آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر19)

    

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر19)

چیخوں کی آوازیں لمحہ بہ لمحہ بلند ہوتی جارہی تھیں۔ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے یہ آوازیں جہنم کے اندر سے اٹھ رہی ہیں۔میں سن رہا تھا لیکن خوف سے بدن سن ہو چکا تا اور ہلنے جلنے کی قوت بھی باقی نہ رہی تھی۔کچھ یاد نہیں یہ آوازیں کتنی دیر سنائی دیں اور کب بند ہوئی۔غالباً اسی دوران میں بے ہوش ہو گیا تھا۔ ہوش آیا تو میرے اردگرد وہی بیکراں سناٹا طاری تھا اور مچان پر ٹہنیوں کو مضبوطی سے پکڑے بیٹھا تھا۔گھڑی کی سوئیوں پر نگاہ گئی تو تین بج رہے تھے۔

کچھ دیر اسی عالم میں گزری تھی کہ کسی نادیدہ حیوان کے دم گھٹنے کی سی گڑگڑاہٹ سنائی دی۔ پھر یہ آواز سیٹی نما سسکیوں میں بدل گئی،جیسے کوئی درندہ ہانپ رہا ہو۔آواز شروع میں بہت مدھم، اتنی کہ نہ ہونے کے برابر، پھر دبی دبی سی جو مسلسل گھٹتی بڑھتی اور تیز ہوتی رہی مگر کچھ بے تکے انداز میں۔۔۔چند لمحے بعد جب میرا ذہن سوچنے سمجھنے کے قابل ہوا تو پتا چلا کہ یہ آواز مچان کے سامنے تقریباً پچاس یا ساٹھ گز کے فاصلے سے آرہی ہے۔

دس منٹ گزر گئے۔میرے کان اسی سمت میں لگے ہوئے تھے۔آہستہ آہستہ یہ آواز کچھ مانوس محسوس ہونے لگی مگر یقینی طور پر اب بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔کبھی سر کو جھٹکے دیتا، کبھی کانوں میں انگلیاں ڈالتا۔یہ نرم مدھم آوازمیرے سرپرآرے کی مانند چل رہی تھی۔یکایک میرے دماغ میں ایک نئے تصور نے جنم لیا۔اُف خدایا، آخر یہ کیسے ممکن ہے؟میں نے دل میں سوچا۔نہیں،یہ میرا وہم ہے۔۔۔مگر آواز۔۔۔کوئی چپکے چپکے کہہ رہا تھا کہ جنگل کی خاموشی فضا میں گونجنے والی یہ آواز کسی بے کس بچے کی سسکیاں ہیں۔کیا یہ ممکن ہے کوئی بچہ رات کے تین بجے اس بھیانک جنگل میں یوں چیخے چلائے اور سسکیاں بھرے؟ذہن یہ بات قبول کرنے پر کسی طرح آمادہ نہ تھا۔ضرور اس میں کوئی فریب یا دھوکا ہے۔خیال آیا، مچان سے اتروں اور وہاں جاکر دیکھوں کہ کیا معاملہ ہے مگر گارے کے قریب وجوار میں شیر کی نقل و حرکت پیش نظر رکھتے ہوئے ایسا کرنا حماقت ہی ہوتی ہے۔میں نے اپنی ہتھیلیاں کٹورے کی شکل میں منہ کے قریب لاکر پھیپھڑوں کی پوری قوت سے پکار کرکہا:

جواب میں گھٹی گھٹی سی چیخ سنائی دی۔پھر دھیمی آواز میں بے ترتیب الفاظ کی تکرار ہوئی، جیسے کوئی ناک میں بولتا ہے۔مجھے یقین ہو گیا کہ یہ آوازیں انسانی ہیں۔اب میں نے اور زور سے آواز دے کر پوچھا:

’’کون ہے؟‘‘ اس بار میں نے صاف پہچان لیا کہ کوئی ستم رسیدہ اور مبتلائے مصیبت آدمی ہے۔تمام احتیاطوں کو بلائے طاق رکھ کر میں چپکے سے ا ترا اور ٹارچ روشن کرکے آواز کی طرف بڑھنے لگا۔

ٹارچ کی روشنی بکھرے ہوئے خشک پتوں پر ایک روشن پگڈنڈی بنا رہی تھی۔ سسکیوں کی آواز گھنی خاردار جھاڑیوں میں گھرے ہوئے ایک سایہ دار اور بلند و بالا درخت کے عقب سے آرہی تھی۔ روشنی کی سفید لکیر اس پار گھومی اور پھر میں نے اسے لمبی گھاس میں دبکے ہوئے دیکھ لیا۔ دہشت سے اس کے معصوم چہرے کا رنگ ہلدی کی طرح زرد تھا اور رخساروں پر آنسوؤں کی لکیروں کے نشان نمایاں تھے اور آنکھیں رو رو کر سوج چکی تھی۔بارہ تیرہ برس کا ایک صحت مند لڑکا پھٹی پرانی قیمض پہنے سردی اور خوف کی وجہ سے بری طرح لرز رہا تھا۔میں نے دو زانو بیٹھ کر ٹارچ کی روشنی اس پر ڈالی اور جہاں تک میری نگاہ نے کام کیا۔وہ زخمی نہ تھا۔ میں نے اسے سہارا دے کر کھڑا کیا اور گود میں اٹھانے کا ارادہ کیا تھا کہ اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا:

’’میں اپنے پیروں پر چلوں گا۔‘‘

ہم دونوں مچان پر واپس آئے اور میں نے اس کے گرد کمبل لپیٹ کر پینے کے لیے چائے دی۔جب وہ چائے پی چکا تو میں نے اسے دلا سا دیا اور پوچھا:

’’تم رات کے وقت جنگل میں کیوں آئے؟تمہیں خبر نہیں،یہاں شیر، چیتے اور سانپ پھرتے رہتے ہیں۔اگر شیر تمہیں کھا جاتا تو؟‘‘

وہ پھر سسکیاں بھرنے لگا اور ٹوٹے پھوٹے بے ربط جملوں میں اپنی آپ بیتی سنائی۔اس کا نام ’’بلی‘‘ تھا اور گاؤں کے ان دوشریر لڑکوں میں سے ایک تھا جن کے بارے میں مکھیا نے بتایا تھا کہ وہ مردہ گائے کو دیکھنے کے لیے مویشیوں سمیت جنگل میں گئے تھے اور بعدازاں اپنی نانی کے گھر بھاگ گئے ہوں گے۔بلی نے بتایا کہ مویشیوں میں جب بھگدڑ مچی تو وہ ریوڑ کے بیچوں بیچ کھڑا تھا کہ ریوڑ کے ایک سانڈ کا دھکا لگنے سے گرزا اور بے ہوش ہو گیا۔ اسے یاد نہیں کہ کتنی دیر بے ہوش پڑا رہا۔ آنکھ کھلی تو جنگل میں اندھیرا پھیل رہاتھا۔اسے اپنے اردگرد کوئی مویشی دکھائی نہ دیا اور نہ دوسرے لڑکے کا کہیں پتا تھا وہ بمشکل اٹھا اور گاؤں کی طرف بھاگنے لگا مگر فوراً شیر کی آواز سن کر ڈر گیا۔شیر کی آواز نے اسے اس درجے مفلوج کیا کہ وہ نہ تو حرکت کر سکتا تھا اور نہ حلق سے کسی قسم کی آواز نکالنے پر قادر تھا مگر اس کے چلنے پھرنے کی آواز ضرور سنی تھی۔

’’میں نے سوچا، شیر نے دیکھ لیا تو مجھے ہڑپ کر جائے گا، اس لیے میں جلدی سے جھاڑیوں میں چھپ گیا اور دیر تک وہاں چھپا رہا۔ پھر میں نے سنا کہ شیر بچھڑے کی لاش گھسیٹ کرلارہا ہے۔‘‘

یہ سن کر میں بے اختیار ہنس پڑا،کیونکہ معصوم بچہ جسے شیر سمجھ رہا تھا، وہ دراصل میں خود تھا۔ اگر وہ جھاڑی سے نکل کر دیکھنے کی کوشش کرتاتو شیر کی بجائے مجھے پاتا۔میں نے اسے بتایا:

’’واہ بھئی واہ،تم بھی بڑے ڈرپوک ہو،وہ تو میں تھا۔‘‘

’’نہیں جی،میں نے خود شیر کی آواز سنی تھی۔‘‘لڑکے نے سختی سے کہا:’’شیر جھاڑیوں کے آس پاس پھر رہا تھا۔اس کے ہانپنے کی آواز میرے کانوں میں آرہی تھی، وہ تو مجھے تلاش کررہا تھا، اس لیے میں چپ چاپ جھاڑیوں کے اندر بیٹھا رہا۔کئی دفعہ وہ بالکل میرے قریب سے گزرا۔‘‘

’’جب اس نے تمہیں نہیں دیکھا تو پھر تم چیخے کیوں؟‘‘

’’اس نے تھوڑی دیر بعد مجھے دیکھ لیا اور چپکے سے میرے پیچھے آن کھڑا ہوا۔‘‘بلی نے بتایا اور یہ الفاظ کہتے ہوئے خوف سے اس کی گھگھی بندھ گئی:’’میں اسے دیکھتے ہی چیخنے لگا تو شیر الٹے پاؤں واپس چلا گیا۔ جناب، جب تک میں چیختا رہا، وہ مجھ سے دور رہا لیکن جونہی میں چپ ہوا، وہ دوبارہ میری طرف آیا۔ میں چیخنے لگا، آخر وہ مجھے چھوڑ کر کسی اور طرف چلا گیا۔‘‘

میں لڑکے کی خوش قسمتی پر عش عش کرنے لگا۔ اس نے جو کہانی سنائی تھی، اس کا حرف حرف صحیح تھا، کیونکہ جنگلی دیہاتوں اور گاؤں کے بچے جھوٹ بولنا اور فریب دینا نہیں جانتے۔میں حیران تھا کہ بھوکا اور غضب ناک ہونے کے باوجود شیر نے ’’جنگل کا بادشاہ‘‘ ہونے کا ثبوت دیا اور اس معصوم بچے کے گوشت اور خون سے پیٹ نہیں بھرا۔شیر کی شرافت اور بہادری کا میں پہلے ہی سے قائل تھا۔ بلی کی داستان سن کر شیر کی ان صفات پر میرا اعتقاد اور پختہ ہو گیا۔

لڑکا کچھ دیر تک باتیں کرتا رہا، پھر اس پر غنودگی طاری ہو گئی۔ شب کا ہنگامہ ختم ہونے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی۔ میں نے سوچا، شیر کا ادھر آنا تو اب ممکن نہیں،اس لیے بلی کی طرح کیوں نہ کچھ دیر آنکھ جھپک لی جائے۔نیند کی آغوش میں پہنچے ہوئے بمشکل چند لمحے ہوئے تھے کہ گارے کی جانب سے ایک گونج دار آواز آئی:

’’آؤووف۔۔۔‘‘

میں چونک گیا۔ایک بار پھر ایسی ہی آواز آئی۔یہ گویا شیر کی طرف سے اعلان تھا کہ’’مابدولت گارہے پر تشریف لے آئے ہیں۔‘‘

میرا ہاتھ رائفل کی طرف بڑھا اور اسی لمحے بلی نے کروٹ بدلی اور مچان چرچرائی۔کام خراب ہوتے دیکھ کر میں نے اسے جگایا اور کان میں کہا:

’’چپ چاپ لیٹے رہنا، شیر گارے پر آگیا ہے اور اب میں اس پر گولی چلا رہا ہوں۔‘‘

بے چارہ لڑکا خوف سے کانپنے لگا اور مجھ سے چمٹنے کی کوشش کی۔ اب میں ایک نئی پریشانی میں پھنس گیا۔ لڑکے کو بتلاتا ہوں تو شیر ہاتھ سے نکلا جاتا ہے اور شیر کی طرف توجہ کرتا ہوں تو لڑکا اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے گا۔شیر سو کھے پتوں پر اطمینان سے گھوم رہا تھا اور اب میں منتظر تھا کہ کب ہڈی ٹوٹنے اور چپڑ چپڑ کرنے کی آواز آتی ہے۔صبح کاذب کے دھندلکے میں گارے کے پاس مجھے اس کی ہلکی سی جھلک دکھائی دی۔یکایک میں نے محسوس کیا کہ شیر اسی درخت کے نیچے کھڑا ہے جس پر مچان بندھا ہے۔میں نے گردن گھمائی، بلاشبہ شیر وہاں کھڑا تھا،کیونکہ اس کی آنکھیں اندھیرے میں تاروں کی طرح چمک رہی تھیں۔شیر کو اتنے نزدیک پاکر بلی دہشت زدہ ہو کر بے ہوش ہو چکا تھا۔ میں نے رائفل کی نال پھیری اور فائر کرنے ہی والا تھا کہ شیر یک دم وہاں سے غائب ہو گیا۔ میرا خیال تھا کہ وہ مچان پر جست کرے گا لیکن ایسا نہ ہوا تو میرے دل میں طرح طرح کے وسوسے پیدا ہونے لگے۔کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ شیر ہے یا چھلاوہ۔آخر وہ تھا کس داؤں پر؟شیر بھوکا ہو اور گارے تک آکر لوٹ جائے۔یہ کیسے ممکن ہے؟

وقت پر لگا کر اڑنے لگا۔ صبح کاذب کا اندھیرا نور کے تڑکے میں بدل رہا تھا اور درختوں پر بسیرا کرنے والے پرندے سریلی آوازوں میں خدا کی حمد کررہے تھے۔مشرق کی طرف سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے دم بدم آنے لگے اور مجھ پر ایک بار پھر غنودگی سوار ہونے لگی۔معاً عقب سے ایسی آواز سنائی دی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔میں نے فوراً بلی کو ہوش میں لانے کی کوشش کی۔ چند لمحے بعد اس نے آنکھیں کھول دیں۔

’’تمہارے ساتھ دوسرا لڑکا کون تھا؟‘‘

’’مبرا بھائی گوپال۔۔۔‘‘اس نے سہم کر جواب دیا:’’کیا وہ یہاں آیا ہے؟‘‘

’’چپ ہو جاؤ۔۔۔بالکل چپ۔۔۔‘‘میں نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور آواز کی طرف کان لگا دیے۔ہوا کے دوش پر آنے والا پیغام واضح اور صاف تھا۔ہڈیاں چٹخنے اور کڑکڑانے کی آواز اور گوشت چبانے کی چپڑ چپڑ سے ظاہر ہوتا تھا کہ شیر اپنا پیٹ بھرنے میں مصروف ہے۔خدارحم کرے۔مجھے اپنی حماقت پر طیش آنے لگا۔میں نے دو معصوم بچوں کے گاؤں واپس نہ پہنچنے کا قضیہ نظر انداز کرکے کیسا ظلم کیا تھا اور اب شیر،بدنصیب گوپال کو اطمینان سے اپنا لقمہ بنا رہا تھا۔ بلی کو پانے کے بعد اگر میں اسی وقت پوچھ گچھ کرکے گوپال کی تلاش میں نکلتا تو یقیناً اس کی جان بچ جاتی لیکن میں تو مچان پر بیٹھا رہا اور شیر کو تمام شب گائے اور بچھڑے کے گوشت سے محروم کرکے یہی سمجھتا رہا کہ میں نے بڑا کارنامہ کیا ہے۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شیر نے گوپال کو جھاڑیوں میں بیٹھے دیکھ لیا تھا۔ اگرچہ وہ آدم خور نہ تھا لیکن بھوک اور غصے سے بے تاب ہو کر اسے لڑکے کو ہلاک کرنا ہی پڑا اور اس طرح اس نے پہلی بار انسان کا گوشت چکھ لیا ہے۔اب میرا واسطہ ایک خطرناک آدم خور سے تھا۔

صبح کاذب کے اختتام تک شیر اپنا پیٹ بھرتا رہا اور میں بزدلوں کی طرح مچان پر اس انتظار میں بیٹھا رہا کہ روشنی پھیلے تو شیر پر گولی چلاؤں۔خداخدا کر کے صبح کا اجالا مشرقی افق سے نمودار ہوا۔ درختوں کے سرمئی ڈیل ڈول تاریکی کے نیچے سے آزاد ہوئے۔تنوں اورپتوں میں رنگ آمیزی شروع ہوئی اور جنگل کی فضا رات بھر کی تھکن کے بعد تروتازہ اور صاف ستھری نظر آنے لگی۔میں نے رائفل پر سے شبنم کے قطرے پونچھے اور شیر کو دیکھنے کے لیے عقب میں نظر دوڑائی۔مچان سے قریب ہی جنگلی جانوروں نے اپنے آنے جانے کے لیے ایک علیحدہ پگڈنڈی بنا رکھی تھی۔یہ پگڈنڈی اسی جنگل میں جاتی تھی جدھر سے گوشت چیر نے پھاڑنے کی آوازیں آرہی تھیں۔شیر اب مجھ سے بہت قریب تھا،تاہم میں اسے دیکھ نہیں پایا لیکن آواز سے اندازہ ہوا کہ وہ قطعے کے عین وسط میں اگی ہوئی گھاس میں اپنی شکم پری کررہا ہے۔چکر کاٹ کر میں ایک تنہا جھاڑی کے قریب پہنچا۔حتیٰ کہ شیر مجھ سے دس گز کے فاصلے پر رہ گیا۔شیر کا جسم مجھے بخوبی نظر آرہا تھا اور وہ اطمینان سے ادھر ادھر دیکھے بغیر جبڑا چلارہا تھا۔ بدقسمتی سے شیر اس رخ کھڑا تھا کہ اگر ذرا گردن اٹھاتا تو مجھے دیکھ لیتا۔ایک لمحے کے لیے میرا ذہن بے کار ہو گیا۔سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں۔بہرحال اس گھاس کے اندر لاش کی مانند بے حس و حرکت پڑا رہا۔میں نے آخری بار رائفل کا معائنہ کیا اور شیر کی کھوپڑی پر نظر جماتے ہوئے نشانہ لیا ہی تھا کہ اسے خطرے کا فوراً احساس ہو گیا۔ہلکی سی غراہٹ اس کے منہ سے نکلی اور کھانا چھوڑ کر وہ سامنے دیکھنے لگا۔اس کی دم تیزی سے حرکت کررہی تھی۔ میں نے رائفل کی نال نیچے کرلی اور گھاس سے اور بھی چمٹ گیا۔

یہ دیکھنا بڑا مشکل ہے جب شیر اپنے شکار کا پیٹ چاک کرکے گوشت کھا رہا ہو،ناقابل فراموش منظر ہوتا ہے جو اس وقت میں دیکھ رہا تھا۔ اس کی اگلی ٹانگیں سینے تک خون اور گندگی سے آلودہ تھیں اور کھلا ہوا جبڑا خون میں لت پت تھا جس میں سے سفید سفید نکیلے دانت چمک رہے تھے۔پوری طرح تن کر اس نے ایک بار پھر میری طرف دیکھا اور حملہ کرنے کی غرض سے آگے بڑھا، اب وقت ضائع کرنا فضول تھا۔ میں نے نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔فائر ہوتے ہی شیر ہولناک گرج کے ساتھ فضا میں اچھلا اور زمین پر دھم سے گرا لیکن لوٹ پوٹ کر فوراً ہی اٹھا اور جھاڑیوں میں گھس کر دھاڑنے لگا۔

میں نے دوسرا فائر کیا۔اس مرتبہ گولی اس کے گلے میں پیوست ہو گئی اور وہ گھاس میں گر کر تڑپنے لگا۔ میں اب اس کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا اور تیسری گولی چلانے کے لیے بالکل تیار۔۔۔تڑپتے ہوئے درندے نے نزع کے عالم میں بھی اٹھ کر مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش کی مگر تیسری گولی نے اس کا بھیجا پاش پاش کر دیا اور وہ چند لمحے بعد ساکت ہو گیا۔میں نے دیکھا کہ گوپال کی لاش کے بچے کھچے حصے اور کھوپڑی پڑی ہوئی ہے۔جلدی سے یہ اجزا جمع کیے اور انہیں گھاس سے ڈھانپ دیا کہ بلی کی نظر ان پر نہ پڑنے پائے۔تھوڑی دیر بعد معصوم بچہ میرے پاس کھڑا بڑی حیرت اور خوشی کی ملی جلی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ یکایک اس نے پوچھا:

’’شیر کیا کھارہا تھا؟مجھے تو یہاں کچھ نظر نہیں آتا۔‘‘
’’کچھ فاصلے پر اس نے تیسرا گارا کیا تھا، وہی کھارہا تھا۔۔۔آؤ اب گاؤں چلیں۔‘‘
میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور منہ پھیر کر اپنے آنسو روکنے کی کوشش کرنے لگا۔

آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 20)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font

تمام قسط وار کہانیاں یہاں سے پڑھیں

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں