آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر23)

 

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر23)

ایک باروہ طویل مدت کے بعد اس طرح آئی۔اب کے وہ تنہا نہ تھی۔ پنجوں کے نشانات سے پتا چلتا تھا کہ وہ اپنے ساتھ دو بچے بھی لائی ہے اور یہی بات علاقے کی بدقسمتی بن گئی۔اب تک بہت کم مویشی، جنگلی درندوں کے ہاتھوں ہلاک ہوتے تھے لیکن اس شیرنی کی آمد کے ساتھ مویشیوں کی ہلاکت میں ناقابل بیان اضافہ ہو گیا۔اسے نہ صرف اپنا پیٹ بھرنا ہوتا بلکہ دو بچوں کی بھوک بھی مٹانا ہوتی۔ہر تیسرے دن ایک مویشی غائب ہو جاتا اور پھر اس کی لاش کا سراغ فضا میں منڈلانے والے گدھوں سے لگتا۔آئے دن کا یہ زباں ناقابل برداشت تھا، چنانچہ گاؤں والوں نے پاناپتی میں خبر پہنچا دی اور میرے ساتھی شکاری رنگا سے مدد طلب کی جو آٹھ میل دور پناگرام کے قصبے میں رہائش پذیر تھا۔ میں اس شکاری کے بارے میں پہلی کہانیوں میں بہت کچھ بیان کر چکا ہوں۔میں،وہ اور بائرا ان جنگلوں کے چپے چپے میں گھوم چکے تھے۔رنگا عجیب و غریب شخصیت کا مالک تھا۔ اس نے ہانکا کرنے سے اپنا کیرئیر شروع کیا، پھر وہ گاڑی بان، شکاری، کاشت کار اور آخری دنوں میں تھوڑی سی زمین کا مالک بن گیا۔

رنگا کو جب اطلاع ملی تو اس نے بڑی سنجیدگی سے اس کا نوٹ لیا۔اس کے پاس توڑے داربندوق تھی۔ یہ تھی تو پرانی مگر بڑی کارگر۔اس کی مدد سے وہ اب تک سینکڑوں جنگلی جانور ہلاک کر چکا تھا۔ پناگرام کے نواح میں کماد کے کھیتوں پر حملہ کرنے والے سورتو اس کی شکل دیکھ کر لرز جاتے۔رنگا کو یقین تھا کہ وہ اس پرانے ہتھیار سے شیرنی کو بھی ٹھکانے لگا دے گا۔

اس نے کہلوا بھیجا کہ شیرنی اب شکار کرے تو بچی کچی لاش احتیاط کے ساتھ درختوں کی شاخوں سے ڈھک دی جائے اور پھر اسے بلالیا جائے،وہ شیرنی سے دو دو ہاتھ کرلے گا۔ شیرنی کا اگلا شکار ایک بھینس تھی۔آدھی سے زیادہ لاش تو انہوں نے چٹ کرلی، باقی ماندہ لاش اگلے دن دیہاتیوں نے درخت کاٹ کر چھپا دی اور رنگا کو اطلاع کر دی۔وہ پیغام ملتے ہی پہنچ گیا مگر سارا منصوبہ ناکام رہا۔ آس پاس کوئی درخت ایسا نہ تھا جس پر بیٹھ کر وہ شیرنی کا انتظار کر سکتا۔ جو واحد درخت تھا اسے دیہاتوں نے کاٹ ڈالا تھا۔ شاخیں لاش پر ڈال دیں اور تنا وغیرہ اٹھا کر بستی میں لے گئے۔دوسرا درخت اتنی دور تھا کہ وہاں سے توڑے دار بندوق، درندوں کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکتی تھی لیکن اور کوئی متبادل راستہ بھی نہ تھا۔ رنگا اس درخت پر چڑھ گیا اور ایک دو شاخے پر بیٹھ کر شیرنی اور اس کے بچوں کا انتظار کرنے لگا۔

رات تاریک تھی۔ خاصی رات گئے گوشت چبانے کی آواز ابھری۔ رنگا چوکس ہو گیا۔اس نے ٹارچ کا بٹن دبا دیا۔شاید ٹارچ کے سیل کمزور تھے۔رنگا کو اپنا ہدف صاف دکھائی نہ دیا لیکن وہ ایک ماہر شکاری تھا اور ماضی میں محض اندازے سے بھی اس کے کوئی فائر کارگر ثابت ہوئے تھے۔اس نے ٹریگر دبا دیا۔ ایک دھماکا ہوا۔ رنگا کے آس پاس دھواں پھیل گیا۔ساتھ ہی اسے شیرنی کی کراہ سنائی دی۔اس کا مطلب تھا،فائر صحیح نشانے پر بیٹھا ہے۔اس نے دوبارہ ٹارچ کی روشنی ڈالی تو منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ وہاں شیرنی تھی نہ اس کے دو بچے۔

دن کے وقت پجاریوں نے لاش کے اردگرد جنگل کا معائنہ کیا تو وہ خون کے نشانات کے پیچھے چلتے چلتے چنارتک پہنچ گئے۔وہاں سے شیرنی نے دریا عبور کیا اور اگلے کنارے پر خون کے نشانات پھر دکھائی دینے لگے۔یوں لگتا تھا، شیرنی کے دائیں پہلو میں گولی لگی ہے لیکن اس کی ٹانگیں محفوظ رہی تھیں کیونکہ قدموں کے نشانات سے لنگڑا پن ظاہر نہ ہوتا تھا۔ دریا کے پارشیرنی پہاڑی میں غائب ہو گئی تھی۔ یہاں خون کے نشانات بھی دکھائی نہ دیے۔رنگا نے یہ سوچ کر اطمینان کا سانس لیا کہ شیرنی وقتی طور پر راستے سے ہٹ گئی۔اب یا تو وہ زخم کے ہاتھوں مر جائے گی یا شکار نہ کر سکتے کی بنا پر بھوک کا شکار ہو کر دما توڑ دے گی لیکن اس کے دماغ سے شیرنی کے دونوں بچے نکل گئے جو اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر علاقے کے لیے نئی آفت بن سکتے تھے۔

ٹھیک دوماہ بعد گاڑیوں کا ایک قافلہ انابدھالیہ کے گڑھے کے قریب سے گزرا۔سب سے اگلی گاڑی کے نیچے ایک لالٹین لٹکی ہوئی تھی اور باقی گاڑیاں اس روشنی کے پیچھے چلی جارہی تھیں۔انہیں شیرنی اور اس کے بچوں کا تو تصور تک نہ تا۔انابدھالیہ سے آگے بس اسی جنگلی ہاتھی کا خطرہ ذہن میں تھا جس کا تذکرہ میں اوپر کر آیا ہوں مگر اس خیال سے کچھ زیادہ پریشان نہ تھے کہ وہ دس بارہ ساتھی ہیں۔ہاتھی اگر نمودار ہو بھی گیا تو ٹین پیٹ پیٹ کر اسے بھگا دیں گے۔

عام طورپر گاڑی بان، گاڑی کے ا گلے حصے میں سوار ہوتے ہیں مگر ایک گاڑی بان ہمیشہ گاڑی کے پیچھے پیدل چلتا رہتا۔وہ تو اپنے زعم میں احتیاط سے کام لیتا کہ اگر جنگلی ہاتھی نے حملہ کیاتوہ وہ گاڑی کے پیچھے چھپ جائے گا مگر ایک روز یہی احتیاط اس کی جان لے بیٹھی۔ایک کوبرا، بیلوں کے قدموں میں کچلا گیا۔جب گاڑی گزری اور گاڑی بان وہاں پہنچا تو سانپ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا تھا، اس نے گاڑی بان کو ڈس لیا اور وہ دو گھنٹے کے اندر مر گیا لیکن گاڑیوں کے اس قافلے کی گھات میں نہ تو کوئی کو برا تھا اور نہ خونخوار ہاتھی، بلکہ ایک بھوکی شیرنی اور اس کے دو بلبلاتے ہوئے بچے شکار کے منتظر بیٹھے تھے۔انہوں نے پورے قافلے کو گزرنے دیا اور آخری گاڑی پر حملہ کر دیا۔ بیل ہراساں ہو کر بگٹٹ دوڑنے لگے۔گاڑی بان کمبل میں لپٹا نیند کے مزے لے رہا تھا۔ اس افراتفری سے اس کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے آپ کو ہوا میں معلق پایا۔ جلد ہی گاڑی کا توازن بگڑ گیا اور گاڑی نالے میں لڑھک گئی۔ ایک بیل جوئے سے آزاد ہو کر بھاگ نکلا مگر دوسرے بیل کو شیرنی اور اس کے بچوں نے مہلت ہی نہ دی۔وہ اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کی گردن مروڑ دی۔

گاڑی بان کمبل سے آزاد ہوا تو اسے سیاہ ہیولے سے دکھائی دیے اور پھر قیامت خیز شور سنائی دیا۔وہ دم دبا کر نالے کے اندر سے ہوتا ہوا فرار ہو گیا۔تھوڑی دور باقی گاڑیوں کا قافلہ جارہا تھا۔ شیرنی کی گرج سن کر سب اندھا دھند دوڑ پڑے تھے۔گاڑی بان جان چکے تھے کہ ان کا آخری ساتھی مصیبت میں گرفتار ہے مگر کوئی بھی اس کی مدد کے لیے نہ رکا۔

اس حادثے کی خبر پورے علاقے میں پھیل گئی۔لوگوں نے رات کا سفر موقوف کر دیا مگر اس سے شیرنی پر کچھ اثر نہ پڑا۔اس نے دن کے وقت مویشیوں پر حملے شروع کر دیے۔ اب اس کے بچے بھی ہاتھ بٹانے کے قابلے ہو گئے تھے۔شیرنی کا کندھا بری طرح زخمی ہوا تھا اور اس کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔وہ ساری چستی چالاکی کھو بیٹھی تھی اور شکار کی ساری ذمہ داری ان بچوں کے سر پر آن پڑی تھی جو پوری طرح تجربہ کارنہ ہوئے تھے۔شیرنی یا شیر جس جانور پر حملہ کرتا ہے،پہلے بڑی نفاست سے کم از کم خون بہا کر اس کی گردن توڑتا ہے،پھر ایک طرف سے اسے کھانا شروع کر تا ہے۔اس کے برعکس ان بچوں نے جتنے بیل یا بچھڑے مار گرائے وہ بری طرح زخمی پائے گئے۔یوں لگتا تھا انہیں بے شمار کتے یا بھڑئیے چچوڑتے رہے ہیں۔

مویشی آئے دن ہلاک ہورہے تھے اور لوگ سخت پریشان تھے، پھر ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس نے دہشت اور اضطراب کی لہر اور تیز کر دی۔ایک گلہ بان مرایاپا گیا۔وہ اپنی گائے کو بچانے کے لیے ان تینوں درندوں سے ٹکرا گیا۔یہ فاش غلطی ،بلکہ حماقت تھی۔درندوں نے اس کی خوبصورت پیاری سی گائے پر حملہ کیا تو یہ ان سے گتھم گتھا ہو گیا۔جرات یقیناً قابل داد تھی مگر وہ اگلے ہی لمحے خون میں لت پت دم توڑ چکا تھا۔

یہ واقعہ پاناپتی میں پیش آیا۔ پتی کا مطلب ہے مویشیوں کا باڑہ۔یہ دریائے چنار کے جنوبی کنارے پر واقع ہے۔دریائے چنار میں مون سون کے موسم میں ہوتا ہے اور چھ ماہ تک خشک رہتا ہے اور پہاڑی نالے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔

مون سون کے ختم ہوتے ہی ہندوستان میں سبزہ بھی ختم ہونے لگتا ہے۔اس وقت مویشیوں کے مالک جنگلوں کا رخ کرتے ہیں اور اپنے مویشی بعض چرواہوں اور پجاریوں کے سپرد کر دیتے ہیں جو انہیں ہرے بھرے جنگلوں میں چراتے ہیں۔اس مقصد کے لیے واجبی سی اجرت ادا کی جاتی ہے۔

پاناپتی مدارس پریذیڈنسی میں ہے اور باہر کا کوئی شخص اس کا نام تک نہ جانتا تھا،پھر دوواقعات رونما ہوئے۔ایک تو یہاں مست ہاتھی آنکلا جس نے دل کھول کر مویشیوں اور انسانوں پر حملے کیے۔اس کی زد میں وہ شکاری بھی آگیا جو اس کا پیچھا کررہا تھا۔اس وحشی کی کہانی’’پاناپتی کا مست ہاتھی‘‘کے عنوان سے پہلے کہیں بیان کر چکا ہوں۔پھر کئی سال تک خاموشی چھائی رہی اور آخر ایک ’’انتقامی روح‘‘ ان جنگلوں میں گھس آئی جس کی کہانی میں اب بیان کرنے لگا ہوں۔یہ روح کوئی پر اسرار جناتی سایانہ تھا بلکہ یہ ایک شیر تھا جو نجانے کہاں سے آنکلا۔اسے جناتی شہرت ضرور نصیب ہوئی اور پھر یوں غائب ہو گیا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔

پانا پتی کے مویشیوں کے مالک امیر کبیر لوگ تھے جو بیس میل ور ایک بڑے قصبے دھرمپورہ میں رہائش پذیر تھے۔تین چار خاندان ایک اور نسبتاً کم اہم قصبے پنا گرام سے تعلق رکھتے تھے جو دس میل کے فاصلے پر تھا۔جنگل میں جو لوگ مویشی چرانے کا کام کرتے وہ زیادہ تر پنا گرام کے نواحی دیہات کے اچھوت تھے۔کچھ تعداد جنگلی پجاریوں کی بھی شامل ہو گئی جنہیں نیچ ذات ہی میں شمار کیا جاتا تھا۔یہ لوگ دریائے چنار کے کناروں پر مدت دراز سے رہتے چلے آتے تھے۔انہی میں ایک پجاری کانام ’’کیارا‘‘ تھا۔وہ بھی ایک متمول خاندان کے مویشی چرایا کرتا۔اسے پورے موسم کے لیے صرف دس روپے تنخواہ ملتی۔ہفتے بعد چاول وغیرہ کا راشن اس کے علاوہ تھا۔

کیا را نے جب پہلے پہل یہ پیشہ اپنایا تو وہ غاروں سے نکل کرپاناپتی کی جھونپڑیوں میں آن آباد ہوا۔اس کے ساتھ اس کی بیوی اور ایک لڑکی بھی تھی جس کا نام مروی تھا۔ایک گرم رات کو یہ لوگ سونے کی تیاری کرنے لگے تو کیا را کی بیوی کو خیال آیا کہ کیوں نہ وہ اپنے لمبے لمبے بال کپڑے کے ٹکڑے سے باندھ لے۔اس نے ادھرادھر کپڑا تلاش کیا مگر اسے کچھ نہ ملا۔پھر اسے یاد آیا کہ اس نے مطلوبہ کپڑا پانی کے گھڑے کے قریب رکھا تھا۔وہ باتیں کرتی ہوئی اپنی جگہ سے اٹھی اور پانی کے گھڑے کے قریب جا کر ہاتھ مارنے لگی۔اس نے جس چیز کو کپڑے کا ٹکڑا سمجھ کر اٹھانا چاہا،وہ دراصل ایک زہریلا سانپ تھا۔موذی نے فوراً اس کی ہتھیلی سے ذرا اوپر بازو میں ڈس لیا اور گھاس میں غائب ہوگیا۔

بے چاری عورت شدت درد سے تڑپ اٹھی۔کیا رافوراً سمجھ گیا کہ یہ سانپ کی کارستانی ہے۔ہسپتال کا رخ کرنے کے بجائے جو رات کے وقت ویسے بھی مشکل تھا۔اس نے سادہ ٹونے ٹوٹکوں سے بیوی کا علاج کرنا مناسب سمجھا۔اس کے میلے کچیلے تھیلے میں جڑی بوٹیوں سے کچھ دوائیں تیار رکھی تھیں۔اس نے ایک دوا زخم پر چھڑکی،گوبر باندھا اور پاس بیٹھ کر منتر پھونکنے لگا۔آدھ گھنٹے بعد عورت کی حالت بہت بگڑ گئی۔وہ بے ہوش ہو گئی اور اس کے منہ سے جھاگ بہنے لگا۔ اگلے تیس منٹوں میں وہ مر گئی۔ کیا را کے پاس اب صرف ایک بچی مروی تھی۔

کئی سال گزر گئے۔مروی جوان ہو گئی۔ایک دن سیٹھ نرائن پاناپتی میں آیا۔وہ دھرمپورہ کے لینڈ لارڈ اور امیر کبیر سوداگر گوپال سوامی کا بڑا لڑکا تھا، اس کی شادی ہو چکی تھی اور اس کا ایک بچہ بھی تھا۔ وہ پانلاپتی میں اس وقت پہنچا،جب مویشی جنگل میں جاکر چکے تھے۔اس نے مین روڈ پر اپنی موٹر کھڑی کی ،شوفر بھی وہیں رک گیا اور وہ دو میل کا فاصلہ پیدل طے کر کے پاناپتی پہنچ گیا۔اس وقت نو بج رہے تھے۔وہ کیارا کی جھونپڑی کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس نے کھنکار کر اپنی موجودگی سے اہل خانہ کو خبردار کرنا چاہا، اس لیے کہ اعلیٰ ذات کے ہندو،اچھوتوں کا نام بھی زبان پر لائیں تو یہ بہت بڑا پاپ تصور کیا جاتاہے۔پجاری نے اپنے آقا کے فرزند کو آتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔وہ جھونپڑی سے نکلا اور پرنام کے لیے زمین پر ماتھارگڑنے لگا۔

’’کیا خبریں ہیں؟‘‘ نوجوان نے پوچھا۔

’’سب ٹھیک ہے سوامی!‘‘ کیا را نے جواب دیا:’’دیوتاؤں کا کرم ے تمہارے باپ کا کوئی جانور کسی درندے یا منہ کھر کی بیماری سے ہلاک نہیں ہوا۔اس وقت دو بھینسوں کو میری لڑکی چرانے لے گئی ہے‘‘

’’تو یہ بات ہے۔تم حرام کی کھاتے ہو!‘‘سیٹھ نرائن نے کہا:’’ مویشی اپنی لڑکی کے آگے لگا دیتے ہو اور خود گھر میں پڑے رہتے ہو۔اگر کوئی جنگلی جانور حملہ کر دے تو تمہاری لڑکی اس کا کیا بگاڑ لے گی؟‘‘

’’نہیں،یہ بات نہیں سوامی۔‘‘ کیا را نے بہانا تراشتے ہوئے کہا:’’دراصل رات سے مجھے سخت بخار ہے۔دست بھی آرہے ہیں۔‘‘

’’تم جھوٹ بک رہے ہو۔‘‘لینڈلارڈ کا لڑکا پھنکارا:’’میں اپنے جانوروں کو دیکھنے آیا ہوں۔چلو میری رہنمائی کرو۔لڑکی مویشیوں کوکدھر لے گئی ہے؟‘‘

اس طرح سیٹھ نرائن کی پہلی بار مروی پر نظر پڑی۔وہ دیکھتے ہی اس پر فریفتہ ہو گیا مگر لڑکی کے باپ کی موجودگی میں اس سے کوئی بات نہ کر سکتا تھا۔

اس کے بعد نوجوان نے اپنے باپ کے مویشیوں میں بہت زیادہ دلچسپی دکھانا شروع کر دی۔گوپال سوامی کو اس کی وجہ سمجھ نہ آئی، تاہم اسے یقین تھا کہ بیٹے کا یہ شوق چند روزہ ہے۔سیٹھ نرائن اب پاناپتی آتا تووہ عام راستہ اختیار نہ کرتا اور سیدھا جنگل میں جاکر لڑکی سے ملتا۔وہ اسکے ساتھ مویشی بھی چرانے لگا،اسکا دل لبھانے کی کوشش کرتا۔اگرچہ مروی ابھی نا سمجھ تھی مگر سیٹھ نرائن کی حرکتوں سے اس نے اندازہ لگا لیا کہ نوجوان کو اس سے محبت ہو گئی ہے۔گاہے گاہے وہ اسے پیسے بھی دینے لگا۔

گاڑی بان کمبل سے آزاد ہوا تو اسے سیاہ ہیولے سے دکھائی دیے اور پھر قیامت خیز شور سنائی دیا۔وہ دم دبا کر نالے کے اندر سے ہوتا ہوا فرار ہو گیا۔تھوڑی دور باقی گاڑیوں کا قافلہ جارہا تھا۔ شیرنی کی گرج سن کر سب اندھا دھند دوڑ پڑے تھے۔گاڑی بان جان چکے تھے کہ ان کا آخری ساتھی مصیبت میں گرفتار ہے مگر کوئی بھی اس کی مدد کے لیے نہ رکا۔

اس حادثے کی خبر پورے علاقے میں پھیل گئی۔لوگوں نے رات کا سفر موقوف کر دیا مگر اس سے شیرنی پر کچھ اثر نہ پڑا۔اس نے دن کے وقت مویشیوں پر حملے شروع کر دیے۔ اب اس کے بچے بھی ہاتھ بٹانے کے قابلے ہو گئے تھے۔شیرنی کا کندھا بری طرح زخمی ہوا تھا اور اس کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔وہ ساری چستی چالاکی کھو بیٹھی تھی اور شکار کی ساری ذمہ داری ان بچوں کے سر پر آن پڑی تھی جو پوری طرح تجربہ کارنہ ہوئے تھے۔شیرنی یا شیر جس جانور پر حملہ کرتا ہے،پہلے بڑی نفاست سے کم از کم خون بہا کر اس کی گردن توڑتا ہے،پھر ایک طرف سے اسے کھانا شروع کر تا ہے۔اس کے برعکس ان بچوں نے جتنے بیل یا بچھڑے مار گرائے وہ بری طرح زخمی پائے گئے۔یوں لگتا تھا انہیں بے شمار کتے یا بھڑئیے چچوڑتے رہے ہیں۔

مویشی آئے دن ہلاک ہورہے تھے اور لوگ سخت پریشان تھے، پھر ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس نے دہشت اور اضطراب کی لہر اور تیز کر دی۔ایک گلہ بان مرایاپا گیا۔وہ اپنی گائے کو بچانے کے لیے ان تینوں درندوں سے ٹکرا گیا۔یہ فاش غلطی ،بلکہ حماقت تھی۔درندوں نے اس کی خوبصورت پیاری سی گائے پر حملہ کیا تو یہ ان سے گتھم گتھا ہو گیا۔جرات یقیناً قابل داد تھی مگر وہ اگلے ہی لمحے خون میں لت پت دم توڑ چکا تھا۔

یہ واقعہ پاناپتی میں پیش آیا۔ پتی کا مطلب ہے مویشیوں کا باڑہ۔یہ دریائے چنار کے جنوبی کنارے پر واقع ہے۔دریائے چنار میں مون سون کے موسم میں ہوتا ہے اور چھ ماہ تک خشک رہتا ہے اور پہاڑی نالے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔

مون سون کے ختم ہوتے ہی ہندوستان میں سبزہ بھی ختم ہونے لگتا ہے۔اس وقت مویشیوں کے مالک جنگلوں کا رخ کرتے ہیں اور اپنے مویشی بعض چرواہوں اور پجاریوں کے سپرد کر دیتے ہیں جو انہیں ہرے بھرے جنگلوں میں چراتے ہیں۔اس مقصد کے لیے واجبی سی اجرت ادا کی جاتی ہے۔

پاناپتی مدارس پریذیڈنسی میں ہے اور باہر کا کوئی شخص اس کا نام تک نہ جانتا تھا،پھر دوواقعات رونما ہوئے۔ایک تو یہاں مست ہاتھی آنکلا جس نے دل کھول کر مویشیوں اور انسانوں پر حملے کیے۔اس کی زد میں وہ شکاری بھی آگیا جو اس کا پیچھا کررہا تھا۔اس وحشی کی کہانی’’پاناپتی کا مست ہاتھی‘‘کے عنوان سے پہلے کہیں بیان کر چکا ہوں۔پھر کئی سال تک خاموشی چھائی رہی اور آخر ایک ’’انتقامی روح‘‘ ان جنگلوں میں گھس آئی جس کی کہانی میں اب بیان کرنے لگا ہوں۔یہ روح کوئی پر اسرار جناتی سایانہ تھا بلکہ یہ ایک شیر تھا جو نجانے کہاں سے آنکلا۔اسے جناتی شہرت ضرور نصیب ہوئی اور پھر یوں غائب ہو گیا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔

پانا پتی کے مویشیوں کے مالک امیر کبیر لوگ تھے جو بیس میل ور ایک بڑے قصبے دھرمپورہ میں رہائش پذیر تھے۔تین چار خاندان ایک اور نسبتاً کم اہم قصبے پنا گرام سے تعلق رکھتے تھے جو دس میل کے فاصلے پر تھا۔جنگل میں جو لوگ مویشی چرانے کا کام کرتے وہ زیادہ تر پنا گرام کے نواحی دیہات کے اچھوت تھے۔کچھ تعداد جنگلی پجاریوں کی بھی شامل ہو گئی جنہیں نیچ ذات ہی میں شمار کیا جاتا تھا۔یہ لوگ دریائے چنار کے کناروں پر مدت دراز سے رہتے چلے آتے تھے۔انہی میں ایک پجاری کانام ’’کیارا‘‘ تھا۔وہ بھی ایک متمول خاندان کے مویشی چرایا کرتا۔اسے پورے موسم کے لیے صرف دس روپے تنخواہ ملتی۔ہفتے بعد چاول وغیرہ کا راشن اس کے علاوہ تھا۔

کیا را نے جب پہلے پہل یہ پیشہ اپنایا تو وہ غاروں سے نکل کرپاناپتی کی جھونپڑیوں میں آن آباد ہوا۔اس کے ساتھ اس کی بیوی اور ایک لڑکی بھی تھی جس کا نام مروی تھا۔ایک گرم رات کو یہ لوگ سونے کی تیاری کرنے لگے تو کیا را کی بیوی کو خیال آیا کہ کیوں نہ وہ اپنے لمبے لمبے بال کپڑے کے ٹکڑے سے باندھ لے۔اس نے ادھرادھر کپڑا تلاش کیا مگر اسے کچھ نہ ملا۔پھر اسے یاد آیا کہ اس نے مطلوبہ کپڑا پانی کے گھڑے کے قریب رکھا تھا۔وہ باتیں کرتی ہوئی اپنی جگہ سے اٹھی اور پانی کے گھڑے کے قریب جا کر ہاتھ مارنے لگی۔اس نے جس چیز کو کپڑے کا ٹکڑا سمجھ کر اٹھانا چاہا،وہ دراصل ایک زہریلا سانپ تھا۔موذی نے فوراً اس کی ہتھیلی سے ذرا اوپر بازو میں ڈس لیا اور گھاس میں غائب ہوگیا۔

بے چاری عورت شدت درد سے تڑپ اٹھی۔کیا رافوراً سمجھ گیا کہ یہ سانپ کی کارستانی ہے۔ہسپتال کا رخ کرنے کے بجائے جو رات کے وقت ویسے بھی مشکل تھا۔اس نے سادہ ٹونے ٹوٹکوں سے بیوی کا علاج کرنا مناسب سمجھا۔اس کے میلے کچیلے تھیلے میں جڑی بوٹیوں سے کچھ دوائیں تیار رکھی تھیں۔اس نے ایک دوا زخم پر چھڑکی،گوبر باندھا اور پاس بیٹھ کر منتر پھونکنے لگا۔آدھ گھنٹے بعد عورت کی حالت بہت بگڑ گئی۔وہ بے ہوش ہو گئی اور اس کے منہ سے جھاگ بہنے لگا۔ اگلے تیس منٹوں میں وہ مر گئی۔ کیا را کے پاس اب صرف ایک بچی مروی تھی۔

کئی سال گزر گئے۔مروی جوان ہو گئی۔ایک دن سیٹھ نرائن پاناپتی میں آیا۔وہ دھرمپورہ کے لینڈ لارڈ اور امیر کبیر سوداگر گوپال سوامی کا بڑا لڑکا تھا، اس کی شادی ہو چکی تھی اور اس کا ایک بچہ بھی تھا۔ وہ پانلاپتی میں اس وقت پہنچا،جب مویشی جنگل میں جاکر چکے تھے۔اس نے مین روڈ پر اپنی موٹر کھڑی کی ،شوفر بھی وہیں رک گیا اور وہ دو میل کا فاصلہ پیدل طے کر کے پاناپتی پہنچ گیا۔اس وقت نو بج رہے تھے۔وہ کیارا کی جھونپڑی کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس نے کھنکار کر اپنی موجودگی سے اہل خانہ کو خبردار کرنا چاہا، اس لیے کہ اعلیٰ ذات کے ہندو،اچھوتوں کا نام بھی زبان پر لائیں تو یہ بہت بڑا پاپ تصور کیا جاتاہے۔پجاری نے اپنے آقا کے فرزند کو آتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔وہ جھونپڑی سے نکلا اور پرنام کے لیے زمین پر ماتھارگڑنے لگا۔

’’کیا خبریں ہیں؟‘‘ نوجوان نے پوچھا۔

’’سب ٹھیک ہے سوامی!‘‘ کیا را نے جواب دیا:’’دیوتاؤں کا کرم ے تمہارے باپ کا کوئی جانور کسی درندے یا منہ کھر کی بیماری سے ہلاک نہیں ہوا۔اس وقت دو بھینسوں کو میری لڑکی چرانے لے گئی ہے‘‘

’’تو یہ بات ہے۔تم حرام کی کھاتے ہو!‘‘سیٹھ نرائن نے کہا:’’ مویشی اپنی لڑکی کے آگے لگا دیتے ہو اور خود گھر میں پڑے رہتے ہو۔اگر کوئی جنگلی جانور حملہ کر دے تو تمہاری لڑکی اس کا کیا بگاڑ لے گی؟‘‘

’’نہیں،یہ بات نہیں سوامی۔‘‘ کیا را نے بہانا تراشتے ہوئے کہا:’’دراصل رات سے مجھے سخت بخار ہے۔دست بھی آرہے ہیں۔‘‘

’’تم جھوٹ بک رہے ہو۔‘‘لینڈلارڈ کا لڑکا پھنکارا:’’میں اپنے جانوروں کو دیکھنے آیا ہوں۔چلو میری رہنمائی کرو۔لڑکی مویشیوں کوکدھر لے گئی ہے؟‘‘

اس طرح سیٹھ نرائن کی پہلی بار مروی پر نظر پڑی۔وہ دیکھتے ہی اس پر فریفتہ ہو گیا مگر لڑکی کے باپ کی موجودگی میں اس سے کوئی بات نہ کر سکتا تھا۔

اس کے بعد نوجوان نے اپنے باپ کے مویشیوں میں بہت زیادہ دلچسپی دکھانا شروع کر دی۔گوپال سوامی کو اس کی وجہ سمجھ نہ آئی، تاہم اسے یقین تھا کہ بیٹے کا یہ شوق چند روزہ ہے۔سیٹھ نرائن اب پاناپتی آتا تووہ عام راستہ اختیار نہ کرتا اور سیدھا جنگل میں جاکر لڑکی سے ملتا۔وہ اسکے ساتھ مویشی بھی چرانے لگا،اسکا دل لبھانے کی کوشش کرتا۔اگرچہ مروی ابھی نا سمجھ تھی مگر سیٹھ نرائن کی حرکتوں سے اس نے اندازہ لگا لیا کہ نوجوان کو اس سے محبت ہو گئی ہے۔گاہے گاہے وہ اسے پیسے بھی دینے لگا۔

آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 24)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں