طلاق کا داغ

Sublimegate Urdu Stories

دونوں کی بچپن کی منگنی اور بچپن کا پیار تھا۔ سب جانتے تھے کہ ان کو جدا کرنا مشکل ہے، مگر تقدیر جب جدا کرنے پر آتی ہے تو انسانوں کو اپنے دلوں پر گہرے زخم سہنے پڑتے ہیں۔ جس دن کے دیکھنے کا تصور بھی نہ کیا تھا، وہ دیکھنا پڑا اور جدائی کی گھڑی دبے قدموں سر پر آ گئی۔ بچھڑنے کا سماں دیکھا نہ جاتا تھا۔ شاہین رخصتی کے وقت بابل کی چوکھٹ پکڑے بلک رہی تھی۔ ڈولی در پر کھڑی تھی۔ دلہن والیاں خوش تھیں اور شہنائیاں بج رہی تھیں۔ برسوں کا رشتہ پل بھر میں ٹوٹا تھا۔ یہ عجب معاملہ ہوا۔احد میاں نے بیٹی کا زیادہ حقِ مہر رکھوانے کے چکر میں دو دلوں کو برباد کر دیا۔ شاہین اور ریحان کے نکاح کی تاریخ طے ہوتے ہوتے رہ گئی۔ بات بگڑی تو سبھی نے اس ناراضی کو عارضی سمجھا۔ احد میاں کے دل میں کھوٹ تھا۔ وہ شروع دن سے ریحان کو اپنا داماد نہیں بنانا چاہتے تھے۔ بیوی کے دباؤ سے مجبور تھے۔ حقِ مہر کا بہانہ بنایا اور بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا۔پھوپھا کی چالاکی پر خفا ہو کر ریحان گھر سے چلا گیا۔ 
 
بڑے میاں کی بن آئی۔ موقع غنیمت جانا۔ بیوی نے واویلا کیا، مگر پروا کیے بغیر اپنے امیر کبیر دوست کے بیٹے نثار سے شاہین کا رشتہ طے کر دیا اور حقِ مہر میں کوٹھی لکھوا لی۔ یوں چٹ منگنی پٹ بیاہ ہو گیا۔ شاہین اپنے خوابوں کا دکھ پلو میں باندھے نثار کی دلہن بن کر اس کے گھر آ گئی۔ نثار کب اس شادی پر خوش تھا۔ یہ نہیں کہ اسے شاہین پسند نہ آئی تھی، بات یہ تھی کہ وہ اپنی ایک کلاس فیلو صباحت سے شادی کرنا چاہتا تھا، جو پاشا صاحب کے کزن کی بیٹی تھی۔ اس لڑکی کے والد نے رشتہ دینے سے منع کر دیا۔ وہ بے چاری تو بہت تڑپی، مگر والدین نے اس کی مراد پوری نہ ہونے دی۔ جس روز نثار کی شادی تھی، صباحت باؤلی سی پھر رہی تھی۔ دیکھنے والوں کی نظریں بھانپ چکی تھیں کہ یہ لڑکی آج حواسوں میں نہیں ہے۔ پاؤں کہیں اٹکتا تھا، دوپٹہ کہیں الجھتا تھا۔ یہ قیامت کی گھڑی تھی، جس نے دل کو پارہ پارہ کر دیا تھا۔

نثار اور صباحت کا گھر آمنے سامنے تھا۔ جب بارات چلی اور سب گھر والے بارات کے ساتھ ہو لیے تو صباحت گھر میں اکیلی بلک بلک کر روئی۔ دیواروں اور دروازوں کو پکڑ کر اس نے سر پٹخا، مگر جو ہونا تھا، وہ ہو گیا۔نثار ایک ماہ دوست کے پاس دبئی میں گزار کر لوٹا تو شاہین، نثار کی ہو چکی تھی اور اس کی دنیا لٹ چکی تھی۔ لٹی ہوئی دنیا کا ماتم اس نے بھی خوب کیا، مگر کب تک؟ دل کی بستیاں بسیں یا اجڑ جائیں، گھر تو سبھی کو آباد کرنا پڑتا ہے۔ ریحان کی والدہ نے صباحت کا رشتہ مانگ لیا۔ انہیں یہ چپ چپ سی لڑکی بھا گئی تھی۔ صباحت کے والدین بیٹی کی رنجیدگی پر پشیمان تھے۔ سوچا کہ شادی کر دینے سے وہ پچھلا غم بھول جائے گی، کیونکہ ریحان میں بھی کوئی کمی نہ تھی، سوائے اس کے کہ وہ نثار جتنا امیر نہیں تھا۔
 
 جلد ہی دونوں ایک بندھن میں بندھ دیے گئے۔ یعنی نثار کی چاہت ریحان کو، اور ریحان کی چاہت نثار کو مل گئی۔اگر ان چار محبت کرنے والوں کا یہ قصہ یہیں ختم ہو جاتا تو اچھا تھا، مگر المیہ یہ کہ قصہ یہاں ختم نہ ہوا، بلکہ ان چاروں کے مرتے دم تک جاری رہا۔ چاروں نے ہی اپنے جیون ساتھی کو شریکِ حیات کے طور پر دل سے قبول نہ کیا۔ وہ دلی طور پر ہمیشہ ایک دوسرے سے دور رہے اور عرصے تک جھوٹی محبت کے مکالمے بولتے رہے۔ خود کو بھی اور اپنے ساتھی کو بھی فریب دیتے رہے۔ جلد ہی وہ اس غیر حقیقی لگاوٹ کے اظہار سے بھی اگتا گئے، تاہم میاں بیوی ہونے کا بھرم ضرور قائم رکھا۔

شاہین شوہر پر یہی ظاہر کرتی تھی کہ وہ اس سے بے حد محبت کرتی ہے، کبھی اس سے بے وفائی نہیں کرسکتی، مگر حقیقت یہ نہ تھی۔ اس نے اپنے ماضی کو دل میں دفن ضرور کیا، لیکن وہ مرا نہیں تھا۔ بے شک اس نے ریحان کو کبھی کوئی سندیسہ نہ بھیجا، مگر دل اس کی یاد سے غافل بھی نہیں رہا۔ نثار کی بے دلی بھی ڈھکی چھپی نہ تھی۔ وہ گھر میں اب خرچہ دینے کی حد تک دلچسپی رکھتا تھا۔ اس کا بیشتر وقت باہر گزرتا تھا۔ اس کے پاس ایک لمحہ بھی اپنی بیوی کی رفاقت کے لیے نہیں تھا۔ یہ بات شاہین محسوس کر سکتی تھی۔ وہ بری طرح تنہائی کا شکار تھی۔ اس بناوٹی اور مصنوعی زندگی سے اوب چکی تھی۔ اس نے کبھی خود سے ریحان سے ملنے کی کوشش نہ کی۔ کبھی برسوں بعد اچانک کسی خاندانی تقریب میں آمنا سامنا ہو جاتا تھا۔ اس کے بے رونق چہرے سے وہ اس کے دل کا احوال پڑھ لیتا۔ 
 
ایک دو منٹ کی ملاقات میں دبے لفظوں میں ضرور کہتا کہ اگر ناخوش ہو تو علیحدہ ہوجاؤ، میں اب بھی تمہارا منتظر ہوں، تمہارے بغیر یہ زندگی بے معنی ہے۔ شاہین فوراً روک دیتی۔ ایسی بات دوبارہ مت کہنا، ایسا سوچنا بھی نہیں۔ میں کبھی طلاق نہیں لوں گی۔ زمانہ کیا کہے گا کہ ماضی کی محبت کی خاطر شوہر کو چھوڑ دیا۔ اب تو میری شادی ہوچکی ہے۔ ایک عورت پر میری وجہ سے ظلم ٹوٹے گا۔ جو ہوا، اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لو۔ صباحت اور ریحان نے بھی ذہنی طور پر ایک دوسرے کو قبول نہ کیا۔ زمانے اور والدین کے خوف سے انہوں نے اوپری زندگی کو اپنا لیا۔ پہلے وہ اس زندگی کو مصنوعی سمجھتے تھے۔ دو بچے ہو گئے تو اس مصنوعی زندگی کے معنی بدل گئے۔ دونوں بچوں کی خاطر ساتھ رہنے پر مجبور ہو گئے۔ کبھی میاں بیوی میں ان بن ہو جاتی تو ریحان غصے میں علیحدگی کی بات کر دیتا۔ تب صباحت توبہ توبہ کرنے لگتی کہ ایسی بات منہ سے بھی مت نکالو۔ بچے دربدر ہو جائیں گے۔ ان کو کون سگے ماں باپ ایسی محبت اور شفقت دے سکتا ہے۔

ان کی خوشیوں اور مستقبل کا قتل ہو جائے گا۔ ہمارا ضمیر ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ اب تو ہمیں اپنے بچوں کے لیے جینا ہے۔ان باتوں کے بیچ جب کبھی نثار کا سامنا ہوتا، دل میں ہوک سی اٹھتی، کوئی سویا ہوا درد جاگ جاتا۔ بس نہ تھا کہ اپنی ذات کی تنہائی کی زنجیریں توڑ کر وہ خوشیوں کی تصوراتی دنیا میں جا بسے۔ریحان بھی ہاتھ ملتے ہوئے سوچتا۔ اے کاش میں اس وقت جذباتی قدم نہ اٹھاتا اور پھوپھا سے خفا ہو کر دبئی نہ جاتا۔ یقیناً بگڑی بات بن جاتی۔ کبھی شاہین چھوٹی پھوپھو کے گھر جاتی، ریحان بھی اتفاقاً وہاں پہنچ جاتا۔ اسے شاہین سے دو چار باتیں کرنے کا موقع مل جاتا۔ دونوں کا بچپن کا پیار تھا، منگنی بھی ہوچکی تھی۔ سب جانتے تھے کہ انہیں جدا کرنا مشکل ہے، مگر تقدیر جب جدا کرنے پر آتی ہے تو انسانوں کو اپنے دلوں پر ایسے گہرے زخم سہنے پڑتے ہیں جو عمر بھر نہیں بھرتے۔ تم خوش تو ہو شاہین نثار کی دولت نے تمہارے باپ کا دل چرا لیا تھا۔ دیکھو اب میرے پاس کیا کمی ہے؟ یہ بات نہیں ہے ریحان میرے ابا کی شروع دن سے تمہارے والد سے نہیں بنی تھی۔
 
 ہماری منگنی تو پھوپھو کی وجہ سے ہوگئی مگر ابا کے دل سے پرخاش نہ گئی کہ تمہاری امی نے کیوں میرے والد سے اپنے حصے کی جائداد نہیں لی۔ سارا مسئلہ یہ تھا۔ سنا ہے نثار عیاش ہے۔ اکثر راتیں باہر گزارتا ہے۔ سچ بتائو تم خوش ہو اس کے ساتھ؟ وہ اگر تم کو دکھ دیتا ہے تو میں تم کو واسطہ دیتا ہوں کہ اب بھی وقت ہے۔ میرے دل میں تمہارا وہ مقام جوں کا توں موجود ہے۔ خدا کے لئے اپنے شرابی اور عیاش شوہر سے چھٹکارا پالو میں تمہیں زندگی کا ہر سکھ دوں گا۔ اتنی خوشیاں دوں گا کہ تم پچھلے سارے غم بھلا دو گی تمہارے بیوی بچوں کا کیا بنے گا؟ یہ سوچا ہے تم نے …. شاہین سوال کرتی صباحت بھی میرے ساتھ خوش نہیںہے سو اسے طلاق دے دوں گا۔ پھر ہماری بلا سے وہ کہیں جائے۔ خدا کے لئے ریحان ایسا مت کہو ۔ کیا تم اتنے بے رحم ہو کہ دو بچوں کی ماں کو گھر سے نکال دو گے؟ وہ رو پڑتی۔

یہ چاروں یوں ہی ایک دوسرے کو تسلیاں دیتے رہے۔ اپنے آپ سے اور ایک دوسرے سے جھوٹ بولتے رہے، خود فریبی میں پھنسی زندگی کو عذاب سمجھ کر بھگتتے رہے مگر اپنے ازدواجی بندھن کے تقدس کا پاس رکھا۔ کم از کم بیویوں نے اپنے شوہر سے بے وفائی کا نہیں سوچا۔ اپنے جسموں کو ان کی امانت سمجها. اس معاملے میں دھوکا دہی سے کام نہ لیا البتہ دل بے بس ماضی کے جال میں پھنس کر مبتلائے کرب ہوتا تو کروٹ کروٹ کانٹوں کی چبھن ضرور ہوتی تھی۔بات یہ تھی کہ یہ چاروں ہی بے بس تھے۔ سچی خوشی ان کے نصیب میں نہ تھی۔ انہوں نے کبھی ایک دوسرے کو اپنی منزل نہ سمجھا اور نہ انہیں کبھی چین ملا کیونکہ نہ حاصل زیست کو تسلیم کیا اور نہ جرأتوں کا مظاہرہ کیا۔ روتے، دھوتے، سسکتے زندگی کے بیس سال یونہی کاٹ دیئے۔ ان بیس سالوں میں کئی بار شاہین اور ریحان صباحت اور نثار کی ملاقات آپس میں قریبی رشتے دار ہونے کی وجہ سے رشتے داروں کے گھر ہو ہی جاتی تھی مگر ان ملاقاتوں میں منصوبہ بندی نہیں اتفاق کا دخل ہوتا تھا۔ وہ سب پر یہی ظاہر کرتے کہ رشتہ داری ہے تو بات کرلی ہے۔ دلوں میں کیا ہے، یہ کبھی کسی پر ظاہر نہ کیا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ شاہین کو نثار سے دکھ ملا۔
 

 وہ ریحان سے چھوٹی پھوپھو کے گھر ملی تو پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ ایسا ہی صباحت نے ایک دو بار نثار کو فون کرکے بتایا کہ ذرا سی بات پر اس کے شوہر نے اسے مارا ہے تو چاہنے والے نے دوچار بول تسلی کے بول کر اس کا دکھ بانٹ لیا۔ یہ چاروں یہی سمجھتے تھے کہ وہ کچھ غلط نہیں کر رہے اور نہ ایسا کچھ ہورہا ہے کہ جس پر ان کو دوشی ٹھہرایا جائے۔ سو بیویاں یونہی شوہروں سے چھپ چھپ کر اپنے ماضی کے ساتھیوں کے ساتھ دکھ سکھ کر لیا کرتی تھیں، ان کے سامنے پھوٹ پھوٹ کر رو بھی لیا کرتیں مگر جب بھی شوہروں کے سامنے ہوئیں، ان سے وفا اور محبت کی قسمیں بھی کھاتیں کیونکہ وہ ان سے علیحدگی کا بھی نہیں سوچ سکتی تھیں۔

اب قدم بڑھاپے کی سرحدوں کو بڑھنے لگے۔ کنپٹیوں کے بالوں میں سفیدی آنے لگی اولاد جوان ہوگئی۔ عورتوں نے اولاد اور شوہر سے وفا کی خاطر اپنے دل کی دنیا تاراج رہنے دی ایک اعلیٰ مقصد کے لئے قربانی دی۔ ایک دن نثار نے نشے میں بیوی سے کہہ دیا کہ وہ تو صباحت سے محبت کرتا ہے۔ اپنی اسی تایا زاد سے شادی کا خواہاں تھا مگر ماں نے نہ ہونے دی۔ یوں میں نے ماں کی خاطر خواہ مخواه موقع ضائع کیا۔ وقت پر بول پڑتا، اماں پھر مان جاتیں۔ ہم دونوں تو عمر بھر کے اس تاسف سے بچ جاتے۔ نثار نے جب یہ بات بتا دی تو بیوی سے بھی پوچھا اگر مجھ پر اعتماد کرتی ہو تو تم بهی اپنے دل کا بوجھ بتا دو۔ اگر تمہارے ساتھ بھی کچھ ایسا ظلم ہوا ہے تو ہم دونوں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ ایسا کہتے ہوئے وہ رو رہا تھا۔ بے وقوف شاہین نے بتا دیا کہ ہاں! ریحان سے بچپن کی انسیت تھی کیونکہ وہ اس کی منگیتر اور پھوپھی زاد تھا مگر اب وہ بچپن کی منگنی کا واقعہ بھلا چکی ہے کہ وہ تو بچپن کی بات تھی اور بزرگوں کا فیصلہ تھا۔ انہی نے بندھن جوڑا اور انہی نے توڑ دیا۔ تو اس بات کا کیا تاسف …. یہ آخری الفاظ اس نے اوپری دل سے کہے لہذا ان میں کوئی اثر نہ تھا۔
 

 اب تو آپ ہی میرے سب کچھ ہیں۔ آپ کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ ہماری بیس سال کی رفاقت ہے۔ آپ بہت اچھے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ مجھ کو ملے، بچپن کے منگیتر کا تو خیال بھی نہیں آتا اب …! بکواس مت کرو۔ نثار غرايا تم عورتیں ،چالباز، مکار اور جھوٹی ہوتی ہو۔ تم اپنی چھوٹی پھوپھو کے گھر جاتی ہی اس وجہ سے ہو کہ اس کا گھر ریحان کے گھر کے ساتھ ہے اور وہ وہاں خالہ سے ملنے کے بہانے تیرے دیدار کو آیا کرتا ہے۔ سب پتا ہے مجھے۔ مجھے پہلے ہی شک تھا، شکر ہے کہ تو نے اپنی زبان سے اقرار کرلیا۔ اب تیرا میرا ایک ساتھ گزارا نہیں۔ یہ کہہ کر ساتھ سالہ شوہر نے اپنی پچپن سالہ بیوی کو طلاق دے کر گھر کی دہلیز سے باہر کردیا۔

جب شاہین کو طلاق ہوئی۔ وہ روتی پیٹتی بین کرتی والدین کے گھر گئی اور بتایا کہ نثار، صباحت کا عاشق ہے۔ ابھی تک اسے نہیں بھولا ہے اور اسی کے عشق میں اندھا ہو کر مجھے اس عمر میں طلاق دی ہے۔ یہ بازگشت سارے خاندان اور بھری برادری میں گونج گئی۔ ریحان نے بھی سن لیا کہ نثار نے اس کی بیوی کے عشق میں شاہین کو طلاق دی ہے جو اس کی تایازاد ہے۔ تبھی بیوی کے آنسو کی پروا کئے بغیر اور اس کی بے گناہی کا یقین کئے بنا ہی اس نے اس کو طلاق دے دی۔ یوں اپنے شوہر اور معاشرے کی خاطر تمام عمر کا عذاب جھیلنے والی عورتیں بڑھاپے میں ذرا سی لغزش سے اپنا گھر اور اپنا مقام کھو بیٹھیں۔ ان کی اولادوں کے دل میں عزت رہی اور نہ شوہروں نے ان کو معاف کیا۔ 
 
اس غصے کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ جن کی خاطر طلاق کا داغ ماتھے پر لگا، وہ حضرات بھی ان کو پناہ نہ دے سکے کیونکہ اب دوسری شادی کا وقت گزر چکا تھا۔ اگر یہ بدنصیب عورتیں ذرا محتاط رہتیں تو ان پر یہ وقت نہ آتا۔ اگر ان کے سابقہ محبوب ان سے اب شادی کر بھی لیتے تو یہ خود زمانے کے ڈر سے شادی کے طوق کو پھر سے گلے میں ڈالنے کی جرأت نہیں کر سکتی تھیں۔ زمانہ تھوتھو کرتا، سو الگ بات … اپنی اولاد بھی اس کے بعد ان کو ہی قصوروار، گناه گار اورمجرم سمجھ کر منہ پھیر لیتی اور بڑھاپے میں اولاد منہ پھیر لے تو انسان کے دامن میں کیا باقی رہ جاتا ہے۔

(ختم شد)
romantic stories 
اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ