آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر20)

 

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر20)

آندھرا پردیش میں گنتا کل جنکشن سے جنوب مشرق کی طرف ٹرین پر سفر کریں تو راستے میں ایک بڑا قصبہ نند یال آتا ہے۔اس سے آگے کوہتانی علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔یہ گھنے جنگلات اور بے شمار ندی نالوں سے اٹا پڑا ہے۔یہاں سبوپرم اور چلما کے ریلوے اسٹیشن ہیں۔راستے میں ٹرین دو سرنگوں سے گزرتی ہے۔ایک کی لمبائی کم ہے،دوسری خاصی طویل ہے۔چند میل مزید سفر کرنے کے بعد ریلوے لائن کے دہنی جانب ایک چوڑی ندی دکھائی دیتی ہے۔ندی کے ساتھ ہی وگوماتا ریلوے اسٹیشن کا بیرونی سگنل ہے۔یہاں پہاڑ اور جنگل ختم ہو جاتے ہیں اور مزروعہ کھیتوں کی ابتدا ہوتی ہے۔

’’قاتل‘‘ کا آپریشنل علاقہ اس اسٹیشن سے لے کر طویل سرنگ تک پھیلا ہوا تھا۔ ندی اوربیرونی سگنل کے اردگرد تو اس کی توجہ خاص طور پر مرکوز تھی۔

چلما اور وگوماتا کے درمیانی جنگل سے مجھے ہمیشہ دلچسپی رہی۔اس لیے نہیں کہ یہاں شکار کی بہتات ہے بلکہ اس کی تنہائیوں میں ذہنی سکون کی دولت فراواں میسر آتی ہے۔چنچو قبائل کی دوستی اور محبت بھی مجھے کشاں کشاں ادھر لے آتی ہے جو جنگل کے مشرقی کنارے پر آباد ہیں۔میرا تجربہ ہے کہ آندھرا پردیش کا عام دیہاتی بھی میسور کے ان شہریوں سے زیادہ با اخلاق ہے جن کے درمیان میرا مستقل بسیرا ہے۔

ایک دن میں ٹرین کے ذریعے وگوماتا پہنچ گیا۔راستے میں طویل سرنگ سے بھی گزرنے کا اتفاق ہوا۔ اسے دیکھنے کی آرزو برسوں سے دل میں مچل رہی تھی۔ اسٹیشن پر دوقلیوں نے میرا مختصر سا سامان اٹھایا۔رائفل خود کندھے سے لٹکائی اور محکمہ جنگلات کے قریبی ریسٹ ہاؤس کا رخ کیا۔

میرے دیرینہ دوست علیم خان چوکیدار نے بنگلے کے دروازے پر استقبال کیا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔یورپی طرز کے کمروں میں میرا سامان رکھوا دیا گیا اور پھر اس نے اپنی دونوں بیویوں کو حکم دیا کہ ہینڈ پمپ سے غسل خانے کا حوض بھر دیں تاکہ میں نہا دھوکر تازہ دم ہو سکوں۔اس اثنا میں علیم خان نے اپنی گھویلو مشکلات کا ذکر چھیڑ دیا۔کہنے لگا:

’’میر ایک بہن ہے،اس کا خاوند تپ دق میں مبتلا ہو کر فوت ہو گیا۔اب وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ میرے ہاں اٹھ آئی ہے۔یہاں حال یہ ہے کہ میری پہلی بیوی سے تین بچے اور دوسری سے دو۔بہن اور اس کے دو بچوں کا مزید بار میرے ناتواں کندھے کیسے اٹھائیں گے؟‘‘

میں نے مشورہ دیا:’’اگر تمہاری بہن جوان ہے تو کسی دوسری جگہ موزوں رشتہ تلاش کرلو۔‘‘پھر موضوع سخن بدلتے ہوئے پوچھا:’’کیا یہاں شیر یا چیتے پائے جاتے ہیں؟‘‘

’’ہاں،ہاں۔‘‘علیم نے فوراً جواب دیا۔’’کوئی دس روز پہلے ایک سرکاری افسر نے رات کو شیر مارا تھا۔اس کے علاوہ ادھر ایک چیتا بھی خاصا تکلیف دہ ثابت ہو رہا ہے۔علی الصبح اس کے پاؤں کے نشانات ریسٹ ہاؤس کے اردگرد دیکھنے میں آتے ہیں۔تین ہفتے قبل وہ میرا کتا اٹھا کر لے گیا لیکن ایک اور کتا جو میری بہن اپنے ساتھ لائی تھی، جھٹ درندے پر ٹو پڑا، تاہم چیتا اپنا شکار لے جانے میں کامیاب رہا۔یہ منظر ہم سب نے چاندنی رات میں بالکل صاف دیکھا تھا۔ ڈر ہے کہ چیتا انتقام کی آگ سرد کرنے کے لیے دوبارہ ادھر ضرور آئے گا۔پھر یہاں کتے کے علاوہ تین عورتیں اور ساتھ بچے بھی تو ہیں جو اس کی درندگی کا شکار ہو سکتے ہیں۔‘‘

میں ابھی کوئی جواب نہ دے پایا تھا کہ فارسٹ رینج افسر بائیسکل پر ہانپتا کانپتا بنگلے میں داخل ہوا۔اس نے بتایا کہ آج رات ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر یہاں قیام کرے گا۔لہٰذا بنگلہ بالکل خالی ہونا چاہیے اور اگر میں بھی ٹھہرنا چاہوں تو حکام بالا سے باضابطہ اجازت حاصل کر لوں۔

عجب صورت حال کا سامنا تھا۔نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔اجازت طلب کرتا تو کس سے؟میں کئی اور مقامات پر بھی اس قسم کی مشکل سے دو چار ہو چکا تھا اور اس جنجھٹ کا بہترین حل مجھے یہی دکھائی دیا کہ جہاں شکار کے لیے جانا ہو،وہاں اپنی زمین خریدلی جائے تاکہ کیمپ لگانے میں آسانی رہے اور کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے۔چونکہ یہاں پہلی بار آنے کا اتفاق ہوا تھا، اس لیے زمین ابھی تک نہ خرید سکا تھا۔

’’کیا یہاں کوئی مکان کرائے پر دستاب ہے؟‘‘میں نے استفسار کیا:’’یا زمین کا چھوٹا سا قطعہ ہی قیمتاً مل جائے تو نقد رقم ادا کرکے وہاں خیمہ نصب کرلوں۔‘‘

چوکیدار نے پہلے تو نفی میں جواب دیا لیکن پھر اچانک اٹھ کھڑا ہوا اور مجھے ساتھ لے کر اسٹیشن کی طرف چل دیا۔ کوئی دو فرلانگ آگے ریلوے لائن کے مشرق میں اس نے ایک قطعہ دکھایا جو مجھے پسند آگیا، کیونکہ یہ کھلی فضا میں تھا اور قریب ہی عقب میں شفاف پانی کی ندی تھی۔ جہاں میں نہا دھو سکتا تھا۔ زمین کا مالک رنگا نامی ایک ہندو تھا۔ میں نے اسے مناسب قیمت ادا کر دی اور ریسٹ ہاؤس سے سامان منگوا کر خیمہ جمالیا۔اب میں سرکاری حکام کا دست نگر نہ رہا تھا۔

رات کے ساڑھے دس بجے ہوں گے۔میں لالٹین کی مدھم روشنی میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا کہ علیم خان چوکیدار بھاگتا ہوا خیمے میں داخل ہوا۔ اس کا سانس اکھڑا ہوا تھا۔ چہرے پر خوف اور پریشانی کے آثار جھلک رہے تھے۔اسکے کچھ نہ بتانے کے باوجود میں سب کچھ سمجھ گیا۔ ضرور درندے نے حملہ کیا ہو گا۔ فوراً اپنی رائفل تھامی اور ریسٹ ہاؤس کی راہ لی۔

واقعات کے مطابق چیتے نے اتنقام لینے کے لیے برآمدے میں سوئے ہوئے کتے پر حملہ کیا تھا۔چوکیدار اور اس کے اہل و عیال ڈر کے مارے چیخ تک نہ سکے۔اس طرح چیتا بڑی آسانی سے کتے کو ڈبوچ کر قریبی جنگل میں غائب ہو گیا۔پروگرام کے مطابق ڈی ایف او بھی پہنچا نہیں تھا،چنانچہ مدد کے لیے چوکیدار کو میری طرف آنا پڑا۔

بہتیری تلاش کے باوجود میں چیتے کا سراغ نہ لگا سکا، البتہ کتے کی بچی کھچی لاش مل گئی جسے چوکیدار کی بہن نے بنگلے کے قریب ایک گڑھے میں دفن کر دیا۔

اگلے دن زمین کی رجسٹریشن کرانے کے لیے میں گدل پور گیا۔ واپسی پر اپنے خیمے کے قریب پہنچا تو تیزی سے ایک جیپ گزرتی ہوئی دیکھی ۔اس کی نمبر پلیٹ ’’پرآندھرا فارسٹ ڈیپارٹمنٹ‘‘ سفید رنگ میں لکھا تھا۔ ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے ہوئے سانولے رنگ کے آدمی نے مجھ پر خشمگین نگاہ ڈالی۔یقیناً یہ ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر تھا۔

شام کو اس سے ملنے کے لیے میں بنگلے پر گیا۔ اگرچہ سرکاری افسروں سے مجھے نفرت ہے لیکن ہندوستان میں شریفا نہ زندگی بسر کرنے کے لیے لازمی ہے کہ سرکار سے صاحب سلامت برقرار رہے۔

نوجوان ڈی ایف او کالج سے نکلنے کے بعد سیدھا محکمے میں بھرتی ہوا تھا۔ جنگل کے بارے میں اس کی معلومات صفر کے برابر تھیں،اسی لیے شیروں،چیتوں اور دوسرے درندوں سے وہ عام آمی کی طرح خائف نظر آتا تھا۔ علیم،کتے کا سانحہ اس کے علم میں لا چکا تھا لیکن کمال عیاری سے کام لیتے ہوئے اس نے میراذکر تک نہ کیا۔۔۔نہ ہی یہ بتایا کہ گزشتہ روز مجھے بنگلہ خالی کرنا پڑا تھا۔

ڈی ایف او نے داستان طرازی کی حد کر دی۔اس نے معمولی سا واقعہ ایسے لرزہ خیز انداز میں سنایا کہ میری جگہ کوئی اور ہوتا تو اس پر ہیبت طاری ہو جاتی۔اس کے بیان کے مطابق کتا،علیم کے ساتھ چار پائی پر سویا ہوا تھا کہ چیتے نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے منہ میں دبوچ لیا اور یہ جاوہ جا، علیم دیکھتا رہ گیا۔

قصہ کوتاہ ڈی ایف او نے مجھے چیتے کے شکار کی دعوت دی اور ساتھ ہی اپنے ساتھ بنگلے میں ٹھہرنے کی درخواست کی۔میں نے بتایا کہ میرے پاس اعلیٰ حکام کا اجازت نامہ نہیں تو اس کی پیشانی پر بل پڑگئے”کیا میں ڈی ایف او نہیں،کیا میری اجازت کافی نہیں؟“وہ لال پیلا ہو کر بولا:”جہنم میں جائیں اعلیٰ حکام،تم ابھی منتقل ہو جاﺅ۔“

دعوت قبول کیے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔

ڈی ایف او نے علیم کو گاڑی میں بھیج کر ایک اور کتا منگوایا۔اسے ڈرائننگ روم کے سامنے باندھ دیا گیا،تاکہ چیتا اس پر حملہ کرنے کے لیے آئے تو میں اسے نشانہ بنا سکوں۔یہ سب کچھ میری خواہشات کے برعکس تھا۔ کتا کبھی اچھا ساتھی ثابت نہیں ہوتا۔اسے زنجیر پہنا دی جائے تو وہ بھونکنے لگتا ہے۔اس طرح شیر یا چیتے ہوشیار ہو جاتے ہیں اور ہوا بھی یہی۔جوں جوں رات کی تاریکی بڑھتی گئی،کتے کی چیخوں سے سارا جنگل گونج اٹھا۔ڈی ایف او بھی میرے ساتھ ڈائننگ روم میں بیٹھا تھا۔ گیارہ بجے وہ اونگھنے لگا اور بیڈ روم میں چلا گیا۔

دو بجے شب چاند طلوع ہوا اور درختوں کے لمبے سایوں نے کتے کو ڈھانپ لیا جو اب اپنے آپ کو تقدیر کے حوالے کر چکا تھا اور گہری نیند سو رہا تھا۔مجھے بڑا رحم آیا اور تھوڑی دیر بعد میں نے اس کی زنجیر کھول دی۔اس نے تشکر بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور کمرے میں گھس کر ایک کونے میں لیٹ گیا۔میں نے صبح صادق تک چیتے کا انتظار کیا، آخر مایوس ہو کر سو رہا۔

دوپہر کے کھانے کے بعد ڈی ایف او،نندیال واپس چلا گیا۔میں نے بھی آدھی رات کی ٹرین سے بنگلور کا رخت سفر باندھا۔چلتے وقت علیم کو اپنا پتا دے دیا تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آئے تو وہ فی الفور مجھے خط لکھ سکے۔

چار ماہ بعد اچانک مجھے اس کا خط موصول ہوا....لکھا تھا کہ پل اور ندی کے درمیان بیرونی سگنل کے قریب ایک ریلوے ملازم ہلاک پایا گیا۔ اس کی لاش مسخ شدہ تھی۔بعض لوگ اس کی موت کا ذمہ دار شیر کو گردانتے،بعض سفید ریچھ پر الزم دھرتے، کوئی اسے جن بھوت کی شرارت قرار دیتا لیکن علیم کا خیال تھا یہ چیتے کی کارستانی ہے۔اس نے مجھے جلد از جلد وہاں آنے کی دعوت دی تھی۔

میں نے جواب دیا کہ میرے آنے تک ایک تو لاش بھی گل سڑ جائے گی، دوسرے چیتا کسی اور طرف نکل جائے گا اور اسے تلاش کرنا آسان نہ ہو گا لیکن اگر کوئی اور سانحہ رونما ہوا تو مجھے فوراً لکھا جائے تاکہ درندے کا انسداد کیا جا سکے۔

اگلا خط ایک ماہ بعد ملا، اس میں ندی کی دیکھ بھال کرنے والے ملازم کی موت کا ذکر تھا۔ وہ ایک اور ریلوے ملازم کے ساتھ جس کی ڈیوٹی بیرونی سگنل پر لیمپ روشن کرنا تھی، مل کر چھ بجے شام وہاں سے گاﺅں جایا کرتا تھا۔ مدت سے ان کا یہی معمول تھا۔وقوعہ کے روز ریلوے ملازم نے سگنل کے نزدیک اس کا دیر تک انتظار کیا۔پھر وہ اسے آوازیں دے کر بلاتا رہا”رام، رام، رام!“ کوئی جواب نہ پا کر ندی کی طرف چل دیا۔ایک جگہ جنگل کے قریب رام مردہ پڑا تھا۔نرم ریتلی زمین پر چیتے کے پاﺅں کے نشانات نمایاں تھے۔

ریلوے ملازم سرپٹ بھاگ کھڑا ہوا اور اسٹیشن پر پہنچ کر دم لیا۔

”جلدی آئیے۔“خط کے آخر میں اس نے درخواست کی تھی۔”ہمارے درمیان آدم خور چیتا موجود ہے۔“

بدقسمتی سے اس روز میں قدرے مصروف تھا۔ اس لیے رات کو بذریعہ کارجانے کا پروگرام بنایا۔ شام کے وقت اپنا سامان باندھ رہا تھا کہ باہر دروازے پر گھنٹی بجی۔ملازم دوڑ کر گیا۔ ہر کارہ ایک ٹیلی گرام لایا تھا۔اس میں لکھا تھا:

”چیتے نے بہن کے ایک بچے کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔خدا کے لیے اب دیر مت لگائیے۔علیم“

صبح سے پہلے میں عازم سفر ہو چکا تھا۔

اگر آپ کو وگوماتا فارسٹ ریسٹ ہاﺅس جانے کا اتفاق ہوا ہے تو عمارت کے جنوب مشرقی کونے پر بیس گز دور ایک ابھری ہوئی قبر ضرور دیکھی ہو گی جس پر یہ کتبہ لگا ہوا ہے۔”شرارتی۔“کئی برس پیشتر برطانوی دور میں ایک انگریز فارسٹ آفیسر اپنے کتے شرارتی کے ساتھ بنگلے میں ٹھہرا تھا کہ ایک رات کسی درندے نے کتے پر حملہ کر دیا۔انگریز نے جلدی سے بندوق فائر کر دی۔درندے کے ساتھ کتا بھی ہلاک ہو گیا۔ اس نے کتے کو قبر میں دبا کراس کے نام کا کتبہ لگا دیا۔

جیسے ہی میں نے کار سے اترنے کے لیے دروازہ کھولا،علیم نے تازہ ترین واردات کی تفصیلات سنانا شروع کر دیں:”میری بہن کی بڑی لڑکی روزانہ’شرارتی“کی قبر پر پھول رکھا کرتی تھی لیکن ایک دن وہ ایسا کرنا بھول گئی۔ شام کو اسے یاد آیا تو امی سے کہنے لگی:”میں شرارتی کی قبر پر جارہی ہوں۔“

”پیاری۔“یہ لڑکی کا نام تھا۔”اندھیر اچھا گیا ہے،اب صبح وہاں پھول رکھ آنا۔اس وقت چیتا تمہیں نگل جائے گا۔“

پیاری جواب دیے بغیر قبر کی طرف چلی گئی۔وہ وہاں پہنچی ہو گی، کیونکہ پھولوں کی پتیاں قبر کے آس پاس بکھری ہوئی تھیں۔کسی نے بھی چیخ پکاریا چیتے کی غراہٹ نہ سنی لکن پیاری واپس نہ آئی۔ماں نے خطرے کی بوسونگھتے ہوئے شور مچایا اور وہ سب لالٹین ہاتھ میں لیے لڑکی کو تلاش کرنے لگے۔قبر سے کچھ فاصلے پر خون کے قطرے دکھائی دیے۔ان کی چیخ پکار سن کر گاﺅں کے لوگ بھی آگئے لیکن چیتے کے خوف سے کوئی شخص بھی جنگل میں گھسنے کا نام نہ لیتا تھا۔

علیم نے تجویز پیش کی کہ میں دیسی کپڑے پہن کر شرارتی کی قبر پر بیٹھ جاﺅں اور چیتے کی دوبارہ آمد کا انتظار کروں۔کپڑے بدلنے میں مصلحت یہ تھی کہ چیتا پتلون اور بشرٹ سے خوف کھا سکتا تھا جبکہ دیسی کپڑوں میں وہ مجھے سیدھا سادا دیہاتی تصور کرتا اور حملہ کرنے کی صورت میں میں اسے نشانہ بنا سکتا تھا۔

گھنے جنگل اور خنک ہوا کے پس منظر میں غروب آفتاب کا نظارہ بڑا دلکش ہوتا ہے لیکن کان قدرتی موسیقی سننے اور آنکھیں شفق کے رنگ دیکھنے کی بجائے چیتے پر مرکوز تھیں۔عین اسی وقت چیتے نے گزشتہ شام پیاری پر حملہ کیا تھا۔اسی لیے مجھے امید تھی کہ ایک اور شکار ملنے کی توقع میں وہ آج پھرادر آئے گا۔

جلد ہی اندھیرا بڑھنے لگا۔عقب میں ریسٹ ہاؤس قریب ہونے کے باوجوددھندلا سا گیا۔اوپر ستارے جھلملا رہے تھے اور ان کی کرنیں بلند وبالا درختوں سے چھن چھن کر زمین پر پڑی رہی تھیں۔

میرے بائیں طرف ایک جھاڑی میں سرسراہٹ ہوئی۔ میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی مگر بے سود،کچھ نظر نہ آسکا۔میرے ہاتھ غیر ارادی طور پر بھری ہوئی رائفل کی طرف بڑھ گئے۔ میں نے ٹارچ کا بٹن دبا دیا۔ سوکھے ہوئے پتوں کے درمیان کالا سانپ رینگ رہا تھا۔ایک ڈھیلا پھینک کر اسے دور بھگا دیا لیکن اس سے صورت حال خراب ہو گئی۔ممکن ہے،چیتا کہیں آس پاس ہی ہو۔ٹارچ کی روشنی نے میری پوزیشن واضح کر دی تھی۔اس سے وہ خبردار ہو کر کمال عیاری سے اچانک مجھ پروار کر سکتا تھا۔

اسی لمحے بیرونی سگنل کے قریب مال گاڑی کے انجن نے لمبی سیٹی دی اور پھر چھک چھک کی آواز آنا بند ہو گئی۔معلوم ہوتا تھا گاڑی کھڑی ہو گئی ہے کیونکہ انجن ڈرائیور اور فائر مین کی تیز تیز باتیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ان کی آواز میں گھبراہٹ کا عنصر نمایاں تھا۔ شاید نندیال جانے والی مسافر گاڑی کو راستہ دینے کے لیے مال گاڑی بیرونی سگنل پر روک دی گئی تھی۔ میرا اندازہ درست نکلا، تھوڑی ہی دیر بعد مسافر گاڑی انتہائی سرعت سے نکل گئی۔اس کا مطلب یہ تھا کہ رات کے بارہ بج رہے تھے،پہلے مجھے احساس ہی نہ ہو سکا کہ وقت کس قدر تیزی سے بیت رہا ہے۔

گاڑی روانہ ہو جانے کے بعد امید تھی کہ ماحول پر خاموشی طاری ہو جائے گی لیکن صد حیف یہ آرزو پوری نہ ہوئی۔بہت سے لوگ لالٹینیں لیے بنگلے میں داخل ہوئے۔چونکہ اس شوروغل میں میرا بٹھا رہنا کسی طرح بھی سود مند نہ تھا، لہنذا میں وہاں سے اٹھ کر ان لوگوں کی طرف آیا۔

اس پارٹی میں اسٹیشن ماسٹر،فارسٹ رینجر،مال گاڑی کے ڈرائیور،گارڈ اور فائر مین شامل تھے۔ڈرائیور نے بتایا کہ جونہی گاڑی لمبی سرنگ سے باہر نکلی انجن کی روشنی میں ریلوے لائن کے درمیان ایک مڑی تڑی لاش دکھائی دی۔ لوگوں نے اسکو خودکشی کا رنگ دیا کہوہ جان بوجھ کر ریل کے سامنے کودا ہوگا ، میں نے دیکھا تو کہا کہ لگتا ہے اسے چیتے نے مار کر ادھر پھینکا ہے یا اس نے ادھر بیٹھ کر ہی اسکا شکار کیا ہے۔اس پر لوگ بولے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔یہ آدمی آدمی خود چل کر یہاں آیا ہوگا۔چیتا تو اسے اٹھا کر نہیں لایا ہوگا ۔

شاید میں انکی بات پر یقین کرلیتا لیکن جب لاش کا مکمل جائزہ لیا تو میرا اندازہ درست تھا ۔ اسے چیتے نے ہی ہلاک کیاتھاکیونکہ اس کی ہڈیاں چبائی ہوئی تھیں۔اگر میں زور نہ دیتا تو وہ اسے چیتے کی کارروائی نہ مانتے۔

خیر اس واقعے کی اطلاع وگوماتا کے اسٹیشن ماسٹر کو دی گئی تاکہ وہ بذریعہ تار پولیس کو مطلع کر سکے۔اسٹیشن ماسٹر کو میری آمد کا علم تھا۔وہ ان لوگوں کو ساتھ لے کر میری طرف چلا آیا۔ سب کا یہی خیال تھا کہ لاش چنچو قبیلے کے کسی فرد کی ہے۔

میں نے وعدہ کیا کہ درندے کو ٹھکانے لگانے کی پوری کوشش کروں گا۔اس کے بعد وہ لوگ رخصت ہو گئے۔میں چار پائی پر لیٹ رہا۔صبح چار بجے چائے پینے کے بعد علیم کو ساتھ لیا اور لاش کا معائنہ کرنے کے لیے سرنگ کی راہ لی۔ ریلوے لائن کے ساتھ ہم آگے پیچھے چل رہے تھے۔ندی کا پل عبور کیا تو سامنے سرنگ کا دہانہ نظر آگیا۔ہمارے بائیں طرف لائن کے اوپر ہی لاش کے باقی ماندہ ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے۔شاید چیتا ساری ر ات اس پر دانت تیز کرتا رہا تھا۔

ہم لاش کا بغور معائنہ کرنے میں مصرو ف تھے کہ سرنگ میں گرج سنائی دی۔شاید کوئی گاڑی آرہی تھی،فوراً ریلوے لائن سے ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔اچانک مجھے ایک خیال آیا۔ میں نے زور زور سے ہاتھ ہلانا شروع کر دیا۔ تکہ ڈرائیور گاڑی روک لے میری یہ کوشش کامیاب رہی لیکن فورا گارڈ اور چند پولیس والوں نے مجھے گھیر لیا کہ گاڑی کیوں رکوائی ہے۔میں نے انہیں صورت حال سمجھائی اور درخواست کی کہ علیم کو اسٹیشن تک لیتے جائیں تاکہ وہ وگوماتا پولیس اسٹیشن میں اس حادثے کی اطلاع دے سکے اور لوگوں کو خبردار کردیا جائے کہ وہ ادھر آنے سے گریز کریں۔اس طرح ہم کامل سکون سے چیتے کا سراغ لگا سکیں گے۔میں نے علیم سے کہا وہ کھانے کی کچھ چیزیں لے کر دو بجے کی اپ ٹرین کے ذریعے یہاں آجائے۔

اس اثناء میں مسافر بھی گاڑی سے نیچے اتر آئے تاکہ حقیقت حال معلوم کر سکیں۔بعض تو لاش کے گرد جمع ہو گئے۔ڈرائیور کو گاڑی حرکت میں لانے کے لیے پندرہ منٹ لگ گئے۔

جوں جوں روشنی پھیلتی گئی، چیلیں اور گدھ پر منڈلانے لگیں۔میں پتھر مار مار کر انہیں دور رکھنے کی کوشش کرتا رہا۔ پروگرام کے مطابق دو بجے علیم واپس آگیا۔اب ہم نے چھپ کر بیٹھنے کے لیے مناسب جگہ تلاش کی۔سرنگ کے دہانے سے زیادہ موزوں جگہ کون سی ہو سکتی تھی؟وہاں لائن سے ذرا ہٹ کر کمبل بچھایا اور بیٹھ گئے۔ہم تاریکی میں تھے۔چیتا ہمیں نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس کے برعکس ہماری آنکھوں کے سامنے پورا منظر تھا۔ چار بجے سر پہر تک ہر طرح سے تیار ہو کر ہم وہاں بیٹھ چکے تھے۔سرنگ کے اندر حبس کی وجہ سے برا حال ہو رہا تھا۔ نیچے سے زمین کوئلوں کی طرح دہک رہی تھی۔

شام تک ایک مال گاڑی وہاں سے گزری لیکن وہ بغیر رکے آگ ے بڑھ گئی۔شاید ڈرائیور ہمیں نہ دیکھ سکا۔ اب آہستہ آہستہ تاریکی پھیلنے لگی۔یہاں تک کہ ہمیں لاش بھی نظر نہ آرہی تھی۔

اچانک سرنگ کے اوپر سے پتھر کا ایک ٹکرا ڈھلک کے نیچے گرا۔ میں چوکنا ہو گیا۔شاید چیتا ہمیں چھپ کر بیٹھے دیکھ چکا تھا اور اب رینگ رینگ کر ہماری طرف بڑھ رہاتھا کہ دفعتہ جھٹ کر ہم میں سے کسی ایک کی گردن دبوچ لے۔اس نے یہ مرحلہ بھی انتہائی راز داری سے طے کرلیا۔ہمیں اس وقت نظر آیا جب وہ سامنے کی ٹانگیں آگے پھیلا کر اور پچھلے پنجے سخت زمین میں گاڑ کر ہماری طرف جھپٹنے کے لیے تیار ہو رہا تھا، وار کرنے سے پہلے وہ غرایا تاکہ ہم پر دہشت طاری ہو جائے۔علیم تو واقعی سراسیمہ ہو گیا اور دبک کر سرنگ کی دیوار سے جا لگا۔ میں اتنی دیر میں رائفل تان چکا تھا۔ جونہی چیتے نے اگلے پنجے زمین سے اٹھائے، میں نے اندھا دھند فائر کر دیا۔درندہ ایک لمحے کے لیے پیچھے کی طرف گر پڑا۔ اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتا ،میں نشانہ لے کر دوسری بار ٹریگر دبا چکا تھا۔وہ ڈھیر ہوگیا۔ پیاری کا قاتل مارا جا چکا تھا لیکن پیاری اب واپس نہیں آسکتی تھی۔


آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 21)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font

تمام قسط وار کہانیاں یہاں سے پڑھیں

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں