دونوں کی بچپن کی منگنی اور بچپن کا پیار تھا۔ سب جانتے تھے کہ ان کو جدا کرنا مشکل ہے، مگر تقدیر جب جدا کرنے پر آتی ہے تو انسانوں کو اپنے دلوں پر گہرے زخم سہنے پڑتے ہیں۔ جس دن کے دیکھنے کا تصور بھی نہ کیا تھا، وہ دیکھنا پڑا اور جدائی کی گھڑی دبے قدموں سر پر آ گئی۔ بچھڑنے کا سماں دیکھا نہ جاتا تھا۔ شاہین رخصتی کے وقت بابل کی چوکھٹ پکڑے بلک رہی تھی۔ ڈولی در پر کھڑی تھی۔ دلہن والیاں خوش تھیں اور شہنائیاں بج رہی تھیں۔ برسوں کا رشتہ پل بھر میں ٹوٹا تھا۔ یہ عجب معاملہ ہوا۔احد میاں نے بیٹی کا زیادہ حقِ مہر رکھوانے کے چکر میں دو دلوں کو برباد کر دیا۔ شاہین اور ریحان کے نکاح کی تاریخ طے ہوتے ہوتے رہ گئی۔ بات بگڑی تو سبھی نے اس ناراضی کو عارضی سمجھا۔ احد میاں کے دل میں کھوٹ تھا۔ وہ شروع دن سے ریحان کو اپنا داماد نہیں بنانا چاہتے تھے۔ بیوی کے دباؤ سے مجبور تھے۔ حقِ مہر کا بہانہ بنایا اور بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا۔پھوپھا کی چالاکی پر خفا ہو کر ریحان گھر سے چلا گیا۔
نثار اور صباحت کا گھر آمنے سامنے تھا۔ جب بارات چلی اور سب گھر والے بارات کے ساتھ ہو لیے تو صباحت گھر میں اکیلی بلک بلک کر روئی۔ دیواروں اور دروازوں کو پکڑ کر اس نے سر پٹخا، مگر جو ہونا تھا، وہ ہو گیا۔نثار ایک ماہ دوست کے پاس دبئی میں گزار کر لوٹا تو شاہین، نثار کی ہو چکی تھی اور اس کی دنیا لٹ چکی تھی۔ لٹی ہوئی دنیا کا ماتم اس نے بھی خوب کیا، مگر کب تک؟ دل کی بستیاں بسیں یا اجڑ جائیں، گھر تو سبھی کو آباد کرنا پڑتا ہے۔ ریحان کی والدہ نے صباحت کا رشتہ مانگ لیا۔ انہیں یہ چپ چپ سی لڑکی بھا گئی تھی۔ صباحت کے والدین بیٹی کی رنجیدگی پر پشیمان تھے۔ سوچا کہ شادی کر دینے سے وہ پچھلا غم بھول جائے گی، کیونکہ ریحان میں بھی کوئی کمی نہ تھی، سوائے اس کے کہ وہ نثار جتنا امیر نہیں تھا۔
شاہین شوہر پر یہی ظاہر کرتی تھی کہ وہ اس سے بے حد محبت کرتی ہے، کبھی اس سے بے وفائی نہیں کرسکتی، مگر حقیقت یہ نہ تھی۔ اس نے اپنے ماضی کو دل میں دفن ضرور کیا، لیکن وہ مرا نہیں تھا۔ بے شک اس نے ریحان کو کبھی کوئی سندیسہ نہ بھیجا، مگر دل اس کی یاد سے غافل بھی نہیں رہا۔ نثار کی بے دلی بھی ڈھکی چھپی نہ تھی۔ وہ گھر میں اب خرچہ دینے کی حد تک دلچسپی رکھتا تھا۔ اس کا بیشتر وقت باہر گزرتا تھا۔ اس کے پاس ایک لمحہ بھی اپنی بیوی کی رفاقت کے لیے نہیں تھا۔ یہ بات شاہین محسوس کر سکتی تھی۔ وہ بری طرح تنہائی کا شکار تھی۔ اس بناوٹی اور مصنوعی زندگی سے اوب چکی تھی۔ اس نے کبھی خود سے ریحان سے ملنے کی کوشش نہ کی۔ کبھی برسوں بعد اچانک کسی خاندانی تقریب میں آمنا سامنا ہو جاتا تھا۔ اس کے بے رونق چہرے سے وہ اس کے دل کا احوال پڑھ لیتا۔
ان کی خوشیوں اور مستقبل کا قتل ہو جائے گا۔ ہمارا ضمیر ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ اب تو ہمیں اپنے بچوں کے لیے جینا ہے۔ان باتوں کے بیچ جب کبھی نثار کا سامنا ہوتا، دل میں ہوک سی اٹھتی، کوئی سویا ہوا درد جاگ جاتا۔ بس نہ تھا کہ اپنی ذات کی تنہائی کی زنجیریں توڑ کر وہ خوشیوں کی تصوراتی دنیا میں جا بسے۔ریحان بھی ہاتھ ملتے ہوئے سوچتا۔ اے کاش میں اس وقت جذباتی قدم نہ اٹھاتا اور پھوپھا سے خفا ہو کر دبئی نہ جاتا۔ یقیناً بگڑی بات بن جاتی۔ کبھی شاہین چھوٹی پھوپھو کے گھر جاتی، ریحان بھی اتفاقاً وہاں پہنچ جاتا۔ اسے شاہین سے دو چار باتیں کرنے کا موقع مل جاتا۔ دونوں کا بچپن کا پیار تھا، منگنی بھی ہوچکی تھی۔ سب جانتے تھے کہ انہیں جدا کرنا مشکل ہے، مگر تقدیر جب جدا کرنے پر آتی ہے تو انسانوں کو اپنے دلوں پر ایسے گہرے زخم سہنے پڑتے ہیں جو عمر بھر نہیں بھرتے۔ تم خوش تو ہو شاہین نثار کی دولت نے تمہارے باپ کا دل چرا لیا تھا۔ دیکھو اب میرے پاس کیا کمی ہے؟ یہ بات نہیں ہے ریحان میرے ابا کی شروع دن سے تمہارے والد سے نہیں بنی تھی۔
یہ چاروں یوں ہی ایک دوسرے کو تسلیاں دیتے رہے۔ اپنے آپ سے اور ایک دوسرے سے جھوٹ بولتے رہے، خود فریبی میں پھنسی زندگی کو عذاب سمجھ کر بھگتتے رہے مگر اپنے ازدواجی بندھن کے تقدس کا پاس رکھا۔ کم از کم بیویوں نے اپنے شوہر سے بے وفائی کا نہیں سوچا۔ اپنے جسموں کو ان کی امانت سمجها. اس معاملے میں دھوکا دہی سے کام نہ لیا البتہ دل بے بس ماضی کے جال میں پھنس کر مبتلائے کرب ہوتا تو کروٹ کروٹ کانٹوں کی چبھن ضرور ہوتی تھی۔بات یہ تھی کہ یہ چاروں ہی بے بس تھے۔ سچی خوشی ان کے نصیب میں نہ تھی۔ انہوں نے کبھی ایک دوسرے کو اپنی منزل نہ سمجھا اور نہ انہیں کبھی چین ملا کیونکہ نہ حاصل زیست کو تسلیم کیا اور نہ جرأتوں کا مظاہرہ کیا۔ روتے، دھوتے، سسکتے زندگی کے بیس سال یونہی کاٹ دیئے۔ ان بیس سالوں میں کئی بار شاہین اور ریحان صباحت اور نثار کی ملاقات آپس میں قریبی رشتے دار ہونے کی وجہ سے رشتے داروں کے گھر ہو ہی جاتی تھی مگر ان ملاقاتوں میں منصوبہ بندی نہیں اتفاق کا دخل ہوتا تھا۔ وہ سب پر یہی ظاہر کرتے کہ رشتہ داری ہے تو بات کرلی ہے۔ دلوں میں کیا ہے، یہ کبھی کسی پر ظاہر نہ کیا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ شاہین کو نثار سے دکھ ملا۔
وہ ریحان سے چھوٹی پھوپھو کے گھر ملی تو پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ ایسا ہی صباحت نے ایک دو بار نثار کو فون کرکے بتایا کہ ذرا سی بات پر اس کے شوہر نے اسے مارا ہے تو چاہنے والے نے دوچار بول تسلی کے بول کر اس کا دکھ بانٹ لیا۔ یہ چاروں یہی سمجھتے تھے کہ وہ کچھ غلط نہیں کر رہے اور نہ ایسا کچھ ہورہا ہے کہ جس پر ان کو دوشی ٹھہرایا جائے۔ سو بیویاں یونہی شوہروں سے چھپ چھپ کر اپنے ماضی کے ساتھیوں کے ساتھ دکھ سکھ کر لیا کرتی تھیں، ان کے سامنے پھوٹ پھوٹ کر رو بھی لیا کرتیں مگر جب بھی شوہروں کے سامنے ہوئیں، ان سے وفا اور محبت کی قسمیں بھی کھاتیں کیونکہ وہ ان سے علیحدگی کا بھی نہیں سوچ سکتی تھیں۔
اب تو آپ ہی میرے سب کچھ ہیں۔ آپ کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ ہماری بیس سال کی رفاقت ہے۔ آپ بہت اچھے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ مجھ کو ملے، بچپن کے منگیتر کا تو خیال بھی نہیں آتا اب …! بکواس مت کرو۔ نثار غرايا تم عورتیں ،چالباز، مکار اور جھوٹی ہوتی ہو۔ تم اپنی چھوٹی پھوپھو کے گھر جاتی ہی اس وجہ سے ہو کہ اس کا گھر ریحان کے گھر کے ساتھ ہے اور وہ وہاں خالہ سے ملنے کے بہانے تیرے دیدار کو آیا کرتا ہے۔ سب پتا ہے مجھے۔ مجھے پہلے ہی شک تھا، شکر ہے کہ تو نے اپنی زبان سے اقرار کرلیا۔ اب تیرا میرا ایک ساتھ گزارا نہیں۔ یہ کہہ کر ساتھ سالہ شوہر نے اپنی پچپن سالہ بیوی کو طلاق دے کر گھر کی دہلیز سے باہر کردیا۔
.jpg)
