آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر9)


آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر9)

مجھے جنگل میں اکیلا چھوڑ کر گاؤں والے چلے گئے اور کہہ گئے کہ ضرورت پڑنے پر میں اگر حلق پھاڑ کر پکاروں گا تو وہ لاٹھیاں اور جلتی ہوئی مشعلیں لے کر فوراً حاضر ہو جائیں گے۔میں نے شیخی میں آکر کہہ دیا کہ شاید اس کی ضرورت نہ پڑے کہ میں چیتے کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔بچھڑے کی لاش اس درخت سے جس پر میں براجمان تھا۔ کوئی دس پندرہ گز دور پڑی تھی اور میں اپنی جگہ بے حس و حرکت لاش پر نظریں گاڑے بیٹھا تھا۔تھوڑی دیر بعد ہی میری آنکھیں اندھیرے سے مانوس ہو گئیں اور گھبراہٹ کی وہ لہر جو بار بار میرے اندر سے اٹھ رہی تھی،دفعتاً غائب ہو گئی۔

کچھ ایسا یقین میرے قلب کو ہو گیا تھا کہ میں چیتے کو ٹھکانے ضرور لگا دوں گا۔

کوئی ایک گھنٹے بعد میں نے سامنے والی جھاڑیوں میں کھڑبڑ کی آواز سنی۔ میرے کان کھڑے ہوئے اور پھر میں نے چیتے کا سایہ جھاڑیوں کے اندر دیکھا۔ چیتا خود کو چھپانے میں شاید کامیاب ہو جاتا لیکن وہ اپنی ان زرد آنکھوں کو چھپانے میں بالکل ناکام تھا جو رات کے اس اندھیرے میں انگاروں کی مانند دہک رہی تھیں۔اسے وہم تھا کہ میں نے اسے نہیں دیکھا ہے۔تھوڑی دیر بعد وہ دبے پاؤں جھاڑیوں سے نکلا اور سیدھا اس درخت کی طرف آیا جس پر میں چھپا ہوا تھا۔ چیتے نے منہ اوپر اٹھا کر فضا میں کچھ سونگھا۔ پھر چپکے چپکے درخت کی پشت پر آن کر اس انداز سے تکنے لگا جیسے اوپر آنے کا ارادہ کررہا ہو۔ اپنی جی داری اور حوصلے کے باوجود میں پسینے سے تر ہو گیا۔ میں نے اپنی جگہ سے جنبش کی ،تاکہ چیتا اگر درخت پر چڑھے تو میں اسے گولی ماردوں،لیکن اتنی سی جنبش ہی قیامت ہو گئی۔ چیتے نے غرا کر ز قند بھری اور نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

میں مزید تین گھنٹے دم بخود درخت پر بیٹھا چیتے کی واپسی کا منتظر رہا۔ لیکن وہ نہ آیا۔بالآخر میرا حوصلہ جواب دے گیا اور میں نے گاؤں والوں کو آوازیں دینا شروع کیں۔تھوڑی دیر بعد وہ لوگ آئے اور مجھے درخت سے اتار کر اپنے ساتھ لے گئے۔میرے جاتے ہی چیتا وہاں آیا اور بچھڑے کی لاش سے کام ودہن کی لذت کے بعد وہ اپنی کمین گاہ کی طرف لوٹ گیا۔ اس کے بعد میں نے مسلسل کئی دن اس چیتے کا تعاقب کیا، مگر وہ اتنا چالاک نکلا کہ میرے ہتھے نہ چڑھ سکا۔

دوسری طرف لودھی دھانہ کے نمبردار صاحب اپنی بندوق کے فراق میں بے چین تھے اور مجھے بھائی جان۔۔۔کے واپس آجانے کا ڈر بھی تھا اس لیے اس چیتے کو مارنے کا ارمان دل میں لیے میں واپس اپنے علاقے میں چلا گیا۔

وقت گزرتا گیا اور جنگلی جانوروں کے بارے میں میری معلومات بڑھتی چلی گئیں۔سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہوئی کہ بھائی صاحب نے مجھے باضابطہ شکاری تسلیم کرلیا تھا اور کھلی اجازت دے دی تھی کہ میں جس طرح چاہوں شکار سے جی بہلاؤں۔اس سال یعنی1919ء کا ذکر ہے،جون کا مہینہ تھا اور قیامت کی گرمی پڑ رہی تھی۔ میں چرٹپالہ گاؤں گیا ہوا تھا اور دن بھر کی مصروفیات کے بعد گھر کے صحن میں لیٹا بے خبر سو رہا تھا کہ چند مقامی باشندوں نے مجھے جگایا۔ میں ہڑ بڑا کر اٹھا، دیکھا کہ یہ گونڈ لوگ ہیں اور ہر شخص کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔میں نے پوچھا: ’خیر تو ہے؟‘‘

انہوں نے بتایا کہ ایک آدم خور چیتابنو خان کے مکان میں واردات کی نیت سے داخل ہوا۔مگر گھر والوں کو پتا چل گیا، انہوں نے کمال جرات سے کام لے کر چیتے کو مکان کے اندر قید کر دیا ہے اور اب یہ لوگ کریم پٹیل کو بلانے آئے ہیں،تاکہ وہ اپنی بندوق لے کر چلے اور اس چیتے کو ٹھکانے لگا دے۔ میں جس مکان میں ٹھہرا ہوا تھا وہ کریم پٹیل کا تھا۔ کریم عمر میں بڑا ہونے کے باوجود میرا بہترین دوست تھا۔ میں نے گاؤں والوں کو بتایا کہ کریم پٹیل اس وقت موجود نہیں ہے اور کسی کام سے ہروا گاؤں گیا ہے۔یہ سن کر وہ مصر ہوئے کہ میں چلوں اور اس آدم خور چیتے کو مار ڈالوں۔۔۔میں نے ان سے کہا کہ میں بالکل تیار ہوں۔گاؤں والوں نے کریم پٹیل کی بیوی سے بندوق مانگی۔سب لوگ اسے بیگم بیگم کہتے تھے۔جب بیگم نے سنا کہ بندوق میرے لئے مانگی جارہی ہے اور میں آدم خور چیتے کو مارنے کا ارادہ ر کھتا ہوں،تو وہ سخت ناراض ہو کر بولیں:

’’کیا یہ لونڈا جمشید اس آدم خور چیتے کو مارے گا جس نے ابھی چند دن پہلے ہمارے ایک نوکر کو ہڑپ کیا؟اس کے علاوہ وہ نہ جانے کتنے آدمیوں کو کھا چکا ہے۔جمشید کل کا بچہ اور ناتجربہ کار ہے۔میں اسے بندوق دے کر موت کے منہ میں بھیجنا نہیں چاہتی۔اگر خدانخواستہ وہ چیتے کا نوالہ بن گیا،تو میں اپنے شوہر اور جمشید کے بھائی مرتضیٰ کو کیا جواب دوں گی؟‘‘

غرض بیگم نے بندوق دینے سے صاف انکار کر دیا۔ ادھرگاؤں والوں کا اصرار تھا کہ آدم خور چیتا اس وقت بنو خان کے مکان میں زیر حراست ہے اور یہ اسے ہلاک کرنے کا بہترین موقع ہے،اگر یہ موقع ضائع کر دیا گیا تو چیتا آئندہ نہ جانے کتنے افراد کو ہڑپ کر جائے گا۔بصدمت سماجت بیگم اس پر راضی ہوئیں کہ اگر گاؤں کے تین ذمے دار شخص بندوق مانگیں ،تب جمشید کو بندوق دی جا سکتی ہے اور یہ تینوں آدمی سب کے سامنے اس بات کا اقرار کریں کہ اگر جمشید مارا گیا، تو یہی لوگ جواب دہ ہوں گے،چنانچہ تین ذمے دار آدمیوں نے ضمانت دی اور بیگم نے بارہ بور بندوق دو کارتوسوں سمیت میرے حوالے کی۔

میں بھاگم بھاگ بنوں خان کے مکان پر پہنچا،دیکھا کہ لوگوں کا ایک ہجوم ہے۔جب انہوں نے مجھے دیکھا اور انہیں بتایا کہ یہی’’بچہ‘‘ آدم خور چیتے کو مارنے آیا ہے تو مایوسی سے ان کے چہرے لٹک گئے۔وہ میری نو عمری پر نظر کرتے اور کبھی اس بندوق کو دیکھتے جو میرے ہاتھ میں تھی۔بعض نے دبی زبان سے مجھے منع بھی کیا اور بعض نے یہاں تک کہہ دیا کہ اس لونڈے کی قضا اسے یہاں کھینچ لائی ہے۔کئی ایسے بھی تھے جو منہ پھیر پھر کر ہنس رہے تھے۔میں نے ان باتوں کی باللک پرواہ نہ کی اور مکان کی چھت پر چڑھ گیا۔ اوپر جاکر میں نے چھت کی اینٹیں اکھاڑیں اوراندر جھانکا۔ پہلے تو مجھے آدم خور چیتا کہیں نظر نہ آیا، لیکن جب غور سے دیکھا، تو معلوم ہوا کہ مکار درندہ لکڑی کے اس پلیٹ فارم کے نیچے چھپا ہوا ہے جو برتن وغیرہ رکھنے کے لیے کمرے میں بنایا گیا تھا۔ ظاہر ہے اس طرح میں چیتے کو گولی نہیں مار سکتا تھا اور چیتے کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ اتنی محفوظ جگہ س نکل کر خود کو ہلاکت میں ڈالتا؟میں نے اوپر سے تین چار اینٹیں اور پتھر کمرے میں پھینکے۔لیکن چیتا غرانے کے علاوہ ٹس سے مس نہ ہوا۔اب اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ میں مکان کے اندر جاؤں اور کمرے کا دروازہ کھول کر چیتے کو گولی مار دوں۔

میرا یہ حوصلہ دیکھا تو وہی لوگ جو چند لمحے پہلے میرا مذاق اڑا رہے تھے، اب جی بڑھانے اور ہمت افزائی کرنے لگے۔میں نے ان سے کہا مہربانی کرکے مکان سے دور ہٹ جائیں۔اگر چیتا آزاد ہو گیا، تو ایک آدم کو اپنے ساتھ لے مرے گا۔ یہ سنتے ہی مجمع کائی کی طرح پھٹ گیا اور لوگ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔میں نے دو بہادر گونڈ اپنے ساتھ لیے،ان کے ہاتھوں میں نیزے تھے اور یہ لوگ پہلے بھی شیروں اور چیتوں سے جنگل میں مقابلہ کرچکے تھے۔بندوق میرے ہاتھ میں تھی، ہم نے مکان کا اندرونی دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوئے۔اندر جانے کے بعد ہم نے یہ بیرونی دروازہ اندر سے بند کر دیا۔ تاکہ چیتا کسی صورت میں باہر نہ جا سکے۔ اب ہمارے سامنے وہ کمرہ تھا جس میں آدم خور چیتا بند تھا۔ غالباً اب وہ پلیٹ فارم کے اندر ہی دبکا ہوا تھا۔ میں نے بندوق کا کندہ آہستہ سے کمرے کے بند دروازے پر مارا۔اندر سے آدم خور کے غرانے کی آواز بلند ہوئی۔میں نے سوچا لکڑی کے اس دروازے میں اتنا سوراغ کرلوں کہ اس میں سے چیتا نظر آجائے اور پھراسی سوراخ میں بندوق کی نالی رکھ کر فائر کردوں،لیکن مصیبت یہ تھی کہ کارتوس میرے پاس دو ہی تھے۔اگر یہ ضائع ہو گئے تو بیگم سے مزید کارتوس حاصل کرنا محال تھا۔ کہ میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ گھر میں دو ہی کارتوس باقی ہیں،اگر ان سے چیتے کو مار سکو تو مار لینا۔ چنانچہ میں نے دروازے میں سوراخ کرنے کا ارادہ ترک کردیا اور ایک گونڈ کو حکم دیا کہ بڑھ کر دروازہ چوپٹ کھول دے۔

اِدھر گونڈ نے دروازہ کھولا،اُدھر آدم خور چیتا برق کی طرح لپک کر اس پر آیا۔ دوسرے گونڈ نے بے مثل جی داری کا ثبوت دیتے ہوئے ا پنا نیزہ تاک کر مارا۔ یہ نیززہ لکڑی کی دیوار میں پیوست ہو گیا اور چیتے کی توجہ ایک سیکنڈ کے لیے نیزے کی طرف مبذول ہوئی۔عین اسی لمحے میں نے اس کے سر کا نشانہ لے کر فائر کر دیا۔ گولی چیتے کے دماغ پر بیٹھی، اس کی کھوپڑی کے پرخچے اڑ گئے۔ مرتے مرتے بھی وہ اچھل کر میری جانب آیا۔ میں نے دھائیں سے دوسری گولی بھی چلائی۔یہ گولی بھی گردن میں لگی اور چیتا میرے قدموں پر گر کر ڈھیر ہو گیا۔ چیتے کے مارے جانے سے لوگ اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے مجھے کندھوں پر اٹھا لیا اور سارے گاؤں میں لیے لیے پھرے۔یہ چیتا کم و بیش دس بارہ آدمیوں کو ہڑپ کر چکا تھا اور جو مویشی اس نے ہلاک کیے،وہ تو تعداد میں بہت زیادہ تھے۔اس کا حوصلہ یہاں تک بڑھ چکا تھا کہ دن دہاڑے لوگوں کے کچے مکانوں میں جھونپڑیوں میں گھس کر بچوں کو اٹھا لے جاتا۔ بعد میں جب اس کی لاش کا معائنہ کیا گیا، تو پتا چلا کہ اس کی ٹانگ مدت سے زخمی تھی اور یہ کسی ایسے اناڑی شکاری کا کارنامہ تھا جس نے چیتے کی ٹانگ پر گولی مار کراسے شکار کھیلنے کی پھرتی اور چالاکی سے محروم کر دیا تھا۔ مجبوراً یہ درندہ آدمیوں کے گوشت اور لہو سے اپنا پیٹ بھرنے لگا۔

یہ پہلا آدم خور چیتا تھا، جسے میں نے سولہ برس کی عمر میں مانگے تانگے کی بندوق سے ہلاک کیا۔ اس کامیابی نے جہاں میرے حوصلے بلند کیے، وہاں مجھے مستند شکاری ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ مدھیہ پردیش کے جنگلوں سے یہ خبر نکل کر پنجاب کے شہر گجرات تک پہنچی اور خاندان کے لوگوں نے اس پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا کہ بالآخر میں نے اپنے لیے ایک راستہ چن ہی لیا۔

اور یہ راستہ تھا چوبیس گھنٹے اپنی جان ہتھیلی پر لیے پھرنے کا۔ایسے واقعات کی کمی میری زندگی میں نہیں رہی جن میں سے ہر واقعہ ایسا ہی ہے،گویا مجھے دوبارہ جینے کا موقع خدا نے فراہم فرمایا۔جس سال میں نے آدم خور چیتے کو مارا، اس سے ا گلے برس سردیوں کے دن تھے۔۔۔میں علی الصبح مزے مزے میں پیدل چلتا ہوا گاؤں گا سن سے قصبہ لودھی دھانہ جارہا تھا کہ راستے میں گھندن گھاٹ پرمیری ملاقات اچانک ایک ببر شیر سے ہو گئی۔شیر مجھ سے صرف دس قدم کے فاصلے پر تھا۔ دلچسپ بات یہ کہ ہم دونوں اپنی اپنی دھن میں چلے جارہے تھے۔شیر نے مجھے دیکھا نہ میں نے شیر کو۔۔۔اور دیکھا، تو اس وقت جب ہمارے مابین فاصلہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔ میں اس وقت خالی ہاتھ تھا۔ سمجھ گیا کہ قضا نے آن دبوچا، شیر مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا اور اگر میں پلٹ کر بھاگنے کی کوشش کروں گا تووہ غضب ناک ہو کر لازماً میرا تعاقب کرے گا۔۔۔غرض میں بے حس و حرکت اپنی جگہ کھڑا شیر کو تکتا رہا۔شیر اپنی جگہ دم بخود تھا۔۔۔کوئی تیس سیکنڈ تک ہم دونوں ایک دوسرے کی آنکھیں میں آنکھیں ڈالے گھورتے رہے۔پھر شیر نے اپنی دیرینہ شرافت اور وضع داری کا ثبوت دیتے ہوئے ہلکی سی آواز نکالی جیسے کہہ رہا ہوں،میاں صاحب زادے تم ہمارے علاقے میں بغیر اجازت کیوں آگئے؟میں نے خاموش زبان میں عرض کیا کہ اے جنگل کے بادشاہ!میرا ارادہ تجھے نقصان پہنچانے کا ہر گز نہیں ہے۔میں اس وقت تنہا ہوں اور اپنی راہ پر جارہا ہوں،تو بھی اپنی راہ لے ،چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ شیر نے رخ موڑا اور آہستہ آہستہ چلتا جنگل میں غائب ہو گیا۔۔۔میں نے تھوڑی دیر انتظار کیا ۔گھاٹ پر جا کر ہاتھ منہ دھویا اور سیٹی بجاتا ہوا اطمینان سے اپنی منزل کی طرف بڑھ گیا۔ مجھے یقین کامل تھا کہ شیر میرا پیچھا نہیں کرے گا۔

لوگ جب اس قسم کے واقعات سنتے تو پیش گوئیاں کردیتے کہ یہ لڑکا کسی دن ضرور شیر یا چیتے کا لقمہ بن جائے گا۔مگر45برس اسی طرح گزر گئے اور مجھے خراش تک نہ آئی، حالانکہ اسی مدت میں کوئی ڈیڑھ سو درندوں کو زمین پر کھڑے ہو کر دوبدو جنگ کے بعد ہلاک بھی کیا۔

قصبہ لودھی دھانہ جنگل کے مرکز میں تھااور مجھے بڑا شکار ڈھونڈنے کے لیے زیادہ دور جانے کی کبھی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ان دنوں اس جنگل میں شیر، چیتے، ریچھ،سور اس کثرت سے تھے کہ دنیا کے بہت کم جنگلوں میں ہوں گے۔روزانہ کسی نہ کسی درندے سے مڈبھیڑ ہوتی ہی رہتی تھی۔۔۔درندے تو خیر درندے تھے،ایک روز جب کہ میں ندی میں نہا رہا تھا، مگر مچھ نے میری ٹانگ گھسیٹنے کا ارادہ کیا۔ مجھے بالکل خبر نہ تھی کہ اس ندی میں مگر مچھ بھی موجود ہے۔برسات کے دنوں میں کہیں سے تیرتا ہوا آگیا ہو گا۔اگر میں اسے نہ دیکھ لیتا، تو وہ مجھے لے ہی گیا تھا۔ خاصا بڑا مگر مچھ تھا۔ میں جلدی سے کنارے پر پہنچا اور مردوں کی طرح دھم سادھ کر لیٹ گیا۔ رائفل قریب ہی پڑی تھی اور میرا جگری دوست بابو خان ندی کے دوسرے کنارے پر تھا، اسے آواز دے کر میں نے خبردار کر دیا اور وہ چکر کاٹ کر رسیوں کے بنے ہوئے پل کے ذریعے ندی پار کرکے میری طرف آگیا۔

بہت دیر انتظار کے بعد مگر مچھ نے اپنی لمبی تھوتھنی پانی سے باہر نکالی اور کنارے کی طرف آیا۔ہم نہایت صبر سے اس کا انتظار کررہے تھے۔کنارے پر آن کر مگر مچھ بہت دھیمے دھیمے چھپکلی کی طرح ہماری طرف بڑھنے لگا۔ میں کن انکھیوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ جب وہ خاصا قریب آگیا تو میں نے جھٹ بندوق اٹھائی اور اس کے پیٹ میں گولی مار دی۔گولی کھا کر مگر مچھ الٹا ہو گیا۔بابو خان نے رسی کا پھندا بنا کر اس کی تھوتھنی میں ڈالا اور ہم دونوں نے سخت جدوجہد کے بعد اسے کنارے سے دور گھسیٹ لیا۔ہم سمجھے کہ وہ مر گیا،حالانکہ وہ صرف بے ہوش ہوا تھا اور اس میں خاصی جان باقی تھی۔مگر مچھ کو ہم نے بیل گاڑی پر لادا اور گاؤں لے چلے۔ہم دونوں اس کی طرف سے پیٹ موڑے بیٹھے باتیں کرتے جارہے تھے کہ ہماری بے خبری میں اسے ہوش آیا اور اس نے منہ کھول کر پہلے تو رسی کے پھندے سے آزادی حاصل کی، پھر لپک کر بابو خان کا بازو اپنے جبڑے میں دبا لیا۔ اس خوف اور دہشت کا آپ اندازہ نہیں کر سکتے جو اس موذی مگر مچھ کو زندہ دیکھ کر ہم دونوں پر طاری ہوئی۔

میرے قریب ہی گوشت کاٹنے کا لمبا سا چھرا پڑا تھا۔ میں نے وہی چھرا اٹھایاا ور پوری قوت سے مگر مچھ کو تھوتھنی کے نچلے حصے میں گھونپ دیا۔خون کا زبردست فوارہ برآمدہوا،میں نے پے درپے کئی وار کیے ا ور اس وقت چھرا ہاتھ سے رکھا جب مگر مچھ کا دم نکل گیا۔

آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 10)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں