میں ایک مقامی اسپتال میں نرس ہوں۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس پیشے میں آ جاؤں گی، نرس بن کر دکھی انسانوں کی خدمت اور دیکھ بھال کروں گی۔ دیگر طالبات کی مانند یہی سوچا کرتی تھی کہ ڈاکٹر بنوں گی، ماں باپ کا نام روشن کروں گی۔ یہی میرا خواب تھا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اس نے مجھے ڈاکٹر کی بجائے نرس ہونے کا اعزاز بخش دیا۔ جب میں نویں میں تھی تو ان کا انتقال ہو گیا۔ تب میں نے عہد کر لیا کہ والد کا خواب ضرور پورا کروں گی۔ بس پھر اسی تمنا کو اپنا خواب بنا لیا۔ میٹرک میں انتھک محنت کی اور اعلیٰ پوزیشن لی۔ اچھے کالج میں داخلہ مل گیا۔ اب ایف ایس سی میں میرٹ پر آنا میری زندگی کا سب سے بڑا مقصد تھا۔امی کے بیوہ ہوتے ہی ہم ماں بیٹی اکیلی رہ گئیں۔ ماموں کا عمل دخل بڑھ گیا اور وہ اپنا گھر چھوڑ کر ہمارے گھر آ کر رہنے لگے۔
مجھے اللہ نے اچھی صورت دی تھی، تبھی میٹرک کے بعد ہی اچھے گھرانوں سے رشتے آنے لگے مگر ماموں جان مجھے اپنی بہو بنانے کی ٹھان چکے تھے۔ حالانکہ ان کا بیٹا انیس محلے بھر میں بدنام تھا۔ اس میں بری عادتیں جڑ پکڑ چکی تھیں۔ ساتویں جماعت سے نشہ بھرے سگریٹ پینا شروع کر دیا تھا، جس کے سبب اسے اسکول سے نکال دیا گیا۔ وہ آوارہ لڑکوں کے ٹولے کا سربراہ بن گیا۔ ماموں جانتے تھے کہ ان کے نکمے سپوت کو کوئی رشتہ نہیں دے گا۔ میری اماں پر ان کی گرفت بھی خاصی تھی۔ وہ خوش تھے کہ لڑکی بھی ان کے گھر آ جائے گی اور بہنوئی مرحوم کی جمع پونجی بھی وہ سمیٹ لیں گے۔ میں ان سب باتوں سے بے نیاز اپنے مستقبل کے سپنوں میں گم، جی توڑ کر پڑھائی میں مصروف تھی کہ میرٹ بن جائے گا تو میڈیکل کالج میں داخلہ ملے گا۔ایک دن ماموں انگوٹھی لائے اور امی سے کہا کہ اسے نگار کی انگلی میں پہنا دو، منگنی امتحانوں کے بعد کر لیں گے۔ امی نے وہ انگوٹھی پہنانے کی کوشش کی تو میں نے ہاتھ کھینچ لیا۔
مجھے اللہ نے اچھی صورت دی تھی، تبھی میٹرک کے بعد ہی اچھے گھرانوں سے رشتے آنے لگے مگر ماموں جان مجھے اپنی بہو بنانے کی ٹھان چکے تھے۔ حالانکہ ان کا بیٹا انیس محلے بھر میں بدنام تھا۔ اس میں بری عادتیں جڑ پکڑ چکی تھیں۔ ساتویں جماعت سے نشہ بھرے سگریٹ پینا شروع کر دیا تھا، جس کے سبب اسے اسکول سے نکال دیا گیا۔ وہ آوارہ لڑکوں کے ٹولے کا سربراہ بن گیا۔ ماموں جانتے تھے کہ ان کے نکمے سپوت کو کوئی رشتہ نہیں دے گا۔ میری اماں پر ان کی گرفت بھی خاصی تھی۔ وہ خوش تھے کہ لڑکی بھی ان کے گھر آ جائے گی اور بہنوئی مرحوم کی جمع پونجی بھی وہ سمیٹ لیں گے۔ میں ان سب باتوں سے بے نیاز اپنے مستقبل کے سپنوں میں گم، جی توڑ کر پڑھائی میں مصروف تھی کہ میرٹ بن جائے گا تو میڈیکل کالج میں داخلہ ملے گا۔ایک دن ماموں انگوٹھی لائے اور امی سے کہا کہ اسے نگار کی انگلی میں پہنا دو، منگنی امتحانوں کے بعد کر لیں گے۔ امی نے وہ انگوٹھی پہنانے کی کوشش کی تو میں نے ہاتھ کھینچ لیا۔
امی آپ مجھے جان بوجھ کر جہنم میں کیوں دھکیلنا چاہتی ہیں۔ کیا آپ بھانجے کے کرتوت نہیں جانتیں۔ میں ہرگز آپ کے نشئی اور آوارہ بھانجے سے شادی نہیں کروں گی۔امی بولیں کہ لڑکی کیسی باتیں کرتی ہو، کیا تعلیم حاصل کرنے کا یہ مطلب ہے کہ لڑکیاں خود سر ہو جائیں، ماں سے اس طرح بات نہیں کرتے۔ میں نے کہا کہ میں قسم کھاتی ہوں، اگر آپ نے ماموں کے دباؤ میں آ کر انیس سے میری شادی کا سوچا بھی تو میں خودکشی کر لوں گی۔ میری میٹرک میں ضلع بھر میں اول پوزیشن آئی ہے، اس سفارش اور رشوت کے دور میں پوزیشن لانا آسان نہیں۔ بتائیے، کتنی جان ماری ہوگی میں نے۔ شادی اگر انیس جیسے چرسی سے ہو گئی تو کیا میری زندگی تباہ نہیں ہو جائے گی۔ خدارا مجھے ایف ایس سی سکون سے کر لینے دیجئے۔امی نے ماموں سے کہا کہ کچھ وقت انتظار کر لیں، ایف ایس سی کر لینے دو، نتیجہ آ جانے دو۔ دیکھو قسمت میں کیا لکھا ہے۔
ماموں خاموش تو ہو گئے مگر دل میں طے کر لیا کہ میرا ڈاکٹر بننے کا خواب کبھی پورا نہ ہونے دیں گے، کیونکہ میں باپ کی جائیداد کی اکلوتی وارث تھی اور انہیں یہ گوارا نہ تھا کہ یہ سب کچھ کسی اور کے ہاتھ چلا جائے۔ چند دن خاموش رہنے کے بعد انہوں نے امی کو جانے کیا پٹی پڑھائی کہ وہ سر ہو گئیں کہ تم میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کی بجائے نرسنگ میں داخلہ لے لو۔ مجھے امی کی بات ماننی پڑی کیونکہ انہوں نے کہہ دیا تھا کہ اگر نرسنگ نہ کی تو انیس سے شادی کر دیں گی۔ اس ہی خوف سے میں نرسنگ کے لیے آمادہ ہو گئی۔ماں کو خوش کرنے کے لیے نرسنگ کو عارضی سہارا سمجھ کر ٹریننگ سینٹر چلی گئی۔ مگر جب باہر کی دنیا میں قدم رکھا، نئی دنیا دیکھی، تو تربیتی کورس کے دوران کئی بدمزہ واقعات پیش آئے اور میں نے کورس چھوڑ دیا۔ مگر ماموں نے دوبارہ امی پر دباؤ ڈالا کہ یہ چھوٹا سا کورس مکمل کر لے تو بعد میں میڈیکل میں داخلہ بھی دلا دوں گا۔ دراصل وہ مجھے اسی پیشے میں پھنسانا چاہتے تھے۔مانتی ہوں کہ نرسنگ بھی ایک عظیم پیشہ ہے، مگر اس وقت میرے ذہن میں یہ بات نہیں آ سکتی تھی۔
ماموں خاموش تو ہو گئے مگر دل میں طے کر لیا کہ میرا ڈاکٹر بننے کا خواب کبھی پورا نہ ہونے دیں گے، کیونکہ میں باپ کی جائیداد کی اکلوتی وارث تھی اور انہیں یہ گوارا نہ تھا کہ یہ سب کچھ کسی اور کے ہاتھ چلا جائے۔ چند دن خاموش رہنے کے بعد انہوں نے امی کو جانے کیا پٹی پڑھائی کہ وہ سر ہو گئیں کہ تم میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کی بجائے نرسنگ میں داخلہ لے لو۔ مجھے امی کی بات ماننی پڑی کیونکہ انہوں نے کہہ دیا تھا کہ اگر نرسنگ نہ کی تو انیس سے شادی کر دیں گی۔ اس ہی خوف سے میں نرسنگ کے لیے آمادہ ہو گئی۔ماں کو خوش کرنے کے لیے نرسنگ کو عارضی سہارا سمجھ کر ٹریننگ سینٹر چلی گئی۔ مگر جب باہر کی دنیا میں قدم رکھا، نئی دنیا دیکھی، تو تربیتی کورس کے دوران کئی بدمزہ واقعات پیش آئے اور میں نے کورس چھوڑ دیا۔ مگر ماموں نے دوبارہ امی پر دباؤ ڈالا کہ یہ چھوٹا سا کورس مکمل کر لے تو بعد میں میڈیکل میں داخلہ بھی دلا دوں گا۔ دراصل وہ مجھے اسی پیشے میں پھنسانا چاہتے تھے۔مانتی ہوں کہ نرسنگ بھی ایک عظیم پیشہ ہے، مگر اس وقت میرے ذہن میں یہ بات نہیں آ سکتی تھی۔
میرے خواب اونچے تھے۔ پہلا سال مکمل ہو گیا اور دل لگنے لگا کیونکہ ہر کام میں تن دہی اور شوق سے کرنے کی عادت تھی۔ اسپتال میں ڈیوٹی لگ گئی۔ مریضوں کے طرح طرح کے حالات جاننے کا موقع ملا۔ دل سے ان کی دیکھ بھال کرتی۔ ان کی دعائیں اور شکریے کے الفاظ میرا انعام تھے۔ دوسرا سال بھی گزر گیا مگر انیس سے شادی کی دھمکی اب بھی میرے سر پر تلوار کی طرح لٹکی ہوئی تھی۔ انہی دنوں میری ملاقات ڈاکٹر فراز احمد سے ہوئی۔ وہ بہت مہربان اور فرض شناس ڈاکٹر تھے۔ ان کی اور میری عادتیں ملتی جلتی تھیں۔ ہم دونوں مریضوں کی دل سے خدمت کرتے تھے۔ وہ اوروں سے بہت مختلف ڈاکٹر تھے، جیسے میں اپنی ہم پیشہ لڑکیوں سے مختلف تھی۔ ڈاکٹر صاحب کو میری یہی صفات اچھی لگیں اور وہ دل سے میرا احترام کرنے لگے۔
قدرت سب کو ایک بار ترقی کا موقع ضرور دیتی ہے۔ اچھی شہرت کے باعث مجھے بھی بہترین موقع مل گیا۔ ایک روز ڈاکٹر صاحب نے بلا کر کہا کہ ہم لوگوں کا ایک گروپ دنیا کے مختلف ممالک میں خیرسگالی کے طور پر بھیجا جا رہا ہے۔ میں اس گروپ میں شامل ہوں اور تمہارا نام دینا چاہتا ہوں کیونکہ ہمارے ساتھ کچھ نرسیں بھی جائیں گی۔ ہمیں وہاں غریب ممالک کے عوام کے علاج معالجے میں معاونت اور دیکھ بھال کرنی ہوگی، جس میں افریقہ کے چند ممالک بھی شامل تھے۔ ہم بہت سے غریب ممالک میں گئے۔ وہاں کے مصیبت زدہ اور قحط زدہ عوام سے ملے، جو جنگوں کے باعث کیمپوں میں پناہ گزین تھے۔ ان بیمار لوگوں کو دیکھ کر میری ذہنی تربیت اور بصیرت میں اضافہ ہوا، اور زندگی کی اصل حقیقت کو سمجھنے کا موقع ملا۔ یہی سمجھ میں آیا کہ انسانیت کی خدمت در حقیقت زندگی کا اصل مقصد ہے۔ ڈاکٹر فراز سے مجھے رہنمائی ملی اور میری سوچ بدل گئی۔ کچھ عرصہ بعد جب ہم اپنے مشن سے واپس آئے تو میرے گھریلو حالات بالکل بدل چکے تھے۔
قدرت سب کو ایک بار ترقی کا موقع ضرور دیتی ہے۔ اچھی شہرت کے باعث مجھے بھی بہترین موقع مل گیا۔ ایک روز ڈاکٹر صاحب نے بلا کر کہا کہ ہم لوگوں کا ایک گروپ دنیا کے مختلف ممالک میں خیرسگالی کے طور پر بھیجا جا رہا ہے۔ میں اس گروپ میں شامل ہوں اور تمہارا نام دینا چاہتا ہوں کیونکہ ہمارے ساتھ کچھ نرسیں بھی جائیں گی۔ ہمیں وہاں غریب ممالک کے عوام کے علاج معالجے میں معاونت اور دیکھ بھال کرنی ہوگی، جس میں افریقہ کے چند ممالک بھی شامل تھے۔ ہم بہت سے غریب ممالک میں گئے۔ وہاں کے مصیبت زدہ اور قحط زدہ عوام سے ملے، جو جنگوں کے باعث کیمپوں میں پناہ گزین تھے۔ ان بیمار لوگوں کو دیکھ کر میری ذہنی تربیت اور بصیرت میں اضافہ ہوا، اور زندگی کی اصل حقیقت کو سمجھنے کا موقع ملا۔ یہی سمجھ میں آیا کہ انسانیت کی خدمت در حقیقت زندگی کا اصل مقصد ہے۔ ڈاکٹر فراز سے مجھے رہنمائی ملی اور میری سوچ بدل گئی۔ کچھ عرصہ بعد جب ہم اپنے مشن سے واپس آئے تو میرے گھریلو حالات بالکل بدل چکے تھے۔
ماموں اپنے بیٹے کی پیدا کردہ پریشانیوں میں گھر تباہ ہو چکے تھے۔ ان کا سارا گھرانہ اسی نالائق لڑکے کی وجہ سے برباد ہو گیا تھا اور وہ قتل کے الزام میں جیل میں سزا بھگت رہا تھا۔ ایک غنڈہ گروپ کی انیس کے گروپ سے لڑائی ہوئی تھی۔ اس جھگڑے میں دوسرے گروپ کا ایک آدمی انیس کے ہاتھوں چوٹ لگنے سے موقع پر گر کر مر گیا تھا۔ امی بچاری گھر کو تالا لگا کر اپنی ایک خالہ زاد کے گھر رہ رہی تھیں۔ میرے آنے سے ان کو حوصلہ ملا۔ میں نے انہیں گھر واپس لایا، مگر چند ماہ بعد ہی فراز صاحب نے خوشخبری سنائی کہ چند نرسوں کو ٹریننگ کے لیے بیرونِ ملک جانے کا موقع ملا ہے اور میرا نام لسٹ میں شامل ہے، لہٰذا مجھے انٹرویو دینا چاہیے اور اس موقع کو ہرگز نہیں گنوانا چاہیے۔ خود ڈاکٹر صاحب بھی جا رہے تھے۔
والدہ کو دوبارہ ان کی عزیزہ کے گھر شفٹ کر کے میں بیرونِ ملک چلی گئی اور وہاں کچھ عرصے کی ٹریننگ مکمل کر کے واپس لوٹ آئی۔ ابھی وطن آئے زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ دنیا میں کووڈ-19 کی وبا کی بازگشت سنائی دینے لگی۔ پہلے دیگر ممالک سے دل سوز خبریں آنے لگیں، اور پھر ہمارے ملک میں بھی یہ بیماری پھیل گئی۔ فراز جیسے قابل ڈاکٹر فرنٹ لائن پر پیش پیش تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تمہاری ڈیوٹی لگنے والی ہے، کیا تم گھبراؤ گی۔ میں نے جواب دیا کہ ہرگز نہیں ڈاکٹر صاحب۔ آپ ساتھ ہیں تو مجھے کسی قسم کی گھبراہٹ نہیں ہے۔ وہ میرے اس جملے پر زیرلب مسکرائے، اور ہم نے دل جمعی سے اس جہاد میں حصہ لینا شروع کر دیا۔بہر حال، ہم دن رات اپنی ڈیوٹیاں سنبھالتے رہے اور مریضوں کی دیکھ بھال و علاج معالجے میں مصروف رہے کہ ایک روز ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ان کا ٹیسٹ مثبت آگیا ہے اور اب وہ قرنطینہ میں ہیں۔
والدہ کو دوبارہ ان کی عزیزہ کے گھر شفٹ کر کے میں بیرونِ ملک چلی گئی اور وہاں کچھ عرصے کی ٹریننگ مکمل کر کے واپس لوٹ آئی۔ ابھی وطن آئے زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ دنیا میں کووڈ-19 کی وبا کی بازگشت سنائی دینے لگی۔ پہلے دیگر ممالک سے دل سوز خبریں آنے لگیں، اور پھر ہمارے ملک میں بھی یہ بیماری پھیل گئی۔ فراز جیسے قابل ڈاکٹر فرنٹ لائن پر پیش پیش تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تمہاری ڈیوٹی لگنے والی ہے، کیا تم گھبراؤ گی۔ میں نے جواب دیا کہ ہرگز نہیں ڈاکٹر صاحب۔ آپ ساتھ ہیں تو مجھے کسی قسم کی گھبراہٹ نہیں ہے۔ وہ میرے اس جملے پر زیرلب مسکرائے، اور ہم نے دل جمعی سے اس جہاد میں حصہ لینا شروع کر دیا۔بہر حال، ہم دن رات اپنی ڈیوٹیاں سنبھالتے رہے اور مریضوں کی دیکھ بھال و علاج معالجے میں مصروف رہے کہ ایک روز ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ان کا ٹیسٹ مثبت آگیا ہے اور اب وہ قرنطینہ میں ہیں۔
یہ سن کر میرا دل دھک سے رہ گیا۔ وہ قرنطینہ ہو گئے اور میں خود کو لاوارث محسوس کرنے لگی۔ یا اللہ، ڈاکٹر صاحب کو صحت عطا فرما۔ ہر لمحہ یہی دعا میرے دل سے نکلتی رہی۔ ایک دن خود پر قابو نہ رکھ سکی اور ان کی طبیعت معلوم کرنے ان کے گھر چلی گئی۔وہ اوپر کی منزل پر تھے۔ ان کی والدہ نے مجھے بٹھایا اور بتایا کہ فی الحال کسی سے نہیں مل سکتے۔ میں نے کہا کہ میں صرف خیریت معلوم کرنے آئی ہوں۔ بولیں کہ بیٹی، میں جانتی ہوں فراز تمہارا اکثر ذکر کرتا رہتا ہے۔ اس کو تمہاری بھی بہت فکر ہے۔ آپ کے گھر کے افراد تو خیریت سے ہیں، ڈاکٹر صاحب کی بیگم اور بچے وغیرہ۔ جملہ میرے منہ میں ادھورا رہ گیا۔ فراز جس لڑکی سے شادی کرنا چاہتے تھے، وہاں یہ ممکن نہ ہو سکی، اس کے بعد وہ شادی نہیں کر پائے۔ بس اپنی ڈیوٹی میں لگے رہے۔ دعا کرو اللہ تعالیٰ میرے بیٹے کو جلد صحت یاب کر دے۔ چاہتی ہوں کہ اب شادی کر لے۔ میں بوڑھی ہو گئی ہوں۔ کون ماں نہیں چاہتی کہ اس کے بیٹے کا گھر جلد آباد ہو۔امی جان، میں دعا کروں گی کہ ڈاکٹر صاحب صحت یاب ہو جائیں اور ان کا گھر بھی آباد ہو جائے۔ان کی والدہ نے میری ان سے فون پر بات کروا دی، مگر دل کو تسلی نہ ہوئی۔ گھر آ کر بھی دل بجھا بجھا سا رہا تھا۔ انہوں نے کبھی گھر والوں کا ذکر نہیں کیا تھا اور نہ ہی میں نے پوچھا، البتہ والدہ کا ذکر کرتے رہتے تھے، جن سے مل کر مجھے خوشی ہوئی۔ سچ ہے، جتنی اچھی ماں ہو، اولاد بھی اتنی اچھی ہوتی ہے۔ان دنوں میں اتنی اداس تھی کہ میرے ساتھ کام کرنے والوں نے بھی میرے مزاج کی اس تبدیلی کو محسوس کر لیا۔ ایک دن والدہ نے بتایا کہ ان کے سر میں درد ہے اور بخار بھی ہو رہا ہے۔ میں نے انہیں چیک کیا، واقعی حرارت تھی۔ دن رات مریضوں کے درمیان رہ کر میں کچھ خوف زدہ سی رہنے لگی تھی۔ امی کے بارے میں فکرمند ہوگئی۔ میرا ٹیسٹ تو منفی آیا تھا، پھر والدہ کے بخار کی کیا وجہ تھی؟ ان کا بھی ٹیسٹ کروایا۔ معلوم ہوا کہ وہ وبا کی زد میں آ چکی تھیں۔ماں کی خاطر میں نے چھٹی مانگ لی۔ ڈاکٹر صاحب نے فوراً چھٹی دلوا دی کیونکہ میں نے پہلے کبھی چھٹی نہیں لی تھی۔ مجھے آرام کی ضرورت بھی تھی اور امی بھی اکیلی تھیں، ان کی دیکھ بھال کرنی تھی۔ میری دیکھ بھال کسی کام نہ آئی۔ والدہ کی زندگی کے دن گنے جا چکے تھے۔ ان کی وفات نے مجھے اس قدر صدمہ پہنچایا کہ میرے حوصلے جواب دے گئے۔ میں نے واقعی حوصلہ ہار دیا اور جینے کی تمنا باقی نہ رہی۔ڈاکٹر صاحب کو جب علم ہوا تو انہوں نے مجھے بہت سمجھایا اور جذباتی سہارا دیا۔ یہاں تک کہنے لگے کہ اگر تم گھر میں اکیلی نہیں رہ سکتیں تو میرے گھر شفٹ ہو جاؤ، میری امی کے ساتھ رہ لو۔ ان کی اس خصوصی توجہ کو ہمارے اسٹاف کے کچھ ساتھیوں نے غلط رنگ دینا شروع کر دیا، جس سے ڈاکٹر صاحب بہت دل گرفتہ ہوئے۔ وہ بدنام نہیں ہونا چاہتے تھے کیونکہ ہمارے درمیان ایسا کوئی تعلق نہ تھا جس پر شرمندگی ہو۔
میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ اب میں تنہا اس دنیا اور اس بے رنگ زندگی سے نہیں لڑ سکتی۔ استعفیٰ دے کر سکون سے مرنا چاہتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ سکون اس طرح نہیں ملتا۔ سوچو، اگر تم جیسی مددگار نہ ہوگی تو ان بہت سے مریضوں کا کیا ہوگا جو تمہاری راہ تکتے ہیں؟ تمہیں دیکھ کر جن کی آنکھوں میں امید کے دیے جلنے لگتے ہیں اور چہروں پر زندگی بھری مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ انہوں نے مجھے زندگی کی قدر کرنا سکھائی۔ کہا کہ زندگی خدا کی امانت ہے اور مایوسی کفر ہے۔ اس زندگی کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔انہوں نے مجھ پر اس قدر اثر ڈالا کہ مرنے کی حسرت دل سے نکل گئی۔ سب پریشانیاں ایک طرف ڈال کر میں پھر سے اپنے کام میں محو ہوگئی۔ کچھ عرصے بعد ڈاکٹر صاحب ایک اور شہر میں کسی اور شعبے میں چلے گئے اور انہیں مجھ سے ملنے کی فرصت نہ ملی۔ میں نے ان کی والدہ کو فون کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کچھ عرصے بعد ان کی شادی کا ارادہ رکھتی ہیں۔ جانے کیوں مجھے اس خبر سے خوشی نہیں ہوئی۔ میں خود کو اور زیادہ تنہا محسوس کرنے لگی، جیسے ایک بار پھر زندگی میں گھپ اندھیرا چھا گیا ہو۔گھر چھوڑ کر میں ہوسٹل شفٹ ہوگئی۔
میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ اب میں تنہا اس دنیا اور اس بے رنگ زندگی سے نہیں لڑ سکتی۔ استعفیٰ دے کر سکون سے مرنا چاہتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ سکون اس طرح نہیں ملتا۔ سوچو، اگر تم جیسی مددگار نہ ہوگی تو ان بہت سے مریضوں کا کیا ہوگا جو تمہاری راہ تکتے ہیں؟ تمہیں دیکھ کر جن کی آنکھوں میں امید کے دیے جلنے لگتے ہیں اور چہروں پر زندگی بھری مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ انہوں نے مجھے زندگی کی قدر کرنا سکھائی۔ کہا کہ زندگی خدا کی امانت ہے اور مایوسی کفر ہے۔ اس زندگی کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔انہوں نے مجھ پر اس قدر اثر ڈالا کہ مرنے کی حسرت دل سے نکل گئی۔ سب پریشانیاں ایک طرف ڈال کر میں پھر سے اپنے کام میں محو ہوگئی۔ کچھ عرصے بعد ڈاکٹر صاحب ایک اور شہر میں کسی اور شعبے میں چلے گئے اور انہیں مجھ سے ملنے کی فرصت نہ ملی۔ میں نے ان کی والدہ کو فون کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کچھ عرصے بعد ان کی شادی کا ارادہ رکھتی ہیں۔ جانے کیوں مجھے اس خبر سے خوشی نہیں ہوئی۔ میں خود کو اور زیادہ تنہا محسوس کرنے لگی، جیسے ایک بار پھر زندگی میں گھپ اندھیرا چھا گیا ہو۔گھر چھوڑ کر میں ہوسٹل شفٹ ہوگئی۔
ایک جاننے والی نرس سے سنا کہ ان کی شادی ایک لیڈی ڈاکٹر سے ہوگئی ہے۔ مجھے اس بات پر یقین نہ آیا۔ ایک نرس دوست نے کہا کہ نگار، تم نرس ہو اور نرس سے بھلا کہاں ڈاکٹر شادی کرتے ہیں؟ ہر روز یہ سوال ذہن میں اٹھتا کہ کیا نرس ہونا جرم ہے یا عورت ہونا جرم ہے؟ کیا مجھے کبھی خوشیاں نہیں ملیں گی؟ حالات کا ستم دیکھئے کہ ایک دن ڈاکٹر سرفراز اپنی والدہ کیساتھ میرے گھر آگئے، میں ان کی بہت عزت کرتی تھی اس لیے اپنے دل کا درد چھپا کر انہیں خوش آمدید کہا۔ باتوں میں میں نے ڈاکٹر صاحب سے ان کی نئی نویلی دلہن کا پوچھا تو وہ حیران ہو کر کبھی مجھے اور کبھی اپنی والدہ کو دیکھ رہے تھے۔ پھر بولے: آپ کو کس نے خبر دی کہ میرے شادی ہو چکی ہے؟ میں نے اپنی دوست نرس کا ذکر کیا تو سارا معاملہ ان کی سمجھ میں آگیا، اصل مین وہ نرس بھی ڈاکڑ صاحب سے شادی کے چکر میں تھی اس لئے مجھے جھوٹ بولا کہ مین اس کے راستے سے ہٹ جاؤ۔ خیر جو بھی ہوا اچھا ہوا۔
ڈاکٹر صاحب کی والدہ نے اپنی آنے کا مقصد بیان کیا تو مین چکرا گئی، جیسے کوئی خواب دیکھ رہی ہوں۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے میرا رشتہ طلب کر رہی تھیں۔ بھلا مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ پھر سادگی سے میرا نکاح ڈاکٹر صاحب سے ہو گیا۔ انہوں نے مجھے جینے کا حوصلہ دیا تھا اور آج میں ان کے شانہ بشانہ مریضوں کی خدمت کر رہی ہوں۔ نا صرف اپنی ساس کی بلکہ اپنے خاوند کی بھی بہت خدمت کرتی ہیں۔ اصل میں ہم اپنے لیے نہیں، دوسروں کے لیے جیتے ہیں۔ خدا کرے وہ لوگ جیتے رہیں جنہیں زندگی کی ضرورت ہے۔ ہمارے لیے تو جینا اسی کا نام ہے کہ دوسروں کو جینے کا حوصلہ دیتے رہیں اور ان کی دعائیں لیتے رہیں، کیونکہ انہی دعاؤں
میں ہمارا اصل انعام ہے۔
