آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر17)

  

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر17)

پچھلے شیر کو ہلاک ہوئے پورے دو سال ہو چکے تھے اور’’اسکور بک‘‘میں اب
 تک دوسرا اندراج نہ ہوا تھا۔ریاست میں ’’لنگڑے مہاراج‘‘کا ہر طرف شہرہ تھا۔پریوں،دیوؤں یا سانپوں کی طرح اس کے متعلق بھی طرح طرح کے افسانے رائج ہو چکے تھے۔کہیں اسے جن سمجھا جاتا اور کہیں کسی دیوتا کا اوتار۔غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔۔۔جنگل میں اگر کسی بھینس یا بیل کے کھروں کا نشان نظر آتا تو عوام اسے شیر ہی کا نقش پا سمجھتے اور دنوں غائب رہتے۔نواب صاحب کے کانوں تک بھی یہ افواہ پہنچ چکی تھی کہ سیسے کی گولی سے جن ہر گز ہلاک نہ ہو گا،اس کے لیے کسی عامل کا تعویذ ہی مجرب ہو سکتا ہے۔ایسی باتیں سن سن کر اور زیادہ طیش آتا اور بندوق کی نالی پر ہماری گرفت مضبوط تر ہو جاتی لیکن جب شکار ہی نہ ہو تو گولی کا ہد ف کون بنے؟
جون کی وہ شام مجھے ہمیشہ یادرہے گی۔دن بھر کی سخت گرمی اور لوکے بعد قویٰ کچھ مضمحل سے تھے،شربت اور فالودہ کا دور چل رہا تھا۔اچانک ٹیلیفون کی گھنٹی بجی اور سرکار کا نادر شاہی حکم صادر ہوا جیسے بیٹھے ہو چلے آؤ۔خدا معلوم کیا واقعہ پیش آیا تھا۔بیگم سے دو چار فقرے کہہ کر سیدھا نواب صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہاں خوب گہما گہمی تھی۔فوراً تہہ کو پہنچ گیا۔ ان کی محفل پر برطانیہ کی شکست کا بھی اتنا اثر نہ ہو سکتا تھا،جتنا شیر کی خبر کا۔جملہ تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔عید کے چاند کی طرح شیر نظر آگیا تھا اور کلیکاکھیڑی سے دس میل دور صندل کے جنگلوں میں چھپا ہوا تھا۔مجھے صرف آدھ گھنٹے کی مہلت دی گئی کہ رخت سفر باندھ کر تیار ہو جاؤں۔

مسلسل ناکامیوں نے ہمتیں پست کر دی تھیں۔۔۔دل کہتا’’بیٹا اس مرتبہ بھی خالی ہاتھ آؤ گے۔‘‘پھر کسی گوشے سے امید کی ہلکی سی کرن پھوٹتی اور قنوطی دل اس سے جگمگا اٹھتا۔ امید وبیم کی ان متضاد کیفیات میں ہم لوگ شکار گاہ تک پہنچ گئے۔

جنگل کا محدود رقبہ دیکھ کر یقین نہ آتا کہ ایسا دیوقامت شیر اتنی سی مختصر جگہ میں چھپا ہو گا لیکن ایک ہفتے میں مردم خوری کی دووارداتیں اس بات کا بین ثبوت تھیں کہ یہی اس خونخوار عفریت کی جائے پناہ ہے۔اس مرتبہ بجائے ایک کے،چار مچان بنائے گئے۔گویا شکار گاہ کو ہر طرف سے گھیر لیا گیا۔ تین طرف ہانکنے والے تعینات کر دیے گئے کہ ڈھول بجا بجا کر شیر کونواب صاحب کے مچان کی طرف بھگائیں اور وہ گولی کی زد پر آجائے۔

رات تک تیاریاں مکمل ہو گئیں اور ہم لوگوں نے اپنااپنا مستقر سنبھال لیا۔ نواب صاحب کے ہمراہ میں اور مجومیاں بیٹھے تھے۔بندوق کی نالیاں گھاٹ کی طرف تھیں اور آنکھیں جھاڑیوں پر مرکوز۔ گیارہ بجے کے قریب چاند کی کرنیں گردوپیش کے ماحول کو روشن کرنے لگیں۔ہوکا عالم طاری تھا، ہوا تک ساکت تھی کہ اچانک پتوں کی کھرکھڑاہٹ سے تلاطم سا پیدا ہوا۔ایک جانور تیزی سے بھاگتا ہوا سامنے سے گزرا اور چشم زدن میں غائب ہو گیا۔درختوں پر لنگور اچھلنے کودنے اور بلند ترین شاخوں پر چڑھنے لگے۔ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ مجومیاں نے میرے پہلو میں ہلکی سی چٹکی لی۔جنوب کی طرف سے ایک نامعلوم سا سایہ نمودار ہو رہا تھا۔ہم نے دور بینوں کا رخ اس کی طرف پھیر دیا۔سامنے وہی جانا پہچانا شیر تھا۔ اس نے اپنی ٹانگ اٹھا رکھی تھی اور پھدک پھدک کر چل رہا تھا۔ یکایک اس طرف کے مچان سے فائر ہوا۔شیر نے پینترا بدلا اور وارخالی گیا۔ ہانکے والوں نے ڈھول پیٹنے شروع کر دیئے تاکہ جانور سراسیمہ ہو کر دوسری طرف کا رخ کرے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ مشرق کی طرف مڑا اور قریب تھا ہانکے والوں کو زخمی کرکے نکل جائے۔اچانک دوسری گولی نے ان کا دایاں پاؤں توڑ ڈالا۔ہمارے مچان سے اگرچہ فاصلہ زیادہ تھا لیکن نواب صاحب کے واسطے صبر سے بیٹھنا ناممکن ہو گیا۔ شیر اپنے تازہ زخم کو دیکھ رہا تھا ۔ انہوں نے شست باندھ کر فائر کر دیا۔گولی بجائے سر میں پیوست ہونے کے جبڑا چیرتی ہوئی نکل گئی۔جنگل کا بادشاہ ایسی گستاخی کس طرح برداشت کر سکتا تھا؟اس نے ایک ایسی ہیبت ناک آواز بلند کی کہ دشت و جبل گونج اٹھے اور بدن میں لرزہ پیدا ہو گیا۔ ہانکے والے یا تو پیچھے ہٹ گئے یا بھاگ گئے۔میں نے بھی رائفل تانی اور قبل اس کے کہ وہ اس وقفے سے فائدہ اٹھا کر فرار ہونے کی کوشش کرتا، سرکا نشانہ لے کر لبلبی دبا دی۔شیر اب خطرے سے پوری طرح آگاہ ہو چکا تھا۔ ادھر میں نے فائر کیا، ادھر اس نے پہلو بدلا۔گولی سر کے بجائے ران کا گوشت چھیدتی ہوئی باہر نکل گئی اور اس کا تیسرا عضو بے کار ہو گیا۔وہ ایک بارپھر دہاڑا۔مجومیاں کے اوسان خطا ہو گئے اور ان کی بندوق نیچے جا گری۔اب خدا کا کرنا یکھئے،شیر نے غصے میں آکر رائفل دبوچ لی اور اس طرح بالکل ہمارے نشانے کی زد میں آگیا۔ ہماری دونوں گولیاں بیک وقت اس کے سینے میں اتر گئیں لیکن کس دل گردے کا جانور تھا!ہماری طرف نظریں جمائے گھورتا ہی رہا۔ خون کے کئی فوارے بدن سے جاری تھے۔ تمام نچلا دھڑ خون میں لت پت تھا مگر وہ اب بھی شکست تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھا۔میں نے چاہا سر پرگولی مار کر خاتمہ کر دوں مگر نواب صاحب کے جذبہ ترحم نے اس کی اجازت نہ دی۔وہ تو اس کی جرات اور پامردی کو تحسین کی نظروں سے دیکھ رہے تھے اور متاسف نظر آتے تھے۔تقریباً پندرہ منٹ تک یہی کیفیت رہی لیکن کب تک؟خون کے مسلسل اخراج سے نقاہت پیدا ہونے لگی اور بالآخر ہمارا شیر زمین پر چت ہو گیا۔اس کی نیم مردہ آنکھیں اب بھی مجھے گھور رہی تھیں لیکن ہمیں ان میں بجائے انتقامی جذبے کے مظلومیت کے آثار زیادہ نظرآتے تھے اور جب وہ دم توڑنے لگا تو نواب صاحب نے اپنا منہ رومال سے ڈھک لیا۔

نواب صاحب کی سنچری مکمل ہو گئی۔احباب نے مبارک بادیں دیں،اہلکاروں نے نذرانے پیش کیے،شاعروں نے قصیدے کہے،محل میں چراغاں کیا گیا، دعوتیں ہوئیں لیکن عجیب بات ہے اس موقع پر دل کی کلی جس طرح شگفتہ ہونی چاہئے تھی، وہ نہ تھی۔

یوں تو میں نے ایک سے ایک خونخوار شیر اور چیتے کا سامنا کیا ہے اور کتنی ہی مرتبہ موت کے منہ سے نکلا بھی ہوں لیکن جس واقعے کا ذکر کررہا ہوں وہ میری شکاری زندگی کا انتہائی بھیانک اور لرزہ خیز واقعہ ہے۔شیر کی آمد کا تو میں منتظر تھا ہی، مگر وہ چیخ جس نے میرے ہوش و حواس گم کر دیے ،قطعاً غیر متوقع تھی۔ رات کے گہرے سناٹے کو چیرتی ہوئی چیخ کی آواز جب میرے کانوں تک پہنچی تو یقین کیجئے، دہشت سے خون رگوں میں جمنے لگا۔ چند لمحوں کے لیے میں اس معصوم کبوتر کی مانند آنکھیں بند کیے دبکا رہا جو بلی کو اچانک اپنے سامنے دیکھ کر سہم جاتا ہے۔تھوڑی دیر بعد اوسان بحال ہوئے تو میں سوچنے لگا کہ اس بھیانک چیخ سے شیر کا کیا تعلق؟ شیر تو اس طرح کبھی چیختے نہیں اور میرے اردگرد یا دور تک کسی ایسے جانور کے ملنے کا امکان نہ تھا جو پراسرار چیخوں سے میرا کلیجہ ہلا دیتا۔

بڑی عجیب اور حیرت انگیز آواز تھی جو میں نے اس سے پہلے کبھی نہ سنی تھی۔ ابھی میں اس پر غور کرہی رہا تھا کہ دوبارہ وہی آواز جنگل میں گونجی اور آنکھوں کے سامنے بھوتوں کی خیالی شکلیں رقص کرنے لگیں جو چیخ چیخ کر میری بے بسی کا مذاق اڑا رہے تھے۔

میں ابتدا ہی سے کچھ وہمی طبیعت کا آدمی ہوں اور شکار وغیرہ کی مہموں میں جب غیر متوقع حادثوں سے دو چار ہونا پڑے تو سخت گھبرا جاتا ہوں۔چنانچہ یہ آوازی سننے کے بعد پہلا خیال دل میں یہی آیا کہ یہ رات بھی ضائع ہوئی۔دراصل حالات نے شروع شروع میں کچھ ایسا رخ اختیار کیا کہ میں بدک گیا اور ایک تو موقعہ واردات پر جانے کا ارادہ ہی ترک کر چکا تھا۔ تذبذب کی اولین وجہ’’گارے‘‘کی اطلاع کا نا وقت ملنا تھا۔’’گارا‘‘شکار کی اصطلاح میں اس مویشی کو کہتے ہیں جسے شیر نے ہلاک کیا ہو اور اسے کسی اور وقت آکر ہڑپ کرنے کے ارادے سے چھوڑ گیا ہو۔تیسرے پہر ساڑھے تین بجے تک کوئی اطلاع نہ ملی اور بعد میں جب خبر پہنچی تو ضروری انتظامات کے لیے وقت تنگ تھا۔گارا ہمارے گھر سے پانچ میل کے فاصلے پر تھا۔۔۔سردیوں کے دن تھے۔۔۔سورج جلد جلد اپنا سفر طے کرکے مغرب میں چھپ جاتا تھا اور تاریکی کے مہیب بادل بستیوں اور جنگل کو چاروں طرف سے گھیر لیتے تھے۔ان حالات میں مچان تک پہنچتے پہنچتے اندھیرا یقیناً مسلط ہو جاتا۔ میں نے پہلے سوچا کہ جانے کا ارادہ ترک کر دوں،کیونکہ کامیابی کا بظاہر کوئی امکان نہ تھا لیکن موقع ایسا تھا کہ میں اسے یونہی ضائع کرنا بھی نہ چاہتا تھا۔ شاید اس لیے کہ میرے مویشیوں کے تحفظ کا مسئلہ بھی سر اٹھا رہا تھا۔مویشی خورشیر ہمیشہ وسیع و عریض علاقے میں سرگرم عمل رہتا ہے اور ممکن تھا کہ یہ شیر ایک دوروز میں میرے علاقے پر بھی حملہ آور ہو جاتا، لہٰذا موذی کا پہلے ہی سے سر کچل دینا مناسب نظر آیا۔

خبر ملنے کے بیس منٹ بعد میں موگورا جانے والی پگڈنڈی پر چلا جارہا تھا۔ راستہ نہایت دشوار گزار اور خطرناک تھا لیکن میں ایک گھنٹے کے اندراندر موضع کے اندر پہنچ گیا۔گاؤں کے مکھیا اور دوسرے لوگوں کی ایک چھوٹی سی ٹولی سے ملاقات ہوئی۔ضروری معلومات فراہم کرنے میں کچھ دیر اور لگی۔مجھے ان لوگوں نے بتایا کہ گارا دوپہر کے فوراً بعد ہوا تھا اور شیر مردہ گائے کو گھسیٹ کر جنگل کے گھنے حصے میں لے گیا تھا۔گاؤں والے جب گائے کی تلاش میں نکلے تو انہوں نے ایک گھاٹی کے اندر لاش پڑی پائی، چونکہ ان وگوں کو آئے دن ایسی وارداتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور شکار کے آداب اور شکاری کی ہنگامی ضرورتوں سے آگاہ ہوتے ہیں، اس لیے انہوں نے فوراً ایک قریبی درخت پر مضبوط مچان باندھ دیا اور فوراً ہی ایک آدمی مجھے خبر دینے روانہ ہو گیا۔

اس حد تک تو سب ٹھیک ٹھاک ہوا تھا۔ بادی النظر میں یہی معلوم ہوتا تھا کہ ان لوگوں نے اپنے فرض کی ادائی میں ذرا بھی کوتاہی نہیں کی۔مچان کے بارے میں بتایا گیا کہ نہایت مضبوطی سے باندھا اور گھنی شاخوں اورپتوں سے چھپا دیا گیا ہے۔اب گاؤں والے میری جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔میں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی۔سورج غروب ہونے میں بیس پچیس منٹ باقی تھے لیکن جنگل میں ابھی سے اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔چند لمحے سستانے کے لیے میں مکھیا کے گھر کے باہر پڑے ہوئے ایک تخت پر بیٹھ گیا اور لوگوں کے چہروں کا بغور جائزہ لینے لگا۔ مجھے محسوس ہوا جیسے کوئی بات چھپائی جارہی ہے۔کوئی شخص مجھ سے آنکھ نہ ملاتا تھا۔ آخر میں مکھیا سے دریافت کیا:

’’اور کوئی بات تو نہیں جو تم لوگ مجھے بتانا بھول گئے ہو؟‘‘
اس سوال پر تھوڑی دیر خاموشی طاری رہی۔ لوگ کن انکھیوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے ۔مکھیا نے دیھرے سے جواب دیا:
’’جی نہیں اور تو کوئی ایسی بات نہیں۔‘‘

اس کا لہجہ چغلی کھارہا تھا کہ بات ضرور ،مگر دانستہ مجھ سے چھپائی جارہی ہے۔
بہرحال میں نے اس صورت حال پر تشویش کا قطعاً اظہار نہ کیا، کیونکہ جانتا تھا گاؤں والے نہایت سادہ دل اور نیک طینت لوگ ہیں۔اگر یہ کوئی بات چھپاتے ہیں تو محض اس وجہ سے کہ مجھے کہیں نقصان نہ پہنچ جائے۔انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ایک شخص تمام رات درندے کے انتظار میں مچان پر ٹنگا رہے گا اور نتیجہ تصیح اوقات کے سوا کچھ نہ نکلے گا۔ تاہم اپنی سادہ لوحی کے باعث جرح کے دوران میں تمام سربستہ راز اگل دیتے ہیں۔اب میں نے ایک نئے انداز سوال کیا:

’’مچان باندھنے والے آدمی واپس گاؤں آئے تو اس کے بعد کوئی آدمی مچان کے قریب گیا تھا؟‘‘
چند ثانیوں کی معنی خیز خاموشی کے بعد مکھیا نے پان کی پیک تھوکی اور سوال کا جواب دینے کے بجائے کہنے لگا:
’’سورج چھپنے والا ہے جناب، آپ جلدی سے مچان تک چلے جائیں،ورنہ اندھیرا ہو جائے گا۔‘‘

ان لوگوں کے نزدیک کسی سوال کا براہ راست جواب دینے سے بچنے کا یہی طریقہ ہے کہ پان کی پیک تھوک دی جائے۔یہ اشارہ ہاں یا نہیں،دونوں جواب ظاہر کرتا ہے جس کے بعد آپ کو اخلاقاً مزید زور نہیں دینا چاہیے بلکہ خود ہی کوئی رائے قائم کر لیجیے۔۔۔مجھے شک ہوا کہ مکھیا کے اس اشارے کا جواب’’ہاں‘‘ میں ہے اور مچان کے پاس یقیناً کوئی نہ کوئی گیا ہے۔میں مکھیا کو ایک طرف لے گیا اور کہا:

’’دیکھو بھائی،اگرتم ساری بات مجھے نہ بتاؤ گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے۔شیر آہستہ آہستہ تمہارے سب جانور ہڑپ کر جائے گا اور ہو سکتا ہے اس کے بعد آدمیوں کی باری آجائے۔‘‘

’’آپ کے آنے سے آدھ گھنٹہ پہلے گاؤں کے مویشی یہیں تھے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے ہاں چھوٹے چھوٹے لڑکے ڈنگروں کو لے کر جنگل میں پھرتے رہتے ہیں۔ہمارے دو لڑکوں نے بھی گائے کے بارے جانے کی خبر سن لی تھی اور وہ اس کی لاش دیکھنے کے لیے بڑے بے چین تھے۔ہم نے انہیں منع بھی کر دیا تھا کہ مچان کے قریب نہ جائیں مگر وہ نہ مانے۔‘‘

’’یہ بات تمہیں پہلے ہی بتانی چاہیے تھی۔‘‘میں نے کہا:’’اچھا یہ بتاؤ کہ لڑکوں کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا؟‘‘

مکھیا کے چہرے پر ہلکا سا تغیر نمودار ہوا جسے اس نے بڑی چالاکی سے منہ پھیر کر چھپانے کی کوشش کی لیکن میں اس کی گھبراہٹ تاڑ چکا تھا۔ اب میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔۔۔ضرور کوئی حادثہ پیش آیا ہے۔

’’ذرا ان لڑکوں کو بلاؤ،میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘

’’وہ بھی ابھی تک گاؤں میں نہیں آئے۔‘‘مکھیا نے بتایا:’’البتہ مویشی آچکے ہیں۔میرا خیال ہے وہ باندھا کھیڑا گاؤں بھاگ گئے ہوں گے،وہاں ان کی نانی رہتی ہے۔‘‘

یہ کوئی حوصلہ افزا ابتدا نہ تھی۔ میں نے دل ہی دل میں اس واقعے کی تصویر تیار کی۔ جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ شر یر لڑکے مویشی لے کر مچان کے قریب گئے لیکن شیر کی موجودگی سے خوف کھا کر مویشی بھاگ اٹھے اور گاؤں پہنچ گئے۔لڑکے ڈرے کہ اب انہیں سزا ملے گی، اس لیے وہ گاؤں آنے کے بجائے باندا کھیڑا کی طرف چلے گئے۔

آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 18)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font

تمام قسط وار کہانیاں یہاں سے پڑھیں

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں