آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر18)

   

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر18)

یہ حالات پیش نظر رکھتے ہوئے مجھے سوچنا تھا کہ مچان پر بیٹھوں یانہ بیٹھوں۔شیر میں اگرذرہ برابر بھی احتیاط کا مادہ ہے تو وہ یقیناً میلوں دور جا چکا ہو گا اور شام کی خوراک کے لیے کسی اور شکار کی تلاش میں پھر رہا ہو گا۔شیر کے بارے میں یوں بھی فیصلہ کن پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی کہ وہ کس وقت اور کہاں اچانک نمودار ہو جائے گا۔ بعض شیر مقررہ اصولوں پر سختی سے پابند ہوتے ہیں اور بعض جنگل کے اصولوں کی خلاف ورزی کرکے خوش رہتے ہیں۔یہ تمام باتیں شکاری کو اس وقت معلوم ہوتی ہیں جب کسی درندے سے اس کا پالا پڑتا ہے اور وہ اس کی حرکتوں سے فطرت کا کچھ اندازہ کرتا ہے۔ویسے میں برسبیل تذکرہ اپنا مشاہدہ بیان کردوں کہ جو لوگ شیر کہلوانا پسند کرتے ہیں ،اگر انکی شخصیت مضبوط ہوتو وہ بھی یہی کام کرتے ہیں۔مرضی کے مالک ۔درندوں پر نام القابات رکھنے سے انکی عادات بھی در آتی ہیں۔


گائے کی لاش گاؤں سے تقریباً ایک میل دور کھائی کے اندر پڑی تھی اور چار آدمی کندھوں پر بھاری کلہاڑے رکھے مجھے وہاں لے جانے کے لیے تیار کھڑے تھے۔مچان چونکہ باندھا جا چکا تھا، اس لیے میں نے بددلی کے ساتھ وہاں جانے کا فیصلہ کر ہی لیا ابھی ہم نے تین چوتھائی فاصلہ طے کیا تھا کہ آگے آگے جانے والا آدمی رکا اور سرگوشی کے لہجے میں بولا:

’’مچان اس بڑے پیپل کے پاس ہے۔اب ہم خاموشی سے آگے بڑھیں گے۔‘‘یہ کہہ کر وہ جانا چاہتا تھا کہ میں نے اسے روک لیا اور گردو پیش کا جائزہ لینے لگا۔چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں اور درختوں بھرا ہوا گھاس کا ایک وسیع قطعہ ہمارے گرد پھیلا وا تھا۔ تقریباً چار سو گز آگے پیپل کا ایک بہت اونچا اور غیر معمولی گھنا درخت سر اٹھائے نظر آیا۔میں نے سوچا،اگرمچان اس درخت پر باندھا گیا ہے تو وہاں تک مجھے تن تنہا جانا چاہیے۔ممکن ہے شیر ادھرادھر گھوم پھر کر دوبارہ گارے کے نزدیک آگیا ہو اور سورج چھپنے کے انتظار میں کسی جھاڑی کے اندر دبکا بیٹھا ہو۔میں نے اپنے ساتھیوں کو واپس جانے کی ہدایت کی اور جب وہ نظروں سے اوجھل ہوگئے تو رائفل کامعائنہ کرنے کے بعد میں کچھ دیر تک جنگل کی سن گن لیتا رہا۔ درختوں پر بسیرا کرنے والی چڑیوں کی چوں چوں کے سوا اور کوئی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ میں لمبی گھاس میں گھٹنوں کے بل جھک گیا اور ہاتھ پاؤں کے بل چلتا ہوا پیپل کے عظیم الشان درخت کی طرف بڑھنے لگا۔ پندرہ منٹ بعد پیپل کا پورا درخت اور آس پاس کے جنگل کا ٹکڑا پچاس گز کے فاصلے پر میری نگاہوں کے سامنے تھا۔ خدشہ تھا کہ شیر یا کوئی اور جانور اس جھاڑی میں چھپا ہوا نہ ہو، لیکن وہاں گہرے سناٹے کے سوا کچھ نہ تھا۔

معمولی معمولی وقفوں کے بعد رک کر ادھر ادھر دیکھتا آگے بڑھتا رہا۔ یک لخت میری چھٹی حس بیدار ہوئی اور پھر میری آنکھوں کے گوشوں نے کچھ فاصلے پر گھاس کے اندرایک عجیب سی جنبش کا نظارہ کیا۔ میں اب چھوٹے چھوٹے درختوں اور جھاڑیوں کے نزدیک چھپا ہوا تھا۔ ہوا بالکل ساکن تھی لیکن میں نے دیکھا کہ بائیں جانب جھاڑیوں کے نچلے حصے کے پتے آہستہ آستہ ہل رہے ہیں۔میں نہایت احتیاط سے آہٹ پیدا کیے بغیر گھوما اور اس طرف غور سے تکنے لگا۔تیزی سے پھیلتے ہوئے دھند لکے کے باعث مجھے شروع میں کچھ دکھائی نہ دیا اور ممکن ہے فریب نظر سمجھ کر کچھ زیادہ غور نہ کرتا مگر اس مرتبہ جھاڑیاں اور تیزی سے ہلیں۔پھر ایک سرخی مائل مٹیالا دھبا نگاہوں کے سامنے آگیا۔گھاس میں کوئی بڑا سا جانور موجود تھا۔

یہ منظر اس سرعت سے سامنے آیا کہ میں سوچے سمجھے بغیر اپنے دفاع کے لیے تیار ہو گیا اور منتظر رہا کہ اب شیر حملہ کرتا ہے۔۔۔مگر نہیں،جھاڑیاں بالکل ساکن تھیں اور گھاس میں چھپے ہوئے جانور نے مزید کوئی حرکت نہ کی۔میں نے غور سے دیکھا۔مجھے ایک سفیدی مائل سیاہ دھبا نظر آیا۔کالے نتھنے کے ڈیلے کا رخ آسمان کی طرف تھا۔ میں چوکنا ہو کر آگے بڑھا،حتیٰ کہ بالکل قریب پہنچ گیا۔ یہ ایک مردہ بچھڑا تھا جس کی گردن وحشیانہ انداز میں مروڑی گئی تھی اور کانوں کے پیچھے گردن پرشیر کے دانتوں کے نشانات نمایاں تھے۔بچھڑے کی لاش کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ مکھیانے کچھ نہ کچھ چھپایا ضرور تھا۔ اس کی گائے دراصل بچھڑا تھی مگر اس کے بارے میں تو لوگوں نے بتایا تھا کہ لاش کھائی کے اندر پڑی ہے۔اب میں ایک پیچیدہ صورتحال سے دو چار تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شیر گارے پر آیا اور بندھی ہوئی رسی کو توڑ کر جانور کو گھسیٹنے کی کوشش کررہا تھا کہ میری غیر متوقع آمد نے اس کی کوششوں میں خلل ڈال دیا۔

خطرے سے آگاہ ہو کر میں نے چاروں طرف دیکھا تا کہ گھسیٹے کے نشانات دیکھ لوں مگر کوئی نشان نظر نہ آیا۔مجبوراً یہی نتیجہ اخذ کرنا پڑا کہ شیر قدوقامت میں بڑا ہے اور بچھڑے کو گھسیٹنے کے بجائے منہ میں دبا کر لے جانا چاہتا ہو گا لیکن کسی وجہ سے لاش چھوڑ کر بھاگ گیا۔میرے اردگرد کی گھاس بری طرح مسلی ہوئی تھی جس سے پتا چلتا تھا کہ ادھر سے مویشی گزرے ہیں۔ممکن ہے یہ وہی مویشی ہوں جنہیں شریر لڑکے اپنے ساتھ یہاں لائے تھے اور شیر کے طیش میں آکر انہی میں سے ایک بچھڑے کو ہلاک کر دیا ہے۔گویا یہ مردہ بچھڑا شیر کا دوسرا شکار تھا۔

اب سوال یہ پیدا ہوا کہ جھاڑی کے ہلتے ہوئے پتے کیا خبردے رہے تھے۔میرا ذہن واقعات کی اس صورت گری میں الجھ کر رہ گیا۔پتوں کے ہلنے سے شبہہ ہوتا تھا کہ شیر نواح میں موجود ہے اور وہ گائے کو نہیں بچھڑے کو گھسیٹ کر لے جانے کی کوشش کررہا تھا۔ اس مقام پر زمین قدرے سخت تھی اور شیر کے پنجوں کے نشانات کا نظر آنا ممکن نہ تھا۔شیر کی موجودگی کی چغلی کھانے والے زرد رنگ کے بال بھی ٹہنیوں پر دکھائی نہ دیے۔پتوں کو حرکت دینے والی چیز ہوا کے علاوہ کوئی پرندہ یا گیدڑ بھی ہو سکتا تھا جسے میں اندھیرے کے باعث نہ دیکھا سکا، چونکہ اس جگہ شیر کی موجودگی کے واضح آثار ظاہر نہ ہوئے، اس لیے میں نے پہلے گارے کی طرف بڑھنے کا ارادہ کیا۔ میرے ذہنی سمت پیپل کے درخت کے پاس سے ایک پگڈنڈی جنگل میں سے گزرتی تھی جس پر دن کے وقت بیل گاڑیوں اور مویشیوں کی آمدورفت جاری رہتی تھی۔میں نے پیپل کے درخت کا جائزہ لیا لیکن مچان کا کہیں نشان نہ تھا۔مجھے حیرت ہوئی کہ گاؤں والوں نے جھوٹ کیوں بولا۔اب تو میں سخت گھبرایا اور دبے پاؤں پگڈنڈی پر چلنے لگا۔

تیس گز کا فاصلہ طے کرنے کے بعد مجھے بڑھوار کا مارا ہوا ایک درخت نظر آیا۔مچان اس درخت پر بندھا ہوا تھا۔ مجھے اطمینان ہوا۔اس کے قریب ہی کھائی بھی دکھائی دی۔تھوڑی دیر بعد میں نے گائے کی اکڑی ہوئی لاش تلاش کرلی۔ شیر کو اس وقت تک اس میں سے کھانے کا کچھ موقع نہ ملا تھا۔

چڑیوں کی چوں جوں اور جھینگروں کی آواز نے جنگل کے اس حصے میں خاصا شور پیدا کر دیا تھا۔ یہ آواز کبھی رک جاتی اور کبھی مختصر وقفوں کے بعد دوبارہ شروع ہو جاتی۔میں نے مری ہوئی گائے کی طرف نظر دوڑائی اور وہیں سے بالکل اس کے اوپر درخت پر بنے ہوئے مچان کو دیکھا۔میرا دل بیٹھ گیا۔ گارے دوہو چکے تھے اور ان کے درمیان اسّی گز کا فاصلہ تھا۔مچان صر ف ایک گارے کے لیے بنایا گیا تھا اور وہ زمین سے بمشکل نو دس فٹ اونچا ہو گا۔اس کا مطلب یہ کہ شیراگر جست کرے تو مچان کو ایک ہی ہلے میں نیچے گرا سکتا ہے۔میں نے اندازہ کیا تو پتا چلا کہ کوے کے گھونسلے کی طرح بنا ہوا یہ مچان زیادہ مضبوط بھی نہیں ہے اور مشکل ہی سے میرا وزن سہارسکے گا۔اب یہی ایک راستہ باقی تھا جس پر چل کر کامیابی سے ہمکنار ہونے کا امکان نظر آتا تھا لیکن اس میں سراسر جان جانے کا خطرہ بھی تھا کہ میں مچان پر بیٹھ جاؤں اور شیر کی آمد کا انظار کروں،کیونکہ بہرحال اس کا اس طرف آنا لازمی تھا۔

دوگارے کرنے کے باوجود اسے ابھی تک پیٹ بھرنا نصیب نہیں ہوا اور وہ یقیناً بھوک سے بے تاب ہو کر موقعے کی تلاش میں ہو گا مگر سوال یہ تھا کہ پہلے وہ کس گارے پر جائے گا؟گائے کی طرف یا بچھڑے کی طرف؟موجودہ انتظام کے تحت اسے گائے کی طرف آنا چاہیے تھا تاکہ میں مچان پر سے گولی چلا سکوں۔شیر کو گھیر کر گائے کی طرف لانے کے لیے ضروری تھا کہ بچھڑے کو گھسٹ کر گائے کے پاس لایا جائے۔بچھڑا نہایت وزنی تھا اور درختوں کے نیچے پڑے ہوئے خشک پتوں اور شاخوں میں اسے گھسیٹ کر مردہ گائے کے پاس لانا میرے لیے سخت آزمائش کا مقام تھا لیکن مرتا کیا نہ کرتا۔ ہانپ ہانپ کر بچھڑے کی لاش گھسیٹتا رہا،حتیٰ کہ بدن پسینے سے تر ہو گیا۔۔۔اس فرض کی انجام دہی میں مجھے جس مہلک خطرے سے گزرنا پڑا۔آج سوچتا ہوں تو اپنی اس حماقت پر ہنسی آجاتی ہے۔اپنی اس حرکت سے میں شیر کو براہ راست دعوت دے رہاتھا کہ وہ اس مداخلت بے جا پر جھلا کر فوراً حملہ کرے لیکن زندگی کے دن ابھی باقی تھے شیر یا تو فی الحقیقت وہاں موجود نہ تھا یا تھا تو دانستہ آگے نہ آیا۔بہرحال بچھڑے کو مردہ گائے کے پہلو تک گھسیٹ لانے میں کامیاب ہو گیا۔ میں نے مزید احتیاط کی اور بچھڑے کی ایک ٹانگ گائے کی ٹانگ سے باندھ دی۔اس کے بعد اپنا جھولا مچان پر پھینکا اور پھر خود درخت پر چڑھ کر اطمینان سے بیٹھ گیا۔

بچھڑے کو گھسیٹنے کی شدید مشقت اور تھکن کے باعث میں حددرجہ نڈھال ہو چکا تھا اور میرے اعصاب کو سکون کی ضرورت تھی،چنانچہ میں نے سگریٹ سلگایا۔ میرا طریقہ یہ ہے کہ درندے کی انتظار میں مچان پر بیٹھتے وقت سگریٹ یا نگار کبھی نہیں پیتا، کیونکہ اس کا ننھا سرخ جلتا ہوا سرادرندے کو تاریکی میں دور سے نظر آجاتا ہے لیکن اس موقع پر میں صبر نہ کر سکا۔ شاید اس لیے کہ میں نے تھوڑی دیر پہلے جو حرکتیں کی تھیں،وہ خطرناک سے خطرناک درندے اور بھوک سے بے تاب شیر کو بھی مجھ سے دور رکھنے کے لیے کافی تھیں۔کوئی درندہ،شکاری کی ان احمقانہ حرکتوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ پس مجھے اطمینان تھا کہ میں صبح تک مچان پر یونہی بیٹھا اپنی قسمت کو روتا رہوں گا۔

رات کی تاریکی اور سناٹے میں درندہ کی قوت سامعہ،شامہ اور باصرہ اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ اسے ا لفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔اپنے انہی فطری ہتھیاروں کے باعث وہ عرصہ دراز تک خوں ریز سرگرمیوں میں مشغول رہتا اور شکاریوں کو پریشان کرتا ہے اور کسی طرح ہاتھ نہیں آتا۔اب کوئی معجزہ ہی ہوتا جو شیر اس قدر شور کے بعد اس طرف آجاتا اور فرض کیجیے وہ آجائے،تب بھی شیر اتنا بے وقوف نہیں کہ وہ جانوروں کی لاشیں پاس پاس پڑی دیکھ کر خطرے کی بو نہ سونگھے۔وہ پیٹ بھرنے کے بجائے وہاں سے رفوچکر ہو جائے گا۔

رات کاجل کی طرح سیاہ اور ڈراؤنی تھی اور تاریکی اتنی کہ قریب کھڑے ہوئے درخت بھی اس کا ایک حصہ بن گئے تھے۔آسمان پرستاروں کی قندیلیں روشن تھیں لیکن ان کی مدھم روشنی جنگل کے لیے بے کار ثابت ہو رہی تھی۔بہت دیر بعد خفیف سی روشنی پتوں اور شاخوں سے بچتی بچاتی زمین تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔میں بدستور مردہ گائے اور بچھڑھے پر نظریں جمائے،اپنی جگہ بے حس و حرکت بیٹھا تھا۔ گائے کی لاش ایک مختصر سے سفید نقطے کی مانند دکھائی دے رہی تھی۔

عاًیوں احساس ہوا، جیسے کوئی ذی روح کچھ فاصلے پر موجود ہے اور حالات کا جائزہ لے رہا ہے۔جنگل میں مدت تک گھومنے پھرنے اور درندوں کے ساتھ شب و روز دو دو ہاتھ کرنے کی وجہ سے میرے اندر خاص حس ابھرآئی تھی اور یہ حس اشارہ کرتی تھی کہ خطرے کی گھڑی سر پر آن پہنچی اور اس سے نمٹنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔

میں نے ابھی ابھی شیر کی تین بڑی صلاحیتوں کا ذکر کیا ہے جو اس کی حفاظت کے لیے قدرت نے ودیعت کی ہیں۔سمجھ لیجیے کہ ایک خاص حس قدرت نے انسان کو عطا کر دی ہے اور اس طرح اپنی یخششوں کا توازن بگڑنے نہیں دیا۔انسان اور خصوصاً شکاری کی چھٹی حس حقیقتاً اسے ان گنت حادثوں اور خطروں سے بچاتی ہے۔میرے اعصاب نے پھر یری لی اور بیدار ہو گئے۔میں نے فوراً سگار بجھا دیا اور رائفل ہاتھ میں سنبھال لی۔میں جانتا تھا کہ جلد یا بدیرشیر کی چمکتی ہوئی آنکھیں اس کی موجودگی کا سراغ فراہم کر دیں گی۔اس لیے پلک جھپکائے بغیر گائے کو دیکھ رہا تھا۔ اگرچہ شیر کے ظاہر ہونے کی کوئی واضح علامت سامنے نہ آئی تھی مگر دل کہتا تھا کہ وہ قریب ہی موجود ہے۔میں نے احتیاطاً دائیں بائیں طرف سے مچان کا جائزہ لیا۔دیکھنے میں تو خطرناک اور کمزور نظر آتا تھا لیکن حقیقت میں مضبوط اور محفوظ تھا اور ضرورت سے زیادہ کشادہ بھی،البتہ جھانکل کی تپوار پریشانی کا باعث بن سکتی تھی۔کہیں بہت گھنی، کہیں چھدری اور خوفناک حد تک غلط۔

شک تھاکہ شیر یقیناً اسے شبہے کی نظر سے دیکھے گا اور اگر وہ کسی دوسرے احمق یا بغیر لائسنس شکار کھیلنے والے شکاری کے ہاتھوں زخمی ہو چکا ہے،تب تو بہت زیادہ چوکنا اور ہوشیار ہو جائے گا۔ مردہ گائے کا سفید دھبا مجھ سے تقریباً نو دس فٹ کے فاصلے پر اندھیرے میں صاف نظر آرہا تھا۔ اب مجھ پر خوف سوار ہونے لگا کہ اگر شیر زخمی ہونے کے باعث خونخوار نکلا تو اسے مچان تک پہنچنے کے لیے لمبی چوڑی چھلانگ لگانے کی ضرورت نہ پڑے گی۔ وہ نہایت آسانی سے اپنا اگلا دایاں پنجہ اوپر بڑھا کر مجھے مچان سے کھینچ سکتا ہے۔میں نے سوچا مچان چھوڑ کر درخت کی کسی اونچی شاخ پر چڑھ جاؤں۔بلا سے شیر مرے یا نہ مرے، جان توبچ جائے گی۔ ممکن ہے یہ حماقت کر بیٹھتا مگر فوراً ہی کسی غیبی آواز نے میرے کان میں کہا۔خبردار جہاں بیٹھے ہو،وہیں چپکے رہو۔ذرا ہلے جلے اور موت نے ٹینٹوادبایا، چنانچہ میں مچان ہی پر دبکا رہا۔گردونواح میں دور دور تک خشک پتے بکھرے ہوئے تھے اور مجھے اپنی سماعت پر اتنا تو بھروسہ تھا کہ ا گر شیر گارے پر آیا تو اس کے چلنے سے جو آواز پیدا ہو گی، وہ میرے کانوں تک ضرور پہنچ جائے گی۔

میں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی۔گیارہ بج رہے تھے اور فضا میں دم بہ دم سردی بڑھتی جارہی تھی۔پھر ہوا کے جھکڑ چلنے لگے اور درختوں ،پتوں اور شاخوں کے ہلنے سے ایک عجیب بھیانک شور جنگل میں پھیل گیا۔ سردی، پراگندہ، خیالی، تھکن اور شیر کی موجودگی کے احساس سے میرے جسم میں کپکپی سی چھوٹنے لگی۔ میرے جھولے میں وقت بے وقت کے لیے ایک چھوٹا کمبل رکھا رہتا ہے۔میں نے سوچا سردی سے بچنے کے لیے یہ کمبل اوڑھ لینا چاہیے۔نہایت آہستگی سے جھولے کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ ہوا کا ایک زور دار فراٹا آیا اور مچان ڈولنے لگا۔ میں نیچخے گرتے گرتے بچا۔ اب ایک نئی مصیبت آن کھڑی ہوئی۔ یک لخت گھاٹی کی جانب سے ایک مانوس سی آواز کان میں آئی اور میں نے مچان کو سنبھالنے کے بجائے پھررائفل سنبھالی۔ٹارچ اگرچہ میری جیب میں موجود تھی لیکن اسے روشن کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔میری کیفیت اس لمحے اس چوہے کی مانند تھی جو پانی میں بھیگنے کے بعد کانپ رہا ہو۔خدا خدا کرکے ہوا کا طوفان تھما اور فضا پر سکون ہو گئی۔

جنگل سے گاؤں ایک میل دور تھا اور وہاں بھونکنے والے کتوں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔باڑوں اورب ند ڈنئگروں کی گردنوں میں بندھے ہوئے ڈھولنوں کی آواز بھی گاہے گاہے آجاتی تھی مگر میرے قریب وجوار میں جنگل کی عام آوازوں کے سوا کچھ نہ تھا۔حشرات الارض کی ہلکی ہلکی سیٹی نما آوازیں،ہوا سے چلنے والے پتوں کی سرگوشیاں اور چھوٹے چھوٹے جانوروں کے گھاس پر دوڑنے کا شور کبھی کم ہوتا، کبھی بڑھ جاتا۔تھوڑی دیر بعد گھاٹی کی پرلی طرف واقع ایک چھوٹے سے تالاب میں رہنے والے مینڈک اچانک ٹرانے لگے اور میں نے اتنی دیر میں جھولے سے کمبل نکال کر اپنے گرد لپیٹ لیا۔

رات کا بڑا حصہ بیت گیا اور سردی اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی۔ اس طویل اور تھکا دینے والی شب بیداری نے بدن لکڑی کی طرح سخت اور بے جان کر دیا۔ پھر آہستہ آہستہ میری پلکیں بند سے بوجھل ہونے لگیں۔میں تھرماس ٹٹولنے کی کوشش کی تو انگلیوں نے حرکت کرنے سے انکار کر دیا۔حتیٰ کہ تھرماس کا ڈھکنا کھولتے ہوئے مجھے خاصی مشقت کرنی پڑی ا ور احتیاط کے باوجود کھڑ کھڑ کی سی آواز نکل ہی گئی۔۔۔دل دھک دھک کرنے لگا۔۔۔میں نے ہاتھ وہیں روک لیا اور سرگھما کر اپنی دہنی سمت سے آنے والی ایک آواز پہچاننے کی کوشش کی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی جانور خشک پتوں پر دبے پاؤں چل رہا ہے اور آواز سے کچھ یوں اندازہ ہوا کہ شیر کے سوا کوئی اور جانور ہے لیکن کون سا جانور؟ میرے ذہن میں چیتے،چرخ اور ریچھ کی شکلیں گھومنے لگیں۔چرخ اور گیدڑ گارہے پر اکثر آجایا کرتے ہیں اور یہ ذلیل جانور شکاری کے کیے دھرے پرآنا فاناً پانی پھیر دیتے ہیں۔

میں نے تھرماس سے ہاتھ ہٹالیا۔رائفل کا کندا میری ران پر ٹکا ہوا تھا اور نالی پیروں کے درمیان تھی۔ میرے ہاتھ ایک طرف بڑھنے لگے اور میں نے کندے کا گلا حصہ گرفت میں لے لیا اور بڑی احتیاط اور خاموشی سے ایک ایک انچ کرکے اسے کندھے تک لانے میں کامیاب ہو گیا۔اب رائفل کی نالی کارخ دونوں مرے ہوئے جانوروں کی طرف تھا۔دماغ میں طرح طرح کے خدشات کے ہجوم نے حشر برپا کر رکھا تھا اور اس پر اسرار آواز کی طرف کان لگائے سننے کی کوشش کرنے لگا۔وقت چیونٹی کی چال سے گزر رہا تھا لیکن میں نے دوبارہ آواز نہ سنی مگر طبیعت کے ہیجان میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔تقریباً پندرہ منٹ گزر گئے جو مجھے صدیوں کے برابر معلوم ہوئے۔

گوش برآواز رہنے کا اتنا شدید اثر تھا کہ کانوں میں سائیں سائیں شروع ہو چکی تھی مگر میں اسے برداشت کرنے پر مجبورتھا۔یہی لمحات فیصلہ کن تھے اور شیر پر سبقت لے جانے کے لیے یہ جاننا ضروری تھا کہ وہ تین ممکنہ صورتوں میں سے کس پر عمل کرے گا۔

گھبرا کر بھاگ جائے گا؟

گارے کی طرف دھیرے دھیرے بڑھے گا؟

گھن گرج کے ساتھ مچان پر حملہ آور ہو گا؟

ان سوالوں کا جواب یکایک بائیں طرف کی تاریکی نے دیا۔ نہایت مدہم سی آواز سنائی دی جس میں تنبیہہ کا اشارہ پنہاں تھا کہ شیر مچان کے نزدیک پہنچ چکا ہے۔اب میں آسانی سے وہ مانوس آواز پہچان سکتا تھا جو کسی بھاری جسم والے جانور کے خشک پتوں پر چلنے سے آہستہ آہستہ پیدا ہوئی ہے۔پھر ایک غیر واضح سی سرسراہٹ ہوئی، جیسے وہ نیچے سے خشک اور چرمرپتوں کو ہٹا رہا ہے۔مقابلہ شروع ہو چکا تھا اور دونوں حریف ایک دوسرے کا سامنا کرنے کے لیے مستعد تھے۔میں سمجھ گیا کہ درندہ ضرورت سے زیادہ چالاک اور مکارہے اور اس پر قابو پانا آسان نہ ہو گا۔غالباً اسے شبہہ ہو گیا تھا کہ درخت پر جس جگہ مچان بندھا ہوا ہے وہاں کچھ نہ ہونا چاہیے مگراس کاشبہہ ہو گیا تھا کہ درخت پر جس جگہ مچان بندھا ہوا ہے وہاں کچھ نہ ہونا چاہیے مگر اس کا شبہہ ابھی یقین کی حد تک نہ پہنچا تھا ۔اس لیے وہ حقیقت حال سے آگاہ ہونے کے لیے کوشاں تھا۔ میں جانتا تھا کہ جب تک اس کا شبہہ یقین میں نہ بدلے گا، وہ مجھ سے دور پھرتا رہے گا اور عجلت سے کام نہ لے گا۔یہ بھی ممکن ہے کہ تسلی کر لینے میں وہ مزید وقت لے اور گارے کے چاروں طرف چکر کاٹ کاٹ کر سن گن لینے کی کوشش کرے۔یہ موقعہ اتنا نازک ہوتا ہے کہ شکاری کی طرف سے ذرا سی بے احتیاطی سارا کھیل بگاڑ دیتی ہے،چنانچہ میں چوہے کی طرح اپنی جگہ دبکا رہا۔

مزیدآدھا گھنٹہ گزر گیا۔ جنگل پر بے کراں سناٹا طاری تھا۔ جھینگر،پرندے،حشرات الارض اور مینڈک سبھی درندے کی موجودگی سے باخبر ہو کر دہشت زدہ تھے اور انہوں نے اپنا اپنا راگ الاپنا بند کر دیا تھا۔اتنی ہولناک خاموشی تھی کہ میں کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کی ٹک ٹک بخوبی سن سکتا تھا۔ شیر کو چت کرنے کی تدبیر یہی تھی کہ میری طرف سے ذرابھی آہٹ نہ ہو۔شیر نے اپنی دانست میں ڈ اس مقام پر موجودگی کا راز اس وقت تک فاش نہ کیا تھا اور نہ میں نے ظاہر کیا کہ مچان پر اس کی تاک میں بیٹھا ہوں،گویا ہم دونوں ایک دوسرے کودھوکا دے رہے تھے۔

شیر کی اصل کیفیت کا مجھے علم نہیں مگر میرا حال یہ تھا کہ اعصابی ہیجان مجھے مارے ڈالتا تھا۔ایک ہی حالت میں بیٹھے بیٹھے جسم پتھر بن چکا تھا اور پہلو بدلنے کی خواہش قوی ہوتی جارہی تھی لیکن یہ یقین کیجئے نیچے تاریکی میں شیر کسی جگہ موجود ہے اور ذرا سا سراغ پاتے ہی بجلی کی طرح مجھ پر آن پڑے گا، میں بت بنا مچان پر جما رہا۔

رفتہ رفتہ مچان کے بالمقابل کچھ فاصلے پر پتوں کے چرچرانے کی واضح آواز آئی، جیسے کوئی بھاری بھر کم جانور اپنے گدی دار پیروں پر چلتا ہوا بے خوف و خطر آگے بڑھ رہا ہو۔میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس آواز کا مطلب یہ تھا کہ شیر کی بے رحمانہ چھان بین اور احتیاط کا عرصہ بیت چکا۔اس کی تیز نگاہیں درخت پر بندھے ہوئے مچان کی بھونڈی شکل سے دھوکا کھا گئی تھیں اور اب وہ شکم پری کے لئے بے خوف و خطر چلاآرہا ہے۔میں نے اندازہ کیا کہ وہ میری بائیں جانب تقریباً چالیس گز کے فاصلے پر آن کے رک گیا ہے۔میں نے رائفل کی نال پر فٹ کی ہوئی ٹارچ کا بٹن چھوااور اسے روشن کرنے ہی والا تھا کہ آواز آنی شروع ہو گئی۔ شیر دوبارہ آگے بڑھ رہا تھا اور اس کا یہ عارضی رکنا غالباً اپنے ماحول پر آخری احتیاطی نظر ڈالنے کی غرض سے تھا۔دفعتہً وہ آہستہ سے غرایا۔اب مجھے شیر کی موجودگی کے بارے میں کسی قسم کا شبہہ نہ رہا۔

اور یہی وقت تھا کہ جنگل کا بھیانک سناٹا چیرتی ہوئی لرزہ چیخ کی آواز بلند ہوئی جس نے میرا دل ہلا دیا اور میں شکار کے تمام اصولوں کو پس پشت ڈال کر مچان پر کھڑا ہو گیا۔اس احمقانہ حرکت سے مچان کانپ اٹھا، شاخیں ٹوٹنے لگیں اور پتے کھڑکنے لگے۔چیخ کی آواز کے ساتھ ہی شیر کے منہ سے خون سرد کر دینے والی گرد نکلی اور وہ دھاڑتا ہوا ایک طرف بھاگا۔ دیر تک اس کی آواز کا کڑا کا جنگل میں گونجتا رہا۔درختوں پر بسیرا کرنے والے پرندے اور دوسرے جانور دہشت زدہ ہو کر چیخنے چلانے لگے اور آناً فاناً قیامت برپا ہو گئی۔خوفزدہ ہونے کے ساتھ ساتھ میں حیران تھا کہ یہ پراسرار آواز کیسی تھی، کہاں سے آئی اور اس کا سبب کیا تھا؟آواز پرندے کی تھی، نہ جنگلی جانور کی اور نہ کسی انسان کی۔ کوئی بھوت پریت ہو تو الگ بات ہے۔بھوت پریت کا خیال آتے ہی بدن میں تھرتھری سی چھوٹ گئی اور رائفل کو گرفت میں لینے والی ہتھیلیوں سے پسینے کے قطرے پھوٹ نکلے۔آنکھوں کے سامنے شرارے سے اڑنے لگے اور کانوں میں سائیں سائیں کی آواز اور تیز ہو گئی۔ ایسا محسوس ہونے لگا، جیسے کسی گہرے اور اندھے کنویں میں غوطے کھا رہا ہوں۔

تھرماس میں سے چائے کے گرم گرم گھونٹ پیئے تو ہوش ٹھکانے آئے اور بھوتوں خبیثوں کے وحشت ناک تصورات سے نجات ملی۔اب میں سنجیدگی سے غور کرنے لگا کہ یہ آواز آخر کس کی ہے اور اس کا مطلب کیا ہے۔اسے وہم یا معمولی بات سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔میں جتنا غور کرتا اتنا ہی یقین ہوتا جاتا کہ جس بھیانک آواز نے سوئے ہوئے جنگل کو بیدار کیا ہے،وہ بہرحال انسانی آواز نہیں۔اس دعوے کی تائید میں میرے پاس ناقابل تردید شہادت بھی موجود تھی اور وہ یہ کہ خود شیر یہ آواز سن کر ڈرا اور راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہو گیا۔شیر تو وہ جانورہے جو جنگل کی ادنیٰ سے ادنیٰ زندگی سے آگاہ ہوتا ہے۔جنگل میں رہنے والا کوئی جانور یر کو دھوکا نہیں دے سکتا لیکن اس وقت تو شیر بھی دہشت زدہ ہو گیا تھا۔

مجھے خیال آیا کہ آواز سن کر میں نے بھوت پریت کا تصور کیوں کیا؟کہیں ایسا تو نہیں کہ جنگلی لوگوں کے درمیان رہنے سے غیر شعوری طور پر ان کی ضعیف الاعتقادی کا اثر میری طبیعت نے حذب کرلیا ہو۔میں فصل کٹنے سے پیشتر اپنے کارکنوں کو ناریل توڑنا یاد دلاتا اور جنگل کے دیوتاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے اپنے شکاریوں کو سیاہ مرغ دیتا تھا کہ شاید اس سھینٹ سے قسمت میرا ساتھ دینے لگے۔

’’کود۔۔۔و۔۔۔و۔۔۔اوکوا۔۔۔و۔۔۔او‘‘

ایک نئی آواز نے میرے خیالات کا تانا بانا توڑ دیا۔یہ تقریباً نصف میل دور سے آنے والی مادہ چیتل کی آواز تھی اور میں اسے غور سے سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہو گیا۔ آواز تین مرتبہ اور آئی اور آخری آواز کے اختتام پر مجھے شبہہ ہونے لگا کہ اب شیر کے شکار کا امکان باقی نہیں رہا، کیونکہ مادہ چیتل غالباً شیر ہی کو دیکھ کر بول رہی تھی۔ میں نے اپنی قسمت کو کوستے ہوئے دوبارہ تھرماس کی مدد لی اور گرم گرم چائے کے تین چار گھونٹ لیے۔اعصابی ہیجان ختم ہو رہا تھا اور اب میں پہلے کی طرح تازہ دم اور بے خوف ہو چکا تھا۔میں نے طے کر لیا کہ نور کا تڑکا ہوتے ہی پتا چلاؤں گا کہ خون سرد کردینے والی وہ چیخ کس کے حلق سے نکلی تھی۔ چائے پینے کے بعد میں نے جیب سے پائپ اور تمباکو نکالا۔پائپ میں تمباکو کو بھرتے وقت احساس ہوا کہ میں کتنا تھکا ہوا ہوں اور اب مجھے اس مچان پر سمٹ سمٹا کر سو جانا چاہیے۔میں نے پائپ لگانے کے لیے سلائی کی ڈبیا سے تیلی رگڑی،ننھا سا نارنجی شعلہ یک دم روشن ہوا مگر فوراً ہی ہوا کے اچانک جھونکے سے بجھ گیا۔ میں نے دوسری تیلی جلائی اور اپنے ہاتھوں کی آڑ میں اسے بجھنے سے بچایا۔تیلی ابھی پائپ تک پہنچی نہ تھی کہ دفعتہً شب کی ہمہ گیر تاریکی میں دل و جگر کوچیر دینے والی ہی چیخ دوبارہ سنائی دی۔جلتی ہوئی تیلی میرے ہاتھ سے نیچے گری اور پائپ منہ سے چھوٹ کر نہ جانے کہاں گیا۔میں نے دہشت زدہ ہو کر مچان کودونوں ہاتھ سے یوں تھام لیا، جیسے میں صبا رفتار گھوڑے پر سوار ہوں اور وہ مجھے گرانے کے لیے اندھا دھند دوڑ رہا ہے۔

آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 19)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font

تمام قسط وار کہانیاں یہاں سے پڑھیں

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں