکھا۔ انہیں زیادہ سے زیادہ پڑھائی پر توجہ مرکوز رکھنے کی تلقین کی۔ اسی دوران دل کا دورہ پڑنے سے انکل شاہد کا انتقال ہو گیا اور آنٹی اپنے میکے چلی گئیں۔ اب ہم ان کے بڑے سے گھر میں اکیلے رہ گئے۔

 ان کے جانے کے بعد محلے کے کچھ بدقماش لڑکوں نے ہمیں تاکا اور مجھے پریشان کرنا شروع کر دیا۔ میں نے ان کی پروا نہیں کی، کسی کی آواز سن کر کبھی پلٹ کر جواب نہیں دیا۔ میرے سامنے صرف ایک مقصد تھا اور وہ تھا اپنے بہن بھائیوں کا مستقبل۔ دونوں نے اب کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ایف ایس سی میں قدیر نے اتنے اچھے نمبر لیے کہ میرٹ پر اس کا سلیکشن ہو گیا اور وہ اکیڈمی چلا گیا۔ قدسیہ کو آگے پڑھنے کا شوق نہ تھا۔ جب بھی وہ کالج جاتی، محلے کا کوئی نہ کوئی لڑکا اس کو تنگ کرتا کیونکہ انہیں پتا تھا کہ ان کے ماں باپ نہیں ہیں، دونوں بہنیں اکیلی رہتی ہیں اور مالک مکان جو ہمارا تحفظ کرتا تھا، وہ بھی نہیں تھا۔ میں خرابیِ زمانے سے بہت ڈرتی تھی، تبھی میں نے قدسیہ کو آگے پڑھنے سے روک دیا۔ میں جاب پر چلی جاتی تو وہ گھر پر اکیلی رہتی۔ تب بھی دل ڈرتا کہ کوئی میرے بعد اسے گزند نہ پہنچائے۔ بھائی تو اکیڈمی میں تھا، چھٹی کے دنوں میں دو چار دن کے لیے آتا تھا۔ ہمارے گھر کی دیواریں بے شک اونچی تھیں، لیکن اونچی دیواریں بھی کبھی کبھار چور لٹیروں کو روکنے میں ناکام رہتی ہیں۔ مجھے اپنی بہن پر پورا بھروسہ تھا۔ وہ ایک نیک بچی تھی، پھر بھی نوخیز عمر کی لڑکیاں اتنی سمجھدار نہیں ہوتیں۔ وہ تو اتنی سیدھی تھی کہ ہر کسی کی بات کا یقین کر لیتی تھی۔ مجھے اس کے سیدھے پن سے ڈر لگتا تھا۔گھر میں رہتے ہوئے اکثر سودا سلف کی ضرورت پڑ جاتی تھی۔ اگرچہ میں ہر شے وقت پر لا کر رکھ دیا کرتی، تاہم روز ہی کوئی چھوٹی موٹی ضرورت کی شے عین وقت پر یاد آ جاتی۔ تب وہ گلی کے بچوں کو آواز دے کر بلاتی اور ان کے سامنے والے اسٹور پر بھیج کر سودا منگوا لیتی۔
انہی دنوں سامنے والے اسٹور پر رشید نامی لڑکا ملازم ہوا۔ وہ صحت مند، خوش شکل اور پھر تیز تھا۔ اچھا لباس پہنتا اور صاف ستھرا رہتا۔ جب اسے پتہ چلا کہ سامنے والے مکان میں لڑکی اکیلی رہتی ہے اور گلی کے بچوں سے سودا منگواتی ہے، تو اس کے دل میں ایک الگ ہی جذبہ جاگا۔ ایک روز وہ اسٹور پر بیٹھا تھا کہ قدسیہ نے گھر کا دروازہ کھولا اور گلی سے گزرنے والے ایک بچے کو پکارا۔ ادھر آؤ، سامنے والے اسٹور سے ماچس لا دو۔ بچہ بات ان سنی کر کے بھاگ گیا۔ یہ منظر رشید دیکھ رہا تھا۔ اس سے رہا نہ گیا۔ وہ دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا، آپ کو جو چاہیے، مجھے بتائیے، میں لا دیتا ہوں۔ میرا نام رشید ہے اور میں سامنے والے اسٹور پر ملازم ہوں۔ پھر وہ دوڑ کر ماچس کا پورا پیکٹ لے آیا اور بولا، اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو گھر کے دروازے پر سفید رنگ کا کپڑا لٹکا دینا، میں سمجھ جاؤں گا کہ آپ کو کچھ چاہیے۔ میں دو منٹ میں لا کر دے دوں گا۔ یہی بات یہاں سے شروع ہوئی۔ اب رشید کی نگاہیں ہمہ وقت ہمارے دروازے پر رہتی تھیں۔

 جب دروازے پر سفید کپڑا لٹکا ہوتا، وہ فوراً آتا اور جس چیز کی ضرورت ہوتی، اسی وقت لا دیتا۔ قدسیہ کے لیے یہ سہولت بن گئی تھی، لیکن زمانے کی نظریں بھی عقاب کی طرح تیز ہوتی ہیں۔ لوگوں نے رشید کو ہمارے گھر آتے جاتے دیکھا تو محلے بھر میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں اور غلط باتیں شروع ہو گئیں۔شروع میں مجھے بھی کچھ پتہ نہ چلا، لیکن جب محلے والوں کے رویے بدل گئے تو مجھے شک ہوا کہ کچھ تو ہے۔ میں نے خود جا کر پتہ کیا، مگر معاملہ عیاں نہ ہوا۔ ایک روز میں سامنے والوں کے گھر گئی تو ان کی لڑکی نے بتایا کہ باجی تم اپنی بہن کا خیال رکھو، لوگ باتیں بنانے لگے ہیں۔ مجھے بھی اماں نے اسی وجہ سے قدسیہ کے پاس جانے سے روک دیا ہے۔ کہتی ہیں، بد اچھا، بد نام برا ہوتا ہے، تم ان کے گھر مت جایا کرو۔اس بات کو سن کر میرا دل دھڑک اٹھا اور کیفیت عجیب ہو گئی۔ اب مجھے سمجھ آیا کہ محلے والے ہمیں کیوں ناپسندیدہ نظروں سے دیکھنے لگے تھے۔ گھر جا کر قدسیہ سے پوچھا، وہ بیچاری حیرانی سے مجھے دیکھنے لگی۔ اس کی سمجھ میں میری پوچھ تاچھ کا مطلب نہیں آیا۔ جب میں نے کہا کہ تمہاری کم عقلی کی وجہ سے میری تمام عمر کی محنت ضائع ہو گئی ہے، تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ تم کو لوگ ایک غلط لڑکی سمجھنے لگے ہیں۔ 
میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ رونے لگی کہ اس نے کچھ غلط نہیں کیا پھر لوگ اسے برا کیوں کہہ رہے ہیں۔ تم سامنے والے لڑکے رشید کو بلاتی ہو۔ میں کوئی غلط بات کے لیے نہیں بلاتی باجی! جب کچھ منگوانا ہوتا ہے تو دروازہ کھول کر اشارہ کر دیتی ہوں۔اللہ! اس کے زار زار رونے پر میں بھی دکھی ہو گئی۔ اسے گلے لگا کر چپ کرایا اور سمجھایا۔ دیکھو قدسیہ! میں تمہاری بڑی بہن ہی نہیں ماں بھی ہوں۔ ایک ماں کی طرح تمہارا خیال رکھا ہے تاکہ لوگ ہم پر باتیں نہ بنائیں۔ اکیلے گھر میں لڑکیاں رہنا معاشرے کے لیے ایک چیلنج اور ہمارے لیے امتحان ہوتا ہے۔ لوگ تو الٹی سیدھی باتوں کے لیے بہانہ ڈھونڈتے ہیں۔ اب میں ہر نماز کے بعد دعا کرنے لگی کہ یا اللہ! جلد از جلد میری بہن کے لیے اچھا رشتہ بھیج دے اور ہماری عزت و آبرو پر کوئی آنچ نہ آئے۔میں نے اپنی کولیگز سے بھی بات کی، تبھی دو چار رشتے آئے مگر بات نہ بنی۔ ایک دور ایسا آیا کہ محلے والوں نے بگاڑ دیا کہ یہ اچھی لڑکی نہیں ہے۔ ایک روز ہمارے پاس پھپھو آئیں اور میری مراد بر آئی۔ وہ کافی عرصہ بیرون ملک گزار کر آئی تھیں۔ میں نے ان کی بہت خاطر مدارات کی۔ وہ خوش ہو کر ہمارے گھر سے گئیں۔ کچھ دن بعد دوبارہ آئیں اور اپنی نواسی کے لیے میرے بھائی قدیر کا رشتہ مانگا۔ میں نے کہا پھپھو، جب تک وہ پاس آؤٹ نہیں ہو جاتا، اسے شادی کی اجازت نہیں ہے۔ آپ کو تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا، البتہ آپ سے التجا ہے کہ اپنے نواسے کے لیے میری بہن کا رشتہ لے لیں۔ میں جاب پر جاتی ہوں، قدسیہ گھر میں اکیلی ہوتی ہے، تو مجھے خوف رہتا ہے۔انہوں نے اپنی بیٹی سے مشورہ کیا۔
 قدسیہ خوبصورت، نیک اور سیدھی سادی گھریلو لڑکی تھی۔ ایف اے پاس تھی۔ انہوں نے ہاں کر دی۔ ان کی بیٹی کو بھی ایسی ہی بہو چاہیے تھی جو گھر سنبھال سکے۔ یوں قدسیہ کی شادی وقت پر ہو گئی اور میں نے سکون کا سانس لیا۔سال بعد قدیر بھی اکیڈمی سے پڑھ کر گھر آگیا۔ وہ آفیسر منتخب ہو گیا تھا۔ اس کے لیے رشتوں کی کمی نہ تھی لیکن وہ کسی یتیم لڑکی سے شادی کا خواہاں تھا اور پھپھو کی نواسی بھی یتیم تھی۔ اس کا باپ بھی زلزلے کی نذر ہو گیا تھا۔

آج میری زندگی کا مقصد پورا ہوا ، ماں باپ کے بعد میں نے اپنی بہن بھائی کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ وہ بہت خوش ہیں، مجھے بھی پھپھو نے کہا کی اب شادی کر لو۔ لیکن مجھے ابھی تک کوئی اچھا ہمسفر نہیں ملا۔ ایسے لگتا ہے جیسے دل کسی کا انتظار کر رہا ہے۔

 (ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ