آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر8)

  

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر8)

گاؤں کے غریب لوگ تو ویسے ہی ہر حکم کے پابند ہوتے ہیں،پھر جب انہیں روپے پیسے کا لالچ بھی دیا جائے تو جان کو خطرے میں بھی ڈال دیتے ہیں۔یہاں تو حکم بھی انگریز بہادر کا تھا اور اس کے نادر شاہی حکم کے ساتھ ساتھ روپے کی تھیلیاں بھی تھیں،چنانچہ پچاس ساٹھ آدمیوں کو اکٹھا کرکے جنگل میں ہانکا کرایا گیا۔ یہ لوگ جب غل غپاڑہ مچاتے اور ڈھول کنستر پیٹتے ہوئے آگے بڑھے تو زخمی شیر بہت تلملایا اور اس نے ایسی دھمکی دی کہ سب کا پتا پانی ہو گیا۔انگریز شکاری تو پہلے ہی ایک اونچے مچان پر اطمینان سے بیٹھا تھا۔ ہانکا کرنے والے شیر سے ڈر کر ایسے بھاگے کہ تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئے۔انہوں نے درختوں پر پناہ لی۔شیر اس قدر غیظ و غضب میں تھا کہ پناہ بخدا! اپنے پنجوں سے اس نے جھاڑیاں ادھیڑ ڈالیں،زمین کھرچی، پھر ان درختوں کی طرف منہ اٹھا اٹھا کر وحشیانہ انداز میں دھاڑا جن پر ہانکا کرنے والے چڑھے ہوئے تھے۔

اس افراتفری میں لوگوں نے جب دیکھا کہ گاؤں کا ایک نوجوان لڑکا کریم ابھی تک درخت پر نہیں چڑھ سکا اور ایک جھاڑی کے عقب میں دبکا ہوا ہے تو ان کی خوف سے چیخیں نکل گئیں۔شیر ایک ہولناک گرج کے ساتھ کریم کی طرف لپکا۔وہ تو یوں کہیے کہ لڑکے کے ہوش و حواس برقرار رہے، ورنہ اس کے مارے جانے میں کوئی کسر باقی ہ رہ گئی تھی۔ اس نے شیر کو اپنی طرف آتے دیکھا تو قریبی درخت کی طرف دوڑا۔ یہ درخت زیادہ اونچا نہ تھا اور خدشہ تھا کہ شیر اگر پوری قوت سے جست لگائے، تو کریم کو پکڑ سکتا ہے،لیکن زخمی ہونے اور خون زیادہ بہہ جانے کے باعث ہر لمحہ شیر کی قوت میں کمی واقع ہو رہی تھی، اس لیے دو تین چار چھلانگیں لگانے کے باوجود کریم کو پکڑ نہیں پایا!حالانکہ کریم شیر کی پہنچ سے صرف تین فٹ کے فاصلے پر تھا۔ کریم نے خود کو درخت کی شاخ سے سانپ کی طرح لپٹا لیا تھا اور اس کے حلق سے گھٹی گھٹی چیخیں نکل رہی تھیں۔اب ہر لحظہ یہ خدشہ تھا کہ وہ اگر اسی طرح ڈرتا رہا تو درخت سے گر پڑے گا۔ شیر بار بار پلٹ کر اس درخت پر آتا اور دانت نکال کر غراتا۔ پھرپنجوں سے درختوں کا تنا ادھیڑ نے لگتا۔

انگریز شکاری کی بدحواسی دیکھئے کہ ٹکر ٹکر یہ تماشا دیکھ رہا ہے اور فائر نہیں کرتا۔غالباً شیر کا یہ جاہ و جلال دیکھ کر اس کے اعصاب بھی مچان پر بیٹھے بیٹھے جواب دے گئے تھے۔ اس لمحے مجھ پر یہ حسرت طاری ہوئی کہ کاش میرے پاس اس وقت بندوق ہوتی، تو شیر کا قصہ پاک کر دینا کچھ دشوار نہ تھا۔ بھاگتے وقت کریم کے جوتے اور پگڑی جھاڑیوں ہی کے پاس رہ گئی تھی۔ شیر کا غصہ اتنا بڑھا کہ اس نے ان جوتوں اور پگڑی کو تار تار کر دیا۔ کریم کا حال یہ ہوا کہ دہشت سے اس کا پیشاب بھی خطا ہو گیا۔۔۔وہ تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اب ہر وقت یہ خطرہ تھا کہ اگر شیر کو ہاں سے ہٹایا نہ گیا، تو کریم لازماً درخت سے گرے گا اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ اس درخت سے کوئی دس گز کے فاصلے پر کریم کا باپ امیر خان ایک دوسرے درخت پر پناہ لیے ہوئے تھا اور اپنے بیٹے کو موت کے منہ میں جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اس نے کئی چلا چلا کر انگریز شکاری سے کہا:

’’صاحب بہادر، فائر کیجئے، بندوق چلائیے۔‘‘لیکن صاحب بہادر جیسے تھے ویسے ہی بے حس و حرکت بیٹھے رہے۔صاحب بہادر کی جانب سے مایوس ہو کر امیر خان نے ایک عجب تدبیر کی اس نے جھٹ سے اپنی پگڑی سر سے اتاری اور شیر کو للکار کر اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے یہ پگڑی زمین پر گرا دی۔ شیر مشتعل ہو کر پگڑی کی طرف جھپٹا اور اسے نوچنا شروع کر دیا۔ پگڑی پھینکنے سے امیر خان کے دو مقاصد تھے۔ایک یہ کہ شیر کا دھیان کریم سے ہٹ کر پگڑی کی طرف منتقل ہو جائے اور دوسرا یہ کہ اس دوران میں شکاری شیر کو اپنی گولی کا نشانہ بنا سکے۔

امیر خان کا ایک مقصد تو پورا ہو چکا تھا،مگر دوسرا نہیں ہو رہا تھا!حالانکہ شیر اب شکاری کے مچان کے بالکل سامنے اور بہت قریب آن کر پگڑی کو نوچ رہا تھا۔ گونڈ شکاریوں نے بھی چیخ چیخ کر انگریز کو خبردار کیا کہ فائر کرو۔خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ شکاری کو ہوش آیا اور اس نے بندوق کندھے سے لگا کر شیر کا نشانہ لیا اور گھوڑا دبا دیا۔ گولی چلنے سے چند سکینڈ پہلے شیر نے شکاری کو مچان پر بیٹھے دیکھا اور دھاڑتا ہوا ادھر گیا۔ عین اس وقت شکاری کی بندوق نے شعلہ اگلا اور گولی شیر کی گردن میں لگی۔ شیر الٹ کر گرا اور تھوڑی دیر تڑپنے کے بعد ٹھنڈا ہو گیا۔

شیر کے مرتے ہی سبھوں نے اطمینان کا سانس لیا جو درختوں کی شاخوں میں چھپے ہوئے کانپ رہے تھے۔یادرہے کہ اگر یہ زخمی شیر اس وقت مارا نہ جاتا، تو ہانکا کرنے والوں اور شکاری سب کو رات بھر انہیں درختوں پر لٹکے رہنا پڑتا ا ور کوئی نیچے اتر کر اپنے گھر تک جانے نہ پاتا۔یہ ایسا واقعہ ہے جو میں کبھی بھول نہیں سکا اور اگر چہ بعد میں بہت سے مواقع ایسے آئے جن میں زخمی درندے کے غیظ و غضب اوراشتعال کا سامنا کرنا پڑا اندازہ ہو گیا کہ اعصاب اگر مضبوط ہوں تبھی انسان اپنے ہوش و حواس برقرار رکھ سکتا ہے اور اعصاب کو پر سکون رکھنا بے حد مشکل کام ہے۔

اس دلچسپ شکار کے چند روز بعد ہی دوسرا واقعہ پیش آیا۔ میں اپنے مکان پر موجود تھا کہ جنگل کی طرف سے چند قلی ہانپتے آئے اور انہوں نے بتایا کہ قریب ہی ایک درخت پر چیتا پناہ لیے ہوئے ہے اور جنگلی کتوں نے اس کا گھیراؤ کررکھا ہے۔میں نے قلیوں سے کہا کہ اب تک تو چیتا اور جنگلی کتے وہاں سے کئی کوس دور جا چکے ہوں گے۔یہ سن کر قلی کہنے لگے:

’’نہیں،آپ ان جنگلی کتوں کی حرکتوں سے واقف نہیں ہیں۔یہ اگر شیر یا چیتے کو گھیر لیں،تو ہفتوں ان کا گھیراؤ جاری رکھتے ہیں اور شکار کو نکل بھاگنے کی مہلت نہیں دیتے۔روز بروز اپنا گھیراؤ تنگ کرتے جاتے ہیں۔حتیٰ کہ ان کے قابو چڑھنے والا جانور بھوک اور پیاس سے تنگ آکر گھیرا توڑنے کی کوشش کرتا ہے اور جنگلی کتے آناً فاناً اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ایسے عالم میں چیتے،شیر یا جنگلی سور کا بچنا محال ہوتا ہے۔جنگلی کتوں کی دہشت کا یہ حال ہے کہ شیر بھی ان سے لڑتے ہوئے گھبراتا ہے۔‘‘

انگریز شکاری ابھی تک اپنا ڈیرہ خیمہ اسی گاؤں میں جمائے ہوئے تھا۔ ہم نے طے کیاکہ یہ مہم بھی اسی سے سر کرائی جائے۔ چنانچہ میں انہی گونڈ قلیوں کو لے کر شکاری کے پاس گیا اور اسے چیتے کے جنگلی کتوں سے ڈر کر درخت پر پناہ لینے کا قصہ سنایا۔ شکاری نے جھٹ پٹ اپنی بندوق سنبھالی اور ہمارے ساتھ چلنے پر تیار ہو گیا۔ بھاگم بھاگ ہم جنگل کے اس حصے میں پہنچے جہاں قلیوں نے جنگلی کتوں کو چیتے کا گھیراؤ کرتے دیکھا تھا۔ کچھ فاصلے ہی سے ہمیں اندازہ ہو گیا کہ قلیوں کا بیان درست ہے۔

دریا کے کنارے کا ہو کے درختوں میں سے ایک درخت پر درمیانی قدوقامت کا چیتا چڑھا ہوا تھا اور درخت کے نیچے آس پاس اور دریا کے کنارے تک پچاس ساٹھ جنگلی کتے پہرہ دے رہے تھے۔چیتا شاخوں کے درمیان دبکا ہوا تھا۔بہت غور سے دیکھنے کے بعد ہمیں اس کی موجودگی کا پتا چلا۔

گونڈ قلیوں نے صاحب بہادر کو مشورہ دیا کہ آپ بے خوف ہو کر درخت کے قریب جائیے ا ور چیتے پر فائر کرکے اسے گرا دیجیے۔جنگلی کتے اوّل تو آپ کی صورت دیکھتے ہی بھاگ جائیں گے اور اگر وہ نہ بھاگے، تو ان کی طرف بھی ایک فائر جھونک دیجیے گا وہ فرار ہو جائیں گے۔

مشورہ بہت مناسب تھا، مگر صاحب بہادر اس پرعمل کرتے ہوئے ہچکچارہے تھے۔ان کا خیال تھا کہ جنگلی کتے تعداد میں بہت زیادہ ہیں اور عین ممکن ہے وہ بھاگنے کی بجائے پلٹ کر ہم ہی پر حملہ کر دیں اور یوں چیتے کو مارنے کی بجائے ہم لوگ خودان جنگلی کتوں کے خونخوار جبڑوں اور نوکیلے پنجوں کا شکار بن جائیں۔

دراصل صاحب بہادر پر چیتے سے زیادہ ان جنگلی کتوں کی ہیبت طاری تھی۔ بلاشبہ یہ ہیبت اپنی جگہ صحیح تھی۔ جنگلی کتا چیز ہی ایسی ہے کہ اس سے بڑے بڑے شکاری خشک تنکے کی طرح لرزتے کانپتے دیکھے گئے ہیں۔جیسا کہغ میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔اس مخلوق کے ہتھے چڑھنے کے بعد جنگل کا بادشاہ ہو یا اس کا نائب چیتا، جنگلی بھینسا ہو یا بارہ سنگھا، جان بچا لینا امرِمحال ہے۔پلک جھپکتے میں بڑے سے بڑے جانور کو تکابوٹی کر ڈالنا جنگلی کتوں کا ادنیٰ سا کرتب ہے۔

اس میں بھی شک نہیں کہ جنگلی کتے فطری طور پر انسان سے خوفزدہ رہتے ہیں اور حتیٰ الامکان انسان کا سامننا نہیں کرتے، لیکن جب انہیں فرار کا موقع نہ ملے، تو بے جگری کا ثبوت بھی دیتے ہیں اور میدان کا رزار سے بھاگنے کے بجائے ایک ایک کرکے مر جانا ہی بہتر جانتے ہیں۔جنگلی کتے کا حلیہ بجائے خود نہایت خوف ناک ہے۔جلد کا رنگ گہرا سرخ ،کانوں کے سرے دم اور منہ اندھیری رات کی طرح کالا۔۔۔دم اور کانوں پر گھنے اور سخت بالوں کے گچھے، اس کا قد عام شہری کتے کے برابر،یعنی ناک سے دم تک کوئی ساڑھے تین چار فٹ لمبا، سوا فٹ سے پونے دو فٹ تک اونچا اور وزن پچاس ساٹھ پونڈ کے لگ بھگ ہوتا ہے۔دانت اور پنجے وہ زبردست ہتھیار ہیں جو قدرت نے جنگلی کتے کو اپنے بچاؤ اور حملے کے لیے عطا کیے ہیں۔دونوں ریزربلیڈ کی مانند تیز ہوتے ہیں جن کے ذریعے یہ آناً فاناً اپنے شکار کو چیر پھاڑ کر برابر کر ڈالتا ہے۔

ان کی عادت یہ ہے کہ چالیس پچاس کے گروہ میں جنگل کے گرد گھومتے ہیں۔ان کو دیکھ کر درندے بھی راستہ بدل لیتے ہیں اور اگر بدقسمتی سے کوئی جانور ان میں گھر جائے، تو زندہ نہیں بچ سکتا۔ بعض اوقات انسان کو بھی گھیر کر اپنا کھا جا بنا لیتے ہیں اور کینہ پرور ایسے کہ کوسوں میل اپنے شکار کا تعاقب کرتے ہیں۔اگر وہ کسی چٹان، کھوہ یا کسی درخت پر پناہ لے لے،تو ہفتوں تک گھیراؤ جاری رکھتے ہیں،یہاں تک کہ وہ خودکو ان کے خون آشام جبڑوں کے حوالے کر دیتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ شکار کے گھیراؤ کے دوران میں جنگلی کتے بار باری خوراک اور پانی کی تلاش میں جاتے ہیں اور اپنی ضرورت کو پورا کرکے دوبارہ ’’ڈیوٹی‘‘ پر حاضر ہو جاتے ہیں۔دوسری حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ آپس میں کبھی نہیں لڑتے اور نہ آج تک انسان سے مانوس ہوئے ہیں۔آپ بڑے شوق سے شیر یا چیتا تو گھر میں پال سکتے ہیں،لیکن کتا نہیں پال سکتے۔

غرض میں نے اور گونڈ قلیوں نے صاحب بہادر سے بہت کہا کہ آپ بے دھڑک چیتے پر فائر کریں۔جنگلی کتے خود ہی ڈر کر بھاگ جائیں گے،لیکن صاحب بہادر پر واقعی چیتے سے زیادہ کتوں کی دہشت طاری تھی، اور وہ خوف زدہ نظروں سے کتوں کو چلتے پھرتے دیکھ رہے تھے۔مجھے بار بار ان کی ہچکچاہٹ اور فائر کرنے میں تامل پر طیش آرہاتھا۔ بس نہ چلتات ھا، ورنہ میں بندوق صاحب بہادر کے ساتھ سے چھین کر خود فائر کرتا۔ آخر میں نے دبی زبان سے کہہ ہی دیا کہ ا گر آپ کتوں سے ڈررہے ہیں تو آئی واپس چلیں۔۔۔یہ سن کر صاحب بہادر نے جھرجھری لی اور چیتے پر گولی چلانے کے لیے آمادہ ہوئے۔ چیتا اب اپنی پہلی جگہ چھوڑ کر کچھ اور سامنے آگیا تھا۔ غالباً وہ اپنی دانست میں کتوں کا گھیرا توڑ کر نکل بھاگنے کی فکر میں تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ درخت سے کودے، ہمارے صاحب بہادر نے دانت بھینچ اور آنکھ میچ کر گولی چلا ہی دی۔ چیتا کودنے کے لیے بالکل موشن میں تھا کہ گولی دھائیں سے چلی اور چیتے کے پیٹ میں لگی۔ ایک لرزہ خیز گرج کے ساتھ چیتا قلا بازیاں کھاتا ہوا بھد سے زمین پر گرا۔ چیتے کے گرتے ہی کتوں نے جھپٹ کر اسے نوچنا چاہا۔ مگر صاحب بہادر نے فوراً ہی دوسرا فائر کیا اور اس مرتبہ ایک کتا خون میں نہا گیا۔اپنے ساتھی کو تڑپتے دیکھ کر کتوں نے بھاگ جانے ہی میں عافیت سمجھی اور بجلی کی طرح وہاں سے رفو چکر ہو گئے۔

جنوری1919ء میں مجھے ضلع ہوشنگ آباد ہی کے ایک قصبے لودھی دھانہ میں جانا پڑا۔ جہاں لکڑی چیر نے ایک کارخانہ میری نگرانی میں دیا گیا۔ یہ قصبہ جنگل کے عین مرکز میں تھا اور جنگل کے ایک سرے پر اونچی سی پہاڑی تھی جو گاؤں سے کوئی آدھ میل دور ہو گی۔ لکڑی چیر نے کا یہ کارخانہ اسی پہاڑی ڈھلان پر بنا ہوا تھا اور اس کے بالکل نزدیک ایک چھوٹی سی ندی بہتی تھی جہاں گرمیوں کے موسم میں جنگل کے دور دراز حصوں سے طرح طرح کے جانور آکر پیاس بجھاتے تھے۔ میرے یہاں پہنچنے کے کچھ عرصے بعد ہی بڑے بھائی امیر مرتضیٰ صاحب بھی آگئے۔ ان دنوں مرتضیٰ صاحب کے پاس بارہ بور کی بندوق تھی، مگر میرا حال یہ تھا کہ بندوق کی مددکے بغیر ہی شکار کا شوق مختلف تدبیروں پر عمل کرکے پورا کر لیا کرتا تھا۔ یعنی تیر کمان اور غلیل سے کام چلاتا یا جال ڈال کر پرندوں کو پکڑا کرتا۔ مقامی باشندے بھی اس مشغلے میں شریک رہتے۔ہمارا اولین کام جنگلی موروں کو گرفتار کرنا تھا۔ جنگل کے ایسے حصے میں جہاں وزنی مور کثرت سے تھے، ہم چار پانچ آدمی مختلف مقامات پر جھاڑیوں کے اندر چھپ جاتے اور موروں کو ادھر سے ادھر بھگانا شروع کر دیتے۔ مور اپنے وزن کے باوجود دوڑ تو سکتے تھے، لیکن اڑنے کے قابل نہ تھے،چنانچہ جب یہ ادھر سے ادھر دوڑ دوڑ کر بے جان ہو جاتے، تو ہم آسانی سے انہیں گرفتار کرلیا کرتے تھے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ ہوا ذرا تیز ہوتی تو یہی وزنی مور اڑ کر ہمارے ہاتھ سے نکل جاتے اور ہم اپنی محنت پر کف افسوس ملتے ہوئے واپس چلے آتے۔

مور کے مقابلے میں مورنیاں چونکہ ہلکی ہوتی ہیں اس لیے وہ ہمارے ہاتھ نہیں آتی تھیں۔ایک دن میں نے عجب تماشا دیکھا کہ ایک جھاڑی کے اوپر بڑا سا عقاب بیٹھا ہے۔حیرت ہوئی کہ عقاب تو آسمان کی بلندیوں پر اڑنے والا پرندہ ہے یہاں جھاڑی پر بیٹھنے سے کیا مطلب؟ مگر بہت جلد اس کی وجہ سمجھ میں آگئی۔ غور سے دیکھا تو پتا چلا کہ جھاڑی کے اندر ایک مور دبکا ہوا ہے اور عقاب چونکہ جھاڑی کے اندر جاکر موڑ کو پکڑنے سے معذور تھا،اس لیے باہر ہی ٹھہر کر مور کے جھاڑی سے باہر نکلنے کا انتظار کررہا تھا۔ تھوڑی دیر تک یہ منظر دیکھنے کے بعد میں اپنے کام سے روانہ ہو گیا۔خبر نہیں،عقاب مور کو پکڑنے میں کامیاب رہا یا مایوس ہو کر اڑ گیا!

یہی سال تھا جب میں نے اپنی زندگی کا اہم فیصلہ کیا اور طے کرلیا کہ مجھے ایک بڑا شکاری بننا ہے۔یہ ارادہ ایک مہم کے بعد کیا گیا جس کا آغاز بڑے طریق پر ہوا۔ میرے بڑے بھائی امیر مرتضیٰ صاحب اپنی بارہ بور بندوق سمیت لودھی دھانہ سے کہیں گئے ہوئے تھے۔یہ بندوق وہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ مجھے اجازت نہ تھی کہ اسے ہاتھ بھی لگاؤں۔۔۔ وجہ یہی کہ وہ نیک نیتی سے چاہتے تھے کہ میں شکاری نہ بنوں ا ور اپنی زندگی برباد نہ کر ڈالوں۔ایک روز دوپہر کو ایک بجے کے لگ بھگ جینوا گوالی گاؤں کے چند آدمی بد حواسی کی تصویر بنے میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ چیتے نے ان کا ایک بچھڑا مار ڈالا ہے اور بچھڑے کی لاش کو گھسیٹ کر گاؤں سے کچھ فاصلے پر لے گیا ہے۔

یہ لوگ دراصل میرے بڑے بھائی سے چیتے کی شکایت کرنے آئے تھے کہ بھائی صاحب بھی اچھے شکاری تھے اور بارہ بور بندوق کے مالک۔۔۔لیکن بھائی صاحب اس وقت موجود نہ تھے،لہٰذا قرعہ فال میرے نام نکل آیا۔ میں نے ان لوگوں سے عذر کیا کہ میں بھلا کیا کر سکتا ہوں؟چیتے سے مقابلہ کرنے کے لیے غلیل اور تیر کمان کافی نہیں ہیں۔یہاں تو بندوق یا رائفل کی ضرورت ہے اور میری بدقسمتی کہ میں ان ہتھیاروں سے ابھی تک محروم چلا آتا ہوں۔خود اتنا مقدور نہیں کہ بندوق خرید سکوں۔بھائی صاحب ہوتے تو وہ اپنی بندوق کو کام میں لاکر چیتے کو مارسکتے تھے۔ لوگ لوگ ان کی واپسی کا انتظار کرلو۔ یہ سن کر وہ لوگ سخت پریشان ہوئے اور کہنے لگے:

’’نہ جانے آپ کے بھائی صاحب کب واپس آئیں،ادھر چیتے کے منہ کو بچھڑے کا خون لگ گیا ہے،اگر اسے روکا نہ گیا تو ایک ایک کرکے ہمارے تمام مویشیوں کو ہڑپ کر جائے گا اور پھر ہو سکتا ہے انسانوں کی باری بھی آجائے،لہٰذا ہر قیمت پر چیتے کا قصہ پاک کرنا ضروری ہے۔‘‘

میں نے کہا ’’ٹھیک ہے،لیکن یہ بھی تو دیکھو کہ تنہا آدمی کرہی کیا سکتا ہے۔تم لوگ چاہتے ہو کہ میں چیتے کا شکار ہو جاؤں؟‘‘

بہت سوچ بچار کے بعد آخر یہ راہ نکالی گئی کہ میں گاؤں کے نمبردار کی مزل لوڈنگ بندوق مستعارلوں اور اس سے چیتے کو ہلاک کرنے کی کوشش کروں۔مزل لوڈنگ بندوق بلاشبہ نہایت کارآمد ہتھیار ہے،لیکن اسے بھرنا بجائے خود ایک فن ہے جس میں میں اس وقت قطعی اناڑی تھا۔ بہرحال اللہ کا نام لے کر میں نے بندوق لوڈ کی اور ان لوگوں کے ساتھ ہی جینوا گوالی کی طرف روانہ ہوا۔ لودھی دھانہ سے یہ گاؤں صرف دو میل دور تھا۔

آپ اس وقت میرے جذبات و احساسات اور جوش و خروش کا شاید احساس نہ کر سکیں کہ میں بندوق ہاتھ میں لیے بنفس نفیس کسی سرپرست کی رہنمائی کے بغیر ایک موذی چیتے سے دو دو ہاتھ کرنے جارہا تھا۔ اگر میں یہ دعویٰ کروں کہ میرے ہوش و حواس اور اوسان معمول کے مطابق کام کررہے تھے تو یہ دعویٰ غلط ہو گا۔ میرے دل کی دھڑکن اسی رفتار سے تیز ہو رہی تھی جس رفتار سے میں جائے واردات کے نزدیک ہوتا جارہا تھا!تاہم میں نے کوشش کرکے اس بدحواسی اور دل کی بڑھتی ہوئی دھڑکن پر قابو پایا اور جنیوا گوالی کے نواح میں پہنچ کر بچھڑے کی لاش دیکھی جسے چیتے نے ہلاک کیا تھا، لیکن اسے ہڑپ کرنے کا موقع کسی نامعلوم سبب سے نہیں ملا تھا۔ میں جانتا تھا کہ چیتا قریب ہی کہیں موجود ہو گا اور شکار پر نگاہیں جمی ہوں گی۔

شام کے سائے تیزی سے اردگرد پھیل رہے تھے۔فضا میں اچھا خاصا حبس تھا اور جنگل پر غیر معمولی خاموشی طاری تھی۔پرندوں نے اپنے ٹھکانوں پر ابھی لوٹنا شروع نہیں کیا تھا۔ میں نے طے کیا کہ چیتے کے انتظار میں مچان باندھ کر اس پر بٹھنا فی الحال دشوار بھی ہے اور غیر ضروری بھی۔۔۔مچان باندھنے کا موقع نہ تھا اور نہ اتنا وقت کہ گاؤں سے مچان باندھنے کا سامان وغیرہ لایا جاتا۔میں نے ایک درخت پر چڑھ کر چیتے سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ زمین سے کوئی پندرہ فٹ کی بلندی پر میں نے اپنا ٹھکانہ بنایا اور سمجھ لیا کہ چیتے کے انتظار میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ یہ یقینی تھا کہ چیتا آس پاس ہی موجود ہے۔اب اسے میری ناتجربہ کاری کہہ لیجیے یا نادانی کہ میں اس خیال میں مبتلا تھا کہ جس طرح انسان اندھیرے میں نہیں دیکھ سکتا، اس طرح جانور بھی اندھیرے میں نہیں دیکھ سکتے،حالانکہ اب سوچتا ہوں،تو حیرت ہوتی ہے کہ اس رات چیتے نے مجھے زندہ کیوں چھوڑ دیا تھا، کیونکہ بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ اس نے گھپ اندھیرے کے باوجود نہ صرف مجھے اچھی طرح دیکھ لیا، بلکہ حملہ کرنے کے لیے دبے پاؤں درخت پر چڑھنے کی کوشش بھی کی تھی۔

یتے کے بارے میں مختصر طور پر میں یہاں چند ضروری باتیں بتاتا چلوں تاکہ آپ کو اس مکار درندے کی ان حرکتوں کا علم ہو سکے جو رات کی تاریکی میں اس سے سرزد ہوتی ہیں۔تمام جنگلی جانوروں میں چیتا سب سے زیادہ تیز، پھرتیلا اور عیار جانور ہے۔شیر درخت پر نہیں چڑھ سکتا جبکہ چیتا بلی کی طرح آسانی سے درخت پر چڑھ جاتا ہے۔زخمی ہونے کے بعد چیتے کے غیض و غضب اور اشتعال کی انتہا نہیں رہتی۔وہ انسانوں کے لیے سخت خطرناک بن جاتا ہے۔شکار کو ہلاک کرکے پہلے پیٹ چاک کرتا ہے،آنتیں ادھر ادھر بکھیرنا ہے اور پھر پیٹ کا گوشت ہڑپ کرتا ہے۔یہ درندہ اپنی ایک عجیب و غریب فطری حس کے باعث شکاری کی پیش بندی اور منصوبے سے آگاہ ہو جاتا ہے اور آسانی سے قابو میں نہیں آتا۔ اس کی یہ عادت بھی ہے کہ شکار کو ہلاک کرکے اونچے درختوں کی گھنی شاخوں میں چھپا رہتا ہے اور کئی کئی دن مزے لے لے کر کھاتا ہے۔اسے فریب دینے کے لیے درخت کے ساتھ اگر آپ بکری یا بچھڑے کو باندھیں گے، تو ادھر سے کبھی نہیں گزرے گا۔ وہ خوب جانتا ہے کہ مچان پر شکاری بندوق لیے بیٹھا ہے۔

یتے کی ایک خطرناک خصوصیت یہ ہے کہ کبھی سامنے آکر وار نہیں کرتا۔ ہمیشہ پیچھے سے دشمن پر حملہ کرتا ہے۔شیر کے برعکس شکاری پر چیتے کی دہشت زیادہ سوار رہتی ہے کہ اس درندے کے سامنے مچان کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ شکاری کی بے خبری میں وہ مچان پر آجاتا ہے اور ایک ہی پنجے میں گردن توڑ ڈالتا ہے۔

چیتے کی ان خصوصیات کا مجھے اس وقت مطلق علم نہ تھا۔ جب میں مزل لوڈنگ بندوق سنبھالے جنیوا گوالی گاؤں کے ایک درخت کی شاخوں میں چھپا بیٹھا تھا۔ یہ خصوصیات تو مجھے بہت بعد میں طویل شکاری زندگی بسر کرنے کے بعد معلوم ہوئیں اور ان سے میں نے بہت فائدہ بھی اٹھایا جس کا تذکرہ انشاء اللہ آئندہ کروں گا۔

آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 9)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں