آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر24)

 

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر24)

چھ ماہ گزر گئے۔پونگال کا تہوار آیااور خوشی کے شادیانے بجنے لگے۔دیہات میں بیل گاڑیوں پر رنگا رنگ روغن کیا گیا۔ بیلوں کے سینگ بھی رنگ دیے گئے۔ہرطرف میلے ٹھیلے کا سا سماں تھا۔ بچے،بوڑھے اور جوان سب یکساں مسرور نظر آتے تھے۔

گوپال سوامی نے یہ تہوار پاناپتی میں منانے کا فیصلہ کیا۔اس نے اپنے پورے خاندان کو کار میں بٹھایا اورسفر شروع کیا۔اس کے ساتھ سیٹھ نرائن اس کی بیوی اور ایک بچی بھی تھی۔معلوم نہیں باپ کے دل میں پاناپتی جانے خیال کیوں سمایا مگر بیٹے کے دل ودماغ میں طوفان برپا تھا۔ یہ جنگل اور یہ بستی اس کے لیے کربناک یادوں کی علامت تھی۔ کیارا پجاری کی معصوم لڑکی مروی اس کے دام محبت میں گرفتار ہو کر یہ سمجھ بیٹھی کہ وہ اس سے شادی کرے گا۔پھر اس نے اپنے باپ کوبھی سب کچھ بتا دیا۔ لڑکی حد سے بڑھ گئی تھی اور اسے ٹھکانے لگانے کے لیے ہزاروں روپے خرچ کرنے پڑے۔خصوصاً اپنے شوفر،داس کا منہ بند رکھنے کے لیے بار بارکثیر رقم ادا کرنا پڑی۔اس کا شوفرجانتا تھا کہ سیٹھ نرائن نے لڑکی کو غوا کیا ہے مگر بعد میں نوجوان سیٹھ نے اسے کار سے اتار دیا تھا کہ وہ بدقسمت لڑکی کا حشر نہ دیکھ سکے۔

یہی نہیں منحوس لڑکی کا باپ جرات کرکے دھرمپورہ میں اس کے باپ کے پاس شکایت لے کر پہنچ گیا۔وہ تو غنیمت تھا کہ گوپال سوامی صرف ایک روز پہلے مدارس چلا گیا تھا، چنانچہ کیا را کو ٹھکانے لگانے کے لیے چھوٹے سیٹھ کوپوری پوری مہلت مل گئی۔اس نے غریب پجاری کا گلا گھونٹ دیا اور داس کی مدد سے اس کی لاش چالیس میل دور سڑک کے کنارے ایک گہرے تالاب میں پھینکوا دی۔

ایک ادنیٰ ملازم کے پاس نہایت قیمتی راز تھے۔ اس کے مطالبے بڑھتے رہے۔ابھی پچھلے ہفتے دونوں کے درمیان سخت تکرار ہو چکی تھی۔ داس اس سے مزید مطالبہ کررہا تھا۔ اس وقت شوفر کی آنکوں میں شیطنیت جھلک رہی تھی۔

سیٹھ نرائن نے بھی ذہن میں ایک منصوبہ تیار کرلیا۔پونگال کے تہوار سے فارغ ہوتے ہی وہ ایک شکاری مہم پر روانہ ہو گا۔داس بھی اس کے ساتھ ہو گا۔جنگل میں اسے گولی مار کر ہمیشہ کے لیے اسے اپنے راستے سے ہٹا دے گا۔ اسے یقین تھا کہ پولیس کی گرفت سے بچانے کے لیے اس کا باپ تجوریوں کے منہ کھول دے گا۔

وہ سب کار کے ذریعے جنگل تک پہنچے،وہاں کار کھڑی کی اور پیدل چلتے ہوئے پاناپتی کی طرف بڑھے۔وہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ڈھول باجے بجائے گئے۔کھیل ہوئے۔شام کو فارغ ہو کر انہوں نے پجاریوں سے اچھی طرح اطمینان کر کے کہ جنگل ہاتھیوں سے پاک ہے، واپسی کا سفر کیا۔

وہ پاناپتی اور سڑک کے درمیان ہی تھے کہ ایک حادثہ رونما ہوا۔

سیٹھ نرائن اور اس کا باپ گفتگو میں محو آگے آگے چل رہے تھے۔پیچھے سیٹھ کی بیوی بچے کی انگلی پکڑے چلی آرہی ھی۔بچہ رونے لگا۔ جنگل میں کوئی انسانی آواز خطرے کا باعث بن جاتی ہے اور درندے تو معصوم بچے کی فریاد پربھی کان نہیں دھرتے۔اچانک غراہٹ سنائی دی۔معلوم نہیں سیاہ دھاریوں والا درندہ زمین سے نکلا یاآسمان سے ٹپک پڑا۔اس نے بچے کو دبوچ لیا۔ بے چاری ماں خوفزدہ ہو کر چیخی مگر ساتھ ہی اس کی ممتا انگڑائی لے کربیدار ہو گئی۔اس نے بچے کو بچانے کے لیے اپنے آپ کو شیر کے سامنے گرادیا۔شیر نے اسے بھی دبوچ لیا۔ دونوں آدمیوں نے شیر کی گرج سن کر دم بھر کے لیے پیچھے کی طرف دیکھا۔ پھر وہ دم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

سیٹھ نرائن جوان تھا،اس لیے پہلے سڑک پر پہنچ گیا لیکن گوپال سوامی بوڑھا تھا،وہ راستے میں کئی بار ٹھوکریں کھا کر گرا آخر گرتا پڑتا وہ بھی کار تک پہنچ گیا۔داس نے انہیں فوراً سوار کیا اور کار اسٹارٹ کردی۔اگلی صبح وہ ایک جم غفیر لے کر جنگل کی طرف گئے۔ماں اوربیٹھا جائے حادثہ پراسی طرح مرے پڑے تھے۔ بچے کے گلے پر دانتوں کے نشان تھے اور ماں کے دل کے عین اوپر پنجوں کی خراشیں آئی تھیں۔اردگرد زمین پر شیر کے پنجوں کے نشان کہیں نظر نہ آئے۔

ہر شخص تصور کر سکتا ہے کہ آس پاس دیہات میں خوف اور دہشت کی کیسی شدید لہر دوڑ گئی ہو گی۔ ان دنوں پورے جنگل میں کسی آدم خور شیر، چیتے یا ہاتھی کی خبر نہ تھی، پھر سیٹھ کی بیوی اور بچے کو کس چیز نے موت کے گھاٹ اتارا! قاتل کہاں سے نمودار ہو گیا تھا؟اس سوال کا جواب کوئی شخص نہ دے سکا۔ پھر اس درندے نے انہیں چٹ کیوں نہیں کیا!یہ ایک اور اسرار تھا۔

میں اس واردات کے وقت بیس میل دور شمال کی جانب اپنی زمنیوں پر تھا لیکن میرے کانوں میں اسکی بھنک تک نہ پڑی۔میں انچیتی سے روانہ ہو کرایک اور ’’پتی‘‘جس کا نام گندالم تھا،میں پہنچا اور پھرسولہ میل دور دریا کاویری کے سنگھم پر میں نے پہلی بار اس داستان کو سرگوشیوں کے انداز میں سنا۔ یہاں کے مچھیرے پاناپتی کے اس واقعے پر تبصرہ کررہے تھے۔

میں مختصر راستے سے دریائے چنار کے کنارے کنارے پاناپتی پہنچ گیا۔ ایک گھنے درخت کے سائے میں بیٹھے چرواہے اور پجاری حالیہ واردات پر بحث کررہے تھے۔شیرکے ڈر کے مارے اپنے مویشی جنگل میں لے کر نہ گئے تھے۔اکثر چرواہوں کا خیال تھا کہ خوف کی کوئی وجہ نہیں۔جس شیر نے واردات کی ہے وہ آدم خور نہیں،کیونکہ اس نے اپنے شکار کو چھوا تک نہیں۔نہ یہ شیر، مویشیوں کا شوقین ہے کیونکہ ایک عرصے سے کبھی کسی مویشی کے غائب ہونے کی اطلاع نہیں ملی۔یہی نہیں وہ عام شکار بھی نہیں کر تا کیونکہ آج تک کہیں کسی ہرن یا سانبھر کی بچی کچی ہڈیاں دیکھنے میں نہ آئی تھیں۔در حقیقت یہ نہ شیر تھا نہ چیتا!یہ گوشت پوست کا درندہ تھا ہی نہیں،یہ تو پجاری کی روح تھی جو درندے کے روپ میں اپنا انتقام لے رہی تھی۔

ایک بڑے بوڑھے نے میرے کان میں سرگوشی کی:’’ابھی ڈرامہ منطقی انجام کو نہیں پہنچا۔ کیا را کی پھٹکار نے اثر دکھایا ہے۔حقیقی مجرم تو بچ نکلے تھے۔ سیٹھ نرائن اور شوفر داس بھی مکافات عمل کو پہنچنے والے ہیں۔‘‘

مجھے اس کہانی پر یقین نہ آیا۔یہ سراسر توہمات پر مبنی تھی۔میں نے تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا اور کچھ لوگوں کو ساتھ لے کر دریائے چنار کی گزر گاہ چھان ماری مگر کہیں کسی شیرکے پنجوں کے نشان دکھائی نہ دیے۔پھر میں نے سوچا،شاید درندہ مشرق سے نمودار ہوا ہو۔اس طرف ہرے بھرے کھیتوں کا وسیع سلسلہ تھا۔ اگرچہ شیر کبھی کھیتوں میں بسیرا نہیں کرتا مگر دیکھ لینے میں کیا ہرج تھا۔ اس طرف بھی میری تلاش لا حاصل ثابت ہوئی۔

آخر میں نے چرواہوں سے درخواست کی کہ وہ مجھے سیٹھ کے مویشیوں سے دو چار جانور عاریتہ دے دیں تاکہ میں انہیں چارے کے طور پر استعمال کرکے شیر کو موت کے گھاٹ اتار سکوں مگر گاؤں کا ایک شخص بھی میرے ساتھ تعاون پر آمادہ نہ ہوا۔ ان کا خیال تھا ہ وہ اپنے ہی ایک ساتھی کی روح کو جو شیر کے روپ میں ظاہر ہو گی، کسی مصیبت میں گرفتار کرنے میں مدد نہیں دے سکتے۔ان کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ ابھی کوئی ایسی گولی ایجاد نہیں ہوئی جو کسی روح کو موت کے گھاٹ اتار سکے۔

پیسہ سب کام کروا لیتا ہے۔میں نے ان چرواہوں کو معقول رقم دے کر مویشی حاصل کر لیے جو پجاری نہ تھے، انہیں دھرم پر اتنا یقین نہ تھا ۔میں نے چار مختلف جگہوں پر بھینسیں باندھ دیں تاکہ پتا چل سکے کہ شیر جنگل میں موجود ہے یا نہیں۔رات ہونے میں بھی دیر تھی، اس لیے میں نے جنگل میں گھومنے پھرنے کا پروگرام بنایا۔چونکہ بستی کے لوگ میرے ساتھ تعاون نہیں کررہے تھے، اس لیے میں نے اپنے دوست بائرا اور شکاری رنگا کو ساتھ رکھا۔ یہ دونوں جنگل کے ماہر تھے۔ ہم تینوں مارے مارے پھرتے رہے۔کوئی ایسا نشان نظر نہ آیا جو شیر کے پنجوں سے مشابہہ ہو۔

شیر جس خاموشی سے نمودار ہوا تھا، اسی خاموشی سے روپوش ہو چکا تھا۔ میرا بنگلور واپس جانے کا دن آپہنچا۔میں نے چاروں بھینسیں واپس کر دیں۔ساتھ ہی چرواہوں کو خوش کرنے کے لیے کچھ انعام سے بھی نوازا۔

دو ماہ بعد داس اکیلا کار میں سفر کررہا تھا۔ وہ65میل دور سالم کے ہسپتال میں گوپال سوامی کو چھوڑ کر آیا تھا جہاں وہ آنکھوں کا آپریشن کروانا چاہتا تھا۔ دھرمپورہ تک ابھی40میل کا سفر اور درپیش تھا۔ یہاں سڑک تنگ ہو گئی اور آگے ایک تالاب کی وجہ سے موڑ تھا جسے ظاہر کرنے کے لیے اینٹوں کی دیوار چن دی گئی تھی جس سے سڑک تنگ ہو گئی تھی۔سامنے سے کسی ٹریفک کی امید نہ تھی۔اس لیے داس نے کار کی رفتار تیز کر دی۔

معلوم نہیں وہ اسٹیرنگ پر قابو نہ رکھ سکا یا پھر اگلا ٹائر پھٹ گیا۔ کسی کو یقینی طور پر وجہ معلوم نہیں۔اس حادثے کے صرف دو گواہ ہیں جو اس وقت تیزی سے گھروں کی طرف جارہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ کار اچانک سڑک سے نیچے اتری اور موڑ پر اینٹوں کی دیوار سے ٹکرا گئی۔چشم زدن میں وہ تالاب کے اندر گر چکی تھی۔

داس نے درندوں کے خوف کی وجہ سے شیشے چڑھا رکھے تھے۔ اس طرح وہ کار کے اندر بند ہو کر رہ گیا اور اس کے بچنے کی کوئی امید باقی نہ رہی۔ ایک ہفتے بعد پولیس نے کرین کی مدد سے کار باہر نکالی تو اس کی لاش برآمد ہو گئی۔

کیا یہ محض اتفاق تھا کہ وہ اسی تالاب میں غرق ہو گیا تھا جس میں اس نے کیا را پجاری کی لاش پھینکی تھی؟ سیٹھ نرائن کو جب یہ خبر ملی تو اس پر دیوانگی کے دورے پڑنے لگے۔پہلے اس کا بچہ اور بیوی موت کے منہ میں پہنچے اور اب شوفرداس۔۔۔اور پھر۔۔۔! لازماً آئندہ اسی کی باری تھی۔اس جال سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہ آتا تھا۔ سوامی گوپال آپریشن کروا کر گاؤں لوٹا تو اس نے اپنے نوجوان بیٹے کو پاگل پن کی گرفت میں پایا۔وہ فوراً اسے سالم کے ہسپتال میں لے گیا اور روپیہ پانی کی طرح بہا دیا۔ بہترین ڈاکٹروں نے اس کا علاج کیا۔ نرائن نیم بے ہوشی میں کیارا اور مروی کا نام بڑبڑاتا رہتا اور ڈاکٹر کوئی تدبیر نہ کر سکے۔

سیٹھ نرائن کی وحشت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔اب اسے قابو میں رکھنا بھی محال ہوگیا تھا۔ بوڑھے باپ نے اسے پاگل خانے میں بھجوا دیا لیکن وہاں بھی اس کے دکھوں کا مداوانہ ہو سکا۔ ایک صبح ملازم ناشتہ لے کر نرائن کے کمرے میں گیا تو کمرہ خالی پڑا تھا۔ کسی شخص نے رات کو اسے وہاں سے نکلتے نہ دیکھا تھا۔ چار دن بعد مین روڈ سے پاناپتی کو جانے والی پگڈنڈی کے کنارے فضا میں گدھ منڈلاتے دیکھے گئے۔

بائرا نے جنگل میں غیر معمولی حرکت دیکھی تو اس کے کان کھڑے ہو گئے۔وہ قریب ہی اپنے مویشی چرارہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ گدھوں نے کسی لاش کا سراغ لگا لیا ہے۔میں بتا چکا ہوں کہ بائرا شکار کے گوشت کا رسیا ہے۔وہ اس مقام کی طرف بڑھا جہاں گدھ منڈلارہے تھے مگر لاش کے قریب پہنچا تو ٹھٹک کررہ گیا۔

یہ کسی جانور کا پچا کھچاڈھانچہ نہ تھا بلکہ ایک صحیح سالم انسانی لاش تھی۔سیٹھ نرائن کی بے نور آنکھیں خلا میں جمی ہوئی تھیں۔اس کی گردن پر شیر کے دانتوں کے نشان تھے مگر زمین پر شیر کے پنجوں کے نشان کہیں نظر نہ آئے۔

آج تک یہ اسرار نہیں کھلا کہ سیٹھ نرائن پاگل خانے کے مقتل کمرے سے نکل کر اس جنگل تک کیسے پہنچا، پھر اس پر جس شیر نے حملہ کیا، اس نے اسے کھایا کیوں نہیں؟

پاناپتی کے چرواہے اور پجاری اس راز کو سمجھتے ہیں۔انہیں کیا را کی پھٹکار یاد ہے۔اسی پھٹکار نے سیٹھ کے خاندان کا بیڑا غرق کر دیا۔ تمام مجرم کیفرکردار کو پہنچ گئے تھے مگر کس طرح! کس کے ہاتھوں!عقل ان سوالوں کا جواب دینے سے قاصر ہے۔

ساون بھادوں کے موسم میں سی پی کے دیہات خاصے خطرناک ہو جاتے ہیں۔سانپ،بچھو گھروں میں رینگتے پھرتے ہیں اور درندوں کا تو گویا راج ہوتا ہے۔وہ دیہات میں بے جھجک گھس کروار داتیںکرتے ہیں۔اس زمانے میں گیدڑوں ،گوگیوں اور جنگلی بلیوں سے مرغیاں،لگڑ بگڑ سے بکریاں اور تیندووں سے گائے،بکری اور کبھی کبھی انسانی جانیں بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔شاید ہی کوئی ایسی رات ہو گی جب کسی نہ کسی قسم کی واردات نہ ہوتی ہو۔

کیچڑ پانی کے سبب گھر سے قدم نکالنا مشکل تھا۔ میں پچھتارہا تھا ناحق اس موسم میں ادھر کا رخ کیا مگر چچازاد بھائی سمیع اللہ کو مٹی کے تیل کا ٹین پہنچانا ضروری تھا، ورنہ انہیں پوری برسات اندھیرے میں کاٹنی پڑتی۔ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا اور مٹی کا تیل کہیں دستیاب نہ تھا۔ کہیں سے نہ مل سکا تو مجھے لکھ بھیجا اور میں اپنے دوست نائب تحصیلدار ریود کرکے دیے ہوئے پرمٹ پر تیل حاصل کرکے پہنچانے آیا تھا مگر بارش اور جلہری نالے کے سیلاب سے راستہ بند ہو گیا۔ جولی، گھنے جنگلوں میں چھوٹا سا پہاڑی گاﺅں ہے۔پکی سڑک وہاں سے آٹھ میل دور ہے۔جلہری جنگل کے درمیان کچے راستے پر واقع ہے۔ہے تو دس پندرہ فٹ چوڑا، مگر گہرا اس سے کہیں زیادہ ہے اورپتھروں ،چٹانوں اور درختوں سے ٹکراتا اور شور مچاتا اس قدر تیزی سے بہتا ہے کہ سیلاب کے زمانے میں اس کا پار کرنا قریب قریب ناممکن ہو جاتا ہے۔

میرے قیام کا دسواں دن تھا، اودے پورہ گاﺅں سے خبر آئی وہاں ایک تیندوے نے واردات کر دی ہے۔اس علاقے میں ایک عرصہ سے آدم خور شیر یا تیندوے کی کوئی اطلاع نہ تھی، اس لیے مجھے اچنبھا ہوا مگر پیامبر معتبر تھا دھنی رام مال گزارنے مجھے بلا بھیجا تھا۔ اسے جولی میں میرے قیام کا علم تھا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ لاش کریاکرم کے لیے اٹھوائی جا چکی ہے۔یوں فوری طور پر پہنچنے کی خاص ضرورت تو نہ تھی، تاہم جائے واردات کا معائنہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔اس لیے میں قاصد جگن ناتھ کے ہمراہ روانہ ہو گیا۔

اودھے پورہ وہاں سے تقریباً چار میل دور ہے۔اس ناگوار موسم میں یہ سفر خاصا تکلیف دہ رہا۔گاﺅں سے نکلتے ہی جوتے اتار کر جگن ناتھ کے حوالے کرنا پڑے کہ نرم کیچڑ اور پانی میں پاﺅں ٹخنوں تک دھنس جاتے،پھر کالی اور چکنی مٹی کے کھیتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ چلتے ہوئے ہم قدم قدم پر پھسلتے اور ہر پچیس پچاس گز بعد رک کرپاﺅں دھوتے کہ تلووں پر چکنی مٹی کا بہت موٹا سول چڑھ جاتا اور پاﺅں کئی کئی سیر کے ہو جاتے۔تقریباً دو فرلانگ بعد جنگل اور پہاڑی علاقہ شروع ہوا تو اس مصیبت سے نجات ملی۔

راستے میں جگن ناتھ واردات کی تفصیل سناتا رہا۔

یہ واردات دھنی رام مال گزار کے مویشیوں کی سار میں ہوئی تھی۔ مرنے والا مہابیر کڑیل جوان تھا۔ رات کے دو بجے تیز بارش ہو رہی تھی۔ناگاہ سار میں بند مویشیوں نے الانا شروع کیا اور ادھرادھر بھاگنے لگے۔دھنی رام کے نو عمر بیٹے منی رام نے باپ کی بندوق سنبھالی اور لالٹین لے کر بھیگتے ہوئے صحن کو پار کیا۔ جونہی سار میں داخل ہوا، اس نے دیکھا، خون میں لت پت مہابیر کی لاش پڑی ہے اور مویشی خوفزدہ ہو کر ایک سرے پر جمع ہیں اور ڈکرارہے ہیں۔مہابیر نے اپنی مٹھیوں میں کلہاڑی جکڑ رکھی تھی اور سار کے بیرونی دروازے کا ایک پٹ ذرا سا کھلا تھا۔

”بے چارہ مہابیر نہایت وفادار اور مویشیوں کا بڑا خیال رکھتا ہے۔“منی رام نے سادگی سے کہا۔

”اور کیا۔ ۔“جگن ناتھ نے کہا۔

”تو کیا مہابیر یہاں نہیں رہتا؟“میں نے پوچھا۔

”ناہیں!وہ تواتے باﺅلی کے پاس رہتا ہے۔“جگن ناتھ نے تقریباً تیس گز دور آم کے درختوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

”ڈھورالائے،تو سب سے پہلے کلہاڑی لے کر وہی پہنچا۔میری آنکھ تو دیر سے کھلی اور جب میں آیا اس کا کام ہی تمام ہو چکا تھا۔ گلباگ نے گلا داب کر اسے ایسا دبوچا کہ اس کی آواز بھی نہ نکل سکی۔”منی رام بولا۔

”مگر....“ میں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا:”سار کے بیرونی دروازے کی کنڈی کیا باہر سے بند کی جاتی ہے؟“

”نہیں،اندر کی کنڈی بند ہوتی ہے۔شانتی دیدی روز اپنے ہاتھ سے بند کرتی ہے۔“

”تو وہ کھلی کیونکر؟ یا رات وہ کنڈی بند کرنا بھول گئی تھیں؟ذرا معلوم تو کرو؟“منی رام اپنی بیوہ بہن شنانتی کو بلا لایا۔

وہ کھڑے کھڑے نقش کی،گندمی چہرے والی نازک اور اداس سی لڑکی تھی۔ اس نے بتایا سار کے بیرونی دروازے کی کنڈی ہاتھ ڈال کر باہر سے بھی کھل سکتی ہے،پھر اس نے عملی مظاہرہ بھی کیا سب مطمئن ہو گئے مگر مجھے کچھ شبہ سارہا۔تاہم میں نے اس کا اظہار نہ کیا۔

شواہد کے مطابق مویشیوں کا شور سن کر مہابیر کلہاڑی لیے دوڑ آیا۔ ہاتھ ڈال کر سار کی اندرونی کنڈی کھولی اور جونہی اندر داخل ہوا، تیندوے نے اسے دبوچ لیا۔

سوال یہ تھا تیندوا سار میں مہابیر سے پہلے کیونکر داخل ہوا۔وہ دروازہ کھلنے کے بعد ہی اندر جا سکتا تھا ۔اس نوع کے سوالات بار بار ذہن میں ابھر رہے تھے۔ ان پر قابو پاکر تیندوے کے آثار تلاش کرنے لگا۔

میرا قیاس غلط ہوا کہ وہ قتل کی واردات تھی۔ سارے گوبر پر تیندوے کے پنجوں کے واضح نشانات تھے اور سار کے باہر دیوار کے سائے میں گیلی زمین پر دور تک نظر آرہے تھے۔

میں باہر کے مکان کی طرف بڑھنے لگا تو سار کے ساتھ ہی انسان کے پیروں کے نشانات ملے۔ وہ سار کے دروازے کی جانب آئے تھے اور ایک جگہ ان پر تیندوے کا پنجہ یوں پڑا تھا کہ وہ تقریباً نصف اس میں دب گئے تھے۔اب مزید تفتیش کی ضرورت نہ تھی۔

آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 25)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں