آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر13)

 

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر13)


میرے ایک پڑوسی دوست کے بنگلے کا احاطہ آٹھ فٹ اونچا تھا۔ ان کے بارہ قاز، ایک مہینے کے اندر اندر بوربچہ ہڑپ کر گیا۔انہی دنوں میرے دو پالتو کتے اور دو بکریاں بھی غائب ہوئیں۔پنجوں کے نشان سے انکشاف ہوا کہ ان جرائم کا ذمے دار کوئی بوربچہ ہے۔میں نے کئی بار چاندنی راتوں میں ایک محفوظ جگہ بیٹھ کر اس کا انتظار کیا۔آخر ایک رات وہ مارا گیا۔اس کا قد صرف چار فٹ دس انچ اور بائیس انچ اونچا تھا۔ دم کی لمبائی اکتیس انچ ۔اس کا چھوٹا قدر وقامت ہی اس قدر پھرتیلے ہونے کا سبب تھا۔ میرے پاس ایک زبردست اونچے قدکا نہایت زور آور مسٹیف کتا پلا ہوا تھا۔ایک روز میں نے اوسط قامت کے بوربچے کو اپنے احاطے کے کنارے صبح چار بجے کے قریب کھڑے دیکھا۔میرے پلنگ سے اس کا فاصلہ تیس گز سے زیادہ نہ تھا۔ غالباً وہ میرے کتے پر داؤ لگانے کی فکر میں تھا۔اگر میں اٹھتا تو بھاگ جاتا۔اس لیے میں نے لیٹے لیٹے اپنے مسٹیف کتے کو چٹکی بجا کر ہوشیار کر دیا جو میرے پلنگ سے تین چار قدم پر سو رہا تھا۔کتے کے کھڑے ہوتے ہی بوربچہ بھاگا کتے نے پیچھا کیا۔ روشنی نہ تھی اس لیے مجھے پتا نہ چل سکا کہ بوربچہ کتنی تیز گیا مگر یہ یقینی ہے کہ دو سو گز تک کتے کے ہاتھ نہ آیا۔آگے پہاڑ شروع ہو جاتا تھا،وہیں پتھروں میں غائب ہو گیا ہو گا۔

اسی پہاڑ کا واقعہ ہے کہ میرے اور فوجی رسالے کے پانچ کتوں نے ایک بوربچے کا تعاقب کیا۔ ان کتوں کو رسالے کے ایک دفعدار اپنے ساتھ خرگوشوں کے شکار پر لے گئے تھے۔ ان میں دو انگلش ہاؤنڈ اور دو بخارے شامل تھے۔انہوں نے چند چھلانگوں ہی میں اس بوربچے کو جالیا۔وہ پتھر سے کمر لگا کر کھڑا ہو گیا۔ کسی کتے کی مجال نہ ہوئی کہ قریب جا سکے۔اسکے بعد بل ٹیرئیر اور رسالے کے کتے پہنچ گئے اور گھیرا ڈال کر سب نے حملہ کرنا اور بھونکنا شروع کر دیا۔

دفعدار صاحب کے پاس توڑے دار بندوق تھی اور اس میں آپ نے چھرے بھر رکھے تھے۔دوسرے کتوں کی نسبت بل ٹیرئیر بوربچے کے زیادہ قریب تھا۔ دفعدار کو معلوم تھا کہ چھروں کا فائر کرنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ انہوں نے سوچا کہ میرے بنگلے میں آئیں اور رائفل لے جاکر فائر کریں۔ان کا بیان ہے کہ وہ بمشکل چار پانچ قدم وہاں سے ہٹے ہوں گے کہ بوربچے نے زبردست حملہ کیا۔ کتے بھی دم دبا کر پیچھے ہٹے۔درندے نے غضب ناک ہو کر رسالے کے کتوں میں سے ایک کی کمر پکڑ کر اوپر اٹھایا اور اس چار فٹ اونچے پتھر کے پیچھے لے گیا جس سے چند لمحے قبل کمر لگائے کھڑا تھا۔وہاں اس کی گوی تھی۔اس میں کتے کو لے کر گھس گیا۔ دفعدار یہ سب ماجرا دیکھ رہے تھے۔بھاگتے ہوئے وہاں پہنچے تو گوی کے منہ پر سب کتوں کو بھونکتے پایا۔ گوی کا منہ تنگ تھا۔ دفعدار نے پتھروں سے اسے بند کر دیا۔ ایک دو آدمی اور آگئے۔سب نے مل کر خوب پتھر ٹھونسے اور کتوں کو لے کر واپس آگئے۔

میں اس وقت بنگلے پر نہ تھا۔ مجھے بریگیڈ آفس میں ٹیلی فون کیا گیا لیکن میرے آتے آتے دو گھنٹے لگ گئے۔بندوقیں اور رسالے والوں کا ایک جم غفیر لے کر میں وہاں پہنچا۔پتھر ہٹے ہوئے تھے۔خیال گزرا کہ درندہ نکل گیا مگر پتھر باہر کی طرف پڑے ہوئے تھے اور معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے باہر سے پتھر ہٹائے ہیں۔پہلے تو سوچا کہ شاید بکریاں چرانے والے لونڈوں نے یہ حرکت کی ہے۔پھر جو سامنے تھے انہیں بلاکر پوچھا۔پتا چلا کہ دوسرا بوربچہ ان کی نظروں کے سامنے پتھروں کو پنجوں اور منہ سے ہٹا کر اندر گھسا ہے۔حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔پتھروں کے چاروں طرف گھوم پھر کر دیکھا۔کہیں دوسری طرف نکلنے کا راستہ نہ تھا۔خوب گھاس اور پتے جمع کر کے اس پر تیل اور دیسی بارود چھڑکا، پھر آگ دکھا دی۔بارود اور تیل کی وجہ سے گھاس اور پتے سب مشتعل ہو گئے۔ہم سب ایک طرف تیار کھڑے ہو گئے مگر بوربچہ نہ نکلا۔پھر پتے اور گھاس جمع کی گئی اور دوبارہ وہی عمل کیا گیا مگربے سود۔چار مرتبہ کوشش کے بعد دفعدار اور چند دوسرے لوگوں نے گوی کے منہ میں گھاس بھر کر اسے بانسوں سے خوب اندر کی طرف دھکیلا۔تھوڑا سا بارود پتوں پر ڈالا اور بارودہی کا ایک موٹا فلیتہ بنا کر گوی کے دہانے میں بڑے بڑے پتھر اڑا دیے۔ایسے کہ اگر درندہ نکلنا بھی چاہے تو نہ نکل سکے۔ فلیتے کو آگ دی گئی اور جب اندر کے پتے باروجود اور تیل کی وجہ سے بھر بھر جلنے لگے تو سب نے ہرے کا نعرہ لگایا اور واپس آگئے۔

دوسرے دن کسی کو وہاں جانے کا موقع نہ ملا۔کوئی اہم پریڈیا انسپکشن تھی۔ تیسرے دن بارہ بجے کے بعد سب ڈیویٹوں سے فارغ ہو کر پہنچے۔پتھر سب اپنی جگہ پر قائم تھے اور پتوں کے دھوئیں سے کالے پڑ گئے تھے۔ بہت سونگھا، مگرگوشت کے سڑنے یا جلنے کی بو نہ آئی۔کتوں نے اندر جانے سے قطعی انکار کر دیا۔شاہجہان پور کے دیوانگی کی حد تک دلیر پٹھان افراط علی خان مرحوم پتھروں کو ہٹوا کر ریوالور ہاتھ میں لیے اندر گھسے لیکن اندھیرے کی وجہ سے کچھ نظر نہ آیا نہ آواز آئی۔

گوی کے منہ پر جو مثلث نما پتھر کھڑے تھے اور ڈائنا میٹ کا کارتوس رکھ کر اڑا دیے گئے۔ پھر خان صاحب ایک ہاتھ میں قندیل اور ایک ہاتھ میں ریوالور لیے بیٹھے بیٹھے آگے بڑھے تو اندر سے گوی خاصی چوڑی نظر آئی مگر بوربچے دکھائی نہ دیے۔گوی اردو کے حرف واؤ کی شکل میں تھی اور تقریباً چار گز لمبی۔واؤ کے سرے پر غالباً یہ بوربچے آڑ میں بیٹھے ہوں گے۔

یہ ماجرا دیکھ کر خان صاحب ایک تجویز لیے باہر آئے کہ گوی کے اندر دو کارتوس ڈائنا مائیٹ کے ایک دم اڑا دیے جائیں۔اس طرح گوی کی چھت تباہ ہو جائے گی۔اس تجویز پر سب متفق ہوئے مگر مجھے میگزین کی کنجی دینے کے لیے بنگلے پر جانے اور کارتوس لانے میں خاصی دیر ہوئی۔مغرب سے کچھ قبل فلیتے میں آگے دی گئی۔پتھر اور مٹی کا ڈھیر کئی ٹن کے قریب اس طرح گرا کہ واؤ کے سرکا منہ بند ہو گیا۔شوق اور وہ بھی جوانی کا۔یہ ٹھہری کہ کھانا کھا کر آئیں گے اور رات کو گوی کھدوائیں گے۔دس بجے رات سب وہاں پہنچ گئے۔

ہر طرف چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ہمارے ساتھ قندیلیں بھی تھیں۔رسالے کے سائیسوں نے مٹی کھودنا شروع کی۔ گیارہ بجے کے لگ بھگ کتے کی دھم ملی۔اسے کھنچیا تو ہاتھ میں آگئی۔دس بیس پھاؤڑے اور چلائے گئے تو بوربچے کی دم ملی۔ اسے کھینچا تو نہیں نکلی۔معلوم ہوا کہ جسم میں لگی ہوئی ہے۔قصہ مختصر بارہ بجے دونوں بوربچوں کی لاشیں مل گئیں۔یہ نہ سڑے تھے نہ بھونے گئے تھے۔ غالباً ان کو مرے دوچارہی گھنٹے ہوئے ہوں گے۔یہ بھی ممکن ہے کہ ڈائنا مائیٹ کی زہریلی گیس اور دھماکے کے صدمے سے مرے ہوں۔بہرحال یہ نہایت نامعقول شکار تھا اور بہت غیر شکاری طریق پر یہ دونوں بوربچے ہلاک ہوئے۔

عام طور پر بوربچے رات کے وقت شکار کے لیے نکلتے ہیں مگر ایسے درندے جو انسانی بستیوں کے قرب وجوار میں رہنے کے عادی ہوں،دن دہاڑے بکریاں اٹھا کر لے جاتے ہیں۔میں نے خود ایک درندے کو عین دوپہر کے وقت بکری پکڑ کر لے جاتے دیکھا ہے۔ایک روز سوج ڈوبنے سے کچھ پہلے میں اپنے نئے گھوڑے کو پہاڑ پر چلنے کی مشق کرانے کی غرض سے پہاڑ کے دامن میں لیے جارہا تھا۔ایک پتھر کے قریب گڑھے میں کچھ آواز آئی۔ گھوڑا بدک گیا اور اس نے آگے بڑھنے سے انکار کرکے ہنہنانا شروع کر دیا۔میں نے رسالے کے ایک جوان کو اشارہ کرکے بلایا اور گھوڑا دے کر کہا کہ جلد میرے بنگلے سے بندوق لاؤ۔یہاں سے میرا بنگلہ کوئی دوسو گز دور ہو گا۔جوان بندوق لے کر آیا۔میں نے گھوڑا ایک تیسرے شخص کو دیا اور اس جوان سے کہا کہ اس گڑھے میں پتھر پھینکو ۔میں بندوق تانے کھڑا رہا۔

پتھر پھینکتے ہی بوربچہ نکلا اور اس قدر تیزی سے پہاڑ پر چڑھا کہ پچاس گز تک میں اس کا نشانہ نہ لے سکا حالانکہ اس زمانے میں متحرک ہدف پر میری مشق خوب بڑھی ہوئی تھی اور میں بڑے بڑے نشانہ بازی کے مقابلوں میں متعدد انعام حاصل کر چکا تھا۔بہرحال میں اس بھاگتے ہوئے بوربچے پر نشانہ نہ لے سکا۔

پہاڑ کے اوپر اس درندے کی رفتار ہرن سے بھی زیادہ تھی مگر پچاس گز دوڑنے کے بعد تو یہ تھک گیا یا کسی اور وجہ سے رکا اور پلٹ کر دیکھا۔ بس یہی پلٹ کر دیھنا اس کی موت کا بہانہ بن گیا۔ میں نے دھائیں اور فائر کیا۔ گولی دل پر لگی اور چار پانچ فٹ کی ناکام چھلانگ کے بعد قلابازیاں کھاتا ہوا نیچے گرا۔

عادل آباد کا قصہ ہے کہ میں ایک خوبصورت انگریز لیڈی کو سیر کرانے بلند پہاڑ پر لے گیا۔دور سے ایک سانبھر پہاڑ کے نیچے نالے میں سے گزرتا ہوا دکھائی دیا۔جب وہ رکا تو میم صاحب نے اس پر فائر کیا۔سانبھر کی ٹانگ میں گولی لگی اور لنگڑاتا ہوا بھاگا۔مجھے اچھا نہ لگا کہ اس نے بتائے بغیر گولی کیوں چلا دی ہے۔اس نے فورا مجھ سے کہا کہ اب تم اس پر فائر کرو ۔میں خوش ہوگیا اورمیں نے گولی چلائی تو میرا نشانہ انتہائی برا ثابت ہوا۔گولی پیٹ کے نچلے حصے پر پڑی۔سانبھر کی آنتیں باہر آگئیں اور وہ وہیں بیٹھ گیا۔میم صاحب اور میں تنہا تھے۔ایسی جگہ جہاں تھوڑی دیر پہلے ہم شیر کے ہونکنے کی آواز سن چکے تھے،ایک عورت کو اکیلا چھوڑ کر سانبھر کے پیچھے جانا ممکن نہ تھا۔اس لیے میں نے گاڑی والے ہمراہی شکاری اور چپراسی کو آواز دی۔یہ لوگ بیس منٹ میں پہاڑ میں پہاڑ پر پہنچے،میں نے کہا:

’’دیکھو،اس درخت کے پاس نالے کے اندر سانبھر پڑا ہے۔اسے ذبح کرو بنڈی لے جاکر اٹھا لاؤ۔‘‘

ان لوگوں کو وہاں جانے میں راستہ نہ ہونے کی وجہ سے دیر لگی۔میں اور میم صاحب اپنی گاڑی کی طرف روانہ ہوئے اور راہ میں شکار کھیلتے ہوئے بنگلے پر پہنچ گئے۔یہ شکاری اور چپراسی چار گھنٹے بعد واپس آئے اور کہنے لگے کہ جب ہم اس نالے میں اترے تو سانبھر کو دو بوربچے لپٹے ہوئے تھے۔ہم ذرا رکے تھے کہ شیر آگیا۔دونوں بوربچے غرائے مگر دم دبا کر بھاگ گئے۔ہم درختوں پر چڑھ کر تماشا دیکھتے رہے کیونکہ سانبھراب مردار ہو چکا تھا اور ہمارے کسی کام کا نہ تھا۔شیر نے خوب پیٹ بھر کر گوشت کھایا اور چلا گیا۔ شیر کے جانے کے بعد ہم نالے میں اترے اور اس سانبھر کی گردن سینگ لے آئے ہیں۔میں نے دیکھا کہ سانبھر کی گردن پر بوربچے کے دانتوں کے نشان تھے۔یہ بڑی قسم کا بوربچہ یا گل باکھ تھا۔

اس جانور کی قوت شامہ قوی نہیں ہوتی،پھر بھی شیر سے زیادہ ہوتی ہے۔اسی طرح بوربچے کی سماعت اور بصارت بھی شیر سے اعلیٰ درجے کی ہے۔جو بوربچے عام طور پر آدمیوں کو چلتے پھرتے دیکھتے رہتے ہیں،وہ ہرہئیت میں اور چھپ کر بیٹھے ہوئے آدمی کا پتا لگا لیتے ہیں۔میں تیس فٹ بلند ڈٹان پر بکری باندھ کر نیچے لیٹا ہوا تھا، بوربچہ اپنی گوی سے نکل کر آیا۔پچاس گز دور بیٹھ کر خوب غل مچایا۔ادھر بکری بھی چیخ رہی تھی لیکن اس طرف نہ آیا۔یقیناً اس موذی نے اپنی بصارت یا شامہ کے ذریعے معلوم کر لیا تھا کہ کوئی شخص چٹان کے قریب موجود ہے۔

چاندنی رات تھی لیکن دو بجے کے لگ بھگ چاند غروب ہو گیا۔تاریکی چھا جانے پر بھی ظالم چٹان یا بکری کے پاس نہ پھٹکا۔ میری آنکھ لگ گئی اور دھوپ نکلنے تک میں غافل سوتا رہا۔سات بجے کے قریب میرے اردلی نے مجھے بیدار کر کے دکھایا۔کہ بوربچہ اپنی گوی کے سامنے پتھر پر بیٹھا ہے۔وہ غالباً مجھے ہی دیکھ رہا تھا۔ ادھر میں نے بندوق اٹھائی، ادھر وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا ، فاصلہ سوا سو گز نپا ہوا تھا۔ میں نے دل پر نشانہ لے کر فائر کیا۔بجائے دل کے گولی گردن میں لگی۔درندہ تڑپ کر لڑھکتا ہوا گرا اور ختم ہو گیا۔اس کا قد چھ فٹ آٹھ انچ نکلا۔

اس درندے کے متعلق یہ رائے قائم کرنا کہ وہ دلیر ہے یا بزدل، مشکل کام ہے۔بعض اوقات وہ دلیرانہ حملہ کرتا ہے لیکن کبھی کبھی رات کے وقت بے حد بزدلی کا مظاہرہ بھی کرتا ہے،مثلاً جب اس کے تعاقب میں گھوڑا ڈالا جائے تو یہ کم ہمت گیدڑ کی طرح دم دبا کر بھاگتا ہے اور سوڈیڑھ سوگز کے اندر برچھے سے شکار ہو جاتا ہے۔جنرل نائٹ انگیل اسی قسم کے شکار میں قلب کی حرکت ٹھہر جانے سے مر گئے تھے۔میں نے میجر نواب ماہر الدولہ اور رسالدار شاہ میر خان مرحوم سے ان کا چشم دید واقعہ اس طرح سنا ہے کہ جنرل صاحب کر برچھے سے بوربچے کا شکار کرنے کا بہت شوق تھا۔ مومن آباد اور بنگولی کی چھاؤنیوں میں اس کا اکثر موقع مل جاتا تھا۔جنرل صاحب مشہور شہسوار تھے۔اکثر عربی گھوڑوں پر بوربچے کا تعاقب کرتے۔تقریباً بیس پچیس بور بچوں کو جنرل صاحب نے گھوڑا دوڑا کر سوڈیڑھ سو گز کے اندر برچھے سے ہلاک کیا۔نواب ماہر الدولہ بہادر اور جنرل سر افسر الملک بہادر بھی جنرل صاحب کے ساتھ ان مہموں پر جایا کرتے تھے۔جب ان کا تبادلہ الوال پر ہوا تو یہاں نہ میدان تھا، نہ ناگ پھنی کے پودے،جن میں بوربچے اکثر چھپ جایا کرتے تھے اور جنرل صاحب انہیں ان پودوں سے نکالا کرتے تھے۔صاحب نے اپنا شوق پورا کرنے کے لیے پنجرہ بنوا کر کئی بوربچے گرفتارکرائے اور اسکندر آباد کی رپیڈ گراؤنڈ میں انہیں دوڑا کر شکار کیا۔

حیدر آباد کے اکثر امراء اور معززین کو جب اس انوکھے شکار کی خبر ملتی تو تماشا دیکھنے اسکندر آباد ضرور جاتے۔الوال سے چند میل پر کسی بزرگ کا مزار ہے اور یہ مشہور تھا کہ اس مزار پر ایک بوربچہ دم سے جھاڑودیا کرتا ہے۔جنرل صاحب نے وہاں پہنچ کر پنجرہ لگایا اور اس بوربچے کو گرفتار کرلیا۔دوسرے دن صبح وہ پنجرہ پریڈ گراؤنڈ میں لایا گیا۔کئی بڈھے رسائی داروں اوررسالداروں نے جنرل صاحب کو منع کیا کہ آپ اس بوربچے کو نہ ماریں مگر صاحب نے ہنس کر ٹال دیا۔جنرل صاحب کے پاس ایک بہت عمدہ عربی گھوڑا تھا اور اکثر وبیشتر اسی پر سوار ہو کر اس طرح کا شکار کھیلتے تھے۔ اب یہ عجیب بات کہ اس روز جب جنرل صاحب اس پر سوار ہوئے تو وہ اڑ گیا۔اس سے قبل اس نے کبھی ایسی حرکت نہ کی تھی۔یہ دیکھ کر پھران بڈھوں نے جو صاحب سے بے تکلف تھے، اصرار کیا کہ آج آپ اس بوربچے کا شکار نہ کریں لیکن صاحب نے ایک نہ سنی اور گھوڑے کو مہمیز کرکے روانہ ہو گئے۔ماہر الدولہ اور شاہ میرخان بھی ساتھ آئے اور اس المناک واقعے کے راوی ہیں۔

پنجرہ آچکا تھا۔ اسے پریڈ گراؤنڈ کے بیچ میں رکھ کر ایک سوار نے دروازے کی رسی کھینچ دی اور خود گھوڑا دوڑا کر چلا آیا۔جنرل صاحب اپنے گھوڑے کو کاوا دے رہے تھے۔گھوڑا چونکہ اس شکار کا عادی تھا اس لیے اپنی عادت کے مطابق پنجرہ دیکھتے ہی بے چین ہو جاتا تھا اور اکثر جنرل صاحب اسے کاوا دیا کرتے تھے۔ آج بھی یہ عمل معمول کا کام سمجھا گیا۔بوربچہ پنجرے سے دیر میں نکلا، پھر نکل کر پنجرے کے اوپر کود گیا اور بیٹھ کر ان تماشائیوں کی طرف دیکھنے لگا جو وہاں کثرت سے جمع تھے۔دستور یہ تھا کہ جب درندہ بیس پچیس گز دوڑ لیتا، تب گھوڑا اس کے تعاقب میں بھگایا جاتا۔ جنرل پنجرے سے چالیس پچاس گز دور مغرب کی جانب گھوڑے کو کاوادے رہے تھے۔سب یہ سمجھے کہ بوربچے کے پنجرے سے اترنے اور دوڑنے کے انتظار میں صاحب کاوا دے رہے ہیں۔

یکایک بوربچہ پنجرے پر سے کودا اور سیدھا انگریزی قبرستان کے مشرقی کنارے کی طرف دوڑا مگر آہستہ۔یہ فاصلہ چار سوگز سے کم نہ تھا۔بوربچہ احاطے کی دیوار کے نزدیک پہنچ گیا مگر صاحب کاوے ہی میں مصروف رہے۔اس پر دو چار آدمیوں نے بڑھ کر آواز دی کہ صاحب بوربچہ دور نکلا جارہا ہے۔صاحب نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر زیادہ آواز سے چلا کر کئی آدمیوں نے کہا لیکن صاحب نے گردن پھیر کر دیکھا نہ گھوڑے کو روکا۔اس پر لوگ بھاگے ہوئے گئے۔پاس جاکر دیکھا تو جنرل صاحب کی آنکھیں بند تھیں۔لپک کر کسی نے باگ پکڑ لی۔گھوڑا رکا، ہاتھ لگا کر دیکھا تو جنرل صاحب میں کچھ باقی نہ تھا۔انہیں گھوڑے سے اتارنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ ٹانگیں زین اور ہاتھ باگ پر اکڑ کر جم گئے ہیں۔چنانچہ انہیں کھینچ کر زین سے الگ کیا اور یقین ہوا کہ صاحب کو مرے ہوئے دس بارہ منٹ سے زیادہ گز چکے ہیں۔جسم میں گرمی باقی نہ تھی۔ بعد میں انگریز ڈاکٹروں نے اچھی طرح معائنہ کرکے اعلان کیا کہ قلب ساکت ہو گیا۔اب سوال یہ ہے کہ ایسا قوی شخص جس کے شکار اور شہسواری کی آج تک شہرت ہے،یکایک اس طرح اس کا قلب ٹھہرجائے،اس پر حیرت کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔جنرل صاحب نے اپنی زندگی میں132شیر مارے تھے۔

یہ حیرت انگیز واقعہ تو بوربچے کے شکار کے ضمن میں آگیا۔اس درندے کی دلیری اور بزدلی کا حال بیان کررہا تھا۔رات کے وقت اس کی دلیری کا یہ حال ہے کہ میرے خیمے میں بڑا لیمپ روشن تھا۔ باہر آگ جل رہی تھی۔میرا ایک پالتو کتا کرسی پر بیٹھا سو رہا تھا۔ کتے کی بوپربوربچہ خیمے کی قنات نیچے سے چاک کرکے اندر داخل ہو گیا۔قنات پھٹنے کی آواز سے کتا ہوشیار ہوا اور چیخ کر میرے پلنگ کی طرف جست کی۔بیچ میں میز پر لیمپ روشن تھا۔ کرسی میز سے ٹکرا کر الٹ گئی۔لیمپ چھن سے زمین پر گرا اور گل ہو گیا۔ میں گھبرا کر اٹھا تو کوئی جانور میرے پلنگ پر معلوم ہوا۔میں دہشت سے چلایا کہ ارے کوئی جلدی سے آؤ،پھر سرہانے سے ٹٹول کر میں نے ریوالور اٹھالیا مگر خیمے میں قبر کا سااندھیرا اور میں پریشان کہ کیا کروں۔اس دوران میں خلاصی چپراسی،پولیس کے پہرے والے قندیلیں لے کر آئے تو عجب سماں نظر آیا۔کتا میرے پلنگ پر بیٹھا کانپ رہا تھا اور خیمے کا حال تو آپ سن ہی چکے ہیں۔میرے ایک دوست مزمل شاہ صاحب بھی بازو کے ڈیرے سے ہنستے ہوئے پہنچے۔اس وقت سب نے دیکھا قنات کے باہر بوربچے کے پنجوں کے نشانات تھے۔پہلے اس نے زمین کھودنے کی کوشش کی تھی۔ زمین سخت پائی تو قنات چیر ڈالی۔اس کا اثر یہ ہوا کہ کوئی کتا رات کو خیمے کے باہر ٹھہرتا تھا نہ جاتا تھا اور نہایت لطف کی بات ہے کہ میرے رشتہ دار مولوی قاسم الدین صاحب نے رخصت کی درخواست پیش کردی کہ میں ان جنگلوں میں دورہ کرنے کے ناقابل ہوں۔


آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 14)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں