آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر11)

 

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر11)

عباسی، ہیر چند اور چمار کے ہزار چیخنے چلانے اور پتھر مارنے کے باوجود گلدار جھاڑ سے نہ نکلا۔ چمارنے عباسی کے ہاتھ سے لاٹھی لے لی اور جھاڑ کی طرف چلا۔۔۔سب نے اسے منع کیا اور کہا کہ خان صاحب نے جھاڑ کے قریب جانے سے روکا ہے،لیکن اس بے وقوف نے ایک نہ سنی اور جھاڑ کے قریب پہنچ کر پوری قوت سے لاٹھی جھاڑ میں ماری۔اتفاق سے گلدار اسی جگہ پناہ لیے ہوئے تھا جس جگہ چمار کی لاٹھی برسی۔لاٹھی اور جھاڑ کی کانٹے دار شاخیں گلدار کے لگیں۔لاٹھی کا لگنا تھا کہ گلدار بم کے گولے کی طرح پھٹا اور ہولناک گرج کے ساتھ دائیں جانب جست کی اور چمار کے پاس آگرا۔ چمار ب تحاشا خالد اور نین سنگھ کے بیچ میں سے ہوتا ہوا سڑک کی جانب بھاگا۔گلدار غراتا ہوا اس کے تعاقب میں تھا۔ نین سنگھ اور خالد نے گلدار کو کبھی اتنے قریب سے اور کسی آدمی پر حملہ کرنے نہیں دیکھا تھا۔اس لیے ان کی ہمت نہ ہوئی کہ گلدار پر فائر کر سکیں جو ان دونوں سے صرف دس بارہ گز کے فاصلے پر چمار کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ یہ دل دہلا دینے والامنظر دیکھ کر سبھی کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ نین سنگھ نے اپنی پوری قوت سے چلا کر کہا:’’جسے اپنی جان بچانی ہو بھاگ لے‘‘ یہ کہہ کر وہ پوری رفتار سے سڑک کے کنارے کنارے گاؤں سے مخالف سمت کو بھاگا۔ خالد نے بھی ڈر کر راہ فرار اختیار کی اور پانچ فٹ اونچے تار کو پھلانگ گیا۔ اتنا اونچا وہ کبھی عام طور پر کودہی نہیں سکتا تھا۔اس کی پتلون کے ایک پائنچے کا کچھ حصہ تار ہی میں الجھا رہ گیا۔ تاروں کے دوسری طرف اپنے آپ کو محفوظ سمجھ کر اب وہ کھڑا تماشا دیکھ رہا ہے۔

ہری چند کا حال سب سے پتلا تھا۔ اپنی تمام بزعم خود بہادری اور دلیری کے باوجود زمین کو غیر معمولی رفتار سے روندتا ہوا بھاگ رہا تھا، اس نے اپنی پتلون دونوں ہاتھوں سے تھام رکھی تھی جو تو ند سے ڈھیلی ہو کر ناف سے بھی کہیں نیچے اتر چکی تھی۔ اس کے منہ سے گھٹی گھٹی چیخیں بھی نکل رہی تھیں۔۔۔عباسی، جسے گلدار سے مقابلہ کرنے کی تمنا تھی۔ چھوٹی موٹی جھاڑیاں پھلانگتا ہوا ایک طرف کو بے تحاشا بھاگ رہا تھا۔۔۔ اور خزاں سنگھ کا کوئی پتہ نہ تھا۔

 چند نازک لمحوں میں گلدار کی گرج سن کر اور اسے دائیں جانب جست کرتے پا کر میں بھی ادھر پہنچ چکا تھا۔گلدار چمار کے پیچھے تھا، لیکن زیادہ زخمی ہونے کے باعث وہ چمار کو پکڑ لینے میں کامیاب نہ ہو سکا جو اپنی جان بچانے کے لیے اندھا دھند دوڑ رہا تھا اور بڑی حد تک جان بچانے کی کوشش میں کامیاب ہو چکا تھا۔ گلدار نے دیکھا کہ شکار اس کی دسترس سے نکلا جارہا ہے تو وہ زمین سے منہ لگا کر پوری قوت سے دھاڑا۔ اس کا یہ انداز کارگر ثابت ہوا۔چمار کے قدم زمین نے جیسے پکڑ لیے، اس پر سکتے کا عالم طاری ہو گیا۔ اب وہ بھاگنے کی بجائے گلدار کی طرف پیٹھ کیے کھڑا تھر تھر کانپ رہا تھا۔ میرے دیکھتے دیکھتے گلدار نے قریب پہنچ کر اگلا پنجہ چمار کے پاؤں پر مارا۔ چمار دھڑام سے زمین پر چت گرا۔گلدار نے بجلی کی طرح لپک کر اپنے دانت چمار کے پیٹ میں گاڑ دیئے۔اب میں اس شش و پنج میں تھا کہ کیا کروں؟جب گلدار چمار کے پیچھے بھاگ رہا تھا تو میں فائر نہ کرنے پر مجبور تھا، اس لیے کہ گولی گلدار کی بجائے چمار کا بھیجا بھی چیر سکتی تھی۔ گلدار نے چمار کو اٹھا کر جھاڑیوں میں لے جانا چاہاکہ میں چیختا ہوا ادھر دوڑا اور گلدار سے کوئی دس گز قریب پہنچ کر رکا۔ گلدار ا تنی دیر میں چمار کو اپنے جبڑے میں دبا کر زمین سے اٹھا چکا تھا۔ میں نے اسے گلا پھاڑ کر ڈانٹا۔میری پہلی ڈانٹ کو تو وہ نظر انداز کر گیا لیکن دوسری ڈانٹ پر اس نے اپنی شعلہ بار نگاہیں میری جانب اٹھائیں اور چمار کو ایک جھٹکے سے زمین پر پھینک کر مجھ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔

اب صورت حال نہایت سنجیدہ اور نازک ہو رہی تھی۔ گلدار غراتا ہوا حملے کی نیت سے میری طرف بڑھ رہا تھا، لیکن میں فائر نہیں کر سکتا تھا، کیونکہ عقب میں چمار زمین پر لہولہان پڑا تھا۔ میں فائر کرتا، تو شاید گولی گلدارکی بجائے سیدھی چمار کو لگتی۔ موت ہر لمحہ مجھ سے قریب تر ہو رہی تھی اورادھر واقعی میرے اوسان خطا ہو چکے تھے۔ دفعتہً میرے دماغ نے کام کیا اور میں دائیں جانب بھاگا۔ چند قدم بھاگنے کے بعد چمار میرے نشانے کی زد سے ہٹ گیا تھا۔ میں رکا، اپنے ہوش و حواس درست کیے، بندوق کندھے سے لگا کر شست لی۔ گلدار کی کھوپڑی بندوق کی مکھی کی سیدھ میں تھی۔ میں نے ایک دو سکینڈ کے لئے سانس روکا تاکہ بندوق نہ ہلے، پھرٹریگر دبا دیا۔ ایک دھماکے کے ساتھ بندوق سے نکلا ہوا گرم گرم سیسہ گلدار کی کھوپڑی میں اتر کر اسے زمین پر گرا چکا تھا۔ میں نے ایک لمحہ توقف کے بعد دوسرا فائر کیا۔ گلدار کی دم ابھی تک جنبش میں تھی، گویا اس بات کا اعلان تھا کہ اس میں ابھی دم خم باقی ہے۔میں نے سنسار کے ہاتھ میں خالی بندوق دے کر بھری ہوئی بندوق اس سے لے لی، اور گلدار کے سر پر رکھ کر تیسرا فائر کر دیا۔ اب دم کا ہلنا بھی موقوف تھا۔ گلدار تو ختم ہوا۔لیکن میں پسینے میں شرابور زمین پر گر کر کتے کی طرح ہانپ رہا تھا۔

یہ تمام واقعہ جسے بیان کرنے میں کئی منٹ لگے ہیں بمشکل چند ثانیے کے اندر اندر رونما ہوا۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو آواز دے کر بلایا کہ بہادر و قریب آجاؤ،گلدار ماراگیا۔۔۔یہ کہہ کر میں زخمی چمار کی جانب متوجہ ہوا جو ابھی تک زمین پر پڑا اپنے ہی خون میں لوٹ رہا تھا۔ اس کے پیٹ سے فوارے کی طرح خون ابل رہا تھا۔ وہ تو یوں کہیے کہ گلدار کا پنجہ اوچھا پڑا اور چمار کے پیٹ کی کھال پوری طرح نہیں ادھڑی ورنہ اس کے زندہ بچ جانے کا کوئی امکان باقی نہ رہتا۔بعد میں غور کرنے سے اس کی دو وجوہ معلوم ہوئیں۔اوّل یہ کہ اس کا جبڑا ایک طرف سے رات کو گولی لگنے کے باعث ٹوٹ چکا تھا۔دوسری یہ کہ میں بہت جلد گلدار کے قریب پہنچا۔اس لیے اسے موقع نہ ملا اور وہ میری طرف متوجہ ہو گیا، میں نے چمار کو دلاسا دیا۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی، لیکن اپنے آپ کو خون میں لت پت دیکھ کر حواس کھو بیٹھا اور پھر گر پڑا۔ جلد ہی سب بھگوڑے واپس آگئے۔لیکن عباسی اور خزاں سنگھ کا کوئی پتہ نہ تھا۔ میں نے فوراً زخمی چمار اور مرے ہوئے گلدار کو اٹھایا اور ٹریکٹر کی طرف چلنے لگا۔ یکایک جنگل کے اندر سے چیخوں کی آواز سنائی دی:

بچاؤ،شیر سے بچاؤ۔۔۔‘‘

میں آواز پہچان گیا کہ یہ خزاں سنگھ چلا رہا ہے۔آواز سنتے ہی سب پھر ادھر ادھر بھاگ نکلے۔ جن لوگوں نے زخمی چمار اور گلدار کو اٹھا رکھا تھا، وہ بھی انہیں زمین پر پٹخ کر خرگوشوں کی مانند چمپت ہو گئے۔ مجھے خیال آیا کہ خزاں سنگھ جب بے تحاشا جنگل کے اندر بھاگا تھا تو اس گلدار کی مادہ کہیں قریب ہی موجود ہو گی اور اسی نے خزاں کو پکڑ لیا ہے۔چیخوں کا سلسلہ جاری تھا۔ میں آواز کے رخ بھاگا کچھ فاصلے پر مجھے خزاں سنگھ دکھائی دیا،لیکن جس حالت میں تھا، وہ دیکھ کر میں ہنسی ضبط کرنے کے قابل نہ رہا۔ اس کا کرتا جھاڑی میں پھنسا ہوا تھا اور وہ بری طرح چلا رہا تھا:’’بچاؤ۔۔۔بچاؤ۔۔۔مجھے شیر نے پکڑ لیا ہے۔۔۔‘‘میں نے اس کا کرتا جھاڑی سے نکالا اور قریب قریب گھسیٹتا ہوا ٹریکٹر کی طرف لے گیا۔۔۔میری ہنسی کی آواز سن کر لوگ پھر جمع ہو چکے تھے۔جنہوں نے زخمی چمار کو زمین پر پٹخ دیا تھا۔ میں نے انہیں بہت ڈانٹا اور بیحد لعنت ملامت کی۔ چار آدمیوں نے پھر چمار کو اٹھایا اور ٹریکٹر کی طرف لے چلے۔

اس ہنگامے کی خبر گاؤں میں پھیل چکی تھی اور لوگ ٹریکٹر کی طرف آرہے تھے۔چمار اورگلدار کو ٹریکٹر میں ڈال دیا گیا۔ اطہر کا کوئی پتہ نہ تھااور مجھے چمار کو ہسپتال پہنچانے کی جلدی تھی۔ پندرہ منٹ بعد ایک افسر ایک طرف سے بھاگتا ہوا آیا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ ٹریکٹر پر کھڑا ہوا سارا تماشا دیکھ رہا تھا۔ جب اس نے گلدار کو سڑک کی طرف آتے دیکھا تو گاؤں کی جانب بھاگ نکلا۔ اب عباسی کا کوئی پتہ نہیں چل رہا تھا۔ہم نے اس کو خدا کے حوالے کر کے فوراً ٹریکٹر سٹارٹ کیا اور پوری رفتار سے سنٹر ٹاؤن ہستنا پور کی طرف چلے۔ جب ہم محمود پور سے ایک یا ڈیڑھ میل آگے آچکے، تو ایک آدمی ہمیں رکنے کا اشارہ کرتا ہوا دکھائی دیا۔یہ عباسی تھا۔ گھنٹہ بھر بعد ہم ہسپتال پہنچے چمار بے ہوش پڑا تھا۔ ڈاکٹروں نے فوری توجہ کی اور خاصی جدوجہد کے بعد اسے موت کے منہ سے بچا لیا، لیکن اگلے روز ایک دوسری مصیبت آن گھیرا۔گلدار کو مارے جانے کی خبر فارسٹ کے اعلیٰ افسروں تک پہنچ گئی اور رینجرز نے ہمارے خلاف رپورٹ لکھا دی، کیونکہ ہم نے پرمٹ کے بغیر ریزروفارسٹ سے گلدار مارا تھا۔ مقدمہ چلا اور ہم لوگوں کو جرمانے کی سزا ہوئی، لکین جج نے دیکھتے ہوئے کہ میں نے کس طرح اپنی جان خطرے میں ڈال کر دوسرے کی جانب بچائی تھی، جرمانہ صرف500روپے کیا، تاہم یہ جرمانہ گلدار کو دیکھتے ہوئے کچھ زیادہ نہ تھا۔ اسے ماپا تو سات فٹ گیارہ انچ نکلا۔۔۔اور یہ مرے اب تک کے شکار کیے ہوئے29گلداروں میں سب سے بڑا ثابت ہوا۔اسی خوشی نے جرمانے کا صدمہ بھلا دیا۔ اب اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی اس گلدار کا قصہ یاد آتا ہے،تو بدن میں جھر جھری سی دوڑنے لگتی ہے۔

1887ء میں ہندوستان کے انگریزی اخباروں،بالخصوص ٹائمز آف انڈیا میں یہ دلچسپ بحث ہفتوں اور مہینوں تک چھڑی رہی کہ لیوپرڈ اور پینتھر میں کیا فرق ہے؟مضامین پڑھنے کے بعد جب کبھی کسی شکاری سے میری ملاقات ہوئی، میں نے اس کے بارے میں ضرور دریافت کیا کہ لیوپرڈ اور پینتھر میں کیا فرق ہے مگر کوئی بھی ان درندوں کا آپس میں فرق مجھے نہ سمجھا سکا۔1966ء میں پھر شکاری مضمون نگاروں میں اس بحث کا سلسلہ شروع ہوا میں اس زمانے میں ریاست حیدر آباد دکن کے جنرل نواب سر افسر الملک کی خدمت میں اردلی افسر تھا۔جنرل صاحب مرحوم کی انگریزی اور ذاتی خط و کتابت کا کام، نیز اخباروں کے مضامین کا انتخاب اور انہیں پڑھ کر سنانا بھی میرے فرائض میں داخل تھا۔ جنرل صاحب نے پرانے اخبارات کے تراشوں کا ایک ڈھیر مجھے عنایت فرما کر پڑھنے کاحکم دیا۔ان کے پڑھنے میں دس بارہ دن لگے اور آخیر نتیجہ جس پر دماغ سوزی کے بعد میں پہنچ سکا، یہ تھا کہ پینتھر اور لیوپرڈ میں سوائے مقامی آب و ہوا اور گردوپیش کے کوئی بین فرق نہیں ہے۔ایک ہی درندے کے دو نام ہیں۔

نینی تال اورگردوپیش کے پہاڑی باشندے اسے بگھیرا کہتے ہیں۔چیتا سون چیتا، باگھ، اونارا اور تیندوا اس کے ہندی نام ہیں۔فارسی میں پلنگ، بلوچی میں ڈیہو، کشمیر میں سوہ اور تیندوا، بندھیل کھنڈ میں گوربچہ یا بورچہ کہتے ہیں۔دکن میں اسے بوربچہ کہا جاتا ہے۔یہ درندہ گھریلو بلی سے تین گنا بڑا اور شیر سے کسی قدر چھوٹا ہوتا ہے۔ویسے اس کے قدوقامت کا کوئی معیار مقرر نہیں۔شکاریوں نے مختلف ماپ اپنی تصانیف میں درج کیے ہیں۔1896ء کی ابتداء سے1931ء تک مجھے متواتر بور بچوں سے واسطہ رہا ہے۔آصف نگر کے شمال میں ٹتی پہاڑ سے شروع کرکے ورنگل، کریم نگر،عادل آباد، عثمان آباد، بیڑ تعلقہ ہنگولی، ٹانڈوران سب مقامات پر میں نے بوربچے کثرت سے دیکھے اور کہیں کہیں شکار بھی کیے ہیں مگر میں چھتیس سال سے اس طویل تجربے کے بعد بھی بور بچے کی قدوقامت کا کوئی معیار مقرر نہ کر سکا۔ میں نے آصف نگر کے پہاڑوں میں حضرت بادپا رحمتہ اللہ علیہ کی درگاہ سے منسوب سب سے بڑا بوربچہ مارا ہے۔یہ سات فٹ پانچ انچ لمبا تھا۔ بعض چھوٹی شیرنیاں بھی اس کے برابر ہوتی ہیں۔دیکھنے میں یہ بوربچہ بھی شیر سے کم زبردست نہ معلوم ہوتا تھا۔اکثر شکاریوں کی کتابوں میں اس سے بھی بڑے بور بچوں کا ذکر ہے مگر شاید ہی کوئی چار یا پانچ انچ اس سے بڑا ہو۔ حضرت بادپاؒ کی درگاہ سے منسوب بوربچے کا قدوقامت اتنا بڑا اس لیے تھا اعتقاد کی بنا پر کوئی اسے ہلاک کرنے کی جسارت نہ کرتا۔ تقریباً پندرہ برس سے یہ ان پہاڑوں میں رہتا آیا تھا۔ ہر دوسرے تیسرے دن ہمارے فوجی رسالے کی ایک آدھ بکری لے اڑتا۔اسے کسی کا خوف تھا نہ کھانے کے لیے بکریوں کی کمی، چنانچہ خوب فربہ ہونا اور اعضا کا اچھی طرح نشوونما پانا ان حالات کا لازمی نتیجہ تھا۔

جب میں نے اس موذی کا تعاقب شروع کیا تو رسالے کے متعدد رسالے دار اور جمعدار قسم کے لوگ بہت اصرار کے ساتھ مجھے رکھنے کی کوشش کرنے لگے۔انہیں یقین تھا کہ یہ حضرت بادپاؒ کا پالا ہوا یا ان کے ظل عاطفت میں پلا ہوا درندہ ہے۔ان کے مزار پر دم سے جھاڑو دیتا تھا۔ اوّل تو کوئی اسے مار نہیں سکتا اور اگر کسی نے مارا تو وہ نقصان اٹھائے گا۔ انہی بے ہودہ مفروضوں کی وجہ سے بوربچہ سالہا سال تک محفوظ رہا۔ اس کے شکار کا واقعہ لطف سے خالی نہیں۔

میری گائے کی ایک بچھپا تین سال کی،خود اچھی خاصی گائے تھی۔اسے اس موذی نے پہاڑی پتھروں میں گھیر کر مار ڈالا ۔گھیر نے میں بوربچے کی مادہ بھی شریک تھی۔چرانے والا پندرہ برس کا لڑکا تھا۔اس کے ساتھ اس کے ہم سن، رسالے کے دو لڑکے اور بھی تھے۔مادہ بوربچہ بچھیا کو گھیر رہی تھی۔یہ ان لڑکوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ڈر کر پہاڑی کے اوپر بھاگ گئے۔وہاں سے انہیں بچھپا کا پتھروں میں بھاگ کر آنے اور بوربچے کا اسے گرانے کا منظر صاف نظر آیا۔ جب بوربچے کے جوڑے نے بچھیا کو ہلاک کرکے کھانا شروع کیا تو یہ لڑکے اوپر ہی اوپر پہاڑ کے راستے دوڑتے ہوئے میرے پاس آئے اور ا طلاع دی۔میں اسی وقت رائفل لے کر روانہ ہوا۔ایک بڑے پتھر پر چڑھنے کی کوشش میں،جوان بور بچوں سے چالیس گز کے فاصلے پر تھا، میرے بوٹوں کی وجہ سے آواز پیدا ہوئی۔غالباً یہ دونوں میری طرف ہی دیکھ رہے تھے کیونکہ فوراً پتھروں کے شگاف میں اندر کی طرف بڑھ کر نظر سے غائب ہو گئے۔

دن کے گیارہ بجے تھے۔ میں ایک اور چٹان پر ہرے پتوں کی ٹٹی لگانے کی ہدایت دے کر چلا آیا۔ ایک جوان کو ننگے پیروہاں بٹھا دیا کہ بور بچوں کے نکلتے ہی مجھے اطلاع کرے۔ میرا بنگلہ اس مقام سے دو سوگز دور تھا۔ شام پانچ بجے اس جوان نے مجھے اطلاع دی کہ دونوں نر اور مادہ بور بچے اپنی گوی کے منہ پر بٹیھے مری ہوئی بچھیا کو گھورہے ہیں۔بچھیا ان پتھروں کے شگاف یا گوی سے کوئی تیس گز کے فاصلے پر پڑی تھی۔اس کا سینہ چاک کرکے دل، پھیپڑھے ،گردے اور ایک رات ہڑپ کر چکے تھے۔
اطلاع ہوتے ہی میں پہنچا۔اب کی مرتبہ ننگے پاؤں پتھر پر چڑھ کر ٹٹی کی آڑ سے دیکھا۔مادہ باہر اور نر شگاف کے منہ کے قریب اس طرح بیٹھا تھا کہ صرف اس کا ایک ہاتھ نظر آتا تھا۔پہلے تو خیال آیا مادہ کا قصہ پاک کردوں مگر میں اس موصوفہ کے شوہر نامدار پر بہت جلا ہوا تھا۔اس موذی کے تعاقب میں ایک مرتبہ مجھے بخار نے آن دبوچا تھا اور رسالے کے جمعداروں نے خوش ہو کر مجھے طعنے دیے تھے کہ ہم نہ کہتے تھے کہ یہ حضرت بادپاؒ کی درگاہ کا پلا ہوا جانور ہے۔اسے مارنے کا ارادہ چھوڑیے،ورنہ کوئی اور بلا نازل ہو گی۔ پہلے بھی ایک صاحب بہادر اجٹین نے اسے ہلاک کرنے کی کوشش کی تھی اور انہیں بھی بخار آگیا۔ بس یہی بخارات اس بوربچے کے خلاف میرے دل میں بھرے ہوئے تھے اور یہی خیالات مادہ پر فائر نہ کرنے کا باعث بنے۔لیکن میں نے بھی پکا ارادہ کرلیا تھا کہ اس خونی درندے کو اسطرح ماروں گا کہ مجھ پر کوئی آفت بھی نہ آئے اور میں لوگوں کو اسکی دہشت سے بھی بچالوں۔

آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 12)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں