آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر7)

 

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر7)

گیارہ برس کا ہوا تو میرے دائرے میں مزید وسعت پیدا ہو گئی اور میں نے ذرا اونچی اور خطرناک مہموں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔بعض لوگوں سے شیروں اور چیتوں کی ڈراؤنی داستانیں بھی سنیں۔ان داستانوں نے میرے شوق کو مہمیز لگائی اور طبیعت جنگل میں جانے اور درندوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے مضطرب رہنے لگی، مگر ا فسوس کہ گجرات کے آس پاس اس زمانے میں شیر تھے نہ چیتے۔ ہاں دریائے چناب میں مچھلیاں بکثرت تھیں اور کبھی کبھار کوئی بڑا سا مگر مچھ بھی سیلاب کے زمانے میں آجاتا۔

دریائے چناب ہمارے مکان سے کوئی سات میل کے فاصلے پر تھا۔ سکول جانے کی بجائے میں دریا کا رخ کر تا۔ خوب نہاتا اور مچھلیاں پکڑتا۔پھر میں نے سانپ پکڑنے شروع کیے۔اس مشغلے میں میرا بڑا جی لگا۔ شاید اس لیے کہ یہ جان جوکھوں کا کام تھا۔ چناب کے دونوں کناروں کا جنگل میں نے اچھی طرح چھان مارا۔ان دنوں ایک ایک دن میں سولہ سولہ میل علاقے کے اندر آسانی سے گھوم لیا کرتا تھا۔میری اس آوارہ خیالی اور آوارہ گردی سے گھر والے نالاں تھے۔انہوں نے مجھے راہ راست پر لانے کی بہتیری کوشش کی،مگر مجھ پر شکار کا نشہ روز بروز چڑھتا ہی گیا۔ اس زمانے میں بڑے بھائی امیر مرتضیٰ صاحب مدھیہ پردیش میں ٹھیکے داری کا کام کرتے تھے،چنانچہ طے پایا کہ مجھے ان کے پاس روانہ کر دیا جائے اور وہ مجھے درست کریں۔تیرہ برس کی عمر تھی کہ میں اپنے بڑے بھائی کی خدمت میں پہنچا جو ان دنوں ریاست بھوپال میں ایلی پان کے مقام پر ٹھہرے ہوئے تھے۔

بڑے بھائی نے مجھ سے سخت مشقت لی۔ ان کی نیت یہ تھی کہ میں اس قدر مشقت سے بہت جلد پناہ مانگ کر واپس گجرات جانے کی خواہش کا اظہار کروں گا اور اس وعدے پر مجھے بھیج دیا جائے گا کہ میں دوبارہ پڑھنے لکھنے میں دھیان دوں،لیکن الٹی ہو گئیں،سب تدبیریں،کچھ بھی نہ دوا نے کام کیا۔ اندھیا چل کے گھنے اور خطرناک جنگل دیکھ کر طبیعت اور ہری ہو گئی۔اور شکار کے جنون میں ناگفتہ بہ اضافہ ہو گیا۔وہ دن اور آج کا دن میں ان جنگلوں سے باہر نہیں نکل سکا، جب کہ دنیا میں ایک عظیم ا نقلاب برپا ہو چکا، برصغیر دوحصوں میں تقسیم ہو گیا،لاکھوں مسلمان ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے۔ مگر میں اب بھی انہی جنگلوں میں ہوں اور بدستور ہندوستان کا شہری۔

میری عمر سولہ برس کی تھی کہ میں نے بارہ بور کی بندوق سے پہلا شیر شکار کیا اور اسی عمر میں پہلے آدم خور چیتے کو ٹھکانے لگایا جو نہ جانے کتنے انسانوں کو ہڑپ کر چکا تھا۔ انیس برس کا ہوا تو میرے والد اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔اس وقت تک میں فارسٹ کنٹریکٹر کی حیثیت سے اپنا بوجھ خود اپنے کندھوں پر اٹھا چکا تھا اور بڑے بھائی کا مرہون مت نہیں رہا تھا۔ میرا ہیڈ کوارٹر قصبہ پدھر میں تھا اور آہستہ آہستہ میرے کاروبارکی شاخیں بیتول مدھیہ پردیش کے تمام اضلاع میں پھیل گئیں۔تاہم یہ کاروبار ثانوی حیثیت رکھتا تھا۔ میری اولین دلچسپی شکار ہی سے رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کے میرے ملازموں نے جی بھر کر مجھے لوٹا اور کئی مرتبہ تو ایسا بھی ہوا کہ پھوٹی کوڑی میری جیب میں نہ رہی، یہاں تک کہ مجھے مزدوری کرنی پڑی۔

اسی دوران میں میری شادی ہو گئی تھی اور میں دو بچوں کا باپ بن چکا تھا۔ چند سال کی محنت کے بعد میں نے دوبارہ اپنا کام جمالیا تھا۔1939ء میں جب دوسری جنگ عظیم چھڑی تو افسروں نے ازراہ کرم مجھے ریکروٹنگ افسر بنا دیا اور یوں میرا ہیڈ کوارٹر پدھر سے بیتول میں منتقل ہو گیا۔1947ء تک کئی دور اچھے اور برے مجھ پر گزرے اور آخر میں ایسا ہوا کہ مجھے ایک ایک کرکے اپنے دفتر کی تمام برانچیں بند کرنا پڑیں۔پھر میں نے ناگ پور ہی میں آل ون کوپرلیمٹڈ میں بحثیت ایجنٹ ملازمت کرلی۔یہ فرم بڑے بڑے آدمیوں کے لیے معقول معاوضے پر جنگلوں میں شکار کا انتظام بھی کرتی ہے۔کچھ عرصے بعد میں نے ’’ٹائیگر ٹریل‘‘کے نام سے اپنی ایک فرم قائم کرلی جو غیر ملکی شکاریوں کی نہ صرف رہنمائی کرتی بلکہ جنگل میں ان کے لیے بڑے شکار کا بندوبست بھی کرتی ہے۔

یہ ہے میری مختصر داستان حیات۔۔۔آئیے اب ماضی کے اوراق پلٹیں اور۔۔۔جنگل کی طرف چلیں جہاں نت نئی اور نہایت ہولناک مہمیں ہمایر منتظر ہیں۔جنگل کی یہ وہ دنیا ہے جہاں باہر کا قانون نافذ نہیں ہے۔یہاں انسان کا حکم چلتا ہے یا درندے کا۔۔۔درمیان کی کوئی راہ نہیں ہے۔کبھی انسان کا بس چلتا ہے تو وہ درندے کو نابود کر دیتا ہے اور کبھی درندے کا نصبہ یاورہوتا ہے،تو نہ صرف اپنی جان بچا لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے بلکہ شکاری کی تکا بوٹی بھی کر ڈالتا ہے۔چھوٹے چھوٹے قصبوں اور دیہات کے معصوم لوگ جن کے پاس جدید ہتھیار نہیں ہوتے انہیں درندوں کے رحم و کرم پر عمریں گزار دیتے ہیں اور صحیح معنوں میں عذاب ان بے گناہوں پر اس وقت نازل ہوتا ہے،جب کوئی شیر یا چیتا کسی اناڑی شکاری کی حماقت سے مردم خور ہو جاتا ہے۔مردم خور بننے کے بعد درندے کی چالاکی، مکاری، عیاری اور خونخواری اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔وہ عام شکاری کے قابو میں نہیں آتا اور لگاتار وارداتیں کرتا چلا جاتا ہے۔

ایسی کہانیاں عام ہیں کہ شیر یا چیتے نے انسانی لہو اور گوشت کا ذائقہ چکھنے کے بعد بستیوں کی بستیاں ویران کر ڈالیں۔سو سو دو دو سو انسانوں کو ہڑپ کر جانا معمولی بات ہے۔۔۔اور اگرایسے درندے کو ختم نہ کیا جائے توہ اتنا دلیر ہو جاتا ہے کہ دن دیہاڑے مکانوں میں گھس کر عورت یا بچے کو اٹھا لے جانے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا۔ درندہ ایک بار مردم خور بننے کے بعد جنگل کے کسی اور جانور کو شکار کرکے اس کے گوشت سے پیٹ نہیں بھرتا، بلکہ آدمی ہی کو تلاش کرتا ہے،بہرحال یہ طے شدہ بات ہے کہ درندے کو مردم خور بنانے میں بڑا ہاتھ شکاری کا ہوتا ہے۔وہ اسے زخمی کر ڈالتا ہے اور زخمی شیر یا چیتا پھرتیلے پن سے محروم ہو کر جب جنگلی جانوروں کو پکڑنے کے قابل نہیں رہتا اوربھوکا مرنے لگتا ہے تب وہ انسان پر حملہ کرتا ہے اور یہ کام درندے کے لیے بہت آسان ہوتا ہے۔یوں فطری طور پر شیر نہایت شریف النفس اور بہادر جانور ہے۔خواہ مخواہ انسانوں سے الجھنا پسند نہیں کرتا اور یہ تو میرا بار ہا کا تجربہ ہے کہ جنگل میں اگر شیر سے آمنا سامنا ہو گیا تو وہ شرافت سے راستہ بدل کر دوسری طرف چلا گیا۔

1918ء میں ضلع ہوشنگ آباد کے ایک گاؤں میں مجھے کچھ عرصہ رہنے کا اتفاق ہوا۔۔۔گاؤں جنگل کے کنارے آباد تھا، بلکہ یوں کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ اس کے چاروں طرف جنگل ہی جنگل تھا اور جنگل میں ان گنت درندے بھرے ہوئے تھے۔ درندوں کے علاوہ یہاں سور اور وحشی کتے بھی کثرت سے تھے اور روز بروز ان کی تعداد بڑھتی ہی جاتی تھی۔ ان دنوں میرے بھائی امیر مرتضیٰ صاحب بھی یہیں تھے اور سیٹھ کرم الٰہی کے مکان پر قیام تھا۔ سیٹھ کرم الٰہی نہایت مہمان نواز اور نفیس آدمی تھے، انہیں خود بھی جنگل کی زندگی سے گہرا لگاؤ تھا۔ اندپورا کے جنگل میں موروں اور جنگلی مرغوں کی بھی بہتات تھی۔ میں نے دیکھا کہ گاؤں کے لوگ موروں اور جنگلی مرغوں کوپکڑنے کے لیے پھندے لگاتے ہیں،اور روزانہ دس دس بیس بیس مور اور مرغ پکڑ لیتے ہیں۔یہ جانور بازار میں مناسب قیمت پر فوراً بک جاتے تھے۔ ان شکاریوں کی دیکھا دیکھی میں نے بھی پھندے لگا کر مور اور مرغ پکڑنے کا شغل اختیار کیا اور اس میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ اگرچہ یہ پرندے زیادہ تر ہمارے پیٹوں ہی میں اترتے رہے۔ یادرہے کہ اس وقت میری عمر تیرہ چودہ برس کی تھی۔

ایک روز کا ذکر ہے ،ہم دن بھر مرغ اور مور پکڑنے کے بعد مکان کے احاطے میں چار پائیوں پر لیٹے آرام کررہے تھے۔ رات کے نو بجے ہوں گے کہ ندی کی طرف سے ایک بارہ سنگھے اور وحشی کتوں کے چنگھاڑنے کی مشترکہ آوازیں آئیں۔ندی ہماری قیام گاہ سے کوئی سوگز کے فاصلے پر ہو گی۔ جنگل کے تمام جانور اس پر آن کر پیاس بجھایا کرتے تھے۔جب دیر تک بارہ سنگھے اور کتوں کی چیخ و پکار ہمارے کانوں میں آتی رہی اوریہ سمجھ لیا گیا کہ ایسے غل غپاڑے میں آرام کی نیند سونا ممکن نہیں،تب میرے بڑے بھائی نے کہا:

’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جنگلی کتوں نے بارہ سنگھے کو گھیر لیا ہے اور وہ غریب اپنی جان بچانے کے لیے ندی میں کود گیا ہو گا، اب کتے ندی کے باہر بھونک رہے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ بارہ سنگھا کب پانی سے باہر آتا ہے!بارہ سنگھے کو بہرحال ندی سے باہر نکلنا ہو گا اور جونہی وہ باہر آئے گا، جنگلی کتے اس کی تکا بوٹی کر ڈالیں گے۔‘‘

میرے لیے یہ بے حد دلچسپی کی بات تھی۔ میں نے امیر مرتضیٰ سے کہا:

’’کیایہ ممکن نہیں کہ ہم ان جنگلی کتوں کو وہاں سے بھگا دیں اور بارہ سنگھے کو خود پکڑ کر حلال کر ڈالیں ،اس کا گوشت تو بہت لذیذ ہوتا ہے۔‘‘

بڑے بھائی کو یہ تجویز پسند آئی۔اگرچہ رات زیادہ جا چکی تھی اور اس وقت ندی پر جانا مناسب نہ تھا، لیکن بارہ سنگھے کے لذیذ گوشت نے ہمیں بے چین کر دیا۔

ہم نے دو گونڈنوکروں کو ساتھ لیا، بندوقیں ہاتھ میں سنبھالیں اور ندی کی جانب روانہ ہو گئے۔آسمان صاف تھا اور لاتعداد ستاروں کی روشنی میں ندی کا چمکتا ہوا پانی ہمیں صاف دکھائی دے رہا تھا۔ بڑے بھائی کا قیاس سولہ آنے درست نکلا۔جنگلی کتے ندی کے کنارے پڑاؤ کیے ہوئے تھے اور ایک قوی ا لجثہ بارہ سنگھاندی کے عین درمیان پناہ لیے ہوئے تھا۔ہمارے دیکھتے دیکھتے دو تین کتوں نے جرأت کی اور پانی میں کود کر بارہ سنگھے کی جانب بڑھنے لگے۔ ان کی دیکھا دیکھی چند اور کتے بھی پانی میں کودگئے،بقیہ کتے پہرہ دے رہے تھے کہ بارہ سنگھا ندی سے نکل کر جنگل کی طرف بھاگنے نہ پائے۔

ارہ سنگھے نے کتوں کو تیرتے ہوئے اپنے قریب آتے دیکھا، تو سب سے آگے والے کتے کو اچھل کر اس زور سے لات جمائی کہ کتے کا منہ پھر گیا اور اس کے ساتھ کتے ڈر کر واپس کنارے کی جانب ہٹ گئے۔ کوئی آدھ گھنٹے تک یہ حیرت انگیز تماشہ ہوتا رہا۔بالآخر ہم نے بارہ سنگھے کو موت وزیست کی اس کش مکش سے آزاد کر دینے کا فیصلہ کرلیا۔ ہمارے ساتھ آنے والے گونڈ نوکروں نے خشک بانس جلانے شروع کیے اور جب یہ بانس دھڑ دھڑ جلنے لگے تو ان کی روشنی دیکھ کر جنگلی کتوں نے راہ فرارا ختیار کی اور اس سے پہلے کہ ہم بارہ سنگھے پر فائر کرتے، وہ بجلی کی طرح ندی سے نکلا اور پلک جھپکتے میں جنگل کے اندر غائب ہو گیا۔ ہم دونوں بھائی ایک دوسرے کا منہ دیکھتے ہی رہ گئے۔

س واقعے کے بعد ایک اور انتہائی دلچسپی واقعہ دیکھنے میں آیا۔ یہ اسی ندی پرایک شیر اور جنگلی سؤر کی خون ریز جنگ تھی جو دن کی روشنی میں برپا ہوئی۔سؤر واقعی بہت زبردست سؤر ثابت ہوا، اس نے اپنے داؤ پیچ سے شیر کے چھکے چھڑا دیے اور اسے کاری زخم لگائے۔گاؤں کے لوگ مختلف درختوں اور ٹیلوں پر چڑھ کر شیر اور جنگلی سؤر کی یہ ہولناک لڑائی دیکھ رہے تھے۔ آخر میں شیر نے سؤر کی گردن اپنے جبڑوں میں دبا کر تقریباً چبا ڈالی، پھراس کی لاش وہیں چھوڑ دی اور اس زور سے گرجا کہ زمین کانپنے لگی۔ تماشائیوں میں بچے، بوڑھے، جوان اور عورتیں سبھی شامل تھے۔شیر کے یہ تیور دیکھ کر بے تحاشہ ادھرادھر پناہ لینے بھاگ۔خود میں نے بھی ایک درخت پر پناہ لی۔شیر غراتا اور گرجتا ہوا بانس کے گھنے ذخیرہ کی طرف چلا گیا۔ اس کے جانے کے پندرہ بیس منٹ بعد لوگ جمع ہوئے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ شیر وہاں سے جاتے ہوئے اپنے شکار کو بھی گھسیٹ کر لے جا چکا ہے۔

ہندوستان کے قدیم باشندوں میں بھیل اور گونڈ نمایاں ہیں اور یہ لوگ عموماً درندوں کے شکار کیے ہوئے جانور اٹھا لانے میں ماہر ہیں۔میرے ساتھ گونڈ یہ دیکھ چکے تھے کہ شیر نے موٹے تازے سؤر کا شکار کرلیا ہے اور اسے اپنے ساتھ گھسیٹ کر جنگل میں لے گیا ہے،لیکن وہ اس قدر تھکا ہوا اور زخمی تھا کہ اس وقت سؤر کو کھانا شروع نہیں کیا ہو گا اور سؤر کی لاش کسی جھاڑی کے اندر پڑی ہو گی۔۔۔

سؤر کا گوشت گونڈ لوگوں کی انتہائی مرغوب غذا ہے،چنانچہ میں نے دیکھا کہ یہ لوگ سؤر کے تصور ہی میں ہونٹ چاٹ رہے تھے اور اس فکر میں تھے کہ جنگل کے اندر جاکر سؤر کی لاش اٹھا لائیں۔اپنی نادانی اور ناتجربے کاری کے باعث میں بھی ان کے ساتھ جنگل میں جانے کو تیار ہو گیا۔ مگر بعض عمر رسیدہ آدمیوں نے مجھے اس ارادے سے باز رکھا اور سمجھایا کہ میاں دیوانے ہوئے ہو۔۔۔زخمی شیر کے تعاقب میں بھی یوں کوئی جایا کرتا ہے؟شیر یقیناً سؤر کی لاش کے قریب ہی کہیں چھپا بیٹھا ہو گا اور جو شخص بھی اس کے نزدیک جائے گا، اسے چیر پھاڑ کر برابر کر دے گا۔

خدا ان کا بھلا کرے کہ بروقت مجھے اس حماقت سے روک دیا، ورنہ آج میں یہ داستان سنانے کو موجود نہ ہوتا۔ بہرحال میں واپس اپنے ٹھکانے پر چلا گیا اور مجھے خبر نہیں کہ وہ گونڈ سؤر کی لاش ڈھونڈنے جنگل میں گئے یا نہیں گئے۔اسی روز میں ایک ا ور قریبی گاؤں گیدا میں گیا اور وہاں مجھے معلوم ہوا کہ ایک انگریز فوجی افسرادھر شکار کھیلنے آیا ہے اور ایک شیر کی تاک میں ہے۔اس انگریز شکاری کے ساتھ صرف ایک نوکر تھا اور اس نے جنگل کے اندر ہی اپنا خیمہ لگا رکھا تھا۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ انگریز شکاری نے شیر کو پھانسنے کے لیے گزشتہ رات ایک درخت سے گائے کا بچھڑا باندھا اور خود شیر کے انتظار میں ایک مچان بندھوا کر اس پر بیٹھا۔آدمی رات کے بعد شیر ادھر آیا اور شکاری صاحب کی نظروں کے عین سامنے بچھڑے کو ہلاک کیا اور اٹھا کر چلتا بنا۔ جب وہ اپنے شکار کو جبڑوں میں دبا کر جھاڑیوں کی طرف بڑھ رہاتھا، تب شکاری نے اس پر فائر کیا گولی شیر کی پیٹھ پر معمولی زخمی پہنچاتی ہوئی نکل گئی۔بعد میں پتہ چلا کہ شیر کی ریڑھ کی ہڈی بھی ایک جگہ سے ٹوٹ گئی تھی۔زخمی ہو کر شیر اس وقت ایسا دھاڑا کہ آدمی تو آدمی جنگل کے درخت تک لرز گئے۔

انگریز شکاری نے یک لخت ہمت سے کام لینے کا فیصلہ کیا اور طے پایا کہ گاؤں کے لوگوں کو جمع کرکے ہانکا کرایا جائے۔ ہانکے بعد شیر اپنی کمین گاہ سے نکلنے پر مجبور ہو گا اور پھر اسے ہلاک کر دینا آسان رہے گا۔ 

آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 8)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں