آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر10)

 

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر10)

ہمارے ایک راجپوت اور بڑے محلص دوست چودھری وجے پال سنگھ موضع کول کے رہنے والے ہیں اور یہیں کھولہ سے ملا ہوا ان کا ابہت بڑا فارم ہے۔کھولہ دراصل کوسوں میلوں میں پھیلے ہوئے انتہائی گھنے جنگلوں کا ایک سلسلہ ہے جس میں درندے، پرندے اور چرندے کثرت سے ملتے ہیں۔چودھری صاحب کا فارم موضع محمود پور سے کوئی ایک میل کے فاصلے پر ہے۔پروگرام یہ بنا کہ پہلے کول چلیں اور وہاں سے چودھری صاحب کے ہمراہ ان کے فارم پہنچیں۔ میں،میرا نواسا اطہر اور میرا چھوٹا لڑکا خالد، کول کے لیے روانہ ہوئے۔سرشام ہی ہم کول پہنچ گئے۔ راستے میں اطہر اور خالد نے دس بارہ کالے اور بھورے تیتر مار لیے تھے جو رات کے کھانے کے لیے بہت تھے۔ اگلے روز وجے پال کے چھوٹے بھائی نین سنگھ کے ساتھ شکار کی مہم پر روانہ ہونے کی تفصیلات طے پائیں اور رات کول ہی میں کاٹی۔

دوسرے دن منہ اندھیرے ہم اپنی مہم پر روانہ ہوگئے۔ٹریکٹر لیا اور اس میں ٹرالی لگا لی۔ ہمارا یہ شکاری قافلہ آٹھ آدمیوں پر مشتمل تھا جس کا سالار مجھے بنایا گیا، ان کی فہرست سن لیجیے۔میرا نواسا اطہر،لڑکا خالد، چودھری وجے پال سنگھ کا بیٹا سنسار سنگھ، وجے پال کے بھائی نین سنگھ اور ایک فارسٹ گارڈ ہری چند جودہرہ دون سے چھٹی لے کر آیا ہوا تھا، کول کا ایک شوقین شکاری خزاں سنگھ اور ہمارا ایک مستقل شکاری ساتھی عباسی۔۔۔ہری چند نہایت عجیب و غریب آدمی تھا۔ جسم مائل بہ فربہی، اس کی پتلون ہمیشہ توند سے کھسکتی رہتی جسے بار بار سنبھالنا اس کا مشغلہ تھا۔ اس شخص نے اپنی بہادری اور جی داری کے کارنامے سنا سنا کر کان کھالیے۔ظالم نے باتوں باتوں میں سینکڑوں شیروں اور چیتوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا جاتا کہ آپ لوگوں کو شاید ان واقعات پر یقین نہیں آرہا ہے۔خیر، اگر درندہ سامنے آیا تب میرا تجربہ دیکھیے گا۔ معلوم ہوا کہ تفریح طبع کے لیے یہ شخص بہت موزوں ہے۔چنانچہ لڑکوں نے اسے بنانا اور چھیڑنا شروع کر دیا۔ میں بھی ان کی چھیڑ چھاڑ سے خاصا لطف اندوز ہو رہا تھا۔ عباسی اور نین سنگھ بڑے بھاری شکاری تھے۔ وہ بھی ہری چند کی باتوں پر مسکرارہے تھے۔

دوپہر تک یہ شکاری قافلہ فارم پر پہنچ گیا۔ راستے میں لڑکوں نے چند تیتر اور مار لیے جو فارم پر بھونے گئے۔ اپنے ہاتھ کا یہ کھانا شاہی رکاب داروں کے پکائے ہوئے پکوانوں سے کہیں لذیذ تھا۔۔۔کھانے کے بعد پروگرام یہ بنا کہ بیلیا کاہانکا کرایا جائے۔بیلیا قریب ہی ایک شکاری علاقہ تھا جس میں جنگلی قد آدم گھاس پیڑا اور بولا بہت گھنی تھی۔گرمیوں کے موسم میں یہ علاقہ خاصا ٹھنڈا رہتا ہے،اس لیے جنگلی درندے پناہ لینے اور مزے کی نیند سونے کے لیے کثرت سے اس گھاس میں آجاتے ہیں۔یہاں یہ واضح کر دوں کہ ہانکا یا ہنکو ایک خاص شکاری اصطلاح ہے جس میں درندوں کی راہ گزر پر شکاری کھڑے ہو جاتے ہیں اور راہ گزر کو شکار کی زبان میں ڈگر کہتے ہیں۔مخالف سمت سے دوسرے لوگ پیڑے اور بولے میں شور مچاتے ہوئے چلتے ہیں۔اس کی وجہ سے درندے خوفزدہ ہو کر ڈگر سے باہر نکلتے ہیں اور شکاری فائر کرکے انہیں ڈھیر کرتا جاتا ہے۔ہانکا کرانے کے لیے محمود پور سے آدمی بلوائے گئے۔

ہمارے پاس بارہ بور کی چار بندوقیں تھیں۔یہ بندوقیں میرے،اطہر،خالد اور سنسار کے ہاتھوں میں تھیں۔ہم چاروں چارڈگریوں پر کھڑے ہو گئے۔ہانکا شروع ہو گیا۔ سب سے پہلے ایک نیلا(نیل گائے کانر)اطہر کے سامنے نکلا۔ میں نے تسلی کرلی کہ یہ نیلا ہی ہے ناں،کیونکہ یہ مادہ سے زیادہ سخت جان ہوتا ہے اور سب سے پہلے شکاری کو اسکی پہچان کرنا ہوتی ہے کہ وہ نیل گائے ہے یا نیلا ؟خیراطہرنے فائر کیا۔ گولی نیلے کی گردن میں لگی، لیکن نیلا بہت بڑا اور نہایت سخت جان ہوتا ہے،اس کی ایک گولی کو وہ کیا خاطر میں لاتا؟اطہر کا دوسرا فائر بھی نیلے کو گرانے میں ناکام رہا۔ یہ گولی اس کی پیٹھ پر لگی۔ خالد،اطہر سے دائیں سمت ذرا آگے کھڑا تھا وہ بے اختیار نیلے کی طرف بھاگا اور کوئی بیس گز کے فاصلے سے اس پر فائر کیا۔نیلا گرا، لیکن فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔خالد کے دوسرے فائر نے اس کی کھوپڑی میں سوراخ کر دیا اور وہ بری طرح ڈکراتا ہوا ڈھیر ہو گیا۔بعد میں جب اس کا وزن کیا گیاتو سات من نکلا۔نیلے کو ذبح کر کے ہم اپنی جگہ واپس آگئے۔ اس کے بعد ایک پاڑا نکلا۔ اس پر بیک وقت میں نے ،اطہر نے اور خالد نے فائر کیا۔ تینوں گولیاں اس کے جسم میں پیوست ہوئیں اور وہ ایسا گرا کہ دوبارہ نہ اٹھ سکا۔ ہم نے نیلے اور پاڑے کی کھالیں اتار کر سارا گوشت گاؤں والوں کے حوالے کر دیا۔ محمود پور کے مسلمانوں کی تو گویا بقر عید ہو گئی۔

رات کا اندھیرا،دن کے اجالے کو اپنی آغوش میں لے چکا تھا۔ چنانچہ ہم بیلیا سے فارم کی جانب روانہ ہو گئے۔ جووہاں سے ڈھائی میل دور ہو گا۔ دوسرا دن بڑی مصیبت کا گزارا۔نہ جانے صبح صبح کس کا چہرہ دیکھا کہ پھرتے پھرتے دوپہر ہو گئی اور ہزار کوششوں کے باوجود چند تیتروں کے سوا کوئی بڑا جانور ہاتھ نہ آیا۔سہ پہر کے وقت اطہر اور خالد نے فارم ہی پر ایک قوی ہیکل جنگلی سور مارا جو تیتروں کی آلائش کی بوپا کر آیا تھا، سہ پہر سے شام ہو گئی۔تیتروں سے جی بہلاتے ہوئے ہم لوگ ایک کھتے پر پہنچے۔اس علاقے میں کھتے کی تعریف یہ ہے کہ گوالے جنگل کے جس حصے میں جھونپڑیاں ڈال کر گنائیں بھینسیں پالتے ہیں،اسے کھتہ کہتے ہیں۔گوالوں نے ہماری آؤ بھگت کی ہمیں دودھ پلایا۔اس دوران میں گوالے نین سنگھ اور عباسی کو ایک طرف لے جاکر کچھ باتیں کرنے لگے۔ دیر تک ان میں زور شور سے باتیں ہوتی رہیں۔اس کے بعد وہ میرے پاس آئے۔گوالوں نے بتایا کہ ایک گل دار(چیتا)ان دنوں اس علاقے میں موجود ہے اور وہ اب تک ان گوالوں کے پانچ قیمتی مویشی ہلاک کر چکا ہے۔ان میں دو بچھڑے، ایک گائے اور دوبیل شامل ہیں۔میں نے ان گوالوں سے جرح کی کہ کیا بیل ابھی بچھڑے ہی تھے؟ انہوں نے بتایا کہ پورے تندرست اور توانا بیل تھے۔ تب میں نے انہیں بتایا کہ بے وقوفو بیل کو مارنا گل دار کے بس کی بات نہیں۔یہ کام صرف شیر کا ہے اور ہمارے پاس صرف بارہ بور کی بندوقیں ہیں۔جن سے شیر مار نے کا خیال بھی دل میں لانا صریح حماقت اور موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے، تاہم میں نے ان سے وعدہ کیا کہ ہم جلد واپس آئیں گے اور رائفل لانا نہ بھولیں گے۔

گوالوں کو اپنا دودھ رائیگاں جاتا نظر آیا۔انہوں نے نہ جانے ہم سے کیا کیا امیدیں باندھ لی تھیں کہ ہم اسی وقت جنگل میں گھس جائیں گے اور گل دار کو مار کر ان کے سامنے ڈال دیں گے۔ہماری جانب سے انکار سن کر انہوں نے ٹھنڈی سانسیں بھریں اور کہنے لگے:

’’جب تک آپ دوبارہ آئیں،کیا خبر کتنے جانور اس گلدار کی بھینٹ چڑھ جائیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جانوروں کو چھوڑ کر وہ آدمیوں کو ہڑپ کرنے پر اتر آئے۔‘‘

گوالوں کی اس بات نے میرے جسم میں حرارت پیدا کر دی، لیکن دوسرے ہی لمحے یہ حرارت خود بخود سرد پڑگئی۔میں نے احساس کیا کہ موقع بے ڈھب ہے۔میرے ساتھ تین نو عمر لڑکے ہیں۔اگر خدانخواستہ ان میں سے کسی کو کچھ ہو گیا،تو میں کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گا، یقین مانیے اگر یہ بچے ساتھ نہ ہوتے تو میں گلدار سے دو دو ہاتھ کرنے کا ارادہ کر لیتا۔

مغرب کے بعد ہم کچھ دیر تیتر مارتے رہے۔جب خاصا اندھیرا ہو گیا تب فارم کی طرف پلٹے۔ٹریکٹر محمود پور کے ڈاک بنگلے کے قریب پہنچا تو اس کی روشنی اچانک ایک آوارہ بیل پر پڑی جو سڑک کے بیچوں بیچ کھڑا تھا۔ اس کے فوراً بعد نظر ایک درندے پر پڑی جو بیل پر جست کرنے ہی والا تھا۔ نین سنگھ نے بھی اسے دیکھا اور بول پڑا:

’’خان صاحب، یہ شیر ہے۔‘‘

یہ سنتے ہی لڑکوں نے اپنی اپنی بندوقیں سیدھی کرلیں۔میں نے ہلکی آواز میں انہیں ڈانٹا:

’’خبردار!بندوق نہ چلانا، یہ شیر ہے۔‘‘

لیکن اتنی دیر میں ٹریکٹر نزدیک پہنچ گیا تھا۔ بیل اور درندہ دونوں روشنی میں تھے۔۔۔مجھے درندے کی آنکھیں اور مونچھیں اور اس کے اگلے دو پاؤں صاف نظر آرہے تھے اور دماغ میں گوالے کا کہا ہوا جملہ گونج رہا تھا کہ گلداردو بیل مار چکا ہے اور کیا پتہ اس کے بعد انسانوں کی باری آجائے۔میں نے نین سنگھ سے کہا کہ ٹریکٹر روک دو۔اتنے میں گلدار روشنی سے گھبرا کر راستہ چھوڑ چکا تھا۔ اور جھاڑیاں ہل ہل کر بتا رہی تھیں کہ وہ آہستہ آہستہ ان میں حرکت کررہا ہے۔میں نے اللہ کا نام لیا اور جھاڑیوں کے حرکت کے اندازے سے فائر جھونک دیا۔ درندے کی لرزہ خیز چیخ سے جنگل گونج اٹھا، پھر فوراً سناٹا چھا گیا۔ہم سب اپنی اپنی جگہ بے حس و حرکت اور سہمے بیٹھے تھے،تاہم اتنا احساس ضرور تھا کہ فائر خالی نہیں گیا۔یہ محض احساس تھا یقین نہیں تھا۔ آخر میں نے سکوت توڑتے ہوئے کہا:

’’گولی گلدار کے لگی ہے۔‘‘

میرے ساتھیوں نے کہا:

’’خان صاحب!یقین سے نہیں کہا جا سکتا ۔‘‘

میں نے یہ بات ماننے ہوئے کہا:’’ٹریکٹر جھاڑیوں کی طرف موڑو۔‘‘

ایسا ہی کیا گیا۔ٹریکٹر کی ہیڈ لائٹ ٹھیک اس جگہ پڑ رہی تھی جہاں کا نشانہ میں نے لیا تھا، وہ جگہ اب بالکل خالی تھی۔اس کا مطلب یہ تھا کہ نشانہ خالی گیا یا گلدار زخمی ہو کر آگے بڑھ چکا تھا۔ سنسار، اطہر ،خالد اور نین سنگھ ٹریکٹر سے اتر کر اس کی روشنی میں اس مقام پر خون تلاش کررہے تھے۔فوراً مجھے اس حماقت کا احاس ہوا اور میں نے انہیں ڈانٹ کر واپس ٹرالی میں آنے کی ہدایت کی۔خدا کا شکر ہے مجھے جلد ہی اس غلطی کا احساس ہوا، ورنہ عین ممکن تھا کہ ان میں سے کوئی ایک لقمہ اجل بن جاتا۔آپ کو بھی اس کا احساس آگ چل کر ہو گا۔

دیر تک بحث مباحثے کے بعد طے ہوا کہ رات محمود پور کے ڈاک بنگلے میں کاٹی جائے۔ہری چند ہمارے ساتھ تھا اور محمود پور کے فارسٹ آفیسر کا کسی زمانے میں ساتھی رہ چکا تھا۔اس نے بڑی خوشی سے ہمیں ڈاک بنگلے میں ٹھہرنے کی اجازت دے دی۔وہ رات ہم سب نے کچھ سوکر، کچھ جاگ کر گزاری اور منہ اندھیرے ہی میں نے اپنے لڑکوں کے ساتھ نماز فجر ادا کی۔پھر سنسار سنگھ، خالد خزاں اور ہری چند کو ٹریکٹر پر بھیج دیا، کیونکہ یہ شکار کا بہترین وقت ہوتا ہے۔اس وقت پرندے اور بعض دوسرے جانور رات بھر کھیتوں میں پھرنے کے بعد اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف لوٹتے ہیں اور انہیں آسانی سے شکار کیا جا سکتا ہے۔یہ لوگ ادھر گئے،ادھر میں نے اطہر،نین سنگھ اور عباسی کو ساتھ لیا اور خون کے نشان دیکھنے کی غرض سے چل پڑا۔میرا خیال تھا کہ صرف خون دیکھنے اور یہ یقین ہو جانے کے بعد کہ گلدار زخمی ہے،واپس چلے آئیں گے۔

میرا اپنا اور دوسرے شکاریوں کا تجربہ یہ ہے کہ شیر زخمی ہونے کے بعد کم از کم ڈیڑھ دو میل چل کر رکتاہے،اس لیے ہم کوئی خاص احتیاط نہیں برت رہے تھے۔صرف اطہر کے ہاتھ میں بندوق تھی اور عباسی کے ہاتھ میں لاٹھی۔ نین سنگھ خالی تھا اور میں اس کے ساتھ ساتھ واک کرتا پیدل چل رہا تھا۔

رات جس جگہ میں نے جھاڑیوں میں فائر کیا تھا، وہاں سے پانچ گز تک خون کا کوئی نشان نہ تھا۔ اس لیے تینوں نے کہا کہ نشانہ خالی گیا،مگر میری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ نشانہ کارگر ہوا ہے۔ہم کچھ اور آگے بڑھے۔یکایک میرے حلق سے مسرت آمیز چیخ نکلی۔ اس چیخ کا باعث تھا ایک پتا، جس پر خون کی ایک بوند جم چکی تھی۔میرا خیال درست نکلا۔گلدار زخمی ہو چکا تھا۔کچھ اور آگے بڑھنے پر ہمیں خون کی جمی ہوئی بوندوں کا ایک سلسلہ دکھائی دیا۔جس کا رخ بیلیا کی طرف تھا اور بیلیا اس مقام سے کوئی دو میل دور ہو گی۔

میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا:’’میرا اندازہ ہے کہ گلدار بیلیا میں جاکر رکے گا۔‘‘

انہوں نے بھی میرے خیال کی تائید کی۔اب ہم خون کی یہ بوندیں دیکھتے بھالتے کوئی سوگز آگے نکل آئے تھے۔ عباسی اور نین سنگھ مجھ سے اور اطہر سے آگے آگے چل رہے تھے۔نین سنگھ نے مجھے آواز دے کر کہا:

’’خان صاحب، یہاں آکر دیکھیے، کتنا خون پڑا ہے:‘‘

ابھی وہ اپنا جملہ مکمل بھی نہیں کر پایا تھا کہ شیر کی ہولناک گرج سے جنگل لرز گیا۔ اس گرج کے ساتھ عباسی اور نین سنگھ کی چیخیں بھی شامل ہو چکی تھیں۔وہ مڑ کر بے تحاشا بھاگے، لیکن مصیبت کے مارے ایک دوسرے سے ٹکرا کر ڈھیر ہو گئے۔ میرے ہاتھ سے مسواک چھوٹ گئی اور میں نے لپک کر اطہر کے ہاتھ سے بندوق چھین لی۔

جس جگہ عباسی اور نین سنگھ الجھ کر گڑ پڑے تھے اور اٹھنے کی ناکام کوشش کررہے تھے،اس سے صرف سات یا آٹھ گز کے فاصلے پر جھاڑی کے اندر میں زخمی گلدار دیکھ چکا تھا۔اس نے اپنا سر باہر نکال کر آواز بلند کی تھی اور پھر جھاڑیوں میں گھس گیا تھا۔ اس وقت اگر قدرت رحم نہ کرتی تو عباسی اور نین سنگھ اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے تھے۔یہ صرف قدرت کا کرم تھا جس نے گلدار کو حملہ کرنے سے روکا اور اس نے صرف گرج کر ہمیں دھمکانے پر اکتفا کیا۔ میں نے بندوق شانے سے لگا کر اس جھاڑی کا نشانہ لیا اور تینوں سے کہا کہ جلدی یہاں،سے نکلو۔خدا خدا کرکے عباسی اور نین سنگھ وہاں سے اٹھے اور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے۔اطہر بھی ان کے پیچھے پیچھے تھا۔ میں بندوق کی نالی کا رخ جھاڑی کی طرف کیے، الٹے پیروں چلا اورخدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے ایک بہت بڑا حادثہ ہونے سے بچالی۔ایک قیمتی تجربہ یہ بھی حاصل ہوا کہ بشیر اگر زیادہ زخمی ہو، تو صرف ڈیڑھ سو گز چل کر بھی بیٹھ سکتا ہے۔


اب سوال یہ تھا کہ اس خطرناک زخمی گلدار کو کس طرح موت کے حوالے کیا جائے؟اس موضوع پر بحث ہونے لگی۔تھوڑی دیر بعد جو لوگ ٹریکٹر پر گئے تھے، واپس آگئے۔ انہوں نے جنگلی سور اور ایک پاڑہ مار لیا تھا۔ جنگلی سور محمود پور کے ایک چمار کو دے دیا گیا جو مدت سے شکار کی مہموں میں ہمارا ساتھی تھا۔

یکایک ایک تدبیر میرے ذہن میں آئی۔میں نے ساتھیوں سے کہا:

’’میں ٹریکٹر پر بیٹھتا ہوں۔ٹرالی یہیں چھوڑ دی جائے اور صرف ڈرائیور میرے ساتھ ہو۔ٹریکٹر کو جھاڑیوں میں گھسا دیا جائے گا۔گلدار ضرور ٹریکٹر پر حملہ کرے گا اوروہی سب سے بہتر موقع ہو گا۔ اسے ٹھکانے لگا دینے کا۔۔۔‘‘

اس سکیم کو سب نے پسند کیا۔ میں جان پر کھیل کر گیا، لیکن نامعلوم سبب سے گلدار حملہ آور نہ ہوا۔ اگرچہ ہم نے ساری جھاڑیاں ٹریکٹر سے روند ڈالیں۔اب صرف دو ہی طریقے تھے، اس زخمی گلدار کی تلاش کے۔۔۔پہلا تو یہ کہ میں اپنے دوست پر بھودیال کو پر چا لکھوں ۔ایک آدمی پر چالے کر دھن پور جائے اور وہاں سے ان کا ہاتھی لے کر آئے۔ہاتھی یہ اشارہ کر سکتا ہے کہ گل دار کہاں ہے،لیکن جب حساب لگایا گیا، تو پتہ چلا کہ ہاتھی یہ اشارہ کر سکتا ہے کہ گل دار کہاں ہے،لیکن جب حساب لگایا گیا، تو پتہ چلا کہ ہاتھی کم از کم کل صبح سے پہلے نہیں آسکتا۔ اس وقت تک نہ معلوم گلدار یہاں سے کتنی دور چلا جائے۔ دوسرا ذریعہ گلدار کو تلاش کرنے کا کتے تھے۔۔۔کتے یہ بتا سکتے تھے کہ گلدار کہاں چھپا ہوا ہے۔۔۔جس چمار کو ہم نے جنگلی سور دیا تھا، وہ کتے لانے کے لیے تیار ہو گیا۔

تقریباً آدھ گھنٹے بعد پندرہ کتوں کے ذریعے گلدار کی تلاش شروع ہو چکی تھی۔ اطہر کو ٹریکٹر پر چھوڑ دیا گیا کہ وہاں وہاں کھڑا ہو کر تماشا دیکھے۔ باقی افراد ساتھ تھے۔ کچھ دیر بعد ایک جھاڑی سونگھ کر کتا بھونکا۔دوسرے کتے بھی اس جھاڑی کی طرف لپکے اور زور زور سے بھونکنے اور اچھلنے لگی۔ تبھی گلدار نے جھاڑی میں سے غرا کر انہیں دھمکایا۔گلدار کی غراہٹ سن کر کتے دم دبا کر بھاگ نکلے۔ صرف تین کتے رہ گئے جو مسلسل جھاڑی کے پاس جاجا کر بھونکتے اور واپس چلے آتے۔گلدار نے تنگ آکر اس جھاڑی سے ہٹکر اگلی جھاڑی میں پناہ لی۔میرے لڑکے خالد نے اس کی پشت پر فائر کرنے کی کوشش کی لیکن میں نے اسے اس حماقت سے روکا۔یہ حرکت خطرناک تھی۔میں نے خالد کو ڈانٹا کہ درندے کے صرف اگلے حصے پر فائر کیا جائے۔تھوڑی دیر بعد گلدار اس جھاڑی کو بھی چھوڑ کر اگلی جھاڑی میں پہنچ چکا تھا۔

اس جھاڑی کا رقبہ اندازے کے مطابق25مربع گز ہو گا اور اس سے اگلا قریبی جھاڑ بھی بیس گز کے فاصلے پر بائیں جانب تھا۔ یہ جھاڑ جنگل کے بالکل آخری سر ے پر واقع تھا۔ اس کے دائیں جانب15گز پر کچی سڑک گزرتی تھی جو جنگل سے باہر تھی اور وہیں ہمارا ٹریکٹر کھڑا تھا۔ سڑک کے کنارے کنارے جنگل کی سرحد پر کانٹے والے تار لگے تھے جن کی اونچائی پانچ فٹ کے لگ بھگ ہو گی۔اس جھاڑ سے قریب دوسرا جھاڑ بیس گز بائیں طرف تھا اور پھر جھاڑیوں کا ایک طویل سلسلہ تھا۔بیس گز کا میدان جو دو جھاڑیوں کے بیچ تھا، دراصل یہی جگہ تھی جہاں گلدار مار کھا سکتا تھا۔

میں نے سب کو جمع کیا اور صورت حال سمجھائی۔خالد، نین ،سنگھ عباسی اور خزاں سنگھ کو دائیں طرف کھڑا کیا، کیونکہ گلدار کے اس طرف جانے کا کوئی امکان نہیں تھا۔بائیں طرف جدھر دوسرا جھاڑ تھا، میں سنسار کو لے کر کھڑا ہو گیا۔ ایک بندوق عباسی کے پاس اور ایک نین سنگھ کے ہاتھوں میں تھی۔ یہ دونوں دائیں طرف سڑک کے قریب ایک دوسرے کے آمنے سامنے دو گز کے فاصلے پر کھڑے تھے۔دوسری طرف ایک بندوق میرے ہاتھ میں تھی اور ایک سنسار کے ہاتھ میں۔میں نے سنسار کو اپنے قریب ہی کھڑا کر لیا تھا، تاکہ وقت آنے پر اپنی بندوق سے دونوں فائر کرکے خالی بندوق اسے دے کر اس سے بھری ہوئی بندوق لے لوں۔میں نے خزاں،ہری چند،عباسی اور چمار کو اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ وہ دائیں طرف سے خوب شور مچائیں۔جھاڑ میں دور سے پتھر ماریں،کتوں کو ہشکاریں تاکہ گلدار بائیں جانب نکلے، لیکن خبردار۔۔۔جھاڑ کے نزدیک نہ جائیں۔

آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 11)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں