آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر15)

 

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر15)

اس گاؤں کے باشندے پہلے گاؤں والوں سے مختلف تھے۔ انہوں نے ہمارے ساتھ پورا پورا تعاون کرنے کا وعدہ کرلیا اور دوسری صبح جب ہم اپنی مہم پر روانہ ہوئے تو ان کے کئی نوجوان ہمارے ساتھ وہاں تک آئے جہاں شیر کے ملنے کا امکان تھا۔

وہاں پہنچ کر ہم نے رائفلیں لوڈ کیں اور مناسب ٹھکانوں پر بیٹھ گئے۔میرا خیال تھا یہاں ہمیں کافی دیر شیر کا انتظار کرنا پڑے گا لیکن ابھی چند ساعتیں ہی گزری تھیں کہ آسٹن چیخ اٹھا:

’’شیر!‘‘
میں نے گھبرا کر پوچھا:
’’کہاں ہے وہ؟‘‘
آسٹن نے ندی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’وہ دیکھو۔۔۔‘‘

آدم خور ہم سے پچاس بچپن گز کے فاصلے پر ندی کے کنارے کھڑا تھا۔ اس کی آنکھیں غصے سے شعلے برسا رہی تھیں اور بڑی شان بے نیازی سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے دم ہلارہا تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ حملہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
آسٹن نے فائر کرنے کے لیے جھٹ رائفل اٹھائی اور میرے منع کرتے کرتے فائر کر دیا۔
آدم خور نے ایک لمبی جست لگائی اور آسٹن پر آگرا اور اپنا بدلہ لے لیا۔

آسٹن کی ناگہانی موت پر مجھے سخت قلق ہوا۔وہ ایک خلیق اور اچھا دوست تھا۔ آدم خور جاچکا تھا۔

میں گھٹنوں میں سردیے دیر تک بیٹھا رہا۔


اس سانحے پر مجھے بے اختیار وہ واقعہ یاد آیگا جو ملایا کے جنگلوں میں پیش آیا تھا۔میں وہاں اپنے پرانے شکاری بزرگ سردار صاحب کے ہاں ٹھہرا تھا۔ ایک دن انہوں نے مجھے شیر کے شکار کی دعوت دی اور میں نے پس وپیش کیے بغیر قبول کرلی۔

دوسرے روز شام ہونے سے ذرا پہلے ہم دونوں ضروری سامان کے ساتھ جنگل کی طرف چل دیے۔

یہ سردار صاحب اپنے گاؤں کے سب سے زیادہ با اثر اور دولت مند شخص تھے۔ اس کے ساتھ ہی تعلیم یافتہ بھی اچھے خاصے تھے۔

تھوڑی دیر کے بعد ہم جنگل میں پہنچ گئے۔ہر طرف تاریکی اور سناٹا چھایا ہوا تھا۔جنگل کے پر ہول ماحول میں کوئی درندہ دہاڑتا تو دہشت میں ہزاروں گنا اضافہ ہو جاتا۔

یادرہے یہ سردیوں کے دن تھے۔ میں نے اوورکوٹ پہن رکھا تھا لیکن سردار صاحب صرف تہہ بند اپنے جسم پر لپیٹے ہوئے تھے۔ میں کئی بار ان سے کہہ چکا تھا کہ آپ کوئی موٹا کپڑا لے لیں لیکن وہ بڑی شان بے نیازی سے کہتے:

’’بس بھئی مجھے یہی کافی ہے۔‘‘
خاردار جھاڑیوں میں سے ہوتے ہوئے ہم چلے جارہے تھے۔ناگاہ سردار صاحب نے مجھے ٹھہرنے کے لیے کہا۔میں نے ان کی طرف رخ کیا۔ وہ جدھر دیکھ رہے تھے، ادھر کو مشکوک شے نظر نہ آئی۔انہوں نے میرے تحیر کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا:

’’بھئی ہمیں مچان یہیں باندھنا چاہیے۔‘‘
میں نے بکرے کی رسی ان کے ہاتھ میں تھمائی اور ایک درخت پر چڑھ کر مچان باندھنے لگا۔ اس کام سے فارغ ہونے کے بعد میں نے ایک جھاڑی سے بکرا باندھا اور پھر ہم دونوں جلدی جلدی مچان پر چڑھ گئے۔

رات اپنے پہلے مرحلے کے آخری لمحات میں تھی۔بکرا اس تاریکی اور سناٹے اور سردی میں میں میں کرکے شور مچانے لگا۔

ہم بڑی بے قراری سے آدم خور کا انتظار کررہے تھے۔پتا بھی کھڑ کا تو ہوشیار ہو جاتے۔اسی حالت میں کوئی ڈیڑھ گھنٹہ گزراہوگا کہ شیر کی ہلکی سی دہاڑ سنائی دی۔ میں مستعد ہو کر بیٹھ گیا۔ وہ آچکا تھا جس کے انتظار میں ہم یہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ایک خوفناک دہاڑ کے ساتھ وہ بکرے پر حملہ آور ہوا اور اس کے ساتھ ہی ایسی آواز آئی جیسے کوئی چیز ذرا دیر بعد ہی بلندی سے گری ہو۔ یہ آواز سردار صاحب کی رائفل کے گرنے کی تھی۔ شایدان پر غنودگی چھا گئی تھی۔وہ آدم خور کی دہاڑ سے چونکے اور ان کے ہاتھ سے رائفل چھوٹ کر زمین پر آپڑی۔

آدم خور خطرہ بھانپ کر بھاگ گیا۔ سرداراپنی غفلت پر شرمندہ تھے۔کچھ دیر بعد وہ اپنی رائفل اٹھانے کے لیے درخت پر اتر آئے۔میں نے انہیں بہت روکا، لیکن وہ نہ مانے اور اس بے تدبیری کی سزا بھگتنا پڑی۔وہ رائفل اٹھاکر پیچھے ہٹنا چاہتے تھے کہ سامنے والی جھاڑی سے آدم خور نمودار ہوا اور جست لگا کر ان پر جاگرا۔پل بھر میں ان کا قصہ تمام ہو گیا۔ میں نے کئی فائر کیے لیکن سبھی خالی گئے۔

آسٹن کی موت کا واقعہ بھی ایسا ہی اندوہناک تھا۔ بہرحال میں نے ملاح کے ساتھ مل کر اس کی قبر تیار کی اور اسے سپرد خاک کر دیا۔ گاؤں سے جو لوگ میرے ساتھ آئے تھے، ان میں سے بس ایک یہی شخص رہ گیا تھا،باقی سب فرار ہو گئے تھے۔

آسٹن کی سپرد خاک کرنے کے بعد ہم دونوں بھی گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے۔ملاح میرے آگے آگے چل رہا تھا۔ اچانک وہ چیخا اور ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی مادری زبان میں کچھ کہنے لگا۔

میں نے اس کے اشارے کی سیدھ میں دیکھا، مبہوت سا ہو کر رہ گیا۔چند فٹ کے فاصلے پر ایک لاش تھی جس کا کچھ حصہ کھایا ہوا تھا۔ میں بہت محتاط ہو کر لاش کی طرف بڑھنے لگا۔ ملاح نے میری تقلید کی۔ہم چند قدم ہی چلے گئے کہ ایک خوفناک دہاڑ کے ساتھ ملاح کی چیخ ابھری۔ آدم خور ملاح پر حملہ آور ہو چکا تھا۔میں نے فوراً رائفل سنبھالی لیکن اس سے پہلے کہ گولی چلاتا،مجھے اپنے پاؤں کے اردگرد کسی نرم سی شے کی سرسراہٹ محسوس ہوئی۔نیچے نظر ڈالی تو خوف کی وجہ سے میرا برا حال ہو گیا۔

ایک بہت بڑا سانپ میرے پاؤں کے اردگرد حلقہ بنانے میں مصروف تھا۔ میں پوری قوت سے اوپر اچھلا اور سانپ کو اپنے مضبوط جوتوں سے کچل دیا۔اسی اثناء میں آدم خور وہاں سے جا چکا تھا۔ میں سخت نادم تھا کہ اپنے ساتھی کی مدد نہ کر سکا۔ کچھ دیر متأسف سا وہاں کھڑا رہا اور پھر اندازے ہی سے ایک طرف روانہ ہو گیا۔

جنگل کی بھول بھلیوں سے آواز ہو کر گاؤں کے نواح میں پہنچا تو صبح کے آثار ظاہر ہو رہے تھے۔پالتو کتوں نے اپنے روایتی انداز میں میرااستقبال کیا۔ نا آشنائی کی صورت میں یہ بھی خاصی خوفناک مخلوق تھی لیکن جھونپڑی سے ایک شخص نکل کر اپنی مادری زبان میں کچھ بولا۔ میں نے جواب میں اسے اشاروں سے بتایا کہ میں صبح والا شکاری ہوں جسے اس گاؤں کے لوگ آدم خور کو ختم کرنے کے لیے جنگل میں لے گئے تھے۔اس نے میرا بازو پکڑا اور اپنی جھونپڑی میں لے گیا۔ تھکاوٹ سے میرے جسم کا انگ دکھ رہا تھا۔میں نے تکلف کوبالائے طاق رکھا اور چٹائی پر دراز ہو گیا اور وہ شخص بڑبڑا تا ہوا باہر چلا گیا۔

اس کے ذرا دیر بعد ہی باہر بہت سے آدمیوں کے بولنے کا شور سنائی دیا۔ پھر ایک آدمی میرے پاس آیا اور انگریزی میں مجھ سے پوچھا:

’’اکیلے آئے ہو،دوسرے کہاں ہیں؟‘‘
میں نے اٹھ کر تحمل سے تمام داستان سنا دی۔وہ واپس آن لوگوں کے پاس چلا گیا۔

ملاح اور آسٹن کے ہلاک ہو جانے کی خبر سن کر ان میں سراسیمگی پھیل گئی۔میں بھی اس خیال سے خوفزدہ ہو گیا کہ کہیں یہ مجھ سے انتقام نہ لیں لیکن خیریت گزری۔ تھوڑی دیر بعد وہی آدمی پھر آیا اور رازداری کے انداز میں بولا:

’’اب خاموشی سے واپس چلے جاؤ،ورنہ تم بھی اپنی جان کھو بیٹھو گے۔وہ کوئی آسمانی بلا ہے،آدم خور نہیں جو اتنے انسانوں کو شکار کر چکی ہے۔‘‘

’’میں ایسا شکاری نہیں ہوں میرے محسن!جو اتنی سی بات پر خوفزدہ ہو کر واپس بھاگ جاؤں گا۔اب تو میں اسے ختم کرکے ہی دم لوں گا،چاہے میں خود کیوں نہ ختم ہو جاؤں۔‘‘ میں نے جواباً کہا۔

’’تم سمجھتے کیوں نہیں؟‘‘وہ پھر چیخ کر بولا۔
’’نادان شخص!ہم تمہاری اب کچھ مدد نہیں کر سکتے۔اگر تم اپنی جان گنوانا چاہتے ہو تو اکیلے جاؤں جنگل میں۔‘‘
اب میں نے اسے کوئی جواب نہ دیا۔

میں نے کھانا کھانے کے بعد اپنی رائفل سنبھالی اور ان کا شکریہ ادا کرکے جنگل کی طرف چلاپڑا۔اس ظالم آدم خور کے خلاف میرا غصہ انتہا کو پہنچ چکا تھا۔میں اس کے ساتھ ایک آخری جنگ لڑنا چاہتا تھا اور اس معرکے میں اپنی جان کی بازی لگا دینے کا فیصلہ کر چکا تھا۔

میں اپنی دھن میں چلا جارہا تھا۔اچانک بوزنوں کا ایک گروہ میرے سامنے آگیا اور چیخنے چلانے لگا۔وہ ایک درخت کی شاخوں سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگارہے تھے اور خوفناک انداز میں چیخ رہے تھے۔بوزنا انسانوں کی طرح منفرد شکل رکھتا ہے اور بالعموم خطرے کے وقت ہی شور مچاتا ہے۔چنانچہ میں سمجھ گیا کہ شیراسی علاقے میں موجود ہے۔میں ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا اور تجس بھری نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔

میرا اندازہ غلط نہ نکلا۔ایک گھنی جھاڑی میں شیر کا سر نظر آیا۔وہ بہت غصیلے انداز میں میری طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے ایک خوفناک دہاڑ کے ساتھ مجھ پر حملہ کر دیا اور میں ایک طرف لڑھک گیا۔مجھے اپنی موت میں کوئی شبہہ باقی نہ رہ گیا تھا لیکن خوش قسمتی سے میرے ہاتھ میں ایک ڈنڈا آگیا اور میں نے اسے پوری قوت سے آدم خور کے حلق میں ٹھونس دیا۔

آدم خور اتنے زور سے دہاڑا کہ جنگل گونج گیا۔وہ بہت تیزی سے ایک طرف کو بھاگا۔ یہ قدرت کی طرف سے میری بروقت امداد تھی لیکن پھر بھی میں زخمی ہو گیا تھا۔ آدم خور کے جانے کے بعد کراہتا ہوا اٹھا۔ میرے کپڑے تقریباً پھٹ چکے تھے اور جسم پر بہت سی خراشیں تھیں جن سے خون رس رہا تھا۔

مجھے اس آدم خور پر حیرانی تھی۔ وہ دیگر آدم خوروں سے بالکل مختلف تھا۔اچانک ہی یوں نمودار ہو جاتا تھا جیسے سچ مچ چھلا وہ ہو۔تاہم اب میں اس کی طرف سے سکی قدر بے فکر تھا۔ یقین تھا کہ ڈنڈا اس کے حلق سے کبھی نہ نکلے گا اور وہ ہلاک ہو جائے گا۔ حواس کچھ بحال ہوئے تو ایک درخت سے پھل توڑ کر کھائے،چشمے کا ٹھنڈا پانی پیا اور آرام کرنے کے لیے لیٹ گیا۔ اگرچہ بہت تھکا ہوا تھا لیکن حواس پوری طرح بحال تھے۔کچھ دیر آرام کرنے کے بعد اٹھ بیٹھا اور رائفل سنبھال کر آدم خور کی تلاش میں چل نکلا۔ میں یہ بات اچھی طرح سمجھتا تھا کہ اسے موت کی نیند سلائے بغیر لوگوں کو اس کے خطرے سے بچایا نہیں جا سکتا۔

کوئی ڈیڑھ گھنٹے بعد میں ایک غار کے قریب سے گزرا تو اندر سے شیر کے ہانپنے اور کراہنے کی سی آواز آئی۔ میں نے فوراً اپنی رائفل سنبھال لی اور دبے قدموں غار کے منہ پر پہنچ گیا۔ دل میں پکاارادہ کرلیا تھا کہ یہ مرا آخری معرکہ ہے۔خواہ جان جائے یا رہے،قدم پیچھے نہ ہٹاؤں گا۔

دوسری طرف شیر بھی میری بوپا کر ہوشیار ہو چکا تھا۔وہ بہت پھرتی سے اٹھا۔ اس کے خوفناک پنجے اب بھی میرے لیے پیام اجل بن سکتے تھے لیکن میں نے اسے جست لگانے کی مہلت ہی نہ دی۔گولی اس کے سینے کو چھیدتی ہوئی گزر گئی۔

آدم خور اچھل کر نیچے گر اور تڑپنے لگا۔ میں نے یکے بعد دیگرے دو اور گولیاں اس کے جسم میں اتار دیں اور چند لمحوں کے بعد اس ظالم اور دیوہیکل درندے کی لاش ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ میں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا معرکہ سر کرلیا تھا۔

اس سلسلے میں اب صرف اتنی بات اور بتانے کے قابل ہے کہ اس علاقے کے لوگوں کو جب آدم خور کے مارے جانے کا علم ہوا تو انہوں نے مجھے تحفوں سے لاددیا اور میری اس طرح عزت کی، گویا میں کوئی قومی ہیرو ہوں لیکن اس عزت افزائی سے زیادہ مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ میں ایک موذی کا خاتمہ کرکے ہزاروں انسانوں کو خوف سے نجات دلا چکا تھا۔

بھوپال کے ولی عہد، نواب نصر اللہ خان اپنے زمانے کے سب سے مشہور شکاری سمجھے جاتے تھے۔ اللہ نے دولت، صحت اور وقت کی بے اندازہ نعمتیں عطا فرمائی تھیں لیکن ان سب کا مصرف نواب صاحب کے ہاں ایک اور صرف ایک تھا یعنی شکار اور وہ بھی شیر تک محدود۔۔۔بھوپال، وسط ہند کی ایک زرخیز ریاست تھی۔ بندھیا چل کی پہاڑیوں سے گھری ہوئی۔ بارش کی فراوانی نے ان پہاڑوں اور ان کے درمیان گھرے میدانوں میں گھنے جنگل اگار رکھے تھے،جگہ جگہ چشمے اور تالاب تھے جن سے جنگلی جانور اپنی پیاس بجھاتے اور آسودگی حاصل کرتے۔جھاڑیاں اور درخت،بعض مقامات پر اتنے گھنے تھے کہ انسان کے لیے وہاں تک پہنچنا مشکل تھا۔پہاڑیوں کے دامن میں جابجا غار تھے جو جنگلی جانوروں، بالخصوص شیروں کے مسکن بن گئے تھے۔ ان علاقوں میں دیہات اور آبادیاں کم تھیں، اس لیے جانوروں کو کھلی چھٹی ملی ہوئی تھی، جہاں چاہیں جائیں اور جوچاہیں کریں۔لنگوروں کے جھنڈ،درختوں پر چہلیں کرتے اور اچھل کود میں مصروف رہتے۔زہریلے سانپ اور اژدہے ٹہنیوں سے لٹکے یا جڑوں کے کھوکھلوں میں بیٹھے پھنکاریں مارا کرتے۔اس فضا میں اگر کسی منچلی طبیعت والے کو شکار کا شوق لاحق ہو جائے تو چنداں تعجب خیز نہیں۔نواب نصر اللہ خان کو بھی ماحول ہی نے شیر کا مسلمہ شکاری بنا دیا اور انہوں نے اپنی جوانی میں تقریباً سوا سو جانور ہلاک کیے جن کی کھالیں ان کے محل کا فرش اور سر،دیواروں کی زینت بنے۔

دلچسپی کا جب یہی مشغلہ ٹھہرا تو ظاہر ہے ان کے دوست احباب بھی زیادہ تر وہی لوگ ہوتے جنہیں اس فن میں مہارت حاصل تھی۔ڈاکٹر میکانگی، گوبلحاظ عہدہ،سول سرجن تھا لیکن مشاق نشانہ باز ہونے کی حیثیت سے نواب صاحب کا مشیر خاص بھی تھا۔شکاری اسلحہ، بندوق، رائفلوں اور چھروں کے متعلق اس کا مشورہ حرف آخر سمجھا جاتا۔ دوسرے نمبر پر میجر افتخار مرحوم تھے جو ہر موقع پر لازماً نواب صاحب کے ہمراہ ہوتے۔والد صاحب سے ان کے گہرے تعلقات تھے اور شیر کے ہر شکار کا حال وہ اس طرح سناتے کہ چھوٹی سے چھوٹی تفصیل بھی فروگذاشت نہ ہوتی۔انہیں میں سے ایک دلچسپ واقعہ جو میجر صاحب نے بیان کیا، ذہن میں اب تک محفوظ ہے۔

ننانوے کا پھیر تو مشہور ہی ہے لیکن نواب صاحب کو اس سلسلے میں جو سرگردانی ہوئی اس کا جواب نہیں۔سال میں ایک دو بلکہ تین شیر تک ان کی بندوق کا نشانہ بن جاتے اور ہر بار جولوگ ان کے ہمراہ ہوتے، انعام و اکرام سے سرفراز کیے جاتے لیکن ننانوے شکار پورے ہونے پر جس طرح کرکٹ کے کھلاڑی کو سنچری مکمل کرنے میں دیر لگتی ہے،اسی طرح نواب صاحب کو بھی غیر معمولی حالات سے دو چار ہونا پڑا۔پہلے تو سال بھر تک کانوں میں شیر کی بھنک تک نہ پڑی۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مفرور مجرموں کی طرح سب زیر زمین پوشیدہ ہو گئے ہیں۔جنگلوں کے اطراف واکناف میں راتوں کو بھینسے (جنہیں وہاں کی زبان میں ’’بودے‘‘ کہا جاتا ہے)باندھے جانے لگے کہ ان کی بوپا کرشیر آئے لیکن روزانہ یہی خبریں موصول ہوتیں سب بخیریت ہیں اور کسی کا بال تک بیکا نہیں ہوا۔ چھ مہینے اور گزر گئے۔ایک روز کلیا کھیڑی کی تحصیل سے اطلاع ملی کہ وہاں جنگلوں کے قریب کسی بیل کی نچی کھچی لاش پائی گئی ہے جس پر دانتوں اور پنجوں کے نشان ظاہر کرتے ہیں ،یہ کسی مردم خور شیر کے کرتوت ہیں۔نواب صاحب نے مجھے فوراً ٹیلی فون پر ہدایت کی جلد وہاں پہنچوں اور تحقیق کروں واقعے کی نوعیت کیا ہے؟برسات کے موسم میں بھوپال کی سیاہ مٹی دلدل بن جاتی ہے۔بیل گاڑی کاسفر، اوپر سے بارش، قہر درویش برجان درویش جانا پڑا۔دیکھتے ہی معلوم ہو گیا، کسی شیر ہی کاکارنامہ ہے بلکہ یہ بھی اندازہ ہو گیا وہ کوئی پرانا آزمودہ کار،خرانٹ جانور ہے جس نے چھٹتے ہی پہلے شکار کی گردن اور پھرپنجوں سے دل نوچ لیا۔میری اس رپورٹ پر تمام نوابی مشینیں حرکت میں آگئیں۔علاقہ کے ٹیپل (مکھیا)سے لے کر چوکیدار تک ہوشیار کر دیئے گئے کہ ان کے نواح میں خطرناک اور موذی شیر، انسانوں کی جان کا گاہک ہے اور نواب صاحب بہ نفس نفیس اس سے معاملات طے کرنے آرہے ہیں۔جگہ جگہ’’بودے‘‘ باندھے جانے لگے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ شیر کا قیام کس طرف ہے۔دس دن،بیس دن، ایک مہینہ گزر گیا۔بھینسے تھانوں پر کھڑے مزے سے چارہ کھاتے رہے اور کسی نے نہ پوچھا،تمہارے منہ میں کتنے دانت ہیں۔اس دوران میں نواب صاحب کی بے چینی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔واقف بھوپالی نے اس کیفیت کو یوں ادا کیا تھا

مخصر’’بودے‘‘ پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے

آخر اسی جنگل کے دوسرے کھنارے کوئی پچاس میل ہٹ کر ایک اور لاش پڑی ملی۔یہ ایک جری نوجوان تھا جس نے نہایت پامردی سے شیر کا مقابلہ کیا تھا اور شیر نے غصے میں اس کی ناک چباڈالی اور ہاتھوں کی ہڈیاں توڑ دی تھیں جس سے لاشہ خاصا ہیبت ناک ہو گیا تھا۔ آبادی بالکل قریب تھی اور لوگ بے انتہا خوفزدہ ،لیکن جب میں نے ڈھارس دی اور بتایا، نواب صاحب خود تشریف لا کر اس درندے سے انتقام لیں گے تو ان کے چہروں پر چھائی ہوئی مرونی قدرے کم ہوئی۔


آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 16)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں