بس ڈرائیور کی کہانی (قسط نمبر 3 آخری قسط)

کہانیاں اردو میں
 

بس ڈرائیور کی کہانی (قسط نمبر 3)

ایک بس ڈرائیور کی کہانی جس نے زندگی میں ایسی بھیانک صورتحال کا سامنہ کیا کہ جان کر رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ ایک حسین لڑکی جو صرف اس ڈرائیور کو دیکھائی دیتی تھی
---------------------------

گاڑی روڈ پر لاکر گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا ابھی شہر کے اندر ہی ہونے کی وجہ سے میں بہت آہستہ آہستہ گاڑی کو آگے بڑھا رہا تھا۔
چند منٹ بعد ہی وہ جگہ آگئی تھی جہاں اس خوبصورت لڑکی اور اسکی ماں کو کلینک پر چھوڑا تھا اب وہ ماں کو لیے روڈ پر ہی کھڑی تھی اس نے اشارے سے گاڑی رکوائی اور ماں کو ایک عورت کی مدد سے گاڑی پر سوار کرایا۔ اور دونوں سِیٹ پر آکر بیٹھ گئیں۔ راستے سےایک دو مزید سواریاں بس میں بیٹھیں اور اب سفر تیزی سے شروع ہوگیا, کیونکہ گاڑی شہر سے باہر نکل چکی تھی۔ اس وقت آسمان پر کچھ بادل بھی نظر آرہے تھے کبھی کبھی سورج بادلوں کے پیچھے چھُپ جاتا تو گرمی کا زور کم ہوجاتا۔

میں گاڑی کی سپیڈ بڑھا چکا تھا۔ پکی روڈ پر سفر تیزی سے طے کرنا تھا کیونکہ پھر آدھا سفر کچے روڈ پر کم سپیڈ میں کرنا ہوتا ہے۔ اور میں جلد انیتا سے ملنا چاہتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد کچا روڈ شروع ہوگیا اور سورج بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا بادل بھی بھی گہرے ہونے لگے تھے موسم خوشگوار ہورہا تھا۔ مگر بارش کا امکان ابھی بہت کم تھا۔ میں نے شیشے میں سے پیچھے اس لڑکی کو دیکھا تو وہ اپنی ماں سے مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہی تھی لگ رہا تھا اب اسکی ماں کی طبیعت سنبھل گئی تھی جوکہ چہرے سے لگ بھی رہا تھا۔

اب ہم سنسان راستے پر سفر کر رہے تھے کچھ آگے چل کر راستے پر ایک دو مسافر گاڑی میں بیٹھے اب گاڑی میں مزید جگہ نہ تھی شفیق نے آواز لگائی استاد ڈبل اے جان دیو۔
میں نے خوشگوار موسم کا فائدہ اٹھاتے ہوے گاڑی کو کچھ تیز کر دیا۔
کچھ ہی دیر بعد انیتا کے گاؤں کے پاس تھے گاؤں میں داخل ہوتے ہی وہ لڑکی ماں کو لے کر اتر گئی۔ اور ہم آگے بڑھ گئے۔

اب ہم انیتا کے گاؤں اسکے گھر کے سامنے رک چکے تھے۔ یہاں 15 منٹ تک رکنا تھا۔ دو چار سواریاں اتریں اور آخر میں میری باری تھی لہٰذا میں اترا تو شفیق بھی میرے ساتھ چلنے لگا تو میں نے اسے روک دیا کہ تم ابھی گاڑی میں ہی رکو۔ تو وہ رک گیا۔ میں نلکے کے پاس آگیا تو وہ بھی جلدی سے شیشے کا گلاس لے کر پاس آگئی تو آج میں نے اس کو بولا کہ تم روز میرے آتے ہی گلاس اٹھا کر میرے پاس آجاتی ہو اس پر تمہارے گھر سے کوئی بھی تم پر اؑعتراض نہیں کرتا کیونکہ اتنے لوگ ہیں تمہارے گھر میں کوئی تمہیں روکتا نہیں تو وہ جلدی سے بولی مجھے کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا میں نے پھر پوچھا ایسا کیوں؟ تو بولی بس ایسا ہی ہے۔ 

میں یہ کہہ کر خاموش ہوگیا کہ چلو جی ٹھیک اے سانُو کی۔۔
اس پر وہ تھوڑا مُسکرائی اور بولی اب تم نکلو میں یہاں پیچھے سے نکلتی ہوں اور تم بھی آہستہ آہستہ آنا ہوسکتا ہے میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ تمہیں آگے راستے پر ملوں اگر کہیں نہ ملی تو پھر تم چلے جانا انتظار نہ کرنا۔ کل ایک الگ انداز میں ضرور ملاقات ہوگی تم بھی کیا یاد کرو گے۔

میں نے کہا او اچھااااااااااا۔۔ اور گاڑی کی طرف چل پڑا۔سِیٹ پر بیٹھا تو شفیق پانی پینے چلا گیا۔ اور جلد ہی واپس آگیا۔ اور ہم آہستہ آہستہ چلنے لگے۔
میں گاڑی بہت آہستہ چلا رہا تھا کیونکہ ابھی ہم گاؤں میں ہی تھے۔اور انیتا نے بھی کہاتھا کہ آہستہ آہستہ آنا کیونکہ اس نے سہیلیوں کو لے کرآنا تھا۔

کچھ دیر بعد ہم گاؤں سے باہر تھے۔ اچانک ایک بڑے درخت کے نیچے وہ تین لڑکیوں کے ساتھ کھڑی نظر آئی اب اس نے دلہن کی طرح زیور پہن رکھا تھا۔ میں نے جلدی سےگاڑی آگے بڑھا دی۔ نزدیک پہنچے تو وہ چاروں سوار ہو گئیں اور سب سے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھ گئیں۔ چاروں بہت خوبصورت تھیں وہ لڑکی بھی تھی جو ماں کو لےکر شہر گئی تھی۔ میں حیران تھا کہ اسکی تو ماں بیمار تھی اور بقول اسکے گھر میں اور تھا بھی کوئی نہیں تو یہ ماں کو اکیلا کیوں چھوڑ آئی؟
پھر سوچا مجھے کیا اسکا مسئلہ ہے۔ یہ جانے اور اسکا کام جانے۔
اب گاؤں سے نکل آئے تھے اور ویران سنسان راستہ آچکا تھا۔ جوکہ بہت سے درختوں اور جھاڑیوں پر مشتمل تھا۔
کچھ دیر بعد شفیق کا گاؤں آگیا وہ اپنی جگہ پہنچ کر اتر گیا اور سلام کر کے گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔۔

اب دو تین سواریاں راستے پر ہی اترنے والی بیٹھی تھیں میرے گاؤں کی کوئی سواری نہیں تھی۔ انکے علاوہ یہ لڑکیاں ہی تھی اب نہ جانے انہوں نے کہاں جانا تھا ۔ ہم شفیق کے گاؤں سے بھی نکل چکے تھے۔ برساتی نالے کو کراس کیا تو جو سواریاں بیٹھی تھیں جن میں ایک عورت اور دو مرد تھے وہ بھی اتر گئے انہوں نے سامنے دائیں جانب چھوٹی سی پہاڑی کے قریب چند گھر تھے ادھر جانا تھا۔ اور اب صرف انیتا اور اسکی دوست رہ گئ تھیں۔ انیتا اٹھ کر میرے پاس آگئ اور بولی ہاں کیسے ہو تم؟ میں نے کہا بالکل ٹھیک۔

اب وہ بولی ہاں اب تمہاری سزا کا وقت آگیا ہے۔
میں نے مسکرا کر کہا کیسی سزا جنابِ عالیہ؟
تو بولی اس دن والی جب تم نے مجھے دیکھ لینے کے باوجود اپنے پاس نہیں بلایا میں خود تمہارے پاس آجاؤں تو ٹھیک ورنہ تم بلانے کی زہمت بھی گوارہ نہیں کرتے۔ میں نے کہا وہ اسلیے کہ تم لڑکی ہو اور اگر میں تمہارے گھر میں جاکر تمہیں اپنی طرف بلاؤں یا اشارہ کروں اور کوئی دیکھ لے تو میری تو چھوڑو تمہاری کتنی بدنامی ہو جائے جو میں چاہتا نہیں ہوں۔ اب پھر وہ عجب طریقے سے بولی یہ اگر مگر کے چکر ایسا نہ ہو ویسا نہ ہو اس کو میں کچھ نہیں جانتی۔ بس مجھے تم پر اس بات کا غصہ ہے۔۔ اب تیار ہو جاؤ اور آگے جو بہت سے درختوں کا جھُنڈ ہے اسکے کچھ پہلے جب میں بولوں گاڑی روک دینا۔ 

یہ سن کر میں ڈرسا گیا مگر چہرے سے ڈر کو ظاہر نہیں کیا اور لگا آج عزت گئی۔ اور پھر اس نے ایک جگہ بولا یہاں پر گاڑی روک دو اور نیچے اترو ہمارے ساتھ میں اتر آیا اور اسکے ساتھ وہ لڑکیاں بھی نیچے آگئیں اور انیتا نے میرا بازو پکڑ رکھا تھا اور لڑکیوں نے مجھے گھیر رکھا تھا میں نے اس کو بولا اس دن کی طرح مجھے غلط کام کیلیے مجبور مت کرنا۔ تو بولی پہلے چلو تو وہ مجھے ان درختوں کے بیچ لے آئی تھیں اور لاکر اونچی اونچی اُگی ہوئی گھا پر دھکا دیا اور میں گر گیا اور بولی اتارو کپڑے میں جھٹکے سے کھڑا ہوگیا اور بولا ایسا بالکل ممکن نہیں ہے۔ تو ان میں سے ایک لڑکی نے کہا اچھا ایسا تو ممکن ہے نا اور وہ اپنے کپڑے اتارنے لگی اور میں نے منہ دوسری طرف کر لیا اس نےابھی اپنی قمیص اور دوپٹہ اتارہ تھا۔ جب میں نے منہ دوسری طرف کیا تو ایک اور نے بھی ایسا ہی کیا میں ان تینوں کے بیچ گِھر چکا تھا اور انہوں نے کپڑے اتارے ہوے تھے۔

 جدھر منہ پھیرتا تو وہ سامنے ہوتیں انیتا نے مجھے چھوڑ دیا اور ان تینوں نے پکڑ لیا اور مجھ سے چپکنے لگیں تھیں انکے جسم آگ کی طرح گرم تھے۔ان میں سے ایک بولی انیتا اب تمہاری باری ہے اور جو چاہے کرو اسکے ساتھ ہی وہ میرے کپڑے اتارنے لگیں میں اب بالکل بے بس ہو چکا تھا میرے بازو شل ہو چکے تھے۔ اب میں نے دیکھا انیتا نے اپنے کپڑے اتارنے شروع کر دیے جیسے ہی اسنے قمیص اپنے پیٹ سے اٹھائ تو اسکا پیٹ ایسے لگا جیسے آگ میں لوہا تپ کر انگارے کی طرح سرخ ہو جاتا ہے۔ اور جب قمص اوپر کی تو ایسا کچھ نہیں تھا میں نے آخری بار خود کو ان سے چھڑانے کیلیے کوشش کی مگر نا کام رہا انیتا مجھ سے لپٹنے لگی تو میں نے دھکا دیا تو وہ مجھے کسی بھاری پتھر کے طرح لگی جسم تو اسکا نرم تھا مگر وہ مجھ سے ذرا بھی ہلائی نہ گئی۔ 

جب میں بے بس ہوا تو اچانک ایک بہت بڑا سرخ رنگ کا کُتا ان پر جھپٹ پڑا لگ رہا تھا جیسے ہوا سے آیا تھا وہ ایک بار ایک پر جھپٹتا اور ایک بار ایک پر وہ باری باری سب پر حملہ کررہا تھا۔ اور انکے ننگے بدن پر نشان بن رہے تھے میں نے خود کو سنبھالا اور اس منظر کو دیکھنے لگا اچانک مجھے خیال آیا کہ میں نے اس کتے کو کہیں نہ کہیں کبھی دیکھا ہے۔ میں سوچنے لگا تو مجھے یاد آگیا۔ ہوا ایسے تھا کہ ڈیڑھ دو سال پہلے میں شام کے وقت گاؤں سے باہر کسی کام سے آیا تو یہ کتا ایک طرف جھاڑی کے پاس شدید زخمی حالت میں پڑا تھا مشکل سے تھوڑی بہت حرکت کرتا تھا مگر اٹھ کر چل نہیں سکتا تھا اور میں اسکو گھر لے آیا دو چار دن اسکی مرہم پٹی وغیرہ کی دو چار روز گھر میں مزید رکھا تو بالکل ٹھیک ہو گیا۔ اور پھر میں اسکو اسی جگہ چھوڑ آیا جہاں سے اسے اٹھایا تھا۔

 مجھے لگ رہا آج اللّٰہ کی طرف سے یہ وفاداری نبھانے آگیا تھا۔ اچانک ان سب لڑکیوں کی شکلیں تبدیل ہونے لگی تھی۔ انکے سینگھ نکلنے لگے تھے اور شکلیں عجیب جانوروں جیسی ہونے لگی تھیں اب کتا جیسے ڈرنے لگا تھا اور عجیب ڈری آواز میں پیچھے ہٹ کر میری طرف آنے لگا میں سارا ماجرہ سمجھ گیا اور سر پٹ گاڑی کی طرف بھاگنے لگا اور کتا بھی میرے ساتھ تھا۔ اللّٰہ نے موقع دیا اور میں گاڑی پر سوار ہوگیا اور اللّہ کو یاد کرکے گاڑی کو دوڑانے لگا۔ کتا پچھلے دروزے میں کھڑا ہو کر باہر کو منہ کر کے غرّا رہا تھا۔ اور پھر اچانک خاموش ہوگیا۔ پھر میں نے دیکھا وہ پیچھے آکر آرام سے بیٹھ گیا۔ اسکا مطلب تھا اب ہم خطرے والی جگہ سے دور نکل آئے تھے۔

میں نے رب کا شکر ادا کیا۔ اب گاؤں پہنچ گیا اور کتے کو بھی ساتھ لے آیا تھا۔ مغرب ہونے والی تھی گھر پہنچ کر کتے کی کچھ دیکھ بھال کی۔ تازہ دم ہوا۔ اور مسجد کو چل پڑا نماز ادا کر کے گھر آگیا گھر میں ابھی تک میں نے اس واقعے کا کسی سے بھی ذکر نہیں کیا تھا۔ اور کرنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ میں نے کھانا وغیرہ کھایا بعد میں چائے پی اور لیٹ گیا کچھ پڑھتے پڑھتے میری آنکھ لگ گئی۔۔

صُبح معمُول کے مطابق امی نے جگایا تو کل پیش آنے والے واقعہ سے بہت بے چینی ہو رہی تھی۔ نماز کیلیے مسجد کی طرف روانہ ہوگیا۔ باجماعت نماز ادا کی اچانک خیال آیا کہ اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا ذکر مولوی صاحب سے کیا جائے۔ یہ سوچ کر مولوی صاحب کے پاس گیا سلام کے بعد ان سے کہا جناب مولوی صاحب ایک مشکل درپیش آگئی ہے اسکے بارے میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔
تو وہ بولے جی بیٹا یہاں آرام سے بیٹھ جاؤ اور بتاؤ کیا مسئلہ ہے۔ تو میں نے تمام کہانی سنا ڈالی۔ تو بولے صُورتِ حال اچھی تو نہیں مگر فکر نہ کرو تمہیں دم کرتا ہوں اور ایک تعویز لکھ دیتا ہوں یہ دل والی سائیڈ پر جیب میں رکھ لو اور اسکا دھیان رکھنا۔ اب دل کو تسلی ہو گئی تھی۔ انہوں نے جلدی سے تعویز لکھ کر دیا اور میں انکا شکریہ ادا کر کے گھر آگیا۔

ناشتہ وغیرہ کیا امی ابو کو سلام کیا اور اڈے کی طرف روانہ ہونے لگا تو ابا نے کہا بیٹا اس کتے کا کیا کرنا ہے دیکھو یہ تمہارے ساتھ جانے کیلیے زور دے رہا ہے۔ تو میں نے کہا آج یہ گھر پر ہی رہے کل لے جاؤں گا۔ یہ کہہ کر میں نکل آیا۔
گاڑی کو نکالا اور اس کی جگہ پرکھڑاکر کےسواریوں کا انتظار کرنے لگا۔ گھنٹہ بھر میں سواریاں پوری ہو گئیں اور روانگی پکڑ لی آہستہ آہستہ چلتے ہوے گاؤں سے نکل آیا۔ آج پھر آسمان صاف تھا اور گرمی زیادہ پڑنے کا امکان تھا۔ کل والا گزرا واقعہ بار بار زہن میں آرہا تھا اور میں اسے بھولنا چاہتا تھا۔

اب وہ جگہ آگئی جہاں میرے ساتھ سب کچھ ہوا تھا میں نے نظریں سیدھی روڈ پر جما لیں دائیں بائیں بالکل دیکھنا نہیں چاہتا تھا اور گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی تاکہ جتنا جلدی ہو اس ایریا سے نکل جاؤں۔
آگے راستہ سے ایک دو سواریاں اٹھائیں اور کچھ دیر بعد شفیق کا گاؤں قریب آگیا تھا اور اب گاڑی برساتی نالے سے گزر رہی تھی۔ چند منٹ بعد شفیق کے گاؤں میں داخل ہوتے ہی شفیق گاڑی پر سوار ہوگیا سلام دعا کے بعد وہ سواریوں سے کرایہ وصول کرنے میں لگ گیا۔

آہستہ آہستہ اس گاؤں سے باہر آنکل آئے سواریاں اتارتے بٹھاتے سفر جاری تھی سنسان جنگل کا راستہ تھا۔ عجب ہُو کا عالم تھا چرند پرند سب خاموش تھے۔ ہر آدمی بارش کے لیے دعا کررہا تھا۔ مگر ابھی شاید اللّٰہ کو منظور نہیں تھا۔ چند منٹ بعد گاڑی اچانک رُک گئی۔ سٹارٹ کرنے کی کوشش کی مگر کچھ فائدہ نہ ہُوا۔
انجن کھول کر دیکھا کہ شاید کوئی خرابی مل جائے مگر ایسا بھی نہ ہوا۔ ایک بندہ گاڑی میں بیٹھی سواریوں میں سے بولا اگر اجازت ہو تو کیا میں کوشش کرکے دیکھوں؟

اسکے ساتھ ہی سیٹ پر بیٹھا ایک بوڑھا شخص جو شاید اسکا والد تھا بولا۔ (تُو رہن دے آیا وڈّا کاریگر)
میں نے کہا دو منٹ اگر ہم سے کچھ نہ ہوا تو آپ بھی کوشش کر دیکھنا۔ میں انجن میں جھانک رہا تھا کہ شفیق نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے آواز دی استاد جی بونٹ بند کریں میں اسٹارٹ کرنے لگا ہوں میں نے جیسے ہی بند کیا اس نے چابی گمائی اور بس اسٹارٹ ہوگئی۔ میں نے کہا شکر الحمدُ اللّٰہ

سب سواریوں نے بھی ایک دم کہا شکر ہے بس چل پڑی۔ اب ہم انیتا کے گاؤں کے پاس تھے چند سواریاں گاؤں کے شروع پر اتریں۔ اور اب گاڑی کو معمول کے مطابق انیتا کے گھر کے پاس 15 منٹ تک روکنا تھا۔گاؤں کے درمیان وہاں جاکر گاڑی روک اتر کچھ سواریاں اتریں اور پانی پی کر واپس آگئیں۔ مگر آج میں اپنی سیٹ پر ہی بیٹھا رہا۔ شفیق پاس آکر بولا استاد جی پانی پینے نہیں جانا تو میں نے کہا نہیں مجھے پیاس نہیں ہے۔

اور میں نے گاڑی آگے بڑھا دی کیونکہ میں اب اس جھنجٹ میں بالکل پڑنا نہیں چاہتا تھا۔ گاڑی گاؤں سے باہر آنے لگی تو کل جو لڑکی اپنی بیمار ماں کے ساتھ جس جگہ کھڑی ملی تھی اسی جگہ وہ بڑھیا اکیلی کھڑی تھی۔ اس نے رکنے کا اشارہ بھی نہیں کیا اور نہ میں نے اس سے کچھ پوچھنے کی کوشش کی اور آگے نکل گیا۔ بہت سے خیال دماغ میں گردش کر رہے تھے مگر میں ہر بار ان سے فرار اختیا کر لیتا۔ اب گاؤں سے کافی باہر آگئے تھے اور گاڑی کی سپیڈ بھی کافی تیز تھی۔

اب گرمی بہت زوروں پر تھی چرنے والے مویشی بھی زیادہ تر درختوں کے سائے میں کھڑے نظر آتے۔ تھوڑی دیر بعد پکے روڈ پر آگئے۔ سفر مزید تیز ہوگیا جلد ہی شہر پہنچ گئے۔گاڑی سے اتر کر آج کیونکہ گرمی زیادہ تھی تو میں نے قمیص اتار دی اور ہاتھ منہ دھویا تھوڑی دیر بعد کھانا کھایا کچھ دیر آرام کرنے کے قمیص پہنی اور گاڑی کو مِستری کے پاس لے جاکر چیک کروایا تو معمولی خرابی نکلی وہیں بیٹھ کر چائے بھی پی اور باتوں میں ٹائم گزارا۔

 گاڑی کو واپس جگہ پر لایا جب سواریاں پوری ہوئیں تو واپسی کا سفر شروع ہوگیا۔ نہ جانے واپسی پر دل بے چین کیوں ہورہا تھا۔ اسی لیے پانی کی ایک ٹھنڈی بوتل ساتھ رکھ لی تھی۔ سفر کٹتا جارہا تھا اور کچا راستہ شروع ہوگیا کچھ آگے جاکر ایک مرد اور ایک جوان لڑکی بس میں سوار ہوے۔ لڑکی کافی خوبصورت تھی مگر اس واقعہ کے بعد مجھے اب اس قسم کے چکروں سے نفرت ہو چکی تھی اور دلچسپی ختم ہو چکی تھی۔ آگے جیسے ہی گاؤں کے پاس برساتی نالے میں پہنچے تو وہ شخص بولا اس لڑکی کو یاد سے اگلے والے گاؤں کے دمیان سٹاپ پر اتار دینا۔

شفیق نے کہا ٹھیک اے چاچا۔ اور وہ شخص نالہ کراس ہوا تو نیچے اتر کر بائیں طرف چل دیا۔ اب ہم اس گاؤں میں داخل ہو گئے تھے۔ لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ اب ہم انیتا کے گاؤں اسکے گھر کے پاس سٹاپ پر رکے اور وہ لڑکی بھی وہاں اتر گئی جو اس شخص کے ساتھ گاؤں میں داخل ہونے سے پہلے سوار ہوئی تھی۔ لوگ پانی کیلیے اٹھے مگر میں بیٹھا رہا۔

اتنے میں وہی لڑکی جو ابھی اتری تھی جس کو یہاں اتارنے کیلیے اس چاچا نے کہا تھا میری طرف آکر مجھے بولا آپ بھی جائیں نا پانی پی آئیں نا۔ میں نے جواب دیا آپ کو مسئلہ ہے میں پانی پیئوں یا نہ پیئوں۔ وہ یہ سن کر انیتا کے گھر میں چلی گئی اسکی بات پر مجھے حیرانی ضرور ہوئی تھی۔ کہ اس نے ایسا کیوں بولا۔ لوگ واپس آئے تو گاڑی چلا دی میں تیزی سے جا رہا تھا اور بار بار پانی پی رہا تھا۔ 

شفیق کے گاؤں آرام سے پہنچ گئے اور شفیق سلام کر کے اپنے گھر کی طرف چلا گیا۔ اور میں اپنے گاؤں کی طرف چل پڑا۔۔ گاؤں سے باہر برساتی نالہ کراس کرنے کے تقریباً آدھ گھنٹے کے بعد گاڑی کو ایک جھٹکا لگا اور رک گئی۔ بہت دیکھا بھالا مگر کچھ بھی سمجھ نہ آیا بار بار دیکھنے کے بعد جو خرابی نظر آئی وہ بغیر مستری یا ورکشاپ کے مجھ سے ممکن نہ تھی یہ دیکھ کر میں نے سواریوں کو جلدی بتا دیا کہ گاڑی ٹھیک ہونے والی نہیں ہے اپنا بندوبست کر لیں ورنہ بعد میں پریشانی ہوگی جو آپکے پیسے واپس کرنے بنتے ہیں وہ لے لیں۔ میری بات سن کر سب مسافر اپنی اپنے منزل کی طرف پیدل نکل پڑے۔ 

اب میں اکیلا تھا اور کسی مدد کا انتظار کرنے لگا کہ شاید کوئی گاڑی وغیرہ آجائے اور میرا کام بن جائے آدھے گھنٹے بعد ایک ایک ٹرک ہمارے گاؤں کی طرف سےآتا نظر آیا اور میرے پاس رک گیا ڈرائیور اور اسکے ہیلپر نے پوچھا اور میں نے خرابی بتائی ان دونوں نے دیکھا اور پندرہ بیس منٹ میں خرابی دور کردی میں نے انکا شکریہ ادا کیا وہ سلام کرکے شہر کیطرف اور میں اپنی منزل کی طرف بہت تیزی سے چل پڑا۔

کچھ دیر بعد ویرانہ شروع گیا۔ جب بہت ہے گھنے درختوں اور جھاڑیوں بھرا راستہ آیا تو راستے کی دونوں طرف سے بہت زور زور اور اونچی اونچی لڑکیوں یا عورتوں کی چیخنے چلانے کی آوازیں آنی شروع ہوگئیں۔ میں نے اور سپیڈ بڑھا دی۔ مگر آوازیں بند نہ ہوئیں۔ تھوڑا ہی آگے مجھے گاڑی کے ہر طرف ان چاروں کل والی لڑکیوں کی شکلیں نظرآنےلگیں جو گاڑی سے لٹک رہی تھیں اور ساتھ ہی وہ چاروں گاڑی میں سوار ہوچکی تھیں اور زبردستی مجھ سے گاڑی رکوا دی اور مجھے نیچے لاکر درختوں کے پیچھے لے گئیں اور ایک طرف درختوں جھاڑیوں اور گھاس کے بیچ لے جاکر میرے سارے کپ۔ڑے اتار کر ایک طرف پھینک دیے اب سب سے پہلے انیتا نے اپنے سارے کپ۔ڑے اتارے اور اب وہ تینوں بھی اپنےکپ۔ڑے اتار چکی تھیں آج وہ تینوں عام لڑکیاں ہی تھیں میں بالکل بے بس تھا اور اچانک کسی اچھی انہونی کا منتظر تھا جو مجھے بچا لیتی انیتا واقعی بہت دلکش اور حسین تھی میری جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ ضرور اسکا فائدہ اٹھاتا۔

 مگر میں نارمل حالات میں بھی ہوتا تو اس ناجائز طریقے سے اس خوُبصورتی اور دلکشی پر نچھاور نہ ہوتا اور اب تو ایسی صُورتحال میں تو ویسے بھی ناممکن تھا۔ اس نے بڑی کوشش کی۔ مگر جب میرے جزبات سرے سے نہ جاگے تو بولی تم کیسے مرد ہو۔ کیا فائدہ تمہاری اس خوبصورتی اور جوانی کا۔ اس نے ان تینوں کو بھی بلایا مگر وہ بھی ناکام ہوئیں کون بدبخت اس صورتحال میں اس حرکت کیلیے تیار ہوتا اور پھر جب جان پہ بھی بنی ہو۔

انہوں نے مجھے چھوڑ دیا اور میں حیران اس پر ہوا جب انہوں نے مجھے یہ کہا کہ کپڑے پہنوں اور بھاگ جاؤ۔ میں نے جلدی سے کپڑے پہنے اور وہاں سے نکلا تو ایک بولی انیتا اسے جانے کیوں دے رہی اسے یہیں ختم کردو میں یہ سن کر سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ کھڑا ہوا اور گاڑی کے پاس پہنچ کرسرپٹ گاڑی دوڑائی اور ساتھ ہی دوبارہ چیخوں کی آوازیں آنے لگیں۔ اور میں ڈر گیا کہ اب خیر نہیں۔ اور کچھ سمجھ میں نہ آیا تو گاڑی ہی تیز کردی اب گاؤں کے قریب ہی پہنچنے والا تھا وہ گاڑی میں گھسنے والی تھیں اور اب کی بار وہ مجھے صرف اور صرف مارنے کیلیے آئی تھیں۔

اب مجھے کچھ پڑھنے کا خیال آیا تو میں سُورہ الفلق اور والناس پڑھنے لگا اب وہ اپنی شکلیں بدل چکی تھیں اور چڑیلیں بن گئی تھیں اور عجیب طرح سے آوازیں نکال رہی تھیں پڑھنے کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ گاڑی میں داخل نہ ہوئیں البتہ گاڑی سے لٹک ضرور رہی تھیں۔ اب میں نے گاؤں کے بالکل قریب ایک اونچی چڑھائی پر چڑھنا تھا۔جب چڑھائی چڑھنے لگا تو وہ چاروں بس کے پیچھے لٹک کر بس کو پیچھےکھینچنے لگیں تو بس کی سپیڈ کم ہونے لگی میں گاڑی کی سپیڈ بڑھانے لگا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا گاڑی بہت ہی آہستہ ہو رہی تھی۔

 اب میں نے اللّٰہ کو یاد کرکے اونچی آواز میں آیت الکرسی پڑھنا شروع کردی جیسے ہی پڑھا تو ایک جھٹکے سے گاڑی ہلکی ہو گئ اور سپیڈ پکڑ لی وہ نیچے زمین پر گر گئیں اور زور زور سے رو رہی تھیں۔اب میں چڑھائی چڑھ چکا تھا اور گاؤں میں مغرب کی آوازیں بھی شروع ہوگئیں۔ اب میں خود کو محفوظ سمجھ چکا تھا۔ جلدی سے گاڑی کو کھڑا کیا فورا ً گھر میں داخل ہوا دھڑام سیے چارپائی پرگرا امی کی گود میں سر رکھ کر زور زور سے رونے لگا ابو اور بہن بھی پاس آگئے۔

 سب نے پوچھا کیا ہوا اور تم اتنے لیٹ بھی ہو اور یہ تمہاری حالت کیسے ہوگئی؟ میں نے تھوڑی ہمت کی اور کہا صرف ابو کو بتاؤں گا تو بہن اور امی باہر نکل گئیں ابو کو سارا واقعہ سنایا تو وہ بہت پریشان ہو گئے اور جلدی سے مجھے مولوی صاحب کے پاس لے گئے ساری بات بتائی تو مولوی صاحب بولے یہ کیسے ہو سکتا ہے میں نے جو تعویز تمہیں دیا تھا اسکے ہوتے تو بڑی سے بڑی بلا تمہارے قریب بھی نہیں پھٹک سکتی تھی یہ تو کوئی چیز ہی نہیں ہیں جو تمہارے پیچھے لگی ہیں۔ کیا تعویز تمہارے پاس ہے اس وقت یا گھر رکھ کے آئے ہو؟ تو میں نے کہا جی جی میرے پاس ہی ہے۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو میرے ہاتھ میں نہ آیا پھر سارا سامان نکال کر دیکھا تو بھی نہ ملا تو مولوی صاحب بولے اسی لیے وہ تم پر حملہ آور ہوئی کہ تمہارے پاس تعویز نہیں تھا تم نے کہیں گرا دیا۔ 

تو میں نے ان سے کہا کہ ہاں جہاں انہوں نے میرے کپڑے اتارے تھے وہیں گرا ہوگا۔ تو مولوی صاحب نے کہا نہ بیٹا نہ تعویز بہت پہلے کہیں تم نے گرایا ہے اگر اس وقت تمہارے پاس ہوتا تو وہ تمہرے قریب بھی نہ آتیں۔ تمہیں انکا نظر آنا اور یہ سب معاملہ تو دور کی بات۔ سوچو کہاں گیا تعویز ؟ کافی سوچنے کے بعد یاد آیا اور انکو بتایا کہ تعویز تو میں نے صبح گاؤں سے شہر پہنچتے ہی جب قمیص اتاری تھی وہیں گرا دیا تھا۔ تو مولوی صاحب بہت
ناراض ہوے کہ بولا بھی تھا کہ اسکو سنبھالنا۔
چلو جو ہوا سو ہوا۔ جان بچی سو لاکھوں پائے۔

اب تم کو گلے کیلیے تعویز دیتا ہوں پھر جہاں مرضی جاؤ (ستّے ای خیراں نے)
اور کہا اس تعویز کو لگاتار چھ مہینے تک گلے میں ڈالے رکھنا پھر بھلے اتار بھی دینا اور پانی میں بہا دینا۔ مولوی صاحب نے دعا دی اور ہم انکا شکریہ ادا کر کے گھر آگئے اسکے بعد میں لگاتار اسی طرح بلا خوف خطر گاڑی چلاتا ہوں کوئی مسئلہ نہیں ۔ ایک مہینے بعد میری برادری سے باہر شادی ہوگئی اچھے سسرال ہیں بیوی بھی بہت خوبصورت ہے اور اللّہ کے فضل سےنہایت خوشگوار زندگی گزر رہی ہے۔ (ختم شد)


 اگر کہانی پسند آئی ہو تو دوستوں سے شیئر ضرور کریں

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں