آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر14)

 

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر14)

اسی طرح بوربچے کی دلیری کا ایک واقعہ اور ہے۔میں سر جان مارشل کمانڈر انچیف سے رات کے آٹھ بجے اپنے خیمے کے سامنے کھڑا باتیں کررہا تھا۔ مولوی عبدالعلی صاحب مہتمم لوکل فنڈ اور دو تحصیلدار صاحبان آٹھ نو قدم پر کھڑے تھے۔میرا کتا میرے قدموں میں بیٹھا تھا۔وہاں روشنی بھی تھی۔کچھ فاصلے پر متعدد کیمپ والے کھانا پکا رہے تھے۔ان تمام رکاوٹوں کے باوجود بوربچہ آن واحد میں کتے کو کمر سے پکڑ کر اٹھا لے گیا۔ خود کمانڈر انچیف صاحب، میں اور تیس چالیس آدمی اسی وقت درندے کے پیچھے دوڑے مگر اس کا کہیں پتا نہ لگا۔

ایک دوسری خوبی اس درندے میں صبر و استقلال کی ہے۔شیر پنجرے یا جال میں پھنستا ہے تو اس قدر غل اور شور مچاتا ہے کہ خدا کی پناہ!اس کی آواز نہایت ہولناک ہوتی ہے۔ہر لمحے یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اب آزاد ہوا، اب آزاد ہوا۔میں نے اعلیٰ حضرت نظام دکن میر محبوب علی خان مرحوم کے کیمپ میں شیر کو جال میں پھنستے دیکھا ہے۔اس نے پانچ منٹ کے اندراندر چیخنے کے علاوہ لوٹ پوٹ اور تڑپ تڑپ کر سات فٹ بلند پتوں،ڈالیوں اور جال کی رسیوں کا اپنے اوپر ڈھیر بنا لیا اور پنجرے کے بارے میں میں نے سنا ہے کہ شیر نے اپنے پنجے،پیشانی اور دانت سلاخوں سے ٹکڑا ٹکڑا کر لہولہان کر ڈالے۔ اس کے برعکس بوربچہ پنجرے میں گرفتار ہونے کے بعد جنبش بھی نہیں کرتا اور رات کے وقت خاموشی کے ساتھ کوشش کرکے پنجرے سے نکل جاتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اس کوشش میں اس کے دانت اور ناخن اکثر ٹوٹ جاتے ہیں اگر آزاد ہونے میں ناکام رہا تو چپکا پڑ گیا۔ حلق سے آواز تک نہ نکالی۔

ایک شکاری نے مجھ سے بیان کیا کہ ہانکے میں ایک بوربچہ ان کے بہت قریب سے گزرا۔انہوں نے اعشاریہ577کی رائفل سے اس پر فائر کیا۔ گولی پیٹ میں لگی اور آنتیں باہر نکل پڑی لیکن یہ بوربچہ اسی رفتار سے چلتا رہا۔چونکہ آنتیں جھاڑیوں میں الجھتی تھیں اور چلنے میں سخت تکلف ہوتی تھی۔اس لیے درندے نے انہیں دانتوں سے کتر کر پھینک دیا اور چلتا رہا۔

بعض شکاریوں کا خیال ہے کہ بوربچہ شیر کی نسبت زیادہ خوفناک ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس درندے کو چھپنے کے لیے بہت کم جگہ کی ضرورت ہوتی ہے اور چھوٹی جسامت کے سبب اس پر صحیح نشانہ لینا مشکل ہوتا ہے۔شیر میں یہ کمزوری ہے کہ انسان کو دور ہی سے دیکھ کر غراتا اور دھمکاتا ہے جس سے شکاری ہوشیار ہو جاتا ہے۔اس کے برعکس بوربچہ شکاری کے قریب آنے تک خاموش بیٹھا رہتا ہے اور کبھی بظاہر سامنے سے چلے جانے کے بعد پھر پلٹ کر دبے پاؤں آتا اور حملہ کرتا ہے۔شیر کبھی ایسی اوچھی حرکت نہیں کرتا لیکن ان تمام وقتوں کے باوجود شیر کے مقابلے میں بوربچے کا حملہ روکنا بہت آسان ہے۔اگر شکاری قوی الجثہ اور دلیر ہوتو اس درندے سے دست بدست جنگ کر سکتا ہے۔اس سلسلے میں ایک ذاتی مشاہدہ بیان کرتا ہے۔

میں اور میرا ایک انگریز شکاری دوست لنگم پلی کے پہاڑوں میں بندوقیں لیے تیتروں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے۔نگہاں سامنے سے ایک بوربچہ دوڑتا ہوا نظر آیا۔میں نے اس پر دو اور انگریز نے ایک فائر کیا۔ بوربچہ اسی رفتار سے کوئی اثر لیے بغیر نکلا چلا گیا۔ہم سمجھے کہ تینوں فائر خالی گئے۔ہم پھر ادھرادھر ٹہلنے لگے۔بوربچے کا خیال بھی نہ رہا۔کامل ایک گھنٹے بعد ہم بڑے بڑے پتھروں کے پاس پہنچے جو اوپر تلے ایک ڈھیر کی صورت جمع تھے۔میں پتھروں کے ایک طرف تھا اور میرے دوست دوسری طرف۔یکایک میرے کان میں بوربچے کے حملے کی آواز آئی۔ میں لپک کر دوسری جانب پہنچا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ صاحب بہادر بوربچے کو اپنی بندوق پر سنبھالے ہوئے پیچھے ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں اور وہ موذی ان کا شانہ یا گردن پکڑنے کی فکر میں ہے۔صاحب بہادر بندوق کی نال آڑی کرکے دونوں ہاتھوں سے پکڑے اور پاؤں پھیلائے زور کررہے تھے۔بوربچے کے دونوں پنجے بندوق کی نال پر تھے اور گردن نال سے رکی ہوئی تھی۔یہ صورت حال دیکھ کر میں آگے بڑھا اور بدحواسی میں اپنی بندوق کے کندے سے بوربچے کو دھکا دیا مگر اس نے نال پر سے گردن نہ ہٹائی، صرف میری طرف مڑ کر دیکھا۔ صاحب نے چلا کرکہا:

’’یہ آپ کیا کررہے ہیں؟فائر کیجیے۔‘‘

میں نے دو قدم پیچھے ہٹ کر بندوق کی نال سے اس کے دل کا نشانہ لیا اور گولی چلا دی۔بندوق میں اگرچہ چار نمبر کے چھرے بھرے تھے مگر بوربچہ وہیں دائیں کروٹ پر گر گیا۔صاحب بہادر کے سینے پر درندے کا ناخن لگا تھا اور دائیں شانے پرایک دانت۔دونوں زخموں سے خون رس رہا تھا۔ اتنے میں ہمارے ملازم وغیرہ اس ہنگامے کی آواز سن کر دوڑتے ہوئے آئے اور صاحب کو اٹھا کر خیمے میں لے گئے۔

ایک اور واقعہ اس درندے کی تیزی اور خونخواری کا عرض کرتا ہوں۔مولوی جان محمد صاحب پولیس کے افسر اعلیٰ اور میں ایک دورے میں ساتھ ساتھ تھے۔کسی گاؤں کے باہر کیمپ تھا۔ کوئی شخص خبر لایا کہ گاؤں کے ایک مکان میں بوربچہ چھپا بیٹھا ہے۔میں اور مولوی جان محمد بندوقیں لے کر پہنچے۔معلوم ہوا کہ مکان قریب قریب ایک لائن میں بنے ہوئے ہیں۔مکانوں کی تین لائنیں ہیں اور دوسری لائن کے چوتھے یا پانچویں مکان میں درندہ موجود ہے۔گاؤں کا کولی بہت دل جلا جوان آدمی تھا۔ اس نے کہا کہ میں چھت کا چھپر درانتی سے کاٹ کر اس میں سوراخ بنا دیتا ہوں۔اس میں جھانک کر بوربچے کو گولی مار دیجیے۔ہم نے کہا’’ٹھیک ہے۔‘‘وہ گیا اور چھپر کی چھت میں کوئی ڈیڑھ فٹ قطر کا سوراخ کر آیا۔ پھر اس نے یہ بے وقوفی کی کہ سوراخ میں سے جھانک کر درندے کو للکار دیا۔درندہ ہولناک آواز کے ساتھ لپکا اور کولی کودھکیل کر پرے پھینکتا ہوا وہاں سے نکلا اور تین چار مکانوں کی چھتوں پر دوڑتا ہوا ایک اور مکان میں کود پڑا۔وہاں صحن میں ایک بڑھیا روٹی پکا رہی تھی۔ وہ اسے دیکھ کر چلائی تو یہ مکان کے اندر گھس گیا۔گاؤں والے دوڑے اور بانس اور درانتی باندھ کر مکان کا دروازہ باہر سے کھینچ کر بند کر دیا۔اس طرح بوربچہ پھر مکان میں قید ہو گیا۔اب پھر اس کے سوا کوئی تدبیر نہ تھی کہ چھت کاٹی جائے لیکن اس کے ساتھ یہ تجویز بھی ہوئی کہ سوراخ کرکے فوراً اس پر کوئی چیز رکھ دی جائے اور جب سب شکاری تیار ہو جائیں تو رسی کے ذریعے سوراخ کا ڈھکنا اٹھا لیا جائے۔بوربچہ نکلے تو سب اس پر فائر کر دیں۔

ایک تدبیر عمل میں لائی گئی۔میں ایک طرف،مولوی محمد دوسری طرف،گاؤں کا کوئی شکاری تیسری طرف اور دو بندوق والے چوتھی طرف گھیر کر کھڑے ہوئے۔ہم سب زمین پر چھپر سے تیس تیس چالیس گز دور کھڑے تھے۔چھپر اور سوراخ اور اس پر ڈھکا ہوا ایک ٹوکر اہم سب کو بخوبی نظر آرہا تھا۔ جب ٹوکرا سوراخ پر سے رسی کے ذریعے گھسیٹ کر ہٹا گیا تو ہم اپنی اپنی بندوقیں شانے پر لے آئے اور بوربچے کے استقبال یا’’گارڈ آف آنر‘‘ کے لیے تیار ہو گئے لیکن وہ باہر نہ نکلا۔

تین چار آدمیوں کو بھیجا کہ مکان کے صحن میں جاکر غل غپاڑہ کریں۔جونہی یہ لوگ چلاتے ہوئے مکان کے صحن میں داخل ہوئے،درندہ بھی غراتا ہوا اس تیزی سے باہر کودا کہ کسی شخص کو فائر کا موقع نہ ملا۔ایک زرد گیند سی اچھلتی ہوئی نظر آئی جوگولی کی طرح کولی کی طرف گئی۔غل ہوا اور پھر یہ سنائی دیا کہ کولی کی کھوپڑی بوربچے نے چبا ڈالی اور جنگل کی راہ لی۔یہ سارا واقعہ چند سکینڈ میں وقوع پذیر ہو گیا۔غور کیجیے،گاؤں کے پچاس ساٹھ آدمی، ہمارے کیمپ کے دس بیس افراد،خود ہم دو الگ۔سب کو ایک چھلاوے کی مانند درندہ نظر آیا مگر کوئی شخص بھی ایسا نہ تھا جو اس مہلک حادثے کی تفصیل چشم دید بیان کر نے کے قابل ہو۔مختلف بیانوں اور واقعات کے ٹکڑے ٹکڑے جوڑ کر سارا واقعہ سمجھ میں آیا۔

بوربچے کی یہ عادت بھی بیان کرنے کے قابل ہے کہ وہ اپنے شکار کیے ہوئے جانور یا انسان کو کھانے میں بڑا حریص ہوتا ہے۔یہ سمجھنا چاہیے کہ اسے کسی طرح چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔بار بارلاش پر آتا ہے۔بڑے شکاری اس کے شکار کی طرف کم توجہ کرتے ہیں کیونکہ اسے شیر سے کم درجے کا جانور سمجھتے ہیں۔اگر آبادی کے قریب بوربچے کا شکار کرنا ہو تو ایک درخت سے بکری باندھ کر ہی بیٹھ جانا بہت ہے۔اکثر شکاریوں کو بوربچے جنگل اور پہاڑوں میں چلتے نظر آتے ہیں اور مارے جاتے ہیں۔ایک دن یورپین لیڈی اپنی گھوڑا گاڑی پر جنگل میں سے گزر رہی تھی۔ یکایک گاڑی سے تیس گز کے فاصلے پر ایک بوربچہ دکھائی دیا۔ یہ فوراً اس پر فائر کرنے کے لیے تیار ہو گئیں مگر وہ مکار گاڑی رکتے ہی فوراً جھاڑی کی اوٹ میں ہو گیا۔جس جانور کے رعب داب کی یہ حالت ہو، اس کے شکار کوشیر سے کیا نسبت۔۔۔انہی لیڈی صاحبہ نے اسی جنگل میں شیر کی دہاڑسنی تو تھر تھر کانپنے لگیں،رنگ فق ہو گیا۔سپید سنگ مر مر کی تصویر معلوم ہوتی تھیں۔بوربچے کبھی کبھی بلاوجہ بغیر چھیڑے انسان پر حملہ کر بیٹھتے ہیں۔اس کا ایک ذاتی تجربہ جو نہایت دلچسپ ہے بیان کرنے کے بعد بوربچے کا ذکر ختم کروں گا۔

ایک دن شام کے وقت میں اور میجر نواب سید ولایت حسین صاحب رسالے کے چند نوجوانوں کو لے کر ایک خطرناک بوربچے کی تلاش میں نکلے۔نواب صاحب کے ایک مصاحب چنوں میاں بھی ساتھ تھے۔ان حضرت نے اپنے غلط اشاروں سے مجھ کو بوربچے کے عین اوپر کو دوا دیا۔۔۔یہ بوربچہ چٹان کے نیچے بیٹھتا تھا۔ اگرقریب جاتے تو یہ دکھائی نہ دیتا،پتھر رکاوٹ بن جاتے۔تجویز یہ ہوئی کہ میں چکر کھا کر پہاڑ پر چڑھ جاؤں اور جس کے نیچے درندہ بیٹھا ہے،اس کے اوپر پہنچ کر فائر کروں۔چنوں میاں میدان میں کھڑے رہیں اور رومال کے اشارے سے مجھے بوربچے کا پتا نشان بتاتے رہیں تاکہ میں ٹھیک اس کے اوپر پہنچ سکوں۔میں دور کا چکر کاٹ کر میدان کے سامنے آگیا تو چنوں میاں نظر آنے لگے۔یہ حضرت رومال ہلا ہلاکر مجھ کو ٹھیک بوربچے کی چٹان پر لے آئے۔جب میں صحیح مقام پر پہنچا تو بجائے اسکے کہ مجھے فائر کرنے کا اشارہ کرتے۔انہوں نے کئی بار جلد جلد نیچے اترنے کا اشارہ کیا۔ میں اس چٹان سے تقریباً آٹھ فٹ اونچائی پر تھا جس کی آڑ میں درندہ چھپا ہوا تھا۔ اتنی بلندی سے کودنا کچھ مشکل نہ تھا۔ میں بندوق سنبھال کر آہستہ سے نیچے کی طرف پھسل پڑا اور ٹھیک بوربچے کے پچھلے حصے پر گرا۔

اس آفت ناگہانی بلکہ بلائے آسمانی سے جو یکایک اس غریب پر نازل ہوئی، بوربچہ ایسا گھبرایا کہ سوائے راہ فرار اختیارکرنے کے اس سے کچھ نہ بن پڑا۔مسلسل پچاس گز تک دم دبائے غر غر کر تا بھاگتا رہا۔میری یہ حالت ہوئی کہ اس کے اٹھنے سے میں تقریباً اوندھے منہ گرا۔بدحواسی میں یہ خیال بھی نہ آیا کہ بھاگتے ہوئے بوربچے کو ماردوں۔دور سے چنوں میاں نظر آئے۔انہیں اوچھے القابات و خطابات سے یاد کرتا ہوا نیچے اتر آیا۔ ان حضرات اور نواب صاحب تک پہنچنے میں شام ہو گئی۔خوب خوب قہقہے بھی لگے اور لعنت ملامت کا سلسلہ بھی رہا۔ اس کے بعد ہم لوگ مکان کی طرف واپس ہوئے۔پہاڑ کے نیچے بالکل اس کے دامن میں جانوروں کی آمدورفت سے ایک پگڈنڈی سی بن گئی تھی۔ آگے میں،میرے پیچھے نواب ولایت حسین صاحب اور ان کے عقب میں چنوں میاں آہستہ آہستہ آرہے تھے۔اندھیرا بڑھ گیا تھا اور محض کاہلی کی وجہ سے میں نے اپنی بندوق چنوں میاں کو دے دی تھی۔ نواب صاحب نے بھی اپنی بندوق اردلی کے سر منڈھ دی تھی۔اردلی اور رسالے کے سب جوان ادب کی وجہ سے پچیس تیس گز پیچھے چل رہے تھے۔

جب ہم مکان کے نزدیک پہنچے تو دفعتاً پہاڑ سے بوربچوں کا ایک جوڑا ہم پر غرایا اور اس سے پیشترکہ ہم سنبھلیں۔انہوں نے غاؤں غاؤں کرکے ہم پر ہلہ بول دیا۔ میں اور نواب صاحب رکے اور چلا کر ملازموں سے کہا کہ بندوقیں لاؤ۔اس دوران میں دونوں بوربچے ہم سے تین گز پر پہنچ گئے۔میں پھر چلایا کہ کم بختو ،بندوق دے دو۔میری اس آواز سے بوربچے ٹھٹک گئے اور عف عف کرتے ہوئے دوبارہ پہاڑ پر جاچڑھے۔اب جو میں پلٹ کر دیکھتا ہوں تو چنوں میاں بندوق لیے سر پٹ بھاگے جارہے تھے۔ہم نے انہیں آواز دے کر بلایا۔ قریب آئے تو موصوف کا سانس بری طرح پھولا ہوا تھا۔ میں نے کہا ’’یہ کیا حرکت تھی؟بندوق لے کر بھاگے کیوں؟‘‘ فرمایا:’’خدا کی قسم، بھاگا نہیں تھا بلکہ برچھا لینے جارہا تھا۔‘‘اگر ہم بھی ان’’شجاعت پناہ‘‘ کی حماقت میں شریک رہتے تو شاید آج یہ داستان سنانے کے لیے موجود نہ ہوتے۔

قبائلی میرے اور آسٹن کے گرد اس طرح گھیر ڈالے کھڑے تھے،گویا ہم کوئی آسمانی مخلوق ہیں۔اگرچہ میں ان کی زبان سمجھنے سے قاصر تھا لیکن آسٹن مترجم کی سہولت فراہم کررہا تھا۔شکار کا وہ بھی جنون کی حد تک رسیا تھا۔البتہ ابھی تک اس نے کسی شیر کا شکار نہیں کیا تھا۔

میں کیپ ٹاؤن میں مقیم تھا تو آسٹن نے ہمسایہ ہونے کے ناتے وہاں جاتے ہی مجھ سے مراسم قائم کرلیے اور پھر یہ مراسم اس حد تک بڑھ گئے کہ اکثر وہ میرے ہی پاس رہتا۔دنیا میں وہ تنہا تھا اور ایک مقامی کالج میں پروفیسر کے عہدے پر فائز رہ کر ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ میں ایک اچھا شکاری ہوں اور آدم خوروں تک کا شکار کرچکا ہوں تو وہ میرے بہت قریب آگیا۔میں بھی اس کی قدر کرنے لگا۔چنانچہ اس کی خواہش مجھے جنوبی افریقہ کے ایک جنگل تک کھینچ لائی تھی۔

جن قبائلیوں کا میں نے ذکر کیا، ان کے چہروں پر مسرت کے ساتھ دہشت کے آثار بھی نمایاں تھے۔ بات دراصل یہ تھی کہ کئی ماہ سے ایک آم خور ان کے گاؤں پر حملے کررہا تھا اور تقریباً بائیس آدمیوں کو لقمہ اجل بنا چکا تھا۔ اس خطرناک آدم خور سے تنگ آکر گاؤں کے لوگ یہاں سے ہجرت کررہے تھے۔

آدم خور بہت ہی خطرناک اور بے خوف ہو چکا تھا۔ وہ دن دہاڑے گاؤں پر حملہ کرکے اپنا شکار لے جاتا تھا۔جب ہم نے گاؤں کے لوگوں کو بتایا کہ اب آپ اس موذی جانور سے ظلم سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کرلیں گے تو ان کے پژمردہ چہروں پر خوشی کی سرخی آگئی۔

میں نے آسٹن سے کہا کہ وہ انہیں بتا دے اس موذی جانور کو ختم کرنے کے لیے کچھ مقامی لوگوں کا ہمارے ساتھ جانا ضروری ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی ہمارا ساتھ دینے کو تیار نہ ہوا۔لہٰذا ہم دونوں بدرقے کے بغیر ہی اس مہم پر روانہ ہو گئے۔

قبائلیوں کی زبانی ہمیں یہ بات معلوم ہو چکی تھی کہ ندی کے کنارے جنگل کا ایک خاص حصہ اس آدم خور کی آماجگاہ ہے۔آسٹن جنگل کے اس حصے سے تھوڑا بہت آشنا تھا، اس لیے وہاں پہنچنے میں ہمیں زیادہ پریشانی نہ اٹھانی پڑی۔یہ جھاڑوں سے ڈھکا ہوا ایک تنگ و تاریک میدان تھا اور اس سے ذرا آگے ایک ندی موجیں ماررہی تھی۔

اس جگہ کا مکمل طور پر جائزہ لینے کے بعد ہم واپس گاؤں کی طرف چل دیے۔میں نے آسٹن سے کہہ دیا تھا کہ آج ہم صرف وہ جگہ دیکھیں گے جہاں شیر کے پائے جانے کا امکان ہے۔شکار کا باقاعدہ پروگرام کل سے شروع کریں گے۔

جب ہم اس میدان سے کافی دور نکل آئے تو اچانک میری نظر بائیں جانب ایک سر سبز قطعے پر پڑی جہاں امپالا اور زیبرے بڑے انہماک سے چر رہے تھے۔ ہم ان کے قریب سے گزرے تو وہ چھلانگیں لگتے ہوئے بھاگے اور جنگل میں گم ہو گئے۔

امپالا، افریقہ میں ایک خوبصورت قسم کا ہرن ہوتا ہے۔وہاں کے لوگ بڑے شوق سے اس کا شکار کرتے ہیں۔یہ جانور بہت ہی ڈرپوک ہے،ذرا سا خطرہ محسوس ہوتے ہی گولی کی سی تیزی سے بھاگ جانا جاتا ہے۔اس کی چھلانگیں بہت اونچی اور لمبی ہوتی ہیں اور کچھ ایسی خوبصورتی لیے ہوئے کہ اکثر شکاری محو حیرت رہ جاتے ہیں اور وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوتا ہے۔جب وہ چھلانگ لگاتا ہے تو گویا ہوا میں لہراتا، ڈولتا جاتا ہے۔

جب یہ جانور نظروں سے اوجھل ہو گئے تو میں نے آسٹن سے کہا:
’’دیکھو آسٹن کتنے خوبصورت ہیں یہ ہرن!جی چاہتا ہے،ان کا شکار کریں۔‘‘
آسٹن نے مجھے احساس دلایا:
’’اس وقت ہم انتہائی خطرناک علاقے میں ہیں۔عین مکن ہے آدم خور کہیں آس پاس چھپا ہوا ہو۔‘‘ اور اس کی یہ بات حیرت انگیز طور پر سچ ثابت ہوئی۔

ہمارے دائیں جانب کوئی پچاس گز کے فاصلے پر جھاڑیوں میں خفیف سی جنبش ہوئی اور ساتھ ہی ایک مہیب گرج نے جنگل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ہمارے رگ و پے میں سنسنی سی دوڑ گئی۔

’’آدم خور شیر،مسٹر مہدی۔‘‘آسٹن نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔

آدم خور نے ہمیں دیکھ لیا تھا اور بڑے مطمئن انداز میں خراماں خراماں ہماری طرف بڑھ رہا تھا۔ہمارے پاس برمنگھم رائفلیں تھیں۔آسٹن نے جلدی سے ایک درخت کی آڑ لیتے ہوئے آدم خور پر فائر کر دیا۔اس کی یہ حرکت شکار کے آداب اور میرے منشا دونوں کے خلاف تھی لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ آدم خور دہاڑا اور ایک طرف کو بھاگ گیا۔ میں نے دیکھا، بھاگتے ہوئے وہ لنگڑا رہا تھا۔ گولی شاید اس کے پاؤں پر لگی تھی۔

میں نے ناپسندیدگی کا اظہار رتے ہوئے کہا:
’’مسٹر آسٹن،آپ نے ایک اچھا موقع ضائع کر دیا۔اگر آپ عجلت سے کام نہ لیتے تو یہ شیر بچ کر نہ جاتا اور ہم آنے والی مشکلات سے بچ جاتے، بہرحال آئندہ محتاط رہیں۔‘‘

آسٹن نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور ہم آگے روانہ ہو گئے۔
سورج آہستہ آہستہ مغرب میں غروب ہو رہا تھا لیکن جنگل ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ ہمیں احساس ہوا کہ ہم راستہ بھول گئے ہیں۔میں بالکل نا آشنا تھا لیکن آسٹن جو اس سے قبل دو بار اس جنگل میں آچکا تھا، خود کو بالکل اجنبی محسوس نہ کررہا تھا۔ جیسے جیسے شام گہری ہوتی جارہی تھی، کیڑے مکوڑے اور جنگلی جانور بیدار ہوتے جارہے تھے۔

ناگاہ آسٹن چیخا:
’’مہدی بچو،سانپ۔۔۔‘‘

میں اچھا اور ایک سیاہ ناگ لہراتا سیدھا نکل گیا۔ اس کے بعد بھی کئی حادثات سے دو چار ہوئے لیکن بالآخر ہم دو گھنٹے آوارہ پھرنے کے بعد گاؤں پہنچ گئے لیکن یہ وہ گاؤں نہ تھا بلکہ کوئی اور ہی بستی تھی۔یہ قبائلی بستی تھی جو جنگل میں واقع تھی ،معاً مجھے خوف لاحق ہوا کہ درندے کی طرح یہ قبائلی بھی آدم خور ہوتے ہیں کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔لیکن شکر ہے یہ قبائلی بھی بڑے تپاک سے پیش آئے۔آسٹن نے انہیں بتایا کہ ایک آدم خور ان کے قریبی گاؤں پر حملہ آور ہوتا ہے،ہم اسے ختم کرنے کے لیے آئے ہیں۔

یہ سن کر وہ لوگ بہت خوش ہوئے۔۔۔انہوں نے کہا:
’’یہ خونخوار درندہ ہمارے بھی پانچ آدمیوں کو ہلاک کر چکا ہے۔‘‘
ہم نے انہیں تسلی دی کہ اب وہ موذی اپنے انجام کو پہنچ کررہے گا۔

آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 15)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں