آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر21)

  

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر21)

ایرک نیوکا مبے میرا سکول کے زمانے کا ساتھی ہے۔ہم دونوں گہرے دوست تھے۔جب ہم بچے تھے تو مل کر باغیوں پر’’حملہ ‘‘کر دیتے۔کبھی رات کو جناتی لباس پہن کر لڑکیوں کو ڈراتے۔

ایرک اس دقت گھا مڑ تھا کہ جس لڑکی سے محبت کرتا تھا،ایک روز دیوار پھلانگ کر اس کے گھر میں جا گھسا۔ نتیجہ یہ کہ اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھا اور جب ہم’’جلاہالی کے قاتل‘‘کا تعاقب کررہے تھے تو وہ بری طرح زخمی ہوا۔کچھ عرصے بعد ہم ایک سرکس دیکھنے گئے تو نہ جانے ایرک کو کیا سوجھی،اس نے ایک پنجر میں ہاتھ ڈالا اور لگا چیتے کو چھیڑنے۔جنگلی جانور نے اس مسخرے پن کی سزا صرف اتنی دی کہ ہاتھ نوچ ڈالا۔

پھر ایک رات ہم گلہٹی کے جنگلی سؤر کا شکار کرنے گئے۔بڑے زور کی بارش ہو رہی تھی۔ ہم ایک کھلے کھیت میں گھات لگائے بیٹھے تھے۔ میں نے فارسٹ بنگلے میں واپس جانے کا مشورہ دیا مگر ایرک ناک بھوں چڑھاتے ہوئے بولا:

’’بارش ہی تو ہے۔‘‘

وہ ہر صورت میں سور مارنا چاہتا تھا۔ سور تو خیر کیا مرتا،خود اسے نمونیہ ہو گیا۔

اب اس مرد میدان نے ایک نئی مہم پر نکلنے کا ارادہ کیا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی انتہائی دلچسپ صورت حال کا سامنا ہو،چنانچہ اپنے ساتھ اسلحہ یا کھانے پینے کی کوئی چیز لے جانے کے حق میں نہ تھا۔ میں نے تو کانوں کو ہاتھ لگائے، یہ سراسر خود کشی کے مترادف تھا۔ ذرا سی بے احتیاطی ہماری جان لے سکتی تھی۔

جن لوگوں نے میری کہانیاں’’منچی کا شکار‘‘اور کمپیکارائے کا بھوت‘‘پڑھی ہیں،وہ جانتے ہیں کہ ان میں ایک وادی کا ذکر ہے جسے میں ’’اسپائیڈرویلی‘‘کا نام دیتا ہوں۔ضلع سالم میں ایک نشیبی اور گھنے جنگلوں میں آٹی ہوئی جگہ ہے۔ایک چھوٹے سے گاؤں عیور سے شروع ہو کر جنوب کی طرف بیس میل تک پھیلی ہوئی ہے۔دونوں جانب بلند ترین پہاڑی سلسلے ہیں۔وادی میں ایک ندی بہتی ہے۔جس کے کنارے پگڈنڈی بنی ہوئی ہے۔ندی دائیں بائیں مڑتی ہے تو پگڈنڈی بل کھانے کے بجائے سیدھی نکل جاتی ہے تاکہ کم از کم فاصلہ طے کرنا پڑے۔مشرق اور مغرب کی طرف پہاڑی سلسلے کہیں کہیں اس قدر تنگ ہو جاتے ہیں کہ سرنگ کا گمان ہوتا ہے۔چار ہزار فٹ بلند ان پہاڑی کی ڈھلوانوں پر ایک خوبصورت فارسٹ ریسٹ ہاؤس۔کوڈی کارائے بنگلے۔بنا ہوا ہے۔جہاں سے وادی کا مشرقی منظر دیکھا جا سکتا ہے۔حد نگاہ تک پگڈنڈی اور ندی کی محاذ آرائی جاری رہتی ہے اور یہ سلسلہ دس میل دور دریائے چنار پر ختم ہوتا ہے۔یہ دریا جنوبی ہند کے عظیم ترین دریا کا ویری کا ایک حصہ ہے۔

ہم نے اسپائیڈرویلی میں گھومنے پھرنے کا منصوبہ مختلف وجوہات کی بنا پر بنایا تھا۔یہ علاقہ گھنے جنگلوں سے اٹا پڑا ہے۔ان دنوں یہاں ہاتھی، بسان، شیر، چیتے اور ریچھ کی بہتات تھی۔ سانبھر، جنگلی بھینسے اور دھاری دار ہرن بھی بڑی تعداد میں ملتے تھے۔لمبے لمبے بانس اور جھاڑ جھنکاڑ میں لاھوں زہریلی مکھیوں نے مسکن بنا رکھات ھا اور مجھے یہ بھی علم تھا کہ صرف اسی علاقے میں کنگ کو برا سے ملاقات ہو سکتی ہے۔

آخر مہم کا آغاز ہو گیا۔ فورڈ ماڈل کی ایک پرانی گاڑی میں بیٹھ کر عیور فارسٹ بنگلے میں پہنچے۔دوپہر کا کھانا کھایا اورکندھوں پر تھیلے لٹکائے اسپائیڈر ویلی کی طرف چل پڑے جو ابھی تین میل دور تھی۔ ہم نے ہلکے کپڑے پہن رکھے تھے اور پاؤں میں گھنٹوں تک ربڑ کے جوتے تاکہ سانپ کے حملے سے محفوظ رہ سکیں۔رات کے وقت اتنا خطرہ کہ ہاتھی سے نہیں ہوتا جتنا کھاڑیوں میں رینگتے ہوئے سانپ سے ۔بنگلے سے ایک تنگ سا راستہ جنوب مشرق کی طرف جنگل میں نکلتا ہے۔نصف میل کے بعد یہ ایک چشمے پر پہنچ کر مغربی سمت ہو لیتا ہے اور پھر کچھ فاصلے پر ایک اور راستے میں شامل ہو جاتا ہے جو گلہٹی کے بنگلے تک پہنچا دیتا ہے۔

راستے میں چشمے پر ہماری پہلی ملاقات جنگی جانوروں سے ہوئی۔ رات ہو چکی تھی۔ ٹارچوں کی روشنی میں چشمے کے دوسرے کنارے پر دھاری دار ہرن دکھائی دیے۔وہ اپنی پیاس بجھانے آئے تھے۔میں انہیں غور سے دیکھنے کے لیے زمین پر بیٹھ گیا مگر ایرک راستہ چھوڑ کر پانی کی طرف بڑھا۔ یہ فاش غلطی تھی۔ اس کے کپڑے خاردار جھاڑیوں میں الجھ گئے۔ایک تو خود اسے خراشیں آئیں۔دوسرے جب اس نے کانٹوں سے دامن چھڑانا چاہا تو بہت شور بلند ہوا۔ ہرن برق رفتاری سے غائب ہو گئے۔ساتھ ہی ایک اور خوفناک آواز سنائی دی۔

ایک ریچھ پانی پینے چلا آرہا تھا،چونکہ ریچھ کی ساعت کمزور ہوتی ہے۔اس لیے ہماری خبر نہ ہو سکی مگر جب ہرنوں نے راہ فرار اختیار کی تو اس نے خطرہ کی بوسو نگھ لی۔اب جو اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسے روشنی میں ایرک کھڑا نظر آیا۔

ریچھ کو جب کبھی خطرے کا احساس ہوتا ہے تو وہ کچھ سوچنے کی تکلیف نہیں کرتا، نہ بھاگنے ہی کا خیال آتا ہے بلکہ سیدھا انسان پر چڑھ دوڑتا ہے۔یہی اس نے کیا۔

ایرک اس وقت کانٹوں میں الجھا ہوا تھا۔ اسے اور تو کچھ نہ سوجھا، فوراً اپنی تین سیلوں والی ٹارچ کی روشنی حملہ آور درندے پر پھینکی جو صرف چار فٹ دور تھا۔ روشنی ہتھیار کا کام دے گئی اور ریچھ نے حملہ کرنے کا ارادہ ملتوی کر دیا اور پھر کھپ ،کھپ، کھپ کی آواز کے ساتھ وہ منظر سے غائب ہو چکا تھا۔ ایرک ہکلایا:’’خونخوار ریچھ۔‘‘میں خاموش کھڑا رہا۔

اب ہم چل پڑے۔کچھ دیر مغرب کی جانب سفر کیا،پھر جنوب کی طرف ہو لیے۔راستہ بہت تنگ تھا۔ ہم پڑی سے اترے اور وادی میں داخل ہوگئے۔ہر طرف گھنا جھاڑ جھنکاڑ شروع ہو گیا تھا۔

اچانک ہمیں ہاتھیوں کی آواز سنائی دی۔کسی آفت کے پرکالے نے بانس کے جھنڈ میں شور مچایا، یہ جانور بانس کی نرم ونازک نئی کونپلوں کا رسیا ہے اور چند پتوں کے لیے پورے کا پورا جھنڈ غارت کر کے رکھ دیتا ہے۔کچھ دیر کے لی خاموشی چھا گئی۔ پھر پتے نگلنے کی ہلکی ہلکی آواز آئی اورایک بار پھر سکوت چھا گیا۔بہرحال ہمیں یقین ہو گیا کہ ہمارا سابقہ صرف ایک ہاتھی سے ہے۔وہ بالکل ہمارے سامنے تھا۔ چند سکینڈ کے اندر اندر ہماری بوپا سکتا تھا۔ انسان کی بو سونگھتے ہی ہاتھی یا تو جنگل کی راہ لیتا ہے یا بالکل ساکت و صامت کھڑا ہو جاتا ہے تاکہ انسان اس کی موجودگی کا احساس کیے بغیر آگے نکل جائے۔ہاتھی انسان کی بو لمبی سونڈ سے سونگھ لیتا ہے لیکن اسکے لمبے کان بھی غیر معمولی طور پر معمولی سی آہٹ کو بھی سن لیتے ہیں۔اس لئے جنگلی اور غیر سدھائے ہاتھی پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے۔یہ انسان کو اپنا دشمن ہی سمجھتا ہے۔ اگر وہ شرارت پر آمادہ ہو تو آدمی کو اپنے قریب پہنچنے دیتا ہے اور پھرموقع پا کر ٹوٹ پڑتا ہے۔ہاتھی چاہے مستی ہی میں کیوں نہ ہو، فوراً شاذونادر ہی حملہ کرتا ہے۔وہ اکثر کچھ کرنے سے پہلے دو ایک منٹ تک اچھی طرح سوچ بچار کر لیتا ہے۔

میں ایرک کا بازو پکڑ کر ہاتھی کے راستے سے ہٹنے کو تھا کہ ہاتھی کے بچے کی آواز کانوں میں پڑی۔اب زیادہ خطرہ نہ تھا۔انسان جب تک بچے کو نقصان نہ پہنچائے، ہاتھی یا ہتھنی حملے سے گریز کرتی ہے۔میں نے فوراً ٹارچ بجھا ڈی اور ایرک کا بازو پکڑ لیا تاکہ اسے ایک طرف لے جاؤں۔چند لمحوں تک ہماری آنکھوں کے سامنے تاریکی چھائی رہی، پھر ستاروں کی روشنی نے مدد کی اور ہمیں تاریکی میں نظر آنے لگا۔

خاموشی گہری ہو رہی تھی۔ ہمارے اعصاب پر بے پناہ دباؤ تھا۔ پھر دائیں طرف سے ایک ہلکی سی گرج سنائی دی۔

ایرک دائیں طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا۔ وہی گرج دوبارہ سنائی دی۔ ایرک کچھ سہم سا گیا اور میرے قریب ہو کر سرگوشی کی:

’’سن رہے ہو؟کہیں یہ شیر تو نہیں؟‘‘

میں نے خاموش رہنے کا اشارہ کیا لیکن افسوس تیر کمان سے نکل چکا تھا۔قریب ترین ہاتھی نے ا یرک کی سرگوشی سن لی تھی۔

اور پھر زمین سے لرزا دینے والی آواز ابھری۔ .... خوفزدہ ہتھنی نے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔اب یہ عظیم الجثہ جانور کوئی بھی رویہ اختیار کر سکتے تھے۔خطرے کی بو پانے کے بعد تھوڑی دیر تک حشر کا سا سماں رہا۔ مائیں اپنے بچوں کو بلا رہی تھیں اور چھوٹے چھوٹے بچے ان کے نیچے پناہ ڈھونڈنے آرہے تھے۔زیادہ خوفناک شورندی کی طرف تھا جو ہم سے چند گزدور تھا۔

”آ....آ....آہا!یہ تو ان کا سردار ہے۔“اس نے خوفزدہ ہتھنیوں کی بے چینی بھانپ لی تھی۔وہ ان کی مدد کے لیے چنگھاڑتا ہوا پانی سے نکلا۔ بائیں طرف سے ایک اور ہاتھی نے مضطرب پکار کا جواب دیا۔

ایک تو ہم پیدل تھے اور دوسرے اسلحے سے بھی محروم۔ہماری حالت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے،دائیں بائیں خونخوار جانور مورچہ زن تھے اور درمیان میں ہم دو نحیف ونزار نہتے انسان ، اب محتاط انداز میں چلنے کا وقت نہ تھا۔ہم راستے سے ہٹ کر لمبے لمبے ڈگ بھرنے لگے۔دونوں ہاتھی اپنے جھنڈے سے ملے تھے۔مائیں ابھی تک اپنے بچوں کو بلا رہی تھیں۔جانوروں کے احساس تحفظ کا یہ نظارہ حیران کن تھا۔

اگر یہ ہاتھی ہمارا تعاقب کرنے کا فیصلہ کر لیتے تو وہ چند لمحوں کے اندر ہمارا کچومر نکال دیتے مگر ان کی چنگھاڑ کا نیا لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔حملہ کرنے سے پہلے یہ جانور جو آواز نکالتا ہے وہ تیز اور لمبی ہوتی ہے۔محض خطرے یا خوف کے وقت بلند ہونے والی آواز سہمی سہمی، باریک اور مختصر ہوتی ہے۔

چند لمحوں کے لیے خاموشی چھا گئی اور پھر جو آواز سنائی دی تو بتدریج دور سے دور تر ہوتی چل گئی۔تھوڑی دیر بعد شڑاپ شڑاپ کی آوازوں سے اندازہ ہوا کہ پورا قافلہ ندی عبور کررہا ہے۔ہم دوڑتے دوڑتے رک گئے اور پھولا ہوا سانس درست کرنے لگے۔

اب ماحول پر پھر سناٹا طاری تھا۔بس پہاڑ پر سے دھیمی دھیمی آوازیں آرہی تھیں مگر ا یرک کے کان کھڑے ہو گئے۔اس نے پھر سرگوشی کی:

”اب کیا ہے؟“

شاید کسی درندے نے نیچے ندی میں شور شرابا سنا تو اس نے خطرہ محسوس کرکے غرانا شروع کر دیا تھا۔میں نے کندھے اچکائے، ہتھیلی فضا میں میں بلند کی اور انگشت شہادت سے وادی کی طرف اشارہ کیا۔مطلب یہ تھا کہ ہمیں ہمت کرکے آگے بڑھنا چاہیے۔ایرک نے میری بات سمجھ لی۔

ہاتھی راستے سے ہٹ گئے تو پندرہ منٹ بعد ہم نے وادی کی طرف بڑی احتیاط سے سفر شروع کر دیا۔جلد ہی ہم ندی پر پہنچ گئے۔یہ کوئی بیس گز چوڑی تھی۔پانی کناروں تک بہہ رہا تھا لیکن گہرائی صرف گھٹنوں تک تھی۔ندی پار کر کے دوسرے کنارے پر پہنچے۔جھاڑ جھنکاڑ کی بہت کثرت تھی۔جنگل بھی کافی گھنا تھا۔بلند و بالا درختوں کی چوٹیاں فضا میں ایک دوسری سے مل گئی تھیں اور عجب ڈراﺅنا سماں پیدا ہو گیاتھا۔

تاریکی میں اضافہ ہو گیا،ہوا بھی تیز ہو گئی تھی، بانسوں کے پودے ایک دوسرے سے بار بار ٹکرا رہے تھے۔ان کے پتے چر چراتے تو یوں لگتا جیسے اداس وادی ہلکی ہلکی سسکیاں بھررہی ہو۔ ہوا ہمارے عقب سے چل رہی تھی اور جنگلی جانوروں تک ہماری بو پہلے ہی پہنچ جاتی تھی۔ہرن اور ہاتھی تو خاص طور پر ہماری آمد سے خبردار ہو سکتے تھے۔تیز ہوا کے شور سے جنگلی جانوروں کی کوئی آواز سننے میں نہ آتی تھی۔

آگے آگے میں تھا اور پیچھے پیچھے ایرک۔میرے ہاتھوں میں تین سیلوں والی بیٹری روشن تھی۔ میں نے ایرک سے کہہ دیا تھا،وہ اپنی ٹارچ نہ جلائے۔اس کی روشنی کا دائرہ مجھ پر پڑتا تو جانور مجھے دیکھ لیتے۔پھر عقب سے آنے والی روشنی اگلے آدمی کے لیے الٹا رکاوٹ بن جاتی ہے۔

چند لمحوں بعد میرے منہ سے کوئی شے چمٹ گئی۔ٹارچ کی روشنی کے باوجود پتا نہ چل سکا۔ پھر احساس ہوا کہ کسی مکڑے کے جالے میں گھس آیا ہوں۔اس وادی میں قدم قدم پر اس مخلوق سے سابقہ پیش آتا ہے۔اسی لیے مکڑوں کے نام سے مشہور ہے۔یہ عظیم الجثہ مکڑے کوئی دس انچ لمبے ہوتے ہیں،اگرچہ میرے چہرے پر جو مکڑار رینگ رہا تھا، وہ جسامت میں زیادہ بڑا نہ تھا۔ان کے پیٹ سیاہی مائل ہوتے ہیں اور کہیں کہیں ہلکے رنگ میں زرد دھاریاں پائی جاتی ہیں۔آنکھیں لمبی لمبی،سیاہ رنگ کی،بغیر بالوں کے اور طاقتور۔یوں لگتا تھا جیسے لوہے کے تارہیں۔یہ مکڑے جال تو عام مکڑیوں کی طرح بنتے ہیں مگر بہت بڑا اور نہایت مضبوط، باریک۔انجینئرنگ کا قاتل فخر کارنامہ۔کیا مجال اس جال میں پھنسا ہوا کوئی شکار نکل جائے۔مچھر ،مکھی یا دوسرے بھونگے تو دم تک نہیں مار پاتے،یہ جھپٹ کر انہیں دبوچ لیتا اور ان کے اردگرد مزید جال بُن دیتا ہے۔ہاں جال میں پھنسنے والا کوئی مکڑا ہی ہو تو پھر لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ایسی لڑائی کا نظارہ میں نے ایک بار خود کیا تھا۔ عام طور پر اپنے مد مقابل کی ٹانگوں پر حملہ کرتا ہے اور چشم زدن میں اسے لنگڑا کرکے رکھ دیتا ہے۔جب وہ بے بس ہو جائے تو عام شکاری کی طرح اسے دام میں گرفتار کرکے اس کا خون پینے لگتا ہے۔

میں نے اپنے چہرے سے جالا صاف کیا اور سفر جاری رکھا۔ راستہ مزید تنگ ہو گیا تھا اور جنگل بھی پہلے سے زیادہ گھنا تھا۔ ٹارچ کی روشنی ایک درخت کے تنے سے دوسرے تنے پر رقص کرتی رہی۔ تنوں کے اوپر اُگی ہوئی کائی یوں لگتی تھی جیسے درختوں کی ڈاڑھیاں نکل آئی ہوں۔اچانک سناٹا طاری ہو گیا۔ ایرک نے کسی نئے خطرے کے پیش نظر اپنی رفتار تیز کرلی۔ میں رکا تو وہ مجھ سے ٹکراگیا۔

اب ایک نئی افتاد نازل ہوئی۔ موسلادھار بارش ہو گئی۔چھتری یا برساتی بھی تو بے کار ثابت ہوتی۔ ہم تو خالی ہاتھ تھے۔نہ صرف بری طرح بھیگ گئے بلکہ پاس تھوڑا بہت کھانے کا جو سامان تھا، وہ بھی ضائع ہو گیا۔

بارش لگاتا برستی رہی۔

چھوٹی سی ندی،طغیانی پر تھی۔ اردگرد کے پہاڑوں کا تمام پانی اس میں شامل ہو رہا تھا۔ درختوں کی ٹوٹی ہوئی شاخیں بھی بہتی چلی آئی تھیں۔ہم جس زمین پر کھڑے تھے وہ ایک ایک فٹ تک دلدل میں تبدیل ہو چکی تھی اور ابھی بارش رکنے کا نام نہ لیتی تھی۔کوئی گھنٹہ بھر بادوباراں کے اس طوفان میں ہم گھرے رہے۔پھر اچانک مطلع یوں صاف ہو گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ہمارے چاروں طرف بے پناہ شور تھا۔ ایک طرف ندی پھنکار رہی تھی، دوسری طرف حشرات الارض نے آسمان سر پر اٹھالیا تھا۔

ندی کے کناروں اور جھاڑیوں میں سینکڑوں مینڈک ٹرارہے تھے۔پوری وادی ان کے طربیہ کورس سے گونج رہی تھی۔ہم بڑی احتیاط سے قدم بڑھا رہے تھے۔اچانک میرے سامنے سے کوئی سفید سی چیز گزری۔ بس آناً فاناً غائب ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ پھر نمودار ہوئی۔میں نے ٹارچ کی روشنی اس پر پھینکی۔اُف میرے خدا!وہ کوبرا سانپ تھا۔کیچڑ میں دھنسا ہوا۔

میں نے ایرک کو رکنے کا اشارہ کیا۔ سانپوں کے کان نہیں ہوتے لیکن وہ سماعت سے محرومی کی کمی اپنے دوسرے حواس سے پوری کرلیتے ہیں۔وہ پیٹ کے خلیوں کی مدد سے کوئی بھی حرکت محسوس کر سکتے ہیں۔میں نے ٹارچ کی روشنی اس پر مرکوز کر دی۔ وہ ایک بہت بڑا مینڈک نگلنے میں محو تھا۔ بدقسمت جانور کا سر اور ایک ٹانگ تو سانپ کے منہ میں تھی اور تین ٹانگیں باہر لٹک رہی تھیں۔

میں سانپوں کا عاشق ہوں۔میرے پاس طرح طرح کے سانپ موجود تھے مگر اس قسم کا کوبرا پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ میرا جی للچایا اور میں نے اسے پکڑنے کا فیصلہ کرلیا لیکن مصیبت یہ تھی کہ میں جس تھیلے کی مدد سے سانپ پکڑتا ہوں،وہ میرے سامان میں بندھا ہوا تھا۔ میں نے بہت احتیاط سے اپنا سامان کندھوں سے اتار کر کھولا مگر سانپ کو میری موجودگی کی خبر ہو گئی۔اس نے فوراً مینڈک منہ سے نکال کر پھینکا،غصے میں پھنکارا اور تن کر کھڑا ہو گیا اور پھن لہرانے لگا۔ اسے اور غصہ دلانے کے لیے میں نے زور سے زمین پر پاﺅں مارا۔ سانپ اور اونچا ہو گیا۔اس کا پھن بھی پھیل کر چوڑا ہو گیا تھا۔ ساتھ ہی اس نے غوطہ مار کر حملہ کردیا۔ میں پہلے ہی پیچھے ہٹ چکا تھا اور تھیلا نکلانے کی کوشش کر رہا تھا۔میری نظر سانپ پر تھی اور ہاتھ سامان ٹٹول رہے تھے۔

آخر مجھے تھیلا مل گیا اور میں اسے لے کر تیزی سے سانپ کی طرف بڑھا،وہ بھی مقابلے کے لیے پوری طرح تیار تھا۔ کوبرا پکڑنا اس وقت نہایت آسان ہے جب اس کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرلی جائے۔اگروہ حرکت کررہا ہو تو ایسی کوشش خطرناک ثابت ہوتی ہے۔میں نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھا رکھا تھا،تھیلے کو ہینڈل سے پکڑا ہوا تھا اور پھر بڑی پھرتی سے تھیلا سانپ کے منہ کے آگے کر دیا۔وہ غصے میں پھنکارتے ہوئے اس جھپٹا۔میں نے تھیلا پیچھے کریا۔سانپ کا پھن زمین پر جا لگا۔

یہی وقت ہوتا ہے جب انسان کو مہارت دکھانی پڑتی ہے لیکن یہ ایسا مشکل کام بھی نہیں۔مشق سے انسان مہارت حاصل کرلیتا ہے۔میں نے فوراً سانپ کی گردن مضبوطی سے پکڑ لی۔زمین گیلی تھی اور اندیشہ بھی تھا کہ سانپ نیچے سے کھسک ہی نہ جائے۔ادھر ایرک خوف کے مارے دس فٹ پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ میں نے اسے آگے آکر ٹارچ پکڑنے کو کہا، مگر یوں لگتا تھا اس کے قدم وہیں گڑ کر رہ گئے ہیں۔میں نے اسے دوبارہ آواز دی تو وہ بمشکل مجھ تک پہنچا اور ٹارچ میرے ہاتھ سے لے لی۔

”ٹارچ اس کے سر پر مرکوز رکھو۔“میں نے ہدایت کی اور پھر میں بیٹھ گیا۔ سانپ نے اس دوران میں اپنی دم سے میرے بازو کے گرد کنڈی مارلی۔ میں نے بائیں ہاتھ سے کنڈی کھولی اور ایرک سے تھیلا اوپر اٹھانے کو کہا۔اس نے ڈرتے ڈرتے تھیلا اٹھایا، پھر میرے کہنے پر تھیلے کا منہ کھولا۔اب آہستہ آہستہ میں نے سانپ کو دم کی طرف سے تھیلے میں ڈالنا شروع کیا اور آخر میں اس کا سر بھی زور سے اندر پٹخ دیا اور اپنا ہاتھ پیچھے ہٹا لیا۔ تھیلے کا منہ اچھی طرح بند کر دیا گیا۔پھر اسے دوسرے سامان میں باندھا اور پھر اپنی پیٹھ پر لادلیا۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کوبرا پکڑنے کے لیے مضبوط اعصاب کی ضرورت ہوتی ہے لیکن میری رائے اس کے برعکس ہے۔سانپ پکڑنے والے کے اعصاب سرے سے ہونے ہی نہیں چاہئیں کیونکہ اگروہ کسی بھی مرحلے پر اعصاب پر کنٹرول نہ رکھ سکا تو اس کی ہلاکت یقینی ہے۔ اعصاب کے بجائے مشق اور مہارت درکار ہے۔ایسی مشق اور مہارت کہ کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر وہ برق رفتاری سے سانپ کو اپنی گرفت میں لے سکے۔

سردی اوربڑھ گئی تھی۔ دل چاہتا تھا کہ رک کر آگ جلالیں مگر سوکھی لکڑی کہاں سے ملتی؟بس ایک خیال حوصلہ افزا تھا۔ ہم نوجوان ہیں اور ہمیں سردی گرمی سے نہیں گھبرانا چاہیے۔

’’ہو!ہو!ہو!ہو!‘‘

وادی اچانک لرز اٹھی اور ہم اپنی جگہ پر جم کر رہ گئے۔ہمارے دونوں طرف بلند پہاڑیوں کی چوٹیاں ایک دوسرے سے بغل گیر ہو رہی تھیں۔وادی تنگ ہو کر صرف ایک ندی تک محدود ہو گئی تھی۔ ہو!ہو!کی صدائے باز گشت ان چوٹیوں سے گونجی تو وادی جیسے سہم کر رہ گئی۔

یہ گرج ایک شیرکی تھی جو ہمارے بائیں ہاتھ کہیں قریب ہی موجود تھا۔وہ مشرقی پہاڑی سلسلے سے اتر کرندی پار کرنے والا تھا۔ ہم نے ٹارچیں بند کر دیں اور تیزی سے اس سے ملاقات کرنے آگے بڑھے۔

’’ہو!ہو!ہو!‘‘

آواز مسلسل سنائی دے رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ اس گرج میں وہ زور نہیں جو خطرے کی بوسونگھ کر شیر کی آواز میں پیدا ہو جاتا ہے۔پھر مجھے یاد آیا فروری کے آخری دن ہیں اور یہ موسم شیر شیرنی کے ملاپ کا ہوتا ہے۔درندہ بے تکان گرج رہا تھا۔ میں نے آواز پر کان دھردے اور اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ شیر نہیں شیرنی ہے اور اپنے ساتھی کو بلا رہی ہے اور جب شیرنی اس موڈ میں ہو تو نہتے ہو کر اس کا سامنا کرنا خوشگوار نہیں ہوتا۔

شیرنی مسلسل دھاڑتی رہی۔وہ ندی کے اسی کنارے ہم سے کچھ فاصلے پر تھی۔ ہم بھی اسی کنارے تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے۔ ندی ہمارے دائیں ہاتھ تھی۔بارش کا پانی آہستہ آہستہ اتر رہا تھا، پھر بھی پانی کی گہرائی تین چار فٹ تھی۔عام مشاہدہ یہی ہے کہ شیر پانی کو ازحد پسند کرتے ہیں۔خصوصاً آندھراپردیش کے گرم جنگلوں میں تو وہ دوپہر کی دھوپ سے بچنے کے لیے سایہ دار تالابوں میں جا بیٹھتے ہیں۔سوال یہ تھا شیرنی ندی عبور کرے گی یا نہیں۔بظاہر امکان تو نہ تھا۔

اسی لمحے ایک اور آواز آئی:

’’روں!آروں!آروں!اوہ!ہو!‘‘

میری چھٹی حس نے مجھے خبردار کر دیا۔یہ شیر تھا۔ اس نے شیرنی کی پکار سن لی تھی اور اب بتا رہا تھا کہ وہ آرہا ہے۔ہم ابھی تک تاریکی میں تھے۔ٹارچ جلانے کا خطرہ مول نہ لے سکتے تھے۔ہماری موجودگی اس جوڑے کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔شیروں کی قوت شامہ نہیں ہوتی۔وہ صرف آواز ہی سے دوسری چیز کا پتا چلا لیتے ہیں۔پرشورندی کی وجہ سے ہمارے قدموں کی چاپ انہیں سنائی نہ دے سکتی تھی ،اس لیے ہم نے وہیں رک کر ان کا نظارہ کرنے کا فیصلہ کرلیا،چنانچہ ایک درخت کے پیچھے چھپ گئے۔

ہمارے آنکھیں تاریکی میں دیکھنے کی عادی ہو گئی تھیں۔تھوڑی بہت ستاروں کی چمک بھی مدد دے رہی تھی۔شیر ایک بار پھر گرجا۔اس کی آواز ندی کے پار سے آرہی تھی۔ اب یا تو شیر ندی عبور کرتا یا شیرنی دوسری طرف چلی جاتی تو ہمارے راستے سے خطرہ ٹال سکتا تھا۔ بصورت دیگر خونخواردرندے تھے اور ہم کسی وقت بھی ان کی زد میں آسکتے تھے۔

شیر ایک بار پھر دھاڑا۔اس کی آواز میں رعب تھا جیسے کہہ رہا ہوں،ادھر اس کنارے پر آجاؤ۔شیرنی نے بلی کی سی میاؤں میاؤں سے اس کا جواب دیا۔مطلب واضح تھا تم ادھر آؤ۔اچانک شیر نے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ ندی کا پاٹ زیادہ چوڑا نہ تھا۔ چند منٹوں میں شیر اس کنارے پر آچکا تھا۔تھوڑی دیر تک دونوں جانور ایک دوسرے پر غراتے رہے،پھر وہ ہنگامہ برپا ہوا کہ خدا کی پناہ! یہ ایک طرح سے مصنوعی جنگ تھی۔شیر بری طرح شیرنی کی گردن میں دانت پیوست کر دیتا اور شیرنی بھی اپنے پنجوں سے شیر کا چہرہ نوچ لیتی۔ ایک بار تو وہ ہم سے صرف دس قدم کے فاصلے پر پہنچ گئے اور ہمیں اپنی جان کے لالے پڑ گئے جس درخت کے پیچھے چھپے ہوئے تھے اس کا تنا اس قدر موٹا تھا کہ اس پر چڑھنا ممکن نہ تھا۔ دوسرا قریب ترین درخت بیس قدم پیچھے تھا۔ وہاں تک پہنچتے پہنچتے ہم دونوں میں سے ایک تو یقیناً ان کا لقمہ بن جاتا۔ہمارے لیے سانس روک کر کھڑے رہنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

آخر وہ تھک ہار کر بیٹھ گئے۔اب ان کے منہ سے صرف میاؤں میاؤں کی ہلکی سی آوازیں نکل رہی تھیں۔ملاپ سے پہلے دونوں نے خوب رومانس کیا تھا۔اس دن مجھے پر جنسی مزاج کے اس پہلو کا ادراک ہوا کہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت رومانس ہے جو جنسی قوت کو دوبالا کرتی ہے۔رومانس کے بغیر جانور بھی ملاپ کرنا پسند نہیں کرتے ،کتنی حیران کن بات ہے۔سکون کا یہ وقفہ بڑا مختصر ثابت ہوا۔دوسرے کنارے سے ایک اور شیر کی گرج سنائی دی:’’لو اب مزارہے گا۔‘‘میں نے دل ہی دل میں کہا۔پہلے شیر کے مقابلے میں ایک اور شیر میدان میں نکل آیا تھا۔

جواب میں یہ شیر ایک دم کھڑا ہو گیا اور غرایا۔ دوسرے کنارے پر پھر دھاڑ بلند ہوئی۔پہلا شیر غصے کے عالم میں گرجا اور ندی میں کود کر چشم زدن میں دوسرے کنارے پر پہنچ گیا۔ایک دوسرے پر وار کرنے سے پہلے دونوں درندے پنجوں سے زمین کریدتے رہے لیکن پھر دوسرا شیر نہ جانے کیوں الٹے پاؤں بھاگ کھڑا ہوا۔پہلے شیر نے فاتحانہ نعرہ لگایا اور اس بھگوڑے کے پیچھے دوڑا۔

شیرنی جو یہ سارا تماشا دیکھ رہی تھی، اپنی جگہ سے اٹھی اور ندی عبور کرکے دوسرے کنارے پر پہنچ گئی۔اس اثنا میں دونوں شیر تاریک جنگل میں غائب ہو چکے تھے۔ہم نے اپنا سفر پھر شروع کیا اور جلد از جلد اس میدان کار راز سے نکل جانے میں عافیت سمجھی۔کیا معلوم شیر پھر واپس آنے کا فیصلہ کرلیں اور سارا غصہ ہم پر اتار دیں۔

ہم پہاڑ کے دامن میں پہنچ چکے تھے۔کمپیکا رائے کی بستی زیادہ دور نہ تھی۔ اس نواح میں میں نے ’’منچی کے شیطان‘‘کو ہلاک کیا تھا۔ یہاں پگڈنڈی ایک بار پھرندی میں اتر گئی اور ہم ندی پار کرکے دوسرے کنارے پر پہنچ گئے۔پانی اب گھٹنوں گھٹنوں باقی رہ گیا تھا۔

پگڈنڈی ایک ڈھلوان گھاٹی سے اتر کر سیدھی بستی کی طرف بڑھتی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ہم مٹی اور گھاس پھوس کی جھونپڑیوں کی بستی میں داخل ہو چکے تھے۔ایک کتا ہمیں دیکھ کر بھونکا لیکن کسی مکین کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔بار بار آوازیں دینے پر بمشکل ایک دروازہ کھلا اور ایک سر باہر نمودار ہوا۔ نیم وا آنکھیں میری ٹارچ کی روشنی میں چندھیا گئیں۔یہ میرا دوست بائراپجاری تھا جس کاذکر میں نے اپنی کئی کہانیوں میں کیا ہے۔پہلے وہ دریائے چنار کے کنارے پہاڑی غاروں میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ نیم برہنہ،نیم وحشیانہ زندگی بسر کرتاتھا۔پھر اس خاندان نے چرواہے کا پیشہ اپنا لیا اور ایک امیر شخص کے مویشی چرانے لگا۔ باراپجاری ہمیں بے وقت دیکھ کر حیران رہ گیا۔کچھ دیر بت بنا کھڑا رہا۔پھرتنگ سے دروازے سے باہر نکلا اور اپنا ماتھازمین پر ٹیک دیا۔ اب ہم ٹوٹی پھوٹی چار پائی پر بیٹھ گئے۔میں نے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔ پجاری حیران تھا کہ کہیں ہمارا دماغ تو نہیں چل گیا۔ اسلحے کے بغیر اور صرف ایک لنگوٹی پہن کر ہم اس خطرناک وادی میں گھس آئے تھے۔اس نے ہمیں خبردار کیا کہ پچھلے کچھ عرصے سے وادی میں ایک خونی ہاتھی سرگرداں ہے۔کسی انسان کو دیکھ لے تو اس پر ٹوٹ پڑتا ہے۔کمپیکارائے کے تمام پجاری چرواہے اپنی ہوشیاری اور پھرتی کے باعث اب تک اس موذی سے بچے ہوئے تھے۔ہم ان دونوں خوبیوں سے محروم تھے۔اس لیے اس کی رائے تھی کہ ہمیں مزید آگے سفر کرنے کا خطرہ مول نہ لینا چاہئے۔

’’دن چڑھنے کا انتظار کرو۔‘‘پجاری نے کہا:’’ہاتھی پیچھے لگ جائے تو صرف دن کے وقت ہی آدمی فرار کا راستہ ڈھونڈ سکتا ہے۔‘‘

بائرا کی خواہش تھی کہ ہم اسلحے کا بندوبست کرکے ہرن کا شکار کریں جو اس کے خاندان کے کام آئے۔گوشت اس شخص کی بڑی کمزوری تھی اور وہ جب کبھی ہمیں ملتا اس کا مطالبہ ضرور کرتا۔ میں ہمیشہ انکار کر دیتا۔میں نے کبھی ہرن اور سانبھر کو محض شکار کا شوق پورا کرنے کے لیے نہیں مارا۔ اس کے باوجود بائرا کا تقاضا برقرار رہتا۔

ائر ا کبھی کسی سکول میں نہ گیا تھا، تاہم جنگلی جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ دواؤں سے علاج کرنے میں ماہر تھا۔ وہ گاؤں بھرکا’’ڈاکٹر ‘‘تھا۔ ہر طرح کی ایمرجنسی میں اسے طلب کیا جاتا۔اسکے پاس سانپ کے کاٹے کا کوئی خفیہ ٹوٹکا بھی تھا۔ آج تک کوئی مریض یہ دوائی کھانے کے بعد نہ مرا تھا۔ اس نے ہیضے کے مریضوں کا بھی کامیاب علاج کیا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب آس پاس کے دیہات اس مرض کے ہاتھوں خالی ہورہے تھے۔

میں چائے کارسیاہوں اور بائرا کو میری اس کمزوری کا علم ہے۔اس نے آگ جلادی تھی اور کیتلی میں پانی ابل رہا تھا۔ میں نے اس دوران میں اسے تین شیروں سے ملاقات کا حال سنایا۔ اس نے کہا کہ ان دنوں ساری وادی میں یہی تین شیر باقی ہیں۔ایک شیرنی اور بھی ہوا کرتی تھی لیکن چند ماہ پہلے وادی سے ایسی نکلی کہ پھر واپس نہ آئی۔باقی تینوں درندے مویشیوں پر گاہے بگاہے ہاتھ صاف کرتے رہتے ہیں لیکن ابھی تک ان میں سے کسی نے بھی چرواہوں یا گلہ بانوں پر حملہ نہیں کیا۔

آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 22)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font

تمام قسط وار کہانیاں یہاں سے پڑھیں

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں