آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر22)

 

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر22)

چائے کی پیالی نے ہمیں گرما دیا تھا۔ہم نے سامان کندھوں پر لٹکایا اور چلنے کا ارادہ ظاہر کیا۔پجاری ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا:

’’سرکار،آپ نہتے ہیں،دن چڑھنے تک صبر کریں۔‘‘

مگر ہم تو رات ہی کوگھومنے نکلے تھے۔ہمیں چلتا دیکھ کر وہ بھی ساتھ ہولیا:’’صبح تک میں تمہارے ساتھ رہوں گا اور حتیٰ الامکان تمہاری حفاظت کروں گا،مبادا خونی ہاتھی سے سابقہ پیش آجائے اور وہ تمہیں کچل کر رکھ دے۔‘‘

ان منحوس الفاظ کے ساتھ ہمارے سفر کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گیا ۔کمپیکا رائے سے نکل کر ہم پھرندی کی طرف بڑھے۔میں ٹارچ جلائے سب سے آگے آگے تھا۔بار میرے پیچھے اور ایرک نے عقب سنبھال رکھا تھا۔ ہم تنگ راستے سے ہوتے ہوئے پھر وادی میں داخل ہو گئے۔سردی شباب پر تھی۔ ناگہاں بانسوں کے اندر سے جنگلی مرغ کے کڑکڑانے کی آواز آئی۔رات کے دو بج رہے تھے۔کوئی آدھ ایک میل چل کر میں نے بائرا کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔اس نے بتایا، ہاتھی کہیں آس پاس موجود ہے۔یقیناً یہ بہت قریب ہو گا، ورنہ بائرا خاموشی کے انداز میں ضرور خبردار کردیتا۔پھر اشارے ہی اشارے میں انتظار کرنے کو کہا اورہم ساکت وصامت کھڑے ہو گئے۔

عاً سراہٹ سی سنائی دی جو بلند سے بلند تر ہوتی جارہی تھی۔ ہاتھی سامنے سے ہماری طرف بڑھ رہا تھا۔ بائرا نے اچانک اشارہ کیا اور خود تیزی سے مڑا اور پنجوں کے بل بھاگنے لگا۔ ایرک نے اس کی پیروی کی، میں سب سے پیچھے رہ گیا۔ہاتھی نے ہماری بوپالی تھی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا ہمارے پیچھے ہولیا۔یہی وہ خونی ہاتھی تھا جس سے بائرا نے ہمیں خبردار کیا تھا۔ وہ ہمارے بہت قریب پہنچ کر چنگھاڑاور پھر حملے کے انداز میں ہم پر پل پڑا۔

اب بھاگنا بے کار تھا۔یوں بھی ہمارے کندھوں پر سامان تھا اور بھاگنا ممکن بھی نہ تھا۔ جھاڑیوں میں بھی چھپنا لا حاصل تھا۔ موت ہمارے سر پرمنڈلا رہی تھی۔میں نے آخری حربہ آزمانے کا فیصلہ کیا۔فوراً ٹارچ روشن کر دی اور ساتھ ہی پورے زور سے نعرہ لگایا۔ روشنی کا دھارا دیوقامت ہاتھی کے اوپر پڑا جواب صرف دس گز دور رہ گیا تا۔ اس نے سونڈ میں کیچڑ ڈال رکھا تھا۔اس کا منہ قدرے کھلا ہوا تھا اور دانت بالکل میری سیدھ میں تھے۔آنکھیں ستم ڈھانے کو بے قرار تھیں۔اگلے ہی لمحے وحشی جانور رک گیا۔ اس کے اچانک رکنے سے کیچڑا چھل کر دور جاگرا۔میں گلا پھاڑے برابر چلا رہا تھا۔ بائرا نے مجھے موت کے منہ میں جاتے دیکھ کر قدم روک لیے تھے۔وہ میری مدد کو پہنچ گیا تھا۔اس نے بھی میرے ساتھ مل کر ہاتھی پر گا لیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ایرک پیچھے مڑ کر لگاتار بھاگے جارہے تھا۔

دیوہیکل جانور دائیں بائیں سرہلانے لگا۔ وہ ٹارچ کی روشنی سے بچتا چاہتا تھا لیکن میں نے روشنی اس کی آنکھوں پر مرکوز رکھی اور ساتھ ہی ساتھ گلا پھاڑ کر چلاتا رہا۔اب میں نے آخری قدم اٹھایا۔ ٹارچ سامنے کیے ہاتھی کی طرف چند قدم بڑھا۔روشنی کنکھجورے کی طرح اس کی آنکھوں سے چمٹ گئی تھی۔ وحشی جانور ہمت ہار بیٹھا۔اس نے گردن پھیری اور تنگ سے راستے پر آنکھیں جما دیں۔میں نے پوزیشن بدل کر ٹارچ کی روشنی اس کی آنکھوں سے ہٹنے نہ دی۔ہاتھی کے اعصاب جواب دے گئے۔ہماری کان پھاڑ دینے والی چیخوں اور پیچھا نہ چھوڑنے والی روشنی کے آگے وہ زیادہ دیر تک نہ ٹھہر سکا۔ اس نے آہستہ سے اپنا رخ بدلا اور بھاگ کھڑا ہوا۔بائرا اور میں نے اس کا پیچھا جاری رکھا۔اس نے دائیں طرف کی جھاڑیوں میں غائب ہو جانے میں عافیت سمجھی۔ہمارا مشن پورا ہو چکا تھا۔ ہمیں سیر کا حقیقی لطف حاصل ہو گیا تھا۔ہم واپس مڑے۔ایرک کو تلاش کرنا ضروری تھا۔وہ دور دور تک دکھائی نہ دیتا تھا۔ وہ کمپیکارائے کو جانے والے راستے کے بجائے بدحواسی میں دوسری طرف نکل گیا تھا۔ بائر تو اس کے پیچھے دوڑتا رہا مگر میری ہمت جواب دے گئی۔یوں لگتا تھا جیسے میں شدید بخار میں مبتلا ہوں۔میری پیشانی پسینے میں شرابور تھی۔اب بائرا بھی نظر نہ آرہا تھا۔ میں ندی پار کرکے بستی میں پہنچ گیا۔ تھکن سے برا حال تھا۔ بائرا کے ہاں پہنچتے ہی چار پائی پر گرپڑا۔

خاصی دیر بعد بائرا،ایرک کو لے کر واپس آگیا۔پجاری نے مجھے بتایا کہ میرا دوست بہت اچھا بھگوڑا ہے۔اس کی تلاش میں اسے دو میل تک نیچے وادی میں دوڑنا پڑا تھا۔ ایرک کا کہنا تھا جب میں نے ایک جگہ پیچھے مڑ کر دیکھا تو ہم دونوں میں سے کوئی شخص بھی دکھائی نہ دیا، لامحالہ یہی نتیجہ نکالا کہ ہم خونخواہ ہاتھی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔میں نے اور تیزی سے دوڑنا شروع کر دیا۔ بائرا اس مہم سے ذرا بھی متاثر نہ ہوا۔وہ بالکل پر سکون تھا۔اس کے نزدیک اس قسم کے واقعات جنگل کی زندگی کا معمول تھے۔

صبح آنکھ کھلی تو سورج چمک رہا تھا۔ ایرک ابھی تک نیند میں مست تھا۔ اسے جھنجوڑ کر اٹھایا اور کنویں پر نہانے چل دیے۔تھوڑی دیر بعد نہا دھوکر واپس جھونپڑی میں آئے تو بائرا چائے تیار کر چکا تھا۔

ہم نے جام پر جام یایوں کہیے پیالی پر پیالی لنڈھا دی۔پھر بائرا نے پروگرام کے متعلق پوچھا۔میں نے کہا کہ سارا دن ہم تو لمبی تان کر سوئیں گے اور رات باقی ماندہ وادی میں سفر شروع کر یں گے۔ہم اس مقام پر پہنچنا چاہتے تھے جہاں پر ندی،دریائے چنار میں جاگرتی ہے۔ہمیں امید تھی کہ آدھی رات تک یہ سفر طے ہو جائے گا، پھر تھوڑے سے آرام کے عدواپسی کا سفر،دن کی روشنی میں کریں گے اور اگلی شام تک بنگلے میں پہنچ جائیں گے۔وہاں سے کار میں سوار ہو کر رات کا کھانا بنگلور میں کھائیں گے۔

پجاری کو ہمارا منصوبہ کچھ اچھا نہ لگا۔ اس نے ایک گدھے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ مار کھانے کے باوجود آگے بڑھنے کا نام نہیں لیتا۔ہم بھی رات کے حادثے سے کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں اور اسی ہاتھی کے علاقے سے گزرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں جس کی سونڈ اور تیز دانتوں سے پہلے معجزانہ طور پر بچ نکلے تھے۔ اب تو وہ ہمیں اللہ معاف نہ کرے گا۔ بائرا کی رائے تھی، ہم سفر دن کے دو بجے شروع کریں۔اس وقت تمام جنگلی جانور قیلولے میں مصروف ہوتے ہیں اور شام پڑنے تک ہم بدروحوں کے اس علاقے سے بہت دور پہنچ جائیں گے۔اس نے اصرار کیا کہ دریائے چنار اور پھر عیور بنگلے کی طرف واپسی کے سفر میں ہمارے ساتھ جائے گا۔

ہم نے صلاح مشورہ کرکے بائرا کی تجویز قبول کرلی اور ایک بار پھر ہم سو گئے۔دوپہر کے وقت اٹھے۔کھانا کھایا، چائے پی اور ٹھیک دو بجے سفر پر نکل کھڑے ہوئے۔

آغاز ہی میں بدقسمتی کا ساتھ ہو گیا۔۔۔ہواشمالاً جنوباً چل رہی تھی۔ گویا اس کے ذریعے ہماری بوجنگلی جانوروں کو ہمارے بارے میں پہلے سے خبردار کر سکتی تھی۔اب بائرا ہمارا لیڈر تھا۔تھوڑے تھوڑے وقفے سے وہ رک کر خطرے کی بو سو نگھنے کی کوشش کرتا۔ایک بار تو یوں رکا کہ بس زمین میں گڑ گیا۔ہمارے بھی کان کھڑے ہوئے۔یکایک تھوڑی دور آگے ایک ہرن نے ہماری بو سونگھ کر خطرے کاالارم بجا دیا۔ وہ بار بار کھر!کھر!کھر کر رہا تھا۔ پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر لنگوروں نے اس کی آواز سن لی اور چیخ و پکار شروع کر دی۔ ان کی آواز میں سخت گھبراہٹ تھی۔ایک لنگورنے بلند ترین درخت کی چوٹی سے لٹک کر اندھیرے میں گھورنا شروع کر دیا۔وہ بالکل کسی سنتری کے فرائض ادا کررہا تھا۔ بس ایک کسر تھی کہ اس نے آنکھوں سے دور بین نہیں لگائی تھی۔ وہ ہمیں نہ دیکھ سکا، کیونکہ ہم ابھی خاصے دور تھے۔

ہرن کی قوت شامہ بڑی تیز ہوتی ہے۔وہ بدستور کھر کھر کر کے خطرے کی گھنٹی بجا رہا تھا۔ اس سے لنگور خاصا پریشان ہو گیا۔اسے کوئی ایسی چیز نظر نہ آرہی تھی جس سے ڈرنے کی ضرورت ہو۔بالآخر اپنے تجسس کی تشفی کیے بغیر اس نے’’ہر!ہا!‘‘ کہہ کر اپنے ساتھیوں کو کسی موہوم خطرے سے آگاہ کر دیا۔اب کیا تھا، ایک طوفان بدتمیزی مچ گیا۔’’ہر!با!ہا!‘‘ سے وادی گونجنے لگی۔یہ شور لا حاصل ثابت نہ ہوا اور ان کا نوں تک بھی پہنچ گیا جنہیں ہم اپنی آمد کی خبر نہ دینا چاہتے تھے۔

جنگل کے شور نے ہاتھی کو مضطرب کر دیا۔ اس اثنا میں اس نے ہماری بوپالی۔ آج وہ اپنا وار خالی نہ دیکھنا چاہتا تھا، چنانچہ گھات میں کھڑا ہو گیا۔ رات کے واقعے سے ہم نے تو کوئی سبق نہ سیکھا لیکن ایک جنگلی جانور نے ضرور سیکھ لیا تھا۔

ہاتھی ہمارے بائیں ہاتھ ایک چٹان کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔ بائرا مدتوں سے جنگل میں رہ رہا تھا۔ اس کے آباو اجداد کی ہڈیاں بھی یہیں کہیں گل سڑ رہی ہوں گی۔ یہ لوگ جنگل کی ایک ایک تبدیلی کو بھانپ لیتے ہیں مگر آج وہ بھی دھوکا کھا گیا۔ اس نے بائیں ہاتھ اس بڑی چٹان کو دیکھ کر قدم روک لیے تاکہ آگے بڑھنے سے پہلے پوری طرح اطمینان کرلے۔ ہم سب نے اس چٹان کے ایک ایک پتھر کو غور سے دیکھا۔ اس پر اگے ہوئے درختوں اور جھاڑیوں پرنظر ڈالی مگر کوئی شے نظر نہ آئی تو وہ ہاتھی تھا۔

بائرا اپنی جگہ مطمئن تھا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں۔وہ آگے بڑھا اور ہم نے پیچھے قدم اٹھائے اچانک کانوں کے پردے پھاڑ دینے والی چنگھاڑ کے ساتھ ہاتھی، کمین گاہ سے نکل آیا۔سیاہ رنگ کا جثہ ،تھر تھر کانپ رہا تھا۔ لمبی سی سونڈ اس نے سانپ کی طرح کنڈلی مار کر لپیٹ رکھی تھی۔ منہ آدھا کھلا ہوا تھا۔ ایرک مجھ سے آگے تھا، وہ اس ہیبت ناک موذی کو دیکھتے ہی الٹے قدموں پھرا اور بھاگ کھڑا ہوا۔ میں نے بھی آؤ دیکھا نہ تاثو، اس کی پیروی کی۔بائرا نے سوچا، اگر وہ بھی ہمارے پیچھے آتا ہے تو یقیناً اسے دھرلے گا۔ چنانچہ اس نے ڈھلوان پر تیزی سے اترنا شروع کیا اور پھر وہ ندی میں کود گیا جو پگڈنڈی کے ساتھ متوازی بہہ رہی تھی۔

ہاتھی نے اسے زیادہ دور جانے کی مہلت نہ دی۔ مجھے بائرا کی دل دوزچیخ سنائی دی۔ ہاتھی پہلے سے زیادہ خوفناک آواز میں چنگھاڑا۔ میں شرمسار ہوں کہ بائرا کی مصیبت کو محسوس کرنے کے باوجود دوڑتا رہا لیکن میرے پاس عذر بھی ہے کہ میں نہتا تھا۔ آخر کس چیز کے ساتھ اپنایا بائرا کا دفاع کرتا۔

میں دوڑتا رہا، اپنے آپ کو بچانے کی جبلت نے مجھے ہمت عطا کی۔آخر اس جگہ پہنچ گیا جہاں سے پگڈنڈی ندی سے گزر کر کمپیکا رائے کی طرف جاتی تھی۔ ایرک مجھ سے کافی پہلے دوسرے محفوظ کنارے پر جا پہنچا تھا۔ ہم نے جلدی سے بستی کے تمام پجاریوں کو جمع کیا اور ڈونڈوں،بلیوں اور کلہاڑیوں سے مسلح ہو کر دوبارہ وادی میں گھس گئے۔

اس وقت تک ہاتھی نے چنگھاڑنا بند کر دیا تھا۔ شاید وہ بے چارے بائرا کو چیر نے پھاڑنے میں مصروف تھا۔ کیا وہ ہماری پارٹی پر بھی حملہ کر دے گا؟اگر ایسا ہوا تو صورت حال پہلے سے خوفناک تر ہو جائے گی۔ہر شخص خونخوار ہاتھی کے رحم و کرم پر ہو گا۔

اگلے ہی لمحے ہم نے اسے تلاش کر لیا۔ وہ چوکنا ہو کر پگڈنڈی پر کھڑا تھا۔ اس کے کان تیزی سے ہل رہے تھے اور وہ غصے سے گردن ادھرادھر موڑ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔

ہماری پارٹی جس قدر ممکن تھا، شور مچا رہی تھی۔ ہاتھی فیصلہ نہ کر سکا کہ کیا کرے۔وہ ہچکچاہٹ میں کھڑا رہا۔ آخر اس کے اعصاب جواب دے گئے اور بھاگ نکلا۔ کبھی کبھی پیچھے مڑ کر دیکھ لیتا۔ راستہ چھوڑ کر بائیں طرف کی پہاڑی میں غائب ہو گیا۔

ہم احتیاط سے آگے بڑھتے رہے۔ہمیں غریب بائرا کی ہڈیوں کی تلاش تھی تاکہ اس کی آخری رسوم ادا کی جا سکیں۔آہ!اس سادہ مزاج شخص نے ہمارے لیے اپنی زندگی قربان کر دی تھی۔ میرے سامنے اس کی موٹی اور ہر دم مسکراتی آنکھیں گھوم گئیں۔ہم ایک بڑے دائرے میں پھیل گئے۔پھر ہمیں ایک ہلکی سی آہ سنائی دی لیکن خود بائرا کہیں نظر نہ آیا۔ میرے تمام ساتھی تو ہم پرست تھے۔ ان کا خیال تھا کہ بائرا کی روح آہیں بلند کر رہی ہے۔اس خیال سے وہ سہم گئے اور اگر مجھے ایک بار پھر بائرا کی چیخ سنائی نہ دیتی تو شاید توہم پرست پجاری واپسی کی راہ لیتے۔

میں اس آواز کی سمت بڑھا۔ ناگہاں ایک پتھر سے ٹھوکر لگی اور میں پیچھے کی طرف گر پڑا۔ اس طرح میری نظر چٹان کے اوپر پڑی۔ چوٹی پر بائرا کا ایک ہاتھ لٹک رہا تھا۔وہ وہاں کیسے پہنچا!کیا ہاتھی نے اسے اوپر پھینک دیا تھا؟

میں نے اپنے ساتھیوں کو خوش خبری سنائی کہ بائرا زندہ ہے۔اوپر چڑھے تو وہ زخمی پڑا تھا۔ ہاتھی نے اسے اٹھا کر جھٹکا تو وہ چٹان کی چوٹی پر جا گرا اور ہاتھی کی دسترس سے نکل گیا۔اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ اس کے باوجود اس کے ہونٹوں پر حسب معمول مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ ہم نے درختوں کی شاخوں سے اسٹریچر تیار کیا اور اس پر بائرا کو ڈال کر عیور بنگلے لے آئے۔ بنگلور کے ہسپتال میں داخل ہونے پر آمادہ کرنے کے لیے مجھے اس کے ساتھ خاصا دماغ کھپانا پڑا۔دو چار ماہ تک ہسپتال میں رہا اور پھر میں اسے واپس چھوڑ آیا۔

۔۔

انابدھالیہ کی بدروح

انا بدھالیہ کے لفظی معنی ہیں’’وہ گڑھا جس میں ہاتھی گر پڑا۔‘‘

تامل ناڈو کے ضلع سالم میں پناگرام کے قصبے کے شمالی جناب پہاڑی میں کمپیکا رائے کی بستی کے قریب سے ایک ندی نکلتی ہے۔یہ ندی آگے چل کر اچانک ایک مقام پر دو و سو فٹ کی بلندی سے نیچے گرتی ہے۔یہاں گرینا ئٹ کی چٹانیں ہیں۔ہزاروں سال سے پانی گرتے رہنے سے یہاں ایک گڑھا سا بن گیا ہے۔موسم برسات میں یہ گڑھا لبالب بھرا رہتا ہے مگر گرمیوں میں جب ندی خشک ہو جاتی ہے تو یہ تالاب کا منظر پیش کرتا ہے۔کسی شخص کو اس کی گہرائی کا علم نہیں۔شاید یہ تیس فٹ فٹ سے زیادہ گہرا ہوگا۔اس کے چاروں طرف سیدھی پتھریلی دیوارویں ہیں جن پر گھاس پھوس اور کائی جم گئی ہے۔اگر کوئی چیز گڑھے میں گر پڑے تو پھر باہر نہیں نکل سکتی۔

اس جگہ کا مخصوص نام پڑنے کی وجہ یہ ہے کہ گرمی کے موسم میں ایک ہاتھی پانی کی تلاش میں یہاں پہنچا۔ اس نے پانی پینے کے لیے تاباب میں سونڈ ڈالی مگر وہ پانی کی سطح تک نہ پہنچ سکی۔ پھر اس نے تھوڑے سے قدم بڑھاے اور یہی غلطی خوفناک ثابت ہوئی۔ زبردست شور بلند ہوا اور عظیم الجثہ جانور گڑھے کے اندر گر پڑا۔ ہاتھی بہترین تیراک ہوتے ہیں لیکن سوائے مچھلی کے اور کوئی مخلوق ہمیشہ کے لیے پانی میں نہیں تیر سکتی۔ بعض گاڑی بان قصبے کو جانے والی سڑک پر رواں دواں تھے۔ ہاتھی کی چیخ پکار سن کر گاڑیاں روک دیں۔ جائے حادثہ پر پہنچے اور چٹان کے اوپر بیٹھ کر ہاتھی کی بے بسی کا تماشا کرنے لگے۔ یہ منظر اس قدر دلچسپ تھا کہ انہوں نے رات کے لیے وہیں ڈیرہ ڈال لیا اور آگ جلا کر بیٹھ گئے تاکہ جنگلی جانور دور رہیں۔

ہاتھی نے باہر نکلنے کی ہر چند کوشش کی مگر بے سود۔ گاڑی بانوں نے یہ ستم ڈھایا کہ بڑے بڑے پتھر لڑھکا کر اسے پانی میں ڈبودیا۔ چودہ دن بعد وہ پانی کی سطح پر نمودار ہوا تو پھول کر کپا سا بن گیا تھا اور بدبو کے بھبکے اٹھ رہے تھے۔ ایک طویل عرصے تک کوئی جانور اس گڑھے کے قریب نہ پھٹکا۔ پورے تیس سال کے بعد ایک شیر انسانی شکار کی تلاش میں گھومتا پھرتا پھر اس گڑھے میں آگرا۔ یہ ایک الگ کہانی ہے۔اصل قصہ یہ ہے کہ اس علاقے میں شیروں نے بہت کم رہائش اختیار کی۔ یہ علاقہ انگریزی حرف یو سے مشابہت رکھتا ہے۔نچلا مقام دریائے چنار کی گزر گاہ ہے۔آگے چل کر یہ دریائے کاویری میں جا گرتا ہے۔ایک طرف سے وہ ندی آتی ہے جس کے راستے میں انابدھالیہ کا گڑھا واقع ہے اور وہ سات میل کے فاصلے پر دریائے چنار میں شامل ہو جاتی ہے۔

شیروں کا معمول تھا کہ وہ دریائے کاویری تیر کر عبور کرتے اور دریائے چنار تک ہرن، سانبھر اور سور کا شکار کرت بڑھتے چلے جاتے۔راستے میں پاناپتی اور فتور کے اکا دکا مویشی بھی اٹھا لے جاتے۔پھروہ شمال کی طرف مڑتے اور انابدھالیہ ندی کے کنارے ہو لیتے۔سات میل کے سفر کے بعد وہ ایک اور ندی تلوا دی کے کنارے پہنچے۔

آوارہ گرد شیر ہمیشہ یہی راستہ اختیار کرتے۔کبھی کوئی شیر مخالف سمت سفر کرتا نظر نہ آیا۔ میں کئی سال تک اس علاقے میں گھومتا پھرتا رہا اور ہمیشہ یہی دیکھا۔ اس علاقے میں صدیوں بودوباش رکھنے والے پجاریوں کا مشاہدہ بھی یہی تھا۔ یہ جنگل ایک ایسا اسرار ہے جس کی کوئی تشریح نہیں کی جاسکتی۔بہرحال یہ درندے کبھی نقصان دہ ثابت نہ ہوئے۔کبھی کبھار وہ مویشیوں کے گلے پر حملہ کرتے اور وہ بھی صرف اس صورت میں جب جنگلی جانوروں کا شکار انہیں میسر نہ آتا۔

انابدھالیہ کی روح اس اصول سے مستثنیٰ نہ تھی۔ یہ ایک شیرنی تھی جو ہر چار پانچ ماہ کے بعد شکار پر نکلتی۔کاویری کے کنارے بسنے والے لوگوں نے مجھے بتایا کہ شیرنی ڈیڑھ ماہ میں اپنا سفر مکمل کرتی۔اس کا مسکن دریائے کاویری کے کنارے تھا جہاں بلند و بالا پہاڑ اوپر اٹھتے چلے گئے ہیں۔

آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 23)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں