آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر12)

 

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر12)


میں شام تک نرکے نکلنے کا انتظار کرتا رہا مگر وہ کسی طرح ایک انچ بھر آگے بڑھانہ سامنے آیا۔ جب اندھیرا بڑھ گیا تو یہ سوچ کر کہ کم از کم اس بدمعاش کا پاﺅںہی توڑ دوں،نہایت باریکی اور احتیاط سے نشانہ لے کر فائر کر دیا۔ فائر ہوتے ہی بوربچے نے زور سے آواز دی اور اندر کی طرف بھاگ گیا۔مادہ کود کر اس پتھر کی اوٹ میں ہو گئی۔ مجھے نظر نہ آئی، ورنہ دوسری نال کی گولی اس کی نذر ہوتی۔

فائر کی آواز سن کر رسالے کے بہت سے جوان اور رنگروٹ،جو ادھر ادھر چھپے ہوئے تماشا دیکھ رہے تھے، میرے پاس آگئے اور پوچھا کہ ہم گوی کے نزدیک جائیں؟میں نے منع کر دیا اور کہا قندیلیں اور مشعلیں لے کر آﺅ۔ان دنوں کلب میں کٹسن لائٹ کی دو قندیلیں تھیں۔میں نے کہا وہ بھی اٹھا لاﺅ۔بعض فوجی اپنے برچھے اور باڑھ دار تلواریں لے آئے۔ اتنے میں اچھا خاصا اندھیرا چھا چکا تھا مگر ہم سب وہیں کھڑے رہے۔گوی ہم سے تیس گز دور ہو گی۔

بیس منٹ کے اندر اندر یہ سب سامان اور اس کے ساتھ تقریباً سو ڈیڑھ سو جوان سائیس لڑکے جمع ہو گئے۔باڑھ کی تلواریں صرف چار تھیں۔ویسے بھی میدان جنگ کو روانہ ہونے سے پہلے رسالے کی تلواروں پر دھار نہیں دی جاتی۔دو چار بندوقچی بھی اپنی ذاتی بندوقیں لے کر آگئے۔غرض حضرت بادپاؒ کے ”پالتو“ بوربچے کے خلاف اچھی خاصی لشکر کشی ہو گئی لیکن بڈھے جمعداروں اور رسائی داروں میں سے کوئی نہ آیا۔

اب میں نے گوی کے سامنے نصف دائرے کی شکل میں برچھے والوں کا حلقہ ایک دوسرے سے بالکل متصل کھڑا کرکے بنایا۔ بیچ میں میں اور بندوق سے مسلح نوجوان کھڑے ہوئے۔کٹسن لائٹ کی قندیلیں پتھروں پر اس طرح رکھ دی گئیں کہ گوی کا دہانہ دن کی طرح روشن ہو گیا۔پھر چار آدمیوں کو تلواریں اور مشعلیں دے کر گوی کی طرف بڑھایا کہ وہاں گھاس کے ٹوکرے رکھ کر ان میں آگ لگا دیں۔گھاس پر تیل چھڑ کوا دیا تھا اور ٹوکرے اس طرح رکھوائے تھے کہ منہ کھلا رہے مگر سب دھواں گوی کے اندر جائے۔یہ سامان مکمل ہونے میں رات کے نو بج گئے۔ اب حملہ شروع ہوا۔ آگ لگانے والوں نے بڑی ہمت کے ساتھ قدم بڑھایا۔ تیل سے تر گھاس سے آگ دکھا کر پیچھے ہٹ آئے اور برچھوں کی صف کے عقب میں کھڑے ہوگئے۔

آگ روشن ہونے کے ایک منٹ بعد بوربچے نے ٹوکروں کے بیچ سے سرنکال کر دیکھا کہ باہر یہ کیا ہنگامہ ہے۔نیم دائرے کے بیچ میں کھڑے ہونے والوں نے اسے دیکھ کر غل مچایا کہ حضور بوربچہ آیا۔اس غل غپاڑے سے گھبرا کر بوربچے نے گردن اندر کرلی۔ میں نے ان غل مچانے والوں کو بہت ڈانٹا ڈپٹا اور انہیں سختی سے حکم دیا کہ تم صرف ہمت کرکے ملے ہوئے کھڑے رہو۔ درندے کا آنا نہ آنا میں خود دیکھوں گا۔اس کارروائی کے بعد پھر بے تابانہ اور مشتاقانہ انتظار شروع ہوا۔

دھوئیں اور تیل کی بو بہت ناگوار تھی اورادھر گوی بھی زیادہ گہری نہ تھی۔دو منٹ بعد بوربچے نے پھر سر نکالا اور گردن تک باہر آگیا۔روشنی خوب تیز تھی مگر دھوئیں کی وجہ سے گوی کا دہانہ دھند لاہو گیا۔پھر بھی دونوں سائٹس نظر آتی تھیں۔میں نے گردن اور شانے کے جوڑ کا نشانہ لے کر فائر کر دیا۔ فائر کا ہونا تھا کہ برچھوں کی لائن برہم ہو گئی۔ بھاگا تو کوئی نہیں مگر وہ ترتیب قائم نہ رہی۔بوربچے نے غالباً باہر آنے کی کوشش کی، کیونکہ اس کا سر تو وہیں زمین پر ٹک گیا لیکن جسم پر باہر آگیا اور ٹوکرے کی جلتی ہوئی گھاس کے قریب گرا۔ ایک رنگروٹ محمد خان نے مشعل بائیں ہاتھ میں لیے دائیں ہاتھ سے لپک کر بوربچے کی دم پکڑ لی۔یہ حرکت محمد خان نے اس طرح یکایک کی کہ میں پریشان ہو کر چلایا:

”ابے،پرے ہٹ جااوردم چھوڑ دے۔اس میں ابھی جان باقی ہے۔“ مگر بوربچے کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ محمد خان نے ہنس کر کہا:

”حضور، اب یہ حرکت کرے گایا سر اٹھائے گا تو پیروں سے کچل دوں گا۔“

محمد خان کی یہ بات سن کر دوچار اور آدمیوں کو بھی حوصلہ ہوا۔ وہ آگے بڑھے اور دم پکڑ کر آگ کے پاس سے بوربچے کی لاش کھینچ لائے۔

درندے نے ایک مرتبہ جبڑا کھولا۔ سب ڈر کر پیچھے بھاگے مگر یہ اس کا دم واپسیں تھا۔پھر سانس نہ آیا۔

یہ تمام سین یعنی شگاف سے دوبارہ سر نکالنے سے مرنے تک بیس سکینڈ میں ختم ہو گیا۔ پہلی گولی شانے کے جوڑ سے تین انچ نیچے لگی تھی۔ اگر چھ انچ پیچھے ہوتی تو دل پر لگتی مگر اس کے جسم کا وہ حصہ نظر کے سامنے نہ تھا۔دوسری گولی دونوں شانوں اور گردن کے جوڑ پر گردن کو چھیدتی ہوئی سینے کے سامنے تک پہنچ گئی۔سینہ نرم تھا، گولی چوڑی ہو گئی، اس لیے ہڈی نہ توڑ سکی۔اس سے قبل میں ایک شیر اور ایک ریچھ شکار کر چکا تھا مگر یہ میرا پہلا بوربچہ تھا۔ اس وجہ سے اور ناتجربے کاری کے جوش میں میں نے اس قدر حماقتیں کیں کہ ان کا ظاہر کرنا ضروری ہے۔پہلی حماقت یہ کہ بوٹ پہن کر پتھر پر چڑھا، دوسری یہ کہ ایک جوان کو پہرے پر بٹھا کر خود واپس آگیا۔ جوان کے اطلاع دینے اور میرے مقام واردات پر پہنچنے میں جو وقت لگا، اس عرصے میں ممکن تھا کہ بوربچوں کا جوڑا بچھیا کو کھینچ کر گوی کے اندر لے جاتا، تیسری حماقت یہ کہ اندھیرا بڑھ جانے کے بعد جب درندے کا صر ف پنجہ دکھائی دے رہا تھا، اس پر فائر کر دیا، چوتھی یہ کہ بوربچے کے زخمی ہو جانے کے بعد رات کے وقت اسے گوی سے نکالنے کی کوشش کی۔ پانچویں انتہائی حماقت یہ کہ گوی کے منہ پر حلقہ بنایا۔ اگر بوربچہ نکل آتا تو ضرور ایک آدھ آدمی کو مار ڈالتا۔ ویسے بھی اس قدر جلد ایسے تنگ مقام پر گولی کے ٹھیک نشانے پر پڑنے کا یقین کیونکر ہو سکتا ہے؟آخری حماقت یہ کہ اپنے شوق کے جوش میں ایسے ناموزوں وقت اس قدر آدمیوں کی جانیں خطرے میں ڈال دیں۔

ہندوستان کے مختلف علاقوں اور جنگلوں اور مزاج، رنگ روپ اور قدوقامت کے اعتبار سے بوربچے الگ الگ ہوتے ہیں۔ان کے جسم دھاریاں اور گل کہیں قریب کہیں دور ہوتے ہیں۔کہیں جسم کا رنگ زردی مائل کہیں سرخی مائل ہوتا ہے۔اسی طرح کمر کی سیاہ پٹی بعض مقامات پر گہری سیاہ ہوتی ہے کہیں بھوری۔بوربچے کی دم شیر کی دم سے نسبتاً بڑی ہوتی ہے۔ایک انگریز شکاری مسٹر برینڈر نے دم کی لمبائی اٹھائیس انچ سے اڑتیس انچ تک اور دم کی ہڈیاں بائیس سے اٹھائیس تک بیان کی ہیں۔وزن ساٹھ پونڈ سے ایک سو تیس پونڈ تک ہوتا ہے۔جسم کی اندرونی ساخت کے اعتبار سے شیر اور بوربچے میں کوئی فرق نہیں مگر چھوٹے بوربچے اور شیر کی عادتوں میں بہت مشہور اور بین فرق یہ ہے کہ شیر بالعموم درخت پر نہیں چڑھ سکتا جبکہ بعض بوربچے درختوں ہی پر ڈیرہ جمائے رکھتے ہیں۔

اپنے شکار کو درخت پر چھپا کر رکھنے میں ہر جنگلی بوربچہ ماہر ہوتا ہے۔چاند در کا مشہور بوربچہ جسے میں نے دو سال کی تلاش کے بعد ہلاک کیا، درخت پر سے کود کر بھاگتا ہوا مارا گیا۔اس موذی کو نوزائیدہ انسانی بچے کھانے کا چسکا پڑگیا تھا اور دو سال کے عرصے میں اس نے ایک سوچھتیس انسانی بچوں کو اپنا ترنوالہ بنایا۔ آدھی رات کے وقت چپکے سے کسی گھر میں گھس جاتا اور آناً فاناً بچے کو جبڑے میں دبا کر بھاگ نکلتا۔ لاش لے کر سیدھا درخت پر چڑھتا اور وہیں کھانا شروع کر دیتا۔ لاش کا بقیہ حصہ کسی اور وقت کے لیے برگد کے بڑے اور گھنے درخت کی شاخوں میں چھپا دیتا۔ایک مرتبہ نوزائیدہ بچے کو حسب عادت ماں کے پہلو سے اٹھا کر لے گیا اور اس کی آدھ کھائی لاش گاؤں کے قریب جنگل میں برگد کے پیڑ کی گھنی شاخوں میں چھپا دی۔ میں صبح اس کی تلاش میں نکلا تو لاش پر اتفاقیہ نیچے سے نظر پڑ گئی۔گوشت کا رنگ دیکھ کر گمان ہوا کہ بوربچہ تھوڑی دیر پہلے اسے کھارہا تھا، کیونکہ گوشت تازہ نچا ہوا معلوم ہوتا تھا اور ہوا کے اثر سے اس میں جو سیاہی پیدا ہو جاتی ہے،وہ نہ تھی، اس لیے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ بوربچہ بھی درخت ہی پر ہو گا۔ اس خونخوار آدم دشمن درندے کے ملنے کی امید سے مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ میرا دل کانپنے لگا۔ مسٹر وکفیلڈڈائریکٹر جنرل کے متواتر حکام آرہے تھے کہ اس بلا کو جلد از جلد گاؤں والوں کے سر سے دور کیا جائے۔

میں نے وقت ضائع کیے بغیر پانچ سات آدمی درخت کے گرد پندرہ پندرہ گز کے فاصلے پرکھڑے کیے اور خود رائفل لے کر درخت کے نیچے جا پہنچا۔دو چار آدمیوں سے کہا کہ درخت پر پتھر پھینکو۔درخت برگد کا نہایت گنجان اور ٹیڑھا تھا۔ پتھر پھینکنے سے بوربچہ کو دانہ نظر آیا۔صرف ایک مرتبہ اس نے فوں فوں کی ہلکی سی آواز نکالی۔اس سے پتا چل گیا کہ ظالم درخت پر موجود ہے۔میں نے اس دوران میں گاؤں کے دو اور بندوق چلانے والے شکاریوں کو طلب کرکے درخت کے گرد کھڑا کر دیا اور انہیں اجازت دے دی کہ جونہی درخت کے اوپر بوربچہ دکھائی دے،فائر کر دیں۔اگرنیچے کود کر بھاگے،تب بھی فائر کرنے کا موقع نہ کھوئیں۔بقیہ آدمیوں سے کہا کہ اب پتھر پھینکو مگر پھر بھی کامیابی نہ ہوئی۔مجبور ہو کر میں نے دو چار گاؤں والوں کو حکم دیا کہ تم اپنی بندوقوں میں بہت سے چھرے اور بارود بھر کر درخت پر ایک ساتھ فائر کرو۔شاید کوئی چھرہ اس کے لگ جائے اور یہ موذی کود پڑے۔میں نے اپنا گھوڑا بھی منگوا لیا کہ اگر یہ بھاگے تو اس کا تعاقب کروں گا۔

دونوں شکاریوں نے دوفائر کیے مگر وہ نہ اترا نہ کہیں جگہ بدلتا دکھائی دیا۔ دس بارہ منٹ تک پتھر پھینکنے اور فائر کرنے کا عمل جاری رہا۔ لیکن بدبخت نظر نہ آیا۔ اس عرصے میں قریب کے گاؤں والے بھی پہنچ گئے اور تقریباً دو ڈھائی سو آدمیوں کا مجمع ہو گیا۔ ہر شخص اس کے مارے جانے کا دل و جان سے خواہاں اور کوشاں تھا اور میری محنت کے پھل لانے کی دعا کررہا تھا۔ جب زیادہ دیر ہوئی تو شک ہونے لگا کہ درندہ درخت پر نہیں ہے اور وہ فوں فوں کی آواز کسی اور جانور کی تھی یا غلط شبیہ ہوا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ بوربچہ درخت ہی پر ہے۔میں اس کی تلاش میں درخت کے گرد، اوپر کی طرف دیکھتا ہوا چکر لگا رہا تھا مگر پتوں کی کثرت اور گنجان الجھی ہوئی شاخوں کی وجہ سے بعض جگہیں ایسی تھیں، جہاں بوربچے کا چھپ کر بیٹھ جاتا اور نظر نہ آنا ممکن بلکہ آسان تھا۔

گاؤں والوں نے درخت کو اس طرح گھیر لیا کہ بوربچے کے لیے کہیں نکلنے کا موقع ہی نہ تھا۔ اگر اس وقت وہ کود پڑتا تو یقیناً دو چار کو زخمی کرنے پر مجبور ہوتا یا کسی من چلے کی کلہاڑی سے مارا جاتا۔ ان سب گاؤں والوں کو میں نے سمجھا بجھا کر دو جانب کھڑا کیا اور دو طرف سے میدان خالی چھوڑ دیا تاکہ درندہ اتر کر بھاگ جانے کا موقع دیکھ کر کود پڑے۔ ان تمام انتظامات اور کوششوں کے باوجود بھی اس عیار نے جنبش نہ کی۔ تقریباً دو گھنٹے تک پریشان ہونے کے بعد مجھے خیال گزرا کہ چند آدمیوں کو درخت پر چڑھانا چاہیے۔درخت پر بوربچے نے اگر کسی پر حملہ بھی کیا تو کیا کرے گا؟پنجہ ہی بڑھائے گا یا چیخے گا، غرائے گا۔ چڑھنے والا اگر سنبھل کر کھڑا ہو جائے یا چھوٹی موٹی شاخ پر جم کر بیٹھ جائے تو کلہاڑی سے بوربچے کی اچھی خاطر تواضع کر سکتا ہے۔یہ سوچ کر میں نے چند مضبوط آدمیوں کو بلایا اور ترکیب سمجھائی۔ سب تو نہیں مگر چار پانچ اس پر راضی ہو گئے اور کہا کہ ایک دو بندوقچی بھی ہمارے ساتھ درخت پر چڑھا دیجیے۔ اگر بوربچہ نظر آجائے تو فائر کر دیں۔ میں نے اجازت دے دی اور خوب سمجھا دیا کہ دیکھو، ہر گز ہر گز نیچے کی طرف فائر نہ کرنا۔ یہاں آدمی کھڑے ہیں یہ زخمی ہو جائیں گے۔

غرض دو بندوق والے اور چھ کلہاڑی سے مسلح جوان آدمی تیار ہو گئے۔باقی آدمیوں کو میں نے بوربچے کی چھلانگ اور دوڑ کے لیے میدان چھوڑ کر دو طرف جمع کر دیا۔ میں خود دخت کے نیچے ہی کھڑا رہا تاکہ بوربچے کے اوپر سے اترتے اور بھاگتے وقت فائر کر سکوں۔

ان سب تیاریوں کے بعد درخت پر ایک ایک کرکے ان لوگوں نے چڑھنا شروع کیا۔ میں نیچے سے بتاتا رہا کہ اب اس شاخ پر جاؤ، اب اس شاخ پر آؤ۔یہ ’’رضا کار‘‘مشکل سے بارہ چودہ فٹ اوپر چڑھے ہوں گے کہ غرا نے کی آواز آئی۔درخت کے بلند حصے سے نہیں۔بلکہ برگد کی ایک جٹا کے اوپر سے جو غالباً پندرہ فٹ بلندی سے نکل کر زمین سے تین فٹ اوپر لٹک رہی تھی۔اس جٹاکے اوپر کا حصہ جو درخت سے متصل تھا، خوب گنجان تھا اور وہاں یہ چور خدا معلوم کب سے چھپا بیٹھا تھا، جگہ تو معلوم ہو گئی لیکن چور اب بھی دکھائی نہ دیا۔

غرا نے کی آواز سن کر تمام گاؤں والوں نے بڑا غل مچایا۔درخت کے بندوقچیوں نے اسی طرف بندوقیں تان لیں مگر آگے کوئی نہ بڑھا۔یہ سخت انتشار اور ا نتظار کا وقت تھا۔ میری سمجھ سے یہ بات بالاتر تھی کہ مجھے فائر کا موقع کہاں ملے گا۔اس جٹا سے میں چار گز پر کھڑا ہو گیا۔سامنے سے سب کو ہٹا دیا اور بندوق والوں سے کہا جہاں سے غرا نے کی آواز آئی ہے،اسی طرف اندازاً پتوں اور شاخوں پر فائر کرو۔فائر میں یہ خوف نہ تھا کہ چھرے زمین پر گریں گے کیونکہ فائر کرنے والے اس مقام سے نیچے تھے۔

فائر ہوتے ہی درندے نے اس جٹا کے جھنڈ سے اوپر کی طرف چھلانگ لگائی اور ہم نے بس اسے چھلانگ لگاتے دیکھا، میں نے فائر کے لیے بندوق سیدھی کی مگر وہ پلک جھپکتے ہی غائب ہو گیا۔ اب مجھے یقین ہو چلا کہ یہ نیچے کودے گا۔ دونوں بندوقچی بندوقیں بھرنے کے بعد پھر اس طرف بڑھے،جدھر بوربچہ جاتا نظر آیا تھا۔ ان کا ارادہ تھا کہ اب کی بار نشانہ لے کر فائر کریں گے۔اس امید پر یہ لوگ اوپر کی طرف دیکھ رہے تھے اور ہم اس خیال میں تھے کہ بوربچہ پھر جگہ بدلتے ہوئے نظر آئے گا۔ یکایک پھر فوں فوں کی آواز آئی۔ اس آواز کے ساتھ ہی وہ موذی زمین پر دکھائی دیا۔ کسی نے اس کو اترتے دیکھا نہ کوئی یہ معلوم کر سکا کہ وہ کہاں سے کودنہ میں نے اسے زمین پر اپنے سے کوئی آٹھ نوفٹ کے فاصلے پر دیکھا۔یہ بھی یاد نہیں کہ اس کا منہ کس طرف تھا۔ فطرتاً وہ اس کھلے ہوئے حصے کی طرف بھاگا جہاں آدمی نہ تھے، صرف گھاس تھی۔میں نے پہلے ہی اس حصے کو خالی چھوڑ رکھا تھا۔بوربچہ میرے سامنے سے چھلانگ لگا کر سیدھا جنگل کی طرف روانہ ہوا۔ اس نے دو لمبی لمبی چھلانگیں لگائیں۔میں نشانہ ہی نہ لے سکا۔ تیسری چھلانگ کے بعد جب اس کے پاؤں زمین لگے تو مجھ سے کوئی 35گز دور ہو گا۔ میں نے فائر کیا۔ گولی خالی گئی اور ٹھیک اس کے اگلے ہاتھ کی دہنی جانب غالباً دو انچ کے فاصلے پر زمین پر جا پڑی۔میں نے گرد اڑتے دیکھی اور فوراً نشانہ ذرا بائیں کو لے کر دوسرا فائر کیا۔ بوربچے کی کمر سے دم تک ایک سیاہ پٹی ہوتی ہے اور کولہے کے جوڑ پر جو دو ہڈیاں چوپائیوں کی کمر کے آخری حصے میں اٹھی ہوئی ہوتی ہیں،ان ہڈیوں سے سات انچ آگے سیاہ پٹی کے بیچوں بیچ گولی لگی۔ چونکہ بوربچہ تقریباً میرے لیول پر تھا، اس لیے گولی نیچے کی طرف نہیں گئی، بلکہ ہڈی توڑ کر سیدھی چلی گئی اور دونوں شانوں کے بیچ میں سخت پٹھوں اور نرم ہڈیوں میں پیوست ہو گئی۔میں اکثر نرم سیسے کی گولی ا ستعمال کرتا ہوں۔شیر جیسے درندے کی ہڈیوں میں یہ گولی سوراخ کر دیتی ہے۔پاش پاش نہیں ہوتی، صرف پھیل جاتی ہے اور اسی وجہ سے ایکسپرس کے شاک کو تمام بندوقوں پر فوقیت حاصل ہے۔اس موقع پر یہ نکتہ بھی واضح کر دوں کہ زیادہ مضبوط،دبیز اور سخت ہڈیوں پر یہ گولی بے کار ہے جیسے بھینسا،گینڈا یا ہاتھی کی ہڈیاں ہوتی ہیں۔نرمی کی وجہ سے دل تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔ہاں تو میں عرض کررہا تھا کہ گولی دل اور پھیپھڑوں کو بچاتی ہوئی گزری۔ریڑھ کی ہڈی کو سخت صدمہ پہنچنے کی وجہ سے بوربچہ وہیں گر گیا جیسے کوئی بیٹھ جاتا ہے لیکن سر اٹھائے ہوئے برابر دہاڑتا رہا۔ادھر گاؤں والوں نے بھی اس قدر شور مچایا کہ امان الحفیظ۔جب تک بوربچہ ہاؤں ہاؤں کرتارہا، یہ بھی اپنی زبان میں اسے گالیاں دیتے رہے۔پھر اس پر حالت نزع طاری ہوئی۔بل کھایا، پیر اوپر ہو گئے۔مرتے وقت حلق سے مخصوص آواز نکالی اور ٹھنڈا ہو گیا۔

مجھے اس موذی کے ہلاک ہونے سے حقیقی مسرت ہوتی۔بالخصوص اس لیے کہ 136انسانی بچے ہڑپ کر چکا تھا۔ اردگرد دیہاتوں کے بے شمار کاشت کار محض اس کی وجہ سے جلا وطن ہونے کے لیے آمادہ تھے۔ دوسرے یہ کہ میرے افسروں نے دو ایک مرتبہ طنزیہ کہا تھا کہ آپ بے مضرت جانوروں کے بجائے اس موذی ظالم کے ظلم کی طرف توجہ کیوں نہیں فرماتے۔

بوربچہ اگر آدم خور ہو جائے تو وہ شیر کے مقابلے میں بہت زیادہ انسانی جانیں تلف کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔شیر کتنا ہی بھوکا اور پرانا مشاق آدم خور ہو، گھروں میں گھس کر یا سر شام گاؤں میں داخل ہو کر انسان کو نہیں لے جاتا۔وہ دلیر اور غیرت مند درندہ ہے، انہی خوبیوں کی وجہ سے لوگ اسکو پسند بھی کرتے اور شیر کہلوانا پسند کرتے ہیں ۔

بوربچہ (چیتے کی ایک قسم)اکثر گھروں کے دروازے اور چھپروں کی چھتیں پھاڑ کر بچوں کو اٹھا لے جاتا ہے۔جس آدم خور بور بچے کو میں نے مارا، اس کا قد6فٹ نو انچ تھا۔ رنگ اچھا زرد اور سیاہی مائل، کمر کی لکیر بھی خاصی سیاہ تھی۔ جسم خوب فربہ، عمر بھی دس بارہ سال سے زیادہ نہ تھی۔ میں نے پانچ چھ بارش یر کے بچے پالے ہیں۔غالباً میں اس کا ذکر بھی کر چکا ہوں۔ایک بار نہایت مردم کش اور راستہ روک دینے والی شیرنی کو ہلاک کیا تھا جس کے ساتھ چھ بچے تھے۔ میں نے اس کے پانچ بچے گرفتار کیے۔ ایک بچہ جنگل میں چھپ گیا اور کسی طرح ہاتھ نہ آیا۔ جو پانچ بچے مجھے ملے، ان میں سے ایک پہلی ہی رات کو مر گیا۔ باقی چار کو بڑی محنت اور محبت سے پالا۔ سات آٹھ مہینے میرے ساتھ رہے۔میں دورے پر تھا۔ یہ چاروں ایک پنجرے میں رات کے وقت سفر کرتے۔عام طور پر گرمیوں کے موسم میں کیمپ، درختوں کے سائے میں لگایا جاتا۔ایک دو درخت کیمپ کے قریب ضرور ہوتے۔یہ چاروں بچے پنجرہ کھلتے ہی درخت پر چڑھ جاتے۔دوپہر کی گرم ہوا سے بچانے کے لیے انہیں دودھ کا برتن دکھا کر درخت سے اتارا جاتا۔ پھر میرے خیمے یا سمر ہاؤس میں ٹھنڈی ریت پر بٹھا دیے جاتے۔اگر انہیں موقع مل جاتا تو پھر چپکے سے نکل کر درخت پر چڑھ جاتے اور شام تک وہیں شاخوں پر کھیلتے رہتے۔


آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 13)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں