آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر16)

 

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر16)

نواب صاحب بھوپال سے چل کر کلیا کھیڑی آگئے۔ہر دو میل کے فاصلے پر ’’بودے‘‘باندھے جانے لگے۔پولیس،پٹواری ،پٹیل سب ہی کو خبردار کر دیا گیا لیکن نتیجہ دہی ڈھاک کے تین پات۔شیر پھر جل دے گیا۔ نواب صاحب مایوس ہو کر واپس چلے گئے اور لوگ اپنے کاروبار میں مصروف ہو گئے۔تین مہینے اور گزر گئے۔سرکار کی بے تابیاں حد سے متجاوز ہونے لگیں۔خوش مزاجی کی جگہ چڑچڑاہت نے لے لی۔بے جا ضد،بات بات پر خفگی،اہلکاروں اور مصاحبوں کے واسطے سوہان روح بن گئی۔ہر شخص دست بہ دعا تھا کوئی چھوٹا موٹا شیر ہی آپھنسے تو مزاج کی برہمی دور ہو،مگر دعا آج قبول ہوتی تھی نہ کل۔صبر کا امتحان سخت ترین ہوتا جاتا جاتا تھا کہ یکایک ہبوڑوں کی ٹولی، ایک بچی کھچی لاش لے کر محل میں گھس آئی اور فریاد کرنے لگی جس طرح شیر نے ہماری بہو کو ہلاک کیا ہے اسی طرح اس درندے کی بوٹی بوٹی نوچی جائے۔معلوم ہوا اس مرتبہ وہ بدمعاش ان خانہ بدوشوں کے خیموں میں گھس گیا اور لڑکی کی چوٹی پکڑ کر گھسیٹتا ہوا جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔اگلے روز اس کی لاش میدان میں اس طرح پڑی ہوئی ملی کہ گردن سے نیچے پیٹ تک سارا گوشت غائب تھا۔

شہر کے دہشت نے پوری ریاست کو ہلا دیا ،نواب صاحب نے کہا اس دہشت گرد درندے کو مارنا ہی میں سب سے بڑا کام ہوگا جو سو معصوم انسانوں کو ہڑپ کرچکا ہے لہذاسرکاری مشین یکایک زور شور سے متحرک ہو گئی۔ جنگل کے اس حصے کا محاصرہ کر لیا گیا کہ شیر بچ کر نہ نکل جائے۔ٹیلیفون لائن جائے وقوعہ تک نصب کر دی گئی اور گھنٹہ گھنٹہ کی خبریں محل تک پہنچنے لگیں۔محاذ آرائی کا ایسا منصوبہ تیار کیا گیا کہ ناکامی کاشائبہ تک باقی نہ رہے لیکن جب ایک ہفتہ گزر گیا تو شیر کمین گاہ سے نہ نکلا تو نواب صاحب کا مزاج پھر برہم ہونے لگا۔ارباب کی دوسری میٹنگ ہوئی اور طے پایا، شکار کو پانی کے گھاٹ پر للکارا جائے۔چھان بین سے معلوم ہوا،جنگل میں ایک وسیع تالاب ہے جس کے گرد قد آدم جھاڑیاں ہیں اور دو طرف ایسی پگڈنڈیاں جن کے ذریعے جنگلی جانور آکر پانی پیتے ہیں۔ان پگڈنڈیوں کے قریب مہوے کے دو تناور درخت مچان باندھنے کے لیے منتخب کرلیے گئے تاکہ ان پر متعین شکاری جوں ہی شیر دیکھیں، نواب صاحب کو ٹیلیفون پر اطلاع دی جائے۔مزدوروں کی ایک ٹولی کو کام کی نوعیت سمجھا دی گئی۔ابھی ہم لوٹے ہی تھے کہ یکایک جنگل میں شور و غوغا کی صدائیں بلند ہوئیں جس کے دوران ایک نہایت مہیب قسم کی گرج بھی سنائی دی اور پھر سکوت چھا گیا۔ہم لوگ رائفلیں سنبھالے، الٹے قدم واپس ہوئے لیکن معلوم ہوا شیر اپنا کام کر گیا اور مزدور جو جھاڑیوں کے قریب ’’فراغت‘‘حاصل کررہاتھا،لقمہ اجل بن گیا۔ایسا اندازہ ہوتا ہے جب ہم نہایت اطمینان سے مچان بنانے کی ہدایت کررہے تھے تو دشمن کسی قریبی جھاڑی سے ہماری حرکات و سکنات کا بغور مشاہدہ کر رہا تھا اور ہمارے حملے سے قبل خود ہی حملہ آور ہو گیا۔کئی روز کی تلاش و جستجو کے باوجود نہ پھر شیر کہیں نظر آیا، نہ اس شخص کی لاش ہی مل سکی۔

مثل مشہور ہے’’سودن چور کے ایک دن سادھ کا‘‘ تین مہینے اور گزر گئے۔سردیوں کی ابتدا تھی۔اتفاق سے اس شیر ہی کی بات ہو رہی تھی کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ داروغہ نے اطلاع دی کلیاکھیڑی کے ناظم(ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ)اسی کے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہیں۔میں نے آلے کو کان سے لگایا اور سب کی نظریں میری طرف لگ گئیں۔معلوم ہوا پہلی مرتبہ جس جگہ واردات ہوئی تھی وہیں ایک اور لاش پائی گئی ہے۔دو آدمی ساتھ ساتھ آرہے تھے کہ ایک پرشیر نے حملہ کردیا۔دوسرے کے ہاتھ میں کلہاڑی تھی جو اس نے خوف و سراسیمگی کی حالت میں شیر پر کھینچ ماری۔نشانہ غالباً آنکھ پر پڑا اور وہ بلبلاتا ہوا لاش چھوڑ کر بھاگ گیا۔اس علاقے میں پہاڑی کے اوپر ایک چشمہ تھا جسے مقامی لوگ’’ٹانکہ‘‘کہا کرتے تھے، وہاں پیروں کے بہ کثرت نشان اس بات کا ثبوت تھے شیر پانی پینے اسی گھاٹ پر آتا ہے۔عمر بھر میں نے شاید اس سرعت سے کسی سفر کی تیار نہ کی تھی، جتنی اس موقع پر کی۔نواب صاحب کے علاوہ ہم تین آدمی برمنگھم رائفلیں لیے جن میں تیز سرچ لائٹ لگی ہوئی تھی، مچان میں چوکنا بیٹھے تھے۔وہ رات جس اضطراب اور بے چینی سے گزری، شاید کسی عاشق کی شب ہجراں بھی اس طور سے نہ گزری ہو گی۔۔۔سگریٹ پینے کی اجازت نہ تھی، اس لیے چائے سے سکون حاصل کرتے رہے۔دو بجے تک چاروں تھرماس خالی ہو گئے لیکن شکار اب نظر آتا ہے نہ تب۔ ہر طرف ایسا سناٹا تھا کہ جھینگر کی آواز نہ سنائی دیتی تھی۔یہ اس بات کی صریح علامت تھی شیر قریب ہی کہیں موجود ہے اور کسی وقت بھی ادھر آسکتا ہے۔گھڑی میں دو بج کر سات منٹ ہوئے تھے نواب صاحب کی دور رس نظروں نے کنارے لگی ہوئی جھاڑیوں میں خفیف سی جنبش محسوس کی اور میرا گھٹنا دبا کر اس طرف اشارہ کیا۔دو چمکدار آنکھیں ہمیں گھور رہی تھیں۔میرے روکنے اور محتاط رکھنے کے باوجود نواب صاحب نے نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔ ایک ہلکی سی غراہٹ سنائی دی۔جھاڑیوں میں ہلچل ہوئی۔اعظم خاں نے بھی خواہ مخواہ اپنی رائفل خالی کر دی، شیر نکل گیا تھا۔ نیچے اترنا خطرناک تھا، اس لیے صبح تک انتظار کرتے رہے۔دن نکلنے پر دیکھا، خون کی پتلی سی لکیر دور تک چلی گئی ہے۔ایک جگہ خون آلود پنجے کے نشان بالکل صاف تھے جس سے اندازہ ہوتا تھا اس کا ایک پاؤں زخمی ہو گیا۔دیکھاتو وہ نظر آیا جس پر اس نے اپنے بدن کو اچھی طرح رگڑا تھا۔اس سے آگے خون کے نشان ناپید تھے۔یہاں پر میدان ختم ہو جاتا تھا اور پہاڑیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوتا تھا جن کی پشت پر گھنی خاردار جھاڑیاں تھیں۔آگے تلاش بھی بے سود تھی اور تالاب پر قیام کرنا بھی بے کار،کیونکہ اب تو وہ لوٹ کر آنے سے رہا۔ اس لیے بے نیل مرام واپس آگئے۔

سانپ نکل گیا لکیر پیٹا کرو کے مصداق اب یہ لکیر زیادہ واضح ہو گئی تھی۔ہر تھانے کو اطلاع دے دی گئی کہ چوکنار ہیں۔کھوجیوں کو انعام کا لالچ دے کر خبردار کر دیا گیا۔اگر کسی جگہ صرف تین پنجوں کے نشان نظر آئیں تو فوراً کو توال شہر کو مطلع کریں۔جنگلوں کی ناکہ بندی زیادہ سخت کر دی گئی تھی۔خیال تھا اس طرح بہت جلد اس مردم خورکا پتا لگ جائے گا لیکن دن ہفتوں میں تبدیل ہوتے رہے اور کہیں سے کوئی خبر موصول نہ ہوئی۔ایک روز میں کسی تقریب سے کلیا کھیڑی گیا ہوا تھا کہ مقدم کا لڑکا میرے پاس آیا اور کہنے لگا ہمارے کھوجی نے آپ کے شیر کا پتا لگا لیا ہے۔اس کے قدم یہاں سے سات میل دور دیکھے گئے ہیں۔کچھ اور لوگوں نے بھی تصدیق کی اور دو دن کے اندر اندر جنگل کے اس خطے کا محاصرہ کرلیا گیا۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ہماری موجودگی کے دوران ہی میں دس بارہ سال کا ایک بچہ جو چار پائی پر اکیلا سو رہا تھا، غائب ہو گیا۔چار پائی کے گرد تین پنجوں کے نشان صاف غمازی کررہے تھے یہ اسی بدمعاش کی حرکت ہے جوہر مرتبہ ہمیں جل دے جاتا ہے۔لڑکے کے قمیض اور ہڈیوں کے ٹکڑے بھی ایک جگہ مل گئے مگر خود شیر کہیں نظر نہ آیا۔ ہم سب پر خوب لعن طعن ہوئی۔ نواب صاحب کا پارہ الگ چڑھا لیکن حاصل کچھ نہ ہوا۔

شیرکے ارادے خطرناک تھے۔ننانوے کا پھیر بدستور جاری تھا۔ایسا معلوم ہوتاتھا سنچری کبھی مکمل نہ ہو گی۔شکار ہاتھ سے نکل جانے کا اتنا افسوس نہ تھا جتنا یہ صدمہ کہ ایک کی کمی پوری نہیں ہو رہی۔ سردی کا موسم، آگ تاپتے اور ہاتھ ملتے گزر گیا۔فیصل بہار میں بھوپال کے جنگلوں میں ڈھاک کے سرخ پھولوں سے آگ سی لگ جاتی ہے۔ہرے ہرے پتوں میں قرمزی پھول ہر طرف سے دعوت نظارہ دیتے ہیں لیکن ہمارے واسطے یہ موسم بالکل بے کیف تھا۔

چند روز سے خبریں موصول ہو رہی تھیں کلیا کھیڑی کے نواح میں سانبھر(نیل گائے)کھیت پامال کرنے لگے ہیں اور شکاری ان کی تاک میں ہیں۔ہم نے سوچا شیر نہیں تو انہیں کو نشانہ بنائیں۔کچھ تو تفریح ہو جائے گی۔ کیا خبر تھی اس سلسلے میں پرانے دوست سے بھی ملاقات مقدر ہے۔

سانبھر کی تلاش میں جنگل کے اندر گھسے ہی تھے کہ اک دل ہلا دینے والی گونج نے سب کو مبہوت کر دیا۔ کچھ گڈ ریے سر پر پاؤں رکھے بھاگتے نظر آئے۔دریافت پر معلوم ہوا شیر کی تلاش میں جارہے تھے اور تتر بتر ہو گئے تھے کہ ان میں سے ایک جو نسبتاً دور نکل گیا تھا وہ شیر کی بھوک کا نشانہ بن گیا۔جنگل کا یہ حصہ چونکہ مختصر تھا۔چھپنے کی جگہ بھی کم تھی اور تالاب بھی ایک ہی تھا۔ اس لیے شیر کو گھیر کر شکار کر لینا دشوار نہ تھا۔ چنانچہ فوراً محاصرہ کرلیا گیا۔نواب صاحب راتوں رات پہنچ گئے۔پانی کے قریب مچان بنا لیا اور ہانکا شروع ہو گیا۔ ڈھول پٹنے لگے تاکہ شیر اپنی کمین گاہ سے گھبرا کر باہر نکلے اور ہماری گولی کا نشانہ بن جائے لیکن وہ نظر آیا بھی تو کہاں؟ پہاڑی کی چوٹی پر،جو اتنے فاصلے پر تھی کہ بہترین نشانہ باز بھی حتمی طور پر نہیں کہہ سکتا تھا ضرور ہلاک ہو جائے گا۔ چار بندوقوں نے پے درپے گولیوں سے اس کا خیر مقدم کیا مگر شیر ایک جست میں دوسری طرف کود گیا اور جب لوگ پہاڑی کے اوپر پہنچے، غائب ہو چکا تھا۔

جنگل کا سلسلہ آگ بھی دور تک چلا گیا تھا۔ رات قریب تھی،نیچے اترنا خطرناک ضرور تھا لیکن شکار کو اگر یونہی چھوڑ دیا جاتا تو اس کا دوبارہ ہاتھ آنا مشکل تھا۔اس لیے یہی طے کیا گیا سب لوگ مستعد ہو کر تعاقب کریں اور دوسری طرف سے امدادی پارٹی آکر گھیرا ڈال دے۔تین دن اور رات اسی تگ ودو میں صرف ہوئے جن میں کھانا تو درکنار پانی بھی مشکل میسر آسکا۔ چوتھے روز ایک ایسی جگہ پہنچے جو اس جنگل کا بہترین علاقہ تھا اور شیر کے لیے بہترین اقامت گاہ۔۔۔جھاڑیوں کے درمیان کئی غار تھے اور ہماری شکاری حس پکار پکار کر کہہ رہی تھی ان پردوں میں ضرور کوئی مستور ہے۔چند گز کے فاصلے پر تالاب تھا جس کے کنارے جھاڑ جھنکاڑ سے صاف اور نشانہ بازی کے لیے نہایت موزوں تھے۔ مچان تیزی کے ساتھ بنا لیا گیا اور ہم تہیہ کر کے بیٹھ گئے خواہ کچھ ہی ہو جائے،شیر ہمارے ہاتھ سے بچ کر نہ جا سکے گا۔ نو بجے ہی سے فضا میں ایسا سکوت چھا گیا کہ گھڑی کی ٹک ٹک، گھنٹہ گھر کے گھڑیال کی طرح سنائی دیتی تھی۔تالاب میں اگر کوئی مینڈک کو دتا تو ایسا معلوم ہوتا بم کا گولہ پھٹا۔ ہوا سے پتے سرسراتے تو کان گونجنے لگتے۔کوئی بھولا بھٹکا گیدڑ پانی پینے آتا لیکن خدا معلوم کیا دیکھتا بغیر پیاس بجھائے الٹے پاؤں واپس ہو جاتا۔ جھینگرا کوئی راگ الاپنا شروع کر تا لیکن فوراً خاموش ہو جاتا۔ اب بارہ بجنے والے تھے۔نیند ہماری آنکھوں سے تقریباً غائب ہو گئی تھی۔ موسم سرما ختم ہو چکا تھا لیکن سردی رگوں میں پیوست ہوتی جارہی تھی ۔

نواب صاحب نے وشالہ اوڑھ لیا تھا اور میں صافہ لپیٹنے کی فکر میں تھا۔میں انہیں کہہ دیا تھا کہ جب تک میں نہ کہوں اب وہ شیر پر گولی نہیں چلائیں گے۔

اس دوران اچانک فضا میں کچھ تغیر سا محسوس ہوا، پھر زمین سے ارتعاش کی سی کیفیت پیدا ہوئی ۔دور سے دور روشن لالیٹنیں ،تاریکی کے پردے کو چیرتی ہوئی نمودار ہوئیں۔ایک لخطے میں شیر ہمارے سامنے تھا لیکن کیسا شیر؟قدوقامت میں دگنا نہیں توڈیوڑھا ضرور تھا۔ گردن کے بال زمین پر جھاڑو دے رہے تھے اور مقناطیسی آنکھیں مچان پر جمی ہوئی تھیں۔مولا بخش کی تو گھگھی بندھ گئی اور رائفل ہاتھ سے چوٹ کر نیچے جا گری۔ ٹارچ روشن کرتے ہوئے میرا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ انگشت شہادت، بندوق کی لبلبی کودباتی ضرور تھی لیکن بے قابو تھی۔ بندوق چلی مگر گولی سر سے دو نچ اونچی نکل گئی۔نواب صاحب کا نشانہ خطا نہیں ہوا۔ایک عجیب طرح کی غراہٹ شیر کے منہ سے نکلی۔لمحہ بھر کے لیے ایسا معلوم ہوا وہ آگے کی طرف جست بھرے گا لیکن کچھ سوچ کر مڑا اور دائیں کتراگیا۔پے درپے گولیوں نے اس کا تعاقب کیا وہ لنگڑاتا ہوا غائب ہو گیا۔نواب صاحب نے کہا ابھی میں گولی نہ چلاتا تو ہم سب شیر کا نوالہ بن جاتے۔فیصلہ حالات کے مطابق کرنا چاہئے اور اس میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔میں خاموش رہا کیوں کہ وہ درست کہہ رہے تھے۔

ہم نے شیر کو مجروح ضرور کر دیا تھا لیکن کس حد تک؟اس کا کسی کو علم نہ تھا۔ اس خواب کی تعبیر بھی غلط ہو گئی۔اور ہم ایک نئے خوف اور امتحان میں پڑگئے۔

آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 17)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font

تمام قسط وار کہانیاں یہاں سے پڑھیں

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں